سمندر کی تہہ کے نیچے قائم چینل ٹنل انجینئرنگ کا شاہکار

برطانیہ اور فرانس کو انگلش چینل کے نیچے ایک 32 میل لمبی سرنگ ملاتی ہے۔جب دونوں ممالک نے فیصلہ کیا کہ برطانیہ اور فرانس کو ملانے کیلئے ایک سرنگ سمندر کی تہہ میں تیار کی جائے تو انجینئرز کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ نہ صرف یہ کہ انہیں دنیا کی طویل ترین سرنگوں میں سے ایک سرنگ تیار کرنی تھی بلکہ یہ بھی کہ اتنی لمبی سرنگ میں مسافر محفوظ رہیں۔ اس وقت سرنگوں میں آگ لگنے کے واقعات عام تھے۔ چناچہ اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ سرنگ کے ساتھ ایمرجنسی حالات میں باہر نکلنے کا بھی ایک راستہ تیار کیا گیا۔ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی ریل ٹنل ہے جو 1994ء میں مکمل ہوئی۔ سب سے زیادہ طویل سرنگ جاپان میں سیکن ٹنل کے نام سے موجود ہے۔ چینل ٹنل کو یورو ٹنل بھی کہا جاتا ہے، یہ تین سرنگیں ہیں ، دو ٹیوبز بڑے اور مکمل سائز کی ہیں جہاں سے ٹرین ٹریفک گزرتی ہے جبکہ ان دونوں ریل ٹیوبز کے درمیاں ایک چھوٹی سی ٹنل ہے جو ایمرجنسی میں باہر نکلنے کیلئے ہے۔

سرنگ میں کئی دوراہے بھی بنائے گئے ہیں جہاں سے ٹرینیں ایک ٹریک سے دوسرے ٹریک پر راستہ تبدیل کر سکتی ہیں۔ چینل ٹنل کا منصوبہ ایک بہت مہنگا منصوبہ تھا جس کیلئے خصوصی تیار کردہ ٹنل بورنگ مشینوں کو انگلش چینل سے سینکڑوں فٹ نیچے یہ طویل سرنگ کھودنے میں تین سال لگے۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان ایک مستقل راستہ بنانے کا منصوبہ متعدد بار پیش ہوا۔ نپولین بوناپارٹ کے دور حکومت میں 1802ء میں ایک سرنگ کی تجویز پیش کی گئی تھی جس میں ہوا کی گزرگاہ کے لئے چمنیاں بنائی جانے اور اسے گیس لیمپوں کے ذریعے روشن کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن اس وقت تکنیکی اعتبار سے یہ ڈیزائن ممکن نہ تھا۔1880ء کی دہائی میں ٹنل کے کچھ حصے بنائے گئے لیکن برطانوی فوج کے اس خدشے اور اعتراض کی بنا پر کہ اس کے ذریعے برطانیہ پر بیرونی حملہ آسان ہو جائے گا حکومت نے یہ منصوبہ ترک کر دیا۔

1974ء میں دوبارہ یہ منصوبہ شروع ہوا لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔ اس کے بعد جب برطانیہ ” کامن مارکیٹ‘‘ (سابقہ نام ” یورپی یونین‘‘) میں شامل ہوا تو ایک مستقل راستے کی ضرورت محسوس ہوئی چناچہ 1986ء میں برطانیہ اور فرانس کے ایک مشترکہ کنسورشیم ” یورو ٹنل‘‘ کو اس کی تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا گیا کہ وہ گاڑیوں کی ترسیل کیلئے ایک ریل شٹل سروس اور ایک مسافر ٹرین کیلئے سرنگیں تیار کرے، چناچہ 1994ء میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سمندر کی تہہ سے تقریبا ً150 فٹ نیچے واقع چینل ٹنل بیسویں صدی میں انجینئرنگ کا اہم ترین کارنامہ ہے۔ جب یہ منصوبہ شروع کیا گیا تو اس وقت یہ دنیا کا سب سے مہنگا تعمیراتی منصوبہ تھا جس کی تکمیل پر 21 ملین ڈالر لاگت آئی۔ یہ اخراجات گولڈن گیٹ برج کی تعمیر پر ہو نے والے اخراجات سے 700 گنا زیادہ تھے۔

اس چینل کی تعمیر کے لئے جو بورنگ مشینیں استعمال ہوئیں وہ خود فٹ بال کے دو گراؤنڈز کی لمبائی سے زیادہ تھیں اور روزانہ 250 فٹ بورنگ کر سکتی تھیں۔ چینل ٹنل 50 کلومیڑ لمبی ہے جس میں سے 39 کلومیٹر لمبی سرنگ سمندر کی تہہ کے نیچے ہے۔ پہلے پانچ سالوں میں یہاں سے گزرنے والی ٹرینوں سے 28 ملین مسافروں نے سفر کیا اور 12 ملین ٹن سے زیادہ سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا گیا۔ آج اس ٹنل میں سے ٹرینیں 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گزرتی ہیں جنہیں ایک سرے سے دوسرے سرے تک سرنگ پار کرنے میں صرف 20 منٹ لگتے ہیں۔ اس چینل کے افتتاح کے صرف ایک سال بعد ہی یہاں پہلا حادثہ پیش آیا جب فرانس سے آنے والی ٹرین میں آگ لگ گئی اور 31 مسافر یہاں پھنس گئے لیکن سروس (ایمر جنسی) ٹنل کی وجہ سے تمام لوگ بحفاظت یہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

