کشمیر : تین سالہ بچہ نانے کی لاش پر ہی بیٹھا رہا

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک عام شہری کی ہلاکت کے بعد ایک مرتبہ پھر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ہلاک ہونے والے شہری کے ساتھ اس کا تین سالہ نواسا بھی تھا، جو اپنے نانے کی لاش پر بیٹھا روتا رہا۔ بھارتی پیراملٹری پولیس کے ایک ترجمان جنید خان کے مطابق یہ واقعہ سوپور کے علاقے میں پیش آیا، جہاں باغیوں نے ایک مسجد سے بھارتی فوجیوں پر حملہ کیا۔ بھارتی حکام کے مطابق وہاں گولی لگنے سے بشیر احمد خان نامی اس شہری کی موت واقع ہو گئی۔ دوسری جانب بشیر احمد کے اہل خانہ نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کشمیری شہری کو پہلے کار سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا اور پھر پیرا ملٹری فورسز نے انہیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ بشیر احمد کے ساتھ ان کا تین سالہ نواسا بھی کار میں سفر کر رہا تھا۔ بعد ازاں منظرعام پر آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بشیر احمد کی لاش خون میں لت پت ہے اور ان کا نواسا پریشان ہو کر اپنے مردہ نانا کے سینے پر بیٹھا ہوا ہے۔

بشیر احمد کے بھتیجے فاروق احمد نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”وہاں موجود مقامی لوگوں نے ہمیں بتایا ہے کہ بشیر احمد خان کو کار سے باہر نکالا گیا اور پھر سکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ کر کے انہیں ہلاک کر دیا۔‘‘ فاروق احمد کا مزید کہنا تھا، ”عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یونیفارم والے ایک شخص نے بچے کو سڑک پر پڑی لاش کے سینے پر بٹھایا اور تصاویر بھی بنائیں۔‘‘ بعد ازاں یہی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ بشیر احمد خان کی نماز جنازہ میں سینکڑوں افراد شریک ہوئےاور انہوں نے حکومت کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ یہ مظاہرین ‘ہم آزادی چاہتے ہیں‘ جیسے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مارچ میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے حکومتی فورسز نے علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر رکھی ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

بھارتی سپریم کورٹ کا کشمیر میں تمام پابندیوں پر نظرثانی کا حکم

بھارتی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں عائد انٹرنیٹ کی رسائی سمیت تمام پابندیوں کو ’اختیارات کا غلط‘ استعمال قرار دیتے ہوئے حکومت کو ان پر نظر ثانی کا حکم دیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق سپریم کورٹ نے حکومت کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے حوالے سے تمام احکامات کو عام کرے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی بندش آزادی صحافت پر اثرانداز ہو رہی ہے، جو آزادی اظہار رائے اور آزادی تقریر کا حصہ ہے۔ ’دا ہندو‘ کے مطابق جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں تین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے قرار دیا کہ انٹرنیٹ کی عارضی معطلی اور شہریوں کی بنیادی آزادیوں کو کم کرنا صوابدیدی نہیں ہونا چاہیے اور یہ معاملہ عدالتی جائزے کے لیے کھلا ہے۔

عدالت نے جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو انٹرنیٹ کی بندش کے معاملے کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’انٹرنیٹ کے استعمال کی آزادی آرٹیکل 19 (1) (اے) کے تحت آزادانہ تقریر کا ایک بنیادی حق ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے تجارت کو آرٹیکل 19 (1) (جی) کے تحت محفوظ کیا گیا ہے۔‘ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔ دوسری جانب خطے میں سخت کرفیو نافذ کر کے انٹرنیٹ اور ذرائع مواصلات کو بند کر دیا گیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ’کشمیر ٹائمز‘ کے مدیر انورادھا بھاسن نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس فیصلے سے پریس کی آزادی، ضروری سروسز خاص کر خاندانوں کے درمیان رابطے ختم کر دیئے گئے، جن سے لوگوں کو شدید مشکلات درپیش رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی 70 لاکھ آبادی پر شک کرتے ہوئے انہیں قید کر دیا گیا اور بغیر کچھ سوچے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔

تاہم جسٹس رمنا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے جموں و کشمیر کی حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ وادی میں حالات معمول پر آچکے ہیں اور لوگ خوش ہیں۔ کشمیر کی حکومت نے انورادھا بھاسن کے دعوے کو ’مبالغہ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ جموں و کشمیر کی حکومت کے وکیل توشار مہتہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ پابندیاں خفیہ اداروں اور فوج کی معلومات کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مواد اور تقاریر، جعلی خبروں اور ویڈیوز کی وجہ سے عائد کی گئی تھیں۔ مسٹر مہتہ نے تسلیم کیا تھا کہ انٹرنیٹ تک رسائی آزادی اظہار کے بنیادی حق کا ایک حصہ ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ ’جدید دہشت گردی انٹرنیٹ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔‘ کیس کی گذشتہ سماعت میں وکیل مہتہ نے اس بات کا دفاع کیا کہ ’دہشت گردی میں سوشل میڈیا کو سب سے زیادہ مؤثر ہتھیار کی حیثیت حاصل ہے اور یہ عالمی سطح پر موجود ہے۔‘ جواب میں انورادھا بھاسن کے وکیل وریندا گروور نے فوری مداخلت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس انسانی حقوق کو بھی یہی اہمیت حاصل ہے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

امریکی کانگریس رکن نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کیلئے ٹرمپ سے مدد مانگ لی

امریکی کانگریس کمیٹی کے سربراہ نے ٹرمپ انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکی سفارتکاروں کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کروانے اور صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھارت پر زور ڈالے۔ ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی برائے ایشیا کے سربراہ بریڈ شیرمین نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو لکھے گئے خط میں مذکورہ درخواست کی۔ گزشتہ ماہ ذیلی کمیٹی نے ایشیا میں انسانی حقوق سے متعلق سماعت منعقد کی تھی جس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اجلاس کے شرکا نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا اور نئی دہلی کی جانب سے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق 5 اگست کے فیصلے پر بھی سوال اٹھایا تھا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس ویلز کو لکھے مراسلے میں بریڈ شیرمین نے امریکی سفارت کاروں کو مقبوضہ کشمیر بھیجنے کی کوششیں تیز کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ‘مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق اتنا پرتشویش ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہاں سے قابل اعتماد معلومات موصول نہیں ہو رہی’۔ بریڈ شیرمین نے ایلس ویلز کو یاد دلایا کہ انہوں نے 22 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں پوچھا تھا کہ کیا امریکی سفارت کار 5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وہاں کا دورہ کرکے زمینی حقائق رپورٹ کر سکتے ہیں ؟۔ علاوہ ازیں میڈیا میں جاری کیے گئے خط میں بریڈ شیرمین نے کہا کہ ‘ اس کے جواب میں آپ (ایلس ویلز) نے کہا تھا کہ امریکا نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت طلب کی لیکن بھارتی حکومت نے وہ درخواستیں مسترد کر دیں۔

انور اقبال  

بشکریہ ڈان نیوز

امریکی کانگریس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مذمتی قرارداد پیش

امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان میں مسلمان خواتین اراکین راشدہ طلیب اور الہان عمر نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں سے متعلق مذمتی قرارداد پیش کی ہے۔ پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے معاملے پر کشمیر کے عوام کی رائے کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اراکین کانگریس نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے باہمی تنازعات حل کریں۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی مسلمان خواتین اراکین نے قرارداد میں زور دیا ہے کہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کیا جانا چاہیے۔ قرارداد کو مزید کارروائی کے لیے امور خارجہ کی کمیٹی کو ارسال کر دیا گیا ہے۔

قرارداد میں کشمیری عوام کی رضا مندی کے بغیر جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے یک طرفہ بھارتی اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
دونوں اراکین نے زور دیا ہے کہ اس ضمن میں کشمیری عوام کو مشاورتی عمل میں شامل کیا جانا ضروری تھا۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے نقل و حمل اور مواصلاتی پابندیاں فوری طور پر ہٹائی جائیں۔ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے اور مذہبی پابندیوں کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مساجد اور دیگر مذہبی مقامات کو بند کیا گیا ہے جو مذہبی آزادیوں کے منافی ہے۔

بین الاقوامی مبصرین کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کشمیر میں صحافیوں کی گرفتاریوں اور حبس بیجا میں رکھنے کی اطلاعات کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ بھارت نے پانچ اگست کو آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ جس کے بعد سے کشمیر میں نقل و حمل اور مواصلاتی پابندیاں عائد ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ کشمیر میں اب معمولات زندگی بحال ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے ایوان بالا راجیہ سبھا میں رپورٹ پیش کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کشمیر میں زندگی معمول پر آ چکی ہے۔ البتہ پاکستان سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں اور غیر جانبدار مبصرین کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

 قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے انڈین فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ کشمیر میں اپنی من مانیاں کر سکیں۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت پانچ اگست کو ختم کر دی گئی تھی۔ جموں و کشمیر میں نہتے شہریوں پر پیلٹ گن اور ربر کی گولیوں کے استعمال پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ راشدہ طلیب کی جانب سے پیش کی گئی قراراد میں امریکی محکمہ خارجہ سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیری نژاد امریکی شہریوں کے کشمیر میں موجود اہلخانہ سے رابطے کے لیے مداخلت کرے۔ علاوہ ازیں رکن کانگریس بریڈ شرمین نے امریکہ کی نمائندہ خصوصی برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز کو خط لکھا ہے جس کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

 بریڈ شرمین نے امور خارجہ کی سب کمیٹی برائے جنوبی ایشیا کی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس کی سفارشات پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ بریڈ کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے امریکی سفارت کاروں یا غیر جانبدار مبصرین کو جموں و کشمیر کا دورہ کرانے سے مسلسل انکار پر باز پرس ہونی چاہیے۔ امریکی رکن کانگریس نے اپنے خط میں مختلف سوالات اٹھائے ہیں۔ جن میں پوچھا گیا ہے کہ پانچ اگست کے اقدامات کے بعد کتنی دفعہ امریکہ نے جموں و کشمیر میں اپنے سفارتکار بھجوانے کی بھارت سے درخواست کی۔ یہ بھی بتایا جائے کہ بھارتی حکومت امریکہ کو سفارتی رسائی نہ دینے کا کیا عذر پیش کرتی رہی ہے۔ بریڈ شرمین نے یہ بھی اعتراض اٹھایا ہے کہ اگر سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر امریکہ کو کشمیر تک سفارتی رسائی نہیں دی گئی تو پھر یورپی یونین کے ایک وفد نے جموں و کشمیر کا دورہ کیسے کر لیا؟ بریڈ شرمین نے خط میں اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکومت بھارتی حکومت پر زور دے کہ وہ امریکی سفارت کاروں کو کشمیر کے دورے کی اجازت دیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

کشمیر میں لاک ڈاؤن، مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کا نقصان

بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے مودی حکومت کی طرف سے اگست میں کیے گئے اعلان کے بعد سے صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن سے مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس متنازعہ خطے کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں اقتصادی شعبے کی نمائندہ مرکزی تنظیم نے بتایا کہ پانچ اگست کو نئی دہلی حکومت نے جموں کشمیر کے اپنے زیر انتظام حصے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا جو اعلان کیا تھا، اس پر اکتوبر کے آخر میں عمل درآمد ہو گیا تھا۔

اب اس خطے کو جموں کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر کے ان کو بھارت کے یونین علاقے بنایا جا چکا ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق صرف کشمیر میں اس دوران پانچ اگست سے مقامی معیشت کو بھارتی حکومت کے اقدامات سے ہونے والے اقتصادی نقصانات کی مالیت ایک بلین ڈالر سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ ان نقصانات کی اہم ترین وجہ کشمیر میں اضافی بھارتی دستوں کی تعیناتی کے بعد وہ سکیورٹی لاک ڈاؤن اور کاروباری شعبے کی بندش بنی، جو مجموعی طور پر مہینوں جاری رہی اور جزوی طور پر اب بھی جاری ہے۔

سو ارب روپے کے اقتصادی نقصانات
کشمیر ایوان صنعت و تجارت کے سینئر نائب صدر ناصر خان کے مطابق پانچ اگست سے لے کر ستمبر تک کشمیر کو ہونے والے اقتصادی نقصانات کی مالیت 100 ارب بھارتی روپے سے تجاوز کر چکی تھی۔ یہ رقم 1.4 ارب امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ ناصر خان کے مطابق المیہ یہ ہے کہ کشمیر میں نہ صرف سکیورٹی لاک ڈاؤن اور انٹرنیٹ بلیک آؤٹ ان بےتحاشا اقتصادی اور کاروباری نقصانات کی وجہ بنے بلکہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے ایوان صنعت و تجارت اپنے ارکان سے رابطے بھی نہ کر سکا کہ متاثرہ کاروباری حلقوں سے اس شٹ ڈاؤن کے مالیاتی اثرات کے تخمینے حاصل کیے جاتے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر کے مطابق، ”یہ معاشی نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا مجموعی اندازہ لگانا بھی ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔ ہم عدالت سے درخواست کریں گے کہ وہ کوئی ایسی بیرونی ایجنسی نامزد کرے، جو ان نقصانات کا درست اندازہ لگا سکے۔

زیادہ تر انٹرنیٹ رابطے آج بھی منقطع
پانچ اگست کے بعد سے اب تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن میں کمی تو آئی ہے مگر معمول کی عوامی اور کاروباری زندگی ابھی تک بحال نہیں ہو سکی۔ وادی کے عوام کے بیرونی دنیا سے انٹرنیٹ رابطے آج بھی زیادہ تر معطل ہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے سری نگر سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اس شٹ ڈاؤن سے سب سے زیادہ نقصان تجارتی، سیاحتی اور زرعی شعبوں کو ہوا ہے۔ کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر میں اپنا ایک ہوٹل چلانے والے ویویک وزیر نے روئٹرز کو بتایا، ”مجھے تو آئندہ کئی مہینوں تک کشمیر میں استحکام پیدا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہر جگہ بےحد بےیقینی پائی جاتی ہے اور ناقابل تصور اقتصادی نقصانات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

سید علی گیلانی کا وزیراعظم عمران خان کو خط

کشمیر کے بزرگ حریت رہنما اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے مقبوضہ وادی کے حالات پر وزیراعظم عمران خان کو خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ آپ کے ساتھ میرا آخری رابطہ ہو۔ حریت رہنما سید علی گیلانی نے اپنے خط میں اقوام متحدہ میں بھارت کی جانب سے متنازع علاقےکی حیثیت کو تبدیل کرنے پر عمران خان کی جانب سے کی جانے والی تقریر کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں آپ سے رابطہ قومی اور ذاتی ذمہ داری ہے۔ سید علی گیلانی نے خط میں لکھا ہے کہ کشمیری اپنی جدوجہد سے دست بردار نہیں ہوئے ہیں، بھارت کی جانب سے غیرقانونی فیصلوں کے بعد کشمیری عوام مسلسل کرفیو جھیل رہی ہے، نہتے کشمیریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے نوٹسز بھیجے جا رہے ہیں۔

سید علی گیلانی نےخط میں مزید لکھا ہےکہ کشمیری خواتین کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے، بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، بھارت نے غیر قانونی اقدامات کر کے اپنی طرف سے پاکستان سے ہوئے معاہدوں کو ختم کیا ہے، پاکستان کی طرف سے کچھ مضبوط اور اہم فیصلوں کی ضرورت ہے۔ سید علی گیلانی کا خط میں کہنا ہے کہ پاکستان کو حکومتی سطح پر کچھ کارروائی عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ سید علی گیلانی نے اپنے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ختم کرنے کا اعلان کرے، پاکستان دوطرفہ معاہدوں شملہ، تاشقند اور لاہور معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کرے۔ ایل او سی پرمعاہدے کے تحت باڑ لگانے کے معاہدے کو بھی ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے، حکومت پاکستان ان سارے فیصلوں کو لے کر اقوام متحدہ بھی جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کشمیری خواتین کا دکھ تو ابھی بیان ہی نہیں کیا گیا

کشمیر میں بھارت کی حکومت کی پابندیوں سے باقی طبقات تو متاثر ہو ہی رہے ہیں لیکن خواتین کو ان پابندیوں سے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک ماں اسپتال میں موجود اپنے نومود بیٹے کی صحت کے بارے میں جاننے سے قاصر ہے تو نئی زندگی کا سفر شروع کرنے والی دُلہن اپنے ارمانوں کے مطابق شادی نہ کر سکی۔ اسی طرح ایک خاتون صحافی پیشے کو ایک طرف رکھ کر بھی خاتون ہونے کی وجہ سے بھارتی سیکیورٹی فورسز سے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکڑوں ایسی خواتین کی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں جن کا دکھ کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن کے اندر ہی کہیں دفن ہو چکا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ تین ماہ سے عائد پابندیوں کے باعث مقامی افراد متعدد مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن کشمیری خواتین ایک ایسے دکھ سے گزر رہی ہیں جسے ابھی تک بیان ہی نہیں کیا گیا۔ بھارت کے ہزاروں غیر مقامی فوجی کشمیر کی گلیوں میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بعض پابندیوں میں نرمی کے باوجود اب بھی مواصلات کے متعدد ذرائع بحال نہیں ہو سکے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ بدستور بند ہے جس سے عام کشمیریوں کی زندگی مشکلات کا شکار ہے۔ یہ تمام مناظر ہیں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جہاں بھارتی حکومت کی جانب سے ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک معمولاتِ زندگی بحال نہیں ہو سکے ہیں۔

لیکن کشمیری خواتین کی مشکلات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ کوئی اپنے اکلوتے بیٹے کی گرفتاری پر دکھی ہے تو کوئی اپنے شوہر کے انتظار میں دروازے پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ وقت پر علاج میسر نہ ہونے کے سبب ایک حاملہ خاتون نے مردہ بچے کو جنم دیا تو وہیں ایک خاتون اپنے نومولود بیٹے سے اس کی زندگی کے ابتدائی 20 دن تک نہ مل سکی۔ ایسی کئی کہانیاں کشمیر میں عام ہیں۔ عتیقہ بیگم نامی خاتون سری نگر کی رہائشی ہیں۔ ان کا اکلوتا اور 22 سالہ بیٹا فیصل اسلم میر گھر کا واحد کفیل تھا۔ عتیقہ کے بقول جب کشمیر میں لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو فیصل دوائیں لے کر گھر واپس آ رہے تھے لیکن انہیں بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کر لیا۔

عتیقہ بیگم نے کہا کہ ان کے بیٹے کو بھارت کے کسی شہر کی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے اور ان کے پاس کوئی وسائل نہیں کہ وہ اپنے بیٹے سے مل سکیں۔
ایک اور کشمیری خاتون مہک پیر کشتی رانی کی کھلاڑی ہیں۔ ان کے بقول کشمیر میں جاری پابندیوں اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے وہ کشتی رانی کے سہ ملکی ٹورنامنٹ میں شرکت سے محروم ہو گئی ہیں۔ مہک پیر کے بقول انہیں امید تھی کہ وہ کشتی رانی کے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کریں گی۔ لیکن ملکی ٹورنامنٹ نہ کھیلنے کی وجہ سے اب یہ ممکن نہیں رہا۔ جواہرہ بانو نامی خاتون اپنی تین سالہ بیٹی کو گود میں اٹھائے ایک مظاہرے میں شریک تھیں۔ وہ سرینگر کے ایک نواحی علاقے میں موجود تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر سے باہر نکل کر مظاہرہ کرنے کا موقع گنوانا نہیں چاہتیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی نسبت کشمیری مردوں کو بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے کہ وہ کبھی بھی گرفتار کر لیے جائیں گے۔ سرینگر کی رہائشی صباحت رسول ایک ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے ایک حاملہ خاتون کا واقعہ بتایا کہ ان کے اسپتال میں ایک حاملہ خاتون نے صرف اس لیے داخل ہونے سے انکار کر دیا کہ مواصلاتی ذرائع بند ہونے کے باعث وہ اس بات کی اطلاع اپنے گھر والوں تک نہیں پہنچا سکتی تھیں۔ صباحت رسول کے بقول اسی خاتون کو اگلے روز ان کے گھر والے بے ہوشی کی حالت میں اسپتال لائے جہاں خاتون کی جان تو بچ گئی لیکن ان کا بچہ نہیں بچ سکا۔ صباحت رسول کا کہنا تھا کہ خاتون کی صحت کے پیشِ نظر انہیں اسی روز اسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت تھی جس دن وہ آئی تھیں لیکن خاتون کو یہ ڈر تھا کہ اگر وہ بغیر بتائے اسپتال میں ایک رات رہ گئیں تو ان کے گھر والے پریشان ہوں گے۔

مسرت زہرا کشمیر کی ایک مقامی صحافی ہیں جو سرینگر کے مضافات میں ہونے والے ایک مظاہرے کے کوریج کر رہی تھیں۔ خاتون صحافی نے بتایا کہ ایک مظاہرے کی کوریج کے دوران ایک پولیس والے نے دھمکی دی کہ وہ انہیں لات مارے گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری خواتین مردوں کے بغیر اپنے گھروں سے نہیں نکل سکتیں کیوں کہ بھارتی فوجی انہیں ہراساں کرتے ہیں۔ مسرت زہرا کے بقول آپ یہاں چپ نہیں رہ سکتے۔ اگر آپ گھر سے نکل کر باہر آئیں گے اور بولیں گے تو کوئی نہ کوئی تو آپ کی آواز ضرور سنے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے کام کے لیے باہر نکلنا ہی میرا احتجاج ہے۔ سُہانہ فاطمہ کشمیر میں کھیلوں کا میگزین نکالتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پابندیوں کی وجہ سے وہ اگست کا میگزین نہیں نکال سکی تھیں۔

زاہدہ جہانگیر سرینگر کے ایک نواحی علاقے لولب میں واقع اپنے گھر کے پاس اپنے دو ماہ کے بچے کو لیے کھڑی تھیں۔ محمّد کی پیدائش قبل از وقت ہوئی تھی لہٰذا اسے اسپتال میں رکھنا پڑا تھا۔ زاہدہ کو اس دوران بچے کی زندگی کے ابتدائی 20 دن تک اس سے دور رہنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ محمد تو اب صحت مند ہے لیکن ان 20 دنوں کے دوران انہیں جو دکھ سہنا پڑا وہ کوئی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ اس کا افسوس انہیں زندگی بھر رہے گا۔ کلثومہ رمیز کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ ان کی شادی ایسے وقت میں ہوئی جب کشمیر میں لاک ڈاؤن جاری تھا جس کے باعث وہ اپنا شادی کا جوڑا بھی نہیں خرید سکیں جو ان کا ارمان تھا۔ کلثومہ کو کسی سے ادھار لیا گیا جوڑا پہننا پڑا اور ان کی شادی میں کچھ پڑوسی اور چند رشتے دار ہی شرکت کر سکے۔

سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے انہیں رخصتی کے بعد پیدل سسرال جانا پڑا۔ سمیرا بلال کے شوہر بلال احمد کو بھارتی سیکیورٹی فورسز نے 5 اگست کی رات گرفتار کیا تھا۔ سمیرا نے کہا کہ ان کی دو سالہ بیٹی اکثر کھڑکی کی طرف اشارے کر کے اپنے والد کو پکارتی ہے کہ “بابا بابا آپ کب واپس آئیں گے؟” بیبا کے کزن کی 3 اگست کو موت ہو گئی تھی جس کی خبر ان تک تقریباً ایک ہفتے بعد پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ میں جنازے اور فاتحہ خوانی میں شریک نہیں ہو سکی اور تعزیت کرنے بھی نہیں جا سکی۔ یہ سب ہمارے لیے بہت ضروری تھا۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

کشمیر کی صورتحال اسی طرح نہیں چل سکتی، جرمن چانسلر میرکل

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے نئی دہلی میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین طویل عرصے سے وجہ تنازعہ بنے ہوئے کشمیر کے مسئلے کا جلد پر امن حل تلاش کیا جانا ضروری ہے۔ بھارت کے تین روزہ دورے پر گئی ہوئی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کشمیر کی صورت حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کشمیر میں جاری صورتحال کے تناظر میں کہا، ’’وہاں لوگوں کو جس طرح کی صورتحال اور حالات کا سامنا ہے وہ نہ تو مناسب ہے اور نہ اسی طرح جاری رہ سکتی ہے۔

جرمنی اور بھارت کے درمیان پانچویں مشاورتی سربراہی اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے چانسلر میرکل نے کہا، ’’ہم عدم استحکام اور تناؤ میں کمی کے لیے کوشش کر رہے ہیں، اور ہم سب سے بڑھ کر یہ خواہش کرتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان باہمی کشیدگی دور کرنے کے لیے مل کر ایک پرامن حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔‘‘ نئی دہلی میں میرکل نے صحافیوں کو اس حوالے سے مزید بتایا کہ کشمیر کی صورتحال پر وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا تفصیلی موقف بھی سننا چاہتی ہیں۔

واضح رہے مودی حکومت کی جانب سے رواں برس پانچ اگست کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختار آئینی حیثیت ختم کرنے کے اعلان کے بعد جموں و کشمير اب دو مختلف خطے ہيں، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت نے سنبھال لیے ہیں۔ اس متنازعہ فیصلے کے بعد سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عملی طور پر لاک ڈاؤن جاری ہے جبکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی، انٹرنیٹ اور معلومات کے بلیک آؤٹ کے سبب نئی دہلی حکومت کو عالمی سطح پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اپنی کابینہ کے متعدد ارکان پر مشتمل ایک وفد کے ساتھ نئی دہلی پہنچی تھیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

کشمیر میں یورپی وفد یا کولمبس؟

میں نے جب ایک صحافی دوست سے پوچھا کہ یورپی اراکین پارلیمان کی سری نگر میں کیا مصروفیات رہیں تو وہ بے اختیار ہنس پڑے اور بھرپور قہقہے کے بعد کہنے لگے ’وفد نے کشمیری وازہ وان کھایا، جھیل ڈل کے جھل مل پانیوں سے لطف اندوز ہوئے، شکارہ میں بیٹھ کر دلکش پہاڑوں کو دیکھا اور کہنے لگے کہ اس خوبصورت وادی میں سب کچھ ہے مگر انسانی مخلوق نہیں ہے۔ کہیں ہم کولمبس تو نہیں جو پہلی بار وادی کو دریافت کر رہے ہیں۔‘ یورپی اراکین پارلیمان کے دورے کے دوران کشمیر میں مکمل ہڑتال اور سڑکیں سنسان رہیں۔ میں نے صحافی سے پوچھا حکومت نے چند گنے چنے لوگوں کو وادی میں ’سب چنگا ہے‘ کہنے کے لے تیار رکھا تھا تو انہوں نے چنگا ہی بتایا؟

’چنگا کہنے والوں نے میڈیا کے سامنے اپنا چہرہ چھپایا، رستہ اور گشتابہ کھایا فرمایا، سراغ رساں اشخاص کو چکمہ دے کر پچھلے دروازے سے اپنے گروپ کو بھگایا پھر اچانک ایئرپورٹ پر نمودار ہوئے اور وفد والے طیارے میں بیٹھ کر سب کو بائی بائی کہا۔‘ میرا دوست خوب ہنس رہا تھا۔ یہ کہانی ہے اس ڈرامے کی جو بری طرح سے فلاپ ہو گیا۔ یورپی پارلیمان کا کشمیر کا حالیہ دورہ اسی طرح متنازعہ بن گیا جس طرح خود کشمیر کا معاملہ بن چکا ہے اور جس میں مرکزی کردار ہمیشہ بھارتی حکمرانوں نے ادا کیا ہے۔ دورے کی ناکامی کا سبب یورپی اراکین نہیں ہے جو مسلمانوں کی مخالفت میں آداب سیاست کے عادی نہیں ہیں

البتہ مودی حکومت کی ڈھارس بندھانے کی فکر میں وہ یہ بھول گئے کہ بھارت میں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جو انہیں پسند نہیں کرتے، کشمیریوں کی بات ہی نہیں۔ قصور دراصل ان کا ہے جنہوں نے اس کی ناقص منصوبہ بندی کر کے اپنی نااہلی کا واضح ثبوت پیش کیا ہے۔ اراکین پارلیمان کا انتخاب جس انداز سے کیا گیا تھا اس سے بھارتی حکومت کی نئی سوچ کا اندازہ خود یورپ کو خوب ہوا ہو گا۔ دوسرا جس ادارے سے اراکین کو دعوت نامے بھجوائے گئے تھے معلوم ہوا کہ وہ ایک این جی او بھی نہیں بلکہ کچھ لوگ جن سے بعض ملکوں کے انتخابات میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کروانے کا کام لیا جاتا رہا ہے اور تیسرا جن سے خرچے اور اخراجات کروائے جا رہے تھے ان کے دفتروں پر تالے ڈالے گئے ہیں۔

اراکین پارلیمان کا حال بھی کچھ نرالا ہے۔ انہوں نے اس کا پتہ بھی نہیں لگایا کہ دعوت نامے کون بھیج رہا ہے، عشائیہ کون دے رہا ہے، کشمیر پر بریفنگ کیوں دی جا رہی ہے اور جانا کس دلدل میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت کو بخوبی احساس ہے کہ کشمیر کے بارے میں پانچ اگست کا فیصلہ غلط ہے۔ اس پر پردہ ڈالنے کے لیے اب وہ مزید درجن بھر غلط فیصلے کرتے جا رہی ہے جو ملک کے اندر باہر شدید نکتہ چینی کا موجب بنتے جا رہے ہیں۔ کشمیری عوام کو قید کر کے، خوفزدہ کر کے، شناخت اور شہر چھین کر یہ سمجھنا کہ کشمیر کو فتح کر لیا گیا ہے ایک سراب ہے جو نہ جانے مزید کتنی جانوں کا ضیاع کا سبب بنتا جا رہا ہے۔

دس لاکھ بندوقوں کو عوام کے کنپٹیوں پر رکھ کر نہ تو کوئی قوم جیتی جا سکتی ہے اور نہ پوری آبادی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ نے عراق، افغانستان یا شام میں اس کو ثابت کر دیا ہے۔ یقین نہ آئے تو امریکہ روس اور یورپی ممالک سے پوچھیے گا جو اس تجربے سے کئی بار گزر چکے ہیں۔ چونکہ کشمیر کی موجودہ ابتر صورت حال پر عالمی سطح پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور بھارت پر انسانی حقوق کی پامالیاں بند کرنے اور کشمیر تنازعے کو حل کرنے پر دباؤ بڑھ رہا ہے تو بھارتی حکومت نے اس کا توڑ کرنے کے لیے اپنی جیسی کٹر سوچ رکھنے والے بعض یورپی اراکین کو جمع کر کے ان سے متبادل موقف اختیار کروانے کی ایک لاحاصل کوشش کی۔

اپوزیشن کے بعض سیاست دانوں نے آواز بھی اٹھائی کہ بھارت کشمیر کو عالمی مسلہ نہیں مانتا تھا مگر عالمی اراکین کو کشمیر بھیج کر مودی نے واپس اسے اقوام متحدہ میں پہنچا دیا ہے اور اپنے سیاست دانوں کی بجائے باہر کے ممالک کے سیاست دانوں کو کشمیر جانے کی اجازت دے دی۔ بقول تجزیہ نگاروں کے ’انڈین میڈیا کو لونڈی بنا کر حکومت نے یورپی اراکین پارلیمان کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کا پلان بنایا تھا مگر اراکین کے انتخاب سے اور اپنی وزارت خارجہ کو پس پشت ڈال کر نہ صرف بھارتی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے بلکہ ملک کی خارجہ پالیسی کی ہیئت تبدیل کر کے سیاسی جماعتوں میں ایک بڑی کھلبلی بھی مچ گئی ہے۔

رہا سوال کشمیر کی 80 لاکھ آبادی کا، وہ دنیا سے منقطع ہیں اور سیاسی کشمکش سے کوسوں دور۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کس کو بلایا جاتا ہے اور کون وارد ہوتا ہے۔ وہ محض اس وقت زندہ رہنے کے لیے فکر مند ہیں، مہذب اور پروقار انداز میں اپنا احتجاج درج کروانے پر سوچ وبچار کر ر ہے ہیں۔ اسی تناظر میں، میں نے اپنے صحافی دوست سے پوچھا کہ کیا کشمیریوں نے اس دورے پر کوئی راے ظاہر کی تو وہ پھر خوب ہنسے اور کہنے لگے ’اکثر کہتے ہیں کہ اس یورپی وفد میں مولانا فضل الرحمان کو بھی شامل ہونا چاہیے تھا تا کہ کشمیر کا وازہ وان ہی تناول کرتے اور عمران خان کی حکومت بھی بچ جاتی۔‘ ہم دونوں کافی دیر تک بس ہنستے رہے اور شاید پانچ اگست کے فیصلے کے بعد ہم دونوں پہلی بار اتنا کھل کھلا کر ہنس رہے تھے۔

نعیمہ احمد مہجور

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

رجب طیب اردوان نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں اُٹھا دیا

ترک صدر رجب طیب اردوان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جبری پابندیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھا دیا۔ نیویارک میں جاری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ یو این کی منظور شدہ قرار دادوں کے باوجود 72 سال سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکا، گزشتہ 50 دنوں سے 80 لاکھ کشمیری محصور ہیں وہ باہر نہیں آسکتے کیوں کہ مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہے ۔ رجب طیب اردوان نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن کے لیے پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کا حل اعتماد اور برابری کی بنیاد پر ہونے والے مذاکرات سے کرنا چاہیے۔

ترک صدر نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے ثبوت نقشے کی صورت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک اسرائیل مسلسل فلسطینی زمین پر قبضہ کر رہا ہے، اسرائیلی زمین بڑھتی جارہی ہے اور فلسطین کا رقبہ کم ہوتا جارہا ہے، کیا کوئی اسرائیل کے بارڈرز ہیں؟ اسرائیلی سرحدوں کی تعین کیوں نہیں کیا جارہا؟ رجب طیب اردوان نے ایلان کرد کی تصویر اٹھاتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری بھوک، خوراک کی کمی، موسمیاتی تبدیلی اور دہشتگردی سمیت دیگر چیلنجز کے حل کی قابلیت کھوتی جارہی ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز