کورونا وائرس ۔ چند تجاویز

لاک ڈائون ایک ناپسندیدہ اور نقصان دہ عمل ہے۔ معیشت کیلئے تباہ کن تو سماج کیلئے مصیبت لیکن المیہ یہ ہے کہ کورونا کے سلسلے کو توڑنے کا ابھی تک دنیا نے اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہی ایجاد نہیں کیا۔ چین، روس، امریکہ، سعودی عرب، ترکی غرض دنیا کے ہر ملک کو لامحالہ یہی راستہ اپنانا پڑا۔ ہمارے ہاں ان ممالک کی نسبت غربت بہت زیادہ ہے لیکن معیشت جتنی بڑی اور ترقی یافتہ ہوا کرتی ہے، لاک ڈائون اس کیلئے اتنا ہی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے ۔ مثلاً پورے پاکستان کو بند کرنے سے جتنا نقصان ہو گا اس سے کئی گنا زیادہ امریکہ کو صرف نیویارک شہر کی بندش سے ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ افغانستان میں سینکڑوں دھماکوں سے وہاں کی معیشت اتنی متاثر نہیں ہوتی جتنی پاکستان میں ایک دھماکے سے ہو جاتی ہے کیونکہ افغانستان میں اسٹاک ایکسچینج کا مسئلہ ہوتا ہے اور نہ باہر کی دنیا کی ٹریول ایڈوائزری وغیرہ کا۔

ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کو گھروں کے اندر لمبے عرصہ تک کھلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں غربت بہت زیادہ ہے اور حکومت لوگوں کو گھروں پر نہیں کھلا سکتی لیکن یہاں بھی غربت اور بھوک کے فرق کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ کورونا سے قبل بھی ہماری جی ڈی پی گروتھ تاریخ کے کم ترین شرح پر آگئی تھی اور لاک ڈائون نہ ہو تو بھی ہم لوگوں کو روزگار دے سکتے ہیں، مناسب تعلیم، صحیح علاج اور نہ دیگر سہولتیں۔ یہاں ہمہ وقت ہر شخص اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے لیکن جتنی یہاں غربت زیادہ ہے، الحمدللہ اتنی یہاں بھوک نہیں ہے۔ ہماری سماجی ساخت، خاندانی نظام اور انفاق کے رجحان کی وجہ سے آج تک کوئی بھوک سے نہیں مرا۔ لوگ حادثات سے مرتے ہیں، علاج نہ ہونے کی وجہ سے مرتے ہیں، ڈپریشن اور نشہ کرنے کی وجہ سے مرتے ہیں لیکن مطلق بھوک سے کوئی کسی کو مرنے نہیں دیتا۔ پاکستان تو پاکستان ہے آج تک جنگ زدہ افغانستان سے بھی کسی کے بھوک سے مرنے کی خبر نہیں آئی۔

البتہ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک جہاں خاندانی اور سماجی نظام کمزور ہے اور جہاں کھلانے کی ذمہ داری ریاست کی ہے، وہاں اگر زیادہ عرصہ لاک ڈائون ہو تو ہو سکتا ہے کہ لوگ بھوک سے مرنے لگ جائیں۔ ویسے بھی یہ معیشت اور روزگار وغیرہ اس وقت درکار ہوتے ہیں جب انسان زندہ ہوں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا سے سب سے زیادہ غریب متاثر ہوتے اور مرتے ہیں، اس لئے لاک ڈائون نہ کرنے کیلئے غریب کو ہتھیار بنانا شاید زیادتی ہے۔ ہم سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ کورونا کے چین سے ایران تک پھیلنے کے باوجود ہم نے احتیاطی تدابیر اور نہ مناسب تیاری کی۔ اس سے بڑی غلطی یہ کی کہ لاک ڈائون لگانے کیلئے تیاری کی اور نہ اٹھانے کیلئے۔ بروقت لگانے کے بجائے دیر سے لگایا اور پھر عید کے دنوں میں ایسے وقت میں کھول دیا جب متاثرین اور ہلاکتوں کا گراف اوپر جارہا تھا۔

ہمارا لاک ڈائون بھی برائے نام تھا اور کئی حوالوں سے اس پر عمل بھی نہیں ہوا لیکن ہم نے لوگوں کو پہلے سے مطلع اور مناسب تیاری کئے بغیر پہلے تو لاک ڈائون کر دیا اور پھر اسی طرح مناسب اقدامات کے بغیر اس کو اٹھا لیا، جس کی وجہ سے لوگ بازاروں اور کاروباری مراکز پر ٹوٹ پڑے اور نتیجتاً کورونا گھر گھر پہنچ گیا۔ لاک ڈائون نرم کرنے سے قبل ماسک نہ پہننا جرم قرار دینا چاہئے تھا لیکن ہماری حکومت آج کئی ماہ بعد ماسک لازمی قرار دے رہی ہے۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عوام اور ڈاکٹروں کو کورونا اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ڈاکٹروں کی مہارت اور شعبہ ہے۔ بدقسمتی سے وقت نے ڈاکٹروں کی پیشینگوئیوں کو حرف بحرف درست جبکہ حکومت کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا۔ اس لئے اب ضد چھوڑ کر ڈاکٹروں کی بات مان لینی چاہئے۔ اب کی بارلاک ڈائون تیاری کے ساتھ کیا جائےاور مناسب اقدامات کے بعد اٹھایا جائے۔

پہلے لاک ڈائون میں لوگوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ لاک ڈائون کب ختم ہو گا، اس لئے بے چینی زیادہ تھی۔ اس لئے اب حکومت ڈبلیو ایچ او کی تجویز مان کر پہلے سے اعلان کر دے کہ لاک ڈائون دو ہفتوں کیلئے کیا جائے گا تاکہ لوگ اس حساب سے اپنی منصوبہ بندی کر سکیں۔ اسی طرح لاک ڈائون سے قبل لوگوں کو تیاری کیلئے ایک یا دو دن کی مہلت دی جائے اور ان دنوں میں دکانوں اور بینکوں وغیرہ کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھا جائے تاکہ لوگ وہاں ٹوٹ نہ پڑیں اور باری باری اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ حکومت نے یہ بھی غلطی کی کہ جب لاک ڈائون ختم کیا تو بازاروں کیلئے پانچ بجے تک کا وقت رکھا چنانچہ جب لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہو کہ پانچ بجے سب کچھ بند ہو جانا ہے تو وہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بیشک لاک ڈائون شہروں تک محدود ہو، دیہات میں کسانوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے لیکن وہاں ایس اوپیز پر پولیس کے ذریعے سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔

لاک ڈائون کے دوران لوگوں کی رہنمائی اور ان تک مدد پہنچانے کیلئے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو وقتی طور پر بحال کیا جائے کیونکہ باہر کےعلاقوں سے آئے ہوئے سرکاری افسران کی نسبت یونین کونسل کی سطح پر منتخب ممبران اچھی طرح جانتے ہیں کہ علاقے میں کون غریب ہے اور کس کا گزارا ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی ٹائیگرز فراڈ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کام انکے بجائے لوکل گورنمنٹ کے ممبران ہی بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ ایک اور تجویز یہ ہے کہ وزیراعظم مرکز کی سطح پر اور وزرائے اعلیٰ صوبوں کی سطح پر فلاحی اداروں کا اجلاس بلائیں اور ان میں تقسیم کار کریں کہ وبا کے دنوں میں کس نے کیا کام کرنا ہے۔ جب تک کورونا کا مسئلہ ہے تب تک کورونا کا علاج کرنے والے تمام طبی عملے کی تنخواہوں کو ڈبل کر دیا جائے۔

آخری گزارش یہ ہے کہ این سی او سی میں ڈاکٹر طاہر شمسی، ڈاکٹر عطاالرحمٰن، ڈاکٹر شاذلی منظور، ڈاکٹر سعید اختر، ڈاکٹر جاوید اکرم (یہ وہ ڈاکٹرز ہیں کہ حکومتی ماہرین کے برعکس جن کے اندازے بالکل درست ثابت ہوئے ہیں) کو بھی شامل کیا جائے بلکہ اگر اس میں ڈاکٹر غلام صابر جیسے ہیومیوپیتھ اور قدیم طب کے ایک آدھ جینوئن ماہر کو بھی شامل کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

سلیم صافی

بشکریہ روزنامہ جنگ

لاک ڈاؤن، پاکستان کیلئے ہیرو یا ولن

پاکستانیوں کو بڑے مخمصے کا سامنا ہے ، وہ کورونا وائرس سے جنگ میں لاک ڈائون کو اپنے لئے ہیرو ( نجات دہندہ ) سمجھیں یا ولن ( دشمن ) ۔ 26 فروری کو اس وائرس سے پہلی ہلاکت ہوئی اور اب یہ تعداد 800 کے قریب پہنچ گئی ہے جس میں کوئی کمی نہیں بلکہ تعداد بڑھنے کا ہی خدشہ ہے ۔ یہ معاملہ تحقیقی سے زیادہ سیاسی بن گیا ہے ۔ حکومت نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس وائرس سے بچنے کا طریقہ کار اختیار کر یں ، سماجی ( طبعی ) فاصلے اختیار کریں ، ماسک لگائیں اور دستانے پہنیں ۔ اپنے روزمرہ معمولات میں طرز زندگی کو بدلیں ۔ خاندانوں میں غیر یقینی پھیلی ہوئی ہے ۔ رمضان المبارک کے بعد ہزاروں شادیاں طے ہو تی ہیں ۔ حکومت نے شادی ہالز کھولنے اور ایس او پیز کا کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا ہے جبکہ ماہ صیام اپنے آخری عشرے میں داخل ہو چکا ۔ 

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ایس او پیز پر سختی سے عمل پیرا ہو نے کے انتباہ کے ساتھ نام نہاد لاک ڈائون میں نرمی کی ، چند روز قبل پورے ملک میں محدود کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی لیکن ملک میں بڑی مارکیٹوں اور کاروباری مراکز سے جو رپورٹس آرہی ہیں ، وہ ان لوگوں کے لئے مایوس کن ہیں جو اسمارٹ لاک ڈائون کی بات کرتے ہیں لیکن لوگوں نے طے کردہ ایس او پیز کی کوئی پرواہ ہی نہیں کی جس کے نتیجے میں انتظامیہ نے بڑی مارکیٹوں کو بند کر دیا ۔ ایس او پیز کو لاگو کر نا، وفاقی حکومت کی تشکیل کردہ ٹائیگر فورس کے لئے بڑی آزائش ہے ۔ 

کیونکہ جلد ہی ٹرانسپورٹ پر پابندیاں نرم کر دی جائیں گی ، نجی ٹیکسی سروس کو کام کر نے کی اجازت دئے جا نے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے ۔ جس کی تصدیق سندھ کے وزیر سعید غنی نے بھی کی ہے ۔ ہوسکتا ہے حکومت ٹرینوں کی آمد و رفت اور بس سروس بھی بحال کر دے ۔ بڑے شاپنگ مال بھی کھول دینے پر غور کیا جا رہا ہے کیونکہ وہاں ایس او پیز پر عمل درآمد کرانا نسبتاَ آسان ہوتا ہے ۔ جن لوگوں نے روز اول سے مکمل لاک ڈائون کی مخالفت کی ، ان کے خیال میں پورا ملک بند کر گئے جا نے کا متحمل نہیں ہو سکتا ، صرف اشرافیہ کو ہی اس سے تحفظ مل سکتا ہے ۔

مظہر عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