بھارت میں ہزاروں بچے اسکول جانے کے بجائے جوتے بنانے پر مجبور

بھارت کے نامور سیاحتی شہر آگرہ میں ہزاروں بچے اسکول جانے کے بجائے جوتے بنانے والی فیکڑیوں میں ہر روز کئی کئی گھنٹے انتہائی مشکل حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ جوتے ان بچوں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تاج محل کے شہر آگرہ میں ہر سال جوتوں کے لگ بھگ دو سو ملین جوڑے بنائے جاتے ہیں۔ جوتوں کی فیکڑیوں میں شہر کی آبادی کا قریب ایک چوتھائی حصہ ملازمت کرتا ہے۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس شہر میں جوتے بنانے کے بہت سے کارخانے ایسے ہیں جو گھروں میں قائم ہیں یا پھر غیر سرکاری طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ ان میں چھوٹے بچے ہاتھ اور مشین سے جوتوں کی سلائیاں کرتے ہیں اور اس کے علاوہ جوتوں کی پیکنگ بھی کرتے ہیں۔

ایک غیر سرکاری تنظیم ایم وی فاؤنڈیشن کے رکن وین کاٹ ریڈی کا کہنا ہے،’’ ان بچوں کے لیے اسکولوں کی سہولت ہی موجود نہیں جو ان بچوں کی ملازمت کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘‘ ریڈی کا کہنا ہے کہ ہمیں تحقیق سے یہ پتا چلا کہ بچوں کے کام کرنے کے اوقات کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر گھروں میں قائم کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔ یہ بچے کام کے دوران آرام کا وقفہ بھی نہیں لیتے کیوں کہ انہیں جوتے کے ہر جوڑے کی تیاری کے حساب سے پیسے دیے جاتے ہیں۔ ریڈی نے مزید بتایا،’’ ان بچوں کے پاس کھیل کے لیے وقت نہیں۔ یہ چھوٹے گروپوں میں انتہائی چھوٹے اور بغیر کھڑکیوں والے کمروں میں کام کرتے ہیں۔‘‘

ایک سروے کے مطابق جوتوں کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے بچوں کا صرف نصف اسکول جاتا ہے۔ بھارت دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ جوتے اور چمڑے کی مصنوعات بنانے والا ملک ہے۔ اس جنوبی ایشائی ملک کی جوتوں کی برآمدات کا نوے فیصد یورپ بھیجا جاتا ہے۔ ’انڈیا کمیٹی آف دی نیدر لینڈز‘ نامی ایک تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی چمڑے کی صنعت میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ افراد انتہائی کم اجرت کے ساتھ مضر صحت ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

’فیئر لیبر ایسوسی ایشن‘ نامی تنظیم کی ایک تحقیق کے مطابق آگرہ کی کچھ فیکٹریوں نے جو اپنا مال بیرون ملک برآمد کرتی ہیں، بچوں سے کام لینے کے خلاف اقدامات اٹھائے ہیں۔ تاہم ان میں سے بہت سی بڑی کمپنیاں چھوٹے کارخانوں کے ساتھ کاروبار کرتی ہیں جہاں زیادہ تر بچے ہی جوتے بنانے کا کام کرتے ہیں۔ ’سٹاپ چائلڈ لیبر کولیشن‘ کی سوفی اووا کا کہنا ہے کہ آمدنی میں بہتری، کمیونٹی کی جانب سے بچوں سے کام کرانے کے عمل کی حوصلہ شکنی اور قواعد و ضوابط میں تبدیلی سے ممکن ہے کہ بچوں کے حقوق کی پامالی کو روکا جا سکے۔

بشکریہ DW اردو

بھارت میں دو کروڑ افراد اب بھی ‘غلام“ ہیں’ واک فری فاونڈیشن

گذشتہ مہینے ’واک فری فاؤنڈیشن‘ نے دنیا میں غلاموں کی تعداد پر سنہ 2016 کی سالانہ رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2016 میں پوری دنیا میں چار کروڑ افراد غلام تھے۔ سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ ان میں سے آدھے غلام یعنی تقریبآ دو کروڑ افراد صرف انڈیا میں غلام ہیں۔ اس سے بھی چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی خبر ملک کے سینکڑوں نیوز چینلوں اور ہزاروں اخبارات میں کہیں جگہ نہ پا سکی۔ یہ خبر بعض اخبارات میں اب اس لیے سامنے آئی کیونکہ ملک کی خفیہ انٹیلیجنس بیورو نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اس رپورٹ سے بین الاقوامی سطح پر انڈیا مشکل میں پڑ سکتا ہے۔

واک فری فاؤنڈیشن آسٹریلیا کے ایک ارب پتی اینڈریو فارسٹ نے سنہ 2012 میں قائم کیا تھا اور اس کا مقصد دنیا سے غلامی کا خاتمہ کرنا ہے۔ جدید دور میں غلامی کے زمرے میں ایسے گھریلو خادم، تعمیراتی مزدور، زرعی مزدور اور فیکٹری ورکرز شامل ہیں جنھیں ڈر یا جبر کے تحت اپنی مرضی کے خلاف کام کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے زمرے میں اکثریت ان خواتین یا لڑکیوں کی ہے جن کی شادی ان کی مرضی کے بغیر کسی سے کر دی جاتی ہے اور ان کا استعمال اکثر مزدور یا سیکس ورکر کے طور پر کیا جاتا ہے۔

فاؤنڈیشن نے ستمبر سنہ 2017 میں جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق انڈیا میں غلاموں کی تعداد تقریباً دو کروڑ ہے۔ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے انڈیا میں 27 کروڑ سے زیادہ لوگ غریبی کی سطح کے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے انڈیا نے حالیہ برسوں میں کم سے کم یومیہ اجرت طے کرنے اور بچوں سے مزدوری کروانے کے خلاف قانون بنا کر غلامی پر قابو پانے کے لیے بعض اقدامات کیے ہیں لیکن ان کو روکنے کے لیے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
فری واک فاؤنڈیشن کو امریکی ارب پتی بل گیٹس، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی حمایت حاصل ہے۔

بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق انڈیا کے انٹیلیجنس بیورو نے حکومت کو اس لیے بھی خبردار کیا ہے کہ ستمبر کی رپورٹ کی تیاری میں اقوام متحدہ کا ادارہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن یعنی آئی ایل او بھی شامل تھا۔ اطلاع کے مطابق یہ رپورٹ امریکی وزرات خارجہ کی مالی اعانت سے تیار ہوئی ہے۔ انٹیلیجنس بیورو کا خیال ہے کہ یہ رپورٹ سیاسی محرکات پر مبنی ہے اور اس میں انڈیا کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے۔ انڈیا اکیلا ایسا ملک ہے جہاں ‌فاؤنڈیشن نے الگ الک ریاستوں میں سروے کیا ہے۔

انٹیلیجنس بیورو کا خیال ہے اس رپورٹ سے جنوبی انڈیا کی ٹکسٹائل انڈسٹری کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے جو کپڑے کی برآمد کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ ہالینڈ اور کئی دوسرے یورپی ملکوں کی غیر سرکاری تنظیمیں جنوبی ہندوستان کی کپڑے کی فکٹریوں میں بچوں کے کام کرنے کا معاملہ اٹھاتی رہی ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ادارے آئی ایل او پر واک فری فاؤنڈیشن سے الگ ہونے کے لیے دباؤ ڈالے۔ بعض حلقوں کا یہ بھی خیال ہے اس رپورٹ کا مقصد انڈیا پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی این جی اوز بالخصوص امریکی تنظیموں کے لیے انڈیا میں کام کرنے کے لیے ضابطے نرم کر سکے۔

حقوق انسانی کی تنظیموں اور جبری مزدوری کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک کے غیر منظم سیکٹر میں بہت سے ایسے شعبے ہیں جہاں مزدوروں کا استحصال عام ہے اور جہاں حکومت کے بنائے ہوئے ضابطے نہیں چلتے۔ بیشتر شعبوں میں نہ ہی کام کرنے کے اوقات متعین ہیں اور نہ ہی مزدروں کو مقرر کردہ کم سے کم یومیہ اجرت دی جاتی ہے۔ گھریلو خادموں اور زرعی مزدوروں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ انٹیلیجنس بیورو کا کہنا ہے کہ واک فری فاؤندیشن نے انڈیا کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے میں اعداد و شمار جمع کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ اعتراض کئی اور ملکوں نے پہلے بھی کیا ہے۔ فاؤنڈیشن کے سربراہ اینڈریو فارسٹ نے ستمبر کی رپورٹ میں کہا ہے کہ جو لوگ سروے کے طریقۂ کار اور اس کی تشریح پر تنقید کر رہے ہیں ان سے صرف یہی گزارش ہے کہ وہ اپنی تنقید کے ساتھ اپنا متبادل طریقۂ کار اور حل بھی فاؤنڈیشن کو بھیج دیں۔

شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی