نئی ایم کیو ایم ڈگی میں پڑی سٹپنی

کسی بھی الیکشن سے محض دو دن پہلے جب ایک دوسرے کی شکل برداشت نہ کرنے والے تین سیاسی دھڑے جبری نکاح کے گروپ فوٹو کی طرح نظر آنے لگیں اور ہنی مون پیریڈ گزارے بغیر ہی انھیں انتخابی انگاروں پر سے گزر جانے کا حکم مل جائے تو پھر جان بچانے کے لیے کسی نہ کسی جواز کے جوتے پہن کے پتلی گلی سے نیچے نیچے ہو کر نکلنا ہی پڑتا ہے۔ یہ تو انتخابی سیاست کا معمولی طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ نئی انتخابی حلقہ بندیاں یا نئی مردم شماری جیسے مطالبات انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے بہت پہلے ہوتے ہیں۔ اگر یہ مطالبہ منطقی اعتبار سے درست ہے تو پھر اسی اصول کے تحت پہلے مرحلے کا بائیکاٹ کیوں نہیں کیا گیا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ آدھا سندھ پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہونے والے انتخابی عمل پر گزارہ کرے اور بقیہ سندھ نئی حلقہ بندیوں کی فرمائش ڈال دے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایم کیو ایم کے علاوہ جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں بھی اس مطالبے کی وکالت کرتیں اور تحفظات رکھتے ہوئے انتخابی عمل میں حصہ نہ لیتیں۔

سندھ میں پرانے بلدیاتی ڈھانچے کی مدت اگست 2020 میں ختم ہو گئی۔ قاعدے سے 120 دن کے اندر اندر نئے بلدیاتی انتخابات ہو جانے چاہیے تھے مگر ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ انتخابات کروانے کی آئینی مدت کے احترام کے بجائے یہ دیکھا جاتا ہے کہ برسرِ اقتدار جماعت کی جیت کے لیے ماحول سازگار ہے کہ نہیں۔ اکثر اسی بنیاد پر انتخابی شیڈول بھی مرتب ہوتا ہے اور سیاسی جماعتوں کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے۔ انڈیا کی طرح پاکستان کا الیکشن کمیشن بھی خود کو بااختیاری اور ٹھسے کے ساتھ منوانے کا حوصلہ رکھتا تو کسی سیاسی جماعت کی مجال نہ ہوتی کہ وہ انتخابی شیڈول کو غیر سنجیدگی سے لے مگر انڈیا کا الیکشن کمیشن اگر ان دنوں مودی ہے تو ہمارا الیکشن کمیشن بھی موڈی ہے۔ کبھی بنا مانگے نولکھا بخش دیتا ہے تو کبھی چمچ کی چوری پر نالش جاری کر دیتا ہے۔ کبھی بامروت ڈاک خانے میں بدل جاتا ہے تو کبھی ہڑبڑا کے کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنی آئینی و قانونی طاقت کا بھرپور احساس دلا دیتا ہے۔ کبھی گلی کے لونڈوں کے ساتھ تھڑے پر بیٹھ کے تاش کھیلنے لگتا ہے اور پھر اچانک ان لمڈوں کو بزرگوں کے احترام کا بھاشن دینے لگتا ہے۔

اب یہی دیکھیے کہ الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن سرکار کی سفارش پر ملتوی کروانے پر اعلی عدالت کی ڈانٹ کھائی اور ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کو چوتھی بار ملتوی کروانے کی دھمکی آمیز درخواست کو دھتا بتا دیا۔ اسی گرم و سرد و بلغمی مزاج کے سبب الیکشن کمیشن کے بارے میں نونیوں کا رویہ رسمی علیک سلیک اور کام نکالنے والا ہے۔ پیپلز پارٹی کا رویہ اس بوڑھے جوڑے جیسا ہے جو نہانے کی نیت سے پانی چولہے پر چڑھاتا ہے مگر پھر ناسازگار امکانات سے مایوس ہونے کے بجائے اسی پانی کی چائے بنا لیتا ہے جبکہ پی ٹی آئی کا رویہ بدتمیزانہ حد تک بے تکلفانہ ہے۔ شاید اسی سے حوصلہ پا کر ایم کیو ایم کے دھڑوں نے بھی متحد ہو کے سب سے پہلے الیکشن کمیشن کو للکارا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مطالبات تسلیم ہوئے بغیر کون سندھ کے شہری علاقوں میں الیکشن کرواتا ہے اور اب ایم کیو ایم واقعی ایک طرف کھڑی دیکھ رہی ہے۔

ممکنہ شکست کو بھانپ کے بائیکاٹ کی راہ اختیار کرنا بھی موجودہ حالات میں سیاسی بلوغت کی علامت ہے۔ کیا ضرورت ہے اکیسویں صدی میں اٹھارویں صدی کا ٹیپو سلطان بننے کی۔ ضروری تو نہیں کہ ہر بار شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہو۔ ویسے بھی ہمارے مشفق دوست نصیر ترابی مرحوم کہا کرتے تھے کہ جب سامنے سے طوفان آ رہا ہو تو سینہ تان کے کھڑا ہونا احمقانہ فعل ہے۔ اسی طوفان کے اوپر اپنے پٹڑے پر کھڑے ہو کے آگے نکل لینا یا طریقے سے سائیڈ پر ہو جانا ہی عقلمندی ہے۔ یہ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے پنجاب میں مسلم لیگ ق اور سندھ میں ایم کیو ایم کی وہی اہمیت ہے جو امریکہ کے لیے اسرائیل کی ہے۔ امریکہ مشرقِ وسطی کی اتھل پتھل میں اسرائیل کی مدد سے طاقت کا توازن برقرار رکھتا ہے جبکہ یہاں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات کے ترازو کو متوازن رکھنے کے لیے دونوں جماعتوں کو حسبِ ضرورت باٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

مگر میرے خیال میں اس انتظام میں ق کو ایم کیو ایم کے مقابلے میں کم ازکم دو نمبر کی سبقت حاصل ہے کیونکہ ق کو یہ آرٹ معلوم ہے کہ دس سیٹیں ہونے کے باوجود بھی سو سے زائد سیٹیں رکھنے والی پارٹیوں کو اپنے سیاسی تحمل کی تھاپ پر کیسے تاتا تھئیا کروایا جا سکتا ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم کی قیادت چالیس سالہ تجربے کے باوجود آج بھی طالبِ علمانہ دور کے جذباتی دماغ سے فیصلے کرتی ہے بلکہ درست جملہ شاید یہ ہے کہ آج کی ایم کیو ایم کو بتا دیا جاتا ہے کہ بھائی یہ ہے فیصلہ جسے آپ نے دنیا کے سامنے اپنا فیصلہ بتانا ہے۔ چنانچہ اب نہ کوئی اس کی انتخابی بائیکاٹ کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور نہ ہی حکومت چھوڑنے کے انتباہ کو۔ ویسے بھی جس پارٹی کا دل الطاف حسین کے قبضے میں اور دماغ اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں ہو، اس کا مقام سیاست میں وہی رہ جاتا ہے جو کار کی ڈگی میں پڑی سٹپنی کا۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

پراجیکٹ ’نیو‘ ایم کیو ایم

شہری سندھ کی سیاست میں ’مہاجر فیکٹر‘ ہمیشہ سے اہم رہا ہے مگر سال 2013ء کے انتخابات کے بعد سے اس رجحان میں تبدیلی آئی اور 2018 میں پہلی بار کراچی نے ایک ایسی جماعت کو مینڈیٹ دیا جس نے وفاق میں حکومت بنائی جس کی ایک بڑی وجہ 22؍ اگست 2016 کے بعد سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی تقسیم در تقسیم اور اردو بولنے والوں کے مقابلے میں دوسری زبان بولنے والوں کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ تھا، تیسری وجہ خود ماضی میں اس جماعت کا ساتھ دینے والوں کا اس پر سے اعتماد ختم ہونا تھا اور اس کے ساتھ پاکستان کے طاقتور حلقوں کا بدلتا بیانیہ۔ جس جماعت کو اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ پاکستان تحریک انصاف ہے جس نے 2013 کے الیکشن میں 8 لاکھ ووٹ لئے تھے گو کہ ایم این اے کی ایک نشست جیتی مگر 2018 میں 16 اور شہری سندھ کی سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری۔ 2018 کے مقابلے میں 2023 میں محض یہ فرق آیا ہے کہ اُس وقت پی ٹی آئی کو اداروں کی پشت پناہی حاصل تھی اب صورتحال ذرا مختلف ہے۔

البتہ اپریل 2022 کے بعد سے اس جماعت نے اپنی غیرمقبولیت کو عدم اعتماد کی تحریک کے بعد مقبولیت میں تبدیل کر دیا ہے اور ماضی کے مقابلے میں اس وقت ایم کیو ایم اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کا اپنا ووٹ بینک اب تین یا چار حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے جن میں پی ٹی آئی، تحریک لبیک اور جماعت اسلامی نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کی اپنی مقبولیت خود اپنے حلقہ احباب میں سوالیہ نشان ہے جس کی وجہ وہ خاموش ووٹر ہے جو آج بھی بانی متحدہ الطاف حسین سے جڑا ہوا ہے۔ بظاہر اداروں کا رویہ ایم کیو ایم (لندن) کے بارے میں اب بھی خاصہ سخت ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ماضی کی ایم کیو ایم اور الطاف کی ہر نشانی کو ختم کرنا چاہتے ہیں، چاہے وہ عزیزآباد میں ان کی رہائش گاہ 90 ہو، آفس خورشید میموریل ہال ہو۔ جناح پارک ہو یا یادگار ِشہدا، یہی نہیں، ’نیو‘ ایم کیو ایم پراجیکٹ میں یہ شرائط شامل ہیں کہ رابطہ کمیٹی ختم کی جائے گی، ماضی کی طرح کوئی تنظیمی سیکٹر، یونٹ انچارج نہیں ہوں گے نہ ہی الخدمت فائونڈیشن کو ماضی کی طرح چندہ جمع کرنے کی اجازت ہو گی۔

یہ ایک مختصر سا خلاصہ ہے نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ کا، وہ بھی شاید اس لئے لایا جارہا ہے کیونکہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے معاملات تا حال کشیدہ ہیں مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اداروں میں پریشانی صرف پی ٹی آئی کی وجہ سے نہیں بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کی وجہ سے بھی ہے کیونکہ چند ماہ قبل بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کے نتائج سے اس کا امکان بڑھ گیا ہے کہ شہری سندھ بشمول سکھر، میرپور خاص اور حیدرآباد میں بھی پی پی پی کے میئر منتخب ہو سکتے ہیں۔ 15؍ جنوری کو اگر بلدیاتی الیکشن ہو جاتے ہیں تو مقابلہ پی ٹی آئی، پی پی پی اور جماعت اسلامی میں ہونے کا زیادہ امکان ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے انضمام کی صورت میں بھی انہیں ’لندن‘ کی مزاحمت کا سامنا رہے گا۔ پی پی پی، جماعت اسلامی کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں بلدیاتی الیکشن سائنس کا زیادہ تجربہ حاصل ہے مگر پی ٹی آئی کا ووٹر خاصہ متحرک ہے اور خود عمران خان الیکشن مہم کیلئے کراچی آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

امکان اس بات کا ہے کہ یوسی کے الیکشن کے بعد کسی دو جماعتوں کے اتحاد سے مئیر اور ڈپٹی مئیر کا انتخاب ممکن ہو گا، کلین سویپ کے امکانات کم ہیں۔ البتہ مئیر کے لئے اب تک واحد امیدوار جماعت کے حافظ نعیم الرحمٰن ہیں جبکہ پی ٹی آئی میں مقابلہ فردوس شمیم نقوی اور خرم شیرزمان میں ہے مگر کپتان کسی تیسرے کو بھی نامزد کر سکتے ہیں۔ پی پی پی کے امیدوار کا اعلان یو سی الیکشن کے بعد ہو گا۔ رہ گئی بات نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ کی، اس کی اصل وجہ ماضی کے پراجیکٹ پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کی 2016 کے بعد سے انتخابی ناکامی ہے، وہ اسی سال فروری میں مائنس الطاف اور مائنس ایم کیو ایم فارمولہ لائے تھے۔ اداروں کے اندر اب بھی سابق مئیر اور پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر ان کا اینٹی الطاف بیانیہ عوامی پذیرائی حاصل نہ کر سکا، دوسری طرف 22؍ اگست سے پیدا شدہ صورتحال کو طاقتور حلقوں نے اس بے دردی سے استعمال کیا جس سے ایم کیو ایم (لندن) اور الطاف کیلئے ہمدردیاں زیادہ پیدا ہونے لگیں۔

نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ کی ایک کوشش کوئی دو سال پہلے ہوئی تھی مگر بہت سے رہنمائوں کی ’انا‘ آڑے آگئی۔ ایک وجہ تنازع عامر خان رہے ہیں جس کا اپنا ایک پس منظر ہے۔ ان کی سیاست کی ابتدا آفاق احمد کے ساتھ الطاف حسین کے مضبوط ساتھیوں کے ساتھ ہوئی۔ وہ دونوں کراچی کے زونل انچارچ تھے۔ 1991 میں ایم کیو ایم کی پہلی بڑی تقسیم کے نتیجے میں ان دونوں سمیت کوئی چار پانچ لوگوں کو پارٹی سے نکال دیا گیا مگر پراجیکٹ ایم کیو ایم (حقیقی) بھی کامیاب نہیں ہو سکا جس کے بارے میں ایک بار خود اس کے سربراہ آفاق احمد نے کہا تھا کہ انہیں سیاست کرنے کی اجازت نہیں تھی بس ادارے چاہتے تھے کہ ہم اپنا ’علاقہ‘ اپنے پاس رکھیں یعنی لانڈھی، کورنگی۔ 22؍اگست کے بعد عامر خان ایم کیو ایم (پاکستان) کے نمبر 2 ہو گئے مگر نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ میں انضمام کی صورت میں وہ اس سے باہر رہیں گے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس نئے پراجیکٹ کے روح رواں گورنر کامران ٹیسوری ہیں جو 2016 میں وجہ تنازع بنے۔

کہتے ہیں انسان کا اصل امتحان ہوتا ہی اس وقت ہے جب آپ کے پاس اختیار آجائے اگر آپ نے وہ ضائع کر دیا تو وہ پلٹ کر نہیں آتا۔ یہی ایم کیو ایم کی کہانی ہے جن زبان بولنے والوں کی طاقت علم و ادب اور تہذیب رہی ہو ان کو اگر قائد ’’زیور بیچ کر ہتھیار خریدنے‘‘ کا مشورہ دیں گے تو پھر وہی ہو گا جو ہوا۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے، علاقے اور محلے میں موٹر سائیکل پر سفر کرنے والے راتوں رات امیر ہو جائیں تو یہی ہوتا ہے جو ہوا۔

مظہر عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ

سچ کہاں گم ہو گیا ہے

سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ نگران وزیر اعظم کے لیے راولپنڈی اسلام آباد میں انٹرویو شروع ہو چکے ہیں، 31 مئی تک اہم فیصلے ہونے ہیں، انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ ایم کیو ایم فوری الیکشن چاہتی ہے جب کہ ایم کیو ایم نے وزیر اعظم شہباز شریف کو صاف بتا دیا ہے کہ وہ ملک میں فوری انتخابات میں دلچسپی نہیں رکھتی، پہلے مردم شماری، نئی حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن کرائے جائیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ پہلے اصلاحات پھر عام انتخابات ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) نے کہا ہے کہ تحریک انصاف خوشیاں نہ منائے کچھ ہونے نہیں جا رہا۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے پاس اپنی حکومتی کارکردگی دکھانے کے لیے کچھ نہیں، پہلے انھوں نے امریکی سازش کا چورن بیچا اور اب کہہ رہے ہیں کہ ہم معیشت کو اوپر لے جا رہے تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں ملکی مفاد نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کر رہی ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا پہلے تو خیر مقدم کیا مگر بعد میں اسے امریکی سازش قرار دیا جو بقول ان کے لندن میں نواز شریف نے بنائی۔ بعد میں عمران خان نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی ملوث کیا۔ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن نے آئین کے مطابق پیش کی جس کی منظوری رکوانے کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو جس طرح استعمال کیا گیا اور غیر آئینی حربے استعمال کیے گئے اس پر سپریم کورٹ بھی متحرک ہوئی مگر شکر ہے عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف مبینہ سازش میں عدلیہ کو ملوث نہیں کیا مگر موصوف نے عدالتوں پر رات 12 بجے کھولے جانے کا الزام ضرور لگا دیا۔ عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر کو (ن) لیگ کا بندہ قرار دے دیا حالانکہ ان کا تقرر خود انھوں نے کیا تھا۔ انھوں نے چیف الیکشن کمشنر کی تعریفیں کی تھیں۔ عمران خان کو جواب دیتے ہوئے پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کے خلاف سازش وائٹ ہاؤس نے نہیں بلکہ بلاول ہاؤس نے کی جو آئینی تھی۔ عمران خان کے الزامات پر مسلم لیگی رہنما مریم نواز کا کہنا ہے کہ جب کارکردگی بتانے کو کچھ نہ ہو تو جھوٹے ڈرامے کرنا پڑتے ہیں اور جھوٹ پہ جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔

پی ایس پی کے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ عمران خان کی حکومت امریکا نے نہیں، اللہ نے گرائی۔ جماعت اسلامی تحریک عدم اعتماد میں لاتعلق تھی مگر وہ بھی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش تسلیم نہیں کر رہی۔ حکومت میں شامل تمام سابق اپوزیشن جماعتوں اور سینئر صحافیوں کا موقف ہے کہ عمران خان کے خلاف سازش کسی اور نے نہیں خود ان کی حکومت کی کارکردگی نے کی۔ سابقہ حکومت کے سابق اتحادی چوہدری شجاعت بھی امریکی سازش پر عمران خان سے متفق ہیں، نہ جی ڈی اے مگر سابق وزیر اعظم ڈٹے ہوئے ہیں کہ انھیں سازش کے تحت ہٹایا گیا۔ حکومتی حلقے عمران خان پر جھوٹا بیانیہ بنانے، آئے دن جھوٹ پہ جھوٹ بولنے، نئے نئے پینترے بدلنے اور سب سے زیادہ جھوٹ بولنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ ادھر فواد چوہدری کے بقول وفاقی اور پنجاب حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ختم ہو چکی ہیں اور بقول شیخ رشید راولپنڈی اور اسلام آباد میں نگران حکومت کے لیے انٹرویو شروع ہو چکے ہیں۔

حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے بغیر نگران حکومت نہیں بن سکتی جب کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا تقرر نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نے کسی سے مشاورت نہیں کی تو پھر انٹرویو کون کر رہا ہے ؟ اس حوالے سے لب کشانی کردیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ سابق گورنر پنجاب سرفراز چیمہ کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ کے جھوٹوں نے پنجاب میں بحران پیدا کر رکھا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) سابق وزیر اعظم عمران خان پر جھوٹے بیانیوں کا الزام لگا رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نواز شریف اور شہباز شریف کو سب سے بڑا جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے خودساختہ زخمی ہونے کی فوٹیج میڈیا پر آچکی۔ اس وقت ملکی سیاست میں جھوٹ، جھوٹے بیانات اور جھوٹے الزامات عروج پر ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف اس قدر جھوٹ بولا جا رہا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس وقت ملکی سیاست کا اہم سیاسی اور اولین مسئلہ جھوٹ اور صرف جھوٹ ہے جو اس قدر ڈھٹائی سے بولا جا رہا ہے کہ عوام بھی پریشان ہیں کہ سچ کہاں گم ہو گیا ہے۔ ملکی سیاست میں سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہو چکی جس سے لگتا ہے کہ ملک کا سب سے اہم سیاسی مسئلہ جھوٹ کا فروغ ہے اور سچ غائب ہو کر رہ گیا ہے۔

محمد سعید آرائیں

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ایم کیوایم ، ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں ہوئی؟

سال 2013 تک ایم کیوایم ایک مضبوط اور منظم ترین جماعت تھی لیکن اب بکھر رہی ہے اورعملی طور پر4 دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے، یہ شہرمیں ’سیاسی انتشار‘ کی علامت ہے کیونکہ اِن دھڑوں کی خالق جماعت نے بھی ایم کیوایم (پاکستان) کے اندر کی خراب صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور تیاری کر لی ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایم کیوایم (پاکستان) کا تھا لیکن غلط وجوہات کیلئےافراتفری اور تقسیم کی وجہ سے اپنی ہی جماعت میں مزید پریشانی پیدا کر دی گئی اور دیگر سیاسی جماعتیں آخری دھچکے کا ’انتظار‘ کر رہی ہیں۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی، جن کا کراچی کی سیاست میں کردار ہے انھوں نے اپنی مہم اور رکنیت سازی کی مہم تیز کر دی ہے۔ کراچی کےامیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے بروز سوموار اعلان کیا کہ پارٹی کراچی کیلئے ایک ’متبادل منصوبہ‘ پیش کرے گی۔ لہذا اب ہر جماعت کی نظر قومی اسمبلی کی 20 یا 21 اور صوبائی اسمبلی کی 51 سیٹوں پر ہے۔

پی پی پی سندھ سے سینٹ کی 8 سے 10 نشستوں کے اضافے کیلئے پُرامید ہے۔ انھیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا پورا حق حاصل ہے۔ ایم کیوایم (پاکستان) کے دونوں دھڑے اپنی منظوری کیلئے اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ رابطہ کمیٹی کی پوزیشن بہترہے لیکن کیا ان کے پاس اتنے ایم پی ایز ہیں کہ وہ سینٹ کی کم از کم ایک یا دو سیٹیں نکال سکیں۔ ایک بات یقینی ہے کہ قانونی جنگ جو بھی جیتے، ہار صرف ایم کیوایم کی ہی گی ، اور فائدہ تیسری پارٹی کا ہو گا۔ اگر ایم کیوایم کے تنظیمی ڈھانچے پر نظر ڈالی جائے تو اپنے قائد یا بانی کے بعد رابطہ کمیٹی سب سے طاقتور آرگن ہے۔

سن 1984 سے 1992 تک ایم کیوایم کے پاس سیاسی سیٹ اپ تھا اوررابطہ کمیٹی کی بجائے اس کے پاس سینٹرل ورکنگ کمیٹی، چیئرمین، وائس چیئرمین، سیکریٹری جنرل اور دیگرعہدیدارتھے۔ آرمی آپریشن کے بعد اس کی سینٹرل باڈی ختم کر دی گئی اور اس کی جگہ رابطہ کمیٹی بنا دی گئی۔ بائیس اگست 2016 کے بعد حادثاتی طور پرایم کیوایم (پاکستان) نےایک الگ سیاسی شناخت کے ساتھ جنم لیا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں پارٹی نقصان کی بھرپائی کی کوشش کی لیکن جو دبائو اس کے کنوینئر ڈاکٹرفاروق ستار پر ڈالا گیا وہ اسے برداشت نہ کر سکے۔ جب انھوں نے اور دیگر نے ایم کیوایم (پاکستان) کے طور پر کام کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ اسٹیبلشمنٹ سے نرمی کی امید کر رہے تھے۔

انھوں نے ایم کیوایم کے بانی کے خلاف ایک قرارداد منظور کی اور بغاوت کرنے پر اُن کے خلاف ٹرائل کا مطالبہ کیا لیکن وہ ایم کیوایم لندن سے مبینہ تعلقات کے ’شکوک‘ زائل نہ کر سکے۔ پھر انھیں ایم کیوایم کا نام ترک کرنے کیلئے دبائو کا سامنا کرنا پڑا، اور اگر وہ نئی جماعت یا گروپ بنا لیتے تو انھیں ریلیف مل جاتا۔
ایک جانب انھیں اسٹیبلشمنٹ کے چند حلقوں کی جانب سے دبائو کا سامنا تھا اور دوسری جانب حکومت سندھ نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت عملی طور پر تمام اختیارات لے لیے اور میئرکراچی اور نظام کو بے اختیار بنا دیا لہذا ایم کیوایم (پاکستان) اپنے کارکنوں اور رہنمائوں کے نام مقدمات اور انکوائریوں سے نکلوا سکی اور نہ ہی اپنے بے روزگار کارکنوں کو نوکریاں دلوا سکی۔ ان کے چند دفاتر کھول دیئے گئے لیکن انھیں سیکٹر اور یونٹس کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

نائن زیرو سے خورشید میموریل ہال اور جناح گراؤنڈ تک سب ایم کیوایم کیلئے ’نوگوایریا‘ رہے۔ ایم کیوایم (پاکستان) کو اپنی خدمتِ خلق فائونڈیشن بھی آزادانہ طور پرچلانے کی اجازت دی گئی نہ ہی ’چندہ‘ جمع کرنے دیا گیا۔ سیاسی محاذ پر مرکز میں موجود پی ایم ایل اور سندھ میں پی پی پی نے ایم کیوایم سے دوری بنائے رہی اور یقین دہانی کے باوجود انھیں حکومتی اتحاد کا حصہ بننے کی دعوت نہیں دی گئی۔ اس کے باعث ایم کیوایم (پاک) کے اندر سیاسی اور معاشی بحران پیدا ہو گیا اور اس کے ایم این ایز، ایم پی ایز اور دیگرعہدیداران پریشان ہو گئے۔ بعض اوقات اُن کے رہنماوں کو اُن غیر سیاسی لوگوں کی میٹنگز میں بےعزتی کا سامنا کرنا پڑا، جو ایم کیوایم کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ چند ماہ میں ایم کیوایم کے کئی ایم این ایز اور ایم پی ایز، سیکٹرز اور یونٹس نےایم کیوایم (پاک) سے پی ایس پی کی جانب اپنی وفاداریاں تبدیلی کرنا شروع کر دی یا بیرونِ ملک جانے کا فیصلہ کیا۔

مظہر عباس

فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی نے ایک دوسرے کو فارغ کر دیا

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں ایک ہفتے سے جاری اندورنی خلفشار کا آخر کار ڈراپ سین ہو گیا۔ رابطہ کمیٹی اور فاروق ستار نے ایک دوسرے کو مائنس کرتے ہوئے الزامات کی بارش کر دی۔ پہلے رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کو کنوینر کے عہدے سے فارغ کر کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو کنوینر نامزد کیا اور تھوڑی دیر بعد فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ گزشتہ روز بہادرآباد میں ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے اراکین کا اجلاس ہوا جس میں فاروق ستار کو کنوینر کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈپٹی کنوینر کنور نوید جمیل نے بہادر آباد میں عامر خان، خالد مقبول صدیقی اور نسرین جلیل سمیت دیگر رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی سے دھوکے بازی کی۔

فاروق ستار پر کئی چارجز ہیں ، رابطہ کمیٹی کے علم میں لائے بغیر پارٹی آئین تبدیل کیا، فاروق ستار کی کوتاہی سے پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ ہوئی، اس لئے ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینر کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا، فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کو بتائے بغیر ارکان کو چننے اور فارغ کرنے کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ خدمت خلق فاؤنڈیشن (کے کے ایف) ایک فلاحی ادارہ ہے، فارو ق ستار اس کے چیف ٹرسٹی ہیں، لیکن کے کے ایف تباہ ہو گئی، رابطہ کمیٹی کہتی رہ گئی لیکن کچھ نہ کیا گیا، پورا کراچی سمجھا جا رہا تھا لیکن فاروق ستار سمجھنے کو تیار نہ ہوئے۔

بعدازاں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی اور تمام شعبہ جات کا نمائندہ اجلاس ڈپٹی کنوینر کنور نوید جمیل کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا نام بحیثیت کنوینر نامزد کیا جس کے بعد کنور نوید جمیل نے اس تجویز پر اجلاس کے شرکاء سے رائے لی تو متفقہ طور پر اجلاس نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو بحیثیت کنوینر منتخب کیا۔ بعد ازاں ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کی جانب سے اپنی سبکدوشی کے اعلان کے بعد پی آئی بی کے ایم سی گراؤنڈ میں کارکنوں کے جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے جوابی وار کرتے ہوئے بطور سر براہ رابطہ کمیٹی سمیت تمام تنظیمی ڈھانچے کو فارغ کر کے ان کے تمام اختیارات کو ختم کر دیا ہے اور انٹر پارٹی الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔

ایم کیو ایم میں ہونے والی توڑ پھوڑ جہاں سیاسی حلقوں میں دل چسپی کا باعث ہے وہی ایم کیو ایم کے کار کنوں، ووٹرز اور مہاجر عوام میں مایوسی اور بدلی کا باعث ہے۔ اہم سیاسی حلقوں نے ایم کیو ایم پاکستان میں پیدا ہونے والی صورت حال پر یہ واضح پیغام دیا ہے کہ کراچی میں کسی بھی قیمت پر امن و امان کا مسئلہ پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

فاروق ستار مشکل میں

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے الیکشن کمیشن میں سینیٹ کے انتخابات کے لیے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار واپس لینے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینر کے عہدے سے بھی سبک دوش کرنے کا اعلان کر دیا. کنور نوید جمیل نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتےہوئے کہا کہ فاروق ستار پر کئی الزامات ہیں اور ان کی غفلت کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پوری رابطہ کمیٹی نے مل کر فاروق ستار کو پارٹی رہنما بنایا تھا اور وہ 22 اگست سے پہلے بھی پارٹی کے رہنما تھے لیکن انھوں نے رابطہ کمیٹی کو اعتماد میں لیے بغیر پارٹی آئین میں تبدیلی کی۔

