ساحر لودھی کے مارننگ شو پر پابندی کے لیے دراخواست دائر

ہائی کورٹ میں ساحر لودھی کے مارننگ شو کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر کر لی گئی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ساحر لودھی کے مارننگ شو پر پابندی کے لیے دائر دراخواست کو سماعت کے لئے مقرر کر لیا گیا ہے۔ درخواست میں وفاقی حکومت، پیمرا، ساحر لودھی اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے، درخواست گزارکا کہنا ہے کہ ساحر لودھی کے پروگرام میں کم عمر بچیوں کے ناچ گانے کے مقابلے دکھائے جاتے ہیں، کم عمر بچیوں کا رقص نشر کرنے سے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے جس سے قصور جیسے واقعات جنم لے رہے ہیں۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ پیمرا ایسے پروگراموں کی نشریات کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہا، عدالت پیمرا کو ساحر لودھی کے پروگرام میں کم عمر لڑکیوں کے ناچ گانے نشر کرنے پر پابندی کا حکم دے۔
واضح رہے کہ نامور میزبان و اداکار ساحر لودھی گزشتہ کچھ عرصے سے مارننگ شو میں کم عمر بچیوں سے ناچ گانا کروانے کے حوالے سے شدید تنقید کا شکار ہیں، سوشل میڈیا صارفین نے ساحر لودھی اور ان کے شو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا شو معاشرے میں بے راہ روی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے، لہٰذا ان کے شو کو بند کیا جانا چاہیے۔

چھوٹی بچیوں پر تو رحم کرو ؟

قصور سانحہ کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک وڈیو سامنے آئی جس میں چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں سے بڑے بے ہودہ انداز میں ایک ٹی وی چینل کے شو میں ڈانس کروایا گیا۔ یہ بے ہودگی اور چھوٹی بچیوں کی معصومیت سے کھیلنا اس قدر گری ہوئی حرکت تھی کہ اس پر مغربی میڈیا تک نے بھی اعتراض کیا لیکن نہ تو اس پر پیمرا نے کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی اس پر میڈیا کی طرف سے کوئی خاص اعتراض اٹھایا گیا۔ میں نے جب اس وڈیو کو دیکھا تو دکھ ہوا کہ اپنی ریٹنگز کے لیے کوئی اس حد تک بھی گر سکتا ہے۔ ریٹنگ اور پیسے کے لیے پہلے ہی عورت کو استعمال کیا جا رہا ہے اب معاملہ چھوٹی بچیوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔

ایسے پروگرامز پر تو متعلقہ ٹی وی چینل کے ساتھ ساتھ اینکر کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے اور کم از کم ایسے پروگرامز اور اینکرز پر پابندی تو ضرور عائد کرنی چاہیے لیکن یہاں ایسی کوئی روایت ہم قائم ہی نہیں ہونے دینا چاہتے کیوں کہ میڈیا کی ایسی گھٹیا حرکتوں کو بھی آزادی رائے کی آڑ میں بچا لیا جاتا ہے ۔ اگر میڈیا کے علاوہ ایسی حرکت کسی اسکول میں ہوئی ہوتی تو اس پر بریکنگ نیوز چل چکی ہوتیں، بڑے بڑے اینکرز پروگرامز کر چکے ہوتے۔ مجھے امید نہیں کہ اس حرکت پر پیمرا بھی کوئی ایکشن لے گا۔ ویسے مجھے تو اس بات پر بھی سخت اعتراض ہے کہ ٹی وی چینلز نے کس طرح کراچی میں انتظار نامی نوجوان کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد اُس لڑکی کے متعلق خبریں نشر کیں جو وقوعہ کے وقت گاڑی میں موجود تھی۔

یہ بات پہلے ہی تسلیم کی جا چکی تھی کہ انتظار کو پولیس نے بے قصور مارا جس کی تحقیقات کا بھی اعلان ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود اُس لڑکی کے بارے میں بار بار خبریں چلائی گئیں اور پھر پہلے اُس کا نام اور پھر اُس کی تصویریں ٹی وی اسکرینز پر چلائی گئیں۔ بعد میں اُس لڑکی کے ٹیلی فون انٹرویوز تک چلائے گئے۔ اگرچہ میں لڑکی لڑکے کی دوستی کا قائل نہیں اور نہ ہی پسند کرتا ہوں کہ کوئی اس طرح نامحرم نوجوان لڑکی لڑکا اکیلے گھومیں پھریں۔ لیکن اگر کوئی لڑکا لڑکی اس طرح گھوم رہے تھے اور اس دوران حادثہ ہو گیا تو کیا یہ مناسب تھا کہ اُس لڑکی کا نام لے لے کر اس مسئلہ کو بلاوجہ اسکینڈیلائز کیا جائے جبکہ یہ سب کو معلوم تھا کہ قتل پولیس نے کیا نہ کہ لڑکی نے۔

کاش ٹی وی چینلز ایسے نازک معاملات میں دوسروں کی عزت کا خیال رکھیں۔ ویسے عمومی طور پر تو ہمارے چینلز کا رواج ہے کہ اگر کوئی لڑکی لڑکا گھر سے بھاگ نکلیں تو اُنہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ والدین کو ولن کے روپ میں دکھایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے ڈراموں میں، اشتہاروں کے ذریعے اور دوسرے طریقوں سے لڑکوں لڑکیوں کو دوستی کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسے ترقی اور روشن خیالی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ لیکن انتظار قتل کیس میں چینلز کے لیے سب سے بڑی attraction وہ لڑکی بن گئی جو وقوعہ کے وقت گاڑی میں مقتول کے ساتھ بیٹھی تھی کیوں کہ اس سے ریٹنگ مل رہی تھی۔

اگر وہ لڑکی اس قتل میں شریک جرم ہوتی تو اُس کا نام ضرور لیا جانا چاہیے تھا لیکن اگر وہ میڈیا کے اس کلچر کے مطابق جسے وہ خوب پروموٹ کر رہا ہے ایک نامحرم کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی تو اس غلطی پر اُس کی اور اُس کے خاندان کی عزت کا چینلز کو خیال رکھنا چاہیے تھا۔ ایسے نجی و اخلاقی معاملات میں ہمیں پردہ رکھنے کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔ ہمارے میڈیا مالکان، نیوز ڈائیرکٹرز، رپورٹرز، اینکرز اور مجھ سمیت ہر صحافی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے اخلاقی و نجی معاملات میں اگر ہم دوسروں کی غلطیوں اور گناہوں کی پردہ داری کریں گے تو آخرت میں ہمارے گناہوں پر بھی پردہ پڑا رہے گا۔ میڈیا ایسے معاملات کو اچھالنے کی بجائے اپنی روش بدلے اور مغربی ثقافت کی بجائے اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ میں ماحول فراہم کرنے میں مدد دے جس کے مجھے کوئی اثار نہیں نظر آتے۔

انصار عباسی

سوشل میڈیا : اپنی اداؤں پر غور کرے

شرمین عبید چنائے کا ٹویٹ ایک نان ایشو ہے جسے مسلسل کھینچنا وقت گنوانا ہے۔ نواز شریف، عمران خان یا ڈی جی آئی ایس پی آر وغیرہ کی تقاریر یا لمبی لمبی پریس کانفرنسیں محض ایک خبر کے طور پر نشر کرنے کے بجائے براہِ راست اور پورا پورا دکھانا ناظرین اور صحافتی اقدار سے زیادتی ہے۔ یہی نشریاتی وقت حقیقی مسائل اجاگر کرنے میں بھی کھپایا جا سکتا ہے۔ ہر ٹی وی ٹاک شو میں پاناما لیکس یا لیگی حکومت کب جا رہی ہے جیسی خرافات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

حالانکہ سینکڑوں مسائل ہیں جو پاناما یا حکومتی استحکام پر جاری قیاس آرائیانہ مباحث سے کہیں اہم ہیں۔ میرے کان پک چکے یہ اعتراضات و فرمائشیں سن سن کر۔ جب ان معترضین سے پوچھا جائے کہ بھائی کون سے مسائل یا خبریں ہیں جن پر آپ کے خیال میں ترجیحاً بات ہونی چاہیے تو آدھے لوگوں کا جواب ہوتا ہے ہم کیا بتائیں، آپ صحافی ہیں آپ بتائیں، آپ سے کیا پوشیدہ ہے۔ باقی آدھوں کے نزدیک اہم مسائل، گورنینس، تعلیم اور صحت وغیرہ ہیں جن پر سب سے کم بات ہوتی ہے۔

قبلہ آپ کی بات سر آنکھوں پر مگر دو ہزار سترہ میں انیس سو سترہ کی صحافت نہیں چل سکتی۔ سو سال پہلے اخبار کسی سے قرض یا چندہ لے کر بھی شائع ہو جاتا تھا اور وہ اشتہارات پر نہیں سرکولیشن یا قارئین کی ماہانہ و سالانہ ممبر شپ پر چلتا تھا۔ آج اخبار یا چینل زندہ رکھنا کروڑوں روپے کا گیم ہے۔ یہ کروڑوں روپے محض تعلیم، صحت، گورنینس جیسے خشک موضوعات پر مسلسل گفتگو سے وصول نہیں ہو سکتے۔ پیسہ صرف نان ایشوز میں ہے۔ ریٹنگ حقیقی موضوعات کی ریں ریں سے نہیں، تیز مصالحے دار چٹ پٹے چھچھورے پروگراموں سے حاصل ہوتی ہے۔

کسی بھی سنجیدہ مسئلے پر ہونے والے کسی بھی پروگرام کی کوئی ایک مثال دے دیجیے جس کی ریٹنگ کسی بھی مارننگ شو کے مقابلے میں بس ایک بار زیادہ آئی ہو۔ پاکستانی ٹی وی چینلز پر گیم شوز بھی کافی مقبول ہیں. چلیے مان لیا کہ دراصل لاکھوں خاموش ناظرین اور قاری ہیں جو صرف سنجیدہ مسائل پر ہی گفتگو دیکھنا سننا چاہتے ہیں۔ مگر میڈیا مالکان اور نئی پود کے نابلد صحافی ناسمجھی، عدم تربیت، اندھی کمرشل دوڑ یا کسی ناگہانی آفت سے بچنے کے لیے غیر اہم مسائل کو زیادہ چمک دمک کے ساتھ پیش کرنا چاہتے ہیں۔

اس کا توڑ یہ ہونا چاہیے کہ ایسے تمام لاکھوں ناظرین و قارئین روایتی، مفاد پرست اور مقابلے کی گھٹیا ترین سطح پر اتر آنے والے میڈیا پر لعنت بھیجیں اور سوشل میڈیا کو حقیقی مسائل پر حرفی، صوتی و بصری گفتگو سے بھر دیں۔ لیکن جس سوشل میڈیا پر آپ کا اختیار روایتی میڈیا پر آپ کے زور سے کئی گنا بڑھ کے ہے وہی سوشل میڈیا نفرت، تعصب، جہالت، جھوٹ، آدھے سچ، فحش گوئی، ننگی دھمکیوں اور جعلی و مشکوک تصاویر کا کچرا گھر کیسے بن گیا ؟ سوشل میڈیا کو تو سنجیدگی کا آئینہ ہونا چاہیے تھا جس میں روایتی میڈیا اپنے چہرے کی نحوست دیکھ کے شرما سکتا۔ کیا کسی نے آج تک سوشل میڈیا پر چار پانچ ویب سائٹس کے سوا اس ریاست اور معاشرے کے حقیقی مسائل پر کوئی شائستہ، پڑھی لکھی تحمل دار بحث دیکھی؟

آپ سوشل میڈیا جیسے ہتھیار کا صحت مند استعمال کر کے گھٹیا چینلز، جاہل اینکرز اور پھٹیچر اخبارات کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل گھیراؤ کر کے حقیقی مسائل کی پروگرام سازی پر انہیں مجبور کیا جا سکتا ہے۔ مگر آپ صرف ایک مڈل کلاسی ڈرائنگ روم میں چائے سڑکتے قوم کے غم میں دبلے ہوتے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارم بدنیت اور تاریک قوتوں کے الیکٹرونک جنھوں نے برین واشنگ کے لیے ہائی جیک کر لیے یا پھر بندر کے ہاتھ میں استرا ہو گئے۔

یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر کسی بھی قابلِ ذکر سیاسی و مذہبی و فرقہ و نسل پرست رہنما، عسکری خرچوں، متنازعہ عدالتی فیصلوں، مذہب کے نام پر جاری انتقامی سیاست، بلوچستان، اقلیتوں، ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی جانب سے بنیادی حقوق کی کھلم کھلا پامالیوں کے بارے میں ایک جملہ بھی لکھیے۔ ردِعمل کے ناگ آپ کو نیلا نہ کر دیں تو مجھے بھی بتایے گا۔ خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے دوسروں کو حقیقت پسندی اور راست گوئی پر اکسانے والے دراصل اس راہ چلتے کی طرح ہیں جس نے ختنہ کرنے والے جراح کی دکان کے باہر بہت سے پرانے گھڑیال لٹکے دیکھے تو پوچھا بھائی صاحب آپ تو جراح ہیں۔ یہ وال کلاک پھر کیوں لٹکاءِے ہیں؟ جراح نے پوچھا ’آپ ہی بتائیے کیا لٹکائیں پھر؟‘

وسعت اللہ خان

اداروں پر تنقید کیسے کریں ؟

سوشل میڈیا پر قومی اداروں پر تنقید اور اُن کی تضحیک کے خلاف ملک کے طول و عرض میں جاری آپریشن کا خیر مقدم۔ کاروائی کرنے والوں کے پیشہ ورانہ عزم کو سلام۔ نہ کوئی غائب ہوا، نہ کسی ان دیکھے ہاتھ نے کسی کی ٹانگیں توڑیں۔ باقاعدہ نوٹس، باقاعدہ پیشی۔ وقت پر تفتیش اور پھر اپنے اپنے گھر واپسی۔ کوئی ملک دشمن ہی ہو گا جو اِن اقدامات کی تعریف نہ کرے۔ کوئی ناعاقبت اندیش ہی ہوگا جو نہ مانے کہ یہ ماضی کے طریقوں سے بہتر ہے۔ مہذب معاشرے میں تاریک عقوبت خانوں سے اُٹھتی چیخوں کا بند ہونا ضروری ہے۔ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ فائلوں کا پیٹ بھرا جائے، مشکوک افراد کو اپنی صفائی کا موقع دیا جائے۔ لیکن ۔ قوم واضح ہدایات کی منتظر ہے۔ گائیڈ لائن مانگتی ہے۔

اِس غبی قوم کو ابھی تک ٹھیک سے یہی پتہ نہیں کہ ہمارے اداروں، حساس اداروں اور نیم حساس اداروں کی توہین کہاں سے شروع ہوتی ہے، ہنسنا کِس بات پر منع ہے۔ احترام بجا لانے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ وُہ تو ابھی تک یہی تکا لگاتے پھر رہے ہیں کہ اداروں اور حساس اداروں میں فرق کیا ہے۔ تو واضح کیے دیتے ہیں کہ ادارہ فوج ہے اور اُس کا حساس حصہ وُہ ہے جو اندرون اور بیرون ملک جاسوسی یا اِس سے ملتے جلتے فرائض انجام دیتا ہے۔ نیم حساس اداروں میں جج، علما اور لٹھ بردار مذہبی لوگ شامل ہیں جو حساس اداروں کی حساسیت دیکھ کر اپنے اوپر نیم حساس ہونے کی کیفیت طاری کر لیتے ہیں۔ یہ پورا معاملہ اِنتہائی حساس ہے اِس لیے اِن تمام اداروں کی ناموس کے نئے نئے محافظ وزیر داخلہ سے درخواست کی جاتی ہے کہ وُہ واضح ہدایات جاری کریں اور کم از کم مندرجہ ذیل گُنجلک مسائل کے بارے میں اپنی رائے دیں تاکہ محب وطن لوگ اُن کے شروع کیے کار خیر میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال سکیں۔

1: سب سے بڑا کنفیوژن حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کے بارے میں ہے مثلاً کوئی نہیں جانتا کہ ٹی وی پر مستقل براجمان ریٹائرڈ جنرل، ائیروائس مارشل قِسم کے لوگوں کے فرمودات پر عوام روئیں یا نہیں؟

 جنرل اشفاق پرویز کیانی جیسے مدبر سپہ سالار کا نام لیتے ہوئے تو سب کو ڈرنا چاہیے لیکن کیا اُن کے مفرور بھائی پر تنقید جائز ہے؟

بعض ناعاقبت اندیش یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ فوجی ہمارے بھائی ہیں، اِس مٹی کی جم پل ہیں، جو خوبیاں خرابیاں ہم میں ہیں اُن میں بھی ہیں۔ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جان دیتے ہیں لیکن جب نظریاتی سرحدوں کی بات کرتے ہیں تو لکیر دھندلا جاتی ہے کیا ایسے لوگوں کی بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے یا ایف آئی اے کا نمبر ملانا چاہیے؟

4: اگر کِسی کا بچہ فوجی کارن فلیکس کھانے سے انکار کرے تو کیا اُسے عاق کر دیا جائے یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام چلایا جائے؟

کیا ایف آئی اے پر تنقید جائز ہے؟ پہلے تو جائز تھی کیونکہ یہ ایک سویلین ادارہ تھا لیکن اب چونکہ فوج کی ناموس کی حفاظت پر مقرر ہے تو اِس کے بارے میں کوئی واضح ہدایت جاری کی جائے۔ کیا ایف آئی اے کے سابق سربراہ رحمٰان ملک کے بارے میں بنائے گئے سارے لطیفے واپس لینے پڑیں گے؟

 کچھ ناہنجار قسم کے لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کیا ہمارے اداروں اور حساس اداروں پہ یہ وقت آ گیا ہے کہ ایف آئی اے کے ٹُھلے اُن کی ناموس کی حفاظت کریں گے۔ ایسے لوگوں کی سرکوبی کے لیے خاص اِنتظام کیا جائے؟

ملک کے کچھ کھاتے پیتے طبقے جو ڈی ایچ اے میں پلاٹ لے کر کروڑوں کماتے ہیں لیکن پھر ناشکری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈی ایچ اے کی اِنتظامیہ پر تنقید کرتے ہیں جو کہ اِتفاق سے حاضر سروس فوجی افسر ہوتے ہیں۔ اِن ناشکروں سے نمٹنے کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے۔

 ہماری کئی نسلیں مرحوم کرنل محمد خان کی تحریریں پڑھ کے مزہ لیتی رہی ہے۔ کتاب انتہائی شستہ مزاح کا شاہکار ہے لیکن آخر میں اس میں ہیں تو فوج اور فوجیوں کے بارے میں لطیفے ہی۔ اُن کی کتابوں کے قابل اعتراض حصے یا تو حذف کیے جائیں یا پوری کتابیں ہی حذف کر دی جائیں۔

 حالیہ دنوں میں ہمارے نیم حساس اداروں کے جج، ادارے کے سابق سربراہ کے لیے وارنٹ جاری کرتے ہیں۔ جج بلاتے ہیں، جنرل صاحب فرماتے ہیں میں نہیں آتا ابھی موڈ نہیں ہے۔ یہ واضح کیا جائے کہ اِس معاملے میں تضحیک جج کی ہوئی جنرل کی، یا عوام کی؟

 چلتے چلتے یہ بھی واضح کر دیا جائے کہ اِس مادر پدر آزاد عوام پر تنقید اور اُن کی مسلسل تضحیک کا سدباب کیسے ہو گا ؟ کیا اِس دنیا میں کوئی اُمید رکھیں یا حضرت مولانا طارق جمیل سے آخرت میں ملنے والی برکتوں کا بیان سُن کر دِل بہلاتے رہیں؟

محمد حنیف
مصنف اور تجزیہ کار

کیا ریاست ہمیشہ میڈیا کی آزادی کی حد کا تعین کیا کرے گی؟

دنیا آج ایک مرتبہ پھر میڈیا کی آزادی کا دن جوش و جذبے سے منا رہی ہے لیکن
پاکستان جیسے ممالک میں 70 سال گزرنے کے باوجود بظاہر یہ طے نہیں ہو سکا ہے کہ ریاست اور میڈیا کے درمیان تعلقات کیسے ہونے چاہیئں۔ کیا مادر پدر آزاد میڈیا دونوں کے فائدے میں ہے یا پھر ریاست ہمیشہ قومی مفاد کے تناظر میں اس آزادی کی حد کا تعین کیا کرے گی؟ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں صحافت ہی مسلسل خطرے میں قرار دی جاتی رہی ہے۔ کبھی فوجی آمر، کبھی جمہوری رہنما اور کبھی دہشت گردی کی وبا صحافت کی جان کو دیمک کی طرح چاٹتے رہے ہیں۔ آج میڈیا کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات میں صحافی اسی وجہ سے سیلف سینسر شپ پر مجبور ہیں۔

صوبہ بلوچستان میں صحافیوں نے سب سے زیادہ یعنی 40 جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ صوبائی حکومت کے ترجمان انوار الحق نے گذشتہ دنوں کوئٹہ میں ایک تقریب میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاست نے نجی شعبے کو منافع کی خاطر معلومات کی عوام تک رسائی کی مراعات دی ہیں حق نہیں۔ انوار الحق شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میڈیا براہمداغ بگٹی اور ہیربیار مری کو پرائم ٹائم میں جگہ دیتا ہے جہاں وہ پاکستان توڑنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اس سب میں عام آدمی کا جاننے کا حق کہاں گیا؟ اس کو معلومات کیوں نہیں ملنی چاہیے؟

تاہم انوار الحق مزید کہتے ہیں کہ 1973 کے آئین کا آرٹیکل 5 عوام سے ریاست سے غیر مشروط بیعت کا تقاضہ نہیں کرتا ہے۔ ’یہ نہیں ہوسکتا کہ بیٹا کہے کہ والد مجھے ناشتہ دے گا تو میں اسے والد کہوں گا۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ رشتہ غیرمشروط ہے۔‘ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے پیمرا کے ڈائریکٹر جنرل لائسنسنگ جاوید اقبال کہتے ہیں کہ میڈیا مالکان سے شکایت یہی ہے کہ وہ پیسے کی فکر تو کر رہے ہیں لیکن عوام کو مسائل کی حد تک ابہام کا شکار کیا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اکثر صحافی بتاتے ہیں کہ ان کے مالک ان سے شکایت کرتے ہیں کہ فلاں وزیر یا بیوروکریٹ نے انھیں سلام نہیں کیا اس کے پاس میرا یہ کام رکا ہوا تھا اور یہ سب آپ کی نالائقی ہے۔‘

پاکستان میں جس طرح سے الیکٹرانک میڈیا نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے گذشتہ 16 برسوں میں ترقی کی ہے، کچھ سینیئر صحافیوں کے نزدیک اصل مسئلے کی جڑ شاید یہی ہے۔ سینیئر صحافی ناصر ملک کہتے ہیں کہ جب ٹی وی آیا تو مالکان نے 20، 20 سال تجربہ رکھنے والے پرنٹ کے سینیئر صحافیوں کو یہ کہہ کر ٹی وی میں جگہ نہیں دی کہ بقول ان کے انھیں ٹی وی نہیں آتا تھا۔

’اس کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو ٹی وی میں رکھ لیا گیا جن کا اگر شادی کی ویڈیو بنانے کا تجربہ تھا تو اسے کیمرہ مین رکھ لیا۔ کسی کو تکنیکی سدھ بدھ تھی تو ایسے کو پروڈیوسر رکھ لیا گیا۔‘ حکومت نے اب تک قدرے آزاد سوشل میڈیا کی باگیں بھی کھچنا شروع کر دی ہیں۔ بلاگرز اور توہین مذہب کی بحث انہیں کوششوں کا حصہ بتائی جاتی ہیں۔ بعض ناقدین کے مطابق پاکستان میں ریاست کا ہر کسی سے خوفزدہ ہونا شاید بڑے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔

ہارون رشید

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد