ایف 16 طیارہ گرانے کا بھارتی جھوٹ بےنقاب

بھارت کا پاکستانی ایف سولہ طیارہ مار گرانےکا جھوٹا دعویٰ بے نقاب ہو گیا ہے، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی ایف 16 طیاروں کی گنتی کی گئی وہ تعداد میں پورے ہیں جبکہ اہلکاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ F-16 کے معاہدے میں طیارے کسی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کی شرط نہیں، یہ یقیناً خام خیالی ہو گی کہ ہم کوئی سامان بیچیں اور وہ جنگ میں پاکستان استعمال نہ کرے، ذرائع کے مطابق امریکی حکام نے اردن سے لئے گئے ایف سولہ طیارے بھی گنتی کیے تھے اور وہ بھی پورے ہیں، کل 76 طیاروں میں سے 13 اردن سے لیے گئے تھے، گنتی میں طیارے پورے ہیں۔

دوسری جانب ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ وقت آگیا بھارت اپنے جھوٹے دعوے پر اب سچ بولے، بھارت اس دوسرے طیارے کے بارے میں بھی بتائے جو پاکستان نے مار گرایا تھا۔ امریکی جریدے ʼفارن پالیسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان نے امریکی اہلکاروں کو آکر ایف 16 طیاروں کو گننے کی پیشکش کی تھی اور امریکی اہلکاروں نے تمام ایف سولہ طیارے پاکستان کے پاس موجود ہونےکی تصدیق کر دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کی تعداد پوری ہے جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہا اور اپنا طیارہ اور پائلٹ کھویا۔

امریکی جریدے کی رپورٹ بھارت کے اس دعوے کی نفی کرتی ہے جس میں بھارتی ایئرفورس کے حکام نے کہا تھا کہ کمانڈر ابھی نندن نے پاکستانی ایف 16 طیارے کو مار گرایا اور ڈوگ فائٹنگ کے دوران ان کا طیارہ بھی تباہ ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں موجود امریکی حکام نے بھارتی دعوے پر شک کا اظہار کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بھارتی حکام عالمی برادری کو 27 مئی کو پیش آئے واقعے کے حوالے سے گمراہ کر رہے ہیں۔ فارن پالیسی میگزین کی رپورٹ کے مطابق امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ ایف 16 کے معاہدے میں طیارے کسی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کی شرط نہیں

یہ یقیناً خام خیالی ہو گی کہ ہم کوئی سامان بیچیں اور وہ جنگ میں پاکستان استعمال نہ کرے، ذرائع کے مطابق پاکستان کے پاس کل 76 طیارے ہیں جن میں 13 اردن سے لیے گئے۔ امریکی حکام نے اردن سے لئے گئے ایف سولہ طیارے بھی گنتی کیے تھے اور وہ بھی پورے ہیں۔ دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر ) کے ڈائریکٹر جنرل نے معروف امریکی جریدے کی رپورٹ ٹوئٹر پر شیئر کی اور کہا کہ سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، سچ ہمیشہ قائم رہتا ہے، بھارت اس دوسرے طیارے کے بارے میں بھی بتائے جو پاکستان نے مار گرایا تھا، بھارت کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، خصوصاً کشمیر کے معاملے پر، خطے کو امن، ترقی اور خوشحالی کی ضرورت ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

ایف 16 ہوں یا جے ایف تھنڈر، پاکستان کے دفاع میں استعمال ہوئے

بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستانی ایف سولہ طیارے کو نشانہ بنانے اور ایف سولہ کے استعمال کے معاملے پر پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے پہلی مرتبہ بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق جب بھارتی جہاز آئے تو فضائیہ کے تمام جہاز بشمول ایف 16 فضا میں موجود تھے، اگر ایف 16 استعمال ہوا تب بھی دو انڈین جہاز ہی نشانہ بنے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے ایف سولہ طیاروں کے استعمال پر پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ 27 فروری کا واقعہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے پار کارروائی پاکستان کی فضائی حدود کے اندر سے جے ایف 17 تھنڈر طیاروں نے کی۔

بعد میں جب دو بھارتی جہازوں نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی تو انہیں پاکستان کی فضائیہ نے نشانہ بنایا۔ ان دو بھارتی جہازوں کو ایف سولہ نے نشانہ بنایا یا جے ایف 17 نے، یہ سوال بے معنی ہے، پاکستان کی فضائیہ نے دونوں بھارتی جہازوں کو اپنے دفاع میں مار گرایا۔ فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جب بھارتی جہاز آئے تو اس وقت فضائیہ کے تمام جہاز بشمول ایف 16 فضا میں موجود تھے۔ اب یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق ایف 16 چن لے یا کوئی اور جہاز۔ اس سے نتیجے پر فرق نہیں پڑتا۔ ترجمان نے کہا کہ اگر ایف 16 استعمال ہوا تب بھی دو انڈین جہاز ہی نشانہ بنے، پاکستان اپنے دفاع کے لیے اپنی ہر صلاحیت کا مرضی کے مطابق استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار جنرل طلعت مسعود نے اس بیان پر اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے ان طیاروں کے استعمال کا پورا حق ہے۔ پلوامہ میں خودکش حملے کے بعد، جس میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے درجنوں اہل کار ہلاک ہو گئے تھے، پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان میں موجود گروپ جیش محمد پر عائد کیا۔ بعد میں بھارتی طیاروں نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ میں جیش محمد کا مدرسہ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا

اس کے اگلے ہی روز پاکستان نے دو بھارتی جہازوں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا، جن میں سے ایک طیارہ پاکستان کے کنٹرول کے علاقے اور دوسرا لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب بھارتی کنٹرول کے علاقے میں گرا تھا۔ بھارت کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں ایف سولہ طیاروں کا استعمال کیا گیا تھا۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ کے مطابق پاکستان ان جہازوں کو کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے ان طیاروں کا استعمال اپنے دفاع میں کیا ہے

علی رانا

بشکریہ وائس آف امریکہ

امریکی معاہدے میں ’بھارت کے خلاف ایف-16 کے دفاعی استعمال‘ کی اجازت تھی

امریکا کی جانب سے اسلام آباد کو ایف 16 لڑاکا طیاروں کی فراہمی کے وقت مستقبل میں بھارت کے ساتھ تنازع میں پاکستان کے لیے طیاروں کی نہ صرف ‘دفاعی اہمیت’ کا اعتراف کیا گیا تھا بلکہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان جوہری لڑائی کو روکا جا سکتا ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان دونوں نکات کو اسلام آباد میں امریکی سفارتکار رہنے والی اینی پیٹرسن نے 24 اپریل 2008 کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بھیجے گئے اپنے خصوصی پیغام میں شامل کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ’جدید ایف-16 پروگرام پاکستان کو دینا اس اعتبار سے خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ مستقبل میں اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑائی ہوتی ہے تو اس سے پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کے بجائے روایتی ہتھیار استعمال کرنے کا وقت ملے گا‘۔

انہوں نے یہ بات واشنگٹن کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں کہی تھی جو 20 پیراگرافس پر مشتمل تھی اور وکی لیکس کے ذریعے سامنے آئی تھی۔ انہوں نے جس حوالے سے بات کی تھی اس میں 500 اے آئی ایم-120- سی 5 جدید درمیانے فاصلے کا میزائل بھی شامل تھا جو گزشتہ ہفتے کشمیر کے تنازع پر بھارتی فضائیہ کے خلاف استعمال ہوا۔ بعدازاں 18 مارچ 2009 کو انہوں نے واشنگٹن کو ایک اور طویل پیغام ارسال کیا جس میں پاکستان کی جانب سے مزید ایف-16 طیاروں کی درخواست اور اس کی فروخت پر بھارتی اعتراضات شامل تھے۔

اس وقت بھارت کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ اگر ہمارا مقصد یہ ہے کہ فوج کو حکمتِ عملی تبدیل کرنے اور بھارتی سرحد پر فورسز کی ازسرِ نو تعیناتی پر مجبور کر دیں تو اس معاہدے کو منسوخ کرنا ہمارے لیے مفید نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ’اس سے یہ تاثر فروغ پائے گا کہ ہم پاکستان کی قیمت پر بھارتی اجارہ داری برقرار رکھنے کی حمایت کر رہے ہیں اور فوج میں امریکا مخالف جذبات پروان چڑھیں گے‘۔ اسی پیغام میں انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ انہیں کیوں یقین ہے کہ ایف-16 طیارے جنوبی ایشیا میں جوہری تنازع کے امکان کو معدوم کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا ’بھارتی فوج کی برتری کو کم کرنے کے لیے پاکستان نے اپنا جوہری اور میزائل پروگرام اور فضائی ہتھیار تیار کیے ہیں، بنیادی طور پر امرامس سے لیس طیاروں کی فروخت میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان بھارت کے ساتھ تنازع میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے پر غور کرے گا’۔ سابق امریکی سفیر نے واشنگٹن کے پالیسی میکرز کو یہ بھی یاد کروایا تھا کہ 2008 میں بھارت جدید کثیرالمقاصد لڑاکا طیاروں میں پاکستان پر پہلے ہی برتری حاصل کر چکا ہے جہاں نئی دہلی کے پاس 736 طیارے ہیں وہیں پاکستان کے پاس صرف 370 ہیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ’بھارت 126 کثیرالمقاصد طیارے (ایف18 یا اس کے برابر) حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے نئی دہلی کو نہ صرف اہم ٹیکنالوجی حاصل ہو جائے گی بلکہ پاکستان پر اس کی فضائی برتری میں مزید اضافہ ہو گا۔ ایک اور پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ بھارتی فضائیہ پہلے سے ہی نظر سے اوجھل تکنیک پر تربیت کر رہی ہے اور اگر ہم نے پاکستان کی ہتھیار فروخت کرنے کی درخواست ٹھکرا دی تو خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔

بشکریہ ڈان نیوز

پاکستان کی جوابی کارروائی میں جے ایف -17طیارہ استعمال ہوا، رپورٹ

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے آزاد کشمیر میں بھارتی دراندازی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے بھارتی طیارے کو مار گرانے کے لیے جے ایف تھنڈر جنگی طیارے کا استعمال کیا۔ خیال رہے کہ جے ایف-17 چینی ساختہ جنگی جہاز ہے جو پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر تیار کیے تھے۔ امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ممکن ہے کہ بھارتی طیارے کو گرانے اور نتیجتاً پائلٹ ابھی نندن کو حراست میں لینے کی کارروائی میں ان میں سے ایک طیارے کا استعمال کیا گیا ہو‘۔ واضح رہے کہ امریکی سفارت کار جاننا چاہتے تھے کہ کیا پاکستان نے اس کارروائی میں امریکی ساختہ طیارے ایف-16 کو استعمال کیا تھا ؟

رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ بھارتی طیارہ روسی ساختہ ایم آئی جی-21 تھا، جو 1960 سے بھارتی فضائیہ کے زیرِ استعمال ہے اور ایسے 200 طیاروں میں سے ایک تھا۔ اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایشیا اسپیسفک کالج آسٹریلیا کے ایک استاد نشانک موٹوانی نے سی این این کو بتایا کہ یہ طیارے مختلف حادثات کا شکار ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے بھارتی پائلٹس اس جہاز کو ’اڑتا تابوت‘ قرار دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کے بھاری دفاعی بجٹ کے باوجود ان طیاروں کا استعمال مسائل کی نشاندہی کرتا ہے کیوں کہ بجٹ میں ایک بڑی رقم اس کی دیکھ بھال اور تنخواہوں کی مد میں مختص کی جاتی ہے‘۔

رپورٹ میں بھارتی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے حال ہی میں کی گئی تحقیقات کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’طیاروں کو جدید بنانے کے لیے بجٹ کی رقم کا 14 فیصد حصہ خرچ ہوتا ہے جو قطعی طور پر ناکافی ہے‘۔ دوسری جانب اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا اس بارے میں معلومات حاصل کر رہا ہے کہ آیا پاکستان نے بھارتی طیارے کو مار گرانے کے لیے امریکی ساختہ ایف – 16 کو استعمال کیا! اگر ایسا ہوا تو یہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان ایف-16 کی خریداری کے لیے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔

تاہم پاکستان کا کہنا تھا کہ اس نے اس کارروائی میں ایف-16 طیارے کا استعمال نہیں کیا جبکہ بھارتی طیارے کو دراندازی کرنے پر مار گرانے کو دفاعی کارروائی بھی قرار دیا۔ امریکی سفارتخانے کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ان اطلاعات کی خبر ہے اور اس حوالے سے مزید معلومات حاصل کر رہے ہیں، ہم دفاعی شقوں کے غلط استعمال کو نہایت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں‘۔ خیال رہے کہ امریکا عموماً فروخت کیے گئے دفاعی ساز و سامان کے استعمال میں نام نہاد ’اینڈ یوزر اگریمنٹ‘ کے تحت رکاوٹیں حائل کرتا ہے۔

قبل ازیں بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے حالیہ کارروائی میں اے آئی ایم-120 سی-5 ایڈوانس میڈیم رینج فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل فائر کیا جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ایف-16 وائپر طیاروں کا استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھارت نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایک پاکستانی طیارے کو مار گرایا تھا تاہم پاکستان نے بھارتی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے ایف – 16 طیارے کا استعمال ہی نہیں کیا تو مار گرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

بشکریہ ڈان نیوز