شدت پسندی چاہے مذہبی ہو یا سیکولر نامنظور

فتنہ کا ایسا زما نہ آ گیا کہ آپ اسلام کی بات کریں تو ایک طبقہ جسے لبرل شدت پسند یا سیکولر شدت پسند کہا جا سکتا ہے وہ آپ کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ جاتا ہے۔ آپ کی کہی بات کی اپنی مرضی کی تعویلیں نکالتا ہے اور جھوٹ اور اپنی من پسند باتیں گڑھ کر حقائق کو بگاڑ کر اصل بات کو ایسا رنگ دیتا ہے کہ بات کرنے والا خود سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ گالی دینا، بُرا بھلا کہنا، گھٹیا الزامات لگانا سب ایک طریقہ سے ایک مہم کے ذریعے کیا جاتا ہے تاکہ اسلام کی بات کرنے والا بھاگ کھڑا ہو اور دوسرے بھی اس سے سبق سیکھیں۔ میں ایک گناہ گار آدمی ہوں لیکن اس امید سے کہ میرا رب مجھے معاف کر دے، مجھ میں بھی کبھی کبھی میرے دین کا جوش اٹھتا ہے اور میں کوشش کرتا ہوں کہ معاشرہ میں بڑھتے غیر اسلامی اقتدار کو روکنے میں اپنا کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتا رہوں۔

گزشتہ ہفتہ کے دوران مجھے اطلاع ملی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک اسکول میں ایک کنسرٹ منعقد کیا جا رہا ہے جس میں دوسرے گانوں کے ساتھ ساتھ ایک انگریزی گانا ـــ’’Imagine‘‘ بھی گایا جائے گا جوملحدانہ افکار کی عکاسی کرتا ہے۔ میں نے بغیر اسکول کا نام لکھے سوشل میڈیا میں صرف ایک ٹوئٹ کیا کہ ایک کنسرٹ میں یہ گانا گایا جائے گا۔ مقصد یہ تھا کہ متعلقہ حکومت اور اسکول تک بات پہنچ جائے اور بروقت درستگی ہو سکے۔ الحمد اللہ ایسا ہی ہوا۔ متعلقہ اسکول نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ متنازع گانا کنسرٹ میں نہیں گایا جائے گا۔ اسکول کی طرف سے یہ فیصلہ بہت ہی خوش آئند تھا جسے پاکستان کے مذہبی حلقوں سمیت بہت سوں نے سراہا۔ یہاں تک کہ عالمی شہرت کے حامل پاکستان کے اہم ترین اسلامی اسکالر محترم مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی اپنے ٹوئٹ کے ذریعے اسکول کے ساتھ ساتھ اس ناچیز کو بھی شاباش دی۔

جیسے ہی یہ مسئلہ سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا اور اسکول نے بھی فیصلہ کر لیا کہ متنازع گانا نہیں گایا جائے گا تو لبرل اور سیکولر شدت پسندوں کے ایک گروہ نے مجھ پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ انہیں تکلیف اس بات پر تھی کہ پہلے تو میں نے اس مسئلہ کو اجاگر کیوں کیا اور دوسرا کہ متنازع گانا اسکول کے کنسرٹ میں کیوں نہ گایا جائے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی تاویلے دیں اور مقصد صرف یہ تھا کہ مجھ پر لعن طعن کی جائے۔ چند سیکولر شدت پسند وں نے تو مجھ پر پاکستان میں طالبانائزیشن کو بڑھاوا دینے کا الزام لگا دیا۔ ایک سیکولر نے بھی مجھے کوسہ اور افسوس کا اظہار کیا کہ بچے گانا نہیں گا سکیں گے۔ حالانکہ بچوں نے گانے تو گائے، کنسرٹ بھی ہوا لیکن وہ گانا نہیں گایا گیا جو ملحدانہ افکار کی عکاسی کرتا تھا۔

ان شدت پسندوں کو اگر غصہ مجھ پر تھا تو وہ اسکول سے بھی خوش نہ تھے کہ اسکول انتظامیہ نے متنازع گانا کیوں نہ گایا۔ جب یہاں اُن کی دال نہ گلی تو برطانیہ کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف میں ہفتہ کے روز میرے خلاف خبر چھپوا دی۔ اُس خبر میں مجھ سے ایسی باتیں منسوب کی گئی جو نہ میں نے کہیں اور نہ لکھیں۔ میرے حوالے سے اسکول کا نام اور پرنسپل کے خلاف بھی بات کی گئی حالانکہ نہ تو میں نے کسی اسکول کا نام لیا اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ اُس اسکول کا پرنسپل کون ہے۔ میں نے اس پر ٹیلی گراف اخبار سے احتجاج کیا جس پر اتوار کے روز انہوں نے اپنی خبر کی اس حد تک درست کر دی کہ جو باتیں مجھ سے غلط منسوب کی گئیں انہیں خبر میں سے ہٹا دیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ ٹیلی گراف کے متعلقہ رپورٹر نے بھی اپنے ٹوئٹ کے ذریعے اس درستگی کا اعلان کر دیا۔ ابتدا میں توسیکولر اور لبرل شدت پسندوں نے سوشل میڈیا پر ایسی مہم چلائی کہ بہت سے لوگوں کو اصل حقیقت کا علم ہی نہ تھا۔ جیسے جیسے سچ سامنے آنے لگا تو عام طبقہ کے ساتھ ساتھ اسلامی اسکارلز اور جماعتوں نے بھی اس مسئلہ پر اپنا ردعمل دینا شروع کر دیا اور باقاعدہ سوشل میڈیا پر مہم چلائی جس میں اسکول کو مبارکبادیں دی گئیں اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان کو ان شاء اللہ ایک اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے گا۔ اگرچہ سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ یہاں یہ بات کرتے ہیں کہ جس کی جو مرضی وہ بچوں کو اسکولوں میں پڑھائے لیکن اس بات کی پاکستان کا آئین اجازت نہیں دیتا۔

آئین پاکستان کی شق 31 کے مطابق یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور نظریاتی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کئے جائیں جن کی مدد سے وہ قرآن اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ اسی شق کے مطابق ریاست پاکستان کے مسلمانوں کے لیے قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازم قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولتیں بہم پہنچانے کا اہتمام کرے گی۔ آئین کو بنے چوالیس سال گزر گئے لیکن ہم نے اب تک آئین کی اسلامی روح کے مطابق پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں کوئی خاص کام نہیں کیا۔ اسلامی شقیں آئین میں موجود ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔

لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ گزشتہ دو تین سال کی کوشش کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک قانون متفقہ طور پر پاس کر لیا ہے جس کے مطابق وفاقی حکومت کے تمام اسکولوں میں بچوں کے لیے قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھانا لازم ہو گا۔ گزشتہ جمعہ کے روز سینیٹ میں اس بل کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا لیکن عمومی طور پر میڈیا نے اس خبرکو نظر انداز کیا یا اہمیت نہیں دی۔ قومی اسمبلی پہلے ہی اس بل کو منظور کر چکی گویا اب یہ قانون بن گیا جو صدر پاکستان کے دستخط کے بعد وفاقی حکومت کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں لاگو ہو گا۔

خیبر پختون خوا حکومت اس کے نفاذ کا پہلے ہی اعلان کر چکی ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ نظام پورے ملک کے اسکولوں میں جلد از جلد نافذ ہو جائے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے بچے جب خود قرآن پاک سمجھ کر پڑھیں گے تو ایک ایسا معاشرہ جنم لے گا جو صحیح معنوں میں اسلامی ہو گا، جہاں سب کے لیے انصاف ہو گا، فرقہ واریت، نفرت اور عدم برداشت کا خاتمہ ہو گا۔ عورتو ں، اقلیتوں، غریب کے حقوق کی پاسداری ہو گی۔ سب سے اہم بات یہ کہ جب ہم اپنے بچوں کو قرآن سے جوڑیں گے تو ہر قسم کی شدت پسندی چاہے وہ مذہبی شدت پسندی ہو یا سیکولر ہر ایک کا خاتمہ ہو گا۔ اس منزل کے لیے ہم سب کو اپنا پنا کردار ادا کرنا ہے۔

انصار عباسی

مسلم معاشرہ اور لبرل ازم

مذہبی معاملات پر ردعمل کے واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں، مگر ان واقعات میں توہین غیر مسلموں کی جانب سے ہوتی تھی۔ اب کچھ عرصے سے پاکستان میں اس قسم کے واقعات میں جن افراد پر توہین کا الزام لگا ہے وہ خود مسلم ہیں یا وہ اپنے آپ کو ایک اچھا اور درست مسلمان قرار دیتے ہیں۔ ایسا عموماً لبرل نظریات رکھنے والوں کی جانب سے تاثر آرہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ لبرل نظریات اور خاص کر اظہار رائے کی آزادی کا وہ نعرہ ہے جو مغرب سے آیا ہے اور جس کے تحت کسی بھی شخصیت کے خلاف کچھ بھی کہہ دینا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مذہب خاص کر دین اسلام میں ایسی کسی آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے، نہ ہی کوئی گنجائش ہے، بلکہ حضور ﷺ کے بارے میں گستاخی پر علما کی جانب سے سخت فتویٰ موجود ہیں اور اس میں کوئی مسلکی اختلاف بھی نہیں ہے۔ مثلاً سلمان رشدی کے خلاف آیت اللہ خمینی نے بھی فتویٰ دیا تھا، غازی علم الدین شہید کو علامہ اقبال نے بھی شہید قرار دیا تھا۔

یوں دیکھا جائے تو مذہبی شعائرکی توہین کی اسلامی نظریات اور معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے، لہٰذا جو لوگ مسلمان نہیں ہیں یا جو لبرل نظریات رکھتے ہیں، اپنے آپ کو مسلم کہتے ہیں، انھیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اس موضوع پر کسی بھی مسلم نظریات رکھنے والے فرد یا گروہ سے گفتگو یا بحث کرنا مناسب نہیں اور نہ ہی مسلم نظریات رکھنے والے کسی فرد یا گروہ کو ایسی بحث میں شامل ہونا چاہیے، کیونکہ ایسی صورت میں کوئی بھی جملہ یا بات دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دل آزاری کا باعث بن سکتی ہے اور اس کے بعد حالات کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں یا کوئی بھی شرپسند اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ماضی میں بھی دل آزاری سے متعلق کئی ایک واقعات ایسے ہو چکے ہیں ۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کے کئی جوابات ہو سکتے ہیں۔ راقم کے نزدیک ایک اہم وجہ آزادی کے مفہوم اور لبرل ازم کے ساتھ ساتھ ایک مسلم معاشرے کو نہ سمجھنا بھی ہے۔ آج کل خصوصاً سوشل میڈیا تک عام آدمی کی رسائی کے بعد سے ہر کوئی اپنے دانشورانہ خیالات کا اظہارکرنا اپنا حق اور ضروری امر سمجھتا ہے، خواہ کوئی بھی موضوع ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس حساس موضوع کو بھی ہر دوسرا شخص تختہ مشق بناتا نظر آتا ہے۔ حالانکہ یہ وہ موضوع ہے جس پر ذرا سی بے احتیاطی بھی خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہے اور نادانستہ طور پر بھی انجانے میں کوئی بات توہین کے زمرے میں آ سکتی ہے۔

سرسید احمد خان نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد رسالہ اسباب بغاوت ہند لکھ کر انگریزوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلمان انگریزوں کے دشمن نہیں ہیں اور انگریزوں کے درمیان فاصلے کی ایک بڑی وجہ غلط فہمیاں ہیں اور یہ غلط فہمیاں اس سبب ہیں کہ انگریز یہاں کے طور طریقوں اور نظریات سے واقف نہیں ہیں، وہ انجانے میں وہ اقدامات کر رہے ہیں جو مسلمانوں کے کلچر اور نظریات کے برخلاف ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر آپ کسی کے کلچر اور نظریات سے پوری طرح واقف نہ ہوں تو تضادات کی کیفیت بڑھ سکتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اب پاکستان میں توہین رسالت کے مسئلے پر بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان میں رہنے والوں کی بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے اور بلاتفریق تمام ہی مسالک کا توہین رسالت پر موقف بھی ایک ہی ہے، یعنی کوئی بھی مسلمان حضورﷺ کی شان میں گستاخی قبول کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی یہ چاہتا ہے کہ کوئی بھی فرد آزادی اظہار رائے کے نام پر توہین آمیز الفاظ ادا کرے۔

دوسری طرف ایک طبقہ لبرل ہے جو مغرب کا آزادی والا تصور رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اظہار رائے کی جو آزادی مغرب میں لوگوں کو حاصل ہے وہی آزادی یہاں بھی ہو۔ چنانچہ بعض اوقات اس لبرل طبقہ کی جانب سے دانستہ یا نادانستہ طور پر آزادی اظہار رائے کے نام پر حضور ﷺ کی ذات مبارک کے بارے میں بھی ایسا اظہار خیال کیا جانے لگا ہے کہ جو مسلمانوں کے لیے قطعی قابل قبول نہیں۔ یوں حضورﷺ کی ذات گرامی کے بارے میں بلاوجہ اظہار خیال سے غلط فہمی کے دروازے بھی کھلنے لگے۔ ایسے واقعات رونما ہونے لگے کہ جن میں دعویٰ کیا جانے لگا کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ ایسا ہی واقعہ صوبہ خیبرپختونخوا کی ایک یونیورسٹی میں بھی ہوا، جس میں ایک طالب علم کی جان چلی گئی۔ اس طالب علم نے واقعی گستاخی کی تھی یا نہیں؟ بات یہ ہے کہ اگر ہم نظریاتی بحث و مباحثے میں ایسے حساس موضوع کو شامل نہ کریں تو نہ غلط فہمی پیدا ہو، نہ ہی کسی کی دل آزاری ہو اور نہ ہی کوئی اس قسم کا حادثہ ہو۔

