کم جونگ ان چین میں کیا کرتے رہے ؟

کئی روز کی افواہوں کے بعد اب باضابطہ طور پر تصدیق کر دی گئی ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے چین کا دورہ کیا اور اعلی حکام سے ملاقاتیں کیں۔

مقامی میڈیا پر یہ خبر چلی کہ سفارتی ٹرین پر ہائی پروفائل شخصیت بیجنگ پہنچی ہے جبکہ جاپانی میڈیا کا کہنا تھا کہ وہ شخصیت شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ ان ہیں۔

اب کم جونگ کے اس دورے کی تصدیق چین اور شمالی کوریا دونوں نے کر دی ہے.

چینی خبر رساں ایجنسی شن ہوا کا کہنا ہے کہ کم جونگ ان کے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ کامیاب مذاکرات ہوئے ہیں.

 ایجنسی کے مطابق غیر سرکاری دورے کے دوران کم جونگ ان نے اپنے چینی ہم منصب کو جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے عزم پر قائم رہنے کی یقین دہانی کرائی.

شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ ان کا 2011 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا.

اس دورے کو امریکہ اور جنوبی کوریا کے ساتھ شمالی کوریا کی جانب سے مذاکرات پر رضامندی دیے جانے کے تناظر میں بہت اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے.

ماہرین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ سے ملاقات سے پہلے شمالی کوریا اور چین کے اعلیٰ حکام ایک ملاقات کر سکتے ہیں۔

 

لندن نے قتل کے واقعات میں نیویارک کو پیچھے چھوڑ دیا

برطانیہ میں جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، برطانوی میڈیا کے مطابق لندن میں ہونے والے قتل کے واقعات نے نیویارک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ برطانوی وزیر داخلہ ایمبررڈ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ برطانوی حکومت نے جرائم کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جرائم پر قابو پانے کے لیے نئے فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، حکومت جرائم پر قابو پانے کے لیے ہرممکن اقدام اٹھائے گی۔ ایمبر رڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے فنڈ میں ساڑھے 6 ارب روپے کی مساوی رقم رکھی گئی ہے، اس فنڈ سے سیکیورٹی فورسز کو اپنا کام بہتر انداز میں کرنے میں مدد ملے گی۔

شام کے فوجی اڈے پر میزائل حملہ اسرائیل نے کیا

شام کے سرکاری ٹی وی نے ایک اعلیٰ فوجی افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل کے ‘ایف 15’ جنگی طیاروں نے شام کے پڑوسی ملک لبنان کی فضائی حدود سے شامی فوجی اڈے پر کئی میزائل داغے۔ شام اور روس نے کہا ہے کہ  شام کے ایک فوجی ہوائی اڈے پر کیا جانے والا حملہ امریکہ نے نہیں بلکہ اسرائیل نے کیا تھا۔ اس سے قبل شام کی حکومت نے اس حملے کا الزام امریکہ پر عائد کیا تھا لیکن امریکی محکمۂ دفاع ‘پینٹاگون’ نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نے شام میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ روس کی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام کے وسطی صوبے حمص میں واقع ‘ٹی 4’ نامی فوجی ہوائی اڈے پر حملہ اسرائیل کے دو جنگی طیاروں نے کیا تھا جو لبنان کی فضائی حدود میں تھے۔

شامی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے بھی روسی فوج کے اس دعوے کی تصدیق کی ہے کہ حملے میں اسرائیل ملوث ہے۔ شام کے سرکاری ٹی وی نے ایک اعلیٰ فوجی افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل کے ‘ایف 15’ جنگی طیاروں نے شام کے پڑوسی ملک لبنان کی فضائی حدود سے شامی فوجی اڈے پر کئی میزائل داغے۔ سرکاری ٹی وی نے واقعے کی مزید تفصیل بیان نہیں کی۔ البتہ اپنی پہلی رپورٹ میں سرکاری ٹی وی نے کہا تھا کہ حملے میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ روسی وزارتِ دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شامی فوج نے ہوائی اڈے پر فائر کیے جانے والے آٹھ میں سے پانچ میزائل مار گرائے البتہ تین میزائلوں نے ہوائی اڈے کے مغربی حصے کو نشانہ بنایا۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والے ہوائی اڈے پر روسی فوجیوں کی بڑی تعداد بھی تعینات ہے اور اس ہوائی اڈے سے اڑنے والے جنگی جہاز تواتر سے شام میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر بمباری کرتے ہیں۔ شام میں جاری تشدد پر نظر رکھنے والی برطانوی تنظیم ‘سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس’ نے کہا ہے کہ ہوائی اڈے پر کیے جانے والے حملے میں کم از کم 14 افراد ہلاک ہوئے ہیں.

