نئی ایم کیو ایم ڈگی میں پڑی سٹپنی

کسی بھی الیکشن سے محض دو دن پہلے جب ایک دوسرے کی شکل برداشت نہ کرنے والے تین سیاسی دھڑے جبری نکاح کے گروپ فوٹو کی طرح نظر آنے لگیں اور ہنی مون پیریڈ گزارے بغیر ہی انھیں انتخابی انگاروں پر سے گزر جانے کا حکم مل جائے تو پھر جان بچانے کے لیے کسی نہ کسی جواز کے جوتے پہن کے پتلی گلی سے نیچے نیچے ہو کر نکلنا ہی پڑتا ہے۔ یہ تو انتخابی سیاست کا معمولی طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ نئی انتخابی حلقہ بندیاں یا نئی مردم شماری جیسے مطالبات انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے بہت پہلے ہوتے ہیں۔ اگر یہ مطالبہ منطقی اعتبار سے درست ہے تو پھر اسی اصول کے تحت پہلے مرحلے کا بائیکاٹ کیوں نہیں کیا گیا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ آدھا سندھ پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہونے والے انتخابی عمل پر گزارہ کرے اور بقیہ سندھ نئی حلقہ بندیوں کی فرمائش ڈال دے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایم کیو ایم کے علاوہ جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں بھی اس مطالبے کی وکالت کرتیں اور تحفظات رکھتے ہوئے انتخابی عمل میں حصہ نہ لیتیں۔

سندھ میں پرانے بلدیاتی ڈھانچے کی مدت اگست 2020 میں ختم ہو گئی۔ قاعدے سے 120 دن کے اندر اندر نئے بلدیاتی انتخابات ہو جانے چاہیے تھے مگر ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ انتخابات کروانے کی آئینی مدت کے احترام کے بجائے یہ دیکھا جاتا ہے کہ برسرِ اقتدار جماعت کی جیت کے لیے ماحول سازگار ہے کہ نہیں۔ اکثر اسی بنیاد پر انتخابی شیڈول بھی مرتب ہوتا ہے اور سیاسی جماعتوں کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے۔ انڈیا کی طرح پاکستان کا الیکشن کمیشن بھی خود کو بااختیاری اور ٹھسے کے ساتھ منوانے کا حوصلہ رکھتا تو کسی سیاسی جماعت کی مجال نہ ہوتی کہ وہ انتخابی شیڈول کو غیر سنجیدگی سے لے مگر انڈیا کا الیکشن کمیشن اگر ان دنوں مودی ہے تو ہمارا الیکشن کمیشن بھی موڈی ہے۔ کبھی بنا مانگے نولکھا بخش دیتا ہے تو کبھی چمچ کی چوری پر نالش جاری کر دیتا ہے۔ کبھی بامروت ڈاک خانے میں بدل جاتا ہے تو کبھی ہڑبڑا کے کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنی آئینی و قانونی طاقت کا بھرپور احساس دلا دیتا ہے۔ کبھی گلی کے لونڈوں کے ساتھ تھڑے پر بیٹھ کے تاش کھیلنے لگتا ہے اور پھر اچانک ان لمڈوں کو بزرگوں کے احترام کا بھاشن دینے لگتا ہے۔

اب یہی دیکھیے کہ الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن سرکار کی سفارش پر ملتوی کروانے پر اعلی عدالت کی ڈانٹ کھائی اور ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کو چوتھی بار ملتوی کروانے کی دھمکی آمیز درخواست کو دھتا بتا دیا۔ اسی گرم و سرد و بلغمی مزاج کے سبب الیکشن کمیشن کے بارے میں نونیوں کا رویہ رسمی علیک سلیک اور کام نکالنے والا ہے۔ پیپلز پارٹی کا رویہ اس بوڑھے جوڑے جیسا ہے جو نہانے کی نیت سے پانی چولہے پر چڑھاتا ہے مگر پھر ناسازگار امکانات سے مایوس ہونے کے بجائے اسی پانی کی چائے بنا لیتا ہے جبکہ پی ٹی آئی کا رویہ بدتمیزانہ حد تک بے تکلفانہ ہے۔ شاید اسی سے حوصلہ پا کر ایم کیو ایم کے دھڑوں نے بھی متحد ہو کے سب سے پہلے الیکشن کمیشن کو للکارا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مطالبات تسلیم ہوئے بغیر کون سندھ کے شہری علاقوں میں الیکشن کرواتا ہے اور اب ایم کیو ایم واقعی ایک طرف کھڑی دیکھ رہی ہے۔