فاروق ستار کو عہدے سے ہٹانے کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فاروق ستارنے دھوکے سے پارٹی آئین تبدیل کر کے خود کو سربراہ بنایا اور اب فاروق ستار ایم کیوایم پاکستان کے کنوینر نہیں رہے کیونکہ فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کےاعتماد کو ٹھیس پہنچایا ہے۔ ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر نے کہا کہ فاروق ستار اب ہماری پارٹی کے کارکن ہیں، اور اگر فاروق ستار اپنی اصلاح کرتے ہیں تو وہ دوبارہ کنوینر بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے صورت حال کی بہتری کے لیے کوشش کرتے رہے، ہماری کوشش تھی گھر کی بات گھر میں رہے۔

کنورنوید جمیل نے کہا کہ فاروق ستار پر بہت سارے الزامات ہیں، ان کی غفلت کی وجہ سے ایم کیو ایم کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن منسوخ ہوئی، بار بار توجہ دلانے کے باوجود فاروق ستار نے گوشوارے جمع نہیں کروائے۔ ان کی تمام تر توجہ این جی او بنانے پر رہی ہے۔ کنورنوید نے کہا کہ کامران ٹیسوری کی رابطہ کمیٹی میں شمولیت پرتمام اراکین نےاعتراض کیا تھا۔ ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی نے اس موقع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بڑی مشکل سے کیا گیا ہے اور اگر اس وقت یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا تو پھر اگلے انتخابات کے بعد ایوان ٹیسوریوں سے بھرا ہوتا۔

سلطنتِ متحدہ کے زوال کے اسباب

اورنگ زیب عالمگیر کے بعد مغل سلطنت کو بکھرنے میں بارہ بادشاہ اور ڈیڑھ سو برس لگے۔ مگر سلطنتِ متحدہ تو ایک بادشاہ کے بعد ہی بہادرشاہ ظفر کی از دلی تا پالم بادشاہت ہو گئی۔ سلطنتِ متحدہ کے مطلق العنان دور میں تین مشہور بغاوتوں کے تذکرے ملتے ہیں۔ پہلی مسلح ’’حقیقی‘‘ بغاوت کو جزوی طور پر کچلا جا سکا۔ اس کے فوراً بعد دربار کے اندر ایک بغاوت پکڑی گئی جسے ولی عہد ( شہزادہ عظیم احمد طارق ) سمیت ترنت کچل دیا گیا۔ تیسری بغاوت بہت برس بعد شہزادہ عمران فاروق نے کی مگر بیل منڈہے چڑھنے سے پہلے ہی منڈی مروڑ دی گئی۔ جیسا کہ دستور ہے سلطنت ِ متحدہ کو درپیش اندرونی چیلنجوں اور محلاتی اکھاڑ پچھاڑ کے سبب سلطنت کا نظم و نسق اتنا زیر و زبر ہو گیا کہ رعایا بھی بلبلا اٹھی۔

معاملات گرفت سے مکمل طور پر نکلنے کا پہلا ثبوت مارچ دو ہزار سولہ میں سامنے آیا جب ایک بیرون ملک میں پناہ گزین شہزادہ مقامی امرا کی مدد کے سہارے پیراشوٹ کے ذریعے اترا اور اس نے مرکزی سلطنت سے مکمل ناطہ توڑتے ہوئے اپنی خود مختاری کا اعلان کر کے ریاستِ کمالستان کی بنیاد رکھ دی۔
پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ بائیس اگست دو ہزار سولہ کو سلطنت متحدہ کے ظلِ الہی کے جی میں جانے کیا آیا کہ اچانک سیاسی ہارا کاری کر لی۔ یوں سلطنتِ متحدہ کا پگھلاؤ آخری مرحلے میں داخل ہو گیا۔ آج حالت یہ ہے کہ سلطنتِ متحدہ عملاً پانچ جاگیروں میں بٹ چکی ہے۔ معزول بادشاہ لندن میں اپنی ہی تصویر تلے تصویر بنا بیٹھا ہے۔

کل تک چار دانگِ عالم میں جس کا طوطی بولتا آج اس کا طوطا بھی نہیں بولتا۔ اللہ اللہ چرخِ نیلا فام کو یہ دن بھی دکھانا تھا۔ تازہ حال قاصد یوں بیان کرتا ہے کہ سلطنتِ کا پہلا ’’حقیقی باغی شہزادہ‘‘ اپنے ہی آفاق میں گم ہے۔ معزول شاہ کی وراثت کے دعوے داروں میں سال بھر سے تخت نشینی کی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ جنگ کیا ہے گویا تخت پر دال بٹ رہی ہے۔ پالم ( پی آئی بی کالونی ) میں ولی عہد ( فاروق ستار) دربار کر رہا ہے تو ڈھائی کوس پر واقع چاندنی چوک (بہادر آباد ) میں چھوٹا شہزادہ ’’ عامر ‘‘بنا ہوا ہے اور لال قلعے (نائن زیرو) پر روہیلوں ( رینجرز ) کا پہرہ ہے۔

جیسا کہ ایسے حالات میں ہوتا ہے، فوری دعوے داروں کو چھوڑ کر وہ تمام شہزادے ، شہزادیاں ، بیگمات ، امرا ، پنج ہزاری ، محافظ ، داروغہ ، خدام ، کرتب باز ، پٹے دار ، دفعدار ، توپچی ، گھڑ سوار ، بگلچی ، مشالچی ، باورچی ، ایلچی ، قاصد ، کن سوئے ، مامائیں ، اصیلائیں ، مغلانیاں ، اتالیق ، چوبدار ، آبدار ، سائس مہاوت ، گل فروش ، خواجہ سرا ، کرخندار یہاں سے وہاں بورائے بورائے پھر رہے ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں ، کوئی دیکھ نہ لے یہ سوچ کر ہر کسی کی آنکھیں گول گول گھوم رہی ہیں۔ کون کس کا ہے ، کس کی تار اندر ہی اندر کس سے جڑی ہے ، کون مخبر تو کون جانثار ، کس پے اندھا اعتماد کریں ، کس بات کا کیا مطلب لیں، ایسی دیوار کہاں کہ جس کے کان اور آنکھیں نہ ہوں۔

