بڑی تباہی کی چھوٹی چھوٹی داستانیں

مہنگائی کا آدم خور بوتل سے باہر نکل کر عوام کو نگل رہا ہے۔ غریب خودکشیاں کر رہے ہیں، مائیں بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھتی ہیں تو انہیں زہر کھلا کر ابدی نیند سلا رہی ہیں۔ عوام آٹے کے ایک تھیلے کیلئے پاؤں تلے روندے جارہے ہیں۔ حکمرانوں کی آنیوں جانیوں پر مزید لاکھوں ڈالر لٹائے جارہے ہیں۔ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ڈالر قومی خزانے سے منہ موڑ گیا اورہمارے حکمراں ہیں کہ ان کی شاہ خرچیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں عوام پس رہے ہیں کوئی اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کو تیار نہیں، اُلٹا عوام کی ہی منجی ٹھونکی جارہی ہے۔ اپنے لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں اور افغانی، آٹا مافیا کے گٹھ جوڑ سے ایک ہی دن میں پاکستان سے چھ لاکھ ٹن گندم بارڈر پار لے گئے لیکن کسی نے بارڈر سیکورٹی، کسٹم حکام اور اسمگلروں کا گریبان نہیں پکڑا کہ آخر اپنے لوگوں کو بھوکا مار کر افغانیوں کا پیٹ کیو ں بھرا جارہا ہے؟

یہ افغانی ہمیں بھوک سے بھی ماررہے ہیں اور دہشت گردی سے بھی اور آنکھیں بھی ہمیں ہی دکھا رہے ہیں۔ پشاور میں ایک روٹی 30 روپے کی ہو گئی، خیبر پختونخوا حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ گندم پر سیاست کی جارہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں سیاسی سرپرستی میں نجی گودام گندم کی بوریوں سے بھرے پڑے ہیں اور لوگ آٹے کی خاطر سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں۔ یہی صورت حال بلوچستان کی ہے۔ بھوک گھروں کے ساتھ ساتھ صوبوں کے درمیان نفرتیں پیدا کر رہی ہے۔ اگرچہ مہنگائی کا تمام ملبہ وفاق میں اتحادی حکومت پر ڈالا جارہا ہے۔ یقیناً وفاقی حکومت قصور وار ہو گی لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد خوراک، تعلیم ، صحت کے معاملات صوبوں کے اختیار میں ہیں۔ انکے پاس وسائل بھی ہیں اور فیصلے کی قوت بھی اور وہ حالات کے مطابق اپنے عوام کو بہتر ریلیف دینے کی پوزیشن میں بھی ہیں لیکن یہاں صرف سیاست کھیلی جارہی ہے۔

کرپشن کی ہوش ربا داستانیں ایسی ہیں کہ ہم لکھتے جائیں، آپ پڑھتے جائیں، شرماتے جائیں۔ کہاں سے شروع کریں کہاں ختم، کوئی ایک ہو تو اس کا گریبان پکڑیں اور پوچھیں کہ آخر ان کا پیٹ کنواں ہے یا سمندر؟ باپ کا مال سمجھ کر قوم کا پیسہ لوٹ کر کھا رہے ہو اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔ یہاں تو پوری کی پوری گنگا ہی میلی ہے۔ ان بدعنوانوں نے تو ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ آج گھر گھر مہنگائی کا ماتم ہے۔ لوگ اگلوں پچھلوں کو بددعائیں بھی دیتے ہیں اور آئندہ انہی کو ووٹ دینے کا پختہ ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ نونی ہوں، انصافی ہوں یا پپلیے سب کا کاں چٹا ہے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ آخر ہمیں اس دلدل میں کس نے اور کیوں دھکیلا، ان کے معدے اتنے طاقت ور ہیں کہ اربوں کھربوں کے منصوبے نگل گئے۔ سڑکیں کھا گئے، پل ڈکار گئے، بجلی پانی کے منصوبوں کو ایک ہی گھونٹ میں پی گئے۔

ان بد عنوانوں کو کبھی بدہضمی ہوتی ہے نہ ہی کوئی ہیضے سے مرتا ہے۔ یہ پہلے لوٹتے ہیں، ہمیں مقروض کرتے ہیں، پھر بھکاری بن کر آئی ایم ایف کے پاس مزید قرضے لینے پہنچ جاتے ہیں اور قومی اثاثے گروی رکھ کر واپس آتے ہیں۔ سعودی عرب جاتے ہیں تو اللہ ، رسول ﷺ کے نام پر ہاتھ پھیلاتے ہیں اور دعوے دار ہیں کہ ہم دنیا کی پہلی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہیں، اس کے تحفظ کے لئے مزید کچھ دے دیں۔ چین جاتے ہیں تو سی پیک کے نام پر جھولی پھیلاتے ہیں۔ یواے ای کے حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے مزدوروں نے آپ کے ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ماضی کی لوٹ مار ایک طرف، دیوالیہ ہوتے ملک کی موجودہ پارلیمنٹ کا حال ملاحظہ فرمائیے کہ جہاں ہماری تقدیر کے فیصلوں کے نام پر قانون سازی کی جاتی ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں پارلیمنٹ کے ایک گھوسٹ مشترکہ اجلاس کی آڑ میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے بابوؤں سے اردلیوں تک نے سیشن الاؤنس اور ٹی اے ڈی اے کے نام پر کروڑوں روپے ڈکار لئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔

ہوا کچھ یوں کہ مشترکہ سیشن کے اختتام پر اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کے بجائے آئندہ ماہ تک ملتوی کر دیا اور اس کے بعد تاریخ میں لگاتار توسیع کرتے رہے۔ سیکرٹریٹ افسروں اور ملازمین نے پہلے چھ ماہ میں اس مد میں کروڑوں روپے وصول کئے۔ لیکن جب معاملات بگڑے تو اے جی پی آر نے مزید بلوں اور الاؤنسز کی ادائیگی روک کر انکوائری شروع کر دی جبکہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹ ملازمین کو یہ کہہ کر اس سیشن کا الاؤنس دینے سے انکار کر دیا کہ جب مشترکہ اجلاس ہوا ہی نہیں تو الاؤنس کیوں دوں؟ پڑھتے جائیے شرماتے جائیے

عرفان اطہر قاضی

بشکریہ روزنامہ جنگ

قرضے اور مالیاتی بحران

ایک عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان جیسے دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو آنے والے چند مہینوں میں قرضوں کے تباہ کن بحران کا سامنا کرنا ہو گا۔ ستاروں کی پوزیشن بھی یہی بتاتی ہے۔ اس بحران کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ سیاسی سطح پر کوئی افہام و تفہیم ہو جائے لیکن اصل بات تو معیشت کی ہے جس میں کوئی قابل ذکر بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ویسے بھی یہ خوفناک معاشی بحران جو دور نہیں ہے اگلے کئی سال تک جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس کی وجہ تیزی سے بڑھتا ہوا افراط زر، سست رفتار ترقی، بلند شرح سود اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے چنانچہ دنیا بھر کے کئی ممالک کے لیے دیوالیہ پن اور معاشی مشکلات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق غریب ممالک اس وقت امیر ممالک کے 200 ارب ڈالرز کے مقروض ہیں۔ روز افزوں شرح سود نے ڈالر کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔ عالمی کرنسیاں ڈالرز میں بدل کر امریکا کا رخ کر رہی ہیں کیونکہ زیادہ شرح سود منافع میں بڑھوتری کا باعث ہے۔

