برقع کا تمسخراڑانے والی آسٹریلوی سینیٹر خود مذاق بن گئیں

آسٹریلوی پارلیمنٹ میں برقع کا مذاق بنانے والی سینیٹر پاؤلاہینسن خود مذاق بن گئیں۔ ایک تقریب میں شرکت کرنے پہنچیں تو لوگوں نے ’’ گو گو‘‘ کے نعرے لگا دیئے، سینیٹر شرمندہ ہو کر لوٹ گئیں ۔ مسلمانوں سمیت امیگرینٹس کے حوالے سے تعصب کا مظاہرہ کرنے والی آسٹریلیا کی سینیٹر پاؤلا ہینسن کوعوام نے دھتکار دیا۔ بن ٹھن کر تقریب میں آئی سینیٹر کو’’اپنی فش اینڈ چپس کی دکان پر جاؤ‘‘کے نعرے سننا پڑ گئے جس پر وہ کھسیانی ہو کر واپس آ گئیں۔ آسٹریلیا میں مذہبی اور نسلی منافرت کامظاہر ہ کرنے والی سینیٹرکو مسلمانوں کے خلاف بیان دینے پر ایک جرات مند شخص نے سرعام انہیں نسل پرست کہہ ڈالا۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سینیٹرپاؤلا ہینسن برقعہ پہن کر سینیٹ میں آئی تھیں اور برقعہ اتارتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ آسٹریلیا میں برقعہ پر پابندی لگائی جائے۔ اٹارنی جنرل نےمسلمانوں کی دل آزاری کرنے والی پاؤلاہینسن کی اس حرکت پر ان کی شدید ملامت کی تھی اور واضح کیا تھا کہ آسٹریلیا میں برقعہ پرپابندی نہیں لگائی جائے گی۔ سینیٹر ہینسن اس سے پہلے ایشیائی امیگرینٹس کو بھی اپنے تعصب کا نشانہ بنا چکی ہیں۔ آسٹریلیا میں دائیں بازوکی سینیٹر پاؤلا ہینسن نیدر لینڈز کے گیرٹ ویلڈرز جیسے خیالات کی حامل ہیں اور وہ ایسے کام کر کے سستی شہرت حاصل کرنے کے حوالے سے بدنام ہیں۔

سیلاب سے بدحال بھارت میں ایک کروڑ سے زائد افراد متاثر

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست میں سیلاب اپنے زوروں پر ہے جس میں اب تک 202 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ایک کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہیں۔ ضلعے میں سیلاب سے متاثر ہونے والے کنبے عارضی خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ بہار کے 17 اضلاع سیلاب کی زد میں ہیں۔

 

 

 

 

 

امریکہ کی افغان پالیسی : خدشات اور امکانات

یہ شور و غوغا ، یہ سراسیمگی ، یہ دھمکیاں۔ آخر یہ سب کیوں ؟۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان اور پاکستان سے متعلق پالیسی بیان میں آخر کونسی چیز غیرمتوقع ہے کہ ہم غیرمعمولی جذباتیت کا مظاہرہ کرنے لگے ۔ اللہ گواہ ہے میرے لئے تو ان کی تقریر میں ایک لفظ بھی غیرمتوقع نہیں تھا۔ جب میرے جیسے معمولی مزدور اور طالب علم کو اندازہ تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی پٹاری سے ایسی ہی چیز نکلے گی تو پھر ہمارے ملک کے مختاروں کو کیسے اندازہ نہیں تھا۔ اگر اندازہ نہیں تھا تو پھر انہیں اس ملک کے مختار بننے کا کیا حق اور اگر اندازہ تھا تو پھر اس ہلچل اور شوروغوغا کا کیا جواز ؟۔ امریکی صدر ٹرمپ کے مذکورہ پالیسی بیان سے دوروز قبل یعنی 20 اگست کو ’’مارشل لا کیوں‘‘ کے زیرعنوان ’’جرگہ‘‘ میں عرض کیا تھا کہ :

’’افغان پالیسی کے اعلان میں تاخیر اس لئے ہوئی کہ صدر ٹرمپ نے اپنے اداروں کا محاسبہ شروع کر رکھا ہے ۔ وہ پینٹاگون ، سی آئی اے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ لوگوں نے افغانستان میں سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کئے ، کئی ہزار فوجی مروائے اور لاکھوں فوجیوں کو وہاں تعینات رکھا تو اس کے جواب میں کیا حاصل کیا۔ اب ظاہر ہے وہ اپنی ناکامیوں اور حماقتوں کا اعتراف تو نہیں کر سکتے تو ان سب کی طرف سے یہ جواب مل رہا ہے کہ انہوں نے تو فلاں فلاں کارنامے سر انجام دئیے لیکن پاکستان اور بالخصوص پاکستانی فوج کی وجہ سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکے۔ المیہ یہ ہے کہ صرف امریکی ادارے اپنے صدر کو یہ پٹی نہیں پڑھارہے ہیں بلکہ افغانستان کے سابق حکمران ہوں یا موجودہ ، ڈونلڈٹرمپ جس سے بھی بات کرتے ہیں ان کو یہی جواب ملتا ہے کہ پاکستان کی وجہ سے امریکہ اور افغان حکومتیں امن قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

یہی فیڈ بیک ان کو انڈیا اور نیٹو کے اتحادیوں کی طرف سے بھی ملتا ہے۔ دوسری طرف یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ امریکہ میں پالیسی ریویو کے موقع پر وہاں پاکستان کا کیس ان کے سامنے کسی نے پیش نہیں کیا ۔ ہم داخلی سیاسی جھگڑوں میں مصروف رہے ۔ وزیراعظم یا آرمی چیف تو کیا اس عرصہ میں ہمارے وزیر خارجہ بھی لابنگ کے لئے امریکہ نہیں جا سکے ۔ اب جب سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا گیا تو امریکی صدر ٹرمپ کو اس سوال کا سامنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کیا کیا جائے ؟۔ ایک رائے یہ تھی کہ پاکستان کو اعتماد میں لے کر اس کی مراعات بڑھا دی جائیں اور دوسری رائے یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ سختی کی جائے ۔ چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ کی نئی افغان پالیسی کی روح میں پاکستان کو سبق سکھانے کا عنصر ضرور شامل ہو گا‘‘۔

جو ہونا تھا سو ہوچکا لیکن سوال یہ ہے کہ اب اچانک ہم نے آسمان سر پر کیوں اٹھا لیا؟۔ کیا امریکہ پاکستان پر حملہ کرنے جا رہا ہے جو ہم ملک کے اندر جنگی فضا بنانے جارہے ہیں ؟ یا کیا امریکہ نے خاکم بدہن پاکستان کو ویت نام بنانے کا اعلان کر دیا ہے جو ہم ویت نام اور کمبوڈیا کی مثالیں دیتے پھر رہے ہیں ۔ میرے نزدیک تو ایسی کوئی بات نہیں ۔ الحمدللہ نہ پاکستان اتنا گیا گزرا ہے اور نہ امریکہ اس قدر طاقتور ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوجی آپشن کا سوچے ۔ ابھی تو امریکہ نے اپنی پوری پالیسی یاا سٹرٹیجی بھی واضح نہیں کی ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو صرف پالیسی بیان دیا ہے اور اپنی اسٹرٹیجی (جو ابھی سامنے نہیں آئی) کی بنیادی سمت واضح کر دی ہے تاہم یہ تفصیلات ابھی طے ہونی ہیں کہ امریکہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ کیسے پہنائے گا۔ ابھی تو پاکستان سے ہر سطح پر بات چیت ہونی ہے اور اگر پاکستان طالبان کے حوالے سے امریکہ کے حسب منشا نتائج نہ دے سکا تو پھر امریکی حکومت اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گی جو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں دی ہے ۔ یہ بھی ابھی طے ہونا ہے کہ امریکہ پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے سفارتی راستہ اپنائے گا ، اقتصادی یا پھر مغربی اور مشرقی بارڈر پر اس کی مشکلات بڑھانے کا ۔اب اگر طالبان کے معاملے میں ہمارا دامن صاف ہے تو پھر پریشانی کس بات کی ۔ جو صفائیاں ہم روز اپنی قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں ، وہ ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کیوں نہیں سمجھا سکتے اور اگر واقعی دال میں کچھ کالا ہے تو پھر امریکہ سے جنگ کی تیاریوں کی بجائے ہم دال سے اس کالے کو نکالتے کیوں نہیں ؟۔

سچی بات تو یہ ہے کہ میں افغانستان کے بارے میں سابق صدر اوباما کی اعلان کردہ پالیسی سے جس قدر پریشان تھا ، اس قدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی سے نہیں ہوں۔ صدر اوباما بہت ذہین انسان تھے لیکن افغانستان کے بارے میں ان کی پالیسی تضادات پر مبنی تھی ۔ ایک طرف انہوں نے افغانستان سے انخلا کی تاریخ دے دی تھی اور دوسری طرف افواج کی تعداد میں اضافہ کیا ۔ وہ طالبان سے مفاہمت کے حق میں بھی نہیں تھے اور میکرو لیول تک افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کو بھی ڈکٹیٹ کر رہے تھے ۔ وہ افغان حکومت کو بھی جزیات کی حد تک بتا رہے تھے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے اور پاکستان سے متعلق بھی ان کا کم وبیش یہی رویہ تھا۔ صدر اوباما کی بنسبت ڈونلڈ ٹرمپ بے وقوفی کی حد تک جارحانہ سوچ رکھتے ہیں لیکن افغان پالیسی ان کی اپنی نہیں بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کی عکاس ہے ۔ اس لئے اس میں اپنے کارڈز خفیہ رکھے گئے ہیں لیکن طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ سیاسی حل کا راستہ بھی کھلا رکھا گیا ہے ۔

اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ امریکہ بہر صورت افغانستان میں جنگ کا مسئلہ حل کرے گا اور اس کے لئے جتنی دیر فوجوں کو رکھنا پڑا ، فوج رکھی جائے گی جتنی طاقت ضروری ہوئی استعمال کی جائے گی اور جہاں ضروری ہوا سیاسی حل کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ نہ پاکستان کو ڈکٹیشن دیا جائے گا اور نہ افغان حکومت کو۔ افغان حکومت پر واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے ، کام کرے لیکن مطلوبہ نتائج دے ۔ اسی طرح پاکستان سے متعلق بھی اپنا مطالبہ واضح کر دیا گیا ہے اور یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اگر طالبان کے معاملے میں پاکستان نے حسب منشا تعاون کیا تو اسے صلہ ملے گا اور اگر نہیں کیا تو پھر اسے نتائج بھگتنے ہوں گے ۔

اب ہمارا تو موقف یہ ہے کہ پاکستا ن میں طالبان کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور ہم حسب استطاعت ان کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو افغان حکومت اور امریکہ کو اطمینان دلانے میں کیا امر مانع ہے ۔ اور اگر واقعی ہم افغان اور امریکی حکومت کے حسب توقع تعاون نہیں کر رہے ہیں تو پھر وہ کرنے میں کیا حرج ہے ہم خود کہتے ہیں کہ طالبان کا دوبارہ افغانستان پر قابض ہونا پاکستان کے حق میں نہیں ۔ ہم خود کہتے ہیں کہ طالبان اب ہمارے ہاتھوں سے نکل کر دوسرے ملکوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں ۔ ہم خود کہتے ہیں کہ وہ ہماری بات نہیں مانتے۔ تو پھر ان کو اپنی سرزمین سے نکالنے یا پھر افغان حکومت کے ساتھ بٹھانے میں کیا حرج ہے ۔

پاکستان کے حساب سے امریکہ کے اس شر میں خیر کے بعض پہلوبھی پوشیدہ ہیں ۔ مثلاً ابھی تک روس اور چین بھی پاکستان کی افغان پالیسی کے ہمنوا نہیں تھے لیکن امریکی صدر ٹرمپ کے اعلانات اور ارادوں نے ان کو بھی پاکستان کا ہمنوا بنا دیا۔ پہلے افغانستان میں ہندوستان کی موجودگی اور سلامتی پر صرف پاکستان معترض تھا لیکن اب چین اور ہو سکتا ہے کہ کسی مرحلے پر روس بھی اس حوالے سے معترض ہو جائے۔ افغانستان کے تناظر میں ایران ابھی تک ہندوستان کا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا ہوا تھا لیکن جس طرح امریکہ ہندوستان کو افغانستان میں اپنا پراکسی بنانا چاہتا ہے ، اس کے تناظر میں اب ایران اور ہندوستان کی وہ پارٹنرشپ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گی اور اگر ہم اپنے کارڈز صحیح طریقے سے استعمال کریں تو کسی وقت ایران کو بھی اپنے مشرقی بلاک میں لا سکتے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسی بیان نے خود افغان حکومت اور قیادت کو بھی تقسیم کر دیا ہے ۔

صدراشرف غنی نے اگرچہ اس کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ان سے زیادہ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اسے مسترد کر دیا۔ افغان قیادت کا ایک بڑا حصہ پہلے سے افغانستان میں ہندوستان اور پاکستان کی پراکسی وار سے خوش نہیں تھا۔ امریکہ کی نئی پالیسی سے چونکہ اس پراکسی وار کا خطرہ بڑھ جائے گا اور چین جیسا بڑا ملک بھی اس میں شامل ہو سکتا ہے ، اس لئے یہ طبقہ امریکہ اور ہندوستان سے دور اور پاکستان کے قریب ہوتا جائے گا۔ خیر کا ایک اور بڑا پہلو یہ ہے کہ شاید اب دبائو میں آکر پاکستان اپنے لئے خیر کا وہ قدم بھی اٹھالے جو ماضی میں بوجوہ وہ نہیں اٹھا رہا تھا۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ طالبان کے مسئلے کو حل کرنا اور افغانستان میں بہ ہر صورت پائیدار امن کے لئے مخلصانہ کوششیں کرنا ، خود پاکستان کے مفاد میں ہے لیکن ہم بوجوہ اس طرف نہیں آرہے تھے۔ شاید یہ دبائو ہمیں اب اس راستے پر لے آئے جو خود ہمارے لئے سلامتی کا راستہ ہے ۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کیا کرے ۔ میرے نزدیک نہ تو امریکہ کو اشتعال دلانے کی ضرورت ہے اور نہ پریشان ہو کر اس کی قدم بوسی کی ۔ جنگی فضا بنانے کی بجائے امریکہ کے سامنے سفارتکاری کے ذریعے اپنا کیس رکھ دیا جائے لیکن اصل توجہ امریکہ نہیں بلکہ افغان حکومت پر مرکوز کردینی چاہئے ۔ چین اور روس کے تعاون سے یا انہیں گارنٹر بنا کر افغان حکومت کے مطالبات کو صدق دل سے پورا کردینا چاہئے اور مذکورہ دو ممالک کے ذریعے افغان حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھی صدق دل سے پاکستان کے جائز مطالبات کوتسلیم کرے ۔ سر دست ہماری پوزیشن اس لئے خراب ہے کہ امریکہ کے الزامات میں خود متاثرہ فریق یعنی افغانستان بھی اس کا ہمنوا ہے ۔ اسی طرح برطانیہ اور یورپی ممالک بھی یہی رائے رکھتے ہیں ۔ چین اور روس ہمارے ساتھ ہیں لیکن طالبان کے معاملے میں وہ دونوں بھی پوری طرح ہمارے موقف کے قائل نہیں ۔