عبدالوحید

بشکریہ دنیا نیوز

کرونا وائرس کی نئی قسم میں نیا کیا ہے؟

کرونا وائرس کی نئی قسم کے بارے میں عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کہنا ہے کہ انہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حالیہ دنوں میں رپورٹ ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم زیادہ مہلک یا تیزی سے پھیلنا والا وائرس ہے۔ کرونا وائرس کی نئی قسم کے کیسز برطانیہ کے جنوبی حصے اور دارالحکومت لندن سے رپورٹ ہوئے تھے جس کے بعد متعدد ممالک نے برطانیہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔ برطانیہ میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی شکل جسے ‘وی یو آئی 202012/01’ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی تشخیص جنوبی برطانیہ کی کاؤنٹی کینٹ میں رواں ماہ 13 دسمبر ہوئی تھی۔ ابتدائی اندازوں میں سائنس دان یہ اندیشہ ظاہر کر رہے تھے کہ وی یو آئی پہلے سے موجود کرونا وائرس کے مقابلے میں 70 فی صد تیزی سے پھیلتا ہے۔ برطانیہ کے علاوہ جنوبی افریقہ میں بھی کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کی تشخیص ہوئی ہے۔ تاہم عالمی ادارۂ صحت کے مطابق برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے رپورٹ کیے جانے والے وائرس کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کی تیکنیکی امور کی سربراہ ماریا وین کرخوو کے مطابق دونوں ممالک میں سامنے آنے والے وائرس میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ ایک وقت میں سامنے آئے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس نئی قسم کے 9 کیسز ڈنمارک جب کہ ایک، ایک نیدرلینڈ اور آسٹریلیا میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہینم گیبراسس کا کہنا ہے کہ وہ سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کس طرح سے جینیاتی تبدیلیاں کرونا وائرس پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔  دریں اثنا میں ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ ایمرجنسی پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا ہے کہ اس وقت تک اس بارے میں شواہد موجود نہیں ہیں کہ یہ وائرس اپنی شدت میں تبدیلی لائے گا۔ اُن کے بقول تشخیص اور ویکسین کے معیار پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں۔

کرونا کی نئی قسم کیا زیادہ مہلک ہے؟
برطانیہ سے رپورٹ کیے جانے والے وی یو آئی میں کرونا وائرس کے مقابلے میں لگ بھگ 23 تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ جن میں پروٹین میں اضافہ بھی شامل ہے جو کہ وائرس کے انسانی جسم میں داخل ہونے اور پھیلانے کا سبب ہے۔ برطانیہ کے وزیرِ صحت میٹ ہان کوک کا گزشتہ ہفتے کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ جنوب مشرقی برطانیہ اور لندن میں وی یو آئی کی وجہ سے کرونا وائرس زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہو۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے بقول ہو سکتا ہے کہ وی یو آئی حال ہی میں منظور ہونے والی ویکسین کے خلاف مزاحمت کرے۔ برطانیہ کے چیف میڈیکل افسر کرس وٹی کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وی یو آئی کی وجہ سے زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں۔ ان کے بقول اس بارے میں تحقیق جاری ہے۔

ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کار آمد ہو گی؟
برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ پتا لگانے میں کہ کرونا ویکسین، وی یو آئی کے خلاف بھی مؤثر ہو گی یا نہیں، تحقیق میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔  تاہم وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ پُر امید ہیں کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم ویکسین کی افادیت کو کم نہیں کرے گی۔ جو کہ جسم میں اینٹی باڈیز بنانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔

کرونا کی نئی قسم سے بچوں کو کتنا خطرہ ہے؟
برطانوی خبر رساں ‘رائٹرز’ کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم سے بچوں کے بھی اتنے ہی متاثر ہونے کے خدشات ہیں جتنے کہ بڑی عمر کے افراد ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کرونا وائرس کی ابتدائی قسم سے بڑی عمر کے افراد، بچوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ برطانیہ میں اس نئے وائرس پر تحقیق کرنے والے ادارے ‘نر وی ٹیگ’ سے منسلک اور امپیریل کالج لندن سے وابستہ نیل فرگوسن کا کہنا ہے کہ یہ خدشات موجود ہیں کہ وائرس سے بچوں کے متاثر ہونے کی شرح زیادہ ہو۔ نری وی ٹیگ سے ہی منسلک وینڈی بارکلے کا کہنا ہے کہ یہ وائرس سامنے آنے کے بعد خدشہ ہے کہ اس سے زیادہ بچے متاثر ہوں گے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کو کیسے لوٹا ؟

بہت برس گزرے، استاذی رضی عابدی ہمیں چارلس ڈکنز کا ناول ہارڈ ٹائمز پڑھا رہے تھے۔ یہ ناول انیسویں صدی کے انگلستان میں کوئلے کے کان کنوں کی زندگیاں بیان کرتا ہے۔ ناول میں ایک مزدور میاں بیوی کی گھریلو توتکار کا تفصیلی بیان پڑھتے ہوئے ایک طالب علم نے کہا کہ ان دو کو لڑنے جھگڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں؟ عابدی صاحب نے مسکرا کر کہا کہ ’’چھوٹے گھروں کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ سارا وقت ایک دوسرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑے گھروں میں رہنے والے اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں۔‘‘ اس کاٹ دار مشاہدے سے اچانک بچپن کی ایک یاد روشن ہو گئی۔ ہمارے قصبے کے اکثر مرد، نوجوان اور بوڑھے، زیادہ وقت گھر سے باہر گلی کے نکڑ یا کسی دکان کے تھڑے پر بیٹھے نظر آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ گھروں میں اتنی جگہ ہی نہیں تھی کہ غربت سے برآمد ہونے والی تلخی اوجھل ہو سکے۔

انتظار حسین کا افسانہ ’’قیوما کی دکان‘‘ تو اب ہماری اجتماعی یاد داشت کا حصہ بن چکا۔ یہ صرف چھوٹے گھروں کا المیہ نہیں، قوموں پر بھی ایسا وقت آتا ہے جب والٹیئر کو تخیلاتی قصبوں اور زمانوں کے قصے سنانا پڑتے ہیں یا میلان کنڈیرا کو پراگ سے نکل کر پیرس میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ بفضل خدا، ہم ایک آزاد اور جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں دستور اور قانون کی بالادستی قومی شعار ہے۔ صحافی کسی بھی حکمران کی بدعنوانی بے نقاب کرنے میں آزاد ہیں۔ سیاسی کارکن بلاخوف جمہوری مکالمے میں حصہ لیتے ہیں۔ ہمیں افسانوی کرداروں اور فرضی زمینوں سے غرض نہیں۔ ہمیں ٹھوس تاریخی حقائق اور زمینی حقیقتوں کے بارے میں تحریر و تقریر کی مکمل آزادی ہے۔ آئیے دیکھیں کہ 1765ء سے 1858ء تک ایسٹ انڈیا کمپنی نے کس طرح ہندوستان کا معاشی استحصال کیا اور پھر اگلے نوے برس میں تاج برطانیہ نے اس لوٹ مار میں کیا اختراعات پیدا کیں۔

حالیہ برسوں میں برطانوی تاریخ دان لکھتے ہیں کہ برطانیہ نے ہندوستان کی حفاظت اور ترقی کا فرض محض انسانی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کیا۔ مغربی دانشوروں پر جانبداری اور یک طرفہ دلائل کا جو اعتراض کیا جاتا ہے، ششی تھرور پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان مصنفین نے اپنا مقدمہ جیتنے کے لئے حقائق کا من مانا انتخاب کیا ہے۔ تاہم 2018 میں ممتاز ماہر معاشیات اوشا پٹنائیک نے کولمبیا یونیورسٹی سے ایک زبردست تحقیق شائع کی جس میں 1765 سے 1938 تک ٹیکس اور تجارت کے تفصیلی اعداد و شمار کی مدد سے ثابت کیا کہ برطانیہ نے 173 برس کے عرصے میں ہندوستان سے 45 کھرب ڈالر کی لوٹ مار کی۔ یہ رقم برطانیہ کی موجودہ کل داخلی پیداوار سے بھی 17 گنا زیادہ ہے۔ اوشا پٹنائیک نے سیاسی اور سماجی زاویوں کی بجائے خالص معاشی تجزیے کی مدد سے اس وسیع پیمانے پر استحصال کے قانونی اور تجارتی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا۔

اٹھارہویں صدی کے پہلے نصف میں برطانوی تاجر ہندوستانی باشندوں سے چاندی کے سکوں کے عوض کپاس اور چاول خریدتے تھے۔ 1757ء میں جنگ پلاسی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان سے مالیہ اور محصولات کے نظام کی مدد سے تجارت پر اجارہ داری قائم کر لی۔ طریقہ کار یہ تھا کہ ہندوستانیوں سے وصول کردہ محصولات کا قریب ایک تہائی ہندوستانی مصنوعات کی خریداری پر صرف کیا جاتا تھا۔ گویا ہندوستانی محصولات کی صورت میں جو رقم ادا کرتے تھے، اسی کے ایک تہائی کے بدلے اپنی مصنوعات بیچنے پر مجبور تھے۔ 1858 میں تاج برطانیہ نے ہندوستان پر عمل داری قائم کر کے ایک نیا ہتھکنڈہ متعارف کروایا۔ ہندوستانیوں کو اپنی مصنوعات غیر برطانوی تاجروں کو بیچنے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم اس خریداری کے لئے لندن میں خصوصی کرنسی نوٹ جاری کئے جاتے تھے جنہیں غیر برطانوی تاجر سونے اور چاندی کے عوض خریدتے تھے۔

ہندوستانی تاجر یہ کرنسی نوٹ برطانوی حکومت کو واپس بیچتے تو انہیں ہندوستانی روپوں میں قیمت ادا کی جاتی۔ یہ روپے ہندوستانی باشندوں کے ادا کردہ محصولات ہی ہوتے تھے۔ اس طرح ہندوستان کی پوری پیداوار سونے اور چاندی کی شکل میں لندن سرکار کے پاس پہنچ جاتی تھی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں ہندوستان زبردست تجارتی منافع کے باوجود کاغذ پر خسارے میں چل رہا تھا کیونکہ اصل منافع کی رسد تو لندن کے لئے بندھی تھی۔ الٹا یہ کہ اس مصنوعی خسارے کے باعث ہندوستان کو برطانیہ سے قرض لینا پڑتا تھا۔ اس لوٹ مار سے برطانیہ نے چین اور دوسرے ممالک میں جنگیں لڑیں جن کے اخراجات بھی ہندوستانی محصولات سے ادا کئے جاتے تھے۔ ہندوستان سے لوٹی اسی دولت سے کینیڈا اور آسٹریلیا کی یورپی نوآبادیوں میں سرمایہ کاری کی گئی۔ برطانیہ بہادر نے محتاط اندازے کے مطابق پونے دو سو برس میں ہندوستان سے 44.6 کھرب ڈالر کی لوٹ مار کی۔ اس دوران میں ہندوستانیوں کی فی کس آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ 1920 تک ہندوستانیوں کی متوقع عمر میں 20 فیصد کمی واقع ہو چکی تھی کیونکہ سامراجی پالیسیوں سے بار بار قحط پیدا ہوتا تھا۔ خدا نہ کرے کہ کوئی قوم قبضہ گیری اور اجارے کا شکار ہو۔

وجاہت مسعود

بشکریہ روزنامہ جنگ

William and Kate enjoy colourful welcome in Pakistan

Prince William and and wife Catherine highlighted the UK’s ‘unique bonds’ with Pakistan during a five-day visit to the South Asian nation, the first trip by a British royal family member in more than a decade. Britain’s Prince William and his wife Kate are traveling to Pakistan’s scenic northern mountains and glaciers, drawing attention to the challenges of climate change in the South Asian nation. The Duke and Duchess of Cambridge flew to the city of Chitral on Wednesday morning. According to Britain’s Press Association, Prince William made a speech at a cultural event in the capital of Islamabad the previous day, saying he will visit Chitral to see some of the impacts of climate change – including a melting glacier – as well as meet with local communities faced with the impact of a damaged environment.
Prince William and Catherine pose for a group photo with staff and students at a school in Islamabad, October 15. While visiting the school a 14-year-old student told William she and other students were “big fans” of Princess Diana, who died in a car crash in 1997. “Oh that’s very sweet of you. I was a big fan of my mother too,” he replied.

پاکستانی بس ڈرائیور کا بیٹا برطانوی وزیر اعظم ؟

برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید برطانوی وزارت عظمٰی کی دوڑ میں شریک ہونے والے نویں امیدوار بن گئے۔ ساجد جاوید نے بھی بریگزٹ پر ڈلیور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ساجد جاوید کے والد پاکستان سے منتقل ہو کر برطانیہ میں بسے تھے اور بس ڈرائیور کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے الیکشن میں تھریسا مے کے کنزرویٹو ارکان کو جس سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے حوالے سے ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ نئے پارٹی لیڈر کو ووٹرز کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ ایک ٹوئیٹ میں وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ شب کے نتائج نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جمہوریت میں نئے اور بھرپور اعتماد کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے ہمیں بریگزٹ کے معاملے میں ڈلیور کرنا ہی ہو گا۔ 

ان کا مزید کہنا ہے کہ ہمیں کمیونٹیز کے زخم مندمل کرنے کے لیے خلیجیں پاٹنا ہوں گی اور ایک متحدہ بادشاہت کی حیثیت سے اپنی مشترکہ اقدار نہیں بھولنی چاہئیں۔ ساجد جاوید نے پارٹی کی قیادت کے متوقع امیدواروں کی اس بات میں شرکت گوارا نہیں کی کہ وہ برطانیہ کو یورپی یونین سے نئی ڈیڈ لائن 31 اکتوبر تک ڈیل کے ساتھ یا بغیر نکال لیں گے۔ کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کی دوڑ میں شریک (بشمول سابق وزیر خارجہ بورس جانسن) امیدواروں نے کہا ہے کہ وہ یورپی یونین سے برطانیہ کو کسی ڈیل کے بغیر بھی نکالنے کے لیے تیار ہیں گوکہ اس صورت میں ملک کو شدید نوعیت کی معاشی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

یورپی پارلیمنٹ کے حالیہ الیکشن میں نائجل فیریج کی اینٹی یوروپین بریگزٹ پارٹی کی مضبوط کارکردگی نے تھریسا مے کی پارٹی کو دائیں بازو کی طرف مزید دھکیل دیا ہے۔ نائجل فیریج کی کامیابی بریگزٹ ڈیل 28 مارچ کی ڈیڈ لائن کے مطابق مکمل کرنے میں ناکامی اور برسلز سے ڈیل کو پارلیمنٹ میں تین بار مسترد کیے جانے کے حوالے سے کنزرویٹو ووٹرز کی شدید ناراضی کی مظہر ہے۔ کنزر ویٹوز نے صرف 9 فیصد ووٹ حاصل کیے جو 1832 ء کے بعد ان کی سب سے بری کارکردگی ہے۔ نائجل فیریج کی پارٹی نے کم و بیش 32 فیصد ووٹ لیے اور اب برسلز سے مذاکرات کی میز پر نشست کا مطالبہ کر رہی ہے ۔ 49 سالہ ساجد جاوید سوشل میڈیا کے ذریعے امیدواری کا اعلان کرنے والے پہلے امیدوار ہیں۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ اس دوڑ میں مضبوط امیدوار ثابت ہوں گے۔

بشکریہ دنیا نیوز

برٹش ائیر ویز کا پاکستان کے لیے پروازیں بحال کرنے کا اعلان

برطانیہ نے اسلام آباد سے لندن کے لیے برٹش ائیر ویز کی پروازیں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران برٹش ایئر ویز نے 10 سال بعد پاکستان میں پروازیں بحال کرنے کا اعلان کیا، اس موقع پر قائم مقام برطانوی ہائی کمشنررچرڈ کراؤڈر، وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد اور معاون خصوصی زلفی بخاری بھی موجود تھے۔ نمائندہ برٹش ایئر ویز نے کہا کہ پاکستان کی ثقافت بہت مشہور ہے اور یہ خوبصورت ملک ہے، پاکستان میں سیکیورٹی صورت حال بہتر ہونے پر کمپنی نے فلائٹ آپریشن بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ برٹش ایئرویز اسلام آباد سے ہیتھرو ایئر پورٹ فلائٹ آپریٹ کرے گی، لندن سے اسلام آباد ہفتہ وار تین پروازیں چلائی جائیں گی۔ فلائٹ آپریشن آئندہ سال جون سے شروع ہو گا اور دو طرفہ ٹکٹ 499 پاؤنڈ میں دستیاب ہو گا۔

اس موقع پرقائم مقام برطانوی ہائی کمشنر رچرڈ کراؤڈر نے کہا کہ برطانیہ پاکستان میں تیسرا بڑا سرمایہ کار ہے، دونوں ممالک کے تعلقات بہت خاص ہیں، برطانیہ میں 15 لاکھ لوگوں کی آبائی جڑیں پاکستان میں ہیں، پاک فوج اورعوام نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں، پاکستان میں سیکیورٹی صورتحال بہت بہتر ہے، پاکستان کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے کہا کہ برٹش ایئرویز کی جانب سے پاکستان کے لیے پروازیں دوبارہ بحال کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کا رابطہ دنیا بھر سے قائم رہے۔

پاک فوج کا خیر مقدم
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے برٹش ایئر ویز کا فلائٹ آپریشن بحال ہونے پر سوشل میڈیا پر ”ہمیں آگے ہی جانا ہے” کے ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ برٹش ایئرویز کا پاکستان میں فلائٹ آپریشن بحال کرنے کا شکریہ، قوم اور سیکیورٹی فورسز کی 10 سالہ جدوجہد کے فوائد سامنے آنے لگے۔

برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے خلاف پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو گئی۔ اُن کے حق میں 200 اور مخالفت میں 117 ووٹ پڑے۔ تھریسا مے کے خلاف اُن کی اپنی جماعت ‘کنزرویٹو پارٹی’ کے ارکانِ پارلیمان نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تھی۔ وزیرِ اعظم مے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ایسے وقت پیش کی گئی تھی جب وہ یورپی رہنماؤں کو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے بارے میں طے شدہ معاہدے پر نظرِ ثانی پر قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ تھریسا مے کی اپنی ہی جماعت کے کئی رہنما ‘بریگزٹ’ سے متعلق اس معاہدے کو مسترد کر چکے ہیں جس پر یورپی یونین کی قیادت اور وزیرِ اعظم مے نے کئی ماہ کی کوششوں اور مذاکرات کے بعد گزشتہ ماہ اتفاق کیا تھا۔

مذکورہ معاہدہ برطانوی پارلیمان کی منظوری سے مشروط ہے۔ لیکن اپنی ہی پارٹی کے ارکان کی شدید مخالفت کے بعد وزیرِ اعظم مے کو اس معاہدے پر پارلیمان میں ہونے والی رائے شماری عین وقت پر ملتوی کرنا پڑی تھی۔ تھریسا مے کے مخالف کنزرویٹو ارکان گزشتہ کئی ہفتوں سے ان کے خلاف پارٹی کے اندر عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن انہیں مطلوبہ ارکان کی اکثریت حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ حکمران جماعت کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین گراہم بریڈی نے اعلان کیا تھا کہ وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کل ارکان کے 15 فی صد کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔

گراہم بریڈی نے بتایا کہ انہیں عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں 48 ارکان کے خطوط مل گئے ہیں جس کے بعد انہوں نے اس بارے میں وزیرِ اعظم کو مطلع کر دیا ہے۔ تھریسا مے کی جماعت کے برطانوی پارلیمان کے ایوانِ عام میں 315 ارکان ہیں جن میں سے اگر 158 نے ان کی قیادت پر عدم اعتماد کیا ہوتا تو انہیں پارٹی کی قیادت چھوڑنا پڑتی۔ پارٹی کی قیادت چھوڑنے کے ساتھ ہی انہیں وزارتِ عظمیٰ سے بھی الگ ہونا پڑتا، چوں کہ کنزرویٹو پارٹی برطانوی پارلیمان کے 650 رکنی ایوانِ عام کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ لہذا پارٹی کا قائد ہی وزیرِ اعظم بننے کا اہل ہے۔ وزیرِاعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ایسے وقت پیش کی گئی تھی جب برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی میں چار ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔

برطانیہ 29 مارچ 2019ء کو یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا اور اگر اس سے قبل دونوں کے درمیان کوئی معاہدہ طے نہ پایا تو اس علیحدگی کے برطانوی معیشت پر بہت برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ بریگزٹ کے حامی کنزرویٹو ارکان کا موقف ہے کہ وزیرِ اعظم نے یورپی یونین کے ساتھ ایک انتہائی خراب معاہدہ کیا ہے جب کہ بریگزٹ کے مخالفین بھی وزیرِاعظم پر اسی قسم کے الزامات لگاتے ہیں۔ تھریسا مے کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے یورپی یونین کے ساتھ ہر ممکن حد تک بہتر معاہدہ کیا ہے جس میں برطانیہ کے بیشتر مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات کی نوعیت برطانوی سیاست خصوصاً کنزرویٹو پارٹی میں ہر دور میں متنازع مسئلہ رہا ہے اور یہی تنازع ماضی میں کنزرویٹو پارٹی کے تین سابق وزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون، جان میجر اور مارگریٹ تھیچر کے زوال کا سبب بنا تھا۔ وزیرِ اعظم کی قیادت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے اعلان کے بعد ان کی کابینہ کے کئی وزرا نے اس اقدام پر تنقید کی ہے اور وزیرِ اعظم کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔

بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں تارکین وطن کا کیا بنے گا ؟

’ونڈ رش اسکینڈل‘ میں کئی تارکین وطن کو غلط طریقے سے ملک بدر کیے جانے کے بعد برطانوی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا رہا۔ برطانیہ میں یہ بحث بھی زور پکڑ رہی ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانوی امیگریشن پالیسی کے خدوخال کیسے ہوں گے۔ سن 1948 میں دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ نے ویسٹ انڈیز سے کئی ’گیسٹ ورکرز‘ بلائے تھے۔ کئی دہائیوں سے برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم ان مہمان مزدوروں کے اہل خانہ کو ملک بدر کیے جانے کے بعد لندن حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعد ازاں برطانیہ نے ’ونڈ رش اسکینڈل‘ سے متاثر افراد سے معذرت کرتے ہوئے انہیں برطانوی پاسپورٹ جاری کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

’معاندانہ ماحول‘ کا ایجنڈا
مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’مائگرینٹ وائس‘ سے تعلق رکھنے والے نازک رمضان سمیت کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ونڈ رش اسکینڈل برطانوی حکومت کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف روا رکھے گئے ’معاندانہ ماحول‘ کا نتیجہ ہے۔ رمضان کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی سن 2013 میں اختیار کی گئی تھی اور اس وقت موجودہ وزیر اعظم ٹریزا مے ملکی وزیر داخلہ تھیں۔ تب انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ تارکین وطن کے خلاف اس سخت پالیسی کا مقصد ’غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف انتہائی مشکل ماحول پیدا کرنا ہے‘۔

یورپی یونین سے اخراج اور مہاجرت
یورپی یونین سے برطانوی اخراج کا عمل انتیس مارچ سن 2019 تک مکمل ہو جائے گا۔ بریگزٹ کے حامیوں کی خواہش ہے کہ لندن حکومت مہاجرت کے خلاف مزید سخت پالیسی اپنائے۔ دوسری جانب کاروباری حلقوں کو خطرہ ہے کہ ہنرمند تارکین وطن کو ملازمتیں فراہم کرنے میں مشکلات کے باعث ان کے کاروبار متاثر ہوں گے۔ مہاجرت سے متعلق برطانوی وزیر کیرولین نوکس کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کے بعد کے دور کے لیے نئی امیگریشن پالیسی کا اعلان رواں برس موسم خزاں میں کر دیا جائے گا۔

‘صورت حال ویسی ہی رہے گی‘
بریگزٹ سے سب سے زیادہ متاثر برطانیہ میں مقیم یورپی یونین کے شہری ہوں گے جب کہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن پر بریگزٹ کے براہ راست اثرات مرتب ہونے کے امکانات کم ہی ہیں۔

کتنے پاکستانیوں کو یورپ سے نکال دیا گیا؟
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ مہاجرت کے امور کے ماہر پروفیسر الیگزنڈر بیٹس بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔

ان کے مطابق برطانیہ پہلے ہی آزادانہ نقل و حرکت کے یورپی خطے، یعنی شینگن، کا حصہ نہیں تھا۔ اسی وجہ سے برطانیہ گزشتہ برسوں کے دوران یورپ میں مہاجرین کے بحران سے بھی دیگر یورپی ممالک کی نسبت بہت کم متاثر ہوا تھا۔ پناہ گزینوں کی زیادہ تعداد فرانسیسی ساحلی شہر کیلے میں چینل ٹنل کے راستے فرانس سے برطانیہ پہنچی تھی۔ برطانیہ اور فرانس کے مابین ایک تازہ معاہدے کے مطابق چینل ٹنل پر سکیورٹی انتظامات بڑھائے جا رہے ہیں اور برطانیہ فرانسیسی سرزمین پر ہی بارڈر کنٹرول کر رہا ہے۔ یہ معاہدہ فرانس اور برطانیہ کے مابین ہے اور یہ بھی بریگزٹ سے متاثر نہیں ہو گا۔

عالمی قوانین کی پاسداری، لیکن پالیسی سخت
برطانیہ یورپی یونین میں مہاجرین کی تقسیم کے منصوبہ کا حصہ بھی نہیں بنا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کے ساتھ معاہدے کے تحت برطانیہ نے سن 2020 تک بیس ہزار شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اسی طرح کم عمر تارکین وطن کو پناہ دینے کے بارے میں بھی برطانیہ اسی عالمی ادارے کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ اسی طرح برطانیہ مہاجرین کو تحفظ فراہم کرنے کے عالمی معاہدوں کی پاسداری بریگزٹ کے بعد بھی جاری رکھے گا۔ تاہم رمضان اور پرفیسر بیٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر یورپی پناہ گزینوں پر بریگزٹ کے بلواسطہ اثرات ضرور مرتب ہو سکتے ہیں۔ دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ امکان یہی ہے کہ یورپی یونین سے اخراج کے بعد برطانوی امیگریشن پالیسی مزید سخت کر دی جائے گی۔

برطانیہ میں سیاسی پناہ سے متعلق اعداد و شمار
برطانیہ کے وفاقی دفتر شماریات کے مطابق ستمبر 2017ء سے قبل کے بارہ ماہ کے دوران ’نیٹ امیگریشن‘ دو لاکھ چوالیس ہزار رہی۔ یہ تعداد اس سے گزشتہ عرصے کے مقابلے میں تو کم ہے لیکن لندن حکومت کا ہدف تھا کہ اسے ایک لاکھ تک محدود کر دیا جائے۔ سن 2017 میں پندرہ ہزار سے زائد افراد کو مختلف حیثیتوں میں پناہ دی گئی۔ پانچ ہزار سے زائد افراد کو فیملی ری یونین ویزے بھی دیے گئے جو کہ اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم تھے۔
اس ادارے کے مطابق گزشتہ برس برطانیہ میں تینتیس ہزار سے زائد افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، اس کے مقابلے میں اس دوران جرمنی میں دو لاکھ، اٹلی میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب اور فرانس میں ایک لاکھ افراد نے پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ برطانیہ میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر افراد کا تعلق ایران، پاکستان اور عراق سے تھا۔

 (ماریون میک گریگر- انفو مائگرینٹس)

بشکریہ DW اردو

لندن نے قتل کے واقعات میں نیویارک کو پیچھے چھوڑ دیا

برطانیہ میں جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، برطانوی میڈیا کے مطابق لندن میں ہونے والے قتل کے واقعات نے نیویارک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ برطانوی وزیر داخلہ ایمبررڈ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ برطانوی حکومت نے جرائم کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جرائم پر قابو پانے کے لیے نئے فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، حکومت جرائم پر قابو پانے کے لیے ہرممکن اقدام اٹھائے گی۔ ایمبر رڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے فنڈ میں ساڑھے 6 ارب روپے کی مساوی رقم رکھی گئی ہے، اس فنڈ سے سیکیورٹی فورسز کو اپنا کام بہتر انداز میں کرنے میں مدد ملے گی۔

جاسوسی دنیا کا معروف کردار شیرلک ہومز : دلچسپ حقائق

جاسوسی دنیا کے معروف کردار شیرلک ہوم کے نام سے کون واقف نہیں ۔19ویں صدی کے اس کردار نے جاسوسی دنیا ہی نہیں بلکہ حقیقی دنیا میں بھی کئی نئی جدتوں کو جنم دیا۔ ادبی دنیا کا یہ تخلیقی کردار سائنسی دنیا میں کئی ایجادات کا بانی ٹھہرا۔ آج ایسی ہی دلچسپ حقیقتوں سے ہم آپ کو آگاہ کرتے ہیں شیرلک ہومز کا مصنف آرتھر کونل ڈائل ملکہ برطانیہ کے فیملی فزیشن ڈاکٹر جوزف بل کی صلاحیتوں کا معترف تھا۔ وہ دور جوانی میں بے روزگار تھا اور نوکری کی تلاش میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر جوزف کے کلینک کا ر خ کیا ڈاکٹر جوزف نے آرتھرکارنل کو کلرک بھرتی کر لیا.

اس معروف مصنف نے چند سال کلرکی میں گزار دئیے۔ تخلیقی صلاحیتوں کا مالک تھا ڈاکٹر جوزف کو کام کرتے دیکھتا اس میں ایک عجیب طرح کی پراسرایت پائی جاتی تھی بس اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے آرتھر کونل نے شرلک ہوم کا مایہ ناز ناول تخلیق کیا۔ جاسوسی ناول سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے ڈاکٹر جوزف ایک مایہ ناز کردار ہے۔ مگر ایسا نہ تھا ڈاکٹر جوزف درحقیقت ڈاکٹر تھا۔ جاسوسی دنیا سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا ہاں البتہ وہ اپنے مریضوں کے علاج کے لیے ان کی زندگی کے ہر پہلو کو پرکھتا تاکہ دوائیں بیماری کو بہتر طور پر ٹھیک کر سکیں ۔ شیرلک ہوم کا کردار ٹاپ لین کا سرجن ، یونیورسٹی آف اینڈریرا کا لیکچرار تھا۔

آرتھر کانل ڈائل نے کئی مرتبہ ڈاکٹر کو بتایا کہ اس کے پراسرار جاسوسی ناول کا محل و مرکز وہی ہے یہ ڈاکٹر اس سے بے انتہا متاثر تھا۔ آرتھر کونل ڈائل کا تشویش کار ڈاکٹر بیل کبھی کسی تفتیش میں نہیں پڑا۔ کئی مرتبہ لوگوں نے اس سے رابطہ کیا ۔ برطانیہ کی تاریخ کے معروف قتل سیریل کلر جارج بی ریٹر کا کھوج لگانے کے لیے بھی سکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس نے ڈاکٹر بل سے رجوع کیا۔ شیرلک ہومز کے تخلیق کار آرتھر کونل ڈائل سے بھی مدد مانگی گئی۔ جیک بی روٹر اپنے زمانے کا خوفناک سیریل کلر تھا جس نے تھوڑے ہی عرصے میں 7-8 افراد کا خون کر کے پورے برطانیہ میں دہشت طاری کر دی تھی۔

ڈاکٹر بل شیرلک ہومز پڑھتے پڑھتے جاسوس بن چکا تھا اور اس نے اس کیس پر 7 روز دن رات کام کیا۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے لیے اس کی مرتب کر دہ رپورٹ آج بھی آرکائیو میں کہیں محفوظ ہو گی۔ وہ جیک دی ریپر کی شخصیت کے عین مطابق تھا۔ شیرلک ہومز میں آرتھر کانل ڈائل نے اپنے لیے بھی ایک کردار چن رکھا تھا۔ وہ واٹسن تھا۔ اور ڈاکٹر بل کی ماتحتی میں اسی کی وارڈ میں کام کر رہا تھا۔ ڈاکٹر بل نے بھی اس کی ہر لمحہ حوصلہ افزائی کی۔ ڈاکٹر جوزف بل اپنی تحقیقی حس کے باعث فرانزک سائنس کا بانی کہلایا۔ اسے میڈیسن کی دنیا میں بھی ممتاز حیثیت حاصل تھی ۔ کیمیکلز کے بغیر پوسٹ مارٹم ہو ہی نہیں سکتا تھا یوں ڈاکٹر بل نے فرانزک سائنس کی بنیاد رکھی۔

کہا جاتا ہے کہ اس کی طبی صلاحیتیں شک و شبہ سے بالا تر تھیں اس زمانے میں جب برطانیہ میں مجموعی زندگی 40-41 سال ہوا کرتی تھی ملکہ برطانیہ وکٹوریہ 81 سال کی عمر میں صحت مند اور توانا تھیں ڈاکٹر بل ان کا شاہی معالج تھا۔ ڈاکٹر بل سر پر ٹوپی رکھنے کا عادی تھا۔ جاسوسی کے کرداروں کو نئے رنگ ڈھنگ سے پیش کر نے کی استراع بھی اسی نے ڈالی۔ جیسا کہ سپر مین ان کا لباس ہی ان کا سٹائل تھا۔ ڈاکٹر بل اپنے شعبے کے تمام رموز کی تہہ تک پہنچ چکا تھا۔ 19 ویں صدی میں آپریشن اور سرجری پر وہ کتاب لکھی جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ 1856ء میں اسی موضوع پر منظر عام پر آنے والی اس کی کتاب کا عنوان تھا ’’مینول آف دی آپریشن سرجری‘‘ بی بی سی نے اس زمانہ میں اس کا طویل ترین انٹرویو نشر کیا تھا۔ جس زمانہ میں شیرلک ہومز شہرت کی بلندیوں پر تھا اورلوگ ڈاکٹر بل کے کردار کے بارے میں بہت کچھ جا ننا چاہتے تھے۔