ایک سال مکمل ہو گیا

گذشتہ برس نومبر کے تیسرے ہفتے میں نیویارک میں کشمیری پنڈتوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی قونصل جنرل سندیب چکرورتی نے فرمایا ،’’ میرے خیال میں ( کشمیر میں ) امن و امان کی صورت بہتر ہو رہی ہے۔ آپ جلد ہی واپس لوٹ سکیں گے کیونکہ آپ کے تحفظ کے لیے پہلے ہی سے ایک ماڈل موجود ہے۔ اس ماڈل پر عمل نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسرائیل اس پر کامیابی سے عمل کر رہا ہے۔ یہودیوں نے فلسطین سے نکلنے کے بعد اپنی ثقافت کو برقرار رکھا اور پھر وہ دو ہزار برس بعد واپس لوٹے۔ آپ کو بھی کشمیری ثقافت زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ کشمیری کلچر دراصل بھارتی کلچر ہے اور بھارتی کلچر ہندو کلچر ہے۔ ہم نے کبھی بھی اکثریت ہونے کی طاقت سے کام لیا اورنہ ہی ہندو ثقافتی قوت کو استعمال کیا۔ مگر کب تک‘‘۔

یہ تقریر کسی ریٹائرڈّ سفارت کار نے نہیں کی کہ جسے اس کے ذاتی خیالات قرار دے کر نظرانداز کر دیا جائے۔ یہ تقریر گذشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خودمختاری اور حقِ شہریت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر اور آرٹیکل پینتیسں اے کے خاتمے کے تین ماہ بعد اور ریاست جموں و کشمیر کے انتظامی وجود کو اکتیس اکتوبر کو تحلیل کر کے اسے دو وفاقی خطوں میں بدلنے کے ڈیڑھ ماہ بعد کی گئی۔ آج کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کا ایک برس مکمل ہو گیا۔ اس عرصے میں مودی حکومت نے جس برق رفتاری سے کشمیر کی شناخت و نفسیات بدلنے کے لیے ایک کے بعد ایک قانون کا پھندہ بنایا ہے۔ اس پھرتی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ پچھلے ایک برس کے دوران سری نگر ہائی کورٹ اور زیریں عدالتوں میں حبسِ بے جا کی جتنی بھی درخواستیں دائر ہوئیں ان میں سے ننانوے فیصد کی شنوائی نہیں ہو سکی۔

جب کہ دلی میں قائم بھارتی سپریم کورٹ میں کشمیری خود مختاری کے خاتمے اور اندھے لاک ڈاؤن کو چیلنج کرنے سے متعلق جتنی بھی آئینی درخواستیں دائر کی گئیں ان میں سے ہر ایک کی سماعت مسلسل ملتوی ہو رہی ہے تاکہ مرکزی حکومت دلجمعی سے اپنا کشمیر ایجنڈا مکمل کر لے۔ گذرے برس میں کشمیری شناخت پر دو دھاری حملہ ہوا۔ اول جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے تحت لداخ کو ہمیشہ کے لیے ریاست سے الگ ایک انتظامی یونٹ ( مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ ) بنا دیا گیا ہے۔ جب کہ جموں و کشمیر کو بطور ایک عام بھارتی ریاست نئے انداز میں بحال کرنے سے پہلے پہلے نئی اسمبلی حلقہ بندیاں مکمل کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ نئی مجوزہ ریاستی اسمبلی میں جموں کی نشستیں وادی کی نشستوں سے زیادہ ہوں گی۔

کالعدم ریاستی اسمبلی میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور چین کے زیر انتظام آکسائی چن کے علاقے کی جن چوبیس نشستوں کو علامتی طور پر خالی رکھا گیا تھا۔ انھیں اگلے انتخاب میں آزاد کشمیر اور پاکستان سے ریاست میں آ کر آباد پناہ گزینوں سے پر کیا جائے گا۔ یہ پناہ گزین تقریباً سب کے سب ہندو یا سکھ ریفیوجیز ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ نئی ریاست میں اقتدار کا توازن پہلی بار وادی کی مسلم اکثریت کے بجائے جموں کے ہندو اکثریتی پلڑے کو منتقل ہو جائے گا۔ساتھ ہی ساتھ وادی کی مسلم شناخت کو غیر مسلم آباد کاری کے ذریعے بے اثر کرنے کی کوششوں کی رفتار بھی تیز تر کی جا رہی ہے۔ مثلاً پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو اب تک ریاست کی مکمل شہریت نہیں دی گئی تھی۔

مگر اکتیس مارچ سے نافذ ہونے والے نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت نہ صرف ان لگ بھگ پانچ لاکھ مہاجرین کو جموں و کشمیر کا ڈومسیائیل لینے کا حق حاصل ہو گا۔ بلکہ بھارت کے کسی بھی علاقے سے کشمیر میں گذشتہ پندرہ برس سے رہنے والے باشندے کو ریاستی شہریت کا اہل تصور کیا گیا ہے۔ نیز جو شخص سات برس تک ریاست کے کسی کالج یا اسکول میں زیرِ تعلیم رہا ہو یا اس نے میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کا امتحان ریاستی تعلیمی بورڈ کے تحت دیا ہو وہ بھی کشمیری ڈومیسائل حاصل کرنے کا اہل ہے۔ اور ڈومیسائیل کا مطلب نہ صرف ریاستی شہریت بلکہ جائیداد و زمین خریدنے، ریاست کے لیے مختص سرکاری ملازمتوں کے کوٹے میں حصہ داری اور ریاست میں زراعت و صنعت و سروس سیکٹر میں سرمایہ کاری کا حق بھی حاصل ہو گا۔

نئے قانون کے نفاذ سے پہلے صرف ان لگ بھگ ایک لاکھ کشمیری پنڈتوں کے لیے ریاست میں دوبارہ واپسی اور بحالی کا حق قانوناً تسلیم شدہ تھا جو انیس سو نواسی نوے کے پرآشوب دور میں وادی سے جموں نقل ِ مکانی کر گئے تھے۔ اب ان پنڈتوں کی نمایندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریفیوجیز کی تعداد سات لاکھ ہے۔ مگر یہ تنظیمیں اس سوال پر بٹی ہوئی ہیں کہ آیا کشمیری پنڈتوں کو ازسرِ نو ڈومیسائیل لے کر یہودی آباد کاروں کی طرح فوجی سنگینوں کے سائے میں بسانا ٹھیک ہے یا پھر انھیں ریاست میں آباد ہونے کے صدیوں پرانے حق کے تحت بھارتی قوم پرستی کے بجائے کشمیریت کے جذبے کے تحت اپنے آبائی گلی محلوں میں جا کر بسنا چاہیے۔ جہاں مقامی مسلمان آبادی کو ان کی گھر واپسی پر کوئی اعتراض نہیں۔ پہلی صورت میں پنڈتوں کو قابض طاقت کا دم چھلا سمجھا جائے گا اور دوسری صورت میں وہ بطور فرزندِ زمین قابلِ قبول ہوں گے۔

کشمیری پنڈتوں کی خصوصی حیثیت سے قطع نظر جن جن طبقات کو نئے ڈومیسائیل قوانین سے فائدہ ہو گا۔ ان میں وہ زرعی ، صنعتی و گھریلو مزدور بھی شامل ہیں جو پچھلے تیس چالیس برس سے بہار، یوپی، بنگال وغیرہ سے کشمیر آ کر یہاں کے کھیتوں ، کولڈ اسٹوریج اور گھروں میں کام کرتے ہیں۔ سرکردہ کشمیری صحافی نعیمہ احمد مہجور کے مطابق جموں و کشمیر میں روزانہ کام کاج کے لیے لگ بھگ پچاس ہزار مزدور وںاور کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ان میں مقامی مزدور تقریباً ایک فیصد ہیں۔ کیونکہ مقامی لوگ کچھ مخصوص محنت طلب کاموں کو چھوڑ کر ہر طرح کے کام میں ہاتھ ڈالنے سے ہچکچاتے ہیں۔ دو ہزار سولہ میں برہان وانی کی شہادت کے بعد بدامنی کی شدید لہر کے سبب غیر کشمیری مزدور بڑی تعداد میں واپس چلے گئے تو لاسی پورہ انڈسٹریل اسٹیٹ کے کولڈ اسٹوریجز کو تالا لگ گیا۔ کیونکہ مقامی افرادی قوت انھیں چلانے کے لیے مناسب حد تک تربیت یافتہ نہیں تھی۔

یہی نہیں بلکہ اس وقت جموں و کشمیر کی مساجد میں مقامی امام اور موزن بھی کم کم ہیں۔ زیادہ تر خدمتی عملے کا تعلق یوپی، بہار، بنگال وغیرہ سے ہے اور بیشتر یہاں اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ تیس تیس برس سے آباد ہیں۔ اس کے علاوہ جو سرکاری ملازم اور ریٹائرڈ فوجی و پولیس اہلکار وادی میں برسوں سے مقیم ہیں ان کی تعداد بھی لاکھ سے اوپر ہے۔ ریاست میں سب سے زیادہ ملازمتیں دینے والا شعبہ سرکار ہے۔ یہ ملازمتیں اب تک نیم خودمختار ریاست کے نوجوانوں کے لیے مختص تھیں۔ لیکن ڈومیسائیل کھلنے کے بعد اب یہ ملازمتی تحفظ بھی شدید خطرے میں ہے۔ پرانا پبلک سروس کمیشن کالعدم ہے اور نیا اب تک نہیں بنا۔ جموں و کشمیر بینک کی لگ بھگ ڈیڑھ ہزار خالی آسامیوں کو بھرنے کے لیے دو برس قبل ابتدائی ٹیسٹ اور انٹرویوز ہو چکے تھے۔ لیکن اس سال فروری میں سابقہ سلیکشن پروسس منسوخ کر دیا گیا۔ دو ماہ پہلے جون میں بینک کی ان آسامیوں کے لیے نئے ڈومسیائیل قوانین کی روشنی میں تازہ درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔

اسی طرح جو ہیلتھ ورکرز ایک مدت سے عارضی کنٹریکٹ پر کام کر رہے تھے، انھیں مستقل کرنے کے بجائے نئے کنٹریکٹ دینے کا عمل بھی روک دیا گیا۔ حالانکہ کورونا کے دگرگوں حالات کے سبب ان ورکروں کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ شائد ان کی جگہ اب نئے ورکر لیے جائیں گے۔ اس وقت ریاست ڈبل لاک ڈاؤن میں ہے۔ ایک انتظامی لاک ڈاؤن جو سال بھر سے جاری ہے اور دوسرا کورونا کے نام پر اضافی لاک ڈاؤن۔ اعلی ریاستی بیوروکریسی میں نوے فیصد سے زائد افسر دلی سے بھیجے ہوئے ہیں۔ ان کا کام کشمیریوں سے بات کرنا نہیں بلکہ ان پر مرکز کے فیصلے تھوپنا ہے۔ نیشنل کانفرنس سمیت بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے نچلے کیڈر کو اس شرط پر رہا کیا گیا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں سے باز رہنا ہے۔

علیحدگی پسند حریت کانفرنس ساکت ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے متعدد رہنما اور کارکنان دور دراز جیلوں میں منتقل کیے جا چکے ہیں۔ سرکار یہ بھی بتانے پر آمادہ نہیں کہ گرفتاریوں کی تعداد کتنی ہے ؟ مختلف جماعتوں سے توڑے گئے کارکنوں کی مدد سے اسمبل کی جانے والی ’’ اپنی پارٹی ’’ کو کام کرنے کی اجازت ہے۔ اس کی قیادت نظربند رہنما محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کے ایک منحرف رہنما الطاف بخاری کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ اپنی پارٹی دراصل مودی امیت شاہ جوڑی کا بغل بچہ ہے۔ مگر کیا کشمیر پر لاگو یہ زبردستی کا امن قائم رہے گا؟ فی الحال اس سوال کا جواب بھی کشمیر کی طرح معلق ہے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کشمیر : تین سالہ بچہ نانے کی لاش پر ہی بیٹھا رہا

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک عام شہری کی ہلاکت کے بعد ایک مرتبہ پھر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ہلاک ہونے والے شہری کے ساتھ اس کا تین سالہ نواسا بھی تھا، جو اپنے نانے کی لاش پر بیٹھا روتا رہا۔ بھارتی پیراملٹری پولیس کے ایک ترجمان جنید خان کے مطابق یہ واقعہ سوپور کے علاقے میں پیش آیا، جہاں باغیوں نے ایک مسجد سے بھارتی فوجیوں پر حملہ کیا۔ بھارتی حکام کے مطابق وہاں گولی لگنے سے بشیر احمد خان نامی اس شہری کی موت واقع ہو گئی۔ دوسری جانب بشیر احمد کے اہل خانہ نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کشمیری شہری کو پہلے کار سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا اور پھر پیرا ملٹری فورسز نے انہیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ بشیر احمد کے ساتھ ان کا تین سالہ نواسا بھی کار میں سفر کر رہا تھا۔ بعد ازاں منظرعام پر آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بشیر احمد کی لاش خون میں لت پت ہے اور ان کا نواسا پریشان ہو کر اپنے مردہ نانا کے سینے پر بیٹھا ہوا ہے۔

بشیر احمد کے بھتیجے فاروق احمد نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”وہاں موجود مقامی لوگوں نے ہمیں بتایا ہے کہ بشیر احمد خان کو کار سے باہر نکالا گیا اور پھر سکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ کر کے انہیں ہلاک کر دیا۔‘‘ فاروق احمد کا مزید کہنا تھا، ”عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یونیفارم والے ایک شخص نے بچے کو سڑک پر پڑی لاش کے سینے پر بٹھایا اور تصاویر بھی بنائیں۔‘‘ بعد ازاں یہی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ بشیر احمد خان کی نماز جنازہ میں سینکڑوں افراد شریک ہوئےاور انہوں نے حکومت کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ یہ مظاہرین ‘ہم آزادی چاہتے ہیں‘ جیسے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مارچ میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے حکومتی فورسز نے علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر رکھی ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

ہم تب بھی دہائی دے رہے ہوں گے

اگلے ماہ کی چار تاریخ کو مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کو ایک برس مکمل ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے جب گزشتہ پانچ اگست کو بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شا نے ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختارانہ حیثیت برقرار رکھنے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے کو پارلیمنٹ کے ذریعے ناکارہ بنا کر ریاست کو دو حصوں میں بانٹ کر براہ راست مرکز کی نگرانی میں دینے کا اعلان کیا اور وہاں آہنی لاک ڈاؤن نافذ کر کے ریاست کا رابطہ بین الاقوامی دنیا سے منقطع کر دیا تو وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے متعدد بار کہا کہ ایک بار لاک ڈاؤن اٹھنے کی دیر ہے کشمیریوں کا سیلاب سڑکوں اور گلیوں میں امڈ پڑے گا اور بھارتی قبضے کو بہا لے جائے گا۔ پچھلے ایک برس کے دوران بھارت نے اس ’’ممکنہ انسانی سیلاب‘‘ کو روکنے کے لیے متعدد ایسے کمر توڑ اقدامات کیے جن کے نتیجے میں کشمیری روزمرہ بنیادی حقوق اور معیشت کی چکی میں پس جائیں۔

بس یوں سمجھیے جس طرح ایک گورے امریکی پولیس والے نے ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کی گردن پر مسلسل گھٹنا رکھ کے اس کی سانس روک دی۔ بھارت یہی کام کشمیر کے ساتھ پچھلے گیارہ ماہ سے کر رہا ہے۔ مگر کشمیر جارج فلائیڈ سے زیادہ سخت جان ثابت ہو رہا ہے۔ فروری سے بظاہر انٹر نیٹ بحال ہے مگر ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ عام شہری کی دسترس سے باہر ہے۔ بھارت نواز قیادت میں سے نیشنل کانفرنس کا عبداللہ خاندان گزشتہ تین ماہ سے آزاد ہے مگر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں جب کہ محبوبہ مفتی مسلسل نظربند ہیں۔ علیحدگی پسند حریت کانفرنس کے نوے سالہ رہنما سید علی گیلانی نے ضعیف العمری کے سبب قیادت سے باضابطہ علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ جب کہ یاسین ملک سمیت دیگر علیحدگی پسند رہنماؤں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ ریاست کی کسی جیل میں ہیں یا بھارت کے کسی دور دراز عقوبت خانے میں کس طرح کے انسانی و طبی حالات میں ہیں۔

کچھ شہریوں کو بھارتی سپریم کورٹ سے امید تھی کہ وہ غیر انسانی لاک ڈاؤن کا نوٹس لے گی اور آرٹیکل تین سو ستر کی منسوخی کا آئین کی روشنی میں جائزہ لے کر اس اقدام کے جائز ناجائز ہونے پر کوئی رولنگ دے گی۔ مگر آج گیارہ ماہ بعد بھی اس طرح کی ہر پٹیشن سپریم کورٹ تشریف تلے دبا کر بیٹھی ہے۔ مودی حکومت کو توقع تھی کہ کشمیر کی انتظامی شناخت کا تیا پانچا کر کے اور ہر گلی کے نکڑ پر دو دو سپاہی کھڑے کر کے، ہر پانچ سو گز پر چیک پوسٹ لگا کے ، ہر پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے ہر بڑی شاہراہ سے فوج یا نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس یا بارڈر سیکیورٹی فورس کا کوئی گشتی قافلہ گزار کے کشمیری بچوں کو کسی مہم جوئی میں پڑنے سے پہلے دس بار سوچنے کی عادت پڑ جائے گی۔

مگر خود ریاستی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے اب تک کے چھ ماہ کے دوران ایک سو چالیس کے لگ بھگ ’’ انتہا پسند ’’ نوجوان فوج اور نیم فوجی دستوں سے مقابلے یا ٹارگٹڈ آپریشنز میں مارے جا چکے ہیں اور جتنے مارے جا رہے ہیں اتنے ہی اور بچے گھروں سے بھاگ رہے ہیں۔ زیادہ تر وہی بچے مارے جا رہے ہیں جن میں غصہ تو ہے اور کہیں سے ہتھیار بھی مل گیا ہے مگر اسلحے کے استعمال اور خود کو روپوش رکھنے کی بنیادی یا نامکمل تربیت کے سبب سرکاری جاسوسوں کے جال میں پھنس کر گھر سے فرار ہونے کے چند ہفتے یا مہینے بعد ہی موت کے سپرد ہو جاتے ہیں۔ ان نوجوانوں میں بے روزگار بھی شامل ہیں، ٹھیلے والے بھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز بھی۔ بلکہ ایک کیس میں تو پی ایچ ڈی کا ایک طالبِ علم بھی پچھلے دو ماہ سے غائب ہے اور اس کے گھر والوں کو یقین ہے کہ اب وہ زندہ نہیں لوٹے گا۔

مقبوضہ انتظامیہ نے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ طریقہ بھی اپنایا ہے کہ اب وہ کسی نوجوان کی لاش ورثا کے حوالے نہیں کرتے تاکہ کشمیریوں کو جلوسِ جنازہ کے بہانے ہزاروں کی تعداد میں اکٹھا ہونے اور ہنگامہ آرائی کا موقع نہ مل سکے۔ کسی بھی دن کسی بھی کشمیری نوجوان کے باپ یا بھائی وغیرہ کو فون آتا ہے کہ فلاں چیک پوسٹ یا چھاؤنی میں آ کر اپنے فلاں بچے سے ملاقات کر لیں۔اس کا مطلب ہے کہ لاش کا آخری دیدار کر لیں۔ چنانچہ اس دیدار کے بعد لاش ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دی جاتی ہے۔ ایک نیا رجحان یہ بھی شروع ہوا ہے کہ ریاستی انتظامیہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں کی طرح وادی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی شراب کی فروخت کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور منشیات کا حصول پہلے سے زیادہ آسان ہوتا جا رہا ہے۔ مقصد شاید یہ ہے کہ طویل لاک ڈاؤن کی شکار غصے سے بھری بے روزگار نسل کو نشے کے راستے پر دھکیل کے بے ضرر بنا دیا جائے۔

ایسے وقت جب باقی دنیا کی توجہ کا مرکز کورونا سے نپٹنا اور اس کے اقتصادی تھپیڑوں سے خود کو بچانا ہے۔ بھارت نے موقع غنیمت جان کر کشمیر کی شہریت کے پرانے قانون آرٹیکل پینتیس اے کی منسوخی کے بعد اب ریاست کی شہریت غیر کشمیری بھارتیوں کے لیے کھول دی ہے۔ گویا کشمیر کے دردِ سر کا مستقل حل کشمیریوں کو اپنی ہی ریاست میں اقلیت میں بدل کر نافذ کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہر وہ بھارتی شہری جو ریاست میں کسی ملازمت، کاروبار یا تعلیمی مقاصد کی خاطر پندرہ برس گذار چکا ہے یا کشمیر میں رہتے ہوئے ریاستی تعلیمی بورڈ کے تحت میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کا امتحان دے چکا ہے وہ اور اس کے بچے کشمیر میں رہنے، جائیداد خریدنے، تعلیمی اسکالر شپس یا ملازمتی کوٹے میں حصے دار تصور ہوں گے۔ نیز پارٹیشن کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے لاکھوں غیر مسلم مہاجرین اور ان کی آل اولاد بھی کشمیری شہریت کی حق دار ہے۔

جون کے آخر تک تینتیس ہزار درخواست گزاروں میں سے پچیس ہزار کو ڈومیسائل جاری ہو چکا ہے۔ ڈومیسائل درخواست دیے جانے کے چودہ دن کے اندر ہی جاری ہو جاتا ہے۔ اگر متعلقہ سرکاری اہل کار ڈومیسائل کے اجرا میں بغیر کسی ٹھوس جواز کے تاخیر کرے تواسے پچاس ہزار روپے جرمانے کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ جب کہ بھارت کی ایک اور ریاست آسام جہاں بے جے پی کی حکومت ہے۔ وہاں کسی بھی درخواست گذار کو ڈومیسائل جاری کرنے کی اوسط مدت دو برس ہے اور کوئی بھی مقامی شہری کسی بھی درخواست پر اعتراض کر دے تو اس اعتراض کو دور کرنا لازمی ہے۔ مگر کشمیر میں ڈومیسائل کی رعایتی سیل لگ چکی ہے۔ درخواست گذار کے کوائف کی سرسری سی چھان بین ہوتی ہے اور سرٹیفکیٹ جاری ہو جاتا ہے۔ پہلے آئیے پہلے پائیے جلدی آئیے جلدی پائیے۔

اگر یہی رفتار بلا روک ٹوک رہی تو اگلے دس برس میں کشمیر کا شمار بھی ان علاقوں میں ہو گا جہاں آج مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ویسے مودی حکومت نے آیندہ ڈیڑھ دو برس میں لداخ اور جموں و کشمیر نام کی دو نئی ریاستوں کی تشکیل کے منصوبے پر کام تیز کر رکھا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت جو بھی ریاستی اسمبلی تشکیل پائے گی اس میں جموں کی نشستیں وادی کی نشستوں سے زیادہ ہوں گی۔یعنی آیندہ نئی ریاست کا جو بھی وزیر اعلیٰ ہو گا وہ جموں سے ہو گا اور ننانوے فیصد امکان ہے کہ غیر مسلم ہو گا۔ ہم شاید تب بھی اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہوں گے یا پھر عالمی برادری کے آگے جھولی پھیلائے دہائی دے رہے ہوں گے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بھارتی سپریم کورٹ کا کشمیر میں تمام پابندیوں پر نظرثانی کا حکم

بھارتی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں عائد انٹرنیٹ کی رسائی سمیت تمام پابندیوں کو ’اختیارات کا غلط‘ استعمال قرار دیتے ہوئے حکومت کو ان پر نظر ثانی کا حکم دیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق سپریم کورٹ نے حکومت کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے حوالے سے تمام احکامات کو عام کرے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی بندش آزادی صحافت پر اثرانداز ہو رہی ہے، جو آزادی اظہار رائے اور آزادی تقریر کا حصہ ہے۔ ’دا ہندو‘ کے مطابق جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں تین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے قرار دیا کہ انٹرنیٹ کی عارضی معطلی اور شہریوں کی بنیادی آزادیوں کو کم کرنا صوابدیدی نہیں ہونا چاہیے اور یہ معاملہ عدالتی جائزے کے لیے کھلا ہے۔

عدالت نے جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو انٹرنیٹ کی بندش کے معاملے کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’انٹرنیٹ کے استعمال کی آزادی آرٹیکل 19 (1) (اے) کے تحت آزادانہ تقریر کا ایک بنیادی حق ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے تجارت کو آرٹیکل 19 (1) (جی) کے تحت محفوظ کیا گیا ہے۔‘ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔ دوسری جانب خطے میں سخت کرفیو نافذ کر کے انٹرنیٹ اور ذرائع مواصلات کو بند کر دیا گیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ’کشمیر ٹائمز‘ کے مدیر انورادھا بھاسن نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس فیصلے سے پریس کی آزادی، ضروری سروسز خاص کر خاندانوں کے درمیان رابطے ختم کر دیئے گئے، جن سے لوگوں کو شدید مشکلات درپیش رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی 70 لاکھ آبادی پر شک کرتے ہوئے انہیں قید کر دیا گیا اور بغیر کچھ سوچے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔

تاہم جسٹس رمنا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے جموں و کشمیر کی حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ وادی میں حالات معمول پر آچکے ہیں اور لوگ خوش ہیں۔ کشمیر کی حکومت نے انورادھا بھاسن کے دعوے کو ’مبالغہ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ جموں و کشمیر کی حکومت کے وکیل توشار مہتہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ پابندیاں خفیہ اداروں اور فوج کی معلومات کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مواد اور تقاریر، جعلی خبروں اور ویڈیوز کی وجہ سے عائد کی گئی تھیں۔ مسٹر مہتہ نے تسلیم کیا تھا کہ انٹرنیٹ تک رسائی آزادی اظہار کے بنیادی حق کا ایک حصہ ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ ’جدید دہشت گردی انٹرنیٹ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔‘ کیس کی گذشتہ سماعت میں وکیل مہتہ نے اس بات کا دفاع کیا کہ ’دہشت گردی میں سوشل میڈیا کو سب سے زیادہ مؤثر ہتھیار کی حیثیت حاصل ہے اور یہ عالمی سطح پر موجود ہے۔‘ جواب میں انورادھا بھاسن کے وکیل وریندا گروور نے فوری مداخلت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس انسانی حقوق کو بھی یہی اہمیت حاصل ہے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

ہیرو الیاس اور ناچ گانے سے کشمیر کو آزاد کروانے والے

ناروے میں آزادیٔ رائے کے نام پر ایک اسلام دشمن شر پسند نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی ناپاک جسارت کی تو اُسے روکنے کے لیے وہاں موجود الیاس نامی ایک مسلمان نوجوان شیر کی طرح اُس شیطان پر لپکا۔ الیاس کو پولیس نے فوری گرفتار کر لیا لیکن اس قابلِ فخر نوجوان کی لمحوں بھر کی کارروائی نے اسلام دشمن شر پسند کا قابلِ مذمت فعل بھی اُس طرح مکمل نہ ہونے دیا جس طرح وہ خواہش رکھتا تھا۔ اس واقعہ کی وڈیو منٹوں میں دنیا بھر میں وائرل ہو گئی جس سے اگر ایک طرف مغرب کی اسلام دشمنی ایک بار پھر کھل کر سامنے آئی تو دوسری طرف مسلمان نوجوان الیاس پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک قابلِ فخر ہیرو بن کر ابھرا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس نوجوان کے عمل کو دل کھول کر سراہا لیکن سوائے ترک صدر طیب اردوان کے‘ اسلامی دنیا کے حکمران خاموش رہے۔

سوشل میڈیا کے بھرپور ردّعمل کے نتیجے میں گزشتہ روز دفتر خارجہ پاکستان نے بھی ناروے کے سفیر کو طلب کرکے واقعے پر شدید احتجاج کیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان نے بھی ملعون شخص کو روکنے والے نوجوان کو سلام پیش کیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جہاں ناروے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر مسلمانوں کے ہیرو الیاس کو رہا کیا جائے، وہیں سوال اٹھائے گئے کہ مسلمان حکمران اور ہمارا میڈیا اس مسئلے میں خاموش کیوں رہا اور اُس ہیرو کو کیوں نہیں سراہا گیا جس نے پوری امتِ مسلمہ کے جذبات کی دلیرانہ انداز میں بہترین ترجمانی کی۔ سوشل میڈیا پہ کسی نے بہت خوب لکھا: ’’ایک بات کہوں، مارو گے تو نہیں؟ 40 اسلامی ممالک کا اتحاد اور ان کے رہنما میرے لیے اس نوجوان (الیاس) کی پائوں کی جوتی کے برابر بھی نہیں‘‘۔

بالکل درست کہا! ہمارا ایسے اتحاد اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے کیا لینا دینا اور اُن سے ہماری کیا ہمدردی ہو سکتی ہے جب مغرب میں آزادیٔ رائے کے نام پر آئے دن بے حرمتی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور اُنہیں روکنے کے لیے نہ یہ اتحاد کچھ کرتا ہے اور نہ ہی ہمارے حکمران کوئی عملی قدم اٹھا رہے ہیں۔ تقریر تو ہمارے وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں بہت اچھی کی تھی اور مغرب کے دُہرے معیار اور آزادیٔ رائے کے نام پر بے حرمتی اور اسلام دشمن اقدامات کی اجازت دینے کی پالیسی کی بھی مذمت کی تھی لیکن عملی طور پر کیا ہوتا ہے، اُس کا سب کو انتظار ہے۔ ویسے تقریریں تو کشمیر کے حق میں بھی بہت اچھی کی گئیں لیکن عملی طور پر جو ہمیں کرنا چاہیے وہ ہم کر نہیں رہے۔

ہم کشمیر کو بھارتی تسلط اور اُس کے مظالم سے کیسے آزاد کروا رہے ہیں، اس کی حالیہ مثال ملاحظہ فرمائیے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے ’’اظہارِ یکجہتی ٔ کشمیر‘‘ کے لیے اشتہار شائع کیے گئے جن کے مطابق  ’’کشمیر کے نہتے اور معصوم عوام پر جاری بھارتی ظلم و بربریت کو بین الاقوامی سطح پر نئے انداز میں اجاگر کرنے کے لیے حکومت پنجاب کے زیر اہتمام نامور بینڈز کے ساتھ میوزیکل نائٹ کا انعقاد مورخہ 24 نومبر 2019ء، شام 5 بجے، بمقام گورنر ہائوس مال روڈ لاہور۔ عوام اور حکومت پنجاب کشمیری عوام کی جدوجہد ِ آزادی کی حمایت میں افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘‘۔ اس اشتہار کو پڑھ کر سر شرم سے جھک گیا کہ دیکھیں ہم کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے ناچ اور گانے بجانے پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کشمیر کو آزاد کروانے کے اس گھٹیا طریقے پر حکومت کو کافی لے دے کا سامنا کرنا پڑا جس پر یہ کنسرٹ منسوخ کر دیا گیا۔

کشمیر کو آزاد کروانا ہے تو ناچنے گانے والوں کے بجائے مسلمانوں کے ہیرو الیاس کے جنون اور جذبہ کی تقلید کرنا ہو گی۔ حال ہی میں پاکستان کی ایک گلوکارہ نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے محکمہ دفاع کے ایک اہم ادارے کے اندر کشمیر کے حوالے سےاپنے ایک کنسرٹ کا حوالہ دیا تو سوشل میڈیا پر شور مچنے کے بعد اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ ناروے کے واقعہ کے دنوں میں ہی آسٹریلیا کے ایک ریسٹورنٹ میں ایک آسٹریلوی شدت پسند نے وہاں موجود تین مسلمان خواتین سے بحث کے بعد ایک باپردہ حاملہ مسلمان خاتوں پر لاتوں اور گھونسوں سے حملہ کر دیا۔ اس ظلم کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی اور ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی کہ نائن الیون کے بعد کی امریکہ و یورپ کی اسلام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے مسلمان مغرب میں بہت غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔

مغرب مسلمانوں کو شدت پسند کے طور پر پیش کرتا رہا لیکن اب آئے روز امریکہ و یورپ میں رونما ہونے والے واقعات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ مغربی معاشرے ایسی شدت پسندی کی طرف سے تیزی سے گامزن ہیں جہاں نفرت، تشدد، نسلی پرستی اور مذہبی تعصب خوب تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں اور یہ خود ان معاشروں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی اسی نفرت اور مذہبی تعصب کو پروان چڑھا رہا ہے جو بھارت کو دیمک کے طرح اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ مغرب اور بھارت کی اس نفرت انگیزی کے برعکس دنیا بھر میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں جو امن، مذہبی رواداری، حسن سلوک اور مظلوم کی حمایت کا درس دیتی ہیں، چاہے اس کے لیے فوجی طاقت یعنی جہاد کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑ جائے۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

امریکی کانگریس رکن نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کیلئے ٹرمپ سے مدد مانگ لی

امریکی کانگریس کمیٹی کے سربراہ نے ٹرمپ انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکی سفارتکاروں کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کروانے اور صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھارت پر زور ڈالے۔ ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی برائے ایشیا کے سربراہ بریڈ شیرمین نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو لکھے گئے خط میں مذکورہ درخواست کی۔ گزشتہ ماہ ذیلی کمیٹی نے ایشیا میں انسانی حقوق سے متعلق سماعت منعقد کی تھی جس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اجلاس کے شرکا نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا اور نئی دہلی کی جانب سے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق 5 اگست کے فیصلے پر بھی سوال اٹھایا تھا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس ویلز کو لکھے مراسلے میں بریڈ شیرمین نے امریکی سفارت کاروں کو مقبوضہ کشمیر بھیجنے کی کوششیں تیز کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ‘مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق اتنا پرتشویش ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہاں سے قابل اعتماد معلومات موصول نہیں ہو رہی’۔ بریڈ شیرمین نے ایلس ویلز کو یاد دلایا کہ انہوں نے 22 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں پوچھا تھا کہ کیا امریکی سفارت کار 5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وہاں کا دورہ کرکے زمینی حقائق رپورٹ کر سکتے ہیں ؟۔ علاوہ ازیں میڈیا میں جاری کیے گئے خط میں بریڈ شیرمین نے کہا کہ ‘ اس کے جواب میں آپ (ایلس ویلز) نے کہا تھا کہ امریکا نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت طلب کی لیکن بھارتی حکومت نے وہ درخواستیں مسترد کر دیں۔

انور اقبال  

بشکریہ ڈان نیوز

امریکی کانگریس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مذمتی قرارداد پیش

امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان میں مسلمان خواتین اراکین راشدہ طلیب اور الہان عمر نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں سے متعلق مذمتی قرارداد پیش کی ہے۔ پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے معاملے پر کشمیر کے عوام کی رائے کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اراکین کانگریس نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے باہمی تنازعات حل کریں۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی مسلمان خواتین اراکین نے قرارداد میں زور دیا ہے کہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کیا جانا چاہیے۔ قرارداد کو مزید کارروائی کے لیے امور خارجہ کی کمیٹی کو ارسال کر دیا گیا ہے۔

قرارداد میں کشمیری عوام کی رضا مندی کے بغیر جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے یک طرفہ بھارتی اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
دونوں اراکین نے زور دیا ہے کہ اس ضمن میں کشمیری عوام کو مشاورتی عمل میں شامل کیا جانا ضروری تھا۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے نقل و حمل اور مواصلاتی پابندیاں فوری طور پر ہٹائی جائیں۔ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے اور مذہبی پابندیوں کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مساجد اور دیگر مذہبی مقامات کو بند کیا گیا ہے جو مذہبی آزادیوں کے منافی ہے۔

بین الاقوامی مبصرین کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کشمیر میں صحافیوں کی گرفتاریوں اور حبس بیجا میں رکھنے کی اطلاعات کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ بھارت نے پانچ اگست کو آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ جس کے بعد سے کشمیر میں نقل و حمل اور مواصلاتی پابندیاں عائد ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ کشمیر میں اب معمولات زندگی بحال ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے ایوان بالا راجیہ سبھا میں رپورٹ پیش کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کشمیر میں زندگی معمول پر آ چکی ہے۔ البتہ پاکستان سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں اور غیر جانبدار مبصرین کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

 قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے انڈین فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ کشمیر میں اپنی من مانیاں کر سکیں۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت پانچ اگست کو ختم کر دی گئی تھی۔ جموں و کشمیر میں نہتے شہریوں پر پیلٹ گن اور ربر کی گولیوں کے استعمال پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ راشدہ طلیب کی جانب سے پیش کی گئی قراراد میں امریکی محکمہ خارجہ سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیری نژاد امریکی شہریوں کے کشمیر میں موجود اہلخانہ سے رابطے کے لیے مداخلت کرے۔ علاوہ ازیں رکن کانگریس بریڈ شرمین نے امریکہ کی نمائندہ خصوصی برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز کو خط لکھا ہے جس کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

 بریڈ شرمین نے امور خارجہ کی سب کمیٹی برائے جنوبی ایشیا کی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس کی سفارشات پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ بریڈ کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے امریکی سفارت کاروں یا غیر جانبدار مبصرین کو جموں و کشمیر کا دورہ کرانے سے مسلسل انکار پر باز پرس ہونی چاہیے۔ امریکی رکن کانگریس نے اپنے خط میں مختلف سوالات اٹھائے ہیں۔ جن میں پوچھا گیا ہے کہ پانچ اگست کے اقدامات کے بعد کتنی دفعہ امریکہ نے جموں و کشمیر میں اپنے سفارتکار بھجوانے کی بھارت سے درخواست کی۔ یہ بھی بتایا جائے کہ بھارتی حکومت امریکہ کو سفارتی رسائی نہ دینے کا کیا عذر پیش کرتی رہی ہے۔ بریڈ شرمین نے یہ بھی اعتراض اٹھایا ہے کہ اگر سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر امریکہ کو کشمیر تک سفارتی رسائی نہیں دی گئی تو پھر یورپی یونین کے ایک وفد نے جموں و کشمیر کا دورہ کیسے کر لیا؟ بریڈ شرمین نے خط میں اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکومت بھارتی حکومت پر زور دے کہ وہ امریکی سفارت کاروں کو کشمیر کے دورے کی اجازت دیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

کشمیر میں لاک ڈاؤن، مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کا نقصان

بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے مودی حکومت کی طرف سے اگست میں کیے گئے اعلان کے بعد سے صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن سے مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس متنازعہ خطے کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں اقتصادی شعبے کی نمائندہ مرکزی تنظیم نے بتایا کہ پانچ اگست کو نئی دہلی حکومت نے جموں کشمیر کے اپنے زیر انتظام حصے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا جو اعلان کیا تھا، اس پر اکتوبر کے آخر میں عمل درآمد ہو گیا تھا۔

اب اس خطے کو جموں کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر کے ان کو بھارت کے یونین علاقے بنایا جا چکا ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق صرف کشمیر میں اس دوران پانچ اگست سے مقامی معیشت کو بھارتی حکومت کے اقدامات سے ہونے والے اقتصادی نقصانات کی مالیت ایک بلین ڈالر سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ ان نقصانات کی اہم ترین وجہ کشمیر میں اضافی بھارتی دستوں کی تعیناتی کے بعد وہ سکیورٹی لاک ڈاؤن اور کاروباری شعبے کی بندش بنی، جو مجموعی طور پر مہینوں جاری رہی اور جزوی طور پر اب بھی جاری ہے۔

سو ارب روپے کے اقتصادی نقصانات
کشمیر ایوان صنعت و تجارت کے سینئر نائب صدر ناصر خان کے مطابق پانچ اگست سے لے کر ستمبر تک کشمیر کو ہونے والے اقتصادی نقصانات کی مالیت 100 ارب بھارتی روپے سے تجاوز کر چکی تھی۔ یہ رقم 1.4 ارب امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ ناصر خان کے مطابق المیہ یہ ہے کہ کشمیر میں نہ صرف سکیورٹی لاک ڈاؤن اور انٹرنیٹ بلیک آؤٹ ان بےتحاشا اقتصادی اور کاروباری نقصانات کی وجہ بنے بلکہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے ایوان صنعت و تجارت اپنے ارکان سے رابطے بھی نہ کر سکا کہ متاثرہ کاروباری حلقوں سے اس شٹ ڈاؤن کے مالیاتی اثرات کے تخمینے حاصل کیے جاتے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر کے مطابق، ”یہ معاشی نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا مجموعی اندازہ لگانا بھی ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔ ہم عدالت سے درخواست کریں گے کہ وہ کوئی ایسی بیرونی ایجنسی نامزد کرے، جو ان نقصانات کا درست اندازہ لگا سکے۔

زیادہ تر انٹرنیٹ رابطے آج بھی منقطع
پانچ اگست کے بعد سے اب تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن میں کمی تو آئی ہے مگر معمول کی عوامی اور کاروباری زندگی ابھی تک بحال نہیں ہو سکی۔ وادی کے عوام کے بیرونی دنیا سے انٹرنیٹ رابطے آج بھی زیادہ تر معطل ہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے سری نگر سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اس شٹ ڈاؤن سے سب سے زیادہ نقصان تجارتی، سیاحتی اور زرعی شعبوں کو ہوا ہے۔ کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر میں اپنا ایک ہوٹل چلانے والے ویویک وزیر نے روئٹرز کو بتایا، ”مجھے تو آئندہ کئی مہینوں تک کشمیر میں استحکام پیدا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہر جگہ بےحد بےیقینی پائی جاتی ہے اور ناقابل تصور اقتصادی نقصانات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

سید علی گیلانی کا وزیراعظم عمران خان کو خط

کشمیر کے بزرگ حریت رہنما اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے مقبوضہ وادی کے حالات پر وزیراعظم عمران خان کو خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ آپ کے ساتھ میرا آخری رابطہ ہو۔ حریت رہنما سید علی گیلانی نے اپنے خط میں اقوام متحدہ میں بھارت کی جانب سے متنازع علاقےکی حیثیت کو تبدیل کرنے پر عمران خان کی جانب سے کی جانے والی تقریر کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں آپ سے رابطہ قومی اور ذاتی ذمہ داری ہے۔ سید علی گیلانی نے خط میں لکھا ہے کہ کشمیری اپنی جدوجہد سے دست بردار نہیں ہوئے ہیں، بھارت کی جانب سے غیرقانونی فیصلوں کے بعد کشمیری عوام مسلسل کرفیو جھیل رہی ہے، نہتے کشمیریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے نوٹسز بھیجے جا رہے ہیں۔

سید علی گیلانی نےخط میں مزید لکھا ہےکہ کشمیری خواتین کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے، بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، بھارت نے غیر قانونی اقدامات کر کے اپنی طرف سے پاکستان سے ہوئے معاہدوں کو ختم کیا ہے، پاکستان کی طرف سے کچھ مضبوط اور اہم فیصلوں کی ضرورت ہے۔ سید علی گیلانی کا خط میں کہنا ہے کہ پاکستان کو حکومتی سطح پر کچھ کارروائی عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ سید علی گیلانی نے اپنے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ختم کرنے کا اعلان کرے، پاکستان دوطرفہ معاہدوں شملہ، تاشقند اور لاہور معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کرے۔ ایل او سی پرمعاہدے کے تحت باڑ لگانے کے معاہدے کو بھی ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے، حکومت پاکستان ان سارے فیصلوں کو لے کر اقوام متحدہ بھی جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کشمیری خواتین کا دکھ تو ابھی بیان ہی نہیں کیا گیا

کشمیر میں بھارت کی حکومت کی پابندیوں سے باقی طبقات تو متاثر ہو ہی رہے ہیں لیکن خواتین کو ان پابندیوں سے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک ماں اسپتال میں موجود اپنے نومود بیٹے کی صحت کے بارے میں جاننے سے قاصر ہے تو نئی زندگی کا سفر شروع کرنے والی دُلہن اپنے ارمانوں کے مطابق شادی نہ کر سکی۔ اسی طرح ایک خاتون صحافی پیشے کو ایک طرف رکھ کر بھی خاتون ہونے کی وجہ سے بھارتی سیکیورٹی فورسز سے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکڑوں ایسی خواتین کی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں جن کا دکھ کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن کے اندر ہی کہیں دفن ہو چکا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ تین ماہ سے عائد پابندیوں کے باعث مقامی افراد متعدد مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن کشمیری خواتین ایک ایسے دکھ سے گزر رہی ہیں جسے ابھی تک بیان ہی نہیں کیا گیا۔ بھارت کے ہزاروں غیر مقامی فوجی کشمیر کی گلیوں میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بعض پابندیوں میں نرمی کے باوجود اب بھی مواصلات کے متعدد ذرائع بحال نہیں ہو سکے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ بدستور بند ہے جس سے عام کشمیریوں کی زندگی مشکلات کا شکار ہے۔ یہ تمام مناظر ہیں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جہاں بھارتی حکومت کی جانب سے ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک معمولاتِ زندگی بحال نہیں ہو سکے ہیں۔

لیکن کشمیری خواتین کی مشکلات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ کوئی اپنے اکلوتے بیٹے کی گرفتاری پر دکھی ہے تو کوئی اپنے شوہر کے انتظار میں دروازے پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ وقت پر علاج میسر نہ ہونے کے سبب ایک حاملہ خاتون نے مردہ بچے کو جنم دیا تو وہیں ایک خاتون اپنے نومولود بیٹے سے اس کی زندگی کے ابتدائی 20 دن تک نہ مل سکی۔ ایسی کئی کہانیاں کشمیر میں عام ہیں۔ عتیقہ بیگم نامی خاتون سری نگر کی رہائشی ہیں۔ ان کا اکلوتا اور 22 سالہ بیٹا فیصل اسلم میر گھر کا واحد کفیل تھا۔ عتیقہ کے بقول جب کشمیر میں لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو فیصل دوائیں لے کر گھر واپس آ رہے تھے لیکن انہیں بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کر لیا۔

عتیقہ بیگم نے کہا کہ ان کے بیٹے کو بھارت کے کسی شہر کی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے اور ان کے پاس کوئی وسائل نہیں کہ وہ اپنے بیٹے سے مل سکیں۔
ایک اور کشمیری خاتون مہک پیر کشتی رانی کی کھلاڑی ہیں۔ ان کے بقول کشمیر میں جاری پابندیوں اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے وہ کشتی رانی کے سہ ملکی ٹورنامنٹ میں شرکت سے محروم ہو گئی ہیں۔ مہک پیر کے بقول انہیں امید تھی کہ وہ کشتی رانی کے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کریں گی۔ لیکن ملکی ٹورنامنٹ نہ کھیلنے کی وجہ سے اب یہ ممکن نہیں رہا۔ جواہرہ بانو نامی خاتون اپنی تین سالہ بیٹی کو گود میں اٹھائے ایک مظاہرے میں شریک تھیں۔ وہ سرینگر کے ایک نواحی علاقے میں موجود تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر سے باہر نکل کر مظاہرہ کرنے کا موقع گنوانا نہیں چاہتیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی نسبت کشمیری مردوں کو بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے کہ وہ کبھی بھی گرفتار کر لیے جائیں گے۔ سرینگر کی رہائشی صباحت رسول ایک ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے ایک حاملہ خاتون کا واقعہ بتایا کہ ان کے اسپتال میں ایک حاملہ خاتون نے صرف اس لیے داخل ہونے سے انکار کر دیا کہ مواصلاتی ذرائع بند ہونے کے باعث وہ اس بات کی اطلاع اپنے گھر والوں تک نہیں پہنچا سکتی تھیں۔ صباحت رسول کے بقول اسی خاتون کو اگلے روز ان کے گھر والے بے ہوشی کی حالت میں اسپتال لائے جہاں خاتون کی جان تو بچ گئی لیکن ان کا بچہ نہیں بچ سکا۔ صباحت رسول کا کہنا تھا کہ خاتون کی صحت کے پیشِ نظر انہیں اسی روز اسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت تھی جس دن وہ آئی تھیں لیکن خاتون کو یہ ڈر تھا کہ اگر وہ بغیر بتائے اسپتال میں ایک رات رہ گئیں تو ان کے گھر والے پریشان ہوں گے۔

مسرت زہرا کشمیر کی ایک مقامی صحافی ہیں جو سرینگر کے مضافات میں ہونے والے ایک مظاہرے کے کوریج کر رہی تھیں۔ خاتون صحافی نے بتایا کہ ایک مظاہرے کی کوریج کے دوران ایک پولیس والے نے دھمکی دی کہ وہ انہیں لات مارے گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری خواتین مردوں کے بغیر اپنے گھروں سے نہیں نکل سکتیں کیوں کہ بھارتی فوجی انہیں ہراساں کرتے ہیں۔ مسرت زہرا کے بقول آپ یہاں چپ نہیں رہ سکتے۔ اگر آپ گھر سے نکل کر باہر آئیں گے اور بولیں گے تو کوئی نہ کوئی تو آپ کی آواز ضرور سنے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے کام کے لیے باہر نکلنا ہی میرا احتجاج ہے۔ سُہانہ فاطمہ کشمیر میں کھیلوں کا میگزین نکالتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پابندیوں کی وجہ سے وہ اگست کا میگزین نہیں نکال سکی تھیں۔

زاہدہ جہانگیر سرینگر کے ایک نواحی علاقے لولب میں واقع اپنے گھر کے پاس اپنے دو ماہ کے بچے کو لیے کھڑی تھیں۔ محمّد کی پیدائش قبل از وقت ہوئی تھی لہٰذا اسے اسپتال میں رکھنا پڑا تھا۔ زاہدہ کو اس دوران بچے کی زندگی کے ابتدائی 20 دن تک اس سے دور رہنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ محمد تو اب صحت مند ہے لیکن ان 20 دنوں کے دوران انہیں جو دکھ سہنا پڑا وہ کوئی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ اس کا افسوس انہیں زندگی بھر رہے گا۔ کلثومہ رمیز کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ ان کی شادی ایسے وقت میں ہوئی جب کشمیر میں لاک ڈاؤن جاری تھا جس کے باعث وہ اپنا شادی کا جوڑا بھی نہیں خرید سکیں جو ان کا ارمان تھا۔ کلثومہ کو کسی سے ادھار لیا گیا جوڑا پہننا پڑا اور ان کی شادی میں کچھ پڑوسی اور چند رشتے دار ہی شرکت کر سکے۔

سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے انہیں رخصتی کے بعد پیدل سسرال جانا پڑا۔ سمیرا بلال کے شوہر بلال احمد کو بھارتی سیکیورٹی فورسز نے 5 اگست کی رات گرفتار کیا تھا۔ سمیرا نے کہا کہ ان کی دو سالہ بیٹی اکثر کھڑکی کی طرف اشارے کر کے اپنے والد کو پکارتی ہے کہ “بابا بابا آپ کب واپس آئیں گے؟” بیبا کے کزن کی 3 اگست کو موت ہو گئی تھی جس کی خبر ان تک تقریباً ایک ہفتے بعد پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ میں جنازے اور فاتحہ خوانی میں شریک نہیں ہو سکی اور تعزیت کرنے بھی نہیں جا سکی۔ یہ سب ہمارے لیے بہت ضروری تھا۔

بشکریہ وائس آف امریکہ