ہم نے اگر افغانستان کو مطمئن کرلیا اور چین و روس بھی ہماری صداقت کے پوری طرح قائل ہو گئے تو امریکہ کے الزامات اور دھمکیاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی ۔ تیاری بڑھکیں مارنے ، اپنی قوم کو اشتعال دلانے اور دفاع پاکستان کونسل والوں کو میدان میں اتارنے کی صورت میں نہیں ہو سکتی ۔ ہر پاکستانی امریکہ کی ناراضی مول لے سکتا ہے لیکن ماضی کا سبق یہ ہے کہ ہماری دو وزارتیں یعنی وزارت خزانہ اور وزارت دفاع امریکہ کو ناراض کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ اگر امریکہ سے مقابلے کی تیاری کرنی ہے تو یہ دو وزارتیں کریں کیونکہ برہم ہونے کی صورت میں امریکی اقتصادی دبائو کا راستہ اپنائیں گے اور دفاعی امداد روکیں گے ۔ ایک بات یہ ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ چین ہماری سفارتی مدد کرے گا لیکن اس سے آگے کچھ وہ اپنے معاملات میں نہیں کرتا تو ہمارے لئے کیوں کرے گا۔ چین بہت بڑی طاقت بن گیا ہے لیکن ابھی پوری طرح امریکہ کا متبادل نہیں ۔ چینی وزارت خارجہ نے پاکستان کے حق میں جو بیان دیا ہے ، اس بیان کے دوسرے پیراگراف میں امریکہ اور پاکستان کی انگیج منٹ پر بھی زور دیا ہے ۔ اسی لئے جوش نہیں بلکہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

سلیم صافی

پاکستانی ثقافت کی لندن کی سڑکوں پر عکاسی

لندن میں مسافر بسوں کے ذریعے پاکستان کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے طریقہ کو بہت سراہا گیا اور کئی لوگوں کے بقول پاکستان کے روش چہرے کو خاموشی سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اس سے مؤثر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا.

 

 

 

 

چین نے عالمی سطح پر مقبولیت میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا : سروے رپورٹ

چین نے عالمی سطح پر مقبولیت میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا، عالمی سطح پر چین کی مقبولیت میں اضافہ اور امریکی مقبولیت کمی دکھائی دیتی ہے، 19 ممالک میں چین کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ 13 ممالک میں اب بھی امریکہ کی مقبولیت کافی زیادہ دکھائی دیتی ہے ۔ سروے رپورٹ کے مطابق چین کا گراف گزشتہ دہائی میں تیزی سے اوپر کی جانب دکھائی دیتا ہے جبکہ امریکی گراف گرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ آسٹریلیا ، میکسیکو، پیرو، سینی گال سپین اور ترکی اور کینیڈا میں چین کی مقبولیت امریکہ کی نسبت کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے جبکہ جرمنی ، فرانس ، برازیل ، سویڈن ، برطانیہ میں امریکہ چین کی نسبت مقبول ہے لیکن کینیا کے سروے میں دونوں ممالک مابین مقابلہ برابر ہے ۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرد جنگ کے دوران روس کی مقبولیت عالمی سطح پر صرف ایک ملک گریس میں تھی لیکن حالیہ برسوں میں امریکہ کی گرتی ساکھ نے روس کو بھی مقبولیت میں کافی حد تک اوپر لا کھڑا کیا ہے ۔ روس اور امریکہ کے مابین مقبولیت میں سب سے کم فرق میکسیکو میں ریکارڈ کیا گیا جبکہ میکسیکو عوام کی نظر میں اس وقت روس اور امریکہ ہم پلہ ہیں ۔ 33 ممالک کے سروے میں چین کی مقبولیت میں اضافہ دکھائی دیتا ہے ۔ چین کی مقبولیت 48 فیصد سے بڑھ کر 52 فیصد ہو گئی ہے اور امریکی مقبولیت 64 فیصد سے کم ہو کر 50فیصد تک آگئی ہے۔

امریکیوں کو شاید علم نہیں

جمہوریت کا فرق تو صاف نظر آ رہا ہے۔ یہی امریکہ تھا جس نے آمریت کے دنوں میں اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف کو ایک فون کال کی تھی اور افغانستان کے خلاف پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت حاصل کر کے افغانستان میں اپنی فوجیں اتار دی تھیں۔ آج جمہوریت ہے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان اور نئی افغان پالیسی پر پاکستان کا ردعمل بالکل مختلف ہے۔ شاید امریکیوں کو بھی اس کی توقع نہیں ہو گی۔ امریکہ کے خلاف پاکستانی قوم کا یکساں موقف سامنے آیا ہے۔ کیا حکومت ، کیا اپوزیشن اور کیا فوج، سبھی ایک نکتے پر کھڑے ہو گئے ہیں۔ عوام تو پہلے ہی پاکستان کی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کی حفاظت کے لئے سربکف رہے ہیں۔

آج یہ بات ہمیں سمجھ آ جانی چاہیے کہ امریکہ کیوں پاکستان میں آمروں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ان سے بات منوانا کہیں آسان ہوتا ہے، کیونکہ ان کے ساتھ قوم نہیں ہوتی اور اپنے غیر آئینی اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے وہ ہمیشہ امریکہ طرف دیکھتے ہیں۔ جمہوریت کے دعوے کرنے والا امریکہ اپنے مفاد کے لئے سب نظریئے فنا کر دیتا ہے۔ امریکہ نے سب سے زیادہ فوجی و مالی امداد بھی آمروں کے زمانے میں ہی دی ہے۔ آج ڈونلڈ ٹرمپ یہ الزام دیتے ہیں کہ ہم نے اربوں ڈالر دیئے، لیکن پاکستان نے کچھ نہیں دیا، مگر وہ بھی یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ یہ اربوں ڈالر گئے کہاں؟ جنرل (ر) پرویز مشرف اس کا حساب دینے کو تیار نہیں، حالانکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت دی جانے والی ساری امداد انہی کے دور میں آتی رہی، آج وہ دنیا کے امیر لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، یہ پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا؟

اگرچہ یہ ایسے سوالات اٹھانے کا وقت نہیں، مگر امریکہ کو خود یہ سوچنا چاہیے کہ جب وہ غیر نمائندہ حکمرانوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتا رہا ہے تو یہ طعنے کیوں دیتا ہے کہ پاکستان کو کروڑوں ڈالر دیئے گئے، اس نے کچھ نہیں کیا۔شاید جمہوریت کا یہی پہلو ہے جس کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ برُی سے بُری جمہوریت بھی اچھی سے اچھی آمریت سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ جمہوریت میں سب ادارے کام کر رہے ہوتے ہیں، من مانی کی گنجائش جتنی بھی نکال لی جائے، وہ آمریت کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ شاید ابھی ماضی کے اسی خمار میں مبتلا ہیں جب امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کے ایک فون پر سارے کام ہو جاتے تھے۔ پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں امریکی سفارتخانے نے شائد انہیں آگاہ نہیں کیا۔

امریکیوں کو اتنا علم تو ضرور ہو گا کہ پاکستان میں پچھلے تقریباً دس برسوں سے جمہوریت اپنے پورے اختیار کے ساتھ قائم ہے۔ ان دس برسوں میں ایسے بہت سے مواقع آئے جب ماضی کی طرح فوج پاکستانی اقتدار سنبھال سکتی تھی، لیکن فوجی قیادت نے اپنے اس عزم کو عملی جامہ پہنائے رکھا کہ جمہوریت کی حمایت جاری رہے گی۔ دوسری طرف عدلیہ کے کردار کو بھی نہیں بھولنا چاہیے، جس نے باقاعدہ ایک ضابطہ اخلاق بنا کر اس پر عملدرآمد شروع کر دیا کہ آئندہ کسی آمر کو نظریہ ء ضرورت کے تحت تحفظ فراہم نہیں کیا جائے گا۔ یہ دونوں راستے بند ہو گئے تو آمریت کی راہیں بھی مسدود ہو گئیں۔

آج اگر امریکہ چاہے بھی کہ پاکستان میں غیر آئینی تبدیلی کی راہ ہموار کی جائے تو اسے منہ کی کھانا پڑے گی، کیونکہ کوئی ایک ادارہ یا جماعت بھی ایسی نہیں ملے گی جو جمہوریت کے برعکس فیصلوں کی حمایت کرتی ہو۔ پھر ایک اور تبدیلی بھی واضح طور پر دیکھنے میں آ رہی ہے، جو غالباً امریکیوں کی نظر میں نہیں۔ ایک زمانہ تھا سیاسی جماعتیں اقتدار کی خاطر امریکہ کی آلہ ء کار بن جاتی تھیں اور جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے اپنا کندھا پیش کرتی تھیں، جس سے فائدہ اٹھا کر امریکہ کسی ڈکٹیٹر کے آنے کی راہ نکال لیتا تھا۔ اب کوئی بھی سیاسی جماعت امریکی آشیرباد کی متلاشی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف بیان دیا ، تمام سیاسی قوتوں نے، جن میں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ق)، اے این پی، ایم کیو ایم، پی ایس پی اور دیگر چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں، نہ صرف ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی ہے، بلکہ واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اگر امریکہ نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اسے دندان شکن جواب دیا جائے گا۔

اُدھر نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بھی سیاسی و عسکری قیادت نے بغیر لگی لپٹی رکھے یہ اعلان کیا کہ امریکہ ہم سے ڈومور کا تقاضا نہ کرے، بلکہ خود ڈومور کرے۔ افغانستان میں امن قائم نہیں ہو رہا، یہ ذمہ داری افغان حکومت اور نیٹو فورسز کی ہے کہ وہ افغانستان میں امن قائم کریں۔ یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا کہ پاکستان کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں پوری شدت کے ساتھ جاری رکھی جائیں گی۔ یہ وہ سب حقیقتیں ہیں، جو شاید امریکہ کی نظر میں نہیں اور وہ 2000ء کی طرح کا پاکستان ڈھونڈ رہا ہے۔امریکی سفیر نے شاید یہ بات بھی پہلی بار پاکستان کے آرمی چیف کی زبان سے سنی ہو گی کہ ہمیں اسلحہ چاہیے، نہ امداد، ہمیں امریکہ کا یہ اعتماد چاہیے کہ وہ ہماری قربانیوں کو تسلیم کرتا ہے اور ہمارے بارے میں خلاف حقائق بداعتمادی کا شکار نہیں۔ ’’یہ بدلا ہوا لہجہ اور یہ بدلا ہوا اظہار‘‘۔ امریکیوں کو یہ بات سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ وہ ماضی کے خوابوں سے نکل آئیں اور زمینی حقیقتوں کا سامنا کریں۔

چیف آف آرمی سٹاف کو یہ علم ہے کہ پوری قوم ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ ایک آمر کا لب و لہجہ ملتجیانہ اور معذرت خواہانہ ہوتا ہے، لیکن جو سپہ سالار جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہو اور عوام اس کی پشت پر ہوں، وہ اسی طرح بولتا ہے، جیسے جنرل قمر جاوید باجوہ بولے ہیں۔ امریکیوں کے لئے یقیناًیہ بات بھی باعثِ حیرت ہو گی کہ اس وقت پوری سیاسی و عسکری قیادت اس کے خلاف یک زبان ہو گئی ہے۔ اب بات کس سے کریں اور نقب کہاں سے لگائیں؟۔ کئی لوگوں کو آج بھی یقین نہیں آ رہا کہ ہم واقعی امریکیوں کو للکار رہے ہیں۔ یہ جرات و حمیت ہم میں کہاں سے آ گئی؟۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہم نے آمریت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔ ہماری جمہوریت اب جھٹکے برداشت کرنے کے قابل ہو چکی ہے۔

آمریت کا ڈراوا دے کرجمہوری حکمرانوں اور عوام سے ڈرا کر آمروں کو اپنی مطلب براری کے لئے استعمال کرنے کا دور گزر گیا۔ جس سی پیک کی وجہ سے امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف سازشیں کر رہا ہے، اسی سی پیک نے ہمیں اتنا اعتماد دیا ہے کہ ہم امریکہ کے لئے حرف انکار زبان پر لا سکیں۔ چین اور روس ہمارے ساتھ اس لئے آ کھڑے ہوئے ہیں کہ وہ سی پیک کو اس پورے خطے کے لئے گیم چینجر سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے خود امریکہ کی اقتصادی سپر پاور خطرے میں پڑ جائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ ہم نے مشکلات کے باوجود جمہوریت کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور اگر سیاسی و عسکری قیادتوں نے اسے کمزور کرنے کے لئے کھینچا تانی نہ کی، تو ہم تمام مشکلات پر قابو پالیں گے، حتیٰ کہ امریکہ کو بھی مجبور کر دیں گے کہ وہ ہمارے اقتدار اعلیٰ کو نہ صرف تسلیم کرے، بلکہ اس کا احترام کرتے ہوئے ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کرے.

نسیم شاہد

ٹرمپ کیا چاہتا ہے اور کیا کرے گا ؟

میرا یہ پرانا کالج فیلو طویل عرصے سے واشنگٹن میں رہتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ سیاسیات (Political Science) کا طالبعلم ہے اور بین الاقوامی سیاست اس کی درس و تدریس اور تحقیق کا محور ہے۔ اب وہ کچھ عرصہ سے وہاں ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیاست پڑھا رہا ہے۔ اس حوالے سے اس کا واشنگٹن کے تھنک ٹینکس میں بھی آنا جانا رہتا ہے اور صدارتی مشیروں سے بھی رابطہ رہتا ہے۔ کل ایک مشترکہ بزرگ کے گھر اس سے ملاقات ہوئی تو صدر ٹرمپ کی تقریر موضوع گفتگو بن گئی کیونکہ صدر ٹرمپ کی تقریر نے جہاں حکومت پاکستان کو جھٹکا دیا ہے وہاں پاکستانی قوم کو بھی اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے۔

 ویسے آپس کی بات ہے کہ پاکستانی قوم اندیشوں سے خاصی حد تک لاپروا اور سرد مہر ہو چکی ہے کیونکہ خدشات اور خطرات پاکستانی قوم کی گھٹی میں شامل ہیں۔ روز اول سے ہندوستان کے حوالے سے خطرات، 1980 کی دہائی میں روسی خوف کے منڈلاتے بادل اور پھر افغانستان کے حوالے سے دہشت گردی اور ہندوستانی تخریب کاری کے خطرات ہمارے قومی مقدر کا حصہ رہے ہیں۔ اس لئے پاکستانی قوم خطرات کے سائے میں پل کر جوان ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ جیسی بیرونی دھمکیوں کے خلاف احتجاج، جلسے جلوس، سیاستدانوں کے بیانات اور قومی یا کل پارٹی کانفرنس ہماری روایات ہیں جو پانی کے بلبلے کی مانند ابھرتی اور غائب ہو جاتی ہیں۔ اس سے بیرونی طاقتوں کا کچھ بگڑتا ہے نہ اندرونی اتحاد حاصل ہوتا ہے، البتہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے سارے اراکین امریکن سفارت خانے کے سامنے احتجاجی دھرنا دیں تو اس سے ٹرمپ جیسے منہ پھٹ اور لاپروا شخص کی صحت پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن یہ بین الاقوامی میڈیا کے لئے ایک اہم خبر بن جائے گی جس کے کئی فائدے ہوں گے۔

اول دنیا بھر میں ہمارا احتجاج رجسٹر ہو جائے گا۔ دوم ٹرمپ انتظامیہ اس کا نوٹس لے گی اور اپنے رویے پر نظر ثانی پر مجبور ہو گی، سوم جب ہمارے اراکین پارلیمنٹ عالمی میڈیا کو متفقہ طور پر زور دے کر بتائیں گے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں۔ ہم دہشت گردی کی جنگ میں ستر ہزار قیمتی جانیں اور اربوں ڈالر گنوا چکے ہیں۔ ہماری فوج نے پاکستان کی سر زمین کو دہشت گردوں سے پاک کر لیا ہے۔ مزید یہ کہ دہشت گردوں اور داعش کو پاکستان میں پناہ گاہوں کی ضرورت نہیں کیونکہ افغانستان کے تقریباً پچاس فیصد علاقوں پر طالبان اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کا قبضہ ہے جہاں حکومت افغانستان کی رٹ موجود ہی نہیں۔

جب ان کے کھل کھیلنے کے لئے افغانستان کی سرزمین موجود ہے تو انہیں پاکستان میں سر چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟ آخری بات یہ کہ ہم عالمی میڈیا کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کے کونے کونے میں جائیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہم اپنی سرزمین دہشت گردوں سے پاک کروا چکے ہیں۔ وہ امریکی حکومت سے پوچھیں کہ پاکستان نے کہاں دہشت گردوں اور حقانی نیٹ ورکس کو ٹھکانے دے رکھے ہیں؟ ان علاقوں کے بھی دورے کریں اور امریکی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ عالمی رائے عامہ کو بھی اس الزام کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ اراکین پارلیمنٹ کے موثر احتجاج سے امریکی انتظامیہ اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گی لیکن میرے نزدیک اس کا سب سے بڑا فائدہ عالمی رائے عامہ پر مثبت اثرات اور عالمی میڈیا کے رویے میں تبدیلی کی صورت میں رونما ہو گا۔

کم سے کم پاکستانی نقطہ نظر کو اہمیت ملے گی جو آج تک حکومتی بیانات کو حاصل نہیں ہو سکی۔ ہمارے حکمران، سیاستدان، دانشور اور تجزیہ مسلسل ایک ہی بات کہتے چلے جاتے ہیں کہ امریکہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ ہم پر ڈالنا چاہتا ہے۔یہ بے معنی اور بے وقعت بات ہے جس کا اثر امریکی انتظامیہ پر ہوتا ہے نہ ہی عالمی میڈیا اسے درخور اعتنا سمجھتا ہے۔ ہمیں ٹرمپ کے الزامات کا جواب منطقی انداز اور دلائل سے دینا ہے نہ کہ الزامات سے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ٹرمپ نے اپنے پالیسی بیان میں اس حقیقت کا ذکر نہیں کیا کہ افغان حکومت کا کنٹرول چالیس یا پچاس فیصد سے زیادہ علاقوں پر نہیں ہے، اگر وہ اس کا ذکر کرتا تو امریکی عوام پوچھتے کہ امریکہ کو اربوں ڈالر خرچ کرنے اور سینکڑوں فوجی مروانے کے بعد کیا حاصل ہوا؟ ایک دہائی کی جنگ میں امریکہ افغان سرزمین کو طالبان اور داعش سے بھی صاف نہیں کروا سکا تو مستقبل میں کون سا تیر چلا لے گا ؟

میں اپنی بات لے بیٹھا، ذکر ہورہا تھا اس پروفیسر دوست کا جو واشنگٹن میں پڑھاتا، تھنک ٹینکس میں شرکت کرتا اور امریکی انتظامیہ کی سوچ کا ادراک رکھتا ہے۔ اس نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے افغانستان سے نکلنے کا عندیہ دیا تھا کیونکہ ٹرمپ کے ایجنڈے کا بنیادی نکتہ معاشی خوشحالی اور بے روزگاری میں کمی تھا جس کے لئے بیرونی خساروں پر قابو پانا اور اسلحہ بیچ کر امریکہ کے لئے اربوں ڈالر کمانا تھا۔ اس تقریر سے پہلے صدر کے مشیروں نے اسے تفصیلی بریفنگ دی اور صدر ٹرمپ کو افغانستان کے قدرتی وسائل، تابنے، چاندی، سونے، گیس و تیل وغیرہ کے وسیع ذخائر سے مطلع کیا۔ یہ تفصیل سن کر ٹرمپ کی رال ٹپک پڑی اور اس نے امریکی فوج کی واپسی کی بجائے فوج بڑھانے ا ور جنگ تیز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ٹرمپ فیصلہ کن جنگ لڑ کر ان وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور عرق کی مانند سارا خسارہ پورا کرنے کے علاوہ امریکہ کے لئے دولت کمانا چاہتا ہے۔ ہندوستان کی امریکہ میں طاقتور لابی اور افغان حکومت امریکی عزائم اور امن کی راہ میں پاکستان کو رکاوٹ قرار دیتی ہے اور دہشت گردوں کو پناہ گاہیں دینے کا الزام دیتی ہے۔ خود امریکی خفیہ ذرائع اور فوجی مشیران بھی یہی سمجھتے ہیں۔ ان کے پاس ان ٹھکانوں کی تفصیلات بھی موجود ہیں اور نقشے بھی۔ ٹرمپ کی موجودہ دھمکی کا مقصد پاکستان پر دبائو ڈالنا ہے تاکہ وہ خود ان ٹھکانوں کو ختم کرے لیکن اگر حکومت پاکستان نے ایسا نہ کیا تو امریکہ یہ اقدامات کرے گا۔

(ا)امداد کی بندش

(2)آئی ایم ایف ا ور دوسرے مالیاتی اداروں کے ذریعے دبائو

(3)دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے اور سرجیکل اسٹرائیک۔

جس طرح عراق پر حملے کے لئے امریکہ نے جواز پیدا کیا تھا اسی طرح وہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کے لئے جواز پیدا کرے گا لیکن امریکہ کی اولین کوشش ہوگی کہ افغانستان میں طالبان اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اپنا اتحادی (Ally)بنائے۔ امریکہ پاکستان پر معاشی کڑی پابندیاں عائد کرے گا نہ ہندوستانی خواہش کے مطابق پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دے گا۔ کچھ تنظیموں، افراد کو دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے۔ ابھی ہماری گفتگو جاری تھی کہ ہمارے مشترکہ بزرگ نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا ’’تم زمینی باتیں کررہے ہو، کچھ فیصلے آسمانوں کے بھی ہوتے ہیں۔ میری بات نوٹ کرلو کہ کچھ پاکستان کے ’’لوٹ مار یافتہ‘‘ سیاستدان سیاسی میدان سے غائب ہوجائیں گے اور نسل پرست کم فہم صدر ٹرمپ مواخذے کا شکار ہو کر صدارتی میعاد پوری نہیں کرسکے گا۔ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان محفوظ ہے اور محفوظ رہے گا‘‘۔اس کے بعد ہمیں چپ سی لگ گئی۔

ڈاکٹر صفدر محمود

شدید سمندری طوفان ٹیکساس کے ساحلوں سے ٹکرا گیا

سمندری طوفان ’ہاروی‘ امریکی ریاست ٹیکساس سے ٹکرا گیا ہے اور اپنے ساتھ 200 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار کے جھکڑ اور طوفانی بارشیں بھی ساتھ لایا ہے جس سے ریاست میں سیلاب آنے کا خطرہ ہو گیا ہے۔ ساحلی شہر کارپس کرسٹی کے رہائشی پہلی ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ طوفانی ہواؤں کی وجہ سے شہر کا بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