سی آئی اے پاکستانی ایٹمی سائنس دانوں کے تعاقب میں

اوائل جنوری میں بھارتی آرمی چیف، بپن راوت نے بڑھک ماری کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام فراڈ ہے۔ اس پر پاک فوج نے اسے یاد دلایا کہ پاکستان قابل اعتماد ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے جو اس کا بہترین دفاعی و مزاحمتی ہتھیار ہے۔ وطن عزیز کے ایٹمی پروگرام کے موثر ہونے کا ایک ٹھوس ثبوت حال ہی میں سامنے آیا۔ ایک امریکی صحافی‘ ڈینئل گولڈن نے انکشافات اور حیرت انگیز حقائق سے پُر کتاب Spy Schools: How the CIA, FBI, and Foreign Intelligence Secretly Exploit America’s Universities لکھ کر خصوصاً امریکا کی خفیہ ایجنسیوں سی آئی اے اور ایف بی آئی کی مذموم سرگرمیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ ڈینئل گولڈن مشہور امریکی صحافی ہیں ا ور خصوصاً اعلیٰ تعلیم (ہائرایجوکیشن) میں پھیلی کرپشن پر کتب لکھ کر پلٹزر انعام حاصل کر چکے ہیں۔

ڈینیل گورڈن نے اپنی حیرت انگیز کتاب میں یہ اہم انکشاف کیا کہ سی آئی اے عموماً یورپی ممالک میں سائنس کانفرنسوں اور مذاکروں کا اہتمام کراتی ہے۔ ان میں خصوصاً امریکا مخالف ممالک مثلاً شمالی کوریا، ایران، روس، کیوبا، وینزویلا، کولمبیا، پانامہ وغیرہ کے علاوہ بظاہر دوست ممالک مثلاً پاکستان سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں اور دانشوروں، خاص طور پہ ایٹمی سائنس کے ماہرین کو بلایا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ انہیں بیرون ملک بلوا کر ترغیبات سے اپنا ایجنٹ بنایا جا سکے۔ گورڈن نے اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی لکھا ہے۔ دس سال قبل سی آئی اے نے ایک غیر جانب دار، یورپی ملک میں ایٹمی سائنس پر کانفرنس منعقد کرائی۔ اس میں ایران کے دو ایٹمی سائنس دانوں کو بھی بلایا گیا۔ غیر جانب دار مملکت ہونے کے ناتے ایرانی حکومت نے انہیں جانے کی اجازت دے دی۔ ایرانی ایٹمی سائنس داں جس ہوٹل میں ٹھہرے، سی آئی اے نے وہاں باورچی خانے اور دیگر شعبوں کے عملے میں اپنے ایجنٹ تعینات کر دیئے۔ اس سارے تام جھام کا مقصد یہ تھا کہ کسی ایرانی ایٹمی سائنس داں کو رجھا کر امریکا لے جایا جا سکے۔ سی آئی اے نے سائنس دانوں اور ان کے گارڈوں کے کمروں میں آلات جاسوسی نصب کردیئے تھے۔

رات گئے جب ان آلات نے بتایا کہ ایرانی سائنس دانوں کے گارڈ سو چکے تو سی آئی اے کا ایجنٹ ایک ایٹمی سائنس دان کے کمرے میں پہنچا اور ہولے سے دستک دی۔ وہ سائنس داں جاگ رہا تھا۔ اس نے دروازہ کھول دیا۔ سی آئی اے کے ایجنٹ نے اپنی وفاداری اور دوستی دکھانے کی خاطر سائنس داں کے دل پر ہاتھ رکھا اور بولا:’’ سلام حبیبی! میرا تعلق سی آئی اے سے ہے۔ کیا آپ میرے ساتھ بذریعہ ہوائی جہاز امریکہ چلنا چاہیں گے؟‘‘ ایرانی سائنس داں کے چہرے پر قدرتاً حیرت، خوف اور تجسس کے ملے جلے تاثرات نمودار ہو گئے۔ سی آئی اے کا ایجنٹ پہلے بھی مختلف ممالک کے سائنس دانوں کو منحرف کر چکا تھا۔ لہٰذا اسے اندازہ تھا کہ یہ ایرانی کیا سوچ رہا ہے… میرے اہل خانہ کا کیا بنے گا، میری حفاظت کیسے ہو گی؟ ہم یہاں سے کیونکر نکلیں گے؟ میں کہاں رہوں گا؟ میرے اخراجات کون برداشت کرے گا ؟ اگر میں نہ کہہ دوں تو کیا ہو گا؟ سائنس داں اپنے ذہن میں مچلتے کئی سوالات میں سے ایک سوال کرنے لگا، تو ایجنٹ اس کی بات کاٹ کر بولا: ’’پہلے برف والی ٹوکری اندر سے لے آئیے۔‘‘ ’’وہ کیوں؟‘‘ ایرانی نے پوچھا۔ ’’اگر آپ کا کوئی گارڈ جاگ گیا، تو آپ بتا سکتے ہیں کہ میں برف لینے جا رہا تھا۔‘‘