جب کہ جن ممالک نے قرضے لیے ہیں ان کے لیے قرضوں کی واپسی امریکی کرنسی کی شکل میں ایک سنگین آزمائش بن کر رہ گئی ہے۔ کساد بازاری کی طرف مائل عالمی معیشت کے لیے خطرات بڑھ چکے ہیں وجہ کووڈ افراط زر اور یوکرین جنگ کی وجہ سے مزید 10 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اس وقت امیر ممالک کو عالمی کساد بازاری کا سامنا ہے وہ اپنے ملکوں میں خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ترقی پذیر غریب ممالک میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ ڈیفالٹ زدہ ملکوں کی وجہ سے امریکا جیسے ممالک کے لیے مقروض ملکوں کو برآمدات کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ عالمی معیشت مزید سست رفتار ہو جائے گی۔ جس کو معاشی اصطلاح میں RECESSION کساد بازاری کہا جاتا ہے۔ یعنی عالمی ڈیمانڈ کم ہو گی تو سرمایہ دار ترقی یافتہ ممالک کی فیکٹریاں اور صنعتیں یا تو کم پیداوار کرنے پر مجبور ہو جائیں گی یا بند ہو جائیں گی یہ صورت حال امیر ممالک میں بے روزگاری میں اضافہ کرتے ہوئے غربت میں بھی اضافہ کر دے گی۔ یہ بڑا منحوس چکر ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام ڈیمانڈ اور سپلائی شرح سود اور منافع پر قائم ہے۔ سوویت یونین کے کیمونسٹ سوشلسٹ نظام میں سود پر پابندی تھی کیونکہ ان کی ترجیح عام اور غریب انسان تھا۔ جب کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اولین ترجیح مٹھی بھر سرمایہ داروں کو دی جاتی ہے۔ اس سال سری لنکا اپنے ڈیفالٹ کے قریب تر پہنچ گیا تھا۔ اس کے مرکزی بینک کو چائے کی پتی کے عوض ایران سے تیل خریدنے کا بندوبست کرنا پڑا۔ عالمی بینک نے پہلے ہی سے خبردار کر دیا ہے کہ آیندہ برس یعنی نئے آنے والے سال میں ایک درجن سے زائد ممالک کو ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب کہ آئی ایم ایک کی پیش گوئی ہے کہ کم آمدنی والے ترقی پذیر ممالک میں سے 60 فیصد کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے یا شدید ترین خطرہ ان کا منتظر ہے۔ اس وقت ترقی پذیر ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر زبوں حالی کا شکار ہیں۔

پچھلے 18 مہینوں سے لے کر اب تک 12 ملک ڈیفالٹ کے ہائی رسک پر پہنچ چکے ہیں۔ اس وقت ترقی پذیر ممالک 200 ارب ڈالرز کے مقروض ہیں۔ اس کا وقتی حل تو یہی ہے کہ ان قرضوں کو ری شیڈول کیا جائے یعنی ایسے ممالک کو قرضوں کی واپسی میں رعایتی مدت دی جائے۔ پاکستان اپنے واجب الادا قرضوں کی واپسی کے لیے یہی کچھ کر رہا ہے۔ یا ان کے ذمے قرضوں کی شرح سود میں کمی کی جائے یا ان کے ذمے جتنے بھی قرضے ہیں ان کا اصل زر معاف کر دیا جائے۔ ایک بات چیت کے دوران آئی ایم ایف کی پہلی ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر مس گوپی ناتھ کا کہنا ہے کہ قرضہ لینے والے ممالک اور قرض دہندگان کو کسی بھی ایسی خوش فہمی کا شکار ہونے سے گریز کرنا چاہیے جو انھیں ڈیفالٹ کی طرف جانے پر مجبور کر دے۔

اس وقت پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے چار ارب ڈالرز کی ایل سیز کو روکا ہوا ہے۔ خدشہ ہے کہ جب ان ایل سیز پر سے پابندی ہٹائی جائے گی تو انٹر بینک میں ڈالر کی اڑان پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دے گی۔ درآمد کنندگان پریشان ہیں مرغیوں کی خوراک سویا بین، لہسن، ادرک، پیاز کی قیمتیں اپنے عروج پر ہیں۔ کورونا کا عذاب تو پوری دنیا کو سہنا پڑا لیکن حالیہ سیلاب کی وجہ جغرافیائی طور پر پاکستان کا دو موسموں کے سنگم پر واقع ہونا ہے۔ سیلاب نے دوسرے خطوں میں بھی تباہی پہنچائی لیکن جو تباہی حالیہ سیلاب نے پہنچائی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں۔ کورونا اور اس کے بعد سیلاب نے ہماری معیشت کا کچومر ہی نکال دیا اوپر سے گزشتہ 9 مہینوں سے خوفناک سیاسی عدم استحکام۔ ﷲ ہم پر رحم کرے۔

زمرد نقوی

بشکریہ ایکسپریس نیوز