Tag Archives: Britain
کرونا وائرس کی نئی قسم میں نیا کیا ہے؟
کرونا وائرس کی نئی قسم کے بارے میں عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کہنا ہے کہ انہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حالیہ دنوں میں رپورٹ ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم زیادہ مہلک یا تیزی سے پھیلنا والا وائرس ہے۔ کرونا وائرس کی نئی قسم کے کیسز برطانیہ کے جنوبی حصے اور دارالحکومت لندن سے رپورٹ ہوئے تھے جس کے بعد متعدد ممالک نے برطانیہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔ برطانیہ میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی شکل جسے ‘وی یو آئی 202012/01’ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی تشخیص جنوبی برطانیہ کی کاؤنٹی کینٹ میں رواں ماہ 13 دسمبر ہوئی تھی۔ ابتدائی اندازوں میں سائنس دان یہ اندیشہ ظاہر کر رہے تھے کہ وی یو آئی پہلے سے موجود کرونا وائرس کے مقابلے میں 70 فی صد تیزی سے پھیلتا ہے۔ برطانیہ کے علاوہ جنوبی افریقہ میں بھی کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کی تشخیص ہوئی ہے۔ تاہم عالمی ادارۂ صحت کے مطابق برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے رپورٹ کیے جانے والے وائرس کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت کی تیکنیکی امور کی سربراہ ماریا وین کرخوو کے مطابق دونوں ممالک میں سامنے آنے والے وائرس میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ ایک وقت میں سامنے آئے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس نئی قسم کے 9 کیسز ڈنمارک جب کہ ایک، ایک نیدرلینڈ اور آسٹریلیا میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہینم گیبراسس کا کہنا ہے کہ وہ سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کس طرح سے جینیاتی تبدیلیاں کرونا وائرس پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ دریں اثنا میں ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ ایمرجنسی پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا ہے کہ اس وقت تک اس بارے میں شواہد موجود نہیں ہیں کہ یہ وائرس اپنی شدت میں تبدیلی لائے گا۔ اُن کے بقول تشخیص اور ویکسین کے معیار پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں۔
کرونا کی نئی قسم کیا زیادہ مہلک ہے؟
برطانیہ سے رپورٹ کیے جانے والے وی یو آئی میں کرونا وائرس کے مقابلے میں لگ بھگ 23 تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ جن میں پروٹین میں اضافہ بھی شامل ہے جو کہ وائرس کے انسانی جسم میں داخل ہونے اور پھیلانے کا سبب ہے۔ برطانیہ کے وزیرِ صحت میٹ ہان کوک کا گزشتہ ہفتے کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ جنوب مشرقی برطانیہ اور لندن میں وی یو آئی کی وجہ سے کرونا وائرس زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہو۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے بقول ہو سکتا ہے کہ وی یو آئی حال ہی میں منظور ہونے والی ویکسین کے خلاف مزاحمت کرے۔ برطانیہ کے چیف میڈیکل افسر کرس وٹی کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وی یو آئی کی وجہ سے زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں۔ ان کے بقول اس بارے میں تحقیق جاری ہے۔
ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کار آمد ہو گی؟
برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ پتا لگانے میں کہ کرونا ویکسین، وی یو آئی کے خلاف بھی مؤثر ہو گی یا نہیں، تحقیق میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ تاہم وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ پُر امید ہیں کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم ویکسین کی افادیت کو کم نہیں کرے گی۔ جو کہ جسم میں اینٹی باڈیز بنانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔
کرونا کی نئی قسم سے بچوں کو کتنا خطرہ ہے؟
برطانوی خبر رساں ‘رائٹرز’ کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم سے بچوں کے بھی اتنے ہی متاثر ہونے کے خدشات ہیں جتنے کہ بڑی عمر کے افراد ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کرونا وائرس کی ابتدائی قسم سے بڑی عمر کے افراد، بچوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ برطانیہ میں اس نئے وائرس پر تحقیق کرنے والے ادارے ‘نر وی ٹیگ’ سے منسلک اور امپیریل کالج لندن سے وابستہ نیل فرگوسن کا کہنا ہے کہ یہ خدشات موجود ہیں کہ وائرس سے بچوں کے متاثر ہونے کی شرح زیادہ ہو۔ نری وی ٹیگ سے ہی منسلک وینڈی بارکلے کا کہنا ہے کہ یہ وائرس سامنے آنے کے بعد خدشہ ہے کہ اس سے زیادہ بچے متاثر ہوں گے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کو کیسے لوٹا ؟
بہت برس گزرے، استاذی رضی عابدی ہمیں چارلس ڈکنز کا ناول ہارڈ ٹائمز پڑھا رہے تھے۔ یہ ناول انیسویں صدی کے انگلستان میں کوئلے کے کان کنوں کی زندگیاں بیان کرتا ہے۔ ناول میں ایک مزدور میاں بیوی کی گھریلو توتکار کا تفصیلی بیان پڑھتے ہوئے ایک طالب علم نے کہا کہ ان دو کو لڑنے جھگڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں؟ عابدی صاحب نے مسکرا کر کہا کہ ’’چھوٹے گھروں کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ سارا وقت ایک دوسرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑے گھروں میں رہنے والے اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں۔‘‘ اس کاٹ دار مشاہدے سے اچانک بچپن کی ایک یاد روشن ہو گئی۔ ہمارے قصبے کے اکثر مرد، نوجوان اور بوڑھے، زیادہ وقت گھر سے باہر گلی کے نکڑ یا کسی دکان کے تھڑے پر بیٹھے نظر آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ گھروں میں اتنی جگہ ہی نہیں تھی کہ غربت سے برآمد ہونے والی تلخی اوجھل ہو سکے۔
انتظار حسین کا افسانہ ’’قیوما کی دکان‘‘ تو اب ہماری اجتماعی یاد داشت کا حصہ بن چکا۔ یہ صرف چھوٹے گھروں کا المیہ نہیں، قوموں پر بھی ایسا وقت آتا ہے جب والٹیئر کو تخیلاتی قصبوں اور زمانوں کے قصے سنانا پڑتے ہیں یا میلان کنڈیرا کو پراگ سے نکل کر پیرس میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ بفضل خدا، ہم ایک آزاد اور جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں دستور اور قانون کی بالادستی قومی شعار ہے۔ صحافی کسی بھی حکمران کی بدعنوانی بے نقاب کرنے میں آزاد ہیں۔ سیاسی کارکن بلاخوف جمہوری مکالمے میں حصہ لیتے ہیں۔ ہمیں افسانوی کرداروں اور فرضی زمینوں سے غرض نہیں۔ ہمیں ٹھوس تاریخی حقائق اور زمینی حقیقتوں کے بارے میں تحریر و تقریر کی مکمل آزادی ہے۔ آئیے دیکھیں کہ 1765ء سے 1858ء تک ایسٹ انڈیا کمپنی نے کس طرح ہندوستان کا معاشی استحصال کیا اور پھر اگلے نوے برس میں تاج برطانیہ نے اس لوٹ مار میں کیا اختراعات پیدا کیں۔
حالیہ برسوں میں برطانوی تاریخ دان لکھتے ہیں کہ برطانیہ نے ہندوستان کی حفاظت اور ترقی کا فرض محض انسانی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کیا۔ مغربی دانشوروں پر جانبداری اور یک طرفہ دلائل کا جو اعتراض کیا جاتا ہے، ششی تھرور پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان مصنفین نے اپنا مقدمہ جیتنے کے لئے حقائق کا من مانا انتخاب کیا ہے۔ تاہم 2018 میں ممتاز ماہر معاشیات اوشا پٹنائیک نے کولمبیا یونیورسٹی سے ایک زبردست تحقیق شائع کی جس میں 1765 سے 1938 تک ٹیکس اور تجارت کے تفصیلی اعداد و شمار کی مدد سے ثابت کیا کہ برطانیہ نے 173 برس کے عرصے میں ہندوستان سے 45 کھرب ڈالر کی لوٹ مار کی۔ یہ رقم برطانیہ کی موجودہ کل داخلی پیداوار سے بھی 17 گنا زیادہ ہے۔ اوشا پٹنائیک نے سیاسی اور سماجی زاویوں کی بجائے خالص معاشی تجزیے کی مدد سے اس وسیع پیمانے پر استحصال کے قانونی اور تجارتی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا۔
اٹھارہویں صدی کے پہلے نصف میں برطانوی تاجر ہندوستانی باشندوں سے چاندی کے سکوں کے عوض کپاس اور چاول خریدتے تھے۔ 1757ء میں جنگ پلاسی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان سے مالیہ اور محصولات کے نظام کی مدد سے تجارت پر اجارہ داری قائم کر لی۔ طریقہ کار یہ تھا کہ ہندوستانیوں سے وصول کردہ محصولات کا قریب ایک تہائی ہندوستانی مصنوعات کی خریداری پر صرف کیا جاتا تھا۔ گویا ہندوستانی محصولات کی صورت میں جو رقم ادا کرتے تھے، اسی کے ایک تہائی کے بدلے اپنی مصنوعات بیچنے پر مجبور تھے۔ 1858 میں تاج برطانیہ نے ہندوستان پر عمل داری قائم کر کے ایک نیا ہتھکنڈہ متعارف کروایا۔ ہندوستانیوں کو اپنی مصنوعات غیر برطانوی تاجروں کو بیچنے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم اس خریداری کے لئے لندن میں خصوصی کرنسی نوٹ جاری کئے جاتے تھے جنہیں غیر برطانوی تاجر سونے اور چاندی کے عوض خریدتے تھے۔
ہندوستانی تاجر یہ کرنسی نوٹ برطانوی حکومت کو واپس بیچتے تو انہیں ہندوستانی روپوں میں قیمت ادا کی جاتی۔ یہ روپے ہندوستانی باشندوں کے ادا کردہ محصولات ہی ہوتے تھے۔ اس طرح ہندوستان کی پوری پیداوار سونے اور چاندی کی شکل میں لندن سرکار کے پاس پہنچ جاتی تھی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں ہندوستان زبردست تجارتی منافع کے باوجود کاغذ پر خسارے میں چل رہا تھا کیونکہ اصل منافع کی رسد تو لندن کے لئے بندھی تھی۔ الٹا یہ کہ اس مصنوعی خسارے کے باعث ہندوستان کو برطانیہ سے قرض لینا پڑتا تھا۔ اس لوٹ مار سے برطانیہ نے چین اور دوسرے ممالک میں جنگیں لڑیں جن کے اخراجات بھی ہندوستانی محصولات سے ادا کئے جاتے تھے۔ ہندوستان سے لوٹی اسی دولت سے کینیڈا اور آسٹریلیا کی یورپی نوآبادیوں میں سرمایہ کاری کی گئی۔ برطانیہ بہادر نے محتاط اندازے کے مطابق پونے دو سو برس میں ہندوستان سے 44.6 کھرب ڈالر کی لوٹ مار کی۔ اس دوران میں ہندوستانیوں کی فی کس آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ 1920 تک ہندوستانیوں کی متوقع عمر میں 20 فیصد کمی واقع ہو چکی تھی کیونکہ سامراجی پالیسیوں سے بار بار قحط پیدا ہوتا تھا۔ خدا نہ کرے کہ کوئی قوم قبضہ گیری اور اجارے کا شکار ہو۔
وجاہت مسعود
بشکریہ روزنامہ جنگ
William and Kate enjoy colourful welcome in Pakistan
Prince William and and wife Catherine highlighted the UK’s ‘unique bonds’ with Pakistan during a five-day visit to the South Asian nation, the first trip by a British royal family member in more than a decade. Britain’s Prince William and his wife Kate are traveling to Pakistan’s scenic northern mountains and glaciers, drawing attention to the challenges of climate change in the South Asian nation. The Duke and Duchess of Cambridge flew to the city of Chitral on Wednesday morning. According to Britain’s Press Association, Prince William made a speech at a cultural event in the capital of Islamabad the previous day, saying he will visit Chitral to see some of the impacts of climate change – including a melting glacier – as well as meet with local communities faced with the impact of a damaged environment.
Prince William and Catherine pose for a group photo with staff and students at a school in Islamabad, October 15. While visiting the school a 14-year-old student told William she and other students were “big fans” of Princess Diana, who died in a car crash in 1997. “Oh that’s very sweet of you. I was a big fan of my mother too,” he replied.