یہاں ایک اور بات سمجھنے کی ہے کہ روشن خیالی، اقوام متحدہ کا پیش کردہ انسانی حقوق کا منشور، لبرل ازم اور آزادی اظہار رائے کا موجودہ مغربی تصور اسلامی نظریات سے قطعی مختلف ہے۔ ان تمام تصورات کی اسلامی نظریات اور معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے، مثلاً روشن خیالی کا تصور دینے والا فلسفی کانٹ اپنے مضمون  What  is  enlightenment  میں کہتا ہے کہ جو شخص وحی الٰہی اور عالم دین کا انکار کرتا ہے اور ان سے ہدایت نہیں لیتا، وہی روشن خیال ہے۔ گویا مذہبی نظریات رکھنے والا کبھی بھی روشن خیال نہیں ہو سکتا، روشن خیال بننے کے لیے پہلے مذہب کو خیر باد کہنا ہو گا۔

اقوام متحدہ تمام قوموں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ انسانی حقوق کے منشور کو تسلیم کریں اور اپنے ملک میں نافذ کریں، کیونکہ اس کی اقدار اور اصول آفاقی ہیں اور تمام مذاہب عالم پر بالاتر ہیں، گویا اس انسانی حقوق کے منشور کو نافذ کرنے کے لیے کسی مذہب کی بات بھی تسلیم نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح مغرب کے تصور آزادی کے مطابق آئزہ برلن کہتا ہے کہ ہر فرد کو حق خود ارادیت حاصل ہے کہ وہ خیر اور شر کا جو چاہے تصور قائم کرے۔ چنانچہ اس آزادی کے تصور کے تحت ہر فرد خود خدا کے درجے پر آ گیا کہ اسے مذہب بھی یہ ہدایت نہیں دے سکتا کہ کیا گناہ یا شر ہے اور کیا ثواب یا نیکی ہے۔

یوں مذہبی شخصیات کی توہین کرنے کا بھی حق حاصل ہو گیا اور پھر یہ انسان کے بنیادی حقوق کا حصہ بھی بن گیا۔ اسی لیے مغرب میں حضور ﷺ ہی نہیں، عیسائیوں کی مذہبی شخصیات کی توہین کرنا بھی جرم نہیں بلکہ آزادی اظہار رائے کا ایک حصہ ہے، جو ہر فرد کو حاصل ہے۔ مغربی فلاسفر جان رالز اور ڈربن لبرل ازم کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر ایک کو آزادی ہے، مگر وہ آزادی جو لبرل ازم کے بنیادی ایمان سے ہم آہنگ ہو۔ مخالفین کے لیے ان کا کہنا ہے کہ جو اس لبرل ازم کو نہ مانے، ایسے مخالفین کو سختی سے کچل دیں اور ان کو قائل کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

گویا مذکورہ بالا تمام نظریات مذہب مخالف ہیں اور جو لوگ ان نظریات پر یقین رکھتے ہیں ان کی نظر میں کسی بھی شخصیت کو تنقید کا نشانہ بنانہ اور اس کے لیے برے الفاظ استعمال کرنا کوئی جرم نہیں۔ مغربی معاشرہ چونکہ یہ تمام نظریات اچھی طرح اپنا چکا ہے اس لیے وہاں کسی کی توہین کوئی جرم بھی نہیں سمجھا جاتا، نہ ہی کوئی ردعمل عوام کی جانب سے سامنے آتا ہے، لیکن پاکستانی معاشرہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اس قسم کے لبرل نظریات نہیں رکھتے ہیں، جو بے شک نماز نہ پڑھتے ہوں مگر وہ اس دین اسلام پر ایمان رکھتے ہیں کہ جس میں حضورﷺ کی شان میں گستاخی سخت رد عمل کا سبب بن سکتا ہے۔

بات سمجھنے کی صرف اتنی سی ہے کہ پاکستان میں ابھی لبرل ازم کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی یہاں کی بھاری اکثریت نے جان لاک، آئزہ برلن، جان رالز اور ڈربن جیسے مفکرین کے لبرل نظریات کو قبول کیا ہے۔ لہٰذا ابھی اس معاشرے میں مذہبی شخصیات کے معاملے پر آزادی اظہار رائے کا مغربی اصول نہیں چلے گا اور اگر اس کی کو شش کی جائے گی توغلط فہمیوں کے امکانات اپنی جگہ موجود ہوں گے، جس سے قانون ہاتھ میں لینے کے واقعات میں اضافہ تو ہوسکتا ہے کمی نہیں۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں مذہب کو موضوع بحث نہ بنایا جائے۔

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری