لداخیوں کے ساتھ ہونے والا ہاتھ

بھارتی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں جموں کی ہندو اکثریت ریاستی تشخص کے خاتمے پر خوش ہے، وادیِ کشمیر کی مسلمان اکثریت ناخوش ہے اور لداخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے باشندے شروع میں تو خصوصی تشخص کے خاتمے پر خوش ہوئے۔ کیونکہ ان کے خیال میں سرینگر میں موجود روایتی کشمیری مسلمان حکمران اشرافیہ لداخیوں کو دور دراز خطے کے قبائلی سمجھ کر ان کی ترقی اور حقوق سے اغماز برتتی رہی ہے۔ لداخیوں کا خیال تھا کہ سرینگر سے جان چھوٹنے اور یونین ٹیرٹیری ( وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ) کی شکل میں براہِ راست دلی کی حکمرانی تلے آنے سے ان کے احساسِ محرومی کا ازالہ ہو جائے گا۔ چنانچہ گزشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا خیرمقدم کرتے ہوئے لداخ سے بی جے پی کے رکنِ پارلیمان جمیانگ سیرنگ نمگیال نے لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ لداخ کی پسماندگی کے ذمے دار آرٹیکل تین سو ستر اور کانگریس کا طویل دورِ حکومت ہے۔ اور اب لداخ کے لیے ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے۔

مگر اب ان پر کھل رہا ہے کہ حقوق تو پہلے سے بھی زیادہ دور ہو گئے ہیں۔ ماضی میں اگر مستقبل کے بارے میں کوئی امیدِ موہوم تھی تو اب وہ بھی نہیں رہی۔ لداخ کی بی جے پی شاخ کے سابق صدر چیرنگ ڈورگے نے مرکزی حکومت کی لداخ پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے گذرے مئی میں استعفیٰ دے دیا۔ چیرنگ کا کہنا ہے کہ خصوصی تشخص کو یقینی بنانے والے آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے اور غیر مقامی افراد پر مقامی املاک کی خریداری پر پابندی کا قانون آرٹیکل پینتیس اے منسوخ ہونے کے نتائج مقامی نسلوں کے لیے بھیانک ثابت ہوں گے اور اجنبیوں کی یلغار سے مقامی تشخص خاک میں ملتا چلا جائے گا۔ جیرنگ کا کہنا ہے کہ لداخ کی خودمختار ہل کونسل علاقے کی سرکاری زمین کی مالک تھی مگر وفاقی علاقہ بننے کے بعد یہ کونسل مکمل بے اختیار ہو گئی ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اب ہماری زمین ہم سے مشورہ کیے بغیر بیرونِ لداخ صنعت کاروں، کانکنی کی کمپنیوں اور فوج میں بانٹ دی جائے گی۔

ان خدشات کے سبب خود حکمران بی جے پی کے لداخ یونٹ نے گزشتہ ماہ ایک متفقہ قرار داد میں مقامی زمین، ثقافت ، ماحولیات، روزگار اور کاروباری حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی اقدامات کا مطالبہ کر دیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ یا تو لداخ کو بھارتی آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت لایا جائے جس میں قبائلی آبادی کو شناختی تحفظ حاصل ہے۔ ویسے بھی لداخ کی ستانوے فیصد آبادی قبائلی ہے۔ یا پھر آرٹیکل تین سو اکہتر کی چھتری دی جائے جس کے تحت شمال مشرقی بھارتی ریاستوں کی قبائلی آبادی کو معاشی و املاکی خود مختاری حاصل ہے۔ لداخ کے دارالحکومت لیہہ کی کئی چھوٹی سیاسی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے لداخ کو آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت تحفظ دینے کے مطالبے پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک مشترکہ اتحاد بھی قائم کر لیا ہے۔ لداخ سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار آٹھ سو فٹ بلند ہے۔ آبادی تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ خطہ دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ ضلع لیہہ میں بودھوں کی اور ضلع کرگل میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ لداخ بودھ اکثریتی علاقہ ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں مسلمان آبادی چھیالیس اعشاریہ چار فیصد ، بودھ آبادی انتالیس اعشاریہ سات فیصد اور ہندو آبادی بارہ اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ ایک جانب اگر لداخ کے ضلع لیہہ کی بودھ اکثریت آئینی تحفظات کے تحت وفاق کے زیرِ انتظام ریاست کشمیر سے الگ خطے کے طور پر رہنے کے حق میں ہے تو دوسری جانب ضلع کرگل کی مسلم اکثریت خود کو باقی کشمیر سے کاٹنے کے مرکزی حکومت کے انتظامی اقدامات کی شروع دن سے مخالف ہے۔ کرگل سے لوک سبھا کے سابق رکن اور خود مختار ضلع کونسل کے سابق سربراہ اصغر علی کربلائی کا کہنا ہے کہ ہمیں آئین کے چھٹے شیڈول یا مرکزی حکومت کے براہِ راست کنٹرول میں رہنا منظور نہیں۔ اگر مرکزی حکومت کو ہماری اتنی ہی فکر ہے تو پھر لداخ کو ایک مکمل بااختیار ریاست کا درجہ دیا جائے تاکہ لداخ کی مسلم اکثریت اور بودھ اقلیت کے حقوق کا مساوی تحفظ ہو سکے۔

اصغر علی کربلائی کا کہنا ہے کہ ہمیں خدشہ ہے کہ حکومتِ بھارت آر ایس ایس کے ایجنڈے کے تحت پوری کشمیری ریاست کی علاقے، مذہب اور زبان کے نام پر بندر بانٹ کر کے اس کے اجتماعی تاریخی تشخص کو دفن کرنا چاہتی ہے اور اس کے ملبے پر اپنی مرضی کی ثقافت ، تاریخ اور معیشت تھوپنا چاہتی ہے۔ کرگل میں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی مزاحمت کے لیے مقامی لوگوں نے پارٹی سیاست سے بالا ہو کر جو مشترکہ ایکشن کمیٹی بنائی ہے اس کے سیکریٹری ناصر منشی کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت صرف لیہہ کو پورا لداخ اور بودھ آبادی کو ہی لداخ کی نمایندہ سمجھتی ہے۔ جو بھی رہنما ، منتری یا اعلیٰ افسر لداخ آتا ہے وہ صرف لیہہ کا دورہ کر کے چلا جاتا ہے۔ کرگل کو مکمل نظرانداز کیا جاتا ہے۔ کوئی ہم سے نہیں پوچھتا کہ آخر ہم کرگل والے کیا چاہتے ہیں۔

سرینگر یونیورسٹی کے شعبہِ قانون کے سینئر استاد شیخ شوکت نے لداخیوں کے المیے کو یوں سمیٹا ہے کہ بھارتی ریاستی ڈھانچے کی جانب سے لداخ کے بودھوں کو ایک طویل عرصے سے بتدریج یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی جیسے وادیِ کشمیر والے ان کا استحصال کر رہے ہیں اور اس سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لداخ کا ناتا کشمیر سے ٹوٹ جائے۔ بقول پروفیسر شوکت لداخیوں کو پٹی پڑھائی گئی کہ ایک بار جب وہ وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ بن گئے تو وہ اپنی زمین کے مالک بن جائیں گے۔ مگر پچھلے ایک برس میں لداخیوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ مرکز کے زیرِ انتظام ہونے سے رہی سہی خودمختاری بھی مرکز کی جھولی میں گر گئی ہے اور جس علاقے کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اسے عملاً ٹھینگا بھی نہیں ملتا۔ اس اعتبار سے لداخیوں کے ساتھ جو ہاتھ ہوا ہے وہ باقی کشمیر کے ساتھ ہونے والے المیے سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ لداخ تاریخی اعتبار سے تبت کا حصہ رہا ہے۔ ان دنوں وہ بھارت چین مسلح کشیدگی کے سبب نہ صرف خبروں میں نمایاں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں اس کی جغرافیائی و سیاسی حیثیت اور حساس ہوتی چلی جائے گی۔ اگر لداخی بھارت سے خوش نہیں رہتے تو پھر اسٹرٹیجک اہمیت کا یہ علاقہ دلی حکومت کے لیے ایک تازہ دردِ سر بن سکتا ہے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ایک سال مکمل ہو گیا

گذشتہ برس نومبر کے تیسرے ہفتے میں نیویارک میں کشمیری پنڈتوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی قونصل جنرل سندیب چکرورتی نے فرمایا ،’’ میرے خیال میں ( کشمیر میں ) امن و امان کی صورت بہتر ہو رہی ہے۔ آپ جلد ہی واپس لوٹ سکیں گے کیونکہ آپ کے تحفظ کے لیے پہلے ہی سے ایک ماڈل موجود ہے۔ اس ماڈل پر عمل نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسرائیل اس پر کامیابی سے عمل کر رہا ہے۔ یہودیوں نے فلسطین سے نکلنے کے بعد اپنی ثقافت کو برقرار رکھا اور پھر وہ دو ہزار برس بعد واپس لوٹے۔ آپ کو بھی کشمیری ثقافت زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ کشمیری کلچر دراصل بھارتی کلچر ہے اور بھارتی کلچر ہندو کلچر ہے۔ ہم نے کبھی بھی اکثریت ہونے کی طاقت سے کام لیا اورنہ ہی ہندو ثقافتی قوت کو استعمال کیا۔ مگر کب تک‘‘۔

یہ تقریر کسی ریٹائرڈّ سفارت کار نے نہیں کی کہ جسے اس کے ذاتی خیالات قرار دے کر نظرانداز کر دیا جائے۔ یہ تقریر گذشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خودمختاری اور حقِ شہریت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر اور آرٹیکل پینتیسں اے کے خاتمے کے تین ماہ بعد اور ریاست جموں و کشمیر کے انتظامی وجود کو اکتیس اکتوبر کو تحلیل کر کے اسے دو وفاقی خطوں میں بدلنے کے ڈیڑھ ماہ بعد کی گئی۔ آج کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کا ایک برس مکمل ہو گیا۔ اس عرصے میں مودی حکومت نے جس برق رفتاری سے کشمیر کی شناخت و نفسیات بدلنے کے لیے ایک کے بعد ایک قانون کا پھندہ بنایا ہے۔ اس پھرتی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ پچھلے ایک برس کے دوران سری نگر ہائی کورٹ اور زیریں عدالتوں میں حبسِ بے جا کی جتنی بھی درخواستیں دائر ہوئیں ان میں سے ننانوے فیصد کی شنوائی نہیں ہو سکی۔

جب کہ دلی میں قائم بھارتی سپریم کورٹ میں کشمیری خود مختاری کے خاتمے اور اندھے لاک ڈاؤن کو چیلنج کرنے سے متعلق جتنی بھی آئینی درخواستیں دائر کی گئیں ان میں سے ہر ایک کی سماعت مسلسل ملتوی ہو رہی ہے تاکہ مرکزی حکومت دلجمعی سے اپنا کشمیر ایجنڈا مکمل کر لے۔ گذرے برس میں کشمیری شناخت پر دو دھاری حملہ ہوا۔ اول جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے تحت لداخ کو ہمیشہ کے لیے ریاست سے الگ ایک انتظامی یونٹ ( مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ ) بنا دیا گیا ہے۔ جب کہ جموں و کشمیر کو بطور ایک عام بھارتی ریاست نئے انداز میں بحال کرنے سے پہلے پہلے نئی اسمبلی حلقہ بندیاں مکمل کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ نئی مجوزہ ریاستی اسمبلی میں جموں کی نشستیں وادی کی نشستوں سے زیادہ ہوں گی۔

کالعدم ریاستی اسمبلی میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور چین کے زیر انتظام آکسائی چن کے علاقے کی جن چوبیس نشستوں کو علامتی طور پر خالی رکھا گیا تھا۔ انھیں اگلے انتخاب میں آزاد کشمیر اور پاکستان سے ریاست میں آ کر آباد پناہ گزینوں سے پر کیا جائے گا۔ یہ پناہ گزین تقریباً سب کے سب ہندو یا سکھ ریفیوجیز ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ نئی ریاست میں اقتدار کا توازن پہلی بار وادی کی مسلم اکثریت کے بجائے جموں کے ہندو اکثریتی پلڑے کو منتقل ہو جائے گا۔ساتھ ہی ساتھ وادی کی مسلم شناخت کو غیر مسلم آباد کاری کے ذریعے بے اثر کرنے کی کوششوں کی رفتار بھی تیز تر کی جا رہی ہے۔ مثلاً پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو اب تک ریاست کی مکمل شہریت نہیں دی گئی تھی۔

مگر اکتیس مارچ سے نافذ ہونے والے نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت نہ صرف ان لگ بھگ پانچ لاکھ مہاجرین کو جموں و کشمیر کا ڈومسیائیل لینے کا حق حاصل ہو گا۔ بلکہ بھارت کے کسی بھی علاقے سے کشمیر میں گذشتہ پندرہ برس سے رہنے والے باشندے کو ریاستی شہریت کا اہل تصور کیا گیا ہے۔ نیز جو شخص سات برس تک ریاست کے کسی کالج یا اسکول میں زیرِ تعلیم رہا ہو یا اس نے میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کا امتحان ریاستی تعلیمی بورڈ کے تحت دیا ہو وہ بھی کشمیری ڈومیسائل حاصل کرنے کا اہل ہے۔ اور ڈومیسائیل کا مطلب نہ صرف ریاستی شہریت بلکہ جائیداد و زمین خریدنے، ریاست کے لیے مختص سرکاری ملازمتوں کے کوٹے میں حصہ داری اور ریاست میں زراعت و صنعت و سروس سیکٹر میں سرمایہ کاری کا حق بھی حاصل ہو گا۔

نئے قانون کے نفاذ سے پہلے صرف ان لگ بھگ ایک لاکھ کشمیری پنڈتوں کے لیے ریاست میں دوبارہ واپسی اور بحالی کا حق قانوناً تسلیم شدہ تھا جو انیس سو نواسی نوے کے پرآشوب دور میں وادی سے جموں نقل ِ مکانی کر گئے تھے۔ اب ان پنڈتوں کی نمایندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریفیوجیز کی تعداد سات لاکھ ہے۔ مگر یہ تنظیمیں اس سوال پر بٹی ہوئی ہیں کہ آیا کشمیری پنڈتوں کو ازسرِ نو ڈومیسائیل لے کر یہودی آباد کاروں کی طرح فوجی سنگینوں کے سائے میں بسانا ٹھیک ہے یا پھر انھیں ریاست میں آباد ہونے کے صدیوں پرانے حق کے تحت بھارتی قوم پرستی کے بجائے کشمیریت کے جذبے کے تحت اپنے آبائی گلی محلوں میں جا کر بسنا چاہیے۔ جہاں مقامی مسلمان آبادی کو ان کی گھر واپسی پر کوئی اعتراض نہیں۔ پہلی صورت میں پنڈتوں کو قابض طاقت کا دم چھلا سمجھا جائے گا اور دوسری صورت میں وہ بطور فرزندِ زمین قابلِ قبول ہوں گے۔

