مودی کے پاس کوئی آپشن نہیں

سترہ اٹھارہ برس پرانی بات ہے، میں ایک کانفرنس میں داخل ہو رہا تھا اور بھارتی وزیر اطلاعات سشما سوراج نکل رہی تھیں۔ راہداری میں ہونے والی ملاقات میں بھارتی وزیر نے ہاتھ ملایا تو میں نے پوچھا کہ سشما جی! کشمیر آزاد ہو جائے گا ؟ میرے اس سوال پر سشما سوراج بولیں…’’ان شاء اللہ‘‘ بی جے پی کی کٹر ہندو وزیر کے منہ سے ان شاء اللہ کا لفظ سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس شام سشما سوراج نے زعفرانی رنگ کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ کشمیر کی آزادی میرے لئے وہ خواب ہے جس کی تعبیر ہونے والی ہے چونکہ قائد اعظمؒ نے وادی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اس لئے میرا یقین ہے کہ یہ شہ رگ پاکستان کا حصہ بننے والی ہے، پاکستان کے قیام، وجود اور عظمت کے تمام ادوار میں خوابوں کا بڑا کردار ہے۔ وطن کا خواب اس اقبالؒ نے دیکھا تھا جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو جگایا۔

کچھ خوابوں کی تعبیر ابھی باقی ہے، کچھ اشارے صوفی برکت علیؒ جیسے لوگ اپنی زندگیوں میں کر چکے ہیں، عاشقانِ رسولؐ میں سے بڑی تعداد اسی خطے سے ہے، نبیوں کے سردارؐ کو ٹھنڈی ہوائیں اسی خطے سے آتی تھیں، پاکستان کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو ہے، پاکستان کی آبیاری بھی شہیدوں کے لہو سے ہو رہی ہے۔ ایک ترانہ تھا، ایک خواب تھا جس میں پاکستانی پائلٹ حسن صدیقی دشمن کے طیاروں کو مار گراتا ہے، پھر یہ خواب سچ ہوا، صرف تین برس کے بعد۔ تامل فلم کی کہانی بھی ابھی نندن نے پوری کی۔ راستے بنتے جارہے ہیں کشمیر اسی سال آزاد ہو جائے گا، جب سال کے آغاز میں لکھا تو کچھ لوگوں نے تبصرہ کیا، پتہ نہیں ایسے ہی لکھ دیا ہے، پھر پلوامہ دنیا کی زبان پر آگیا، پوری دنیا پلوامہ سے آگاہ ہو گئی، ہر طرف کشمیر کا ذکر ہونے لگا، اس دوران بھارت کو منہ کی کھانا پڑی، وزیر خارجہ سشما سوراج او آئی سی میں مہمان بن کر گئی تھیں مگر کشمیر نے پیچھا نہ چھوڑا۔ بھارتی طیاروں کو ان پاکستانی طیاروں نے مار گرایا جو کسی سے خریدے نہیں بلکہ پاکستان نے خود تیار کئے ہیں، جنوبی ایشیا میں دو اور ممالک پاکستان سے یہ طیارے خرید چکے ہیں۔

پاکستان نے فضا میں برتری ثابت کی، زمین پر بھی دشمن کو مات دی، راجوڑی پر بھارتی رو رہے ہیں، ہم نے بھارتی آرمی چیف کو لاک کر کے دکھا دیا جس کے باعث وہ مودی کی میٹنگ میں تاخیر سے پہنچے۔ بہت کچھ ہو سکتا تھا مگر پاکستان امن کا پیامبر ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے امن کا پیغام دیا، عمران خان نے تو نوبیل انعام کا رخ بھی کشمیر کی طرف موڑ دیا ہے۔ جنرل آصف غفور نے سچ کہا اور پاکستانی میڈیا نے دنیا بھر سے شاباش سمیٹی جبکہ بھارتی میڈیا ’’اپنے جھوٹ کے ہاتھوں رسوا ہوا‘‘۔ بھارتی فوجی ترجمان انجان ثابت ہوئے، بھارتی وزیر اعظم شیطانی میں چالان کروا بیٹھے۔ اب پورا ہندوستان مودی کی کلاس لے رہا ہے، اپوزیشن جماعتیں پیچھے پڑ گئی ہیں، مودی کا خواب تھا الیکشن جیتنا، وہ چکنا چور ہو گیا ہے، مودی کے پاس عوام (جنتا) کو بتانے کے لئے کچھ نہیں، وہ اپنے آخری پتے پر بھی پٹ گیا ہے، اب ساری دنیا سفارتی محاذ پر ہندوستان کے خلاف ہے، دنیا بھر کا میڈیا ہندوستانی میڈیا کو جھوٹا قرار دے رہا ہے، خود کئی ہندوستانی ا ینکروں کو اپنے دیس کے اندر رسوائی کا سامنا ہے۔

اپنی حماقتوں کے ہاتھوں رسوائی اٹھانے والا مودی ہندوستانی لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ ’’اپنی فوج کو برا نہ کہو، آج رافیل ہوتے تو نتیجہ اور ہوتا….‘‘یہ وہی رافیل ہیں جن کے بارے میں راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ ’’اس کے پیسے تو انیل امبانی کو دے دئیے‘‘. الیکشن میں مودی کو شکست صاف دکھائی دے رہی ہے۔ دراصل نریندر مودی نے جتنے دعوے کئے تھے وہ سب جھوٹ نکلے، جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو لوگوں کو بتاتے تھے کہ ’’میرا سینہ 56 انچ کا ہے‘‘۔ سینے کا ناپ بتانے کے بعد مودی مرکزی حکومت سے پانچ سوال کرتے تھے، اس وقت وزیر اعظم من موہن سنگھ تھا، مودی کی زبان پر ہوتا تھا، بتائیے ’’دہشت گردوں کو گولہ بارود کہاں سے آتا ہے؟ باہر سے کیسے آتا ہے؟ دفاعی فورسز آپ کے ہاتھ میں ہیں، دوسرا سوال یہ کہ دہشت گردوں کے پاس پیسہ کیسے آتا ہے جبکہ منی ٹرانزیکشن کا سارا نظام آپ کے ہاتھ میں ہے۔

تیسرا سوال، بیرونی ملکوں سے گھس بیٹھئے آتے ہیں، کارروائیاں کر کے بھاگ جاتے ہیں، وزیر اعظم صاحب نیوی اور بی ایس ایف آپ کے ہاتھ میں ہے، پھر یہ کیوں بھاگ جاتے ہیں، چوتھا سوال، دہشت گردوں کے آپس میں روابط کیسے ہوتے ہیں، مواصلات کا سارا نظام آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ کیوں فون یا میل نہیں پکڑتے؟ پانچواں سوال، بھارت میں کارروائیاں کر کے بھاگے ہوئے دہشت گردوں کو لانے کے لئے کیوں کچھ نہیں کر رہے ؟ بھائیو! بہنو! میرے ان پانچ سوالوں کے جواب دلی سرکار کے پاس نہیں ہیں۔‘‘ ان پانچ سوالوں کے جواب پانے کے لئے ہندوستانی عوام نے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنا دیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ مودی سچا ہے مگر مودی تو جھوٹا نکلا۔ اب ہندوستان کے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اب تو نہ نہرو ہے، نہ گاندھی اور نہ ہی منموہن ، اب تو وزیر اعظم آپ ہیں، اب بتائیے کہ دہشت گردوں کے پاس اسلحہ، پیسہ کیسے آتا ہے، دہشت گرد کیسے آتے ہیں، تھل سینا، جل سینا، وائی سینا آپ کے پاس ہے۔ اب آپ کے جواب کہاں ہیں، دیش کی جنتا آپ سے پوچھ رہی ہے، کہاں گئی بی ایس ایف، کہاں گئی را؟؟ اس صورتحال میں مودی کے پاس سوائے جھوٹ کے کوئی اور آپشن نہیں، کہ

بقول غالب؎
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

مظہر بر لاس

Leave a comment