پرویز مشرف اشتہاری ہیں، انہیں دفاع کا حق نہیں

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوانے کے لیے دائر درخواست پر وفاق کو ہدایت کی ہے کہ اس ضمن میں مکمل ریکارڈ عدالت میں پیش کرے۔ ادھر لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے درخواست میں ان کے خلاف سنگین غداری مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو چیلنج کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی ہے۔ جس میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے کی استدعا کی گئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل دینے سے روک دیا۔ عدالت نے وزارتِ داخلہ کو حکم دیا کہ وزارت قانون سے مکمل ریکارٖڈ لے کر آئیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف اشتہاری ہیں۔ عدالت فیصلہ دے چکی ہے کہ اگر مشرف پیش نہ ہوئے تو ان کا حق دفاع بھی ختم ہو جائے گا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزارتِ داخلہ کے حکام سے کہا کہ آپ کی پٹیشن دیکھی صرف ایک متعلقہ پیرا گراف ہے، وزارتِ قانون سے مکمل ریکارڈ ساتھ لے کر آئیں۔

اس دوران پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کے سامنے بولنے کی کوشش کی تاہم عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل دینے سے روک دیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو بطور متاثرہ فریق نہیں سن سکتے۔ پرویز مشرف اشتہاری ہیں، آپ پیش نہیں ہو سکتے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری وزارتِ قانون و انصاف کو متعلقہ ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا۔ عدالت نے سنگین غداری کیس کے لیے مجاز شکایت کنندہ اور خصوصی عدالت کی تشکیل کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت نے سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

وزارتِ داخلہ کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکا جائے خصوصی عدالت کا غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ بھی معطل کیا جائے۔ وزارتِ داخلہ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو بھی چیلنج کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ کیس ایگزیگٹو آرڈر سے شروع کیا گیا تھا۔ وفاق کی درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب وفاقی کابینہ ہے اور اس کیس میں وفاقی کابینہ نے یہ کیس دائر کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ لہذا خصوصی عدالت کی تشکیل ہی درست نہیں تھی۔

علی رانا

بشکریہ وائس آف امریکہ

ہیرو الیاس اور ناچ گانے سے کشمیر کو آزاد کروانے والے

ناروے میں آزادیٔ رائے کے نام پر ایک اسلام دشمن شر پسند نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی ناپاک جسارت کی تو اُسے روکنے کے لیے وہاں موجود الیاس نامی ایک مسلمان نوجوان شیر کی طرح اُس شیطان پر لپکا۔ الیاس کو پولیس نے فوری گرفتار کر لیا لیکن اس قابلِ فخر نوجوان کی لمحوں بھر کی کارروائی نے اسلام دشمن شر پسند کا قابلِ مذمت فعل بھی اُس طرح مکمل نہ ہونے دیا جس طرح وہ خواہش رکھتا تھا۔ اس واقعہ کی وڈیو منٹوں میں دنیا بھر میں وائرل ہو گئی جس سے اگر ایک طرف مغرب کی اسلام دشمنی ایک بار پھر کھل کر سامنے آئی تو دوسری طرف مسلمان نوجوان الیاس پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک قابلِ فخر ہیرو بن کر ابھرا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس نوجوان کے عمل کو دل کھول کر سراہا لیکن سوائے ترک صدر طیب اردوان کے‘ اسلامی دنیا کے حکمران خاموش رہے۔

سوشل میڈیا کے بھرپور ردّعمل کے نتیجے میں گزشتہ روز دفتر خارجہ پاکستان نے بھی ناروے کے سفیر کو طلب کرکے واقعے پر شدید احتجاج کیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان نے بھی ملعون شخص کو روکنے والے نوجوان کو سلام پیش کیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جہاں ناروے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر مسلمانوں کے ہیرو الیاس کو رہا کیا جائے، وہیں سوال اٹھائے گئے کہ مسلمان حکمران اور ہمارا میڈیا اس مسئلے میں خاموش کیوں رہا اور اُس ہیرو کو کیوں نہیں سراہا گیا جس نے پوری امتِ مسلمہ کے جذبات کی دلیرانہ انداز میں بہترین ترجمانی کی۔ سوشل میڈیا پہ کسی نے بہت خوب لکھا: ’’ایک بات کہوں، مارو گے تو نہیں؟ 40 اسلامی ممالک کا اتحاد اور ان کے رہنما میرے لیے اس نوجوان (الیاس) کی پائوں کی جوتی کے برابر بھی نہیں‘‘۔

بالکل درست کہا! ہمارا ایسے اتحاد اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے کیا لینا دینا اور اُن سے ہماری کیا ہمدردی ہو سکتی ہے جب مغرب میں آزادیٔ رائے کے نام پر آئے دن بے حرمتی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور اُنہیں روکنے کے لیے نہ یہ اتحاد کچھ کرتا ہے اور نہ ہی ہمارے حکمران کوئی عملی قدم اٹھا رہے ہیں۔ تقریر تو ہمارے وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں بہت اچھی کی تھی اور مغرب کے دُہرے معیار اور آزادیٔ رائے کے نام پر بے حرمتی اور اسلام دشمن اقدامات کی اجازت دینے کی پالیسی کی بھی مذمت کی تھی لیکن عملی طور پر کیا ہوتا ہے، اُس کا سب کو انتظار ہے۔ ویسے تقریریں تو کشمیر کے حق میں بھی بہت اچھی کی گئیں لیکن عملی طور پر جو ہمیں کرنا چاہیے وہ ہم کر نہیں رہے۔

ہم کشمیر کو بھارتی تسلط اور اُس کے مظالم سے کیسے آزاد کروا رہے ہیں، اس کی حالیہ مثال ملاحظہ فرمائیے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے ’’اظہارِ یکجہتی ٔ کشمیر‘‘ کے لیے اشتہار شائع کیے گئے جن کے مطابق  ’’کشمیر کے نہتے اور معصوم عوام پر جاری بھارتی ظلم و بربریت کو بین الاقوامی سطح پر نئے انداز میں اجاگر کرنے کے لیے حکومت پنجاب کے زیر اہتمام نامور بینڈز کے ساتھ میوزیکل نائٹ کا انعقاد مورخہ 24 نومبر 2019ء، شام 5 بجے، بمقام گورنر ہائوس مال روڈ لاہور۔ عوام اور حکومت پنجاب کشمیری عوام کی جدوجہد ِ آزادی کی حمایت میں افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘‘۔ اس اشتہار کو پڑھ کر سر شرم سے جھک گیا کہ دیکھیں ہم کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے ناچ اور گانے بجانے پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کشمیر کو آزاد کروانے کے اس گھٹیا طریقے پر حکومت کو کافی لے دے کا سامنا کرنا پڑا جس پر یہ کنسرٹ منسوخ کر دیا گیا۔

کشمیر کو آزاد کروانا ہے تو ناچنے گانے والوں کے بجائے مسلمانوں کے ہیرو الیاس کے جنون اور جذبہ کی تقلید کرنا ہو گی۔ حال ہی میں پاکستان کی ایک گلوکارہ نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے محکمہ دفاع کے ایک اہم ادارے کے اندر کشمیر کے حوالے سےاپنے ایک کنسرٹ کا حوالہ دیا تو سوشل میڈیا پر شور مچنے کے بعد اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ ناروے کے واقعہ کے دنوں میں ہی آسٹریلیا کے ایک ریسٹورنٹ میں ایک آسٹریلوی شدت پسند نے وہاں موجود تین مسلمان خواتین سے بحث کے بعد ایک باپردہ حاملہ مسلمان خاتوں پر لاتوں اور گھونسوں سے حملہ کر دیا۔ اس ظلم کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی اور ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی کہ نائن الیون کے بعد کی امریکہ و یورپ کی اسلام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے مسلمان مغرب میں بہت غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔

مغرب مسلمانوں کو شدت پسند کے طور پر پیش کرتا رہا لیکن اب آئے روز امریکہ و یورپ میں رونما ہونے والے واقعات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ مغربی معاشرے ایسی شدت پسندی کی طرف سے تیزی سے گامزن ہیں جہاں نفرت، تشدد، نسلی پرستی اور مذہبی تعصب خوب تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں اور یہ خود ان معاشروں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی اسی نفرت اور مذہبی تعصب کو پروان چڑھا رہا ہے جو بھارت کو دیمک کے طرح اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ مغرب اور بھارت کی اس نفرت انگیزی کے برعکس دنیا بھر میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں جو امن، مذہبی رواداری، حسن سلوک اور مظلوم کی حمایت کا درس دیتی ہیں، چاہے اس کے لیے فوجی طاقت یعنی جہاد کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑ جائے۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس ہے کیا ؟

سابق صدر و آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے آئین معطل کر دیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2013 میں پرویز مشرف پر آئین سے بغاوت کا مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ پرویز مشرف کے خلاف ماورائے آئین اقدامات کے الزام میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ خصوصی عدالت نے 19 نومبر کو سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ خصوصی عدالت نے گزشتہ سماعت کے دوران ہدایت کی تھی کہ پرویز مشرف کے وکیل چاہیں تو تحریری دلائل جمع کرا سکتے ہیں۔

علی رانا

بشکریہ وائس آف امریکہ

امریکی کانگریس رکن نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کیلئے ٹرمپ سے مدد مانگ لی

امریکی کانگریس کمیٹی کے سربراہ نے ٹرمپ انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکی سفارتکاروں کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کروانے اور صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھارت پر زور ڈالے۔ ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی برائے ایشیا کے سربراہ بریڈ شیرمین نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو لکھے گئے خط میں مذکورہ درخواست کی۔ گزشتہ ماہ ذیلی کمیٹی نے ایشیا میں انسانی حقوق سے متعلق سماعت منعقد کی تھی جس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اجلاس کے شرکا نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا اور نئی دہلی کی جانب سے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق 5 اگست کے فیصلے پر بھی سوال اٹھایا تھا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس ویلز کو لکھے مراسلے میں بریڈ شیرمین نے امریکی سفارت کاروں کو مقبوضہ کشمیر بھیجنے کی کوششیں تیز کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ‘مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق اتنا پرتشویش ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہاں سے قابل اعتماد معلومات موصول نہیں ہو رہی’۔ بریڈ شیرمین نے ایلس ویلز کو یاد دلایا کہ انہوں نے 22 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں پوچھا تھا کہ کیا امریکی سفارت کار 5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وہاں کا دورہ کرکے زمینی حقائق رپورٹ کر سکتے ہیں ؟۔ علاوہ ازیں میڈیا میں جاری کیے گئے خط میں بریڈ شیرمین نے کہا کہ ‘ اس کے جواب میں آپ (ایلس ویلز) نے کہا تھا کہ امریکا نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت طلب کی لیکن بھارتی حکومت نے وہ درخواستیں مسترد کر دیں۔

انور اقبال  

بشکریہ ڈان نیوز