ممکنہ شکست کو بھانپ کے بائیکاٹ کی راہ اختیار کرنا بھی موجودہ حالات میں سیاسی بلوغت کی علامت ہے۔ کیا ضرورت ہے اکیسویں صدی میں اٹھارویں صدی کا ٹیپو سلطان بننے کی۔ ضروری تو نہیں کہ ہر بار شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہو۔ ویسے بھی ہمارے مشفق دوست نصیر ترابی مرحوم کہا کرتے تھے کہ جب سامنے سے طوفان آ رہا ہو تو سینہ تان کے کھڑا ہونا احمقانہ فعل ہے۔ اسی طوفان کے اوپر اپنے پٹڑے پر کھڑے ہو کے آگے نکل لینا یا طریقے سے سائیڈ پر ہو جانا ہی عقلمندی ہے۔ یہ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے پنجاب میں مسلم لیگ ق اور سندھ میں ایم کیو ایم کی وہی اہمیت ہے جو امریکہ کے لیے اسرائیل کی ہے۔ امریکہ مشرقِ وسطی کی اتھل پتھل میں اسرائیل کی مدد سے طاقت کا توازن برقرار رکھتا ہے جبکہ یہاں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات کے ترازو کو متوازن رکھنے کے لیے دونوں جماعتوں کو حسبِ ضرورت باٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

مگر میرے خیال میں اس انتظام میں ق کو ایم کیو ایم کے مقابلے میں کم ازکم دو نمبر کی سبقت حاصل ہے کیونکہ ق کو یہ آرٹ معلوم ہے کہ دس سیٹیں ہونے کے باوجود بھی سو سے زائد سیٹیں رکھنے والی پارٹیوں کو اپنے سیاسی تحمل کی تھاپ پر کیسے تاتا تھئیا کروایا جا سکتا ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم کی قیادت چالیس سالہ تجربے کے باوجود آج بھی طالبِ علمانہ دور کے جذباتی دماغ سے فیصلے کرتی ہے بلکہ درست جملہ شاید یہ ہے کہ آج کی ایم کیو ایم کو بتا دیا جاتا ہے کہ بھائی یہ ہے فیصلہ جسے آپ نے دنیا کے سامنے اپنا فیصلہ بتانا ہے۔ چنانچہ اب نہ کوئی اس کی انتخابی بائیکاٹ کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور نہ ہی حکومت چھوڑنے کے انتباہ کو۔ ویسے بھی جس پارٹی کا دل الطاف حسین کے قبضے میں اور دماغ اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں ہو، اس کا مقام سیاست میں وہی رہ جاتا ہے جو کار کی ڈگی میں پڑی سٹپنی کا۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

سلطنتِ متحدہ کے زوال کے اسباب

اورنگ زیب عالمگیر کے بعد مغل سلطنت کو بکھرنے میں بارہ بادشاہ اور ڈیڑھ سو برس لگے۔ مگر سلطنتِ متحدہ تو ایک بادشاہ کے بعد ہی بہادرشاہ ظفر کی از دلی تا پالم بادشاہت ہو گئی۔ سلطنتِ متحدہ کے مطلق العنان دور میں تین مشہور بغاوتوں کے تذکرے ملتے ہیں۔ پہلی مسلح ’’حقیقی‘‘ بغاوت کو جزوی طور پر کچلا جا سکا۔ اس کے فوراً بعد دربار کے اندر ایک بغاوت پکڑی گئی جسے ولی عہد ( شہزادہ عظیم احمد طارق ) سمیت ترنت کچل دیا گیا۔ تیسری بغاوت بہت برس بعد شہزادہ عمران فاروق نے کی مگر بیل منڈہے چڑھنے سے پہلے ہی منڈی مروڑ دی گئی۔ جیسا کہ دستور ہے سلطنت ِ متحدہ کو درپیش اندرونی چیلنجوں اور محلاتی اکھاڑ پچھاڑ کے سبب سلطنت کا نظم و نسق اتنا زیر و زبر ہو گیا کہ رعایا بھی بلبلا اٹھی۔

معاملات گرفت سے مکمل طور پر نکلنے کا پہلا ثبوت مارچ دو ہزار سولہ میں سامنے آیا جب ایک بیرون ملک میں پناہ گزین شہزادہ مقامی امرا کی مدد کے سہارے پیراشوٹ کے ذریعے اترا اور اس نے مرکزی سلطنت سے مکمل ناطہ توڑتے ہوئے اپنی خود مختاری کا اعلان کر کے ریاستِ کمالستان کی بنیاد رکھ دی۔
پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ بائیس اگست دو ہزار سولہ کو سلطنت متحدہ کے ظلِ الہی کے جی میں جانے کیا آیا کہ اچانک سیاسی ہارا کاری کر لی۔ یوں سلطنتِ متحدہ کا پگھلاؤ آخری مرحلے میں داخل ہو گیا۔ آج حالت یہ ہے کہ سلطنتِ متحدہ عملاً پانچ جاگیروں میں بٹ چکی ہے۔ معزول بادشاہ لندن میں اپنی ہی تصویر تلے تصویر بنا بیٹھا ہے۔

کل تک چار دانگِ عالم میں جس کا طوطی بولتا آج اس کا طوطا بھی نہیں بولتا۔ اللہ اللہ چرخِ نیلا فام کو یہ دن بھی دکھانا تھا۔ تازہ حال قاصد یوں بیان کرتا ہے کہ سلطنتِ کا پہلا ’’حقیقی باغی شہزادہ‘‘ اپنے ہی آفاق میں گم ہے۔ معزول شاہ کی وراثت کے دعوے داروں میں سال بھر سے تخت نشینی کی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ جنگ کیا ہے گویا تخت پر دال بٹ رہی ہے۔ پالم ( پی آئی بی کالونی ) میں ولی عہد ( فاروق ستار) دربار کر رہا ہے تو ڈھائی کوس پر واقع چاندنی چوک (بہادر آباد ) میں چھوٹا شہزادہ ’’ عامر ‘‘بنا ہوا ہے اور لال قلعے (نائن زیرو) پر روہیلوں ( رینجرز ) کا پہرہ ہے۔

جیسا کہ ایسے حالات میں ہوتا ہے، فوری دعوے داروں کو چھوڑ کر وہ تمام شہزادے ، شہزادیاں ، بیگمات ، امرا ، پنج ہزاری ، محافظ ، داروغہ ، خدام ، کرتب باز ، پٹے دار ، دفعدار ، توپچی ، گھڑ سوار ، بگلچی ، مشالچی ، باورچی ، ایلچی ، قاصد ، کن سوئے ، مامائیں ، اصیلائیں ، مغلانیاں ، اتالیق ، چوبدار ، آبدار ، سائس مہاوت ، گل فروش ، خواجہ سرا ، کرخندار یہاں سے وہاں بورائے بورائے پھر رہے ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں ، کوئی دیکھ نہ لے یہ سوچ کر ہر کسی کی آنکھیں گول گول گھوم رہی ہیں۔ کون کس کا ہے ، کس کی تار اندر ہی اندر کس سے جڑی ہے ، کون مخبر تو کون جانثار ، کس پے اندھا اعتماد کریں ، کس بات کا کیا مطلب لیں، ایسی دیوار کہاں کہ جس کے کان اور آنکھیں نہ ہوں۔

سیاست گئی بھاڑ میں ، یاں تو اپنے لالے پڑے ہیں، کہیں چوکھٹ سے باہر قدم رکھوں اور پیچھے کھڑا معتمد گھر کا ہی سودا کر لے ، باہر والے کے لیے شمشیر کھینچوں تو پشت میں خنجر ہی نہ اتر جائے۔ کاش دو کے بجائے تین آنکھیں ہوں تو عقب بھی سلامت رہے، یعنی وہ تمام کیفیات اس وقت ہر اس گروہ میں پائی جاتی ہیں جو سلطنتِ متحدہ کے پارچے در پارچے سمیٹنے میں غلطاں ہے۔ جب بس خواب ہی دکھائے جاتے رہیں تو تعبیر ایسی ہی نکلتی ہے۔ سلطنتِ متحدہ انیس سو چوراسی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بطن سے پیدا ہوئی تھی۔ چونتیس برس کم نہیں ہوتے، تین نسلیں لڑکپن سے ادھیڑ عمری میں داخل ہو جاتی ہیں۔ ان چونتیس برسوں میں ایک قومیت پاتال سے آسمان تک پہنچائی جا سکتی ہے اور قیادت محض خواب فروش ہو تو آسمان سے پاتال تک پہنچا دیتی ہے۔ یقین نہ آئے تو چوراسی سے پہلے کی اردو قوم کا تعلیمی ، کاروباری و ملازمتی احوال دیکھ لیں اور آج تیسری نسل کی قابلیت اور اس قابلیت کی کھڑکی سے اس نسل کے مستقبل میں جھانک لیں، لگ پتہ جائے گا۔

نیوٹن کا قانونِ کشش ِ ثقل محض طبیعاتی نہیں سیاسی بھی ہے۔ نفرت جتنی تیزی سے اوپر جاتی ہے اس سے دوگنی رفتار سے ٹکڑا ٹکڑا جلتے شہابِ ثاقب کی طرح واپس آتی ہے۔ محبت آہستہ آہستہ ابھرتی ہے مگر پھر اپنے زور پر پرواز کرتی چلی جاتی ہے، نیوٹن کا یہ قانون مذہبی ، قومی ، علاقائی ، نسلی، گروہی سیاست پر برابر لاگو ہوتا ہے گر دیکھنے والی آنکھ ، محسوس کرنے والا دل اور سوچنے والا دماغ ہو تو۔ چونتیس سال کم نہیں ہوتے مگر اختیار اور کامیابی اگر باپ کی کمائی کی طرح چاروں ہاتھوں پیروں سے لٹانے کی لت پڑ جائے تو چونتیس برس بھی چونتیس ساعت کے برابر ہیں۔

ان چونتیس برسوں میں سودے بازی کی بے مثال طاقت کے سبب سندھ کی شہری آبادی کے لیے کیا کیا نہیں ہو سکتا تھا۔ تمام سیاسی راستے نائن زیرو تک جاتے تھے۔ جس قیادت کے اشارے پر ایک لاکھ کا مجمع سکوت بن جاتا تھا ، جس کے ایک اعلان پر دو کروڑ کا شہر آدھے گھنٹے کے اندر جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر تھم جاتا وہ قیادت ایسی تابع فرمان رعایا سے مسائل کا کون سا ہمالیہ سر نہ کروا سکتی تھی۔ مگر چونتیس سال گویا لیاری و ملیر ندی میں بہا کر سمندر برد کر دیے گئے۔ سب سے بڑا شہر سب سے بڑا ماڈل بن سکتا تھا مگر اسے سالگرہ کا کیک سمجھ کے برت لیا گیا۔ خود کو ہی لوٹ لیا گیا، مرثیہ خانی سلطنتِ متحدہ کے قیام سے پہلے بھی تھی، سلطنت کے عروج میں کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی اور آج بھی جاری ہے۔

صورت یوں ہے کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں، کہاں جسے ٹکٹ ملتا تھا اس کی انتخابی لاٹری نکل آتی تھی، کہاں یہ عالم کہ دیکھتے ہی دیکھتے لاٹری لفنٹری اور پھر لوٹری میں بدلتی چلی گئی۔ وہ تخت جو لاکھوں لوگوں کی قسمت کے فیصلے مورچھل کے اشارے پر کرتا تھا آج اس کی قسمت کے فیصلے بچولیے سنار ، فکسر ، لقے ، سیاسی کباڑی اور کوتوالی کے سراغرساں کر رہے ہیں ۔  انیسویں صدی کے ہندوستان میں کیسی آپا دھاپی، چھیچھا لیدر اور طوائف الملوکی مچی پڑی تھی۔ وہ نظارہ کرنے کے لیے کسی ٹائم مشین میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں، کوئی بھی کن میلیا دو ہزار سترہ کے کراچی میں کہیں سے بھی دیکھ سکتا ہے کہ ہر دھڑے میں کتنے دعویدار و تعلقہ دار ہیں۔ نام پرنس لطافت علی خان کا اور فیصلے کمپنی بہادر کے مقرر کردہ ریذیڈنٹ جنرل کے۔ آج کی زبان میں ریذیڈنٹ جنرل کو پولٹیکل انجینیر کہوے ہیں۔

اب کے اس زلف میں وہ پیچ پڑا ہے کہ اسے
دستِ قدرت ہی سنوارے تو سنوارے میری جاں

وسعت اللہ خان

ایم کیو ایم پھر اختلافات کا شکار

متحدہ قومی موومنٹ مارچ 2015 سے مشکلات کا شکار ہے، پہلے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا، جہاں سے نیٹو کا اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا، بعد ازاں ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی نبیل گبول نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا اور پارٹی پر کئی الزامات لگائے۔ اسی سال قائد ایم کیو ایم الطاف حسین نے پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی صوبے کے طویل ترین گورنر رہنے والے عشرت العباد کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا، ستمبر 2015 میں پارٹی کے سربراہ الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقاریر کو عدالتی حکم پر نشر کرنے پر پابندی لگ گئی، دسمبر 2015 میں الطاف حسین کے خلاف لندن میں قتل ہونے والے عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ درج ہوا۔

مارچ 2016 میں ایم کیو ایم کو سب سے بڑا دھچکا لگا، جب ایم کیو ایم کے کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے الگ جماعت پاک سرزمین پارٹی بنائی، جس میں ایم کیو ایم کے کئی اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی شامل ہوئے۔ اگست 2016 میں پارٹی کے بانی الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوائے، جس کے بعد ایم کیو ایم نے الطاف حسین کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا جبکہ فاروق ستار نے متحدہ کی قیادت سنبھال لی۔ اگست 2017 میں ایم کیو ایم نے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اعلان کیا، جس میں صرف پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ نے شرکت کی یقین دہانی کروائی، باقی کسی جماعت نے شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا، جس پر یہ کانفرنس منسوخ کر دی تھی۔

نومبر 2017 میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی میں اتحاد کے حوالے سے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی طویل پریس کانفرنس ہوئی تاہم اس کے اگلے روز ہی اس کے خلاف باتیں سامنے آئیں حتیٰ کہ فاروق ستار نے بعد میں پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا، تاہم اسی دن ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے انہیں منا لیا تھا جبکہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا یہ اتحاد بھی ختم ہو گیا۔ اب سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایک بات فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی میں اختلافات سامنے آئے ہیں۔

ظفر عارف مر گئے پر سوال زندہ ہے

چونکہ میں اس زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل تھا لہذا سینئرز کی نصیحت تھی کہ حسن ظفر عارف جیسے ملحد کیمونسٹ اساتذہ سے دور رہو۔ میں نے یہ نصیحت پلے باندھ لی اور کبھی بھی ان کے قریب نہیں پھٹکا مبادا میرے نظریہِ پاکستان میں کوئی کجی آ جائے۔ ویسے بھی ڈاکٹر ظفر عارف کی آنکھیں باز کی طرح دبیز تھیں اور مجھے لگتا تھا کہ وہ سرخ نظریاتی آسمان پر مسلسل اڑتے ہوئے ادھرِ اًدھر دیکھتے رہتے ہیں اور معصوم و بے ضرر نئی نسل جہاں بھی نظریاتی کنفیوژن کا شکار دکھائی دے جپھٹا مار کے پنجوں میں دبا لے جاتے ہیں اور پھر ان لڑکے لڑکیوں کو اپنی گفتگو کے راتب سے کچھ ایسے رام کرتے ہیں کہ وہ اس باز نما انسان کے آلے دو الے ہی ہو کے رہ جاتے ہیں۔

میں گواہ ہوں کہ ڈاکٹر ظفر عارف نے اپنے کچھڑی بال بکھرا کر جینز کی ایک سائیڈ سے بوہمین انداز میں قمیض نکال کر یونیورسٹی میں بند گلے کی شیروانی اور تھری پیس سوٹنگ کی استادانہ ثقافت پر ’’ شبخون ’’ مارا۔ حسرت ہی رہی کہ ظفر عارف کبھی تو ’’شرفا’’ جیسے لباس یافتہ استاد نظر آتے۔ انھیں کلاس میں پاٹ دار آواز میں لیکچر دینے کے بعد بھی چین نہیں پڑتا تھا۔ اکثر کراچی یونیورسٹی کے کیفے ڈی پھونس پر لڑکے لڑکیوں کے اصرار پر انڈہ گھٹالہ کھانے کے بعد پلیا پر بیٹھ کر مباحث کا جال پھینکتے۔ ظفر عارف نے شعبہِ فلسفہ کے کاریڈور میں لڑکے لڑکیوں کے ساتھ آلتی پالتی مار کر بیٹھنے کا رواج شروع کیا۔ اس آلتی پالتی گروپ میں صرف فلسفہ پڑھنے والے ہی نہیں بلکہ یونیورسٹی کے دیگر شعبوں کے بگڑے بچے بھی شامل تھے۔ اور ان سب کے بیچ ظفر عارف بگلہ سگریٹ کشیدن کرتے کرتے کچے ذہنوں کو مرغولہ بناتے بناتے کسی اور ہی منطقی دنیا میں لے جاتے۔ اگر یہ سگریٹ سادے ہوتے تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ مگر یہ مارکسزم کی ہیروئن سے بھرے سگریٹ تھے جنہوں نے ظفر عارف کے گرد قائم نوخیز جھمگٹے کو کہیں کا نہ رکھا۔

نسبی لحاظ سے گنگا جمنی پس منظر کے باوجود ظفر عارف نے نئی نسل کو مشرقی تہذیب اور ایشیائی اقدار ( جو بھارت اور پاکستان کے سوا کسی ایشیائی ملک میں نہیں پائی جاتیں ) سے ’’ برگشتہ‘‘ کرنے کی پوری کوشش کی۔ جو طلبا و طالبات ’’ نظریاتی بے راہ روی ‘‘کے جال میں نہیں آتے تھے وہ یہ سن کے مارے احساسِ کمتری ڈھے جاتے کہ ڈاکٹر صاحب نے برطانیہ کی ریڈنگ یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی اور فل برائٹ اسکالر شپ لے کر ہارورڈ میں پوسٹ ڈاکٹورل ریسرچ کی ندی پار کی ہے۔ ان کا طریقہِ واردات یہ ہوتا کہ خود فکری منبر پر بیٹھ کر یکطرفہ لیکچر پلانے کے بجائے دماغ کو جھنجنا دینے والا کوئی مقدمہ یا سوال بطور کانٹا اچھال دیتے اور جب کوئی طالبِ علم مارے سادگی یہ کانٹا نگل لیتا تو پھر ڈاکٹر صاحب جہاندیدہ مچھیرے کی طرح گفتگو کی ڈور کو ڈھیل دیتے جاتے اور جب طالبِ علم اپنے ہی کچے پکے دلائل کے بوجھ سے تھک جاتا تو ڈاکٹر صاحب ڈور کھینچنا شروع کرتے اور پھر مچھلی ان کے فکری ٹوکرے میں پٹاک سے گر جاتی۔

ڈاکٹر صاحب اس ’’ کارِ بے راہ روی ’’ میں اکیلے نہیں تھے بلکہ نسل در نسل فکری و نظریاتی جمی جمائی زمین کو تلپٹ کرنے کے لیے کوشاں اس ’’ شب خونی گروہ ’’ کا حصہ تھے جو اسلامک ہسٹری کے ڈاکٹر قاسم مراد ، مسز مہر افروز مراد اور ہائیڈل برگ سے آنے والے محمد میاں پر مشتمل تھا ( محمد میاں جمعیت میں سید منور حسن کو این ایس ایف سے کھینچ کے لانے والوں میں شامل تھے اور پھر خود محمد میاں جمعیت سے اکھڑ کر بائیں بازو میں چلے گئے حالانکہ جمعیت کا اﷲ اکبر والا اوول شیپ بیج محمد میاں کا ڈیزائن کردہ تھا)۔ شائد اسی پس منظر کے سبب جب میں چند طلبا کے ساتھ محمد میاں سے کارل مارکس کے کیمونسٹ مینی فیسٹو کی شرح سمجھنے کے لیے کچھ دنوں تک ان کے اسٹڈی سرکل میں جاتا رہا تو محمد میاں نے ’’ ایک جماعتی‘‘ کی شمولیت پر کسی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔

جیسا کہ میں اوپر بتا چکا کہ میرا شمار ان طلبا میں تھا جو نظریاتی آلودگی کے خوف سے ظفر عارف سے فاصلے پر رہتے تھے۔ بیشتر اساتذہ بھی ظفر عارف کو تدریسی شعبے کی ایسی کالی بھیڑ سمجھتے تھے جو روائیتی تعلیمی جگالی کے بجائے تدریسی تقدس پامال کرتی پھر رہی تھی۔ ظفر عارف خدا جانے کس انفرادی یا اجتماعی ایجنڈے کے تحت طلبا کو معاشرے کا ایک وفادار اور بااقدار شہری بنانے کے بجائے ہر شے پر سوال اٹھانے کی تربیت دے کر اپنے رویے اور باتوں سے گویا بغاوت پر اکسا رہے تھے۔

اب حکومت بھلے سویلین ہو کہ فوجی ، رویہ جمہوری ہو کہ غیر جمہوری ایک اچھے استاد کا اس چخ پخ سے کیا لینا دینا ؟ مگر یہاں بھی ظفر عارف نے روایت شکنی کرتے ہوئے سندھ کے گورنر لیفٹننٹ جنرل جہانداد خان کے نام کھلا خط لکھ مارا اور چیلنج کیا کہ کوئی بھی جرنیل یا افسر شاہ آخر کس حیثیت میں ڈکٹیٹ کر سکتا ہے کہ یونیورسٹی میں کیا پڑھایا جائے اور کیا نہیں ؟ کون سی بات کتنے ناپ تول سے کی جائے اور کہاں لب سی لیے جائیں اور ڈکٹیشن بھی ایک ایسی حکومت کی جانب سے جس کا اپنا جائز ہونا ثابت نہیں۔ ظاہر ہے اس بدتمیزی کا یہی نتیجہ نکلنا تھا کہ ظفر عارف جیسوں کو نوکری سے چلتا کر کے جیل میں ڈال دیا جائے۔ سو ڈال دیا گیا۔ نہ صرف فوجی حکومت بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ ، بیشتر اساتذہ اور جمعیت جیسی طلبا تنظیموں نے بھی سکھ کا سانس لیا۔

اس کے بعد ظفر عارف نے کیا کیا کیا مجھے کوئی خاص معلومات نہیں۔ سنا کہ نئی نئی پاکستان آنے والی بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہو گئے اور ستر کلفٹن میں اسٹڈی سرکل رچانا شروع کر دیا ، پھر سنا کہ پیپلز پارٹی سے ڈی ایکٹیویٹ ہو گئے یا کر دیے گئے اور ناشری و طباعت و ترجمے پر ہاتھ ڈال دیا۔ ظاہر ہے کاروباری سوجھ بوجھ تو تھی نہیں کہ اپنے نفع نقصان کا کھاتہ رکھ سکتے چنانچہ کچھ ہی عرصے میں یہ دھندہ بھی ٹھپ ہو گیا۔ کسی پرائیویٹ یونیورسٹی میں بھی پڑھا سکتے تھے مگر ظفر عارف جیسی بلا سرکاری یونیورسٹی سے ہضم نہ ہوئی تو پرائیویٹ کالج اور یونیورسٹیاں کس کھیت کا بتھوا تھیں۔

پھر سنا پیپلز پارٹی شہید بھٹو میں شامل ہو گئے۔ پھر بہت عرصے تک ریڈار سے غائب رہے اور ایک دن اچانک پتہ چلاکہ الطاف حسین کے نظریے کو اپنا لیا اور انٹرنینشنلسٹ سے نیشنلسٹ ہو گئے۔ بحیثیت ڈپٹی کنوینر ایم کیو ایم ( المعروف لندن ) پریس کلب میں بھی آنے لگے۔ اس دوران ان سے سرسری مل کر مجھے لگتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب تنہا رہ گئے ہیں۔ پچھلی نسل کے لیے وہ محض ایک یاد اور آج کی نسل کے لیے ایک مس فٹ تھے۔ مس فٹ ہونے کی تنہائی کیا ہوتی ہے یہ محسوس تو کی جا سکتی ہے سمجھائی نہیں جا سکتی۔ اور پھر دو روز قبل خبر آئی کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف اپنی گاڑی میں کراچی کی ایک انجانی جگہ پر مردہ پائے گئے۔ بہتر برس کی عمر طبعی انتقال کے لیے تو موزوں ہے قتل ہونے یا پراسرار طور پر مردہ ہونے کے لیے ہرگز ہرگز نہیں۔

شائد ڈاکٹر صاحب اس ضیعف عمر میں بھی بہت سوں کے لیے توانا لال بتی تھے لہذا ان کا بجھنا کئی دیدگان و نادیدگان کے لیے بہتر تھا۔ ڈاکٹر صاحب میں ایک بچے کی سی انرجی تھی۔ شائد پہلی بار انھیں موت کی شکل میں آرام دہ بستر نصیب ہو گیا۔ مگر ایسوں کی موت سے بھی گل گھوٹو کے مرض سے جوج رہے سماج کو سکون ملے گا کہ نہیں ؟ کاش یہ سوال بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہی ہلاک ہو جاتا تو کیسا اچھا ہوتا۔

وسعت اللہ خان

مرکز اسلامی کراچی کی سینما میں تبدیلی پر کارروائی کا حکم

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے فیڈرل بی ایریا کے علاقے میں قائم مرکز اسلامی کو سینما میں تبدیل کرنے کے معاملے پر سندھ ہائیکورٹ کے حکم امتناعی کو ختم کرتے ہوئے ٹھیکیدار اور ملوث کے ایم سی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے مرکز اسلامی کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے اسے سینما میں تبدیل کرنے والے ٹھیکیدار کے خلاف سخت کارروائی کا حکم جاری کیا۔ اس سے قبل کے ایم سی کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ مرکز اسلامی، ثقافتی سرگرمیوں کے لیے ٹھیکیدار کو دیا گیا تھا۔

گذشتہ سال جماعت اسلامی کراچی کے امیر نعیم الرحمٰن صدیقی کی درخواست پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے سندھ حکومت سے اس بات کی وضاحت طلب کی تھی کہ اس نے کراچی میں ایک اسلامک سینٹر ‘المرکز اسلامی’ کو سینما گھر میں کیوں تبدیل کیا گیا۔ اپنی پٹیشن میں درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سابق گورنر سندھ لیفٹننٹ جنرل ایس ایم عباسی نے اسلامی مرکز کا سنگ بنیاد 8 جون 1982 کو رکھا تھا، جس کا مقصد اسلامی روایات و اقدار کو فروغ دینا تھا۔ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں اُس وقت کے ناظم کراچی عبدالستار افغانی بھی شریک ہوئے تھے۔

درخواست میں کہا گیا کہ یہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کا ہی دور تھا جب ادبی، مذہبی اور ثقافتی تقریبات اس عمارت کی ایک باقاعدہ خصوصیت بن گئیں۔ شہری حکومت نے یہاں اچھی خاصی تعداد میں پودے لگوائے اور فرنیچر اور دیگر تنصیبات وغیرہ کے لیے رقم مختص کی گئی، جس سے یہ شہر کا سب سے بڑا آڈیٹوریم بن گیا جہاں 750 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ لیکن 2008 میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے وابستہ مصطفیٰ کمال ناظم کراچی کی حیثیت سے منتخب ہوئے اور یہ وہی وقت تھا جب اس عمارت کا نام ‘المرکز اسلامی’ سے ‘سینٹر فار آرٹ اینڈ لرننگ’ کر دیا گیا اور عمارت کے داخلی دروازے اور آڈیٹوریم میں آویزاں مقدس کلام بھی ہٹا دیا گیا۔

درخواست کے مطابق 2010 میں سٹی گورنمنٹ نے عمارت کی بالائی منزل پر شانزے آڈیٹوریم قائم کیا، جہاں مبینہ طور پر ہر شام میں میوزیکل اور اسٹیج پروگرام منعقد کیے جاتے تھے۔ 2012 میں اردگرد کے رہائشوں کی شکایت پر اس عمارت کو سیل کر دیا گیا، تاہم چند ہی دن بعد اسے دوبارہ کھول دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد مرکز کے لان میں شادی ہال بنا دیا گیا جبکہ تھیٹر کو باقاعدہ سینما گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ اگست 2015 میں کراچی کے کمشنر شعیب احمد صدیقی نے خبروں کا نوٹس لے کر سینما بند کروا دیا لیکن جلد ہی یہ دوبارہ کھل گیا اور یہاں فلمیں دکھائی جانے لگیں۔ درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ اب اس بات کا علم ہوا ہے کہ عمارت کے موجودہ منتظمین نے اسے باقاعدہ سینما گھر میں تبدیل کرنے کے لیے ایک اور پارٹی کو کرائے پر دے دیا ہے۔