کشمیری پنڈتوں کی خصوصی حیثیت سے قطع نظر جن جن طبقات کو نئے ڈومیسائیل قوانین سے فائدہ ہو گا۔ ان میں وہ زرعی ، صنعتی و گھریلو مزدور بھی شامل ہیں جو پچھلے تیس چالیس برس سے بہار، یوپی، بنگال وغیرہ سے کشمیر آ کر یہاں کے کھیتوں ، کولڈ اسٹوریج اور گھروں میں کام کرتے ہیں۔ سرکردہ کشمیری صحافی نعیمہ احمد مہجور کے مطابق جموں و کشمیر میں روزانہ کام کاج کے لیے لگ بھگ پچاس ہزار مزدور وںاور کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ان میں مقامی مزدور تقریباً ایک فیصد ہیں۔ کیونکہ مقامی لوگ کچھ مخصوص محنت طلب کاموں کو چھوڑ کر ہر طرح کے کام میں ہاتھ ڈالنے سے ہچکچاتے ہیں۔ دو ہزار سولہ میں برہان وانی کی شہادت کے بعد بدامنی کی شدید لہر کے سبب غیر کشمیری مزدور بڑی تعداد میں واپس چلے گئے تو لاسی پورہ انڈسٹریل اسٹیٹ کے کولڈ اسٹوریجز کو تالا لگ گیا۔ کیونکہ مقامی افرادی قوت انھیں چلانے کے لیے مناسب حد تک تربیت یافتہ نہیں تھی۔

یہی نہیں بلکہ اس وقت جموں و کشمیر کی مساجد میں مقامی امام اور موزن بھی کم کم ہیں۔ زیادہ تر خدمتی عملے کا تعلق یوپی، بہار، بنگال وغیرہ سے ہے اور بیشتر یہاں اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ تیس تیس برس سے آباد ہیں۔ اس کے علاوہ جو سرکاری ملازم اور ریٹائرڈ فوجی و پولیس اہلکار وادی میں برسوں سے مقیم ہیں ان کی تعداد بھی لاکھ سے اوپر ہے۔ ریاست میں سب سے زیادہ ملازمتیں دینے والا شعبہ سرکار ہے۔ یہ ملازمتیں اب تک نیم خودمختار ریاست کے نوجوانوں کے لیے مختص تھیں۔ لیکن ڈومیسائیل کھلنے کے بعد اب یہ ملازمتی تحفظ بھی شدید خطرے میں ہے۔ پرانا پبلک سروس کمیشن کالعدم ہے اور نیا اب تک نہیں بنا۔ جموں و کشمیر بینک کی لگ بھگ ڈیڑھ ہزار خالی آسامیوں کو بھرنے کے لیے دو برس قبل ابتدائی ٹیسٹ اور انٹرویوز ہو چکے تھے۔ لیکن اس سال فروری میں سابقہ سلیکشن پروسس منسوخ کر دیا گیا۔ دو ماہ پہلے جون میں بینک کی ان آسامیوں کے لیے نئے ڈومسیائیل قوانین کی روشنی میں تازہ درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔

اسی طرح جو ہیلتھ ورکرز ایک مدت سے عارضی کنٹریکٹ پر کام کر رہے تھے، انھیں مستقل کرنے کے بجائے نئے کنٹریکٹ دینے کا عمل بھی روک دیا گیا۔ حالانکہ کورونا کے دگرگوں حالات کے سبب ان ورکروں کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ شائد ان کی جگہ اب نئے ورکر لیے جائیں گے۔ اس وقت ریاست ڈبل لاک ڈاؤن میں ہے۔ ایک انتظامی لاک ڈاؤن جو سال بھر سے جاری ہے اور دوسرا کورونا کے نام پر اضافی لاک ڈاؤن۔ اعلی ریاستی بیوروکریسی میں نوے فیصد سے زائد افسر دلی سے بھیجے ہوئے ہیں۔ ان کا کام کشمیریوں سے بات کرنا نہیں بلکہ ان پر مرکز کے فیصلے تھوپنا ہے۔ نیشنل کانفرنس سمیت بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے نچلے کیڈر کو اس شرط پر رہا کیا گیا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں سے باز رہنا ہے۔

علیحدگی پسند حریت کانفرنس ساکت ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے متعدد رہنما اور کارکنان دور دراز جیلوں میں منتقل کیے جا چکے ہیں۔ سرکار یہ بھی بتانے پر آمادہ نہیں کہ گرفتاریوں کی تعداد کتنی ہے ؟ مختلف جماعتوں سے توڑے گئے کارکنوں کی مدد سے اسمبل کی جانے والی ’’ اپنی پارٹی ’’ کو کام کرنے کی اجازت ہے۔ اس کی قیادت نظربند رہنما محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کے ایک منحرف رہنما الطاف بخاری کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ اپنی پارٹی دراصل مودی امیت شاہ جوڑی کا بغل بچہ ہے۔ مگر کیا کشمیر پر لاگو یہ زبردستی کا امن قائم رہے گا؟ فی الحال اس سوال کا جواب بھی کشمیر کی طرح معلق ہے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ہم تب بھی دہائی دے رہے ہوں گے

اگلے ماہ کی چار تاریخ کو مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کو ایک برس مکمل ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے جب گزشتہ پانچ اگست کو بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شا نے ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختارانہ حیثیت برقرار رکھنے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے کو پارلیمنٹ کے ذریعے ناکارہ بنا کر ریاست کو دو حصوں میں بانٹ کر براہ راست مرکز کی نگرانی میں دینے کا اعلان کیا اور وہاں آہنی لاک ڈاؤن نافذ کر کے ریاست کا رابطہ بین الاقوامی دنیا سے منقطع کر دیا تو وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے متعدد بار کہا کہ ایک بار لاک ڈاؤن اٹھنے کی دیر ہے کشمیریوں کا سیلاب سڑکوں اور گلیوں میں امڈ پڑے گا اور بھارتی قبضے کو بہا لے جائے گا۔ پچھلے ایک برس کے دوران بھارت نے اس ’’ممکنہ انسانی سیلاب‘‘ کو روکنے کے لیے متعدد ایسے کمر توڑ اقدامات کیے جن کے نتیجے میں کشمیری روزمرہ بنیادی حقوق اور معیشت کی چکی میں پس جائیں۔

بس یوں سمجھیے جس طرح ایک گورے امریکی پولیس والے نے ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کی گردن پر مسلسل گھٹنا رکھ کے اس کی سانس روک دی۔ بھارت یہی کام کشمیر کے ساتھ پچھلے گیارہ ماہ سے کر رہا ہے۔ مگر کشمیر جارج فلائیڈ سے زیادہ سخت جان ثابت ہو رہا ہے۔ فروری سے بظاہر انٹر نیٹ بحال ہے مگر ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ عام شہری کی دسترس سے باہر ہے۔ بھارت نواز قیادت میں سے نیشنل کانفرنس کا عبداللہ خاندان گزشتہ تین ماہ سے آزاد ہے مگر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں جب کہ محبوبہ مفتی مسلسل نظربند ہیں۔ علیحدگی پسند حریت کانفرنس کے نوے سالہ رہنما سید علی گیلانی نے ضعیف العمری کے سبب قیادت سے باضابطہ علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ جب کہ یاسین ملک سمیت دیگر علیحدگی پسند رہنماؤں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ ریاست کی کسی جیل میں ہیں یا بھارت کے کسی دور دراز عقوبت خانے میں کس طرح کے انسانی و طبی حالات میں ہیں۔

