کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہو سکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کر کے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلا کر بیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔ سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کر دیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثر نہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہو جاتا ہے۔ پا نی گرم کر کے تھرماس میں رکھ لیں اور ہر ایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہو جاتا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کورونا وائرس : طویل المیعاد حکمت عملی ناگزیر ہے

دنیا کے کئی ملکوں میں کورونا وائرس کے متاثرین میں ازسرنو اضافہ دیکھا جارہا ہے جس سے واضح ہے کہ اس عالمی وبا پر قابو پانے کی کوششیں اب تک کارگر ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ پاکستان میں بھی کیسوں میں مسلسل کمی کا جو رجحان جاری تھا وہ کسی قدر تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور امریکا میں کورونا کے کیسوں میں اضافے جبکہ بحیثیت مجموعی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں کمی کا رجحان رہا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں بھی معمولات زندگی کی بڑی حد تک بحالی کے بعد کورونا کے نئے کیس سامنے آرہے ہیں۔ صورت حال کے جائزے میں اس نکتے کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے کہ متاثرین اور فوت ہونے والوں کی تعداد ضروری نہیں کہ اتنی ہی ہو جتنی سرکاری ریکارڈ پر ہے کیونکہ اس میں ٹیسٹ نہ کرانے والے لوگ شامل نہیں ہوتے جبکہ دو تہائی دیہی آبادی پر مشتمل اس ملک میں ایسے افراد کا بھی خاصی تعداد میں ہونا بالکل قرین قیاس بلکہ یقینی ہے۔

بہرحال ریکارڈ پر موجود معلومات کے مطابق وبا کی ملک میں آمد کے بعد سے اب تک اس سے متاثر ہونے والوں کی کل تعداد 3 لاکھ 13 ہزار اور اموات کی تعداد ساڑھے چھ ہزار تک پہنچی ہے۔ تقریباً تین لاکھ افراد صحت یاب ہو گئے ہیں۔ ملک بھر میں وینٹی لیٹر پر منتقل کئے گئے مریض سو سے کم ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت اور دنیا کے دوسرے کئی ملکوں کے مقابلے میں اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں یہ وبا بے لگام نہیں ہو سکی اور صورت حال قابو میں ہے لیکن کیسوں میں مسلسل کمی کے رجحان کا منفی طور پر بدلنا بہرصورت فوری توجہ کا طالب ہے۔ کراچی میں احتیاطی تدابیر ملحوظ نہ رکھنے والے شادی ہالوں، ریستورانوں اور اسکولوں کی بندش اور گاڑیوں کی ضبطی متعلقہ حکام کی ذمہ داری تھی اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اس پر شکوے شکایت کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ جب تک اس وبا کا شافی علاج دریافت اور اس سے عام استفادہ ممکن نہ ہو جائے اس وقت تک احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل درآمد ہی مسئلے کا حل ہے۔

ایسا نہ کرنے کا مطلب صرف اپنی ذات کو نہیں پورے معاشرے کو خطرے میں ڈالنا ہے جس کا سنگین جرم ہونا محتاج دلیل نہیں۔ جہاں تک مرض کے شافی علاج کا تعلق ہے تو عالمی سطح پر ادویات اور ویکسین کی تیاری کی خبریں تو بہت آتی رہی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس سمت میں اب تک کوئی واضح عملی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ ایسا کیوں ہے؟ متعلقہ عالمی اداروں پر اس سوال کا اطمینان بخش جواب واجب ہے۔ بظاہر لگتا یہی ہے کہ ابھی خاصی مدت تک کورونا کا کوئی حتمی علاج عالمی سطح پر متعارف نہیں ہو پائے گا جس کی بناء پر ناگزیر ہے کہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے طویل المیعاد اور قابلِ عمل حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ احتیاطی تدابیر کی سختی سے پابندی اس کی بہرحال اولین شق ہونی چاہئے جبکہ زیادہ سے زیادہ کاموں کا آن لائن انجام دیا جانا اور اس کے لیے مزید تمام ممکنہ سہولتوں کا ہر سطح پر فراہم کیا جانا بھی اس میں لازماً شامل ہونا چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کرونا وائرس کے خلاف پاکستان کے اقدامات : ڈبلیو ایچ او کی تعریف

دنیا بھر کی عالمی معیشت کو متاثر کرنے والی وبا کورونا کا زور اب بھی کم نہیں ہوا ، پڑوسی ملک بھارت اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک میں اس کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں۔ تاہم قدرت کی مہربانی کے ساتھ ساتھ بعض حکومتی اقدامات کے سبب خوش قسمتی سے پاکستان پر کورونا کے مہلک اثرات بڑے پیمانے پر مرتب نہیں ہوئے اور اس وائرس پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ اگرچہ رواں ماہ میں چند مقامات پر کیسز میں اضافے کے بعد فعال کیسز کی تعداد کچھ حد تک بڑھ گئی ہے تاہم مجموعی طور پر صورتحال بہتر ہے۔ جس کی تصدیق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ادھانوم کے اس بیان سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان نے وبائی بیماری کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ معیشت میں استحکام کے لئے بھی کام کیا۔

برطانوی آن لائن اخبار ‘کے ایک کالم میں ٹیدروس ادھانوم نے مزید کہا کہ پاکستان نے کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لیے پولیو کے انفراسٹرکچر کو استعمال کیا، کمیونٹی ہیلتھ ورکرز جنہیں گھر گھر جا کر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والے بچوں کو تربیت دی گئی ہے انہیں دوبارہ ملازمت فراہم کر کے ان سے نگرانی سمیت امور سرانجام دلائے گئے، اس حکمت عملی سے وائرس کا پھیلاؤ نہ صرف کم ہوا بلکہ ملکی معیشت بھی ایک بار پھر بہتر ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال چین کے شہر ووہان میں سامنے آنے والے وائرس کورونا کے عالمی پھیلائو کے نتیجے میں مجموعی طور پر دنیا بھر میں دس ملین افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں، کئی ملین اب بھی اس مہلک وائرس سے متاثر ہیں۔ ایسے میں جبکہ وائرس کے خاتمہ یا بچائو کیلئے تاحال کوئی ویکسین سامنے نہیں آسکی ہے، ڈبلیو ایچ او اور دیگر صحت کے ماہرین کی جانب سے ہاتھ دھونے، ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سمیت بتائی گئی دیگر احتیاطی تدابیر اپنا کر اس وبا کا زور ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں بھی ان تدابیر کو اپنائے رکھنا چاہئے تاکہ یہ وائرس پھیل نہ سکے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

پاکستان میں کورونا وائرس کیسسز میں کمی نے ماہرین کو چکرا کر رکھ دیا

اس وقت پوری دنیا کو کورونا وائرس نے مفلوج کر رکھا ہے لیکن پاکستان میں مزید زور پکڑنے کے بجائے حیرت انگیز طور پر گھٹ گئی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ جون کے وسط تک روزانہ 6 ہزار سے زائد کیسز سامنے آرہے تھے لیکن ستمبر میں ان کی یومیہ تعداد کم ہو کر 300 سے بھی کم رہ گئی ہے۔ سندھ میں پانچ ماہ کے دوران پہلی بار کورونا وائرس سے کوئی ہلاکت سامنے نہیں آئی۔ پاکستان میں اب تک مجموعی طور پر 297512 کیسز سامنے آئے جس میں 6335 ہلاکتیں شامل ہیں جبکہ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ گزشتہ اگست تک ہلاکتیں 80 ہزار تک پہنچ جائیں گی ۔ ان میں سے 282268 مریض صحت یاب ہو گئے۔ اس طرح پاکستان میں مجموعی کیسز جی تعداد 8909 رہ جا تی ہے ۔ ادھر بھارت میں کورونا وائرس کیسز چالیس لاکھ سے تجاوز کر گئے ہیں۔

اس طرح امریکا اور برازیل کے بعد اس وبا کا شکار بھارت دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اب تو پاکستان میں ہلاکتیں اکائی میں ہو نے لگی ہیں جس نے ماہرین کو بھی چکرا کر رکھ دیا ہے ۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جا تی ہے کہ پاکستان میں اوسط عمر 22 سال ہے یعنی آبادی کی اکثریت نوجوانوں کی ہے جبکہ کورونا وائرس زیادہ تر عمر رسیدہ افراد پر حملہ آور ہو تا ہے۔ اٹلی میں آبادی کی اوسط عمر 46.5 سال ہے جہاں پاکستان کے مقابلے میں آبادی کم ہو نے کے باوجود ہلاکتیں 35 ہزار سے تجاوز کر گئی ہیں ۔ بھارت میں تزاہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 69561 ہے۔ حالانکہ بھارت میں درمیانی عمر 26 سال ہے لیکن گنجان آبادیوں میں اس وبا کے پھیلنے کے خدشات زیادہ ہو تے ہیں۔ جو ممالک کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو ئے وہاں اوسط عمر 35 سے 45 سال کے درمیان ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وبا پر قابو پا نے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے گئے جس میں ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ کا موثر نظام شامل ہے۔ مریضوں کو قرنطینہ میں جا نے کی سہولت بہم پہنچائی گئی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کورونا وائرس کی وبا کو قابو کرنے میں مددگار تین آسان کام

نئے کورونا وائرس کے کیسز کی شرح میں پاکستان بھر میں کمی آرہی ہے، جس کو برقرار رکھنے کے لیے وزیراعظم عمران خان سمیت دیگر کی جاانب سے عوام پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد جاری رکھیں۔ ویسے تو اس وائرس کی مکمل روک تھام کے لیے ایک ویکسین کی لازمی ضرورت ہو سکتی ہے مگر ایک نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ چند آسان کام کر کے بھی کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی شرح کو ڈرامائی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ طبی جریدے جرنل پلوس میڈیسین میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 3 آسان کاموں سے کووڈ 19 کی وبا کو ویکسین کے بغیر بھی سست یا روکنا ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ 3 کام بہت آسان ہیں یعنی ہاتھوں کو اکثر دھونا، سماجی دوری اور فیس ماسک کا استعمال۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین کے بغیر بھی اگر اکثر افراد اوپر درج حفاظتی تدابیر پر عمل کریں تو کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی شرح میں ڈرامائی کمی لائی جاسکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق کسی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ ان کاموں کو اپنا لے تو اس وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اگر اکثر افراد کورونا وائرس اور اس کی روک تھام کے اقدامات کے موثر ہونے کے حوالے سے جان لیں تو اس کی مدد سے کیسز کی تعداد کو کم از کم رکھنا ممکن ہو سکتا ہے۔ اس تحقیق میں کووڈ 19 کے پھیلاؤ ایک کمپیوٹیشنل ماڈل کو استعمال کیا گیا تھا جو کہ اس بیماری کے حوالے سے دستیاب تفصیلات کی بنیاد پر تیار کیا گیا اور پھر اس کی مدد سے احتیاطی تدابیر کے اثرات کی پیشگوئی کی گئی۔ محققین کا کہنا تھا کہ لوگوں کی جانب سے خود اپنائی جانے والی احتیاطی تدابیر خصوصاً آبادی کے بڑے حصے کی جانب سے ان پر عملدرآمد اس وبا کو روکنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ویسے تو سماجی دوری، اکثر ہاتھ دھونا اور فیس ماسک پہننا الگ الگ بھی کسی حد تک کورونا وائرس سے بچانے میں مدد دیتے ہیں، تاہم ان کا امتزاج کووڈ 19 کے خلاف 3 گنا زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے۔

امریکا کے طبی ادارے سی ڈی سی کے مطابق سماجی دوری سے کیسز کی شرح میں تیزی سے کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔ اسی ادارے نے یہ بھی تصدیق کی کہ ہاتھوں کو دھونا لوگوں کو صحت مند رکھنے کے ساتھ نظام تنفس کے امراض کو پھیلنے سے بھی روکتا ہے۔ دوسری جانب امریکا کے مایو کلینک نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فیس ماسکس سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو سست کیا جا سکتا ہے۔ یہ وائرس کسی متاثرہ فرد کے کھانسنے، چھینک یا بات کرنے کے دوران خارج ہونے والے ذرات سے دیگر میں منتقل ہوتا ہے، تو سرجیکل یا کپڑے کا ماسک ان ذرات کو روکتا ہے اور وائرس دیگر تک پہنچ نہیں پاتا۔ اپریل میں ایک تحقیق میں ثابت کیا گیا تھا کہ دنیا بھر میں فیس ماسک کا استعمال کورونا وائرس کی روک تھام یا اس کے پھیلاؤ کو سست کرنے کے لیے اہم ترین حکمت عملیوں میں سے ایک ہے۔ اس تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اگر کسی آبادی کے 80 فیصد افراد فیس ماسک کا استعمال کریں تو کورونا وائرس کی وبا کو بہت تیزی سے روکنا ممکن ہو سکتا ہے۔

بشکریہ ڈان نیوز

موت۔ جو قوم کو زندگی دے جائے

کورونا کی وباء نے جہاں پر دنیا بھر کو متاثر کیا ہے، وہیں پر پاکستان اس کے متاثرین میں نمایاں مقام حاصل کر رہا ہے۔ مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور اسی شرح سے اموات بھی بڑھ رہی ہیں لاک ڈائون کے آغاز میں عوام میں خوف کی کوئی علامت نظر نہیں آتی تھی لیکن جب سے لاک ڈائون کا خاتمہ ہوا ہے اور کورونا سے اموات کی شرح بڑھ گئی ہے تب سے عوام میں پریشانی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے ۔ خوف کی فضاء ہے اور ہر انسان دوسرے کے لیے اچھوت بن گیا ہے ۔ ہر دوسرا شخص وبا کا شکار بن گیا ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ وہی اس وبا سے محفوظ ہے جس نے ابھی تک اپنا ٹیسٹ نہیں کرایا۔ ان حالات میں عرب میں قحط کے زمانے میں ایک مسلمان حکمران کے کردار کا ذکر کر کے میں اپنے آج کے مسلمان اور ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا البتہ ایک غیر حکمران درویش اور صوفی کا سرسری ذکر کرتا ہوں کہ پیران پیر حضرت سید عبدالقادر جیلانی نے آخری عمر میں کھانا اس لیے ترک کر دیا تھا کہ ان کے علم کے مطابق کئی مسلمانوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا۔

کیا ہمارے کسی حکمران نے ایسی درویشی اختیار کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔آج اسلامی جمہوریہ پاکستان بدترین وبا کا شکار ہے اور یہ جاں گسل صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ ہمیں اس کا پہلے سے علم تھا اور ہمارے وزیراعظم بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ آنے والے دن مشکل ہوں گے جیسا کہ انھوں نے جولائی اور اگست کے مہینوں میں اس وبا کی سختی کے متعلق پہلے سے آگاہ کر دیا ہے ۔ ایک عفریت ہے جو منہ کھولے بڑھے چلا آرہا ہے مگر ہم سب اپنی سیاست میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسا کر اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ اصل میں اس وباء سے کتنے انسان جان کی بازی ہار چکے ہیں کیونکہ ابھی تک سرکاری اعداوشمار پر ہی بھروسہ کیا جارہا ہے ۔ کوئی بھی وباء اسلامی اصطلاح میں عذاب کی ایک صورت ہے اور یہ عذاب اس وقت نازل ہوا ہے جب ہم بطور مسلمان پستیوں کو چھو رہے ہیں ۔ ہمارے اندر کا انسان مر چکا ہے، ہم نے ناجائز منافع خوری اور ناپ تول میں کمی کو اپنا ایمان بنا لیا ہے ۔

بے ایمانی اور چوری ہم نے اپنے آپ پر لازم کر لی ہے ۔ ﷲ اوراس کے رسول ﷺ کے احکامات سے صریحاً رو گردانی کرتے ہیں یعنی ہم نے وہ تما م اسباب جمع کر لیے ہیں جو عذاب الٰہی کے لیے کافی ہیں اور یہ عذاب اب ہمارے درمیان موجود ہے اور بڑھتا چلا جارہا ہے۔ چند ایک محفوظ علاقوں کے باشندے اپنے ہم وطنوں کی بے بسی کی حالت دیکھ رہے ہیں جو موت سے لڑ رہے ہیں ۔ دل تسلیم نہیں کرتا مگر حیرت اس بات پر ہے کہ ہماری اپوزیشن اورغیر جانبدار سیاسی قیادت بالکل خاموش ہے بلکہ قرنطینہ میں ہے ۔ حالانکہ ان کو اس مشکل وقت میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے تھا مگر یہ سب خود قرنطینہ میں چلے گئے اور صورتحال یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ سرکاری اور غیر ملکی چندوں پر پلنے والی تنظیمیں بھی کونے کھدروں میں دبک گئی ہیں، صرف ایک واحد جماعت اسلامی کا نام ہے جو الخدمت فائونڈیشن کی صورت میں چہار سو گونج رہا ہے۔ جماعت کے رضا کار اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں مشغول ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا سیاسی قیادت عوام میں شامل ہو جاتی اور ان کے دکھ درد کی ساتھی بن جاتی، ان کے زخموں پر مرہم رکھتی لیکن افسوس کہ ایسی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ مجھے وہ پرندہ یاد آرہا ہے جو حضرت ابراہیم کا دوست تھا جب اس نے دیکھا کہ اس کے دوست کو آگ میں ڈال دیا گیا ہے تو ا س نے کہا کوئی بات نہیں میں یہ آگ بجھا دوں گا چنانچہ وہ اڑ کر پانی تک جاتا چونچ میں پانی کا قطرہ بھر لیتا اور اسے آگ پر ڈال دیتا وہ اسی کام میں لگا رہا تا آنکہ یہ آگ قدرت نے گلزار کر دی اور جب اس پرندے نے یہ دیکھا تو اپنے دوست کی نجات اور اپنی کامیابی پر خوشی سے دیوانہ ہو گیا اور ہوا میں قلابازیاں لگانے لگا مگر ہم بے بس پاکستانی تو اس پرندے سے بھی بدقسمت ہیں جوکسی قلابازی کے لیے اپنے رہنمائوں کی طرف سے ہمدردی کے چندبولوں کے منتظر رہتے ہیں ۔

میں ٹیلی ویژن پر اپنے رہنمائوں کو دیکھ رہا ہوں ان کے الفاظ بناوٹی اور ان کے چہرے مہرے سے کسی پریشانی کا کوئی اظہار مجھے دکھائی نہیں دے رہا۔ ہمارے وہ لیڈر حضرات جنھوں نے اب تک عوام کا حال نہیں پوچھا جو اب تک اس گرم موسم میں اپنے ٹھنڈے گھروں اور سرکاری دفتروں میں کافیاں پی رہے ہیں اور وباء کے خطرے سے اپنے آپ کو لاتعلق رکھے ہوئے ہیں جو ان علاقوں اور لوگوں سے لاپروا ہیں جن سے وہ ووٹ حاصل کر کے آئے ہیں، میری خواہش ہے کہ ان سب عوامی نمایندوں کو زبردستی عوام میں بھیج دیا جائے تا کہ ان کو معلوم ہو کہ عوام پر کیا بیت رہی ہے۔ میں نے اس وباء کامقابلہ کرنے کے لیے حکمرانوں کے کئی اجلاس دیکھے ہیں جن کے شرکاء پر کسی طرف سے یہ گمان نہیں گزرتا کہ وہ ایک عذاب میں مبتلا ہیں اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کے ذمے دار ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ان اجلاسوں میں ان کے حفاظتی امور پر جتنا خرچ آتا ہے اس سے کئی انسانوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہوں گی ۔ کوئی مجھ سے پوچھے تو ہمارے کسی صاحب دل حکمران کو یہاں کہیں کسی سرکاری اسپتال میں کسی پاکستانی کے ساتھ مر جانا چاہیے تھا۔ مرنا تو ایک دن ہے ہی کیوں نہ ایسی موت مریں جو قوم کوزندگی دے جائے۔

عبدالقادر حسن

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کورونا وائرس : پاکستان میں خطرے کی گھنٹی

طبی ماہرین، ڈاکٹروں کی تنظیمیں حتیٰ کہ عالمی ادارۂ صحت بھی بار بار متنبہ کر رہا تھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کی اب وفاقی حکومت کے دو اہم ترین ذمہ داروں نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے سربراہ اسد عمر نے ایک میڈیا بریفنگ میں اعتراف کیا کہ کورونا وائرس سے ملک میں ہونے والی اموات میں 242 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ماہِ رواں میں کورونا کے متاثرین کی تعداد 3 لاکھ اور جولائی کے آخر تک 12 لاکھ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی اس اندیشے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی تک متاثرین کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جبکہ ایک اور حکومتی شخصیت کا کہنا ہے کہ کورونا کے حوالے سے پاکستان میں جو اعداد و شمار ظاہر کیے جا رہے ہیں اصل میں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

اسد عمر نے میڈیا کو بتایا کہ کورونا نے تو ابھی پھیلنا ہے، مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ اس کی رفتار کیسے کم کی جائے ورنہ صحت کا سارا نظام مفلوج ہو جائے گا، ایسے حالات میں ڈاکٹروں کی ہدایات پر جتنا عمل کریں گے کورونا کا پھیلائو اتنا ہی کم ہو گا، اس حوالے سے عوام کو احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہو گا خاص طور پر ماسک پہننا ہو گا جس سے کورونا کیسز میں 50 فیصد کمی آ سکتی ہے، حکومت زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈائون کر ے گی جس کا لاہور سے آغاز کر دیا گیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا تھا کہ وہ کورونا پر سیاست کرنے کے بجائے اس کا عملی اور متفقہ حل تلاش کریں، پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس دکھائی دی۔ یہاں شروع ہی سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح سے یہ تاثر دیا گیا کہ کورونا سے ڈرنا نہیں ہے جس کا مطلب یہ لیا گیا کہ اس سے بچنے کے لیے کچھ کرنا بھی نہیں ہے چنانچہ عوام نے یہاں کے عمومی مزاج کے مطابق اس وبا کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

سندھ حکومت نے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح فوری لاک ڈائون کیا جس کے وفاق کی جانب سے حوصلہ افزائی نہ ہونے کے باعث مطلوبہ نتائج کم برآمد ہوئے۔ وفاق کی طرف سے ایک جانب لاک ڈائون کے خلاف دلائل دیئے جاتے رہے تو دوسری طرف لاک ڈائون کا اعلان بھی کیا گیا جس پر لوگوں نے کنفیوژن کی وجہ سے زیادہ توجہ ہی نہ دی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عالمی پس منظر میں دیکھا جائے تو پوری دنیا میں اس وقت کورونا کی وبا کم ہو رہی ہے اور وہ ممالک بھی جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر گئے، لاک ڈائون ختم کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے وہاں صورتحال بہتر ہوئی۔

پاکستان میں یہ وبا بعد میں آئی اس لئے اسے ایسے ممالک کے تجربات سے سیکھنا چاہئے تھا اور ان کے طور طریقے اپنا کر وبا کو روکنا چاہئے تھا مگر یہاں ڈاکٹروں، ڈبلیو ایچ او اور ماہرین کی رائے کو مصلحتوں کی وجہ سے نظر انداز کر کے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے جس کے نتیجے میں صورت حال اب خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ اسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں، ٹیکے لاکھوں کے ہو گئے ہیں، پلازمہ مل نہیں رہا اور متعلقہ اداروں نے بھی سست روی کا مظاہرہ کیا۔ ایسے میں ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت معاملہ مزید بگڑنے سے پہلے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے، اجتماعی رائے کی روشنی میں غلطیوں کی اصلاح کرے، کنفیوژن دور کرے، ہیلتھ سروسز کو مضبوط بنائے اور ہیلتھ ورکرز اور ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے والے عملے کو خطرات سے بچانے کیلئے ضروری اقدامات کرے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کورونا وائرس پر شک و شبہات

پوری دنیا اس وقت کورونا وائرس کا شکار ہے۔ اب 3 ماہ کے کلی اور جزوی لاک ڈائون پر شکوک کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ بڑے بڑے نامور پروفیسر صاحبان پہلے اس وائرس کو سمجھنے میں لگے ہوئے تھے، اب اس پر اپنے اپنے تحفظات؍ تحقیقات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک نامور کیمسٹری کے پروفیسر مائیکل لیوٹ جن کو 2013ء میں کیمسٹری میں نوبیل پرائز ملا تھا، نے برملا اس وائرس پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک غیر تحقیق شدہ مفروضہ وائرس صرف اقتصادی ماہرین کی منطق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس پر سائنسی ماہرین کی رائے ایک جیسی نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی حتمی حل نظر آرہا ہے۔ ماسوائے اقتصادی تباہی، اربوں انسانوں کو لاک ڈائون کر کے بھوک پیاس اور خوف سے مارا جا رہا ہے۔

انہوں نے بھارتی حکومت پر خصوصی طور پر تبصرہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ 1 ارب 40 کروڑ عوام کو 2 ماہ غیر صحتمند علاقوں، مکانوں اور بستیوں میں قید رکھا گیا، جبکہ وائرس سے اموات صرف چند سو تھیں۔ بھوک اور گھٹن سے کتنی اموات ہوئیں، اس غریب ملک میں جہاں 30 فیصد آبادی بے گھر ہے، 2 وقت کا کھانا بھی دستیاب نہیں، کل کام ملے گا یا نہیں اس خوف سے کتنے لوگ مر گئے، اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ پوری دنیا کو بیروزگاری میں مبتلا کر کے کس کس کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔ یقیناً یہ ایک گھنائونا کھیل، انسانوں کی آبادیاں کم کرنے اور معیشت پر کنٹرول کرنے کی سازش گزشتہ 10 سال سے خصوصی طور پر تیار کی گئی تھی۔

یہی نہیں امریکہ جو اس وائرس کی لپیٹ میں سب سے آگے ہے، یہاں کے دانشور اور ماہر اقتصادیات بھی اب کھل کر لاک ڈائون کے خلاف میدان میں عوام کے شانہ بشانہ آ چکے ہیں۔ ہر محاذ پر اس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بیروزگاری سے تنگ آکر امریکہ کی پہلے 28 ریاستوں نے بغاوت کی اور عوام کے غم و غصہ سے بچنے کے لئے لاک ڈائون میں نرمیاں کیں، پھر اب پورے امریکہ سے لاک ڈائون ختم کر دیا۔ شراب خانے، جوا خانے، شاپنگ مالز ایک ایک کر کے سب کھول دیا گیا ہے۔ ریسٹورنٹس میں عوام کو کھانا کھانے کی اجازت بھی مل چکی ہے، کئی ریاستوں میں ماسک اور فاصلے بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔ اٹلی جو اس مہلک وائرس کا شکار دوسرا بڑا ملک ہے، جہاں 35 ہزار اموات اور لاکھوں مریضوں ہیں، اس کی پارلیمنٹ کی ایک معزز رکن سارہ کونیل نے اس وائرس کا موجد مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس کو ٹھہرا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا۔

اپنی تقریر میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی معلومات کے مطابق اربوں ڈالر خرچ کر کے بل گیٹس نے اپنی کورونا چپس بیچنے کے لئے یہ خوف پھیلایا اورعالمی میڈیا کو اپنے ساتھ ملا کر 8 ارب چپس عوام کے جسموں میں لگا کر اپنے نامعلوم عزائم کے لئے 10 سال سے راہیں پیدا کی گئیں تاکہ وہ ان کی ویکسین اور چپس سے بڑھتی ہوئی آبادیوں کو کنٹرول کر سکے۔ خصوصاً افریقہ کی غریب آبادیاں ان کا ٹارگٹ تھیں اس لئے انہوں نے اپنی ویکسین کو آزمانے کے لئے کینیا کو بہت بڑی رقم پیش کی جس کو کینیا کی حکومت نے ٹھکرا دیا، انہوں نے بل گیٹس کو بین الاقوامی مجرم ٹھہراتے ہوئے عالمی عدالت میں ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سینئر رکن اسمبلی کی تقریر کو عالمی میڈیا نے خاص کوریج نہیں دی اور دیگر میڈیا نے خصوصاً مائیکرو سافٹ کے زیر اثر ہونے کے سبب اس خبر کا بلیک آئوٹ کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے اپنا الیکشن جیتنے کیلئے چین کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے یہ کھیل رچایا تھا اور بار بار کہہ رہا ہے کہ آپ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون بند کریں اور اس نے اس کو نیچا دکھانے کے لئے 28 کمپنیوں کو وہاں سے نکال کر انڈونیشیا میں نئے معاہدے پر دستخط کئے۔ الیکشن جیتنے کے لئے اسی طرح فلسطین کو تقسیم کر کے بیت المقد س پر یہودیوں کے قابض ہونے کا جو پلان بنایا تھا وہ سارا اس کے اگلے الیکشن کا اہم حصہ ہے۔

بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پوری دنیا کی معیشت جو امریکی یہودیوں کے نو، دس اداروں کے پاس ہے وہ آئی ایم ایف کے ذریعے پوری دنیا کو مفلوج بنانا چا ہتے تھے اور وہ اس پر کافی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں، اس لئے یہ وائرس کا معاملہ شک و شبہات سے بھرپور ہے۔ اس وقت اس وائرس کی وجہ سے ایئر لائنز کی صنعت کو 60 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ ہزاروں طیارے پوری دنیا کے ہوائی اڈوں پر قطار در قطار کھڑے طیاروں کے قبرستان کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ لاکھوں ایئر لائنز اسٹاف کو فارغ کیا جا چکا ہے، اس سے ملحق ہوٹل، ریسٹورنٹس اشیاء کی بندش سے 130 ارب ڈالرز کی مزید انڈسٹری کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

البتہ پیٹرول کی قیمتیں 30 ڈالر تک واپس آچکی ہیں۔ عرب امارات، افریقی ممالک، کوریا، تائیوان، یورپی یونین اور برطانیہ کی حکومتیں لاک ڈائون ختم کر چکی ہیں اور آہستہ آہستہ دیگر ممالک بھی لاک ڈائون بتدریج ختم کر رہے ہیں۔ جولائی تک حتمی طور پر پوری دنیا لاک ڈائون سے چھٹکارا پا سکے گی، بشرطیکہ اس وائرس کے منفی اثرات میں غیر معمولی تیزی نہ آئے۔ مگر ایک بات ہے ہر طبقہ میں اس وائرس پر شک و شبہ کا اظہار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھوک و افلاس اور بیروزگاری ہے جو 90 فیصد دنیا کی آنکھیں کھول چکی ہے۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ

لاک ڈاؤن، پاکستان کیلئے ہیرو یا ولن

پاکستانیوں کو بڑے مخمصے کا سامنا ہے ، وہ کورونا وائرس سے جنگ میں لاک ڈائون کو اپنے لئے ہیرو ( نجات دہندہ ) سمجھیں یا ولن ( دشمن ) ۔ 26 فروری کو اس وائرس سے پہلی ہلاکت ہوئی اور اب یہ تعداد 800 کے قریب پہنچ گئی ہے جس میں کوئی کمی نہیں بلکہ تعداد بڑھنے کا ہی خدشہ ہے ۔ یہ معاملہ تحقیقی سے زیادہ سیاسی بن گیا ہے ۔ حکومت نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس وائرس سے بچنے کا طریقہ کار اختیار کر یں ، سماجی ( طبعی ) فاصلے اختیار کریں ، ماسک لگائیں اور دستانے پہنیں ۔ اپنے روزمرہ معمولات میں طرز زندگی کو بدلیں ۔ خاندانوں میں غیر یقینی پھیلی ہوئی ہے ۔ رمضان المبارک کے بعد ہزاروں شادیاں طے ہو تی ہیں ۔ حکومت نے شادی ہالز کھولنے اور ایس او پیز کا کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا ہے جبکہ ماہ صیام اپنے آخری عشرے میں داخل ہو چکا ۔ 

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ایس او پیز پر سختی سے عمل پیرا ہو نے کے انتباہ کے ساتھ نام نہاد لاک ڈائون میں نرمی کی ، چند روز قبل پورے ملک میں محدود کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی لیکن ملک میں بڑی مارکیٹوں اور کاروباری مراکز سے جو رپورٹس آرہی ہیں ، وہ ان لوگوں کے لئے مایوس کن ہیں جو اسمارٹ لاک ڈائون کی بات کرتے ہیں لیکن لوگوں نے طے کردہ ایس او پیز کی کوئی پرواہ ہی نہیں کی جس کے نتیجے میں انتظامیہ نے بڑی مارکیٹوں کو بند کر دیا ۔ ایس او پیز کو لاگو کر نا، وفاقی حکومت کی تشکیل کردہ ٹائیگر فورس کے لئے بڑی آزائش ہے ۔ 

کیونکہ جلد ہی ٹرانسپورٹ پر پابندیاں نرم کر دی جائیں گی ، نجی ٹیکسی سروس کو کام کر نے کی اجازت دئے جا نے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے ۔ جس کی تصدیق سندھ کے وزیر سعید غنی نے بھی کی ہے ۔ ہوسکتا ہے حکومت ٹرینوں کی آمد و رفت اور بس سروس بھی بحال کر دے ۔ بڑے شاپنگ مال بھی کھول دینے پر غور کیا جا رہا ہے کیونکہ وہاں ایس او پیز پر عمل درآمد کرانا نسبتاَ آسان ہوتا ہے ۔ جن لوگوں نے روز اول سے مکمل لاک ڈائون کی مخالفت کی ، ان کے خیال میں پورا ملک بند کر گئے جا نے کا متحمل نہیں ہو سکتا ، صرف اشرافیہ کو ہی اس سے تحفظ مل سکتا ہے ۔

مظہر عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ

کرونا وائرس : احتیاط نہ کی تو پاکستان میں صورتحال اٹلی جیسی ہو سکتی ہے

ماہر صحت ڈاکٹر عبدالباری خان اور ڈاکٹر سعد نیازکا کہنا ہے کہ ہم مجمع روکنے کی بات کر رہے ہیں چاہے وہ مارکیٹ میں ہو یا مسجد میں ہو کیونکہ اگر احتیاط نہ کی تو خدانخواستہ صورتحال اٹلی جیسی ہو سکتی ہے ۔ ڈاکٹر عبدالباری خان نے کہا کہ کورونا کے کیسز تیزی سے بڑھے تو اسپتالوں کیلئے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مجمع چاہے مارکیٹ میں ہو یا مسجد میں اسے روکنے کی ضرورت ہے، مجمع کہیں بھی ہو وہاں خطرہ بڑھ جاتا ہے، ہمیں ویسے ہی وینٹی لیٹرز کی کمی کا سامنا بھی ہے۔ ڈاکٹر عبدالباری نے کہا کہ التجا ہے غیر ضروری گھر سے باہر نہ نکلیں، صفائی کا خیال رکھیں، ماسک کا استعمال لازمی کیا جائے۔ 

ڈاکٹر سعد نیاز نے کہا کہ ٹیسٹ بڑھائے جائیں گے تو کورونا کیسز بھی زیادہ آئیں گے، اس وقت ہم مجمع روکنے کی بات کر رہے ہیں چاہے وہ مارکیٹ میں ہو یا مسجد میں ہو۔ ڈاکٹر سعد نیاز نے کہا کہ ہمارے ہیلتھ سسٹم میں اتنی صلاحیت نہیں کہ بڑی تعداد میں کیسز دیکھ سکے، سب کہہ رہے ہیں مئی میں کورونا وائرس کے کیسز بڑھیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ سخت احتیاط کی ضرورت ہے، ہمارا صحت کا نظام زیادہ کیسز کا متحمل نہیں ہو سکتا، لاک ڈاؤن کو مزید دو سے چار ہفتے بڑھانا ہو گا۔ ڈاکٹر سعد نے کہا کہ جہاں مجمع ہو گا وہاں کورونا کے پھیلنے کا خدشہ ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