پاکستان کی اقتصادی امداد روکنے کا بل امریکی ایوان نمائندگان میں پیش

پاکستان کی اقتصادی امداد روکنے سے متعلق امریکہ کے ایوان نمائندگان میں ایک بل متعارف کرایا گیا۔ اس سے قبل ایک ایسا ہی بل سینیٹ کے فلور پر بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ اکنامک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایوان میں لائے جانے والے بل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی غیر فوجی امداد بھی روکی جانی چاہیے اور اس اقدام سے بچنے والے فنڈز امریکہ کے انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر صرف کیے جائیں۔ بل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی امداد بند کرنے کا مطالبہ اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان دہشت گردوں کو فوجی امداد اور خفیہ معلومات فراہم کرتا ہے۔

پاکستان اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔ پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ افغانستان میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے اس کا الزام پاکستان پر ڈال رہا ہے جہاں وہ بڑھتی ہوئی شورش کو دبانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ یہ بل ساؤتھ کیرولائنا کے کانگریس مین مارک سین فورڈ اور کنٹکی کے تھامس مارسی نے پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ، اور بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یوایس ایڈ کو امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم پاکستان بھیجنے سے روکا جائے۔ اس کی بجائے یہ فنڈز امریکہ میں سٹرکوں کی تعمیر و مرمت کے لیے ہائی وے ٹرسٹ فنڈ کو دے دیے جائیں۔ پاکستان کی اقتصادی امداد روکنے سے متعلق ایک ایسا ہی بل سینیٹ میں بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ یہ بل پچھلے مہینے سینیٹر رینڈ پال نے متعارف کر ایا تھا۔

پاکستان کے لیے آزمائش کا دور، لیکن ……

پاکستان آزمائش کے دور سے گزر رہا ہے۔ اسے ہندوستان اور امریکا کی طرف سے بیک وقت خطرات کا سامنا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ پاکستان میں افغان طالبان کے مبینہ ‘محفوظ ٹھکانوں’ کے خاتمے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ امریکا کی جانب سے اپنی علاقائی خواہشات کی تائید پر ہندوستان پھولے نہیں سما رہا ہے۔ پاک امریکا تنازعے پر خوش اور مقبوضہ کشمیر میں تازہ ترین عوامی بغاوت کو دبانے میں ناکام ہندوستان نے پاکستان پر سیاسی اور عسکری دباؤ بڑھا دیا ہے۔ اس دوران پاکستان کی علاقائی سیاست اتھل پتھل کا شکار ہے اور قوم دو مونہے بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے قیادت سے تقریباً محروم ہے۔

ہندوستان سے ہمارے وجود کو نہایت سنگین خطرہ لاحق ہے۔ ہندوستان کہتا ہے کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی روزانہ خلاف ورزی پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت کرنے کی ‘سزا’ دینے کے لیے ہے۔ ‘سرجیکل اسٹرائیکس’، ‘محدود جنگ’، اور ‘کولڈ اسٹارٹ’ حملے کی بیان بازیوں کے علاوہ ہندوستانی ایئر چیف نے زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ‘ڈھونڈ کر تباہ’ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جبکہ ہندوستانی آرمی چیف نے پاکستان کو ایک ‘نیوکلیئر دھوکے باز’ قرار دیتے ہوئے سرحد پار حملے کی تیاری کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح کی غیر ذمہ دارارنہ دھمکیوں کی عالمی طور پر مذمت کرنی چاہیے۔

پاکستان کو واضح طور پر ہندوستان کو بتا دینا چاہیے کہ کسی بھی قسم کے فوجی ایڈوینچر کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ پاکستان کو سیکیورٹی کونسل سمیت تمام بڑی قوتوں کو ہندوستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی اور عسکری دھمکیوں کے اندر پنہاں خطرات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ پاکستان لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب اقوامِ متحدہ کے مبصرین کی مزید مؤثر موجودگی کی تجویز دے سکتا ہے۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ واشنگٹن کو ہندوستان کے خطرناک جنگی عزائم کی حوصلہ افزائی کرنے سے بھی خبردار کرے۔ پاکستان کی جانب سے کشمیر یا دیگر مسائل پر یکطرفہ پاکستانی سمجھوتے یا دستبرداری سے ہندوستانی دباؤ کم نہیں ہو گا۔ پاکستان کے اہم ترین مفادات پر کسی بھی سمجھوتے کے علاوہ اگر پاکستان نے اپنی جانب سے کوئی کمزوری دکھائی تو تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہندوستان کی بیان بازیوں اور دباؤ میں اضافہ ہی ہو گا۔

اس کے مقابلے میں طالبان/حقانی نیٹ ورک کے ‘محفوظ ٹھکانوں’ کے متعلق امریکی دباؤ بھلے ہی گمراہ کن ہے مگر اس کے طویل مدت میں پاکستان پر محدود اسٹریٹجک اثرات ہوں گے۔ امریکا کی مؤثر فورس تیار کرنے کی نئی حکمتِ عملی کے جو بھی نتائج ہوں، جلد یا بدیر امریکا کو افغانستان سے نکلنا ہی ہو گا۔ غیر ملکیوں کی عدم موجودگی، افغانستان کے جغرافیے اور اس کی آبادی کی لسانی قومی و لسانی ترکیب کا مطلب ہے کہ پاکستان کا اس ملک میں اثر رہے گا۔ اس لیے امریکا اور ہندوستان کے دباؤ کا گٹھ جوڑ توڑنے کے لیے پاکستان امریکا کی جانب ہندوستان کی بہ نسبت زیادہ لچک دکھانے کی گنجائش رکھتا ہے۔

نئی دہلی کے مقاصد اسٹریٹجک اور دائمی ہیں؛ امریکا کے افغانستان سے متعلق مطالبے چاہے جتنے بھی گمراہ کن ہوں، اور چاہے وہ جیتے یا ہارے، یہ مطالبے ہمیشہ عارضی نوعیت کے ہی ہوں گے۔ اگر پاکستان کے لیڈروں نے ٹرمپ کی صدارت کی شروعات میں ہی مستعدی اور صراحت کے ساتھ کام لیا ہوتا تو افغانستان میں امریکا کے ساتھ باہمی تعاون پر ایک وسیع مفاہمت پیدا ہو سکتی تھی۔ اب بھی پاکستان کو افغانستان میں پاک امریکا تعاون کے ایک وسیع النظر فریم ورک پر باہمی رضامندی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس فریم ورک میں یہ عناصر شامل ہونے چاہیئں:

دولتِ اسلامیہ گروہ اور اس کے حلیفوں کے خلاف پاک امریکا مکمل تعاون (جیسا کہ ماضی میں القاعدہ کے خلاف کیا گیا).

کابل اور افغان طالبان کے درمیان تنازعے کا گفت و شنید سے سیاسی حل افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے امریکا کی سربراہی میں اتحادی افواج کا ایکشن.

پاکستان کی خودمختاری اور افغانستان میں اس کے جائز مفادات کی تعظیم امریکا اور پاکستان کے درمیان تنازعے کی جڑ، یعنی پاکستان میں افغان طالبان کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں پر کھلے اور بے باکانہ انداز میں بات ہونی چاہیے۔ پاکستان کے پاس امریکا کے افغان طالبان، بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں کو پکڑنے یا مارنے کے مطالبے پر عمل نہ کرنے کی اپنی وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ‘محفوظ ٹھکانوں’ سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ دراندازوں کی چوکیاں ہیں، ٹریننگ کیمپ ہیں یا صرف ان کی موجودگی ہے جیسے کہ افغان مہاجر کیمپوں میں؟

دوسری بات، طالبان رہنماؤں کے قتل سے وہی لوگ ختم ہو جائیں گے جن کے ساتھ امن پر گفت و شنید کی جانی ہے۔ پھر قیادت کے بغیر ہونے والی دراندازی کے ساتھ امن معاہدہ طے نہیں پا سکتا، یہ ہم شام اور لیبیا میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ تیسری بات، افغان طالبان رہنماؤں کے خلاف پاکستان کا ایکشن افغان خانہ جنگی کو پاکستانی سرزمین پر لے آئے گا۔ تحریکِ طالبان پاکستان/جماعت الاحرار اور افغان طالبان کے درمیان گٹھ جوڑ پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔ کسی بھی صورت میں پاکستان کے ایکشن سے صرف چند طالبان رہنما ہی ختم ہوں گے۔ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کو زیادہ خطرہ کرپشن، منشیات کی تجارت اور اندرونی جنگ و جدل سے ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی حکام پالیسی کے حوالے سے ایک خلا میں موجود ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا حالیہ اعلان کہ افغان طالبان اور حقانی گروپ کے 27 ارکان کو کابل کے ‘حوالے’ کر دیا گیا ہے، اس کے پالیسی مؤقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس طرح کے متضاد اقدامات پاکستان کے لیے دو جہاں کا خطرہ پیدا کر دیں گے۔ نہ ہی امریکا اس سے راضی ہو گا، بلکہ اس سے تو ہم افغان طالبان کو بھی اپنا دشمن بنا لیں گے۔

اسی طرح اسلام آباد نے بھول پن سے افغان پروپیگنڈے کو اس وقت تسلیم کر لیا جب اس نے این ڈی ایس کے سربراہ اور افغان وزیرِ داخلہ کا استقبال کیا۔ یہ دونوں حکام حالیہ کابل حملوں میں پاکستان کی ‘خفیہ معاونت’ کی شکایت کرنے آئے تھے، جبکہ ان کے پاس اپنے اس بلند و بانگ دعوے کی حمایت میں ذرہ برابر بھی ثبوت نہیں تھا۔ پاکستان کے لیے امریکا کے ساتھ تنازعے سے پرہیز کا ایک واحد راستہ یہ ہے کہ افغان طالبان کو ایک پرامن سمجھوتے کے لیے مذاکرات پر راضی کیا جائے۔ ٹرمپ کے بیانات کے باوجود امریکی حکام نے مبینہ طور پر یقین دلایا ہے کہ وہ طالبان سے بات چیت چاہتے ہیں۔ ان مذاکرات میں شرکت کر کے طالبان اپنے لیے مذاکراتی فریق کی حیثیت سے ایک جائز سیاسی رتبہ حاصل کر لیں گے۔ اس طرح کی بات چیت ایک سے زیادہ انداز میں کی جا سکتی ہے اور اس مرحلے میں روس، ایران اور ترکی کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی بھرپور کوششوں کے باوجود اور اس کی کمزوریوں اور پریشانی کو دیکھتے ہوئے امریکا پاکستان کے خلاف مزید سخت اقدامات کر سکتا ہے جس میں سیاسی و اقتصادی پابندیاں، یکطرفہ ڈرون حملے اور پاکستانی سرزمین پر اسپیشل آپریشنز شامل ہیں۔ پاکستان کو اس طرح کے اقدامات کا ردِعمل دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ امریکا اور ہندوستان کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری، سی پیک اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف دھمکیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو چاہیے کہ کسی بھی سمجھوتے کی صورت میں اس کا اسٹریٹجک مقصد افغانستان سے امریکا و نیٹو افواج کا مکمل انخلاء ہونا چاہیے۔ سن زو نے آرٹ آف وار میں لکھا تھا: ‘ناقابلِ تسخیر ہونے کا راز اپنے دفاع میں ہے۔’ مشرق اور مغرب دونوں ہی جانب پاکستان کے اسٹریٹجک مقاصد دفاعی ہیں۔ پاکستان امریکا یا ہندوستان سے عسکری طور پر بھلے ہی کمزور ہو، مگر اس کی ایٹمی صلاحیت اسے بیرونی دباؤ اور جارحیت سے فیصلہ کن طور پر محفوظ رکھے ہوئے ہے۔

منیر اکرم
یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 فروری 2018 کو شائع ہوا۔

سابق سفیر حسین حقانی کےخلاف غداری کے مقدمات درج

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف فوج اور ملک مخالف تقاریر، مضامین اور کتابیں تحریر کرنے کے الزام میں غداری کے تین مقدمات دو تھانوں میں درج کر لیے گئے۔ یہ مقدمات گذشتہ روز مومن، محمد اصغر اور شمش الحق کی مدعیت میں تھانہ کینٹ اور تھانہ بلی ٹنگ میں درج کیے گئے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تھانہ بلٹی ٹنگ پولیس نے بتایا کہ اصغر نامی شہری نے ایف آئی آر میں بیان دیا کہ حسین حقانی نے امریکا میں بطور سفیر بھارتی جاسوسوں اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کو ویزے جاری کیے۔

اصغر نے موقف اختیار کیا کہ حسین حقانی نے اپنی تصنیف کردہ کتابوں میں پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جو انہیں غدار ثابت کرتی ہیں۔ پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 120 بی اور 121 اے کے تحت مقدمات درج کر لیے، خیال رہے کہ دفعہ 120 بی مجرمانہ سازش تیار کرنے اور 121 اے پاکستان کے خلاف جنگ چھڑنے کے حوالے سے ہے۔ پولیس حکام کے مطابق قانونی تقاضوں کے مطابق حسین حقانی کو فوری طور پر تھانوں میں حاضر ہونا چاہیے ورنہ انہیں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ حسین حقانی نے اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کالم تحریر کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن میں انہوں نے اوباما انتظامیہ کی مدد کی جبکہ حکومت پاکستان اور خفیہ ایجنسی (آئی ایس آئی) تمام حالات سے بے خبر تھی۔
انہوں نے اپنے مضمون میں امریکیوں کو جاری کیے جانے والے ویزوں کے حوالے سے بھی بات کی تھی۔

حسین حقانی نے لکھا تھا کہ ‘اوباما کی صدارتی مہم کے دوران بننے والے دوستوں نے، 3 سال بعد ان سے پاکستان میں امریکی اسپیشل آپریشنز اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو تعینات کرنے کے حوالے سے مدد مانگی تھی’۔ اس حوالے سے امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر عابدہ حسین نے حسین حقانی کے حالیہ مضمون کے معاملے پر پارلیمانی کمیشن بنانے کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو عام کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے آسکیں۔ دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ سفارتی ویزوں کے اجرا کے حوالے سے حسین حقانی کے بیانات سے ‘پاکستان کے ریاستی اداروں کے موقف کی تصدیق ہوتی ہے’۔

ڈان نیوز کے پروگرام ‘نیوز وائز’ میں گفتگو کرتے ہوئے عابدہ حسین نے کہا تھا کہ ‘ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے حسین حقانی کے اس مضمون سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، لیکن یہ بات کوئی وزن نہیں رکھتی، سابق صدر آصف زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں حسین حقانی کو امریکا میں بطور پاکستانی سفیر تعینات کر کے ایک نہایت غلط اقدام اٹھایا تھا۔ میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا تھا۔

یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو روکنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک پراسرار میمو بھیجا تھا۔ اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد پاکستان کی سویلین حکومت کو امریکا کا دوست ظاہر کرنا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایٹمی پھیلاؤ روکنے کا کام صرف سویلین حکومت ہی کر سکتی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکیورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔ کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ‘حسین حقانی یہ بھول گئے تھے کہ وہ پاکستانی سفیر ہیں، انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی’۔

سی آئی اے پاکستانی ایٹمی سائنس دانوں کے تعاقب میں

اوائل جنوری میں بھارتی آرمی چیف، بپن راوت نے بڑھک ماری کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام فراڈ ہے۔ اس پر پاک فوج نے اسے یاد دلایا کہ پاکستان قابل اعتماد ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے جو اس کا بہترین دفاعی و مزاحمتی ہتھیار ہے۔ وطن عزیز کے ایٹمی پروگرام کے موثر ہونے کا ایک ٹھوس ثبوت حال ہی میں سامنے آیا۔ ایک امریکی صحافی‘ ڈینئل گولڈن نے انکشافات اور حیرت انگیز حقائق سے پُر کتاب Spy Schools: How the CIA, FBI, and Foreign Intelligence Secretly Exploit America’s Universities لکھ کر خصوصاً امریکا کی خفیہ ایجنسیوں سی آئی اے اور ایف بی آئی کی مذموم سرگرمیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ ڈینئل گولڈن مشہور امریکی صحافی ہیں ا ور خصوصاً اعلیٰ تعلیم (ہائرایجوکیشن) میں پھیلی کرپشن پر کتب لکھ کر پلٹزر انعام حاصل کر چکے ہیں۔

ڈینیل گورڈن نے اپنی حیرت انگیز کتاب میں یہ اہم انکشاف کیا کہ سی آئی اے عموماً یورپی ممالک میں سائنس کانفرنسوں اور مذاکروں کا اہتمام کراتی ہے۔ ان میں خصوصاً امریکا مخالف ممالک مثلاً شمالی کوریا، ایران، روس، کیوبا، وینزویلا، کولمبیا، پانامہ وغیرہ کے علاوہ بظاہر دوست ممالک مثلاً پاکستان سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں اور دانشوروں، خاص طور پہ ایٹمی سائنس کے ماہرین کو بلایا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ انہیں بیرون ملک بلوا کر ترغیبات سے اپنا ایجنٹ بنایا جا سکے۔ گورڈن نے اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی لکھا ہے۔ دس سال قبل سی آئی اے نے ایک غیر جانب دار، یورپی ملک میں ایٹمی سائنس پر کانفرنس منعقد کرائی۔ اس میں ایران کے دو ایٹمی سائنس دانوں کو بھی بلایا گیا۔ غیر جانب دار مملکت ہونے کے ناتے ایرانی حکومت نے انہیں جانے کی اجازت دے دی۔ ایرانی ایٹمی سائنس داں جس ہوٹل میں ٹھہرے، سی آئی اے نے وہاں باورچی خانے اور دیگر شعبوں کے عملے میں اپنے ایجنٹ تعینات کر دیئے۔ اس سارے تام جھام کا مقصد یہ تھا کہ کسی ایرانی ایٹمی سائنس داں کو رجھا کر امریکا لے جایا جا سکے۔ سی آئی اے نے سائنس دانوں اور ان کے گارڈوں کے کمروں میں آلات جاسوسی نصب کردیئے تھے۔

رات گئے جب ان آلات نے بتایا کہ ایرانی سائنس دانوں کے گارڈ سو چکے تو سی آئی اے کا ایجنٹ ایک ایٹمی سائنس دان کے کمرے میں پہنچا اور ہولے سے دستک دی۔ وہ سائنس داں جاگ رہا تھا۔ اس نے دروازہ کھول دیا۔ سی آئی اے کے ایجنٹ نے اپنی وفاداری اور دوستی دکھانے کی خاطر سائنس داں کے دل پر ہاتھ رکھا اور بولا:’’ سلام حبیبی! میرا تعلق سی آئی اے سے ہے۔ کیا آپ میرے ساتھ بذریعہ ہوائی جہاز امریکہ چلنا چاہیں گے؟‘‘ ایرانی سائنس داں کے چہرے پر قدرتاً حیرت، خوف اور تجسس کے ملے جلے تاثرات نمودار ہو گئے۔ سی آئی اے کا ایجنٹ پہلے بھی مختلف ممالک کے سائنس دانوں کو منحرف کر چکا تھا۔ لہٰذا اسے اندازہ تھا کہ یہ ایرانی کیا سوچ رہا ہے… میرے اہل خانہ کا کیا بنے گا، میری حفاظت کیسے ہو گی؟ ہم یہاں سے کیونکر نکلیں گے؟ میں کہاں رہوں گا؟ میرے اخراجات کون برداشت کرے گا ؟ اگر میں نہ کہہ دوں تو کیا ہو گا؟ سائنس داں اپنے ذہن میں مچلتے کئی سوالات میں سے ایک سوال کرنے لگا، تو ایجنٹ اس کی بات کاٹ کر بولا: ’’پہلے برف والی ٹوکری اندر سے لے آئیے۔‘‘ ’’وہ کیوں؟‘‘ ایرانی نے پوچھا۔ ’’اگر آپ کا کوئی گارڈ جاگ گیا، تو آپ بتا سکتے ہیں کہ میں برف لینے جا رہا تھا۔‘‘

اس طرح سی آئی اے ایک ایرانی ایٹمی سائنس داں کو ترغیبات دے کر اسے امریکا لے گئی۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس سے حاصل کردہ معلومات کے سہارے ہی امریکی اور اسرائیلی کمپیوٹر ماہرین ’’سٹکسنیٹ ‘‘(Stuxnet ) نامی انتہائی خطرناک اورجدید ترین وائرس تیار کرنے میں کامیاب رہے جس نے ایرانی ایٹمی پلانٹ میں یورینیم افزودہ کرنے والی مشینیں خراب کر دی تھیں۔ فاصلے سکڑ جانے کے بعد سی آئی اے کے لیے آج سائنسی و علمی کانفرنسیں منعقد کرانا آسان ہو چکا ہے۔ کانفرنسوں میں شریک ماہرین کو کسی قسم کی انعامی رقم تو نہیں ملتی مگر ان کی عزت و وقار میں ضرور اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ہر ملک کے سائنس داں اور دانشور یہ جانے بغیر ان کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں کہ یہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کا موثر ہتھیار بن چکی ہیں۔

ڈینیل گولڈن کو سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار نے بتایا کہ ان کانفرنسوں کے ذریعے کسی غیر ملکی دانشور یا سائنس داں کو امریکی ایجنٹ بنانا ایک طویل عمل ہے۔ اس کی شروعات ڈالروں کی شکل میں بھاری رقم دینے سے ہوتی ہے۔ عام طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے سائنس داں کو دو سے دس ہزار ڈالر دینے کا لالچ دیا جاتا ہے۔ شمالی کوریا اور ایران کے سائنس دانوں پر زیادہ ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ڈینیئل گورڈن کے انکشافات سے عیاں ہے کہ پاکستان میں خصوصاً ایٹم بم اور میزائل منصوبوں سے منسلک سائنس دانوں کو عالمی کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہوئے سی آئی اے کے ایجنٹوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ یہ ایجنٹ مختلف ترغیبات اور بہکاوں سے لیس ہو کر انھیں گمراہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے، کسی بھی وقت ہوس کا نشانہ بن سکتا ہے۔ اب تو امریکا اور بھارت کو پاکستانی ایٹمی پروگرام کے کسی بھی پہلو کی ہوا تک نہیں لگنی چاہیے۔ دونوں عالم اسلام کی اکلوتی ایٹمی مملکت کے خلاف سرگرم ہو چکے۔

علم وتعلیم پر ڈاکا
ڈینئل گولڈن کی نئی کتاب نے یہ بھی افشا کیا کہ سی آئی اے اور ایف بی آئی نے امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں کو اپنے مراکز بنا لیا ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیاں ان تعلیمی اداروں میں تعلیم پاتے غیرملکی طلبہ یا اساتذہ کو مختلف طریقوں سے اپنا آلہ کار بنا لیتی ہیں۔ کبھی انہیں پُر کشش معاوضہ دیا جاتا ہے۔ کبھی قیمتی تحائف دیئے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ٹارگٹ کو پھانسنے کی خاطر حسین و جمیل لڑکیاں بھی بطور چارا استعمال ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میںڈینئل نے چشم کشا واقعات لکھے ہیں۔

یہ اپریل 2009ء کی بات ہے‘ ڈائنا مرکیورو نامی ایک خاتون پروفیسر ڈیجن پینگ سے ملنے اس کے گھر پہنچی۔ پروفیسر ڈیجن امریکا کی مشہور یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں بین الاقوامی بزنس پڑھاتا تھا۔ مزید براں یونیورسٹی کے ایک ادارے‘ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کا سربراہ بھی تھا۔ یہ ثقافتی ادارہ چینی حکومت کی مالی امداد سے چل رہا تھا۔ پروفیسر ڈیجن آج کل مشکلات میں گرفتار تھا ۔  یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پر ا لزام لگایا تھا کہ وہ مالی خرد برد میں ملوث ہے۔ پروفیسر اس الزام سے انکاری تھا۔ ڈائنا مرکیورو نے پروفیسر کو پیش کش کی کہ وہ اسے یونیورسٹی انتظامیہ کے الزامات سے بچا کر اس کی ملازمت محفوظ کر سکتی ہے۔

بدلے میں پروفیر ڈیجن کو چینی حکومت اور مقامی چینی باشندوں کی جاسوسی کرنی تھی۔ یہ سن کر پروفیسر حیران پریشان ہو گیا۔ ڈائنا دراصل امریکا کی ایک ہائی پروفائل جاسوس تھی۔ اسی کا دونوں اعلیٰ امریکی خفیہ ایجنسیوں… سی آئی اے اور ایف بی آئی سے تعلق تھا۔ انہی ایجنسیوں نے اب ڈائنا کو یہ ذمے داری سونپی تھی کہ وہ چینی نژاد امریکی پروفیسر کو اپنے جال میں پھانس لے… اور وہ کامیاب رہی۔ پروفیسر ڈیجن چین میں پیدا ہوا تھا۔ نوجوانی میں امریکا چلا آیا اور اعلیٰ تعلیم پا کر یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا سے وابستہ ہو گیا۔ چین میں کئی اعلیٰ سرکای افسر اور سیاست داں اس کے واقف کار تھے۔ انہی کے تعاون سے ذریعے پروفیسر نے یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ بھی کھلوا لیا اور اس کا چیئرمین بن گیا۔ لیکن اب مخالفین نے اس پر مالی بدعنوانی کے الزامات لگا دیئے تھے اور اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنا دفاع کیونکر کرے۔ مصیبت کے اس عالم میں اس نے ڈائنا کی پیش کش قبول کر لی۔

ڈائنا نے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے جعلی کاغذات بنا لئے جو اس بات کا ثبوت بن گئے کہ پروفیسر ڈیجن نے مالی بدعنوانی نہیں کی۔ بدلے میں پروفیسر سی آئی اے کا خفیہ ایجنٹ بن گیا۔ وہ چھ ماہ تک چینی حکومت اور امریکا میں مقیم چینی باشندوں کے بارے میں اہم معلومات سی آئی اے کو فراہم کرتا رہا۔ جب پروفیسر کے پاس چین سے متعلق مزید خفیہ معلومات نہیں رہیں تو اس سے رابطہ ختم کر دیا گیا۔ سات سال بعد مشہور امریکی ویب سائٹ ‘بلوم برگ‘ کے ایک مضمون نے انکشاف کیا کہ چینی نژاد امریکی پروفیسر ڈیجن پینگ امریکی خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ رہ چکا ہے۔ ڈینٹل گورڈن نے ایک اور چشم کشا واقعہ لکھا ہے۔ لکھتا ہے کہ 2010ء کی بات ہے، ایک اعلیٰ امریکی یونیورسٹی کا پروفیسر کمیپس میں تخفیف اسلحہ پر بحث کرا رہا تھا۔ وقفے میں روس کا ایک سفارت کار اس سے ملا اور اسے لنچ کی دعوت دی۔ پروفیسر نے دعوت قبول کر لی تاہم اس نے روسی سفارت کار کے بارے میں ایف بی آئی کو مطلع کر دیا۔ ایف بی آئی نے اسے بتایا کہ روسی سفارت کار دراصل روس کی خفیہ ایجنسی کا افسر ہے۔ یہ سن کر پروفیسر نے ایف بی آئی سے کہا ’’گویا مجھے اس سے بات نہیں کرنی چاہیے؟‘‘

ایف بی آئی نے بتایا ’’ہماری خواہش ہے کہ آپ اس سے ضرور ملیے۔‘‘ یوں امریکی پروفیسر ڈبل ایجنٹ بن گیا۔ اگلے دو برس تک روسی انٹیلی جنس افسر نے اسے دس لنچ کرائے اور پروفیسر کو تحائف بھی دیئے۔ پوسو لکایا نامی قیمتی ووڈکا کی بوتل اور آٹھ سو ڈالر مالیت کی سوئس گھڑی، نیز افغانستان پر تجزیاتی رپورٹ لکھنے پر پروفیسر کو دو ہزار ڈالر کی خطیر رقم دی۔ پروفیسر نے یہ رقم تو ایف بی آئی کو دے ڈالی تاہم اسے گھڑی اپنے پاس رکھنے کی اجازت مل گئی۔ اسے وہ فخر سے تقریبات میں پہنتا ہے۔ آخر وہ ایک روسی جاسوس کی دی گئی رشوت ہے! ایف بی آئی امریکی حکومت کے بارے میں جو جھوٹی سچی باتیں پروفیسر کو بتاتی، وہ انہیں روسی انٹیلی جنس افسر تک پہنچا دیتا۔ یہ نہیں معلوم کہ روسی حکومت نے ان معلومات سے کتنا فائدہ اٹھایا۔ 2008ء میں سی آئی اے کا اعلیٰ افسر، کنیتھ موسکو تنزانیہ میں پہاڑ پر چڑھتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔ جب اس کی شخصیت پر مضامین شائع ہوئے، تو ہارورڈ یونیورسٹی میں اس کے ساتھ پڑھے ہم جماعت حیران رہ گئے۔ انہیں پہلی بار پتا چلا کہ کینتھ تو سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔ کینتھ نے ہارورڈ سے ماسٹرز کیا تھا اور اپنے ہم جماعتوں کو بتایا تھا کہ وہ محکمہ خارجہ سے منسلک ہے۔

دنیا بھر میں سکول‘ کالج اور یونیورسٹی نوجوان لڑکے لڑکیوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے والے مقدس ادارے سمجھے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں استاد طلبہ و طالبات کو رہنمائی دیتے اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ استاد ہو یا طالبان علم‘ سبھی کی کوشش ہوتی ہے کہ درس گاہوں کا تقدس بحال رکھا جا ئے۔ لیکن امریکا میں سرکاری خفیہ ایجنسیوں نے ان مقدس مقامات کو جاسوسی کی اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا ہے۔ یہ معمولی سرگرمیاں نہیں بلکہ ان کا دائرہ کار بہت وسیع ہو چکا ہے۔ درج بالا واقعات دیگ کے چند دانے ہیں۔ جب ایک غیر ملکی طالب علم یا غیر ملک میں پیدا ہونے استاد امریکی خفیہ ایجنسی کے جال میں پھنس جائے تو پھر اس سے اپنے د یس کے بارے میں ہر ممکن معلومات اگلوائی جاتی ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کا خاص نشانہ وہ طالب علم ہوتے ہیں جو اپنے ملک میں بااثر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ ایسے طلبہ و طالبات وطن واپس جا کر بھی سی آئی اے کے لئے جاسوسی کر سکتے ہیں۔

ڈینئل گولڈن کی کتاب نے یہ بھی افشا کیا کہ امریکا کی تمام بڑی یونیورسٹیوں مثلا ً ہارورڈ‘ ئیل‘ پرنسٹن‘ کولمبیا‘ کورنیل وغیرہ سے سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ایجنٹ بطور استاد منسلک ہیں۔ یہ انڈر کور رہ کر اپنی اصلیت چھپا کے بظاہر طالبان علم کو پڑھاتے ہیں مگر حقیقتاً ان کا اصل کام غیر ملکی طلبہ و طالبات کو اپنے دام میں پھانسنا ہے۔ یہ غیر ملکی طالبان علم کی برین واشنگ بھی کرتے ہیں تاکہ وہ امریکا پہ اندھا دھند اعتماد کرنے لگیں اور امریکی تہذیب وتمدن میں رنگے جائیں۔ امریکا میں ساڑھے چار ہزار سے زائد یونیورسٹیاں اور کالج ہیں۔ ان میں لاکھوں غیر ملکی طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ کتاب کے مطابق دیگر ممالک مثلاً روس‘ چین‘ بھارت‘ برازیل‘ کیوبا‘ جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسیاں بھی طالبان علم کے روپ میں اپنے ایجنٹوں کو امریکی یونیورسٹی یا کالج میں داخل کرتی ہیں۔ یہ نوجوان ایجنٹ لڑکے لڑکیاں کوشش کرتی ہیں کہ ایسے امریکی طلبہ و طالبات کو اپنا دوست بنا لیں جو بااثر سرکاری یا نجی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان سے دوستی کر کے اکثر اوقات ایجنٹ امریکی حکومت کے بارے میں کار آمد معلومات حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

اس انکشاف انگیز کتاب سے عیاں ہے کہ آج امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے بیشتر ادارے جاسوسی کا گڑھ بن چکے ہیں ۔ وہاں امریکا ہی نہیں دیگر بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیاں بھی اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اب کوئی نہیں بتا سکتا کہ فلاں لڑکا یا لڑکی واقعی طالب علم ہے یا کسی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ بن چکا ہے۔ ان خفیہ ایجنسیوں نے حتیٰ کہ اساتذہ کو بھی اپنا آلہ کار بنا لیا ۔ تعلیم سے یہ کھلواڑ امریکا اور دیگر ممالک کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ظاہر ہے‘ جب طلبہ و طالبات کو جاسوس بن کر بھاری معاوضہ ملنے لگے‘ تو وہ تعلیم حاصل کرنے پر کیوں توجہ دیں گے؟ اسی طرح اساتذہ کی توجہ بھی تعلیم دینے سے ہٹ کر جاسوسی کی سرگرمیوں پر لگی رہے گی۔ افسوس کہ بڑی طاقتوں کے حکمرانوں نے اپنے مفادات اور مقاصد حاصل کرنے کی خاطر تعلیم و تربیت دینے والے اداروں کا تقدس بھی پامال کر دیا ۔ طاقت پانے اور ہوس پوری کرنے کی خاطر انہوں نے تمام حدیں پار کر ڈالی ہیں۔

خصوصی رپورٹ / سید عاصم محمود

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

پاکستان نے نیٹو سپلائی روٹ بند کیا تو امریکا کیا کرے گا ؟

ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے پر امریکی تجزیہ کاروں کی مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ کی رائے میں عسکری امداد کی معطلی کے بعد پاکستان عسکریت پسندوں کے خلاف مزید اقدامات کرے گا۔ لیکن بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی روٹ بند کرنے سمیت کسی اور منفی ردِ عمل کی صورت میں اس کے اثرات افغانستان میں امریکی قیادت میں جاری جنگ پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی روٹ بند کیے جانے کا فی الحال کوئی اشارہ سامنے نہیں آیا۔ لیکن ماضی میں بھی پاکستان ایسا کر چکا ہے۔ سن 2011 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستان نے یہ روٹ بند کر دیا تھا جس سے امریکی اور نیٹو افواج کو کافی مشکلات پیش آئی تھیں۔ اس وقت نیٹو افواج کو سامان کی فراہمی کارگو جہازوں پر وسطی ایشیا کے طویل روٹ کے ذریعے کی گئی تھیں جس کے باعث امریکا اور نیٹو اتحاد کے اخراجات میں کافی اضافہ ہوا تھا۔

پینٹاگون نے سکیورٹی وجوہات کو جواز بناتے ہوئے یہ بتانے سے انکار کیا کہ پاکستان کے راستے نیٹو افواج کا کتنا سامان افغانستان بھیجا جاتا ہے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ افغان اور نیٹو افواج کا بنیادی انحصار اسی روٹ پر ہے۔ سن 1927 میں قائم کی گئی چین کی ’پیپلز لبریشن آرمی‘ کے فوجیوں کی تعداد 2015 کے ورلڈ بینک ڈیٹا کے مطابق 2.8 ملین سے زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز ’’آئی آئی ایس ایس‘‘ کے مطابق چین دفاع پر امریکا کے بعد سب سے زیادہ (145 بلین ڈالر) خرچ کرتا ہے۔

پاکستان میں سياستدانوں سمیت کئی اہم شخصیات امریکی فیصلے کے بعد نیٹو روٹ کے ذریعے سپلائی کی بندش کا مطالبہ کر چکی ہیں۔ لیکن امریکی وزیر خارجہ جیمس میٹس نے پینٹاگون میں صحافیوں کو بتایا کہ ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ پاکستان زمینی یا ہوائی راستوں کے ذریعے سامان کی ترسیل روکنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں جنوبی ایشیائی امور کی ماہر کرسٹینا فیئر کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے امریکا کو فضائی حدود کے استعمال کی اجازت سے روک دیا تو پھر امریکا کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ تاہم سپلائی روٹ کی بندش کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ روس کے ساتھ بہتر ہوتے تعلقات کی روشنی میں یہ امکان بھی موجود ہے کہ امریکا وسطی ایشیا میں روسی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر شمالی روٹ استعمال کر سکتا ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ایک اہلکار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ نیٹو سپلائی روٹ کی عارضی بندش امریکا کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر اسے مستقل یا طویل مدت کے لیے بند کیا گیا تو یہ عمل امریکا کو کافی مہنگا پڑ سکتا ہے۔

بشکریہ DW اردو

کیا امریکہ کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں ہے ؟

امریکہ کی طرف سے انتباہی اور امداد کی معطلی سے متعلق بیانات کے تناظر میں پاکستانی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کے ساتھ ان کے ملک کا کوئی اتحاد نہیں ہے۔ موقر امریکی اخبار ‘وال اسٹریٹ جرنل’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کی امداد کی معطلی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں کے ساتھ یہ رویہ نہیں ہوتا جو ان کے بقول امریکہ نے اپنایا۔ امریکہ نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان کے لیے امداد معطل کرنے کا کہا تھا جس پر پاکستان کی طرف سے شدید ناپسندیدگی کا اظہار سامنے آ چکا ہے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ 2001ء میں افغانستان میں امریکی فوجی مہم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر کے پاکستان نے بڑی غلطی کی تھی جس کا نتیجہ ان کے بقول پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی صورت میں سامنے آیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے اپنے ہاں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کیں لیکن اسلام آباد افغان جنگ کو اپنی سرزمین پر لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ وزیرخارجہ کا استدلال تھا کہ اس وقت پاکستان میں امن ہے لیکن اگر اسلام آباد افغان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کرتا ہے تو یہ جنگ دوبارہ پاکستانی سرزمین پر لڑی جائے گی۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں اور تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کر کے سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے منظم ٹھکانوں اور نیٹ ورکس کو تباہ کر دیا ہے۔ لیکن امریکہ کا اصرار ہے کہ پاکستان اپنے ہاں موجود ان عسکریت پسندوں خصوصاً حقانی نیٹ ورک کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کر رہا جو افغانستان میں مہلک حملوں میں ملوث ہیں۔ حالیہ بیانات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چلے ہیں اور دونوں جانب کے آزاد خیال حلقے تناؤ میں کمی کے لیے رابطوں کے فروغ کے ساتھ بات چیت سے معاملات کو حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

اسی اثنا میں امریکی وزیردفاع جم میٹس کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے عسکری امداد کی معطلی کے باوجود پینٹاگان پاکستان کی فوجی قیادت سے رابطوں کو بحال رکھنے پر کام کر رہا ہے۔ پینٹاگان میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور جب وہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی دیکھے گا تو یہ امداد بحال بھی کر دی جائے گی۔

دہشتگردی کیخلاف جنگ، پاکستان کا 10ہزار 374 ارب کا نقصان

پاکستان نے 16 سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 10 ہزار 374 ارب روپے کا مالی نقصان اٹھایا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے نقصانات کے اعداد و شمار جمع کر لئے گئے ۔ اعداد وشمار کے مطابق سب سے زیادہ نقصان مالی سال 2010-11 میں 2 ہزار 37 ارب روپے کا ہوا جبکہ مجموعی طور پر ٹیکس وصولوں میں 5 ہزار 920 ارب روپے کمی واقع ہوئی ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق دہشت گردی سے بیرونی سرمایہ کاری کو سخت دھچکا لگا اس مد میں پاکستان کو 1 ہزار 996 ارب کا نقصان ہوا جبکہ غیر یقینی صورتحال سے 15 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو 928 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑ گیا جبکہ نجکاری کی مد میں 262 ارب روپے کا نقصان ہوا ۔

Pakistanis protest Trump’s ‘lies and deceit’ tweet

Pakistanis stage a protest holding up banners and placards strongly condemning U.S President Donald Trump’s angry tweet about the country in Karachi, Pakistan.

 

 

امریکا نے قربانیاں تسلیم نہ کیں توتعاون کی پالیسی پرنظر ثانی کریں گے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ ڈالروں کے لیے نہیں بلکہ اصولوں کی بنیاد پر لڑی ہے۔ نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے اور یہ اعتراف نہیں کیا گیا تو امریکا کے ساتھ تعاون کی پالیسی میں تبدیلی پر غور کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی میں پاکستان نے سب سے زیادہ آپریشن کیے اور قربانیاں دیں۔

اس سے قبل اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی امداد روکنے کا فیصلہ اقوامِ متحدہ میں یروشلم کے معاملے پر ووٹ دینے سے نہیں بلکہ دہشتگردوں کو اپنے ملک میں مبینہ محفوظ پناہ گاہیں دینے سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ ’دوہرا کھیل‘ کھیل رہا ہے اور وہ دہشتگردوں کو پناہ دیتا ہے، جو افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملہ کرتے ہیں۔ دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے بھی امریکا کی جانب سے پاکستان کی 25 کروڑ ڈالر سے زائد عسکری امداد روکنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے خلاف مزید اقدامات کا اعلان آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں میں کیا جائے گا۔

امریکا کی پریس سیکریٹری سارہ سینڈرز نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ اسلام آباد کے خلاف واشنگٹن کا اقدام گزشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ کی اعلان کردہ جنوبی اشیاء پالیسی میں پیش رفت ہو گا جبکہ امریکی صدر ایک عزم پر عمل کر رہے ہیں جو انہوں نے خود بنایا تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست میں امریکی صدر نے پاکستان کو امداد کم کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم پاکستان میں دہشت گردوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہ سکتے۔
پریس بریفنگ میں سارہ سینڈرز کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان دہشتگردوں کے خلاف مزید اقدامات کر سکتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایسا کرے اور اس کے لیے قدم اٹھائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف مزید کارروائی سے متعلق تفصیلات آئندہ کچھ دنوں میں واضح ہو جائیں گی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل یکم جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لڑنے پر پاکستان کو دی جانے والی امداد کو امریکا کی بیوقوفی قرار دیا تھا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’امریکا نے پاکستان کو 15 سال میں 33 ارب ڈالر سے زائد امداد دے کر بے وقوفی کی، پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا جبکہ وہ ہمارے رہنماؤں کو بیوقوف سمجھتا ہے۔‘ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ’پاکستان دہشت گردوں کو مبینہ محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا جہاں سے دہشت گرد افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کو نشانہ بناتے ہیں، لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔‘

بشکریہ روزنامہ ڈان اردو

ٹرمپ کا بیان : چین پاکستان کی حمایت میں سامنے آگیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےدھمکی آمیز بیان کے بعد چین پاکستان کی حمایت میں سامنے آگیا۔ چین نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ عالمی برادری کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی’’ غیر معمولی خدمات ‘‘ کو تسلیم کرنا چاہیے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو انسداد دہشت گردی کے لئے پاکستان کی غیرمعمولی خدمات کو تسلیم کرنا چاہئے۔  ترجمان کا کہنا تھا کہ چین کو خوشی ہے کہ پاکستان علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے باہمی احترام کی بنیاد پر انسداد دہشت گردی سمیت عالمی تعاون میں مصروف ہے۔

ترجمان چینی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ چین اور پاکستان تمام موسموں کے دوست ہیں، ہم دونوں فریقین کے فائدے کے لیے ہر طرح کے تعاون کو فروغ دینے اور مضبوط بنانے کے لیے تیار ہیں۔ گزشتہ روزامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے سال کے اپنے پہلے پیغام میں ایک بار پھرپاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان جھوٹا اور دھوکے باز ہے ، ہم نے 15 سال میں 33؍ ارب ڈالر (تقریباً 36؍ کھرب پاکستانی روپے) دے کر بیوقوفی کی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارے رہنماؤں کو بیوقوف سمجھتا ہے اور پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتا ہے اور افغانستان میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے میں معمولی مدد ملتی ہے لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔ پاکستان نے امریکی صدر کے الزامات کے بعد امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو دفتر خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا اور احتجاجی مراسلہ حوالے کیا۔ دفتر خارجہ میں امریکی سفیر پر واضح کیا گیا کہ امریکی صدر کا اربوں ڈالر کا بیان بالکل غلط ہے امریکی صدر کے بیان کی وضاحت پیش کی جائے۔