اس طرح سی آئی اے ایک ایرانی ایٹمی سائنس داں کو ترغیبات دے کر اسے امریکا لے گئی۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس سے حاصل کردہ معلومات کے سہارے ہی امریکی اور اسرائیلی کمپیوٹر ماہرین ’’سٹکسنیٹ ‘‘(Stuxnet ) نامی انتہائی خطرناک اورجدید ترین وائرس تیار کرنے میں کامیاب رہے جس نے ایرانی ایٹمی پلانٹ میں یورینیم افزودہ کرنے والی مشینیں خراب کر دی تھیں۔ فاصلے سکڑ جانے کے بعد سی آئی اے کے لیے آج سائنسی و علمی کانفرنسیں منعقد کرانا آسان ہو چکا ہے۔ کانفرنسوں میں شریک ماہرین کو کسی قسم کی انعامی رقم تو نہیں ملتی مگر ان کی عزت و وقار میں ضرور اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ہر ملک کے سائنس داں اور دانشور یہ جانے بغیر ان کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں کہ یہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کا موثر ہتھیار بن چکی ہیں۔

ڈینیل گولڈن کو سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار نے بتایا کہ ان کانفرنسوں کے ذریعے کسی غیر ملکی دانشور یا سائنس داں کو امریکی ایجنٹ بنانا ایک طویل عمل ہے۔ اس کی شروعات ڈالروں کی شکل میں بھاری رقم دینے سے ہوتی ہے۔ عام طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے سائنس داں کو دو سے دس ہزار ڈالر دینے کا لالچ دیا جاتا ہے۔ شمالی کوریا اور ایران کے سائنس دانوں پر زیادہ ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ڈینیئل گورڈن کے انکشافات سے عیاں ہے کہ پاکستان میں خصوصاً ایٹم بم اور میزائل منصوبوں سے منسلک سائنس دانوں کو عالمی کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہوئے سی آئی اے کے ایجنٹوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ یہ ایجنٹ مختلف ترغیبات اور بہکاوں سے لیس ہو کر انھیں گمراہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے، کسی بھی وقت ہوس کا نشانہ بن سکتا ہے۔ اب تو امریکا اور بھارت کو پاکستانی ایٹمی پروگرام کے کسی بھی پہلو کی ہوا تک نہیں لگنی چاہیے۔ دونوں عالم اسلام کی اکلوتی ایٹمی مملکت کے خلاف سرگرم ہو چکے۔

علم وتعلیم پر ڈاکا
ڈینئل گولڈن کی نئی کتاب نے یہ بھی افشا کیا کہ سی آئی اے اور ایف بی آئی نے امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں کو اپنے مراکز بنا لیا ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیاں ان تعلیمی اداروں میں تعلیم پاتے غیرملکی طلبہ یا اساتذہ کو مختلف طریقوں سے اپنا آلہ کار بنا لیتی ہیں۔ کبھی انہیں پُر کشش معاوضہ دیا جاتا ہے۔ کبھی قیمتی تحائف دیئے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ٹارگٹ کو پھانسنے کی خاطر حسین و جمیل لڑکیاں بھی بطور چارا استعمال ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میںڈینئل نے چشم کشا واقعات لکھے ہیں۔

یہ اپریل 2009ء کی بات ہے‘ ڈائنا مرکیورو نامی ایک خاتون پروفیسر ڈیجن پینگ سے ملنے اس کے گھر پہنچی۔ پروفیسر ڈیجن امریکا کی مشہور یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں بین الاقوامی بزنس پڑھاتا تھا۔ مزید براں یونیورسٹی کے ایک ادارے‘ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کا سربراہ بھی تھا۔ یہ ثقافتی ادارہ چینی حکومت کی مالی امداد سے چل رہا تھا۔ پروفیسر ڈیجن آج کل مشکلات میں گرفتار تھا ۔  یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پر ا لزام لگایا تھا کہ وہ مالی خرد برد میں ملوث ہے۔ پروفیسر اس الزام سے انکاری تھا۔ ڈائنا مرکیورو نے پروفیسر کو پیش کش کی کہ وہ اسے یونیورسٹی انتظامیہ کے الزامات سے بچا کر اس کی ملازمت محفوظ کر سکتی ہے۔

بدلے میں پروفیر ڈیجن کو چینی حکومت اور مقامی چینی باشندوں کی جاسوسی کرنی تھی۔ یہ سن کر پروفیسر حیران پریشان ہو گیا۔ ڈائنا دراصل امریکا کی ایک ہائی پروفائل جاسوس تھی۔ اسی کا دونوں اعلیٰ امریکی خفیہ ایجنسیوں… سی آئی اے اور ایف بی آئی سے تعلق تھا۔ انہی ایجنسیوں نے اب ڈائنا کو یہ ذمے داری سونپی تھی کہ وہ چینی نژاد امریکی پروفیسر کو اپنے جال میں پھانس لے… اور وہ کامیاب رہی۔ پروفیسر ڈیجن چین میں پیدا ہوا تھا۔ نوجوانی میں امریکا چلا آیا اور اعلیٰ تعلیم پا کر یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا سے وابستہ ہو گیا۔ چین میں کئی اعلیٰ سرکای افسر اور سیاست داں اس کے واقف کار تھے۔ انہی کے تعاون سے ذریعے پروفیسر نے یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ بھی کھلوا لیا اور اس کا چیئرمین بن گیا۔ لیکن اب مخالفین نے اس پر مالی بدعنوانی کے الزامات لگا دیئے تھے اور اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنا دفاع کیونکر کرے۔ مصیبت کے اس عالم میں اس نے ڈائنا کی پیش کش قبول کر لی۔

ڈائنا نے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے جعلی کاغذات بنا لئے جو اس بات کا ثبوت بن گئے کہ پروفیسر ڈیجن نے مالی بدعنوانی نہیں کی۔ بدلے میں پروفیسر سی آئی اے کا خفیہ ایجنٹ بن گیا۔ وہ چھ ماہ تک چینی حکومت اور امریکا میں مقیم چینی باشندوں کے بارے میں اہم معلومات سی آئی اے کو فراہم کرتا رہا۔ جب پروفیسر کے پاس چین سے متعلق مزید خفیہ معلومات نہیں رہیں تو اس سے رابطہ ختم کر دیا گیا۔ سات سال بعد مشہور امریکی ویب سائٹ ‘بلوم برگ‘ کے ایک مضمون نے انکشاف کیا کہ چینی نژاد امریکی پروفیسر ڈیجن پینگ امریکی خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ رہ چکا ہے۔ ڈینٹل گورڈن نے ایک اور چشم کشا واقعہ لکھا ہے۔ لکھتا ہے کہ 2010ء کی بات ہے، ایک اعلیٰ امریکی یونیورسٹی کا پروفیسر کمیپس میں تخفیف اسلحہ پر بحث کرا رہا تھا۔ وقفے میں روس کا ایک سفارت کار اس سے ملا اور اسے لنچ کی دعوت دی۔ پروفیسر نے دعوت قبول کر لی تاہم اس نے روسی سفارت کار کے بارے میں ایف بی آئی کو مطلع کر دیا۔ ایف بی آئی نے اسے بتایا کہ روسی سفارت کار دراصل روس کی خفیہ ایجنسی کا افسر ہے۔ یہ سن کر پروفیسر نے ایف بی آئی سے کہا ’’گویا مجھے اس سے بات نہیں کرنی چاہیے؟‘‘

ایف بی آئی نے بتایا ’’ہماری خواہش ہے کہ آپ اس سے ضرور ملیے۔‘‘ یوں امریکی پروفیسر ڈبل ایجنٹ بن گیا۔ اگلے دو برس تک روسی انٹیلی جنس افسر نے اسے دس لنچ کرائے اور پروفیسر کو تحائف بھی دیئے۔ پوسو لکایا نامی قیمتی ووڈکا کی بوتل اور آٹھ سو ڈالر مالیت کی سوئس گھڑی، نیز افغانستان پر تجزیاتی رپورٹ لکھنے پر پروفیسر کو دو ہزار ڈالر کی خطیر رقم دی۔ پروفیسر نے یہ رقم تو ایف بی آئی کو دے ڈالی تاہم اسے گھڑی اپنے پاس رکھنے کی اجازت مل گئی۔ اسے وہ فخر سے تقریبات میں پہنتا ہے۔ آخر وہ ایک روسی جاسوس کی دی گئی رشوت ہے! ایف بی آئی امریکی حکومت کے بارے میں جو جھوٹی سچی باتیں پروفیسر کو بتاتی، وہ انہیں روسی انٹیلی جنس افسر تک پہنچا دیتا۔ یہ نہیں معلوم کہ روسی حکومت نے ان معلومات سے کتنا فائدہ اٹھایا۔ 2008ء میں سی آئی اے کا اعلیٰ افسر، کنیتھ موسکو تنزانیہ میں پہاڑ پر چڑھتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔ جب اس کی شخصیت پر مضامین شائع ہوئے، تو ہارورڈ یونیورسٹی میں اس کے ساتھ پڑھے ہم جماعت حیران رہ گئے۔ انہیں پہلی بار پتا چلا کہ کینتھ تو سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔ کینتھ نے ہارورڈ سے ماسٹرز کیا تھا اور اپنے ہم جماعتوں کو بتایا تھا کہ وہ محکمہ خارجہ سے منسلک ہے۔

دنیا بھر میں سکول‘ کالج اور یونیورسٹی نوجوان لڑکے لڑکیوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے والے مقدس ادارے سمجھے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں استاد طلبہ و طالبات کو رہنمائی دیتے اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ استاد ہو یا طالبان علم‘ سبھی کی کوشش ہوتی ہے کہ درس گاہوں کا تقدس بحال رکھا جا ئے۔ لیکن امریکا میں سرکاری خفیہ ایجنسیوں نے ان مقدس مقامات کو جاسوسی کی اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا ہے۔ یہ معمولی سرگرمیاں نہیں بلکہ ان کا دائرہ کار بہت وسیع ہو چکا ہے۔ درج بالا واقعات دیگ کے چند دانے ہیں۔ جب ایک غیر ملکی طالب علم یا غیر ملک میں پیدا ہونے استاد امریکی خفیہ ایجنسی کے جال میں پھنس جائے تو پھر اس سے اپنے د یس کے بارے میں ہر ممکن معلومات اگلوائی جاتی ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کا خاص نشانہ وہ طالب علم ہوتے ہیں جو اپنے ملک میں بااثر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ ایسے طلبہ و طالبات وطن واپس جا کر بھی سی آئی اے کے لئے جاسوسی کر سکتے ہیں۔

ڈینئل گولڈن کی کتاب نے یہ بھی افشا کیا کہ امریکا کی تمام بڑی یونیورسٹیوں مثلا ً ہارورڈ‘ ئیل‘ پرنسٹن‘ کولمبیا‘ کورنیل وغیرہ سے سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ایجنٹ بطور استاد منسلک ہیں۔ یہ انڈر کور رہ کر اپنی اصلیت چھپا کے بظاہر طالبان علم کو پڑھاتے ہیں مگر حقیقتاً ان کا اصل کام غیر ملکی طلبہ و طالبات کو اپنے دام میں پھانسنا ہے۔ یہ غیر ملکی طالبان علم کی برین واشنگ بھی کرتے ہیں تاکہ وہ امریکا پہ اندھا دھند اعتماد کرنے لگیں اور امریکی تہذیب وتمدن میں رنگے جائیں۔ امریکا میں ساڑھے چار ہزار سے زائد یونیورسٹیاں اور کالج ہیں۔ ان میں لاکھوں غیر ملکی طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ کتاب کے مطابق دیگر ممالک مثلاً روس‘ چین‘ بھارت‘ برازیل‘ کیوبا‘ جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسیاں بھی طالبان علم کے روپ میں اپنے ایجنٹوں کو امریکی یونیورسٹی یا کالج میں داخل کرتی ہیں۔ یہ نوجوان ایجنٹ لڑکے لڑکیاں کوشش کرتی ہیں کہ ایسے امریکی طلبہ و طالبات کو اپنا دوست بنا لیں جو بااثر سرکاری یا نجی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان سے دوستی کر کے اکثر اوقات ایجنٹ امریکی حکومت کے بارے میں کار آمد معلومات حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

اس انکشاف انگیز کتاب سے عیاں ہے کہ آج امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے بیشتر ادارے جاسوسی کا گڑھ بن چکے ہیں ۔ وہاں امریکا ہی نہیں دیگر بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیاں بھی اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اب کوئی نہیں بتا سکتا کہ فلاں لڑکا یا لڑکی واقعی طالب علم ہے یا کسی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ بن چکا ہے۔ ان خفیہ ایجنسیوں نے حتیٰ کہ اساتذہ کو بھی اپنا آلہ کار بنا لیا ۔ تعلیم سے یہ کھلواڑ امریکا اور دیگر ممالک کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ظاہر ہے‘ جب طلبہ و طالبات کو جاسوس بن کر بھاری معاوضہ ملنے لگے‘ تو وہ تعلیم حاصل کرنے پر کیوں توجہ دیں گے؟ اسی طرح اساتذہ کی توجہ بھی تعلیم دینے سے ہٹ کر جاسوسی کی سرگرمیوں پر لگی رہے گی۔ افسوس کہ بڑی طاقتوں کے حکمرانوں نے اپنے مفادات اور مقاصد حاصل کرنے کی خاطر تعلیم و تربیت دینے والے اداروں کا تقدس بھی پامال کر دیا ۔ طاقت پانے اور ہوس پوری کرنے کی خاطر انہوں نے تمام حدیں پار کر ڈالی ہیں۔

خصوصی رپورٹ / سید عاصم محمود

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

چین نے سی آئی اے کے مخبر کیسے ہلاک کیے ؟

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2010 سے 2012 کے دوران چینی حکومت نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے 20 کے قریب مخبر ہلاک کیے یا قید میں ڈالے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ سی آئی اے کی معلومات ہیک ہوئیں یا پھر کسی خفیہ ایجنٹ کے ذریعے چینی حکام امریکی ایجنٹس کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک امریکی مخبر کو حکومتی عمارت کے احاطے میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تا کہ دوسروں کو خبردار کیا جا سکے۔ خیال رہے کہ ابھی تک نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر سی آئی اے نے کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔ اخبار سے بات کرنے والے چار سابق سی آئی اے افسران نے کہا ہے کہ چینی حکومت کے حوالے سے گہری معلومات میں کمی کا آغاز سنہ 2010 میں ہوا تھا جب کہ مخبروں کی گمشدگی کی شروعات سنہ 2011 کے آغاز میں ہوئی تھیں۔ ایک ذریعے کے مطابق سی آئی اے اور ایف بی آئی نے ان واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک آپریشن کیا جس کا خفیہ نام ہنی بیڈگر تھا۔

اخبار کا کہنا ہے کہ تحقیقات کا مرکز سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار تھے تاہم ان کی گرفتاری کے لیے شواہد کافی نہیں تھے۔ اب وہ ایک ایشیائی ملک میں رہتے ہیں۔ اس رپورٹ پر کام کرنے والے نیو یارک ٹائمز سے منلسک صحافی میٹ اپوزو نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘سب سے مشکل بات یہ ہے ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ کیا ہوا۔’ وہ کہتے ہیں کہ ‘امریکی حکومت میں اب بھی اس پر رائے منقسم ہے کہ کیا سی آئی اے کے اندر کوئی خفیہ ایجنٹ تھا یا پھر یہ کام کا مسئلہ تھا کہ سی آئی اے کا ایجنٹ مستعد نہیں تھا اور پکڑا گیا یا پھر چینیوں نے مواصلات کو ہیک کیا تھا۔’ اخبار کے مطابق جاسوسوں کی گمشدگیوں سے امریکہ کے نیٹ ورک کو نقصان ہوا جو اس نے کئی سال لگا کر چین میں بنایا تھا۔ حتیٰ کہ اس سے اوباما انتظامیہ میں بھی یہ سوال اٹھنے لگے کہ انٹیلیجنس میں اتنی آہستگی کیوں ہے۔ اپوزو کہتے ہیں کہ سنہ 2013 میں یہ دیکھا گیا کہ چین امریکی ایجنٹس کی شناخت کرنےکی صلاحیت سے محروم ہو گیا اور سی آئی اے نے وہاں اپنا نیٹ ورک دوبارہ بنانے کی کوششیں شروع کیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز كومی کو ان کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا ؟

امریکہ کے تفتیشی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر جیمز كومی کو ان کے عہدے سے ہٹا کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ اس کا احساس نہ تو کانگریس کو تھا، نہ ہی كنزرویٹو حلقوں میں کسی کو گمان تھا۔ یہاں تک کہ خود ایف بی آئی کو بھی اس کا احساس نہیں تھا کہ انھیں برطرف کر دیا جائے گا۔ ایسے میں ٹرمپ کے اس قدم سے کئی طرح کے سوال پیدا ہوتے ہیں۔ جس وقت اور جتنی جلد بازی میں جیمز كومی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، اس سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔

صرف ایک ہفتہ قبل ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیقات پر بیان دیا تھا۔ اور اس ضمن میں ٹرمپ کی انتخابی مہم اور روسی حکام کے مبینہ تعلقات پر خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ مسٹر كومی ‘عالمی خطرات’ پر خطاب کے لیے ایک بار پھر کانگریس کے روبرو پیش ہونے والے تھے۔ مسٹر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم پر روس سے ساز باز کے الزام پر مسلسل ٹویٹ کرتے رہے ہیں اور وہ اسے ‘افواہ’ قرار دیتے ہیں اور اس کے متعلق تحقیقات کو ‘ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسوں سے تیار کردہ چھلاوہ’ کہتے ہیں۔

پہلے جس کی ہمت اور جرات کی تعریف کی گئی اچانک اسی شخص کو صدر نے خود ہی باہر جانے کا راستہ دکھا دیا۔ جبکہ اس معاملے میں وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مسٹر كومی کو ہلیری کلنٹن کی ای میل اور غیر محفوظ سرور سے منسلک انکوائری کے متعلق خدشات کی وجہ سے برطرف کیا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی اس دلیل کو بہت سے لوگ ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔ بطور خاص ڈیموکریٹس کے لیے یہ دلیل ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ صدر ٹرمپ مسٹر كومی کے معاملے میں گذشتہ سال کو یاد کر سکتے ہیں جب انتخابات سے قبل انھوں نے ای میل سے منسلک تحقیقات کے لیے ان کی تعریف کی تھی۔

ٹرمپ نے ایک انتخابی ریلی میں کہا تھا: ‘كومی نے ہلیری کلنٹن کے معاملے میں اپنی جرات کا ثبوت دیا ہے۔’ اس وقت کومی ان کے لیے بہت بہادر تھے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرمپ ایف بی آئی ڈائریکٹر سے ناخوش تھے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق وہ گذشتہ چند ہفتوں سے كومی کو عہدے سے ہٹانے کے لیے مناسب وجہ کی تلاش میں تھے۔

كومی کو عہدے سے اس وقت کیوں ہٹایا؟

اگر صدر ٹرمپ نے مسٹر كومی کو ای میل کی چھان بین کی وجہ سے عہدے سے ہٹایا ہے تو ایسا انھوں نے اب کیوں کیا؟ آخر وائٹ ہاؤس ان سوالات کے جوابات کس طرح دے گا؟ کیا ان سوالات کو چھپا لیا جائے گا یا پھر وقت کے ساتھ یہ ختم ہو جائیں گے؟ مسٹر کومی کی برطرفی سے قبل وائٹ ہاؤس نے ڈیموکریٹک سینیٹ کے اقلیتی لیڈر کے ایک پرانے قول کو پھیلانا شروع کر دیا۔ خیال رہے کہ گذشتہ سال نومبر میں ڈیموکریٹ رہنما چک شومر نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کی تحقیقات کے متعلق ایف بی آئی ڈائریکٹر کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا: ‘ہمیں اب ان پر اعتماد نہیں رہا۔’

بہت سے ڈیموکریٹس جو اب مسٹر كومی کی برطرفی کی مخالفت کر رہے ہیں وہ پہلے ان کے بارے میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مسٹر كومی امریکی صدر مسٹر ٹرمپ کے روس سے مبینہ تعلقات کی تحقیقات کس طرح کر رہے تھے۔ انتخابات کے دوران ڈیموکریٹ امیدوار ہلیري کلنٹن کے ای میل اور ٹرمپ-روس تعلقات پر خاصی بحث ہوئی تھی۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں مبینہ روسی مداخلت کے متعلق شومر نے آزادانہ جانچ کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

انتھونی زرکر

رپورٹر، شمالی امریکہ