سیاست گئی بھاڑ میں ، یاں تو اپنے لالے پڑے ہیں، کہیں چوکھٹ سے باہر قدم رکھوں اور پیچھے کھڑا معتمد گھر کا ہی سودا کر لے ، باہر والے کے لیے شمشیر کھینچوں تو پشت میں خنجر ہی نہ اتر جائے۔ کاش دو کے بجائے تین آنکھیں ہوں تو عقب بھی سلامت رہے، یعنی وہ تمام کیفیات اس وقت ہر اس گروہ میں پائی جاتی ہیں جو سلطنتِ متحدہ کے پارچے در پارچے سمیٹنے میں غلطاں ہے۔ جب بس خواب ہی دکھائے جاتے رہیں تو تعبیر ایسی ہی نکلتی ہے۔ سلطنتِ متحدہ انیس سو چوراسی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بطن سے پیدا ہوئی تھی۔ چونتیس برس کم نہیں ہوتے، تین نسلیں لڑکپن سے ادھیڑ عمری میں داخل ہو جاتی ہیں۔ ان چونتیس برسوں میں ایک قومیت پاتال سے آسمان تک پہنچائی جا سکتی ہے اور قیادت محض خواب فروش ہو تو آسمان سے پاتال تک پہنچا دیتی ہے۔ یقین نہ آئے تو چوراسی سے پہلے کی اردو قوم کا تعلیمی ، کاروباری و ملازمتی احوال دیکھ لیں اور آج تیسری نسل کی قابلیت اور اس قابلیت کی کھڑکی سے اس نسل کے مستقبل میں جھانک لیں، لگ پتہ جائے گا۔

نیوٹن کا قانونِ کشش ِ ثقل محض طبیعاتی نہیں سیاسی بھی ہے۔ نفرت جتنی تیزی سے اوپر جاتی ہے اس سے دوگنی رفتار سے ٹکڑا ٹکڑا جلتے شہابِ ثاقب کی طرح واپس آتی ہے۔ محبت آہستہ آہستہ ابھرتی ہے مگر پھر اپنے زور پر پرواز کرتی چلی جاتی ہے، نیوٹن کا یہ قانون مذہبی ، قومی ، علاقائی ، نسلی، گروہی سیاست پر برابر لاگو ہوتا ہے گر دیکھنے والی آنکھ ، محسوس کرنے والا دل اور سوچنے والا دماغ ہو تو۔ چونتیس سال کم نہیں ہوتے مگر اختیار اور کامیابی اگر باپ کی کمائی کی طرح چاروں ہاتھوں پیروں سے لٹانے کی لت پڑ جائے تو چونتیس برس بھی چونتیس ساعت کے برابر ہیں۔

ان چونتیس برسوں میں سودے بازی کی بے مثال طاقت کے سبب سندھ کی شہری آبادی کے لیے کیا کیا نہیں ہو سکتا تھا۔ تمام سیاسی راستے نائن زیرو تک جاتے تھے۔ جس قیادت کے اشارے پر ایک لاکھ کا مجمع سکوت بن جاتا تھا ، جس کے ایک اعلان پر دو کروڑ کا شہر آدھے گھنٹے کے اندر جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر تھم جاتا وہ قیادت ایسی تابع فرمان رعایا سے مسائل کا کون سا ہمالیہ سر نہ کروا سکتی تھی۔ مگر چونتیس سال گویا لیاری و ملیر ندی میں بہا کر سمندر برد کر دیے گئے۔ سب سے بڑا شہر سب سے بڑا ماڈل بن سکتا تھا مگر اسے سالگرہ کا کیک سمجھ کے برت لیا گیا۔ خود کو ہی لوٹ لیا گیا، مرثیہ خانی سلطنتِ متحدہ کے قیام سے پہلے بھی تھی، سلطنت کے عروج میں کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی اور آج بھی جاری ہے۔

صورت یوں ہے کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں، کہاں جسے ٹکٹ ملتا تھا اس کی انتخابی لاٹری نکل آتی تھی، کہاں یہ عالم کہ دیکھتے ہی دیکھتے لاٹری لفنٹری اور پھر لوٹری میں بدلتی چلی گئی۔ وہ تخت جو لاکھوں لوگوں کی قسمت کے فیصلے مورچھل کے اشارے پر کرتا تھا آج اس کی قسمت کے فیصلے بچولیے سنار ، فکسر ، لقے ، سیاسی کباڑی اور کوتوالی کے سراغرساں کر رہے ہیں ۔  انیسویں صدی کے ہندوستان میں کیسی آپا دھاپی، چھیچھا لیدر اور طوائف الملوکی مچی پڑی تھی۔ وہ نظارہ کرنے کے لیے کسی ٹائم مشین میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں، کوئی بھی کن میلیا دو ہزار سترہ کے کراچی میں کہیں سے بھی دیکھ سکتا ہے کہ ہر دھڑے میں کتنے دعویدار و تعلقہ دار ہیں۔ نام پرنس لطافت علی خان کا اور فیصلے کمپنی بہادر کے مقرر کردہ ریذیڈنٹ جنرل کے۔ آج کی زبان میں ریذیڈنٹ جنرل کو پولٹیکل انجینیر کہوے ہیں۔

اب کے اس زلف میں وہ پیچ پڑا ہے کہ اسے
دستِ قدرت ہی سنوارے تو سنوارے میری جاں

وسعت اللہ خان

رابطہ کمیٹی اور فاروق ستار میں اختلافات بڑھ گئے

رابطہ کمیٹی اراکین اور فاروق ستار میں اختلافات ختم نہیں ہو سکے بلکہ مزید بڑھ گئے۔ سینیٹ کی نشستوں کے لیئے رابطہ کمیٹی اور فاروق ستار اپنے اپنے امیدواروں کے الگ الگ کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے۔ ترجمان فاروق ستار کہتے ہیں اب کاغذات جمع کرانے کے بعد مشاورت ہو گی۔ ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کا کہنا ہے کہ آپ بھی فارم جمع کرا دیں ہم بھی کرا دیتے ہیں جبکہ آپ سربراہ کو آئین دکھا رہے ہیں تو کیا دو تہائی اکثریت سے آپ سربراہ کو فارغ کرنا چاہتے ہیں؟ اور اگر دو تہائی اکثریت آپ کے پاس ہے تو جو چاہے فیصلہ آپ کر لیں۔

فاروق ستار جو اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے، اس دوران ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے گھر سے نکل کر بہادر آباد جانے والا تھا ، سیڑھیاں اترتے ہوئے جیسے ہی پریس کانفرنس کا معلوم ہوا میں نے انہیں روکنے کا کہا، میں آنے کے لیے تیار تھا، منع نہیں کیا تھا، مگر پریس کانفرنس کر دی گئی، اتنی جلدی کیا تھی۔ صحافی کے سوال کے جواب میں فاروق کا کہنا تھا کہ میں نے بھی پریس کانفرنس روکنے کی پرچیاں بھجوائیں مگر نہیں روکی گئی، عامر خان کی دعوت پر بہادر آباد جانے کا فیصلہ ساتھیوں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پریس کانفرنس کر کے ناموں کا اعلان کر دیا تو میرے پاس گنجائش نہیں بچی، میرا انتظار نہیں کیا گیا، سینیٹ کی سیٹوں کے لیئے ناموں کا اعلان کر کے غلطی کی گئی، جوابی پریس کانفرنس کر کے تسلیم کریں کہ جو کہا غلط کہا اور بدتمیزی کرنے والے کا نام بتائیں، جس پر نظم و ضبط کے مطابق کارروائی ہو گی۔

فاروق ستار کی میڈیا سے گفتگو کے دوران کینیڈا سے حیدر عباس رضوی کا فاروق ستار سے فون پر رابطہ، فون پر گفتگو کرتے ہوئے فاروق ستار نے حیدر عباس کو جھڑ ک دیا کہا کہ آپ نے بھی بہادر آباد کو سپورٹ کرنے کا کہا ہے اور کینیڈا میں بیٹھ کر پارٹی بن رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رابطہ کمیٹی کے بہت سارے ایسے اراکین ہیں جو سرکاری ملازم ہیں جبکہ انتخابی قوانین میں وہ کسی پارٹی کے عہدیدار نہیں ہو سکتے اور اگر رابطہ کمیٹی کے ان دس ناموں کو نکال دیا جائے تو کیا بچے گا ؟ انہوں نے کہا کہ بار بار آئین دکھا رہے ہیں، اجلاس غیر آئینی تھا کیونکہ میری اجازت نہیں تھی، پریس کانفرنس میں پہلے دن کی پوزیشن مستحکم کی گئی، تقسیم کی جانب کون لے جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا فیصل سبزواری بھائی نے بہت سی کڑوی کسیلی باتیں کیں ہیں، فیصل سبزواری کی باتوں سے دل آزری ہوئی جس سے صدمہ ہوا، فیصل سبزواری کی پریس کانفرنس میں شدید غصہ، میری پریس کانفرنس میں صدمہ نظر آئے گا۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ میرے ذہن میں بھی آٹھ دس نام تھے، مگر آپ نے تو اعلان کر دیا کہ فارم جمع کرانے جا رہے ہیں، ہم ابھی فیصلہ کرتے ناموں کا، آپ نے تو اعلان کر دیا۔ سربراہ ایم کیوایم پاکستان نے مزید کہا کہ کنور نوید کہہ رہے تھے کہ فاروق بھائی آرہے ہیں آپ پریس کانفرنس نہ کریں، میرے ساتھی نادانی میں غیر آئینی اجلاس میں ہونے والے غیر آئینی فیصلوں کا اعلان پریس کانفرنس کے ذریعے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میرے گھر میں کسی ساتھی نے رابطہ کمیٹی کے ساتھ بدتمیزی کی تومیں معافی مانگتا ہوں،مجھے نام بتائیں جس نے گالیاں دیں، میں خود معافی منگواوں گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ کراچی

ایم کیو ایم پھر اختلافات کا شکار

متحدہ قومی موومنٹ مارچ 2015 سے مشکلات کا شکار ہے، پہلے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا، جہاں سے نیٹو کا اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا، بعد ازاں ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی نبیل گبول نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا اور پارٹی پر کئی الزامات لگائے۔ اسی سال قائد ایم کیو ایم الطاف حسین نے پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی صوبے کے طویل ترین گورنر رہنے والے عشرت العباد کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا، ستمبر 2015 میں پارٹی کے سربراہ الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقاریر کو عدالتی حکم پر نشر کرنے پر پابندی لگ گئی، دسمبر 2015 میں الطاف حسین کے خلاف لندن میں قتل ہونے والے عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ درج ہوا۔

مارچ 2016 میں ایم کیو ایم کو سب سے بڑا دھچکا لگا، جب ایم کیو ایم کے کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے الگ جماعت پاک سرزمین پارٹی بنائی، جس میں ایم کیو ایم کے کئی اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی شامل ہوئے۔ اگست 2016 میں پارٹی کے بانی الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوائے، جس کے بعد ایم کیو ایم نے الطاف حسین کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا جبکہ فاروق ستار نے متحدہ کی قیادت سنبھال لی۔ اگست 2017 میں ایم کیو ایم نے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اعلان کیا، جس میں صرف پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ نے شرکت کی یقین دہانی کروائی، باقی کسی جماعت نے شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا، جس پر یہ کانفرنس منسوخ کر دی تھی۔

نومبر 2017 میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی میں اتحاد کے حوالے سے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی طویل پریس کانفرنس ہوئی تاہم اس کے اگلے روز ہی اس کے خلاف باتیں سامنے آئیں حتیٰ کہ فاروق ستار نے بعد میں پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا، تاہم اسی دن ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے انہیں منا لیا تھا جبکہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا یہ اتحاد بھی ختم ہو گیا۔ اب سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایک بات فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی میں اختلافات سامنے آئے ہیں۔