پراجیکٹ ’نیو‘ ایم کیو ایم

شہری سندھ کی سیاست میں ’مہاجر فیکٹر‘ ہمیشہ سے اہم رہا ہے مگر سال 2013ء کے انتخابات کے بعد سے اس رجحان میں تبدیلی آئی اور 2018 میں پہلی بار کراچی نے ایک ایسی جماعت کو مینڈیٹ دیا جس نے وفاق میں حکومت بنائی جس کی ایک بڑی وجہ 22؍ اگست 2016 کے بعد سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی تقسیم در تقسیم اور اردو بولنے والوں کے مقابلے میں دوسری زبان بولنے والوں کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ تھا، تیسری وجہ خود ماضی میں اس جماعت کا ساتھ دینے والوں کا اس پر سے اعتماد ختم ہونا تھا اور اس کے ساتھ پاکستان کے طاقتور حلقوں کا بدلتا بیانیہ۔ جس جماعت کو اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ پاکستان تحریک انصاف ہے جس نے 2013 کے الیکشن میں 8 لاکھ ووٹ لئے تھے گو کہ ایم این اے کی ایک نشست جیتی مگر 2018 میں 16 اور شہری سندھ کی سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری۔ 2018 کے مقابلے میں 2023 میں محض یہ فرق آیا ہے کہ اُس وقت پی ٹی آئی کو اداروں کی پشت پناہی حاصل تھی اب صورتحال ذرا مختلف ہے۔

البتہ اپریل 2022 کے بعد سے اس جماعت نے اپنی غیرمقبولیت کو عدم اعتماد کی تحریک کے بعد مقبولیت میں تبدیل کر دیا ہے اور ماضی کے مقابلے میں اس وقت ایم کیو ایم اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کا اپنا ووٹ بینک اب تین یا چار حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے جن میں پی ٹی آئی، تحریک لبیک اور جماعت اسلامی نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کی اپنی مقبولیت خود اپنے حلقہ احباب میں سوالیہ نشان ہے جس کی وجہ وہ خاموش ووٹر ہے جو آج بھی بانی متحدہ الطاف حسین سے جڑا ہوا ہے۔ بظاہر اداروں کا رویہ ایم کیو ایم (لندن) کے بارے میں اب بھی خاصہ سخت ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ماضی کی ایم کیو ایم اور الطاف کی ہر نشانی کو ختم کرنا چاہتے ہیں، چاہے وہ عزیزآباد میں ان کی رہائش گاہ 90 ہو، آفس خورشید میموریل ہال ہو۔ جناح پارک ہو یا یادگار ِشہدا، یہی نہیں، ’نیو‘ ایم کیو ایم پراجیکٹ میں یہ شرائط شامل ہیں کہ رابطہ کمیٹی ختم کی جائے گی، ماضی کی طرح کوئی تنظیمی سیکٹر، یونٹ انچارج نہیں ہوں گے نہ ہی الخدمت فائونڈیشن کو ماضی کی طرح چندہ جمع کرنے کی اجازت ہو گی۔

یہ ایک مختصر سا خلاصہ ہے نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ کا، وہ بھی شاید اس لئے لایا جارہا ہے کیونکہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے معاملات تا حال کشیدہ ہیں مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اداروں میں پریشانی صرف پی ٹی آئی کی وجہ سے نہیں بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کی وجہ سے بھی ہے کیونکہ چند ماہ قبل بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کے نتائج سے اس کا امکان بڑھ گیا ہے کہ شہری سندھ بشمول سکھر، میرپور خاص اور حیدرآباد میں بھی پی پی پی کے میئر منتخب ہو سکتے ہیں۔ 15؍ جنوری کو اگر بلدیاتی الیکشن ہو جاتے ہیں تو مقابلہ پی ٹی آئی، پی پی پی اور جماعت اسلامی میں ہونے کا زیادہ امکان ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے انضمام کی صورت میں بھی انہیں ’لندن‘ کی مزاحمت کا سامنا رہے گا۔ پی پی پی، جماعت اسلامی کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں بلدیاتی الیکشن سائنس کا زیادہ تجربہ حاصل ہے مگر پی ٹی آئی کا ووٹر خاصہ متحرک ہے اور خود عمران خان الیکشن مہم کیلئے کراچی آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

امکان اس بات کا ہے کہ یوسی کے الیکشن کے بعد کسی دو جماعتوں کے اتحاد سے مئیر اور ڈپٹی مئیر کا انتخاب ممکن ہو گا، کلین سویپ کے امکانات کم ہیں۔ البتہ مئیر کے لئے اب تک واحد امیدوار جماعت کے حافظ نعیم الرحمٰن ہیں جبکہ پی ٹی آئی میں مقابلہ فردوس شمیم نقوی اور خرم شیرزمان میں ہے مگر کپتان کسی تیسرے کو بھی نامزد کر سکتے ہیں۔ پی پی پی کے امیدوار کا اعلان یو سی الیکشن کے بعد ہو گا۔ رہ گئی بات نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ کی، اس کی اصل وجہ ماضی کے پراجیکٹ پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کی 2016 کے بعد سے انتخابی ناکامی ہے، وہ اسی سال فروری میں مائنس الطاف اور مائنس ایم کیو ایم فارمولہ لائے تھے۔ اداروں کے اندر اب بھی سابق مئیر اور پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر ان کا اینٹی الطاف بیانیہ عوامی پذیرائی حاصل نہ کر سکا، دوسری طرف 22؍ اگست سے پیدا شدہ صورتحال کو طاقتور حلقوں نے اس بے دردی سے استعمال کیا جس سے ایم کیو ایم (لندن) اور الطاف کیلئے ہمدردیاں زیادہ پیدا ہونے لگیں۔

نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ کی ایک کوشش کوئی دو سال پہلے ہوئی تھی مگر بہت سے رہنمائوں کی ’انا‘ آڑے آگئی۔ ایک وجہ تنازع عامر خان رہے ہیں جس کا اپنا ایک پس منظر ہے۔ ان کی سیاست کی ابتدا آفاق احمد کے ساتھ الطاف حسین کے مضبوط ساتھیوں کے ساتھ ہوئی۔ وہ دونوں کراچی کے زونل انچارچ تھے۔ 1991 میں ایم کیو ایم کی پہلی بڑی تقسیم کے نتیجے میں ان دونوں سمیت کوئی چار پانچ لوگوں کو پارٹی سے نکال دیا گیا مگر پراجیکٹ ایم کیو ایم (حقیقی) بھی کامیاب نہیں ہو سکا جس کے بارے میں ایک بار خود اس کے سربراہ آفاق احمد نے کہا تھا کہ انہیں سیاست کرنے کی اجازت نہیں تھی بس ادارے چاہتے تھے کہ ہم اپنا ’علاقہ‘ اپنے پاس رکھیں یعنی لانڈھی، کورنگی۔ 22؍اگست کے بعد عامر خان ایم کیو ایم (پاکستان) کے نمبر 2 ہو گئے مگر نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ میں انضمام کی صورت میں وہ اس سے باہر رہیں گے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس نئے پراجیکٹ کے روح رواں گورنر کامران ٹیسوری ہیں جو 2016 میں وجہ تنازع بنے۔

کہتے ہیں انسان کا اصل امتحان ہوتا ہی اس وقت ہے جب آپ کے پاس اختیار آجائے اگر آپ نے وہ ضائع کر دیا تو وہ پلٹ کر نہیں آتا۔ یہی ایم کیو ایم کی کہانی ہے جن زبان بولنے والوں کی طاقت علم و ادب اور تہذیب رہی ہو ان کو اگر قائد ’’زیور بیچ کر ہتھیار خریدنے‘‘ کا مشورہ دیں گے تو پھر وہی ہو گا جو ہوا۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے، علاقے اور محلے میں موٹر سائیکل پر سفر کرنے والے راتوں رات امیر ہو جائیں تو یہی ہوتا ہے جو ہوا۔

مظہر عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ

مرتضیٰ وہاب، بڑے ہو کر کیا بنو گے؟

ساری زندگی صحافت میں گزارنے کے باوجود سیاستدانوں سے کبھی ذاتی دوستی یا دشمنی نہیں رہی۔ کسی پریس کانفرنس میں سن لیا یا کبھی انٹرویو کرتے ہوئے حال احوال ہو گیا، شاید ہی کبھی کسی نے کوئی آف دی ریکارڈ بات کی ہو۔ ایک دفعہ الطاف بھائی نے ٹیپ ریکارڈر بند کروا کر علامہ اقبال کی شان میں گستاخی کی تھی اور ایک بار بے نظیر بھٹو نے کسی ٹی وی سٹوڈیو جاتے ہوئے اپنا پرس تھما دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں جھانکنے کی کوشش مت کرنا۔ میرا خیال ہے وہ مردوں کی گھٹیا عادتوں سے اچھی طرح واقف تھیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب جب ابھی کالج میں پڑھتے تھے تو ان کے نوجوان دوستوں سے ملاقات ہوتی تھی۔ تمام انکلوں کی طرح مجھے نوجوانوں سے بات کرنے کا ایک ہی طریقہ آتا تھا کہ بیٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے۔ آج کل میں یہ بھی نہیں پوچھتا کیونکہ بعض دفعہ نوجوان یہ بھی پوچھ لیتے ہیں کہ مجھے چھوڑیں آپ بتائیں بڑے ہو کر کیا بنیں گے۔

مرتضیٰ وہاب کا جواب مجھے اچھی طرح یاد ہے کیونکہ میں نے کبھی اتنا سیدھا اور مختصر جواب نہیں سنا۔ اس نے کہا کراچی کا میئر۔ ایک اچھے انکل کی طرح مجھے اس کے جواب پر خوشگوار حیرت بھی ہوئی اور تھوڑی سی فکر بھی۔ میری عمر کے اور کلاس کے جو نوجوان سیاست میں جانا چاہتے تھے، وہ زیادہ سے زیادہ ایم پی اے یا ایم این اے بننا چاہتے تھے۔ ایک سندھی صحافی دوست تھا اس کا خواب سندھ کا وزیر اعلیٰ بننا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ وزیراعظم کیوں نہیں بننا چاہتا۔ شاید اسے بھی سمجھ نہیں آتی تھی، بس سندھ کے وزیر اعلیٰ کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اگر یہ بن سکتا ہے تو میں کیوں نہیں۔ مجھے نوجوان مرتضیٰ وہاب کے جواب سے اس لیے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اگر سیاست واقعی طاقت اور خدمت کا امتزاج بنے تو کراچی کے مئیر سے زیادہ اہم رتبہ پاکستان میں تو نہیں ہو سکتا۔

گلی محلے کی سطح پر لوگوں کے مسئلے حل کرو اور دعائیں اور ووٹ سمیٹو لیکن ایک دانشور انکل کے طور پر میں نے نوجوان مرتضیٰ کو سمجھایا کہ کراچی ایم کیو ایم کا شہر ہے۔ تم اپنی والدہ کے حوالے سے پی پی پی میں جاؤ گے نہ کبھی پی پی پی کراچی کے بلدیاتی انتخاب جیتے گی نہ تم میئر بنو گے۔ اب شنید ہے کہ مرتضی وہاب کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بننے جا رہے ہیں جو ہمارے ہاں تقریباً میئر ہی ہوتا ہے۔ تو اپنے پیارے نوجوانوں جب زندگی میں کچھ کرنے کا سوچو تو دانشور انکلوں کی باتوں پر کبھی یقین نہ کرنا۔  کراچی کے شہری کے طور پر میں نے فاروق ستار جیسے نرم خو مئیر نہیں دیکھے جنھیں اب مشاعرے کی صدارت کے لیے بھی کوئی نہیں بلاتا۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی ایک نوجوان ایڈمنسٹریٹر فہیم زمان کو لائی تھی جو اب کبھی کبھی شاندار تحقیقاتی صحافت کرتے ہیں، کبھی بھنا کے پولیس والوں سے پوچھتے ہیں کہ تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔

ایک دفعہ کراچی میں وہ دن بھی تھا کہ شہری اٹھے تو ہر سڑک، ہر چوک پر بینر لگے تھے کہ مصطفیٰ کمال پوری دنیا میں میئروں کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر آئے ہیں۔ کراچی والوں نے کہا کہ ہمیں تو پہلے ہی پتا تھا کہ یہ دو نمبر میئر ہے۔ وہ پہلے الطاف بھائی کو ووٹ لیتے تھے پھر انھوں نے الطاف بھائی کو شرابی اور غدار کہہ کر ووٹ لینے کی کوشش کی۔ کراچی والوں نے کہا جس دنیا نے تمھیں دو نمبر میئر چنا تھا اب وہیں جا کر ووٹ مانگو۔  کراچی کے زوال کا سفر فہیم زمان یا فاروق ستار کے میئر بننے سے شروع نہیں ہوا بلکہ شاید یہ پہلے سے جاری تھا لیکن میں نے ہر میئر کے آنے اور جانے کے بعد سوچا کہ ایک کتاب لکھی جائے کہ میں نے کراچی ڈوبتے دیکھا۔

اگر لکھ دی ہوتی تو اب تک اس کا پانچواں ایڈیشن آ چکا ہوتا لیکن زیادہ تر وقت اس انتظار میں گزر گیا کہ پانی کا ٹینکر کب آئے گا اور کتنے کا آئے گا کیونکہ جس شہر کے ایڈمنسٹریٹر بن کر مرتضیٰ وہاب اپنا پچپن کا خواب پورا کرنے جا رہے ہیں وہاں شہریوں کے حصے کا پانی چرا کر ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن جیسے علاقوں کو دیا جاتا ہے اور پھر وہاں سے کچھ چرا کر ہمیں بیچا جاتا ہے۔ یہاں شہر کے ایک طرف سمندر میں کچرا ڈال کر اپنی جھونپڑیاں بنا لیتے ہیں اور اسے تجاوزات کہا جاتا ہے، کلفٹن میں سمندر میں مٹی ڈال کر فلیٹ بنائے جاتے ہیں جو آٹھ دس کروڑ کے بکتے ہیں اور اسے ڈویلپمینٹ کہا جاتا ہے۔ مرتضیٰ وہاب کو ان کے خواب کی تعبیر مبارک لیکن انھیں ووٹ اور دعائیں تب ہی ملیں گی جب ہمارے نلکوں سے روٹھا ہوا پانی واپس آئے گا۔

محمد حنیف

بشکریہ بی بی سی اردو

کراچی پولیس کے راؤ انوار کون ہیں؟

کراچی پولیس کے راؤ انوار شاید واحد رینکر افسر ہیں جنھوں نے کسی ضلعے کی سربراہی کی۔ راؤ انوار 1980 کی دہائی میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے، بطور سب انسپکٹر ترقی پاتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے، اس عرصے میں وہ زیادہ تر گڈاپ تھانے پر تعینات رہے۔ سنہ 1992 میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو راؤ انوار اس میں بھی پیش پیش تھے، جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا تو راؤ انوار رخصت پر چلے گئے اور یہ عرصہ انھوں نے دبئی میں گزارا، بعد میں انھوں نے بلوچستان میں سروس جوائن کی۔ 

سنہ 2008 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں اقتدار سنبھالا تو راؤ انوار نے دوبارہ کراچی کا رخ کیا، اس کے بعد دس برسوں کے دوران وہ زیادہ تر ایس پی ملیر کے عہدے پر ہی تعینات رہے۔ راؤ انوار نے سنہ 2016 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ 150 سے زائد پولیس مقابلے کر چکے ہیں اگر انھیں ہٹایا نہیں گیا تو وہ اس میں اضافہ کریں گے۔ ان مقابلوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا کہ ان کا پہلا مقابلہ ایم کیو ایم کے فہیم کمانڈو کے ساتھ ہوا تھا جس میں وہ مارا گیا۔

بشکریہ بی بی سی اردو

نقیب اللہ قتل کیس : راؤ انوار ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار، عمل دہشتگردی قرار

نقیب اللہ قتل کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے عمل کو دہشت گردی قرار دے دیا۔ سندھ پولیس کے ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان کی سربراہی میں قائم جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ تیار کر لی جس میں ڈی پی او بہاولپور کی رپورٹ کا بھی ذکر ہے اور ڈی پی او بہاولپور کے مطابق محمد صابر اور محمد اسحاق کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ راؤ انوار نے نقیب اللہ و د یگر کو ماورائے عدالت قتل کیا، راؤ انوار اور دیگر پولیس افسران کا عمل دہشت گردی ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نقیب اللہ اور دیگر کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ملا، ماورائے عدالت قتل کو تحفظ دینے کے لیے میڈیا میں جھوٹ بولا گیا، واقعے کے بعد راؤ انوار اور دیگر پولیس افسران و اہلکاروں نے شواہد ضائع کیے۔ رپورٹ کے مطابق راؤ انوار اور دیگر ملزمان نے اپنے اختیارات کا بھی ناجائز استعمال کیا، ملزمان کا مقصد اپنے دیگر غیر قانونی اقدامات کو تقویت اور دوام پہنچانا تھا۔ جے آئی ٹی نے رپورٹ کی تیاری میں جیو فینسنگ اور فارنزک رپورٹ کا سہارا لیا ہے جب کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈی این اے رپورٹ سے چاروں افراد کا الگ الگ قتل ثابت ہوتا ہے، چاروں افراد کو دو الگ الگ کمروں میں قتل کیا گیا، ایک کمرے کے قالین پر دو افراد کے خون کے شواہد ملے جب کہ دوسرے کمرے کے قالین پر چاروں کے خون کے شواہد ملے، ثابت ہوتا کہ چاروں افراد کو جھوٹے پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا جس کے بعد بعد میں لاشیں دو مختلف کمروں میں ڈال دی گئیں۔

مقتول نظر جان کے کپڑوں پر موجود گولیوں کے سوراخ کی فارنزک رپورٹ بھی حصہ ہے جب کہ بتایا گیا ہے کہ مقتول نظر جان پر ایک سے پانچ فٹ کے فاصلے سے فائرنگ کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے راؤ انوار کی گرفتاری کے بعد اس کے ہمراہ بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا، ملزم کیس میں ملوث نہ ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا جب کہ پوچھ گچھ کے دوران ملزم راؤ انوار نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ جیو فینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی موقع پر موجودگی ثابت ہے، مقتولین کو دہشت گرد قرار دے کر جھوٹے پولیس مقابلے میں ہلاک کرنا بخوبی ثابت ہے۔ رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان کو رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی اجازت دی ہے جب کہ جے آئی ٹی کی روشنی میں ضمنی چالان پیش کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔

فہیم صدیقی
بشکریہ جیو نیوز اردو

مجبوری میں لکھا گیا کالم : وسعت اللہ خان

مجھے نہیں معلوم کہ سبب کیا ہے البتہ پچھلے چند برس میں ایک تبدیلی تو ضرور آئی ہے۔ اب لوگ اپنے الفاظ واپس لینے لگے ہیں اور معذرت بھی کرنے لگے ہیں۔ درگذر کرنے والوں کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ جیسے سندھ یونیورسٹی کی برفت انتظامیہ نے سائن بورڈز کے بارے میں ایک نوٹیفکیشن نکالا اردو میڈیا نے اس کا مطلب کچھ اور نکالا اور پھر برفت انتظامیہ نے ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اردو میڈیا پر ٹھنڈی بالٹی ڈال دی۔ جیسے محتاط انور مقصود کا قلم پھسل کر نسل پرستانہ جوہڑ میں جا گرا۔ توجہ دلانے پر اس نے لاکھوں ٹوٹے دلوں سے معذرت کر لی۔

مگر ایسا ہوتا ہی کیوں ہے کہ کوئی ایک نوٹیفکیشن جاری ہونے پر لگے کہ دوسرے کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا اور کسی ایک جملے پر یوں محسوس ہو گویا پوری نسل اور قوم پر ہی خطِ تنسیخ پھیر دیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو باہر سے تو جانتے ہیں مگر اندر سے جاننے میں نہ کوئی دلچسپی ہے ، نہ وقت دینے کو تیار ہیں۔ ذرا سا ناخن لگ جائے تو تعلق کا پینٹ اکھڑنے لگتا ہے۔ اگرچہ مجھے کسی بھی مضمون میں اپنی ذات کو بیچ میں لانے کا عمل گھٹیا پن لگتا ہے مگر پچھلے دو ہفتے کے دوران سوشل میڈیا پر جو لفظیاتی مجرہ ہوا ہے، اسے دیکھ کر میں اپنے تجربات بتانے پر مجبور ہو گیا ہوں۔

میں ان چند خوش قسمت لکھاریوں میں سے ہوں جنہوں نے سندھیوں اور غیر سندھیوں کا تھوڑا بہت اعتماد کمایا ہے۔ میرے لیے یہ تولنا بہت مشکل ہے کہ کون مجھ سے زیادہ محبت کرتا ہے اور میں خود کو کس کے زیادہ قریب پاتا ہوں۔ اسی لیے میں سندھ کو اپنے گھر کا ڈرائنگ روم تصور کر کے بے دھڑک اچھی بری باتیں کرتا ہوں مگر لوگ غصے میں نہیں آتے بلکہ مثبت انداز میں دھواں دھار بحث کرتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہیں، فقرے بھی کستے ہیں، ایک دوسرے سے سیکھتے بھی ہیں اور پھر اگلی ملاقات کے وعدے پر رخصت ہو جاتے ہیں۔

مگر یہ لگڑری سندھیوں اور غیر سندھیوں کی اکثریت کو حاصل نہیں۔ وہ ایک دوسرے کے قریب قریب تو ضرور رہتے ہیں لیکن ان کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ وقت گذارنے کا ضروری لازمی وقت نہیں۔ لہذا ایک دوسرے کے بارے میں ان کا امیج وہی پرانا سٹیریو ٹائپ ہے۔ جو انھوں نے کسی اور سے سن رکھا ہے اور کسی اور نے کسی اور سے سن رکھا ہے۔ میں جب حیدرآباد ، تھر ، سکھر یا لاڑکانہ ، شکار پور جاتا ہوں تو ہر ایک کو بتاتا ہوں کہ میں تم لوگوں سے ملنے آیا ہوں۔ ہر دروازہ ، ہر بازو کھلتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب یہی دیدہ و دل راہ ِ فراش کرنے والے سندھی کراچی آتے ہیں تو مجھے کوئی اطلاع نہیں ہوتی۔ وہ اپنے سارے کام کاج نمٹا کے خاموشی سے چلے جاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یہ احسان کرتے ہیں کہ جاتے وقت کال کر لیتے ہیں کہ ہم یہاں آئے ، ایک ہفتہ رہے اب جا رہے ہیں آپ کو ڈسٹرب نہیں کیا۔ سوچا کہ آپ مصروف آدمی ہیں۔

جب کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ میری مصروفیت کو اپنا دفاعی ہتھیار بنانے والے یہ لوگ اپنے تمام ہم نسل و ہم زبان دوستوں سے مل ملا کر واپس جا رہے ہیں۔ یہاں پر آ کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ شائد یہ سندھی مجھے اپنے جیسا سمجھنے سے لاشعوری طور پر جھجھک رہے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جسے میں دو طرفہ تعلق سمجھ رہا ہوں شائد وہ یکطرفہ ہی ہے۔ یا شائد سپرہائی وے پر قائم ٹول پلازہ میں کوئی گڑ بڑ ہے کہ جس کے آرپار ہوتے ہی رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ جہاں تک اردو بولنے والوں کی نفسیات کا معاملہ ہے تو جو اردو کمیونٹی کراچی اور حیدرآباد سے باہر کے علاقوں میں آباد ہے اس کا نسلی و لسانی ربط و ضبط سندھیوں کے ساتھ زیادہ مضبوط ہے۔

وہ گھر میں اردو مگر باہر سندھی بولتے ہیں۔ ستر برس میں رہن سہن اور کسی حد تک ریتی رواج پر بھی ایک دوسرے کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ مگر کراچی کا اردو داں مڈل کلاسیا اسی الگ تھلگ سٹیریو ٹائپ پروفائلنگ میں مبتلا ہے جس طرح سندھی مڈل کلاس یا اشرافیہ ایک علیحدہ سماجی کلب کے طور پر رہنے کی عادی ہے۔ سندھی بولنے والے تو پھر بھی کسی نہ کسی ضرورت یا مجبوری یا شوق میں ٹول پلازہ کے آر پار آنے جانے اور رہنے کے عادی ہیں مگر کراچی کی اردو مڈل کلاس اور اشرافیہ نے شادی بیاہ ، مرگ یا عید کے بکرے خریدنے کی ضرورت کے علاوہ شائد ہی اس لیے ٹول پلازہ عبور کیا ہو کہ چلو دیکھتے ہیں اس پار کیسے لوگ ہیں ، کیسے رہتے ہیں ، کن باتوں پر خوش اور اداس ہوتے ہیں ، ان کے خواب اور تعبیریں کیا ہیں۔ سندھ ایک ہی ملک ہے یا اس ملک میں چار پانچ چھوٹے ملک اپنے اپنے رنگوں کے ساتھ ایک دوسرے سے بڑی سی اکائی میں جڑے ہوئے ہیں۔

اردو مڈل کلاس اور اشرافیہ جتنا لاہور ، اسلام آباد ، کاغان اور نیویارک کے بارے میں جانتی ہے اس سے بہت کم تھر ، کوٹ ڈیجی اور بھٹ شاہ کے بارے میں جانتی ہے۔ اور پھر جب یہی سندھی اور اردو لوگ اسمبلیوں میں منتخب ہو کر آتے ہیں تو اپنے اپنے سٹیریو چشمے اتارنا نہیں بھولتے۔ یوں نہ جاننے کی خواہش سیاسی کش مکش کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ہر ہر لکھے اور بولے لفظ کو پہلے سے بنی ہوئی نفسیات کے ترازو میں تول کے دیکھا جاتا ہے اور یوں کاروبارِ غلط فہمی رواں رہتا ہے۔ سندھیوں نے تو ضرورت کی مجبوری میں اردو اور انگریزی سیکھ لی مگر سندھیوں کو سمجھنے کے لیے اردو دانوں نے سندھی سیکھنے کی کتنی شعوری کوشش کی ؟ ہو سکتا ہے آپ کو سندھی اردو مشاعروں میں جا کر کوئی خوشی ہوتی ہو مگر مجھے دکھ ہوتا ہے۔ یہ لسانی ہم آہنگی کا ثبوت نہیں لسانی کم مائیگی کا ثبوت ہیں۔

سندھی زبان مجھے بھی نہیں آتی مگر میں سندھی مافی الضمیر سمجھ کر اور سرائیکی بول کے کام چلا لیتا ہوں کیونکہ سندھیوں کی اکثریت دو لسانی ہے۔ مگر صرف اردو بول کر سندھ کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے سندھی ضرورت کی مجبوری میں ضرورت کی اردو بول کر زبان میں پوشیدہ ان لطیف جذبوں کو پوری طرح سمجھنے اور چسکے لینے سے قاصر ہیں جو صرف ایک زبان کو پوری طرح جاننے اور برتنے سے ہی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ اسی طرح صرف تہنجو نالو چھا آہے سیکھ لینا سندھی نہیں۔ جس اسکول میں بچے انگریزی اور اردو سیکھتے ہیں۔ اسی اسکول میں سندھی کا بھی قاعدہ پڑھایا جاتا ہے۔ کبھی خیال آیا اپنے بچے سے یہ پوچھنے کا کہ بیٹا انگلش میں طوطے کو پیرٹ کہتے ہیں مگر سندھی میں کیا کہتے ہیں ؟ جس دن یہ خیال آ گیا اس دن کے بعد کسی کو کسی سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پنجاب میں کوئی اردو دان کسی پنجابی سے یا پنجابی کسی اردو داں لکھاری سے معافی نہیں مانگتا۔ کیونکہ دونوں کو دونوں زبانیں آتی ہیں۔ زبان ہی وہ سڑک ہے جو دل کو دل سے ملا سکتی ہے۔ باقی سب تھیوریاں ہیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

Rao Anwar found ‘responsible’ of Naqeeb Mehsud’s murder

Rao Anwar, who was remanded in custody, has been found responsible for the murder of Naqeebullah Mehsud, an aspiring Pashtun model from the country’s tribal region. Mehsud was killed in a fake police encounter on Jan. 12 this year. “Rao Anwar has been found guilty,” a senior official who is part of the Joint Investigation Team (JIT) probing Anwar, told Arab News. The apex court on March 24 had formed a JIT headed by Aftab Ahmed Pathan, Additional IG Sindh, to probe the incident. The JIT comprised  Waliullah Dal, Additional IG Special Branch; Azad Ahmed Khan, DIG South; Zulfiqar Larik, DIG East; and Dr. Rizwan Ahmed, SSP Central Karachi.
The official, who requested anonymity, told Arab News that the JIT report will be produced in the court once signed by all of its members. Anwar was presented before the Anti-Terrorism Court (ATC) in Karachi on Saturday which sent him on judicial remand to prison till May 2, prosecutor Zafar Solangi told Arab News. When asked for a comment upon his appearance at the ATC, Anwar said: “I have challenged the JIT and I don’t accept its findings.” He further claimed: “I have not recorded any statement before this JIT.” On April 5, Anwar filed a petition praying for the inclusion of representatives of “the intelligence agencies, armed forces and civil armed forces.”
Anwar claimed that the inclusion of the members from intelligence agencies and armed forces was required by law. The police officer was brought to the court amid tight security arrangements, where he was produced along with 11 other accused. Investigation officer, SSP Dr. Rizwan Ahmed, who is also part of the JIT probing the incident, told the court that investigations are underway and the JIT’s report will be presented before the court once it was finalized. He sought a week for the submission of the report. Anwar was given into 30-day police custody upon the last court hearing. Anwar, who is accused of killing Mehsud in a fake police encounter, claims that the slain Pashtun model was an active member of banned terrorist outfits Tehreek-e-Taliban Pakistan (TTP), Al Qaeda, and Lashkar-e-Jhangvi (LeJ). However, the evident subsequently began to pile up against the police team involved in his killing.
Following the incident, a formal inquiry was launched against Anwar. As pressure mounted on him, he decided to go underground and even made a botched attempt to fly out of Pakistan. He also wrote a few letters to the Supreme Court after the top court began a suo motu hearing of Naqeebullah’s murder, telling the judges that the system was heavily stacked against him and he was not hopeful of getting any justice in the case. In response, the country’s top court decided to grant him some relief, asking him to surrender himself and let the law take its course. The court was also willing to reconstitute a joint investigation team to look into Naqeebullah’s killing since the absconding police officer had voiced concern over its composition.
Authorities froze Anwar’s accounts after his repeated non-appearance before the court. In a surprise move last month, the absconding police officer came to the court in a white car. He was clad in a black dress and wore a medical mask to cover his face. Anwar’s lawyer told the chief justice that his client had “surrendered” and wanted protective bail. However, the Supreme Court turned down the request and ordered the law enforcement authorities to lock up the former SSP.
Source : Arab News

ایم کیو ایم پھر اختلافات کا شکار

متحدہ قومی موومنٹ مارچ 2015 سے مشکلات کا شکار ہے، پہلے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا، جہاں سے نیٹو کا اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا، بعد ازاں ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی نبیل گبول نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا اور پارٹی پر کئی الزامات لگائے۔ اسی سال قائد ایم کیو ایم الطاف حسین نے پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی صوبے کے طویل ترین گورنر رہنے والے عشرت العباد کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا، ستمبر 2015 میں پارٹی کے سربراہ الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقاریر کو عدالتی حکم پر نشر کرنے پر پابندی لگ گئی، دسمبر 2015 میں الطاف حسین کے خلاف لندن میں قتل ہونے والے عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ درج ہوا۔

مارچ 2016 میں ایم کیو ایم کو سب سے بڑا دھچکا لگا، جب ایم کیو ایم کے کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے الگ جماعت پاک سرزمین پارٹی بنائی، جس میں ایم کیو ایم کے کئی اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی شامل ہوئے۔ اگست 2016 میں پارٹی کے بانی الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوائے، جس کے بعد ایم کیو ایم نے الطاف حسین کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا جبکہ فاروق ستار نے متحدہ کی قیادت سنبھال لی۔ اگست 2017 میں ایم کیو ایم نے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اعلان کیا، جس میں صرف پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ نے شرکت کی یقین دہانی کروائی، باقی کسی جماعت نے شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا، جس پر یہ کانفرنس منسوخ کر دی تھی۔

نومبر 2017 میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی میں اتحاد کے حوالے سے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی طویل پریس کانفرنس ہوئی تاہم اس کے اگلے روز ہی اس کے خلاف باتیں سامنے آئیں حتیٰ کہ فاروق ستار نے بعد میں پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا، تاہم اسی دن ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے انہیں منا لیا تھا جبکہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا یہ اتحاد بھی ختم ہو گیا۔ اب سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایک بات فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی میں اختلافات سامنے آئے ہیں۔

Real face of butcher of Karachi Rao Anwar

Former senior police officer Niaz Khoso revealed SSP Malir Rao Anwar earned billions of rupees illegally. Former senior superintendent of police (SSP) Niaz Khoso filed a petition to institute an investigation in the alleged money-laundering of billions of rupees by Rao Anwar. Niaz Khoso’s petition states the SSP Malir illegally siphoned off Rs.85 billion abroad. Rao Anwar also appointed his favorite officers at Jinnah Airport, the petition said.
It should be mentioned here that Khoso earlier moved Sindh High Court (SHC) against SSP Malir for recovery of his son—a sub-inspector with the Anti-Encroachment Force (AEF). The court admitted Khoso’s constitutional petition for preliminary hearing to be heard by a two-judge bench. The petition states that Rao Anwar along with Altaf, son of Ghulam Sarwar Malik, Taimur, son of Tanveer Ahmed, SHO Nasir Afridi and 20 to 25 other armed men came in an armored personnel carrier and six police vehicles and forcibly took his son away in the APC. –SAMAA

مرکز اسلامی کراچی کی سینما میں تبدیلی پر کارروائی کا حکم

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے فیڈرل بی ایریا کے علاقے میں قائم مرکز اسلامی کو سینما میں تبدیل کرنے کے معاملے پر سندھ ہائیکورٹ کے حکم امتناعی کو ختم کرتے ہوئے ٹھیکیدار اور ملوث کے ایم سی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے مرکز اسلامی کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے اسے سینما میں تبدیل کرنے والے ٹھیکیدار کے خلاف سخت کارروائی کا حکم جاری کیا۔ اس سے قبل کے ایم سی کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ مرکز اسلامی، ثقافتی سرگرمیوں کے لیے ٹھیکیدار کو دیا گیا تھا۔

گذشتہ سال جماعت اسلامی کراچی کے امیر نعیم الرحمٰن صدیقی کی درخواست پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے سندھ حکومت سے اس بات کی وضاحت طلب کی تھی کہ اس نے کراچی میں ایک اسلامک سینٹر ‘المرکز اسلامی’ کو سینما گھر میں کیوں تبدیل کیا گیا۔ اپنی پٹیشن میں درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سابق گورنر سندھ لیفٹننٹ جنرل ایس ایم عباسی نے اسلامی مرکز کا سنگ بنیاد 8 جون 1982 کو رکھا تھا، جس کا مقصد اسلامی روایات و اقدار کو فروغ دینا تھا۔ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں اُس وقت کے ناظم کراچی عبدالستار افغانی بھی شریک ہوئے تھے۔

درخواست میں کہا گیا کہ یہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کا ہی دور تھا جب ادبی، مذہبی اور ثقافتی تقریبات اس عمارت کی ایک باقاعدہ خصوصیت بن گئیں۔ شہری حکومت نے یہاں اچھی خاصی تعداد میں پودے لگوائے اور فرنیچر اور دیگر تنصیبات وغیرہ کے لیے رقم مختص کی گئی، جس سے یہ شہر کا سب سے بڑا آڈیٹوریم بن گیا جہاں 750 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ لیکن 2008 میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے وابستہ مصطفیٰ کمال ناظم کراچی کی حیثیت سے منتخب ہوئے اور یہ وہی وقت تھا جب اس عمارت کا نام ‘المرکز اسلامی’ سے ‘سینٹر فار آرٹ اینڈ لرننگ’ کر دیا گیا اور عمارت کے داخلی دروازے اور آڈیٹوریم میں آویزاں مقدس کلام بھی ہٹا دیا گیا۔

درخواست کے مطابق 2010 میں سٹی گورنمنٹ نے عمارت کی بالائی منزل پر شانزے آڈیٹوریم قائم کیا، جہاں مبینہ طور پر ہر شام میں میوزیکل اور اسٹیج پروگرام منعقد کیے جاتے تھے۔ 2012 میں اردگرد کے رہائشوں کی شکایت پر اس عمارت کو سیل کر دیا گیا، تاہم چند ہی دن بعد اسے دوبارہ کھول دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد مرکز کے لان میں شادی ہال بنا دیا گیا جبکہ تھیٹر کو باقاعدہ سینما گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ اگست 2015 میں کراچی کے کمشنر شعیب احمد صدیقی نے خبروں کا نوٹس لے کر سینما بند کروا دیا لیکن جلد ہی یہ دوبارہ کھل گیا اور یہاں فلمیں دکھائی جانے لگیں۔ درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ اب اس بات کا علم ہوا ہے کہ عمارت کے موجودہ منتظمین نے اسے باقاعدہ سینما گھر میں تبدیل کرنے کے لیے ایک اور پارٹی کو کرائے پر دے دیا ہے۔