خان صاحب کا باجوہ ڈاکٹرائن

فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا
وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا
(انور شعور)
خان صاحب کو جو خوبی دیگر سیاست گروں سے منفرد کرتی ہے وہ ہے ان کی یک رخی۔ بندہ پسند ہے تو ضرورت سے زیادہ پسند ہے اور وہی بندہ ناپسند ہے تو بے پناہ ناپسند ہے۔ خان صاحب بیک وقت بہت سے محاذ کھولنے کا جھاکا ضرور دیتے ہیں مگر عملاً ایک وقت میں کسی ایک کو ہی ہدف بناتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے تو دوسرے کھلونے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یا پھر ٹائم پاسی کے لیے پرانے کھلونے کو توڑ کے ہی ریورس انجینئرنگ کا آنند لیتے ہیں۔ مثلاً نوے کی دہائی میں نواز شریف ان کی گڈ بک میں جب تک تھے، تب تک تھے۔ پھر اسی نواز شریف کے پیچھے پڑے تو ’گو نواز گو‘ کے سوا فضا میں کوئی نعرہ نہیں گونجا۔ اس ون ڈش حکمتِ عملی سے بیزار ہوئے تو مینیو میں زرداری کو بھی بطور سلاد رکھ لیا اور اس سلاد پر مولانا فضل الرحمان کی گارنش بھی پھیر دی۔ جب برسرِاقتدار آئے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی فراست کے ایسے اسیر ہوئے کہ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے تمام گھوڑے کھول لیے اور پوری پارلیمنٹ کو ایکسٹینشن کے رتھ میں جوت دیا اور جب جنرل فیض حمید پسند آئے تو یوں پسند آئے کہ ان کی خاطر قمرجاوید باجوہ سے بھی بھڑ گئے۔

فوج میں اگرچہ سپاہ سالار بااختیار ہوتا ہے مگر وہ حکمتِ عملی سمیت تمام اہم فیصلے پرنسپل سٹاف آفیسرز اور کور کمانڈرز کو اعتماد میں لے کر ضروری مشاورت کے زریعے کرتا ہے۔ فوج اور پی ٹی آئی میں یہی بنیادی فرق ہے۔ مگر خان صاحب اس بابت حق الیقین کی سطح پر ہیں کہ مارشل لا نہ لگانے والا سادہ سپاہ سالار بھی پوری سپاہ کو اپنی من مرضی کے مطابق جیسے چاہے چلا سکتا ہے اور آئی ایس آئی کا سربراہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بعض اوقات اپنی بھی نہیں سنتا۔ چنانچہ خان صاحب کا نیا ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ بھی اسی سوچ کی پیداوار ہے۔ اس وقت نہ عمران خان وزیرِ اعظم ہیں، نہ فیض حمید جنرل ہیں اور نہ ہی قمر جاوید باجوہ سپاہ سالار مگر خانِ اعظم جب تک دوبارہ وزیرِ اعظم نہیں بن جاتے تب تک ان پر باجوائیت طاری رہے گی اور ہر جلسے، انٹرویو اور قوم سے ہفتہ وار خصوصی خطاب میں باجوہ کا نام لے لے کر ہاتھ پھیلا پھیلا کے تبرائی کوسنے جاری رہیں گے۔

تاوقتیکہ توپ دم کرنے کے لیے کوئی نیا حاضر یا غائب ہدف ہتھے نہ چڑھ جائے۔
بھرے سٹیڈیم کی تالی پیٹ توجہ مسلسل خود پر رکھنے کے لیے باجوائی وکٹ پر نیٹ پریکٹس جاری رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اپنی اقتداری ناکامیوں کی ٹاکیاں سابقین کے سینگوں سے باندھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ بھی قابلِ قبول ہو گا کہ میری گلی میں پچھلے چار برس سے اس لیے پانی کھڑا ہے کیونکہ باجوہ نے سولنگ نہیں لگانے دی۔ خان صاحب کی کچیچیاں اپنی جگہ، پر انتخابات تب ہی ہوں گے جب اطمینان ہو جائے کہ کسی کو اتنی اکثریت حاصل نہ ہو جائے کہ وہ آئین و قواعد و ضوابط کو من مرضی سے موڑنے یا بدلنے کی کوشش کرے اور روایتی توازنِ طاقت کو گڑبڑا دے اور ویٹو پاور بھی قبضا لے۔ خان صاحب چاہیں نہ چاہیں انھیں بادشاہ گروں کی با اعتماد مسلم لیگ ق اور اسی قماش و خمیر سے اٹھی کچھ دیگر ضروری جماعتوں کو ساتھ لے کر ہی چلنا پڑے گا۔

خان صاحب کو دوبارہ اقتدار کی قیمت حسبِ سابق دل پر پتھر رکھتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں ادا کرنا پڑے گی اور قطعی اکثریت کی خواہشاتی گولی کو سادہ اکثریت کے پانی سے نگلنا پڑے گا۔ وہ جتنے چاہیں نئے گیت گا لیں مگر آرکسٹرا نہیں بدلے گا۔ اس کوچے میں بیساکھیاں نہ بیچی جا سکتی ہیں نہ خریدی جا سکتی ہیں۔ کرائے پر طے شدہ مدت کے لیے ضرور فراہم کی جا سکتی ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی وغیرہ وغیرہ تو کھیل کے قوانین ہضم کرنے کی مشق سیکھ چکے ہیں۔ خان صاحب کو اسی دائرے میں رکھنے اور اس کا عادی بنانے کا کام گجرات کے چوہدریوں کے ذمے ہے۔ جب تک چوہدری پہرے دار ہیں تب تک اسٹیبلشمنٹ کو کوئی غم نہیں۔ ایسے ماہر سائیسوں کے ہوتے غیرجانبداری کے چسکے لینے میں بھی کیا حرج ہے۔ ایک سینیئر چینی سفارتکار نے پاک چین قربت پر ناک بھوں چڑھانے والے اپنے ہم منصب امریکی سفارتکار سے کہا تھا کہ پاکستان اس خطے میں چین کا اسرائیل ہے۔ اسی کسوٹی پر پاکستان بالخصوص پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ق اسٹیبلشمنٹ کا اسرائیل ہے۔ پی ٹی آئی کو اگر طاقت کی منڈی میں اپنی فصل کے اچھے دام چاہئیں تو ق کو آڑھت دیے بغیر کوئی راستہ نہیں۔ ورنہ تو فصل ارزاں تر بیچنے کے خواہش مندوں کی قطار بندھی ہے۔ ق سے صرف قائدِ اعظم نہیں ہوتے۔ ق سے قینچی بھی ہوتی ہے۔

 وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

گزر آیا میں چل کے خود پر سے

جو مطمئن ضمیر ہے، وہ تو خیر ہے ہی مطمئن۔ مگر جو ضمیر پھانس بن کے دل میں ٹیسیں اٹھاتا رہتا ہے، اس سے نپٹنے کا ایک طریقہ تو یہی ہے کہ اسے ادھر ادھر کی کہانیاں سنا کے تھپک تھپک کے سلا دیا جائے اور اس خود فریبی میں رہا جائے کہ جو کچھ بھی مجھ سے یا ہم سے سرزد ہوا اس کا قصور وار تنہا میں ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سامنے والا اپنی غلطی تسلیم کرے نہ کرے آپ سچائی کے ساتھ اپنی وہ غلطیاں، جن کا سامنا آپ خود بھی کرنے سے جھجک رہے ہیں، دل بڑا کر کے تسلیم کر لیں اور اس کانٹے کو ہمیشہ اپنے ذہن سے نکال کے مطمئن ہو کر آگے بڑھ جائیں۔ مگر ہم میں سے اکثر زندگی بھر اس پلِ صراط سے گزرنے کے بارے میں یہ سوچ سوچ کے ڈرتے رہتے ہیں کہ جانے دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچے۔ حالانکہ دنیا آپ کے بارے میں آپ سے پوچھے بغیر پہلے ہی سے کوئی نہ کوئی رائے قائم کر چکی ہوتی ہے۔ غلطی کا اعتراف کرنے سے اس رائے میں تبدیلی بہت کم آتی ہے۔ دنیا آپ کے عمل کی روشنی میں اپنی رائے بناتی ہے۔

لیکن جب آپ اپنی کسی انفرادی یا اجتماعی غلطی یا لغزش کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں تو دنیا کے سامنے آپ کا قد بڑھے نہ بڑھے اپنی نگاہوں میں آپ مزید چھوٹے ہونے کی ازیت سے ضرور نجات پا لیتے ہیں۔ بصورتِ دیگر آپ زندگی بھر خود کو صفائیاں پیش کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً جرمنی میں سن 1930 اور سن 1940 کے عشرے میں جو کچھ بھی ہوا۔ جنگِ عظیم کے بعد کا جرمنی چاہتا تو اس کی ہزار تاویلیں پیش کر سکتا تھا۔ مگر جرمنوں نے اس تھکا دینے والی سعیِ لاحاصل میں پڑنے کے بجائے اعتراف کر کے قومی ضمیر بچا لیا اور پھر ہمہ تن تعمیرِ نو کے ضروری کام میں مصروف ہو گئے۔ جاپانیوں نے بیسویں صدی کے چوتھے عشرے تک کوریا اور شمالی چین پر قبضے کے دوران جو کچھ کیا، اس پر بعد میں آنے والی چند جاپانی حکومتوں نے تھوڑے بہت تاسف کا اظہار تو کیا مگر کھل کے زیادتیوں کا اعتراف نہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک چین اور کوریا کی قومی نفسیات میں جاپان پھانس کی طرح چبا ہوا ہے۔

جاپان کے ان دونوں ممالک سے اقتصادی و سفارتی تعلقات بظاہر معمول کے مطابق ہیں مگر شیشے کی ایک دیوار بھی حائل ہے۔ وہ الگ بات کہ جاپان خود بھی دوسری عالمی جنگ میں تباہ ہو گیا اور جاپان بھی امریکہ سے اسی طرح معافی کا منتظر ہے جس طرح کوریا اور چین جاپانی معافی کے انتظار میں ہیں۔ یہی حالت فرانس کی بھی ہے جس نے الجزائر میں لگ بھگ ڈیڑھ سو سالہ نوآبادیاتی دور اور بالخصوص پچاس کے عشرے میں جو کچھ بھی کیا۔ اس کے ساٹھ برس بعد آج اگرچہ الجزائر اور فرانس کے درمیان بظاہر کوئی خاص کشیدگی نہیں، پھر بھی کسی نہ کسی موقع پر فرانس کی نوآبادیاتی زیادتیوں کا سوال دو طرفہ تعلقات کے پانیوں میں پھولی ہوئی لاش کی طرح بار بار ابھرتا رہتا ہے۔ برطانیہ اور انڈیا کے مابین گہرے تاریخی تعلقات ہیں لیکن آج بھی برطانیہ سو برس گزرنے کے باوجود جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام پر غیر مشروط معافی مانگنے کی دہلیز سے ایک قدم پیچھے ہی ہے۔

اس بابت جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی فراست کے سبب قائم ہونے والے سچائی کمیشن نے بین الانسلی تعلقات میں پڑنے والے گہرے کھاؤ کم کرنے میں خاصا اہم کردار ادا کیا اور اس کے بعد کم از کم وہاں کالے اور گورے کے درمیان موجود تاریخی نفرت کو مزید بڑھاوے کا موقع نہ مل سکا۔ افسوس کہ اس مثال کو باقی دنیا اپنانے سے آج تک ہچکچا رہی ہے۔ معافی مانگنے اور کھلے دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف بزدلی نہیں غیر معمولی بہادری ہے۔ اس ایک فعل سے نہ صرف انفرادی و اجتماعی اعلی ظرفی جھلکتی ہے بلکہ اپنی ذات پر اعتماد کا بھی مظاہرہ ہوتا ہے۔
گزذر آیا میں چل کے خود پر سے
اک بلا تو ٹلی میرے سر سے (جون ایلیا)
اس مرحلے کے بعد تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق لکھنے اور حقائق گھڑنے کے ازیت ناک کام سے نجات مل جاتی ہے۔ مگر اس کے لیے جو غیر معمولی بلوغت درکار ہے شاید انسان انفرادی و اجتماعی سطح پر ابھی اس منزل تک نہیں پہنچا۔ یہ احساس البتہ پہلے کے کسی بھی زمانے سے زیادہ پذیرائی پا رہا ہے کہ اعتراف میں ہی نجات ہے۔

یہ جاننے کے لیے کوئی غیر معمولی مورخ ہونا ضروری نہیں کہ سن 1947 میں مسلمان، سکھ اور ہندو بڑی تعداد میں مرے اور ایک دوسرے کو مارا بھی۔ چنانچہ پھر درسی کتابوں میں اس بات پر ضرورت سے زور دینے کی کیا ضرورت ہے کہ صرف ہندو یا سکھ ہی اجڑے یا صرف مسلمان ہی مرے۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے اکیاون برس ہو گئے۔ نصف صدی بعد بھی سبکدوش ہونے والے پاکستانی سپاہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو ازخود یہ بحث کیوں اٹھانا پڑ گئی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری فوج پر نہیں سیاسی طبقے پر عائد ہوتی ہے ( حالانکہ ملک میں مارشل لا حکومت تھی)۔ اگر درسی کتابوں میں بنگالیوں کے غیر بنگالیوں پر مظالم کا تذکرہ ٹھیک ہے تو بنگالیوں پر ریاستی مظالم سے یکسر انکار کیوں ٹھیک ہے؟ اگر درسی کتابوں میں ملک ٹوٹنے کی ذمہ داری بھارتی سازش کو قرار دیا جاتا ہے تو اس سازش کو ناکام نہ بنانے کے اسباب اور ذمہ داروں کا تذکرہ کرنے سے کیوں ہچکچایا جاتا ہے؟

اگر اپنوں کا کوئی قصور نہیں تو اپنے ہی قائم کردہ حمود الرحمان جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آج تک سرکاری سطح پر شائع کرنے سے کس نے روکا رکھا ہے۔ یقیناً اس رپورٹ میں آئندہ ایسے حالات سے بچنے کے لیے کچھ ٹھوس سفارشات بھی کی گئی ہوں گی۔ چلیے رپورٹ شائع نہ کیجیے مگر اس کی سفارشات پر بھی کیا خاموشی سے عمل ہوا یا نہیں؟ اگر ہوا ہوتا تو آج اس کا کوئی نہ کوئی عکس دکھائی دے رہا ہوتا۔ وہ عکس کہاں تلاش کریں؟ بنگالی انیس و اکہتر کے واقعات کو تحریکِ آزادی کہتے ہیں۔ آپ اگر آج بھی اپنی نئی نسل کو یہ بتا رہے ہیں کہ یہ آزادی کی تحریک نہیں تھی بلکہ ہندو اساتذہ کی ورغلائی ایک قوم پرست بھارت نواز تنظیم کی سازش تھی، تو پھر بھارت کے اس موقف کا موثر توڑ کیسے ہو گا کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ حقِ خود اختیاری کا مسئلہ نہیں بلکہ چند مٹھی بھر پاکستانی ایجنٹوں کا برپا کردہ ہنگامہ ہے جسے سختی سے دبانا ایک قومی ذمہ داری ہے۔

یقیناً بنگالیوں اور کشمیریوں میں فرق ہے۔ کشمیری ہمارے ساتھ نہیں رہے مگر ہم ان سے ہونے والی تاریخی ناانصافی پر بے چین رہتے ہیں۔ بنگالی تو چوبیس برس ہمارے ساتھ رہے، ہم تب بھی ان کی تکالیف کو غیر سنجیدگی سے لیتے تھے اور آج اکیاون برس بعد بھی ان کی کہانی کو یکسر مسترد کرنے پر بضد ہیں۔ جب وہ آپ کے ساتھ تھے تب بھی آپ خود کو عملاً ان کا بڑا بھائی سمجھتے تھے۔ تو پھر آج بھی خود کو بڑا بھائی تصور کر کے چھوٹے بھائی کے سامنے اپنے حصے کی غلطیوں کا اعتراف کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اسے کیوں پیشگی نتھی کیا جا رہا ہے کہ تم بھی اپنی غلطی مانو تو ہم بھی مان لیں گے؟ اس سے اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو، یہ ضرور ہو گا کہ اگلے برس سولہ دسمبر کو آپ اپنے کردار کی صفائی پیش کرنے کی مسلسل ازیت سے نجات پا لیں گے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

سنگاپور کی مثال

سنگا پور 1965 تک ملائیشیا کا انتہائی پس ماندہ علاقہ ہوتا تھا‘ زمین دلدلی‘ ویران اور بنجر تھی‘ لوگ سست‘ بے کار اور نالائق تھے‘ یہ صرف تین کام کرتے تھے‘ بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے‘ چوری چکاری کرتے تھے ‘ بحری جہازوں سے چوہے نکال کر کھاتے تھے اور بس‘ ملائیشیا ان سے تنگ تھا لہٰذا بڑا مشہور واقعہ ہے‘ تونکو عبدالرحمن کے دورمیں سنگا پور نے آزادی مانگی اور پارلیمنٹ کے کل 126 ارکان نے سنگاپور کے حق میں ووٹ دے دیے۔ بل کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں تھا‘ پارلیمنٹ کا کہنا تھا‘ ہم نے ان بے کار لوگوں اور دلدلی زمین کو اپنے پاس رکھ کر کیا کرنا ہے اور یوں سنگا پور آزاد ہو گیا‘ یہ قدرت کی طرف سے سنگا پور کے لیے پہلا تحفہ تھا‘ دوسرا تحفہ اللہ تعالیٰ نے اسے لی کو آن یو کی شکل میں دیا۔ لی کو آن سنگا پور کے وزیراعظم بنے اور اس شخص نے ان دلدلی زمینوں کا مقدر بدل کر رکھ دیا اور بیس سال بعد 42 بائی 23 کلو میٹر کی یہ اسٹیٹ دنیا کی کام یاب اور تیزی سے ترقی کرتی ریاست بن چکی تھی‘ اس میں امن بھی تھا‘ خوش حالی بھی‘ روزگار بھی‘ سرمایہ بھی اور مستقبل بھی‘ سنگا پور دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوام عالم کو بتایا‘ ملکوں کے لیے وسائل نہیں قوت ارادی ضروری ہوتی ہے۔

ملکوں کو آبادی‘ ہنر مندی‘ رقبہ اور تیل بھی درکار نہیں ہوتا‘ ان میں بس آگے بڑھنے کا ارادہ ہونا چاہیے‘ لی کو آن یو ایک پوری یونیورسٹی تھے‘ اس شخص نے دو دہائیوں میں پوری قوم بدل کر رکھ دی‘ کیسے؟ انھوں نے پانچ اہم کام کیے‘ وزیراعظم لی نے سب سے پہلے ملک میں امن قائم کر دیا‘ مذہب کو ذاتی مسئلہ بنا دیا‘ آپ مسلمان ہیں یا سکھ‘ عیسائی‘ بودھ یا ہندو کسی کو کوئی غرض نہیں‘ مسجد کے ساتھ چرچ‘ مندر اور ٹمپل بنا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کوئی شخص‘ کسی شخص کے مذہب کے بارے میں سوال نہیں اٹھائے گا اور ایک مذہب کا پیروکار دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں جا سکے گا اور اس پر کوئی اعتراض کرے گا اور نہ تبلیغ‘ قانون کی نظر میں سب کو برابر کر دیا۔ ملک میں کوئی کلاس کلچر نہیں تھا‘ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں تھی‘ سب برابر تھے اور ہیں‘ ملک میں ہر قسم کے احتجاج پر بھی پابندی لگا دی اور سڑکیں‘ گلیاں اور بازار ہر قیمت پر کھلے رہیں گے اور کوئی شخص کسی کے لیے سیکیورٹی رسک نہیں بنے گا‘ دو‘ لی کو آن یو نے چن چن کر اہل اور ایمان دار لوگ اہم عہدوں پر تعینات کر دیے اور انھیں کام کرنے کا بھرپور موقع دیا‘ لوگ آج بھی تیس تیس سال سے اپنے عہدوں پر بیٹھے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔

ایمان داری کا یہ عالم تھا لی کوآن یو کے ڈیڑھ درجن منسٹر اور بیوروکریٹس کرپشن کے الزام کے بعد خودکشی کر گئے‘ حکومت اہل لوگوں کو دوسرے ملکوں سے بھی بھرتی کر لیتی تھی‘ مجھے سابق صدر ممنون حسین نے ایک بار بتایا‘ میں 1999 میں گورنر سندھ تھا‘ لی کو آن یو دورے پر آئے‘ میں نے انھیں کھانے پر بلایا‘ دعوت کے دوران میں نے ان سے کہا‘ ہم کراچی پورٹ کو بھی سنگا پور پورٹ کی طرح ڈویلپ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ٹپ دیں‘ میری بات سن کر لی کو آن یو دیر تک ہنستے رہے اور پھر بولے‘ آپ کیپٹن سعید سے رابطہ کریں‘ یہ پاکستانی بھی ہیں اور کراچی کے شہری بھی ہیں‘ ہم نے ان کی مدد سے سنگاپور پورٹ ڈویلپ کی تھی‘ ممنون حسین یہ سن کر شرمندہ ہو گئے اور یہ دیر تک لی کو آن یو کی طرف دیکھتے رہے‘ تین‘ لی کو آن یو نے اپنا ملک پوری دنیا کے بزنس مینوں کے لیے کھول دیا‘ کوئی کہیں سے بھی آ سکتا تھا اور ملک میں کام کر سکتا تھا بس ایک شرط تھی‘ اس کے پاس پیسہ اور تجربہ ہونا چاہیے۔

مثلاً بھارت کے ایک مسلمان مشتاق احمد نے 1971 میں سنگاپور میں المصطفیٰ اسٹور بنایا‘ یہ اب ایک طویل کمپلیکس بن چکا ہے‘ مشتاق احمد نیک نیت بزنس مین ہے‘ منافع کم اور کوالٹی زیادہ پر یقین رکھتا ہے لہٰذا یہ اب تک کھرب پتی بن چکا ہے اور کسی نے آج تک اسے تنگ نہیں کیا اور یہ یہاں اکیلا نہیں ہے‘ ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں اور ہر شخص نے مشتاق احمدکی طرح ترقی بھی کی اور یہ دوسروں کے لیے روشن مثال بھی بنا‘ چار‘ لی کو آن یو نے تعلیم اور ہنر پر خصوصی توجہ دی‘ سنگا پور کے تعلیمی ادارے محض تعلیمی ادارے نہیں ہیں۔ یہ ہنر مند اور اہلیت کی لیبارٹریاں ہیں لہٰذا یہاں جہاں ایک طرف 96 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں وہاں یہ ہنر مند بھی ہیں‘ یہ خود بھی کما رہے ہیں اور ملک کو بھی کما کر دے رہے ہیں‘ لی کو آن یو نے پوری قوم کو تہذیب بھی سکھا دی‘ اس کا آغاز شخصی صفائی سے کیا گیا‘ لوگوں کو ٹوائلٹ استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا گیا‘ ملک میں مسلم شاور اور ٹوائلٹ پیپر لازمی قرار دے دیا‘ ہاتھوں کی صفائی کو قانون بنا دیا۔

تھوکنے پر پابندی لگا دی‘ سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آج بھی آپ اگر کسی سڑک یا عوامی جگہ پر تھوکتے‘ پان کی پیک گراتے یا ناک صاف کرتے پکڑے جائیں تو آپ سیدھے جیل جائیں گے لہٰذا آپ کو پورے ملک میں کوئی شخص گلا صاف کرتا یا تھو تھو کرتا دکھائی نہیں دے گا‘ آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے اس پابندی کے بعد اب سنگا پور کے لوگوں میں تھوکنے کی خواہش ہی ختم ہو گئی ہے۔ مزید لی کو آن یو کا خیال تھا سگریٹ‘ پان اور چیونگم گند پھیلاتے ہیں لہٰذا اس نے ان پر بھی پابندی لگا دی‘ سنگاپور میں سگریٹ بہت مہنگا ہے اور پینے کے لیے جگہیں بھی مختص ہیں اگرکوئی شخص ان کے علاوہ کسی جگہ ہاتھ میں ڈبی یا سگریٹ پکڑ کر کھڑا ہو تو اسے پولیس پکڑ لیتی ہے‘ چیونگم پر آج بھی پابندی ہے آپ ملک میں چیونگم لا بھی نہیں سکتے اور پانچ ‘ لی کو آن یو نے پورے ملک میں انفرااسٹرکچر بچھا دیا‘ سنگا پور میں ہائی ویز‘ میٹروز اور پل اس وقت بنے جب مشرق میں ان کا تصور بھی نہیں تھا‘ پورے ملک میں پینے کا صاف پانی حکومت سپلائی کرتی ہے‘ آپ کسی بھی ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں۔

میں نے آئی ایل او کی کانفرنس میں شرکت کی‘ کانفرنس میں 48 ممالک کے وفود آئے تھے لیکن کسی کے میز پر پانی کی بوتل نہیں تھی‘ پانی کے جگ تھے اور یہ جگ عملہ ٹونٹی سے بھر کر رکھتا تھا‘ ہوٹلوں کے اندر بھی ٹونٹیاں لگی ہیں‘ ائیرپورٹ کے بزنس لاؤنجز میں بھی پانی کی بوتلیں نہیں ہوتیں‘ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا تصور تک نہیں تاہم وسائل کی بچت ضرور کی جاتی ہے‘ فالتو لائیٹ اور جلتا ہوا چولہا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم پاکستانی مسلمان ہیں اور پاکستانی مسلمانوں کی یہ خاص نشانی ہے ہم مانتے نہیں ہیں‘ مشتاق احمد یوسفی نے پاکستانی مسلمانوں کے بارے میں تاریخی فقرہ کہا تھا‘ میں اس فقرے کو قابل ہضم بنانے کے لیے اس میں تھوڑی سی تحریف کر رہا ہوں‘ یوسفی صاحب نے لکھا‘ مجھ سے ایک عربی نے کہا‘ بھائی مسلمان ہم بھی ہیں لیکن آپ لوگ کچھ زیادہ ہی کھسک گئے ہیں (کھسک کی جگہ ایک تیزابی لفظ تھا)‘ یہ بات سو فیصد درست ہے۔

ہم لوگ حقیقتاً خوف ناک حد تک کھسکے ہوئے ہیں لہٰذا ہم نے اپنے ملک اور اپنی دونوں کی مت مار دی‘ میں اب تک 105 ملک پھر چکا ہوں‘ آپ یقین کریں مجھے کسی ملک میں پاکستان جتنا پاگل پن دکھائی نہیں دیا‘ مجھے کوئی قوم اپنے آپ کو اس طرح پھانسی دیتی اور اپنی ہی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹتی نظر نہیں آئی‘ آپ یقین کریں ہم تباہی اور خودکشی کی خوف ناک مثال ہیں‘ ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں اور بھکاری بھی ہیں‘ دنیا کی سب سے بڑی فوج کے مالک بھی ہیں اور ہم سے ملک بھی نہیں چل رہا اور ہم مسلمان بھی ہیں اور جعلی آب زم زم بھی بیچ رہے ہیں چناںچہ میں کھل کر عرض کر رہا ہوں‘ ہم نے اگر اب بریک نہ لگائی تو ہم سال بھی نہیں نکال سکیں گے۔ ہم من حیث القوم منافق ہیں‘ہم مذہبی طور پربھی منافق ہیں‘ ہم اللہ اور رسولؐ کا نام لے کر دوسروں کو قتل تک کر دیں گے لیکن رسولؐ اور اللہ کا کوئی بھی حکم نہیں مانیں گے لہٰذا میرا پہلا مشورہ ہے پلیز مذہب کو ذاتی مسئلہ بنا دیں‘ دوسروں کے عقائد پر اعتراض اور مذہبی تہواروں کے دوران سڑکیں بند کرنے پر پابندی لگا دیں اورلاؤڈ اسپیکر بین کر دیں‘ پورے ملک میں مصر‘ تیونس‘ مراکو اور ازبکستان کی طرح ایک وقت میں اذان اور نماز ہو‘ قرآن مجید ترجمے کے ساتھ شایع ہو‘ خطبہ حکومت جاری کرے۔

مساجد کوئی بھی بنائے لیکن یہ چلیں حکومت کی نگرانی میں اور عقائد کے بجائے عوام کو مسجد میں مذہب کے ثقافتی اور اخلاقی پہلو سکھائے جائیں‘ دوسرا مشورہ ملک کو ہر قسم کی تجارت‘ صنعت کاری اور سرمایہ کاری کے لیے کھول دیں‘ دوبئی‘ سنگا پور اور ترکی کی طرح دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو آنے دیں اور کام کرنے دیں‘ کسی سے رقم کے بارے میں نہ پوچھیں‘ یہ یاد رکھیں سیاحت دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے‘ آپ اس پر توجہ دیں‘ کراچی سے ایران کے بارڈر تک ڈیڑھ ہزار کلو میٹر کوسٹل لائین ہے۔ آپ یہ یورپی ملکوں کو دے دیں‘ یہ یہاں ٹیکس فری یورپی شہر بنائیں اور چلائیں‘ حکومت راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے اور چوتھا مشورہ مہربانی فرما کر ملک میں استحکام پیدا کریں‘ فوج تمام سیاست دانوں کو بٹھائے‘30 سال کا پلان بنائے اور اس کے بعد جو اس پلان کی خلاف ورزی کرے اسے پکڑ کر الٹا لٹکا دیں‘ یہ ملک اس کے بغیر نہیں چل سکے گا‘ ہمیں لی کو آن یو بننا پڑے گا۔

خدا کی پناہ 683 مربع کلو میٹر کے سنگاپور کے مالیاتی ذخائر اڑھائی سو بلین ڈالر ہیں اور ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی ایک ایک بلین ڈالر کے لیے کشکول لے کر پھر رہے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمیں آپس میں لڑنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی‘ ہم پاگل پن کے اس لیول پر چلے گئے جہاں انسان لذت لینے کے لیے خودکشی تک کر جاتا ہے چناں چہ خدا خوفی کریں اور آنکھیں کھولیں‘ ہم برباد ہو چکے ہیں۔

جاوید چوہدری

بشکریہ ایکسپریس نیوز

معیشت، سیاسی استحکام اور عام انتخابات

پاکستان اس وقت جن معاشی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے، ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ سیاسی استحکام صرف اس صورت میں آ سکتا ہے کہ فوری طور پرنئے عام انتخابات کا انعقاد ہو اور ان کے نتیجے میں ایک مضبوط حکومت قائم ہو۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بھی اگلے روز اپنے ایک بیان میں ملک کو درپیش حالات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ سیاسی استحکام اور میثاق معیشت ہی پاکستان کی قومی سلامتی کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم بھی سیاسی عدم استحکام سے پریشان ہیں اور انہوں نے اپنے بیان میں بدیہی طور پر یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ایسی صورت حال میں معیشت کو نہیں سنبھالا جا سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سیاسی استحکام کیسے آئے گا؟

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں وزیر اعظم سمیت تمام رہنما سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو قرار دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اسمبلیاں توڑ کر ملک کو مزید سیاسی عدم استحکام میں دھکیل رہے ہیں۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کی قیادت پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ کیونکہ اس کے خیال میں عمران خان کی مخلوط حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گرا کر سیاسی استحکام کا خاتمہ کیا گیا۔ دونوں الزامات در الزامات کی سیاست کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں سیاسی استحکام کیسے آسکتا ہے۔ اگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کسی میثاق معیشت پر اتفاق کر لیتی ہیں تو بھی اس پر عمل درآمد کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔

عالمی معاہدے اور کمٹ منٹس ملک میں سیاسی حالات کو دیکھ کر کئے جاتے ہیں ۔ سیاسی عدم استحکام میں میثاق معیشت کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے رہنما آج جس میثاق معیشت کی بات کر رہے ہیں، اپوزیشن میں ہوتے ہوئے وہ اس طرح کا میثاق عمران خان کی حکومت کے ساتھ بھی کر سکتے تھے۔ اگر عمران خان انکار کرتے تو ساری ذمہ داری ان پر عائد ہوتی۔ اس وقت ویسے بھی کسی کے پاس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا کوئی واضح اور قابل عمل پروگرام نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اب تک کوئی ایسا معاشی پلان نہیں دیا، جس کو میثاق معیشت کی بنیاد بنایا جا سکے۔ میثاق معیشت کی کامیابی سیاسی استحکام سے وابستہ ہے اور سیاسی استحکام کیلئے موجودہ حالات موافق نہیں ہیں، ان حالات کے ذمہ دار تمام سیاسی فریق ہیں۔

کہا گیا کہ عمران خان کی حکومت نے معیشت کو تباہ کر دیا۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے عمران خان کی حکومت کو گرانا ضروری تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ معاشی بحران ختم ہونے کی بجائے مزید گہرا ہو گیا ہے۔ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام کو بھی دھچکا لگا ہے۔ سیاسی عدم استحکام جیسے جیسے بڑھتا جائے گا، معاشی مشکلات ویسے ویسے بڑھتی جائیں گی ۔ جس طرح عمران خان کی حکومت چھوٹی اتحادی سیاسی جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی ، اسی طرح پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت بھی انہی چھوٹی اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں کا سہارا لئے ہوئے ہے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار بھی کرنا چاہوں گا کہ یہ چھوٹی اتحادی جماعتیں کسی اور کی بیساکھیوں کے سہارے پر چل رہی ہیں۔

عمران خان کی حکومت کو گرا کر جس سیاسی عدم استحکام کا آغاز کیا گیا، وہ اب بھی جاری رہے گا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ بہتر یہی ہے کہ ملک میں قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کر لیا جائے۔ اسمبلیاں توڑنے اور اسمبلیا ں بچانے کی کشمکش سے سیاسی استحکام نہیں آئے گا بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ معاشی بحران کی وجہ سے ملک عام انتخابات کے فوری انعقاد کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ عام انتخابات پر اخراجات زیادہ ہوتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معذرت خواہانہ اور انتخابات سے فرار کی سوچ ہے ۔ اخراجات کی وجہ سے انتخابات کو کب تک روکا جا سکے گا۔ اگر انتخابات فروری یا مارچ میں نہ ہوئے تو اکتوبر میں بہر حال کرانا پڑیں گے کیونکہ آئین سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابات اور ان پر ہونے والے اخراجات سے فرار ممکن نہیں۔

پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے بعض وزراء یہ اشارے بھی دے رہے ہیں کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی لگا کر عام انتخابات چھ ماہ تک موخر کئے جا سکتے ہیں۔ یعنی اکتوبر 2022ء کی بجائے مارچ 2023 ء میں انتخابات ہو سکتے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انتخابات کو مؤخر کرنے سے سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گا، جو معاشی بحران کو مزید خطرناک بنا سکتا ہے۔ اگر انتخابات مؤخر کر دیئے تو بالآخر کرانا تو پڑیں گے ہی اور ان پر اخراجات بھی ہوں گے اور اس وقت تک ملک کے سیاسی حالات اور معیشت کو سنبھالنا مزید دشوار ہو جائے گا۔ اگر ملکی معیشت کو سنبھالنا ہے تو سیاسی استحکام لانا ہو گا اور سیاسی استحکام لانے کیلئے فوری طور پر عام انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔

 نفیس صدیقی

بشکریہ روزنامہ جنگ

سمندر کی تہہ کے نیچے قائم چینل ٹنل انجینئرنگ کا شاہکار

برطانیہ اور فرانس کو انگلش چینل کے نیچے ایک 32 میل لمبی سرنگ ملاتی ہے۔جب دونوں ممالک نے فیصلہ کیا کہ برطانیہ اور فرانس کو ملانے کیلئے ایک سرنگ سمندر کی تہہ میں تیار کی جائے تو انجینئرز کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ نہ صرف یہ کہ انہیں دنیا کی طویل ترین سرنگوں میں سے ایک سرنگ تیار کرنی تھی بلکہ یہ بھی کہ اتنی لمبی سرنگ میں مسافر محفوظ رہیں۔ اس وقت سرنگوں میں آگ لگنے کے واقعات عام تھے۔ چناچہ اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ سرنگ کے ساتھ ایمرجنسی حالات میں باہر نکلنے کا بھی ایک راستہ تیار کیا گیا۔ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی ریل ٹنل ہے جو 1994ء میں مکمل ہوئی۔ سب سے زیادہ طویل سرنگ جاپان میں سیکن ٹنل کے نام سے موجود ہے۔ چینل ٹنل کو یورو ٹنل بھی کہا جاتا ہے، یہ تین سرنگیں ہیں ، دو ٹیوبز بڑے اور مکمل سائز کی ہیں جہاں سے ٹرین ٹریفک گزرتی ہے جبکہ ان دونوں ریل ٹیوبز کے درمیاں ایک چھوٹی سی ٹنل ہے جو ایمرجنسی میں باہر نکلنے کیلئے ہے۔

سرنگ میں کئی دوراہے بھی بنائے گئے ہیں جہاں سے ٹرینیں ایک ٹریک سے دوسرے ٹریک پر راستہ تبدیل کر سکتی ہیں۔ چینل ٹنل کا منصوبہ ایک بہت مہنگا منصوبہ تھا جس کیلئے خصوصی تیار کردہ ٹنل بورنگ مشینوں کو انگلش چینل سے سینکڑوں فٹ نیچے یہ طویل سرنگ کھودنے میں تین سال لگے۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان ایک مستقل راستہ بنانے کا منصوبہ متعدد بار پیش ہوا۔ نپولین بوناپارٹ کے دور حکومت میں 1802ء میں ایک سرنگ کی تجویز پیش کی گئی تھی جس میں ہوا کی گزرگاہ کے لئے چمنیاں بنائی جانے اور اسے گیس لیمپوں کے ذریعے روشن کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن اس وقت تکنیکی اعتبار سے یہ ڈیزائن ممکن نہ تھا۔1880ء کی دہائی میں ٹنل کے کچھ حصے بنائے گئے لیکن برطانوی فوج کے اس خدشے اور اعتراض کی بنا پر کہ اس کے ذریعے برطانیہ پر بیرونی حملہ آسان ہو جائے گا حکومت نے یہ منصوبہ ترک کر دیا۔

1974ء میں دوبارہ یہ منصوبہ شروع ہوا لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔ اس کے بعد جب برطانیہ ” کامن مارکیٹ‘‘ (سابقہ نام ” یورپی یونین‘‘) میں شامل ہوا تو ایک مستقل راستے کی ضرورت محسوس ہوئی چناچہ 1986ء میں برطانیہ اور فرانس کے ایک مشترکہ کنسورشیم ” یورو ٹنل‘‘ کو اس کی تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا گیا کہ وہ گاڑیوں کی ترسیل کیلئے ایک ریل شٹل سروس اور ایک مسافر ٹرین کیلئے سرنگیں تیار کرے، چناچہ 1994ء میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سمندر کی تہہ سے تقریبا ً150 فٹ نیچے واقع چینل ٹنل بیسویں صدی میں انجینئرنگ کا اہم ترین کارنامہ ہے۔ جب یہ منصوبہ شروع کیا گیا تو اس وقت یہ دنیا کا سب سے مہنگا تعمیراتی منصوبہ تھا جس کی تکمیل پر 21 ملین ڈالر لاگت آئی۔ یہ اخراجات گولڈن گیٹ برج کی تعمیر پر ہو نے والے اخراجات سے 700 گنا زیادہ تھے۔

اس چینل کی تعمیر کے لئے جو بورنگ مشینیں استعمال ہوئیں وہ خود فٹ بال کے دو گراؤنڈز کی لمبائی سے زیادہ تھیں اور روزانہ 250 فٹ بورنگ کر سکتی تھیں۔ چینل ٹنل 50 کلومیڑ لمبی ہے جس میں سے 39 کلومیٹر لمبی سرنگ سمندر کی تہہ کے نیچے ہے۔ پہلے پانچ سالوں میں یہاں سے گزرنے والی ٹرینوں سے 28 ملین مسافروں نے سفر کیا اور 12 ملین ٹن سے زیادہ سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا گیا۔ آج اس ٹنل میں سے ٹرینیں 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گزرتی ہیں جنہیں ایک سرے سے دوسرے سرے تک سرنگ پار کرنے میں صرف 20 منٹ لگتے ہیں۔ اس چینل کے افتتاح کے صرف ایک سال بعد ہی یہاں پہلا حادثہ پیش آیا جب فرانس سے آنے والی ٹرین میں آگ لگ گئی اور 31 مسافر یہاں پھنس گئے لیکن سروس (ایمر جنسی) ٹنل کی وجہ سے تمام لوگ بحفاظت یہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

عبدالوحید

بشکریہ دنیا نیوز

ہم اور ہمارے تیسرے درجے کے خواب

جب مراکش کی ٹیم پرتگال کو ہرا کے عالمی فٹ بال کپ کی بانوے برس کی تاریخ میں سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی عرب مسلم افریقی ٹیم قرار پائی تو اس ٹیم کے کھلاڑیوں کی گفتگو سے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ کام کیسے ہو گیا۔ ’’ ہمیں اپنی ذہنیت بدلنا ہو گی۔ کمتری کا خیال دل سے نکالنا ہو گا۔ یہ یقین کرنا ہو گا کہ مراکش کی ٹیم دنیا میں کسی کا بھی مقابلہ کر سکتی ہے۔ تب ہماری نسلیں بھی یقین کرنے لگیں گی کہ مراکشی بھی معجزے دکھا سکتے ہیں۔ آیندہ جو بھی ہمارا مدِمقابل ہو گا اسے ہمیں ہرانے کے لیے بہت محنت کرنا ہو گی ‘‘ ( گول کیپر یاسین بونو ) ’’ ٹورنامنٹ سے پہلے مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں ؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ کیا ہمیں خواب دیکھنے کی اجازت نہیں ؟ آپ خواب دیکھتے ہیں تب ہی تو ان کی تعبیر تک پہنچتے ہیں۔ ویسے بھی خواب بے دام ہیں۔ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے اور انھیں جیت سکتا ہے۔ یورپی ٹیموں کو ورلڈ کپ جیتنے کی عادت ہو گئی ہے۔ اب ہمیں بھی اس مقام تک پہنچنا ہے‘‘ ( مراکشی کوچ رگراگی )۔

کچھ نہیں معلوم کہ مراکش فائنل میں پہنچتا ہے کہ نہیں مگر کیا فرق پڑتا ہے۔ مراکش ایک مثالیہ تو بن ہی گیا ہے ان تمام اقوام کے لیے جن کا یقین صدیوں پر پھیلے احساسِ کمتری نے چرا لیا۔ جن کے جینز سے امنگوں کا ست نکال لیا گیا۔ جنھیں بہترین ماتحت کا خطاب دے دے کے ثانوی عظمت پر ہی قناعت کرنے کی عادت ڈال دی گئی۔ جن سے محض یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اچھے بچے بن کے رہیں۔ خود ساختہ اعلیٰ نسلوں اور نام نہاد نجیب الطرفینوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی میں عمریں اور نسلیں کھپا کے تعریف کے چند سکوں کے حصول کو ہی مکمل کامیابی جانیں اور یہ چند سکے اچھالنے والے کے پہلے سے زیادہ وفادار ثابت ہوں۔ مراکش کی جیت کا سب سے زیادہ جشن مراکش کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر منایا گیا۔ پورا افریقہ ناچ رہا ہے۔ عرب پنجوں پر کھڑے ہیں۔ پاکستانی خوش ہیں۔ کرد ہارن بجا رہے ہیں۔ ان سب کا اس جیت سے بظاہر کیا تعلق ؟

مگر محرومیاں ، ٹھونسا گیا احساسِ کمتری ، نوآبادیاتی ذلت ، کچھ ثابت کرنے کی امنگ اور ’’ میں بھی تو ہوں ‘‘ ثابت کرنے کی وجودی خواہش تو سانجھی ہے۔ یہی سانجھ پن تو خودساختہ بانجھ پن پر غالب آنے کی شعوری و لاشعوری جدوجہد کر رہا ہے اور یہی جدوجہد ’’ ہم نہیں تو ہمارا بھائی ہی صحیح ‘‘ کے مشترک احساس کو خوشی کی کٹھالی میں ڈھال کر چہرے تمتما رہی ہے۔ یہ ورلڈ کپ اٹھارہ دسمبر کو ختم ہو جائے گا۔ ٹیمیں اور شائقین گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ دنیا اپنے ڈھرے پر پھر واپس آ جائے گی۔ مگر شاید نہیں۔ ایسے ہر واقعہ کے بعد ڈھرا ایک سنٹی میٹر ضرور ادھر سے ادھر ہوتا ہے اور یوں تاریخ بھی کم ازکم ایک سنٹی میٹر اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس ٹورنامنٹ نے سب سے زیادہ حوصلہ فلسطینیوں کو دیا ہے۔حالانکہ فلسطینی یا اسرائیل کی ٹیم اس ٹورنامنٹ کا حصہ نہیں تھی۔ پھر بھی دونوں جانب کے شائقین قطر پہنچے۔ حکومتیں جتنی بھی منافق ہوں مگر عام آدمی کم ہی اس منافقت کا حصہ بنتا ہے۔ لہٰذا کئی کھلاڑیوں اور بہت سے مغربی شائقین نے فلسطینیوں کو درپیش مسائل پر کیمرے کے سامنے کھل کے بات کی۔

مراکش کے ایک کھلاڑی نے تو کوارٹر فائنل جیتنے کے بعد فلسطینی پرچم لپیٹ کر اسٹیڈیم میں دوڑ لگائی۔ متعدد اسرائیلی چینلز کی میڈیا ٹیمیں بھی میچوں کے کوریج کے لیے موجود ہیں۔ مگر تقریباً ہر عرب شائق نے ان سے بات کرنے سے انکار کر دیا اور بہت سے مغربی باشندوں نے کیمرے کے سامنے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے یہ سوال بھی کیا کہ تم لوگ فلسطینیوں کی جان کب چھوڑو گے ؟ اس اعتبار سے یہ ٹورنامنٹ فلسطینی کاز کو عام کرنے کے لیے بھی خاصا سودمند رہا۔ اسٹیڈیم کے اندر اور آس پاس نشہ آور مشروبات پر پابندی تھی۔ اس پر بعض مغربی ذرایع ابلاغ میں خاصی لے دے بھی ہوئی۔ مگر اس پابندی کا فائدہ یہ ہوا کہ ہارنے والی ٹیموں کے شائقین نشے کی آڑ میں غل غپاڑہ اور توڑ پھوڑ کرنے کی سہولت سے محروم ہو گئے۔ نعرے بازی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گروہ کرتا ضرور پایا گیا مگر لا اینڈ آرڈر کی مجموعی صورتِ حال قابو میں رہی اور اس کا اعتراف مغربی ذرایع ابلاغ کو بھی کرنا پڑا۔

بات شروع ہوئی تھی کہ مراکشی کوچ کے بقول خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔اور خواب ہی وہ ڈرائنگ بورڈ ہے جس پر تعبیر کی عمارت کا نقشہ بنتا ہے اور پھر احساسِ کمتری کو ایک جانب رکھ کے لگن اور محنت وہ دن دکھاتی ہے جسے ہم اپنی آسانی کے لیے معجزہ کہہ لیتے ہیں۔ خود ہماری تاریخ بھی ایسے ’’ معجزوں ’’ سے عبارت ہے۔ یہ ملک بھی پلیٹ میں نہیں ملا تھا۔ اس کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ لیکن پھر اس معجزے سے ذیلی معجزے پھوٹنے نہیں دیے گئے۔اجتماعی جوش و خروش سے پیدا ہونے والی انرجی ذاتی و طبقاتی مقاصد کے حصول کے لیے ٹھنڈی ہونے دی گئی۔ ورنہ سن چالیس اور پچاس کے عشرے کے اجتماعی جوش اور حوصلے کو مشترکہ ترقی کی ٹرین کا انجن بھی بنایا جا سکتا تھا یہ خواب سے جنم لینے والی لگن ہی تو تھی کہ ملک کی پیدائش کے صرف پندرہ برس بعد پی آئی اے کا شمار دنیا کی دس بہترین ایرلائنز میں ہونے لگا۔

کھیلوں کے میدان میں جب وسائل کے پر لگا کے خوابوں کو پرواز کے لیے کھلا آسمان مہیا ہوا تو دیکھ لیجیے پاکستان نے برس ہا برس ہاکی، اسکواش اور کرکٹ میں کیسے کیسے جھنڈے گاڑے اور بیک وقت کتنے تاج سر پے رکھے۔ یہ جو قطر سمیت مختلف خلیجی ریاستوں میں لاکھوں پاکستانی ریگستان میں عمارتیں اٹھا رہے ہیں۔ یہ بھی تو کچھ خواب لے کر ہی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ مغربی ممالک کی کلیدی کمپنیوں میں جو ہزاروں پاکستانی اچھے عہدوں پر پہنچے ان کے خوابوں کو اگر گورنننس کا ڈھانچہ مقامی سطح پر کشید کرنے کے قابل ہوتا تو کاہے کو اپنا گھر چھوڑتے۔ ہمارے پاس آج اس کے سوا فخر کرنے کو بچا کیا ہے کہ جنوبی کوریا اور تائیوان اور سنگاپور کی فی کس آمدنی انیس سو ساٹھ کے عشرے میں پاکستان سے کم تھی اور سو سے زائد ممالک میں پاکستانیوں کی ویزا فری انٹری تھی۔ اور ٹائم میگزین کے ٹائٹل پیج پر پاکستان کا نقشہ چھپا تھا جس میں یہ پیش گوئی تھی کہ یہ ملک اگلے بیس برس میں ایک ٹھوس ایشیائی معاشی طاقت ہو گی۔

مگر یہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ سے پہلے کی بات ہے۔ کیا ہوا پھر۔ وہی لوگ ہیں ، وہی زمین ہے۔ ہاں نیت میں کھوٹ آ گیا۔ اس قیمتی پلاٹ پر اپنا گھر بنانے کے بجائے پارکنگ لاٹ میں بدل دیا گیا اور اس پارکنگ لاٹ سے آنے والا کرایہ اوپر ہی اوپر بٹتا چلا گیا۔ یوں عام آدمی نے اپنا اعتبار سستے داموں بیچ ڈالا۔ اب نہ خواب گر ہیں نہ تعبیر ساز۔ البتہ ہر جانب خواب فروش گھوم رہے ہیں مگر ان کے پاس بھی بیچنے کو تیسرے درجے کے ہی خواب ہیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

قرضے اور مالیاتی بحران

ایک عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان جیسے دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو آنے والے چند مہینوں میں قرضوں کے تباہ کن بحران کا سامنا کرنا ہو گا۔ ستاروں کی پوزیشن بھی یہی بتاتی ہے۔ اس بحران کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ سیاسی سطح پر کوئی افہام و تفہیم ہو جائے لیکن اصل بات تو معیشت کی ہے جس میں کوئی قابل ذکر بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ویسے بھی یہ خوفناک معاشی بحران جو دور نہیں ہے اگلے کئی سال تک جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس کی وجہ تیزی سے بڑھتا ہوا افراط زر، سست رفتار ترقی، بلند شرح سود اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے چنانچہ دنیا بھر کے کئی ممالک کے لیے دیوالیہ پن اور معاشی مشکلات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق غریب ممالک اس وقت امیر ممالک کے 200 ارب ڈالرز کے مقروض ہیں۔ روز افزوں شرح سود نے ڈالر کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔ عالمی کرنسیاں ڈالرز میں بدل کر امریکا کا رخ کر رہی ہیں کیونکہ زیادہ شرح سود منافع میں بڑھوتری کا باعث ہے۔

جب کہ جن ممالک نے قرضے لیے ہیں ان کے لیے قرضوں کی واپسی امریکی کرنسی کی شکل میں ایک سنگین آزمائش بن کر رہ گئی ہے۔ کساد بازاری کی طرف مائل عالمی معیشت کے لیے خطرات بڑھ چکے ہیں وجہ کووڈ افراط زر اور یوکرین جنگ کی وجہ سے مزید 10 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اس وقت امیر ممالک کو عالمی کساد بازاری کا سامنا ہے وہ اپنے ملکوں میں خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ترقی پذیر غریب ممالک میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ ڈیفالٹ زدہ ملکوں کی وجہ سے امریکا جیسے ممالک کے لیے مقروض ملکوں کو برآمدات کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ عالمی معیشت مزید سست رفتار ہو جائے گی۔ جس کو معاشی اصطلاح میں RECESSION کساد بازاری کہا جاتا ہے۔ یعنی عالمی ڈیمانڈ کم ہو گی تو سرمایہ دار ترقی یافتہ ممالک کی فیکٹریاں اور صنعتیں یا تو کم پیداوار کرنے پر مجبور ہو جائیں گی یا بند ہو جائیں گی یہ صورت حال امیر ممالک میں بے روزگاری میں اضافہ کرتے ہوئے غربت میں بھی اضافہ کر دے گی۔ یہ بڑا منحوس چکر ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام ڈیمانڈ اور سپلائی شرح سود اور منافع پر قائم ہے۔ سوویت یونین کے کیمونسٹ سوشلسٹ نظام میں سود پر پابندی تھی کیونکہ ان کی ترجیح عام اور غریب انسان تھا۔ جب کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اولین ترجیح مٹھی بھر سرمایہ داروں کو دی جاتی ہے۔ اس سال سری لنکا اپنے ڈیفالٹ کے قریب تر پہنچ گیا تھا۔ اس کے مرکزی بینک کو چائے کی پتی کے عوض ایران سے تیل خریدنے کا بندوبست کرنا پڑا۔ عالمی بینک نے پہلے ہی سے خبردار کر دیا ہے کہ آیندہ برس یعنی نئے آنے والے سال میں ایک درجن سے زائد ممالک کو ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب کہ آئی ایم ایک کی پیش گوئی ہے کہ کم آمدنی والے ترقی پذیر ممالک میں سے 60 فیصد کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے یا شدید ترین خطرہ ان کا منتظر ہے۔ اس وقت ترقی پذیر ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر زبوں حالی کا شکار ہیں۔

پچھلے 18 مہینوں سے لے کر اب تک 12 ملک ڈیفالٹ کے ہائی رسک پر پہنچ چکے ہیں۔ اس وقت ترقی پذیر ممالک 200 ارب ڈالرز کے مقروض ہیں۔ اس کا وقتی حل تو یہی ہے کہ ان قرضوں کو ری شیڈول کیا جائے یعنی ایسے ممالک کو قرضوں کی واپسی میں رعایتی مدت دی جائے۔ پاکستان اپنے واجب الادا قرضوں کی واپسی کے لیے یہی کچھ کر رہا ہے۔ یا ان کے ذمے قرضوں کی شرح سود میں کمی کی جائے یا ان کے ذمے جتنے بھی قرضے ہیں ان کا اصل زر معاف کر دیا جائے۔ ایک بات چیت کے دوران آئی ایم ایف کی پہلی ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر مس گوپی ناتھ کا کہنا ہے کہ قرضہ لینے والے ممالک اور قرض دہندگان کو کسی بھی ایسی خوش فہمی کا شکار ہونے سے گریز کرنا چاہیے جو انھیں ڈیفالٹ کی طرف جانے پر مجبور کر دے۔

اس وقت پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے چار ارب ڈالرز کی ایل سیز کو روکا ہوا ہے۔ خدشہ ہے کہ جب ان ایل سیز پر سے پابندی ہٹائی جائے گی تو انٹر بینک میں ڈالر کی اڑان پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دے گی۔ درآمد کنندگان پریشان ہیں مرغیوں کی خوراک سویا بین، لہسن، ادرک، پیاز کی قیمتیں اپنے عروج پر ہیں۔ کورونا کا عذاب تو پوری دنیا کو سہنا پڑا لیکن حالیہ سیلاب کی وجہ جغرافیائی طور پر پاکستان کا دو موسموں کے سنگم پر واقع ہونا ہے۔ سیلاب نے دوسرے خطوں میں بھی تباہی پہنچائی لیکن جو تباہی حالیہ سیلاب نے پہنچائی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں۔ کورونا اور اس کے بعد سیلاب نے ہماری معیشت کا کچومر ہی نکال دیا اوپر سے گزشتہ 9 مہینوں سے خوفناک سیاسی عدم استحکام۔ ﷲ ہم پر رحم کرے۔

زمرد نقوی

بشکریہ ایکسپریس نیوز