کچھ شہریوں کو بھارتی سپریم کورٹ سے امید تھی کہ وہ غیر انسانی لاک ڈاؤن کا نوٹس لے گی اور آرٹیکل تین سو ستر کی منسوخی کا آئین کی روشنی میں جائزہ لے کر اس اقدام کے جائز ناجائز ہونے پر کوئی رولنگ دے گی۔ مگر آج گیارہ ماہ بعد بھی اس طرح کی ہر پٹیشن سپریم کورٹ تشریف تلے دبا کر بیٹھی ہے۔ مودی حکومت کو توقع تھی کہ کشمیر کی انتظامی شناخت کا تیا پانچا کر کے اور ہر گلی کے نکڑ پر دو دو سپاہی کھڑے کر کے، ہر پانچ سو گز پر چیک پوسٹ لگا کے ، ہر پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے ہر بڑی شاہراہ سے فوج یا نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس یا بارڈر سیکیورٹی فورس کا کوئی گشتی قافلہ گزار کے کشمیری بچوں کو کسی مہم جوئی میں پڑنے سے پہلے دس بار سوچنے کی عادت پڑ جائے گی۔

مگر خود ریاستی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے اب تک کے چھ ماہ کے دوران ایک سو چالیس کے لگ بھگ ’’ انتہا پسند ’’ نوجوان فوج اور نیم فوجی دستوں سے مقابلے یا ٹارگٹڈ آپریشنز میں مارے جا چکے ہیں اور جتنے مارے جا رہے ہیں اتنے ہی اور بچے گھروں سے بھاگ رہے ہیں۔ زیادہ تر وہی بچے مارے جا رہے ہیں جن میں غصہ تو ہے اور کہیں سے ہتھیار بھی مل گیا ہے مگر اسلحے کے استعمال اور خود کو روپوش رکھنے کی بنیادی یا نامکمل تربیت کے سبب سرکاری جاسوسوں کے جال میں پھنس کر گھر سے فرار ہونے کے چند ہفتے یا مہینے بعد ہی موت کے سپرد ہو جاتے ہیں۔ ان نوجوانوں میں بے روزگار بھی شامل ہیں، ٹھیلے والے بھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز بھی۔ بلکہ ایک کیس میں تو پی ایچ ڈی کا ایک طالبِ علم بھی پچھلے دو ماہ سے غائب ہے اور اس کے گھر والوں کو یقین ہے کہ اب وہ زندہ نہیں لوٹے گا۔

مقبوضہ انتظامیہ نے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ طریقہ بھی اپنایا ہے کہ اب وہ کسی نوجوان کی لاش ورثا کے حوالے نہیں کرتے تاکہ کشمیریوں کو جلوسِ جنازہ کے بہانے ہزاروں کی تعداد میں اکٹھا ہونے اور ہنگامہ آرائی کا موقع نہ مل سکے۔ کسی بھی دن کسی بھی کشمیری نوجوان کے باپ یا بھائی وغیرہ کو فون آتا ہے کہ فلاں چیک پوسٹ یا چھاؤنی میں آ کر اپنے فلاں بچے سے ملاقات کر لیں۔اس کا مطلب ہے کہ لاش کا آخری دیدار کر لیں۔ چنانچہ اس دیدار کے بعد لاش ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دی جاتی ہے۔ ایک نیا رجحان یہ بھی شروع ہوا ہے کہ ریاستی انتظامیہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں کی طرح وادی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی شراب کی فروخت کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور منشیات کا حصول پہلے سے زیادہ آسان ہوتا جا رہا ہے۔ مقصد شاید یہ ہے کہ طویل لاک ڈاؤن کی شکار غصے سے بھری بے روزگار نسل کو نشے کے راستے پر دھکیل کے بے ضرر بنا دیا جائے۔

ایسے وقت جب باقی دنیا کی توجہ کا مرکز کورونا سے نپٹنا اور اس کے اقتصادی تھپیڑوں سے خود کو بچانا ہے۔ بھارت نے موقع غنیمت جان کر کشمیر کی شہریت کے پرانے قانون آرٹیکل پینتیس اے کی منسوخی کے بعد اب ریاست کی شہریت غیر کشمیری بھارتیوں کے لیے کھول دی ہے۔ گویا کشمیر کے دردِ سر کا مستقل حل کشمیریوں کو اپنی ہی ریاست میں اقلیت میں بدل کر نافذ کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہر وہ بھارتی شہری جو ریاست میں کسی ملازمت، کاروبار یا تعلیمی مقاصد کی خاطر پندرہ برس گذار چکا ہے یا کشمیر میں رہتے ہوئے ریاستی تعلیمی بورڈ کے تحت میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کا امتحان دے چکا ہے وہ اور اس کے بچے کشمیر میں رہنے، جائیداد خریدنے، تعلیمی اسکالر شپس یا ملازمتی کوٹے میں حصے دار تصور ہوں گے۔ نیز پارٹیشن کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے لاکھوں غیر مسلم مہاجرین اور ان کی آل اولاد بھی کشمیری شہریت کی حق دار ہے۔

جون کے آخر تک تینتیس ہزار درخواست گزاروں میں سے پچیس ہزار کو ڈومیسائل جاری ہو چکا ہے۔ ڈومیسائل درخواست دیے جانے کے چودہ دن کے اندر ہی جاری ہو جاتا ہے۔ اگر متعلقہ سرکاری اہل کار ڈومیسائل کے اجرا میں بغیر کسی ٹھوس جواز کے تاخیر کرے تواسے پچاس ہزار روپے جرمانے کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ جب کہ بھارت کی ایک اور ریاست آسام جہاں بے جے پی کی حکومت ہے۔ وہاں کسی بھی درخواست گذار کو ڈومیسائل جاری کرنے کی اوسط مدت دو برس ہے اور کوئی بھی مقامی شہری کسی بھی درخواست پر اعتراض کر دے تو اس اعتراض کو دور کرنا لازمی ہے۔ مگر کشمیر میں ڈومیسائل کی رعایتی سیل لگ چکی ہے۔ درخواست گذار کے کوائف کی سرسری سی چھان بین ہوتی ہے اور سرٹیفکیٹ جاری ہو جاتا ہے۔ پہلے آئیے پہلے پائیے جلدی آئیے جلدی پائیے۔

اگر یہی رفتار بلا روک ٹوک رہی تو اگلے دس برس میں کشمیر کا شمار بھی ان علاقوں میں ہو گا جہاں آج مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ویسے مودی حکومت نے آیندہ ڈیڑھ دو برس میں لداخ اور جموں و کشمیر نام کی دو نئی ریاستوں کی تشکیل کے منصوبے پر کام تیز کر رکھا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت جو بھی ریاستی اسمبلی تشکیل پائے گی اس میں جموں کی نشستیں وادی کی نشستوں سے زیادہ ہوں گی۔یعنی آیندہ نئی ریاست کا جو بھی وزیر اعلیٰ ہو گا وہ جموں سے ہو گا اور ننانوے فیصد امکان ہے کہ غیر مسلم ہو گا۔ ہم شاید تب بھی اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہوں گے یا پھر عالمی برادری کے آگے جھولی پھیلائے دہائی دے رہے ہوں گے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے باکسر عامر خان کا ایل او سی کا دورہ

کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے باکسر عامر خان نے لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا اور مقامی لوگوں سے ملاقات کی، عامر خان چناری اور چکوٹھی بازار سے گزرتے ہوئے لوگوں کو ہاتھ ہلا کرسلام کرتے رہے، عالمی باکسنگ چیمپئن عامر خان نے پاک فوج اور ڈی جی آئی ایس پی آر سے خصوصی اظہار تشکر بھی کیا ہے۔ عامر خان نے چکوٹھی میں متاثرین ایل او سی سے ملاقاتیں کیں اور شہریوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا میرا دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتا ہے، ایل او سی اور مقبوضہ وادی میں بھارتی جارحیت کے متعلق برطانیہ جا کرسب کو آگاہ کروں گا، امن کا پیغام لے کر ایل او سی پر آیا ہوں،امن سے ہی خطہ ترقی کر سکتا ہے۔ عامر خان نے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے بھی لگائے۔ باکسر عامر خان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو تشویشناک قراردیتے ہوئے کہا کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بھارتی اقدامات کی مذمت کی جب کہ برطانوی ارکان پارلیمان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اہم شخصیات کو خطوط لکھے۔

باکسر عامر خان نے کہا آزاد جموں و کشمیر میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے، تاہم چکوٹھی سے 30 میٹر کے فاصلے پر مقبوضہ کشمیر میں حالات مخدوش ہیں، مقبوضہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی اور قتل عام جاری ہے، میں چاہتا ہوں جس طرح آزاد کشمیر میں امن ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھی امن ہو، مقبوضہ کشمیر کے لوگ تنہاء نہیں، ان کا ساتھ دیتا رہوں گا۔ عامر خان نے بین الاقوامی شخصیات سے اپیل کی کہ وہ انسانیت اور امن کیلئے کشمیریوں کا ساتھ دیں۔ پاکستانی نژاد عالمی چیمپئن باکسر عامر خان کا ایل او سی کا دورہ کرنے سے قبل کہنا تھا کہ کشمیریوں کی آواز بننے کیلئے لائن آف کنٹرول کا دورہ کر رہا ہوں، اقوام متحدہ چارٹر کی خلاف ورزیوں اور کشمیریوں کی نسل کشی کے خلاف آواز بنوں گا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

وزیر اعظم صاحب، مودی تو پاکستان پر حملہ کر چکا

وزیراعظم عمران خان نے ’’کشمیر آور‘‘ کے موقع پر عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کشمیری مسلمان نہ ہوتے تو دنیا ان کے ساتھ ہوتی۔ یہ وہ سچ ہے جس کا ادراک خوش آئند ہے تاہم وزیراعظم اب بھی کہتے ہیں کہ وہ دنیا کو بھارت اور مودی کے ظلم و ستم کے بارے میں بتائیں گے اور کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کروائیں گے۔ جب یہ تسلیم کر لیا اور ماضی اس کا گواہ بھی ہے کہ دنیا کشمیر کے مسئلہ پر اس لیے نہیں بولے گی کہ ظلم و ستم کا شکار مسلمان ہیں تو پھر خان صاحب کیوں محض سفارتی جنگ پر ہی بھروسہ کیے ہوئے ہیں؟ 

اقوام متحدہ ہو، امریکہ یا یورپ، مسلمانوں پر ظلم و ستم دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو رہا ہو، یہ نام نہاد تہذیب یافتہ اقوامِ عالم خاموش ہی رہتی ہیں۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ اگر بھارت نے آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ یہ سن کر میں حیران رہ گیا۔ بھئی! بھارت تو حملہ کر چکا، مودی نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ بھی کر لیا، ہماری شہ رگ تو کاٹ دی گئی لیکن اب بھی ہم اس انتظار میں ہیں کہ مودی اور بھارت ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے آزاد کشمیر پر بھی حملہ آور ہوں اور قبضہ کرنے کو کوشش کریں تو ہی ہم اسے حملہ تصور کریں گے اور اس کا جواب بھی دیں گے؟

وزیراعظم پہلے یہ بھی کہہ چکے کہ جنگ کوئی آپشن نہیں۔ نہیں معلوم یہ کیسی پالیسی ہے۔ جو ہم کہہ رہے ہیں اور ابھی تک جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے تو بھارت کو کوئی مسئلہ نہیں، وہ تو خوش ہے، اُس کے ساتھ تو وہ ممالک اور وہ طاقتیں بھی کھڑی ہیں جن سے ہم اب بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے مدد کے لیے بھارت کا ہاتھ روکیں گی۔ شیخ رشید بھی کہتے ہیں کہ بھارت آ کر تو دکھائے اُسے مزہ چکھا دیں گے۔ حد ہو گئی!!! مودی اور بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا باقاعدہ حصہ بنا لیا اور ہم اس انتظار میں ہیں کہ بھارت آزاد کشمیر میں آ کر تو دکھائے۔ اگر یہی ہماری پالیسی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کر لیا ہے اور اب جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ محض دکھاوا ہے۔

بھارت کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ یہ وہ کشمیری ہیں جو پاکستان کا مقدمہ گزشتہ سات دہائیوں سے لڑ رہے ہیں، جو ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ کا نعرہ آج بھی بلند کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان اگر ان کشمیریوں کے لیے ایک امید ہے تو پاکستان کے لیے بھی کشمیر لازم و ملزوم ہے۔ ان کشمیریوں سے کسی قسم کی غداری کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ میں حکومت اور حکمرانوں پر کوئی الزام نہیں لگا رہا۔ میرا دل یہ بھی نہیں مانتا کہ وہ سچ ہو گا جو مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کا سودا ہو چکا اور اسی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ نہیں ہو گی۔ البتہ میرا اعتراض حکومت کی پالیسی پر ہے جس کے بارے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ خوف اور ڈر پر مبنی ہے۔ 

ڈر اور خوف تو بھارت اور مودی کو ہونا چاہئے لیکن ہم کشمیر اور پاکستان پر اتنے بڑے بھارتی ظلم کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ انڈیا سے جنگ تو کوئی آپشن ہی نہیں اور یہ بھی کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے اُس وقت دیں گے جب بھارت آزاد کشمیر پر حملہ آور ہوا۔ جنگ یقیناً ایک آپشن ہے اور ہمیشہ رہتی ہے کیونکہ اس آپشن کے بغیر نہ بھارت کو ہماری بات سمجھ آئے گی اور نہ ہی اقوامِ عالم کو کشمیر کے مسئلہ کے حل میں کوئی دلچسپی ہو گی۔ میں پہلے بھی کہہ چکا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ جب تک بھارت کو تکلیف نہیں پہنچتی اُس وقت تک بھول جائیں کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکلے گا۔ اب یہ ہماری حکومت اور افواجِ پاکستان پر منحصر ہے کہ غور کریں کہ بھارت کو تکلیف کیسے پہنچائی جائے۔ کیا اس کا حل پاکستان کی طرف سے بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان ہے یا کوئی دوسرا طریقہ۔

گزشتہ چند روز کے دوران میں نے کچھ ریٹائرڈ جنرلز کو بھی حکومت کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے سنا، وہ بھی حیران ہیں کہ ہمیں خوف کس بات کا ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے ایک ٹاک شو کے دوران تجویز دی کہ ہمیں اپنی فوج کو اگلے مورچوں پر بھیج کر بھارت پر دبائو بڑھانا ہو گا۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ اُس پاکستانی فوج جس کا ماٹو ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ ہے، ہمیں بھارت کے ساتھ جہادِ کشمیر کے لیے تیار کرنا چاہئے۔ جو اپنی آخرت کو کمانے اور شہادت کے درجہ کے حصول کے لیے اپنے اللہ کی خاطر لڑتے ہیں، اُنہیں بھارت کیا دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی شکست نہیں دے سکتی اور یہ ہم افغانستان میں دیکھ بھی رہے ہیں۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

مسلم دنیا کس کا انتظار کر رہی ہے؟

آخر بھارت کیا چاہ رہا ہے، کیا خطے کو آگ و خون میں نہلانا چاہتا ہے۔ کیا گجرات میں کی گئی خون کی ہولی نے اس کو شانت نہیں کیا جو اب وہ عالمی سطح پر دنیا کو خون میں نہلانا چا ہ رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جس کے معنی بقال، بنیا، سود پر سودا بیچنے والا دکاندار لیکن یہ تمام صفات کا اس کی ذات میں فقدان ہے ہاں اگر مودی کے دال کو ذال سے بدل دیا جائے اور مودی کو موذی لکھا اور پڑھا جائے تو یہ لفظ نریندر پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے کیونکہ موذی کے معنی ایذا دینے والا، تکلیف پہنچانے والا، ستانے والا، جابر، ظالم، شریر بد ذات کے ہیں یہ ساری صفات نریندر جی پر صادق آتی ہیں موذی اور اس کی جماعت انتہا پسند ہندو جماعت ہے جو مسلمانوں کو کسی بھی طرح برداشت کرنے کو تیار نہیں ان کا بس نہیں چل رہا کہ خطے سے مسلمانوں کے وجود کو ختم کر دیں۔

اگر وہ بھارت میں جہاں اس کا راج ہے کرتے ہیں تو ہندو مسلم فساد برپا ہو سکتا ہے مسلمان تو مارا ہی جائے گا لیکن ہندو تو ابھی بچ نہیں سکے گا۔ اسی لیے ہندو دانش مندوں نے سوچ بچار کے بعد کشمیر کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا ہے سمجھ لیا ہے کہ کشمیری انتہائی ظلم و ستم کے باوجود اس تمام تر طویل عرصے میں اب تک کہیں بھی اسلحہ نہیں اٹھا سکے صرف پتھر لاٹھی اور نعروں سے کام چلا رہے ہیں جبکہ ان کے مد مقابل جدید ترین اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ افواج کھڑی ہے جس نے چاروں طرف سے ناکہ بندی اور کرفیو جیسے حربے استعمال کر رکھے ہیں۔ ان تمام تر حربوں کے باوجود جذبہ حریت سے لیس کشمیری عوام کسی بھی طرح قابو نہیں آرہے.

نریندر موذی ہر طرح کے ظلم و ستم اور فوج اور پولیس کے استعمال کے باوجود کسی طرح کشمیریوں کے جذبےحریت کو نہ دبا سکے نہ ان کا راستہ کھوٹا کر سکے یقیناً کشمیریوں کی جدوجہد مسلسل اور جذبہ آزادی حریت انہیں ان کی منزل سے ہر قدم پر قریب سے قریب تر کر رہا ہے اور پیاز کی پرتوں کی مانند نریندر موذی کی ایک ایک پرت بھی کھلتی چلی آرہی ہے۔ اگر یوں سمجھا جائے کہ یہ موذی قرب قیامت کے آثار میں سے ایک آثار ہے تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ قیامت کے قریب خلیجی حکمران بتوں کی طرف راغب ہونا شروع ہو جائیںگے کیا ایسا ہونا شروع نہیں ہو گیا

سعودی عرب نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ کھول لیا ہے قطر نے پہلے ہی یہ کام کر لیا تھا اب رہی سہی کسر متحدہ عرب امارات نے پوری کر دی امارات میں پہلا ہندو مندر بنا دیا گیا ہے جہاں ہندو آزادی سے اپنی مذہبی رسوم ادا کر سکتے ہیں اس ساری کارروائی میں عرب امارات کے مسلم حکمران پیش پیش رہے اور ان کی تمام تقریبات میں شریک ہیں۔ اس تمام کے بعد اب متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے نیا شگوفہ کھلایا ہے کہ نریندر موذی کو مسلمانوں کیخلاف ظالمانہ کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کا اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا ہے۔

اس کا مطلب و مقصد یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ موذی کی مسلمان دشمنی خصوصا کشمیر میں کئے جانے والے ظلم و ستم کو عرب ریاستیں جائز سمجھتی ہیں کیا ان ریاستی حکمرانوں سے بہتر حجاج بن یوسف نہیں تھا کہ جس نے ایک مسلمان قافلے کو لوٹنے پر اس میں قید کی گئی خاتون کی فریاد پر فوج کشی کا نہ صرف حکم دیا بلکہ دیبل کو فتح بھی کرا کر چھوڑا حجاز بن یوسف بھی اپنے زمانے کا جابر و ظالم حکمران کے طور پر مشہور ہے لیکن اس نے اپنی تمام تر کمزوریوں خرابیوں کے باوجود ایک مسلمان ہوتے ہوئے مسلمانوں کی بقا و حفاظت کی ذمہ داری پوری کی تھی اس نے کسی ہندو کو گلے نہیں لگایا تھا نہ ہی کسی اعزاز سے نوازا تھا تو وہ بھی عرب لیکن مسلمان تو تھا آج کے جدید دور میں اسلام برائے نام بھی نہیں نظر آتا دین پر مالی سیاسی، معاشی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے مذہب سے کہیں دور کا واسطہ نظر نہیں آتا۔

داعی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے تجارت بھی کی سیاست بھی کی جنگ و جدل بھی کی لیکن اپنے دعویٰ اسلام سے کہیں کمزور نہیں پڑے نہ کسی بھی طرح ذاتی یا اجتماعی مفادات کے لیے اسلام کو پس پشت ڈالا۔ آج ہم سنتے ہیں کہ ہم اب نام کے مسلمان رہ گئے ہیں کیا خلفائے راشدین کے نام قبل ازاسلام کچھ اور تھے اگر نام سے مسلمان ہونا شرط ہوتا تو اُن کے نام کچھ اور ہوتے ہمارے سارے کام یہود و نصاریٰ جیسے ہیں یا ان کے ما تحت ہو کر رہ گئے ہیں کیا ہم قرآن کے حکم کو بھول چکے ہیں کہ ”یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے“ اس کے باوجود ہم نے ان کے آگے سر تسلیم خم کر رکھا ہے اپنی تمام معاشی اقتصادی ضروریات کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی جگہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے آگے دست سوال پھیلائے رہتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی نریندر موذی کی۔ اسےکو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں باز پرس کرنے والا نہیں ۔ اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے باوجود اقوام عالم خاموش تماشائی بنی تماشا دیکھ رہی ہے۔ آخر مسلم دنیا کس کا انتظار کر رہی ہے اگر کہیں کشمیرکی آزادی کے حصول میں مسلمان کسی بھی طرح کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہی خاموش تماشائی اپنی خاموشی توڑ کر مسلمانوں کیخلاف اور ہندو تواکی حمایت میں لمبے لمبے بھاشن جھاڑنا شروع ہو جائیں گے پھر انہیں انسانیت مٹتی ظلم ہوتا نظر آنے لگے گا۔ اللہ پاکستان کی اور کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور کشمیریوں کو موذی کے چنگل سے آزادی نصیب کرے، آمین۔