بشکریہ وائس آف امریکہ

غزہ میں کوئی معصوم لوگ نہیں : اسرائیل

اسرائیلی وزیر دفاع لیبرمین نے اپنے ایک متنازعہ بیان میں کہا ہے کہ حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی میں ’کوئی معصوم لوگ نہیں‘ ہیں۔ اس فلسطینی علاقے میں احتجاجی مظاہروں اور جھڑپوں میں دس دنوں میں تیس فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ یروشلم سے نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع ایوگڈور لیبرمین نے آج اسرائیلی پبلک ریڈیو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں ’کوئی معصوم لوگ ہیں ہی نہیں‘۔ لیبرمین نے کہا، (غزہ میں) ہر کسی کا تعلق حماس سے ہے۔ ہر کوئی حماس سے تنخواہ وصول کرتا ہے۔ وہ تمام کارروائیاں، جن کے ذریعے ہمیں چیلنج کیا جا رہا ہے اور سرحد کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ حماس کے عسکری بازو کی سرگرمیاں ہیں۔

غزہ میں وزارت صحت کے مطابق غزہ پٹی اور اسرائیل کے درمیان سرحد پر ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی گزشتہ دس دنوں سے اپنا جو احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں، اس دوران ان مظاہرین کی اسرائیلی دستوں کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں اور اسرائیلی فائرنگ کے نتیجے میں اب تک کم از کم 30 فلسطینی مارے جا چکے ہیں جبکہ زخمی فلسطینیوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں بنتی ہے۔ ان جھڑپوں میں کسی اسرائیلی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔ ان حالات میں اسرائیل کو اس وجہ سے بڑھتی ہوئی تنقید اور بین الاقوامی برادری کے چبھتے ہوئے سوالات کا سامنا ہے کہ اسرائیلی دستوں نے فلسطینی مظاہرین پر وہ فائرنگ کیوں کی، جو اب تک درجنوں انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن چکی ہے۔ غزہ پٹی اور اسرائیل کی درمیانی سرحد کے قریب فلسطینی مظاہرین نے اپنا احتجاج 30 مارچ کو شروع کیا تھا اور اس دوران جب ان ہزاروں مظاہرین کی اسرائیلی دستوں کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں، تو اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں اس روز 19 فلسطینی مارے گئے تھے۔

پھر گزشتہ جمعے کے روز جب فلسطینیوں نے دوبارہ اپنے یہی مظاہرے پھر کیے، تو بھی اسرائیل کے ساتھ سرحد کے قریب ایک صحافی سمیت کم از کم نو فلسطینی مارے گئے تھے۔ اسرائیل کا اس فائرنگ کے بارے میں کہنا ہے کہ اس کے فوجیوں نے یہ فائرنگ اس وجہ سے کی کہ فلسطینی مظاہرین کی طرف سے سرحدی باڑ کو نقصان پہنچائے جانے کے علاوہ ممکنہ حملوں اور مظاہرین کی اسرائیل میں داخلے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ ان مظاہروں اور جھڑپوں کے دوران صرف دس دنوں میں درجنوں فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کی طرف سے بھی یہ مطالبے کیے جا چکے ہیں کہ ان ہلاکت خیز واقعات کی غیر جانبدارانہ چھان بین کرائی جانا چاہیے۔ اسرائیل ان مطالبات کو قطعی طور پر مسترد کر چکا ہے۔

بشکریہ DW اردو

قندوز کے شہید میڈیا کے کیمرہ سے اوجھل کیوں؟؟

جنوری 2015 میں فرانس کے میگزین چارلی ایبڈو (جو گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی وجہ سے مشہور تھا) کے دفتر پر ایک دہشتگرد حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک ہوئے ۔ اس واقعہ کی عالمی میڈیا نے اس انداز میں کوریج کی کہ پوری دنیا اس واقعہ کی مذمت کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ یہاں تک کے پاکستان کے صدر ممنوں حسین نے ایک تعزیتی خط فرانسیسی حکومت کو فوری لکھ دیا، ہمارے دفتر خارجہ نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی، کئی سیاستدانوں نے بھی اپنا اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، ہمارا میڈیا بھی عالمی میڈیا کے زیر اثر اس واقعہ کو خوب فوکس کرتا رہا اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے بہت سے سیکولرز اور لبرلز نے سوشل میڈیا کے ذریعے فرانس اور چارلی ایبڈو کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور کئی روز تک سوشل میڈیا بشمول ٹویٹر کے ذریعے “I am Charlie Hebdo” (میں چارلی ہیبڈو ہوں) کی عالمی مہم کا حصہ بنے رہے۔

گزشتہ ہفتہ افغانستان کے علاقہ قندوز میں ایک مدرسہ پر فضائی حملہ کیا گیا جس میں ڈیڑھ سو سے افراد جن میں اکثریت بچوں کی تھی کو شہید کیا گیا۔ ابتدا میں میڈیا کے ذریعے کہا گیا کہ حملہ دہشتگردوں پر کیا گیا لیکن جب حقیقت کھلی کہ اس بربریت کا شکار معصوم بچے تھے جو قرآن پاک کاحفظ مکمل ہونے پر وہاں دستاربندی کے لیے جمع ہوے تھے تو میڈیا پر خاموشی طاری ہو گئی۔ شہادت پانے والے بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھیں تو دل دہل گئے کہ اتنا بڑا ظلم لیکن دوسری طرف مجرمانہ خاموشی۔ عالمی میڈیا سے تو کوئی توقع رکھنا ہی فضول تھا، ہمارے لوکل میڈیا نے بھی اس ظلم و بربریت پر کوئی توجہ نہ دی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

ویسے سب کو خبر تو مل گئی کہ فضائی حملہ میں معصوم حفاظ کرام شہید ہوئے لیکن نہ تو صدر پاکستان کی طرف سے اس سانحہ پر کوئی مذمتی بیان جاری ہوا، نہ ہی کوئی دوسرا حکومتی یا ریاستی ذمہ دار بولا۔ وزارت خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے جب اس ظلم پر کوئی بات نہ کی تو ایک صحافی نے سوال کیا کہ ویسے تو دفتر خارجہ افغانستان میں کسی بھی دہشتگردی کے واقعہ پر فوری مذمتی بیان جاری کرتا ہے لیکن قندوز سانحہ پر کیوں خاموش ہے؟؟اس کے جواب میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کچھ رسمی مذمتی الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ ہم دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات پر بات نہیں کرتے۔

کیا خوب پالیسی ہے ہماری؟؟؟ اور کیسا امتیازی سلوک ساری دنیا قندوز سانحہ جیسے شہداء کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے؟؟ یعنی اگر دہشتگردی کسی فرد نے کی یا کسی پرائیویٹ گروہ نے تو پھر تو اس پر مذمت کی جائے گی اور اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی جائے گی۔ لیکن اگر دہشتگردی ریاست کی طرف سے کی جائے اور مرنے والوں کی تعداد چاہیے سینکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں تک بھی پہنچ جائے تو نہ کوئی مذمت، نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی افسوس اور نہ کوئی معافی اور یہی ہم افغانستان، عراق، شام، کشمیر، فلسطین، یمن اور دوسرے کئی اسلامی ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ انصاف نام کی کو ئی چیز نہیں، جب لگتا ہے کہ ضمیر مر چکے ہیں۔ 9/11 کے بعداس ریاستی دھشتگردی کو کھلی چھٹی دے دی گئی جس کے لیے شرط صرف ایک ہی رہی اور وہ یہ کہ ریاستی دہشتگردی کا نشانہ صرف مسلمانوں کو ہی ہونا چاہیے۔

مغرب سے یا اُن کے میڈیا سے کوئی کیا گلہ کرے، دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم مسلمان، ہماری حکومتیں اور ہمارا میڈیا بھی وہی کرتا ہے جو امریکا کی پالیسی ہے۔ ہمارے ٹی وی چینلز کو ہی دیکھ لیجیے جنہوں نے پاکستانی قوم کو بھارتی فلمی اداکارہ سری دیوی کی موت پر دن رات کوریج کر کے گھنٹوں سوگ منایا اور ایک وقت تو یہ ڈر پیدا ہو گیا کہ ہمارا میڈیا کہیں سری دیوی کو شہید کا درجہ ہی نہ دے دے۔ گزشتہ ہفتہ ایک اور بھارتی اداکار سلمان خان کو پانچ سال سزا ملنے پر ہمارے چینلز نے اسے پاکستانیوں کا بہت بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا لیکن افسوس کہ انہی چینلز کو قندوز مدرسے میں شہید کیے جانے والے معصوم بچوں کے نہ توچہرے نظر آئے نہ ہی اُنہیں ان بچوں کے والدین پر جو گزری اُس کی فکر تھی۔

سوشل میڈیا اور ٹیوٹر پر بھی میڈیا سے تعلق رکھنے والے اور دوسرے وہ سیکولرز اور لبرلز جو فرانس حملہ پر 12 افراد کی ہلاکت پر کئی روز افسوس کا اظہار کرتے رہے، کی اکثریت کے پاس بھی ان ڈیڑھ سو سے زائد حفاظ کرام کی شہادت پر افسوس اور اس ظلم کی مذمت کے لیے کچھ بھی کہنے کا وقت نہیں تھا۔ کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ ان معصوم بچوں کا آخر قصور کیا تھا؟ یہ بچے تو حافظ قرآن تھے جو ایک بہت بڑی سعادت کی بات تھی لیکن ایسے معصوموں کی شہادت پر ماسوائے پاکستان کے مذہبی ر ہنماوں کے کسی صف اول کے سیاسی رہنما کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ اس معاملہ پر بات کرے اور ان انسان دشمن عمل کی مذمت کرے۔

کیا داڑھی والوں اور مدرسے میں پڑھنے والوں کی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں؟؟ اُنہیں جو چاہے مار دے!!! ظلم ظلم ہے چاہے اس کا شکار کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ قندوز سانحہ ریاستی دہشتگردی کا ایک سنگین واقعہ ہے۔ اس ظلم کو اجاگر کرنے اور اس کے خلاف بیداری پیدا کرنے کے لیے میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ وہی میڈیا جو ہمیں رلاتا بھی ہے اور ہنساتا بھی ہے ، وہی میڈیا جس کا اب یہ دائرہ اختیار بنا دیا گیا ہے کہ کس کو ظالم اور کس کو مظلوم بنا کر دکھائے۔ یہ میڈیا ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس واقعہ پر ہمیں افسردہ کرے، کہاں رلائے اور کس واقعہ کو چاہے وہ کتنا ہی بڑا سانحہ ہو اُسے کوئی اہمیت نہ دے۔

افغانستان پر حملہ کرنا مقصود تھا تو اس کا راستہ میڈیا ہی کے ذریعے ہموار کیا گیا۔ عراق کو تباہ و برباد کرنا تھا تو مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹ میڈیا ہی کے ذریعے بیچا گیا۔ لیبیا پر حملہ کرنا تھا تو کرنل قدافی کو ولن کے طور پر میڈیا ہی کے ذریعے پیش کیا گیا۔ میری درخواست مسلمان ممالک کے میڈیا سے ہے کہ مہربانی کر کے ایک لمحہ کے لیے سوچیں کہ مغرب اور مغربی میڈیا کی نقالی میں ہم بھی کہیں معصوم مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ تو نہیں رنگ رہے۔

انصار عباسی