مشتاق احمد قریشی

بشکریہ روزنامہ جنگ

بی جے پی کو انتخابی فتح مہنگی پڑ سکتی ہے

بھارتی حکومت نے اپنے خیال میں مسئلہ کشمیر حل کرتے ہو ئے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت 1947 میں الحاق کے بعد سے کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ ناقدین کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل تو دور کی بات آئینی شق کے خاتمے سے کشمیر بھارت کے دوسرے حصوں سے مزید کٹ کر رہ جائے گا۔ حقیقت میں جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بی جے پی حکومت نے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا ہے۔ بھارتی حکومت کے اقدام سے بھارت کا کشمیر پر دعویٰ کمزور ہو گا، کشمیریوں میں اشتعال پھیلے گا اور پہلے سے شورش کے شکار علاقے میں مزید کشیدگی پھیلے گی۔ 

انقلابی سیاسی اقدام سے کہیں دور آرٹیکل 370 کا خاتمہ ایک کھلے دروازے سے زور لگا کر گزرنے کے مترادف ہے۔ 1947 میں الحاق کے بعد سے وعدوں کے باوجود ہر بھارتی حکومت نے جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت مسلسل اور آہستہ آہستہ ختم کی۔ اپنی اصل شکل میں اس آرٹیکل کے تحت دفاع، خارجہ امور اور کرنسی کو چھوڑ کر ریاست کو مکمل خود مختاری حاصل تھی۔ نئی دہلی نے عملی طور پر اداروں کی خود مختاری کو کم کیا اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی عمل میں مداخلت کی، یہاں تک کہ اتحادی سیاستدانوں کے حق میں انتخابی دھاندلی کروائی گئی۔

نریندرمودی کی قیادت میں منتخب سیاستدانوں کی گرفتاری بہت خوفناک عمل ہے جو نہرو اور اندرا گاندھی کے دور حکومت میں سیاستدانوں کی بار بار کی گرفتاریوں سے ملتا جلتا ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں سے کشمیری اچھی طرح واقف ہیں۔ کشمیر کی کسی خصوصی حیثیت نے کبھی نئی دہلی میں بھارتی حکومتوں کو کشمیر میں مرضی کے مطابق مداخلت سے نہیں روکا۔ جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے سیاسی وعدوں کا کھوکھلا پن ابھر کر سامنے آ گیا ہے۔ آرٹیکل 370 ختم کر کے بی جے پی نے جموں اور کشمیر کے بھارت کیساتھ الحاق کی آئینی بنیاد کو کمزور کیا ہے۔ ایسا قومی اتحاد کے نام پر کیا گیا جو ایک ظالمانہ اقدام ہے۔

آرٹیکل 370 ختم ہونے سے بھارت کیخلاف معاندانہ رویے میں شدت آئے گی۔ نئے قانون کے تحت جموں اور کشمیر کو یونین کا علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ یونین کے علاقے کے طور پر یہ امکان ہے کہ اس کا نظام نئی دہلی سے براہ راست چلایا جائے گا اور دوسری بھارتی ریاستوں کے مقابلے میں اس کی قانون ساز اسمبلی کو کم اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس صورتحال نے جموں اور کشمیر کے لوگوں کو بھارتی حکومت کے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور وہ رکاوٹ ختم ہو گئی ہے جو سیاسی عہدے کیلئے آپس میں مقابلہ کرنیوالے ریاستی سیاستدان اب تک قائم کرتے آئے ہیں۔ اب عام کشمیریوں کی آنکھیں مزید کھل سکتی ہیں اور ممکن ہے کہ وہ اس بھارتی فوج کیخلاف ردعمل کا مظاہرہ کریں جسے قابض فوج خیال کیا جاتا ہے۔

اس بات کا امکان ہے کہ ہم تشدد اور لوگوں کی تکالیف میں اضافہ دیکھیں جن کا علاقے کی بہت سی برادریوں نے 1989 سے سامنا کیا ہے۔ بھارت کے پاکستان کیساتھ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ ایٹمی اسلحے سے لیس دونوں ملک 1947 میں آزادی کے بعد کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ پاکستان کشمیر پر بھارتی دعویٰ تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اب ممکن ہے کہ پاکستان اس دعوے کو کمزور کرنے کیلئے سفارتی اور نیم فوجی اقدامات میں اضافہ کر دے۔ ایسا ہوا تو علاقے میں مزید عدم استحکام پھیلے گا اور بی جے پی کی انتخابی فتح اسے مہنگی پڑ سکتی ہے۔

اندراجیت رائے

بشکریہ دی انڈیپنڈنٹ 

کشمیر میں بھارتی انتہا پسندانہ فیصلے، پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل کئے جانے کے بھارتی انتہا پسندانہ فیصلے اور اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے کئی وعدوں سے پھر جانے سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے پاس کون سے آپشنز ہیں؟ عالمی، دو طرفہ اور ملکی محاذوں پر لئے جانے والے تمام آپشنز کا واضح بنیادی مقصد نئی دہلی کو مقبوضہ کشمیر کے قبضے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ پاکستان کیلئے ایک رستہ اپنے دوست ممالک کو ساتھ ملانا ہے اور انہیں مشورہ دینا ہے کہ وہ بھارت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ وہ اپنے تشدد آمیز اقدام سے پیچھے ہٹے۔ وزیر اعظم عمران خان نے فوری طور پر ترکی اور ملائیشیا کے اعلیٰ رہنماؤں سے بات کر کے بالکل ٹھیک کیا جس میں انہیں صورتحال کی سنگینی کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

وزیر اعظم عمران خان کو تازہ ترین بھارتی حملے پر مسلمان ریاستوں کے ضمیر جگانے کیلئے محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں پر خصوصی توجی دیئے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ رہنما ان لاکھوں بھارتی ورکرز پر اچھا اثر رکھتے ہیں جو ان کے ملک میں کام کرتے ہیں اور ہر سال اپنے گھروں کو اربوں ڈالرز بھیجتے ہیں۔ اسلام آباد کے پاس ایک اور آپشن اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے بھارت کو شدت پسندگی سے باز رکھنے کیلئے غیرت دلانے کیلئے ایک پُر مقصد کردار ادا کرنے کیلئے قائل کرنا ہے۔

طارق بٹ

ہو سکتا ہے مو د ی کو پچھتانا پڑے

مایوسی کے اس ماحول میں بھارتی اقدام کیا کشمیریوں کیلئے اچھا ثابت ہو سکتا ہے ؟ درج ذیل چند وجوہات مودی کے اقدام پر بھارت کو ندامت سے دوچار کر سکتی ہیں۔

  اس اعلامیہ کو بھارتی عدالتیں کالعدم قرار دے سکتی ہیں جیسے کہ (الف) آئین ساز اسمبلی کی سفارش کے بغیر آرٹیکل 370 (3) کا استعمال غیر آئینی قرار دیا جا سکتا ہے، (ب) بھارتی عدالتیں پہلے سے آرٹیکل 370 کی حیثیت کو دائمی قرار دے چکی ہیں، (ج) جموں و کشمیر میں صدر راج کا نفاذ سپریم کورٹ کی طے کردہ کڑی شرائط کا تابع ہے، جن کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

  اعلامیہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدے کیخلاف ہونے کے باعث عالمی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔ صدر ٹرمپ نے حال ہی میں کشمیر میں دلچسپی کا اظہار کیا اور افغانستان کے باعث تمام ویٹو کا اختیار رکھنے والی طاقتیں پاکستان کیساتھ کھڑی ہیں۔ اعلامیہ کی ٹائمنگ بھی بھارت کیلئے بدترین ہے۔ مثلاً اگر چین اسے مثال بنا کر ہانگ کانگ کی خصوصی حیثیت ختم کرتا ہے، تو یہ صورتحال مغربی دنیا کیلئے سخت تشویشناک ہو گی۔

  اعلامیہ مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت کیساتھ الحاق کی دستاویز کے بنیادی نکات کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے، جس کی بنیاد پر کشمیری بھارت کیساتھ الحاق کا معاہدہ ختم کر سکتے ہیں۔ بھارت نے الحاق کی دستاویز کی عدالتی جانچ پڑتال سے گریز کیا، جو کہ اب ہو سکتی ہے۔

  اعلامیہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھارتی دعویٰ مکمل طور پر ختم کرتا ہے کیونکہ اعلامیہ میں ان علاقوں کا کوئی ذکر نہیں (یوں سی پیک پر بھارتی اعتراض بھی بے معنی ہو گیا ہے )۔ بھارت نے جموں و کشمیر پر جو کچھ کیا، پاکستان نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر وہ کچھ کرنے سے گریز کیا تاکہ جموں و کشمیر پر اس کا دعویٰ جانبدارانہ نہ ہو۔

   مقبوضہ جموں و کشمیر پر صدر راج کے نفاذ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ جیسے بھارتی چمچوں کو بھی مگر مچھ کے آنسو بہانے پر مجبور کر دیا۔ یہ مرحلہ کرو یا مر جاؤ کا ہے، اس کے نتیجے میں کشمیری حقیقی قیادت کیلئے حریت کانفرنس کی طرف دیکھنا شروع کر سکتے ہیں۔

  بھارت کا جمہوری چہرہ مکمل طور پر بے نقاب ہو گیا ہے، محض اس لئے نہیں کہ صدر راج کے قانونی جانچ پڑتال کی زد میں آنے کا امکان ہے۔

  70 سالوں سے جاری تعطل ختم ہو گیا ہے، اس سے مراد ہے کہ 1948 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ آئندہ دنوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

خرم رشید ایڈووکیٹ

بشکریہ دنیا نیوز

الوداع کشمیریو، ہم مصروف تھے

سب کچھ تو کر دکھایا لیکن انہیں اب بھی ترس نہ آیا۔ کشمیر کی حیثیت بدل دی۔ ہم اتنے بےتوقیر تو کبھی نہ تھے؟ انڈیا کو یہ سب کرنے کی ہمت کیوں ہوئی؟ گذشتہ دور حکومت میں بھارتی وزیر اعظم مودی کے پاس بھاری اکثریت نہیں تھی اس لیے وہ خواہش کے باوجود کشمیر پر کوئی بڑا ایڈونچر نہیں کر سکے۔ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی اور بھارت الیکشن کے بعد کشمیر کے حوالے سے پاکستانی پالیسی کیا رہی اور کیا ہوتا رہا، اس کا جائزہ لینے سے آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ بھارت کو کشمیر کے بارے میں اتنا بڑا فیصلہ کرنے کی جرات کیوں ہوئی۔ بھارتی پالیسی سازوں نے کیونکر یہ سمجھ لیا کہ اب پاکستان مسئلہ کشمیر سے کافی حد تک پیچھے ہٹ چکا ہے؟ بھارت کے ساتھ تعلقات اس کی مجبوری ہیں اور اب پاکستان کشمیر کے حوالے سے کچھ بھی کرنے سے باز رہے گا؟ ذرا جائزہ لیتے ہیں۔

عمران خان نے وزیر اعظم بنتے ہی مودی کو خط لکھا جس پر سرد مہری کا اظہار کیا گیا۔ اس کے باوجود مذاکرات کی بات کر دی گئی جس کی بھارتیوں کی جانب سے باقاعدہ تردید بھی کی گئی۔ الیکشن میں مودی کی جیت کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ مودی کی جیت کو مسئلہ کشمیر کا حل قرار دیا گیا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کی جیت پر مبارک باد دی۔ کرکٹر سدھو کو حلف برداری کی تقریب میں بلا کر آرمی چیف کے قریب ہونے، پیار کی جپھی ڈلوائی گئی۔ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کیا گیا جس کا مقصد بھارت میں پاکستان کا مثبت تاثر پیدا کرنا قرار دیا گیا۔ کرتارپور کوریڈور کے لیے ترلے کیے گئے۔ پوری پاکستانی قیادت اس تقریب میں شریک ہوئی جسے بھارت نے اپنی خوشامد سمجھ لیا۔

بار بار مذاکرات ملتوی کرنے کے باوجود پاکستان کی جانب سے مذاکرات جاری رکھنے پر زور دیا گیا۔ وزیر اعظم کی جانب سے یہ بات کی گئی کہ وہ بار بار بھارتی وزیر اعظم کو فون کر رہے ہیں لیکن رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن کیا گیا۔ حافظ سعید اور دیگر کو نظر بند کرنے کی بجائے پہلی مرتبہ باقاعدہ دہشت گردی کے مقدمات میں گرفتار کیا گیا۔ علی امین گنڈاپور جیسے شخص کو امورِ کشمیر کا وزیر بنا کر غیرسنجیدگی کا ثبوت دیا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی بات کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی اور یوں تاثر دیا گیا کہ جیسے اب مسئلہ کشمیر حل ہونے کو ہے اور ہماری ساری امید امریکی صدر سے وابستہ ہے۔ ہم نے تو یہ سب کر دکھایا لیکن بھارت ہمارے ہر اقدام کو کمزوری سمجھتا رہا۔

سب کچھ تو کر دکھایا لیکن انہیں اب بھی انہیں ترس نہ آیا۔ کشمیر کی حیثیت بدل دی۔ ہم اتنے بےتوقیر تو کبھی نہ تھے؟ انڈیا کو یہ سب کرنے کی ہمت کیوں ہوئی؟
دراصل ہم سیاست میں اتنے مصروف تھے، اندرونی سیاست میں، گرفتاریوں، جلسوں، گرما گرم بیانات اور الزام تراشیوں میں کہ کشمیر یاد نہ رہا۔ کشمیر کے حالات پر اور کنٹرول لائن پر نظر رکھنے کی بجائے سائبر ٹیمیں بنا کر سیاسی ٹرینڈز چلوائے جا رہے تھے۔ انہیں یقین ہو گیا کہ اب پاکستانی صرف ٹوئٹر پر جنگ لڑ سکتے ہیں۔ ان کی توجہ اب دفاع پر نہیں صرف آپس کی لڑائیوں پر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم کسی کو مورد الزام ٹھہرا دیں۔ کسی کی حب وطنی پر شک کریں۔

ایک ایسا ملک جس حکومت اور اپوزیشن باہم دست و گریبان ہو، ہر کوئی ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہا ہو، ادارے ویڈیوز جاری کر رہے ہوں یا کسی ویڈیوز کی وضاحت میں لگے ہوں، معیشت اس حد تک گر چکی ہو کہ سٹاک مارکیٹ 20 ہزار پوائنٹس کی تنزلی کا شکار ہو جائے، اہل اقتدار کے اقدامات سے ایسا لگے کہ ان کی اب ساری امید کسی بیرونی ریاست کے صدر کی ثالثی کی پیشکش ہے اور ہم ہر صورت اپنا مثبت تاثر پیش کرنے کے چکر میں سب کچھ بھول جائیں۔
اب پچھتانا کیا؟
ٹرمپ سے امیدیں لگانے والوں کو 71 یاد رکھنا چاہیے۔
الوداع کشمیریو، ہم مصروف تھے، ہم مصروف ہیں۔

محمد عاصم

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو