کون کس سے فریاد کرے

پاکستانی سماج میں جو دکھ اور تکالیف کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ غریب طبقہ ہو یا مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس، دیہی یا شہری افراد، کاروباری یا ملازم پیشہ افراد یا نئی نسل کی آوازیں ہوں ہمیں ان کا مشترکہ دکھ معاشی تکالیف کی شکل میں دیکھنے اور سننے کا موقع مل رہا ہے۔ گھر گھر کی کہانی معاشی بدحالی کے مختلف مناظر کے ساتھ لوگ بیان کرتے ہیں او ریہ سناتے وقت ان پر جو بے بسی یا مایوسی غالب ہے وہ بھی توجہ طلب مسئلہ ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج یا عدم توازن نے پورے سماج کی سطح پر گہری معاشی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، چینی، آٹا، دالیں، گھی، گوشت، ادویات، تعلیم اور صحت کے اخراجات سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں پر جو ضرب کاری لگی ہے اس پر سب ہی سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ لوگوں کی کہانیاں سنیں تو اپنی کہانی کا دکھ پیچھے رہ جاتا ہے۔ یقین کریں لوگوں نے اپنے گھروں کی قیمتی اشیا کو بیچ کر بجلی کے بلوں کی آدائیگی کی ہے۔ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام اور ریاستی وحکومتی سطح سے عام لوگوں سے جبری بنیادوں پر ٹیکسوں کی وصولی کے پورا نظام نے ہی لوگوں کو عملی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ طاقتور طبقات کو نظرانداز کر کے یا ان کو سیاسی و معاشی ریلیف دے کر عام آدمی کی زندگی میں مسائل بڑھائے جارہے ہیں۔

سفید پوش طبقہ یا ملازم پیشہ افراد کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنا دکھ کسی کو بیان کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور کوئی ایسا ریاستی , حکومتی یا ادارہ جاتی نظام موجود نہیں جو ان کی آوازوں کو بھی سن سکے یا ان کی شفافیت کی بنیاد پر داد رسی کر سکے۔ یہ ہی المیہ کی کہانی ہے جو آج پاکستان کی سیاست پر غالب ہے۔ آپ کسی بھی علمی یا فکری مجلس کا حصہ ہوں یا سیاسی مباحثوں کا یا کاروباری طبقات یا نوکری پیشہ افراد یا مزدود کہیں بھی بیٹھ جائیں تو دکھوں کی ایک لمبی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ اس کہانی میں حکمرانی کے ظالمانہ نظام سے لے کر حکمران طبقات کی شاہانہ زندگی کے معاملات اور عام آدمی کو جو تکالیف ہیں سب کچھ سننے کو ملتا ہے۔ جس کی بھی کہانی ہو گی اس کا ایک ولن بھی ہو گا اور ہر فریق کا ولن ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن ان سب میں ایک مشترکہ دکھ حکمرانی کا بدترین نظام اور معاشی استحصال ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے مستقبل کا نقشہ کھینچیں اور ان کو بتائیں کے حالات درست ہونے والے ہیں یا آپ امید رکھیں تو وہ مزید کڑوا ہو جاتا ہے اور اس میں مزید غصہ اور انتقام کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس طرح کی جذباتیت پر مبنی کہانیاں کے حالات درست ہونے والے ہیں سن سن کر خود ہمت ہار بیٹھا ہے۔

حکومتی نظام برے طریقے سے اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور لوگوں کو اب اس نظام پر اعتماد نہیں رہا۔ یہ واقعی ایک بڑا المیہ ہے جو اس وقت ریاستی سطح پر ہمیں درپیش ہے۔ مسئلہ محض ماتم کرنا , دکھ بیان کرنا یا کسی کو بھی گالیاں دینا نہیں اور نہ ہی یہ مسائل کا حل ہے لیکن سوال یہ ہے طاقت ور طبقہ یا فیصلہ ساز قوتیں کیونکر لوگوں کی آوازوں کے ساتھ اپنی آواز نہیں ملا رہی اور کیوں لوگوں کے بنیادی نوعیت کے معالات کے حل کے بجائے اس سے فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ارباب اختیار میں یہ سوچ کیونکر غالب نہیں ہو رہی کہ ریاستی یا حکومتی نظام موجودہ طریقوں یا حکمت عملی یا عملدرآمد کے نظام سے نہیں چل سکے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام عملاً گونگا اور بہرہ ہو گیا ہے اور لوگوں کے دکھ اور آوازوں کو سننے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں اور حکمران طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے اور لوگ حکمران طاقتور طبقات کو اپنے مسائل کی جڑ سمجھ رہے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سیاسی نظام , سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور سیاسی کارکن سب ہی غیر اہم ہوتے جارہے ہیں۔ جن سیاسی افراد نے ملک کے سیاسی نظام کی باگ ڈور کی قیادت کرنا تھی وہ کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ 

لوگوں کو ایک ایسے ظالمانہ ادارہ جاتی نظام میں جکڑ دیا گیا ہے کہ لوگ خود کو ہی غیر اہم سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ہم وہ طبقہ نہیں جن کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا بلکہ یہ ملک ایک خاص طبقہ کے مفادات کی تقویت کے لیے بنایا گیا اور ہم اس میں محض تماشائی کی حیثیت سے موجود ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کئی سیاسی افراد جو قومی اور صوبائی اسمبلیو ں کے سابق ارکان ہیں اور جنھوں نے آنے والے انتخابات میں حصہ لینا ہے سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے بقول ہمیں یہ ہی سمجھ نہیں آرہی کہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو ہم عوام کا سامنا کیسے کریں گے اور کیوں لوگ ہمیں ان حالات میں ووٹ دیں گے۔ کیونکہ ہم نے اپنے سیاسی حکمرانی کے نظام میں کچھ ایسا نہیں کیا کہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کدھر جائیں اور کس سے فریاد کریں کیونکہ ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ یہ تو شکر کریں کہ ان بدترین معاشی حالات میں ایسے خدا ترس لوگ یا خوشحال لو گ موجود ہیں جو اپنے اردگرد لوگوں کی خاموشی کے ساتھ مدد کر رہے ہیں ۔

میں کئی لوگوں کو انفرادی سطح پر جانتا ہوں جو بغیر کسی شور شرابے کے اپنے اردگرد ہمسائیوں یا رشتہ داروں یا دوست احباب کی مدد میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان خد ا ترس افراد کے مقابلے میں ریاستی اور حکومتی نظام کدھر ہے اور کیونکر لوگوں کے ساتھ لاتعلق ہوتا جارہا ہے ریاست اور حکومت کا جوابدہ ہونا , ذمے داری کا احساس ہونا , لوگوں کو ریلیف دینا اور ان کی زندگیوں میں خوشیا ں لانا ہی ریاستی نظام کی ساکھ کو قائم کرتا ہے۔ لوگوں کو اب طاقتور طبقات کی جانب سے امید نہیں چاہیے بلکہ وہ عملی بنیادوں پر اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ بھی فوری طور پر ایسے اقدامات جو ان کی زندگیوں میں کچھ مثبت نمایاں تبدیلیاں لا سکے۔ موجودہ حالات میں مڈل کلاس یا درمیانی درجے کی کلاس کو ہم نے واقعی مفلوج کر دیا ہے اور ان کو اپنے رہن سہن میں مختلف نوعیت کے معاشی سمجھوتے کرنے پڑرہے ہیں۔ ان حالات کے ذمے دار وہی ہیں جن کو حکمرانی کرنے کا حق ملا، اختیارات ملے، وسائل ملے اور لوگ ان ہی کو جوابدہ بنانا چاہتے ہیں۔

جنگ وہ نہیں جو اسلحہ کی بنیاد پر کسی دشمن ملک سے لڑی جائے، ایک جنگ پاکستان کے لوگ پاکستان کے اندر حکمرانی کے نظام سے لڑ رہے ہیں اور اس جنگ نے لوگوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے یا اس ریاستی نظام سے لاتعلق بھی۔ اس جنگ کا دشمن ظالمانہ حکمرانی کا نظام ہے اور اس میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو عوام دشمنی کو بنیاد بنا کر اپنے لیے وسائل کو سمیٹ رہے ہیں۔ یہ جنگ عملاً ریاستی نظام کمزور کر رہی ہے اور لوگو ں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور دنیا میں اپنی منزل تلاش کریں۔ ہمیں اگر واقعی ملک میں سول نافرمانی سے بچنا ہے یا ملک کو ایک بڑی ہیجانی یا انتشار یا ٹکراو کی سیاست سے باہر نکالنا ہے تو ہمیں بہت کچھ نیا کرنا ہو گا۔ غیرمعمولی اقدامات ہماری بنیادی نوعیت کی ترجیحات ہونی چاہیے اور ایسی ترجیحات جس میں طاقتور طبقات کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے اور عام آدمی کے مقدمہ کو زیادہ فوقیت دی جائے لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور کون لوگوں کے دکھوں میں خود کو ایک بڑے سہارے کے طور پر پیش کریگا کیونکہ ریاستی اور حکومتی نظام آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی طاقتور طبقہ اسے آسانی سے بدلنے کی اجازت دیتا ہے۔

یہ ایک سیاسی جدوجہد کی کہانی ہے جہاں ہمیں ریاستی یا حکومتی نظام پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کرنا ہوتی ہے۔ یہ کام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کرتی ہیں لیکن وہ تو سیاسی بانجھ پن کا شکار ہیں اور ان کے مفادات عوامی مفادات کے برعکس نظر آتے ہیں۔ ایسے میں لوگ کدھر جائیں گے، ڈر ہے کہ لوگوں میں موجود غصہ ایک بڑے انتقام کی سیاست کی صورت میں آج نہیں تو کل سامنے آئے گا۔ سیاسی نظام کی قیادت سے لاتعلق عوامی ردعمل کسی بھی صورت میں ریاستی مفاد میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ عمل حالات کو اور زیادہ خراب کرتا ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش سنبھالیں اور خود کو عوام کے ساتھ جوڑیں یہ ہی حکمت عملی ہمیں کچھ بہتری کا راستہ دے سکتی ہے۔

سلمان عابد  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

شریک جرم کون کون؟؟

ہمارے معاشرے کی بہنوں بیٹیوں کو آزادی، برابری اور اختیار ایسا کہ جس میں خاندان کے کسی فرد کی طرف سے بھی کسی قسم کی روک ٹوک کی اجازت نہ ہو، کا سبق پڑھانے والا طبقہ چاہے، اُس کا تعلق ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ والوں سے ہو ، وہ نام نہاد، انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے علمبردار ہوں یا میڈیا کا وہ ٹولہ جو خواتین کی مادرپدر آزادی بلکہ مذہبی و معاشرتی روایات سے بغاوت کا سبق دیتا ہے‘ یہ سب اس معاشرے کی عورت کو دراصل اردگرد پھیلے انسان کی شکل میں چھپے جانوروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے قائل ہیں۔ بات تو عورت کے حقوق کی کرتے ہیں، بظاہر ہمدردی بھی عورت کے ساتھ دکھاتے ہیں لیکن یہ لوگ اُس ظلم میں شریک جرم ہیں جس کا شکار پاکستان کی عورت اور بچے ہو رہے ہیں۔ یہ غیر محرم مردوں اور عورتوں کے درمیان دوستی اور اُن کے آپس میں بغیر شادی کے ساتھ رہنے کے تو حق میں ہیں لیکن بیٹیوں اور بہنوں کو آزادی، برابری، حقوق نسواں اور انسانی حقوق کے نام پر ایسا سبق پڑھاتے ہیں کہ کسی خاتون کا گھر نہ بسے، باپ بھائی، شوہر اور بیٹے جیسے بہترین رشتوں سے اعتبار اُٹھ جائے۔

باپ کون ہوتا ہے، شوہر کی کیا مجال، بھائی کا کیا حق کہ مرضی چلائے، روکے ٹوکے۔ سوشل میڈیا پر ایک ٹی وی اداکارہ نے اپنے شوہر (جس کا تعلق بھی شوبز سے ہے) کے ساتھ ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے شوہر کی ضروریات کا خیال رکھوں، اُس کے کپڑے استری کروں وغیرہ وغیرہ ۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ مجھے میرے شوہر کی ضروریات کے بارے میں زیادہ علم ہونا چاہیے۔ اس پر اُس بچاری اداکارہ کو آزاد خیال لبرل طبقے نے ایسے آڑے ہاتھوں لیا جیسے اُس خاتون نے کوئی جرم کر دیا ہو۔ اس کے ساتھ ہی چند عام گھرانوں کی بچیوں نے بھی یہ سوال اُٹھایا کہ بیوی کیوں اپنے شوہر کی تمام ضروریا ت کا خیال رکھے؟ ایسی بچیاں دراصل غیر محسوس انداز میں اُس پروپیگنڈہ کا شکار ہو رہی ہیں جس کو میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے پھیلایا جا رہا ہے اور جس پر عمل کر کے کوئی شادی نہیں چل سکتی، کوئی خاندان باقی نہیں رہ سکتا۔

ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں عورت کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی‘ بالکل ہوتی ہے لیکن یہ تاثر دینا جیسے یہ ہر گھر کی کہانی ہے اس لیے ہر عورت اپنا فیصلہ خود کرے، اپنی مرضی چلائے، جو چاہے کرے، جہاں چاہے جائے یہ وہ طرزِ عمل ہے جسے چند ایک واقعات کو بنیاد بنا کر پورے معاشرتی نظام کو تہس نہس کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ عورت کو آزادی اور برابری کے نام پر تعلیم دی جاتی ہے کہ جو جی چاہے کریں، مرد کے ساتھ شانہ بشانہ کام کریں، گھروں میں نہ بیٹھیں، باہر نکلیں۔ عورت بچاری باہر نکلتی ہے، اپنی آزادی اور برابری کو انجوائے کرنا چاہتی ہے لیکن باہر درندہ صف انسان، جنہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے، اُن کے شکار کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ سرکاری اور نجی شعبوں میں جہاں خواتین نوکری کے لیے جاتی ہیں اُن سے پوچھیں اُن بیچاریوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے، اُنہیں کس کس طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے، اُن کا کیسے استحصال کیا جاتا ہے۔

اگر کہا جائے کہ مجبوری کی بنا پر یا شوق سے اگر کوئی عورت کام کرنا چاہے تو کم از کم اُسے ایسا ماحول دیں کہ اُس کو ہراساں نہ کیا جا سکے، اُس کا غیر محرم مردوں سے کم سے کم براہ راست رابطہ ہو لیکن یہ بات اس طبقہ کو منظور نہیں۔ وہ بضد ہے کی عورت اور مرد ایک ساتھ کام کریں، آزاد گھومیں، دوستیاں کریں۔ اس طبقہ کو شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے پر تو شک ہے لیکن اُس غیر مرد سے کوئی خطرہ نہیں جس کے ساتھ عورت کو کام کرنے، دوستی کرنے کو برابری اور آزادی کا نام دے کر عورت کو دراصل استحصال کا نشانہ بنوایا جا رہا ہے۔ میڈیا سمیت کئی شعبوں میں عورت کو ایک Object کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو عورت کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے لیکن اس کو بھی یہ طبقہ ترقی کے نام پر فروغ دے رہا ہے۔ معاشرہ کی تربیت کی بات کرتے آپ کبھی اس طبقہ کو نہیں سنیں گے۔ ہمارے ہاں خرابیاں بہت ہیں، سماجی تعلقات کے حوالے سے کئی خاندانوں میں مسائل ہیں، یہاں جہالت بھی بہت ہے، عورتوں کو اُن کے حقوق بھی نہیں دیے جاتے۔

ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ایک طرف تربیت اور کردار سازی کی بہت ضرورت ہے تو دوسری طرف ایسے مجرموں کو نشان عبرت بنایا جانا چاہیے جو عورت اور بچوں سے زیادتی کی حدوں کو بھی پار کرتے ہیں، اُن سے زیادتی اور اُن کی جان تک لے لیتے ہیں لیکن یہ طبقہ کبھی تربیت اور کردار سازی کی بات نہیں کرتا۔ یہ طبقہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں اور اُنکی جان تک لینے والوں کو نشان عبرت بنانے کے بھی خلاف ہے، سرعام پھانسی کا یہ مخالف ہے اور کہتا ہے کہ اس سے پھانسی دیے جانے والے مجرم کا ـ’’وقار‘‘ مجروح ہوتا ہے۔ مغرب کی نقالی میں اب تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موت کی سزا کو ہی ختم کر دیا جائے کیوں کہ یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ یہ طبقہ آخر چاہتا کیا ہے،؟ یہ کون لوگ ہیں؟ کیا نور مقدم کے قاتل کو سرعام پھانسی نہیں دینی چاہیے؟ کیا موٹر وے پر ایک خاتون سے اُس کے بچوں کے سامنے زیادتی کرنے والے جانوروں کو موٹر وے پر ہی دنیا کے سامنے نہیں لٹکانا چاہیے؟ کیا بچوں سے زیادتی کرنے والوں کو چوکوں چوراہوں پر پھانسیاں نہیں دینی چاہئیں؟ اب تو تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ممبران قومی اسمبلی نے بھی یک زبان ہو کر ایسے درندہ صفت مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

سادگی کا کلچر اختیار کرنا ہو گا

ہماری ریاستی ، حکمرانی سمیت تمام طبقات کے نظام میں ایک بنیادی مسئلہ سادگی کے کلچر سے دوری بھی ہے۔ ہم نے بطور معاشرہ خود بھی اپنی زندگیوں میں اپنی مشکلات پیدا کی ہیں اوراس کی وجہ ایک ایسے کلچر کو تقویت دینا ہے جو ان کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔ ایک طرف ہمارا ماتم معاشی بدحالی کا ہے تو دوسری طرف ہم بطور معاشرہ اپنے معاملات میں بڑی تبدیلی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی معاشی بحران کے تناظر میں ہم غیر معمولی اقدامات کے لیے تیار نظر آتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہم سادگی سے کیا مراد لیتے ہیں ۔ اس کی سادہ سی تعریف یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم ایسے طور طریقوں سے گریز کریں جو بے جا نمود نمائش کے زمرے میں آتے ہیں یا ہم اپنے موجود وسائل سے ہٹ کر ایسا انداز اختیار کرتے ہیں جو ہمارے لیے بوجھ بن جاتے ہیں ۔

ہمارا حکمرانی یا ریاست کا نظام ہو یا خاندان سمیت مختلف طبقات سے جڑے نظام میں ہم بڑی شدت سے نمود ونمائش کا کلچر دیکھ رہے ہیں یا اسے اپنی ضرورت بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ایک مسئلہ لوگوں کے سامنے اپنی نمود ونمائش کا بھی ہے تاکہ ہم لوگوں پر اپنا سماجی معیار دکھا کر خود کو دوسروں سے زیادہ بہتر انداز میں پیش کر سکیں ۔ اس رویہ نے عمومی طور پر معاشرے کے اندر ایک ایسی طبقاتی دوڑ بھی لگا دی ہے کہ یا تو یہ عمل ان لوگوں میں جن کے پاس کچھ نہیں ان میں مایوسی یا غصہ پیدا کرتا ہے یا وہ ان مادی چیزوں کے حصول کے لیے خود بھی ناجائز زرائع کو اختیار کر کے اسی نمود نمائش کی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔عمومی طور پر معاشر ے کے بالادست طبقات یا حکمرانی سے جڑے افراد اپنے نظام میں سادگی کا کلچر اختیار کریں تو اس کا بڑا اثر معاشرے کے مجموعی مزاج پر پڑتا ہے۔

ایک طرف رونا اس بات کا ہے کہ ہمارا معاشی نظام سنگین بحران کا شکار ہے تو دوسری طرف ریاستی اور حکومتی سطح پر وسائل کا بے دریغ استعمال اور خاص طور پر حکمرانی کے نظام میں جو شاہانہ انداز ہے وہ ہمارے داخلی تضاد کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے ۔ صدر، وزیر اعظم ، وزرائے اعلی ، گورنر، وزرا کے دفاتر اور گھروں کے سرکاری اخراجات کی تفصیل ہی کو دیکھ لیں تو ہمیں سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارا داخلی تضاد کیا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے سالانہ ایوان وزیر اعظم کے اخراجات میں سابقہ حکمرانوں کے مقابلے میں کمی کو عملا یقینی بنا کر اچھی مثال قائم کی ، لیکن دوسری طرف ایوان صدر، ایوان وزرائے اعلی اور گورنر ہاوسز کے اخراجات میں ہمیں کوئی بڑی تبدیلی کا عمل دیکھنے کو نہیں مل سکا اور ماشااللہ ان کو دی جانیوالی سہولیات اور مراعات ہی دیکھیں تو دکھ ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔

ہمارے سماجی معاملات کا حال بھی دیکھیں تو یہاں بھی کافی تضادات ہیں۔ ہمارے کھانے ، پہنے ، تفریح اور زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ہم بہت آگے نکل گئے ہیں ۔ ہمارے کھانوں کی مجالس میں جو شاہانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے وہ خود قابل مذمت ہے ۔ یہاں تک کہ علمائے کرام کی محفلوں میں بھی سادگی کے کلچر کا بدترین مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ ہم معاشرے میں تربیت کا اوپر سے لے کر نیچے تک ایسا نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو لوگوں میں ایک سادہ زندگی یا سادگی کے کلچر کو تقویت دے سکے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے میڈیا میں بھی جو کچھ ڈراموں ، فلموں یا کمرشل اشتہارات کے نام پر دکھایا جارہا ہے وہ بھی معاشرے میں موجود طبقات میں سادگی کے کلچر کی نفی کرتا ہے ۔ اب وہ زمانہ گیا جب ہم اپنے ڈراموں اور فلموں کی بنیاد کو اصلاح کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔

اب جو کمرشلزم کی ڈور ہے اس میں نمود نمائش یا گلیمرائزیشن کے کلچر کو زیادہ طاقت ملی ہے ۔ ہمارے ہاں بڑے اور اچھے لوگوں کا معیار بھی اس بیماری کا شکار ہو گیا ہے کہ کون کتنا رکھتا ہے اور کتنا لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ جو لوگ اب معاشرے میں سادگی کے کلچر کی بات کرتے ہیں تو ان کو پرانے زمانے کے فرسودہ خیالات کی بنیاد پر رد کیا جاتا ہے۔ جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ لوگ اپنی چادر دیکھ کر اپنے پاؤں پھیلائیں تو اس کی بھی سماجی عمل میں مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اب معاشرے کا چال چلن بدل گیا ہے اور اگر ہم نے آج کے دور کیمطابق خود کو نہ ڈھالا تو ہم معاشرے میں پیچھے رہ جائیں گے اور ہمیں بڑے طبقات میں زیادہ عزت نہیں مل سکے گی ۔ یعنی عزت کا معیار نمود نمائش یا بے جا اخراجات یا پیسے کے ضیاع سے دیکھا جاتا ہے ، جو خود بڑا المیہ ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے معاشرے میں نمود نمائش کے مقابلے میں سادگی کے کلچر کو طاقت دی جاسکے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہو گا اور نہ ہی یہ کسی ایک فریق پر ڈالا جاسکتا ہے ۔ یہ پورا نظام اپنی تربیت کے نظام میں ایک بڑی اصلاح چاہتا ہے اور یہ کام ڈنڈے کے زور کے مقابلے میں سیاسی ، سماجی اور اخلاقی شعور کی مدد سے ہی ممکن ہے۔
بڑی تربیت گاہ تو خاندان اور تعلیم کے نظام سے ہی جڑا ہوا ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا عمل بہت پیچھے رہ گیا ہے اور لگتا ہے کہ افراد کی عملی تربیت اور معاشرے میں اس کی نمایاں جھلک ہماری ترجیحات کا ایجنڈا نہی۔ سیاسی جماعتیں ، قیادت، میڈیا ، اہل دانش یا رائے عامہ کو عملا بنانے والے افراد یا ادارے سادگی کے کلچر کو بنیاد بنا کر کچھ عملی طور پر کرنے کے لیے تیار نہیں۔

سلمان عابد

بشکریہ ایکسپریس نیوز

وہ فلمی کہانیاں جو اب فلمی نہیں رہیں

میری نسل شاید وہ آخری تھی جس نے سینما میں بلیک اینڈ وائٹ ہندی اردو فلمیں دیکھیں۔ ان فلموں میں کچھ کردار ایسے تھے جن کے بارے میں کسی پیش گوئی یا اندازے لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ مثلاً ولن ہے تو ہوس کا پچاری ہی ہو گا۔ غریب باپ ہے تو مالی، خانساماں یا ڈرائیور ہو گا، امیر شوہر ہے تو بچوں اور بیوی سے بے اعتنائی برتتا ہو گا اور کسی نہ کسی اگلے سین میں سیلیپنگ گاؤن میں ملبوس گول سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے ’ٹھہرو یہ شادی نہیں ہو سکتی‘ ضرور کہے گا۔ انہی سٹیریو ٹائپ کرداروں میں دو بچے بھی ہوتے تھے جو ہر تیسری بلیک اینڈ وائٹ فلم میں میلے میں بچھڑ جاتے تھے۔ ایک کی پرورش کوئی ٹانگے یا ٹھیلے والا کرتا اور دوسرا کسی لاولد جوڑے کے حصے میں آ جاتا جو شروع شروع میں اس کی ناز و نعم سے پرورش کرتا لیکن جیسے ہی ان کا اپنا بچہ ہوتا تو پھر گود لینے والی ماں کے اندر سے ایک سوتیلی ماں نکل آتی جو لاوارث بچے کو مسلسل اذیت و ذلت میں رکھتی اور اپنی کوکھ کے بچے پر سارا پیار نچھاور کر دیتی اور شوہر بے بس بھیگی بلی بنا یہ تماشا دیکھتا رہتا۔

ہم اب تک یہی سمجھتے رہے کہ یہ فلمی کہانیاں ہیں۔ تھوڑا سا ڈرامہ اور مبالغہ آرائی فلم بیچنے کی مجبوری ہوتی ہے۔ ایسے تھوڑی ہوتا ہے کہ کوئی اپنے والدین یا بچوں کو لاوارث چھوڑ دے۔ مغرب میں ایسا ہوتا ہو گا جہاں انفرادی زندگی کے تقدس کے نام پر سماجی بے حسی قابلِ قبول ہے۔ ہمارے مشرق میں تو والدین اور بزرگوں کا اعلیٰ مقام ہے اور بچوں کے لیے تو ان کے والدین، چچا، ماموں، ممانی، دادی نانی بہت کرتے ہیں۔ مگر بری خبر یہ ہے کہ ہمیں اپنے ارد گرد کی خبر ہی نہیں۔ اب سے تیس برس پہلے تک ہم بس یہ سنتے تھے کہ جائیداد کے جھگڑے میں اولاد نے باپ کو یا ایک بھائی نے دوسرے بھائی یا بہن کو کسی طرح پاگل قرار دے کر ذہنی امراض کے ہسپتال میں جمع کرا دیا۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔

بڑے شہروں میں کئی اولڈ ایج مراکز بن گئے ہیں جہاں بچے اپنے بوڑھے والدین کو رضاکاروں کے رحم و کرم پر زندگی کے آخری برس گزارنے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں اور کبھی کبھار آ کر مل بھی لیتے ہیں۔ سماج نے بھی رفتہ رفتہ اس رویے کو نئے نارمل کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ گھر کی تنگی کبھی بھی مسئلہ نہیں تھی۔ مگر اب دل تنگ ہو گئے ہیں۔ چار ماہ قبل لاہور ہائی کورٹ میں ایک ادھیڑ عمر خاتون نے درخواست دائر کی کہ اس کے بھائی اور بھابھی میں طلاق ہو گئی، دونوں نے الگ الگ شادی کر کے دوبارہ گھر بسا لیا مگر اپنے تین بچوں کو میرے پاس چھوڑ دیا۔ میں نے ایک حد تک تو ان بچوں کی دیکھ بھال کی لیکن اب میں عمر کے اس حصے میں ہوں اور معاشی طور پر ہاتھ اتنا تنگ ہے کہ میں ان بچوں کو نہیں پال سکتی لہٰذا عدالت یا تو ان بچوں کو ریاست کے حوالے کرے یا والدین کو ان کی نگہداشت کے لیے پابند کرے۔

وہ خاتون اپنے ان تینوں بھتیجوں کو بھی ساتھ لائی تھیں۔ پانچ سے دس بارہ برس کے ان ہکا بکا بچوں کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ وہ اگلی پیشی پر والدین کو پیش کرے۔ یہ خبر گذشتہ برس نومبر کی ہے۔ معلوم نہیں اس کے بعد اس قصے کا کیا ہوا۔ دوسرا قصہ کل ہی اخبار ڈان میں بی بی سی نیوز کے حوالے سے پڑھا جس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ آج کی ریاستِ مدینہ کی اجتماعی و انفرادی حالت کیا ہو چلی ہے۔ لاہور کے امین الرشید اور انیلہ امین کے دو بچے ہیں۔ سات سالہ اشعر اور پانچ سالہ شہریار۔ خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی متوسط یا نیم متوسط خاندان ہے۔ چھوٹے شہریار کو کوئی ایسی پیچیدہ بیماری ہو گئی کہ اس کا گردن سے نیچے کا جسم مفلوج ہوتا چلا گیا۔ لاہور کے ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کی تشخیص اور علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔

چنانچہ والدین نے کسی نہ کسی طرح پیسے جمع کیے اور برطانیہ کے شہر کارڈف میں علاج کے لیے فیملی ویزہ اپلائی کر دیا۔ والدین اور مریض بچے شہریار کو ویزہ مل گیا مگر اس کے سات سالہ بھائی اشعر کو ویزہ نہیں ملا۔ گذشتہ برس اپریل میں سات سالہ اشعر کو دادی کے پاس چھوڑ کر یہ تینوں برطانیہ آ گئے۔ دادی نے کچھ ماہ تک تو اشعر کا خیال رکھا مگر پھر اپنی عمر رسیدگی کے سبب انہوں نے اشعر کو یتیم خانے میں داخل کروا دیا۔ اب وہ پچھلے تین ماہ سے یتیم خانے میں ہے جبکہ اس کے والدین کارڈف میں اس کے چھوٹے بھائی کا علاج کروا رہے ہیں۔ برطانوی سفارت کاروں نے سات سالہ اشعر کو ویزہ کیوں نہیں دیا۔ یہ وہ جانیں۔ مگر کیا کوئی پھوپھا، پھوپھی، ماموں، چچا، خالہ حتیٰ کہ کوئی نیک دل ہمسایہ بھی نہیں تھا جو دادی سے کہہ سکتا کہ ماں جی آپ اشعر کو یتیم خانے میں داخل نہ کروائیں یہ بچہ ہمارے پاس رہ لے گا۔ کچھ مہینوں کی ہی تو بات ہے۔ آخر ہمارے بچے بھی تو پل رہے ہیں یہ بھی پل جائے گا۔ مشکل یہ ہے کہ ایسی کہانیاں اب فلموں میں بھی آنا بند ہو گئی ہیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

پاکستانی جنوبی مشرقی ایشیا کی سب سے خوش قوم

ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ 2019ء کے مطابق پاکستانی جنوبی مشرقی ایشیا میں اپنی علاقے کی سب سے خوش قوم ہیں۔ عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا 67 واں جبکہ بھارت کا اس فہرست میں 140واں نمبر ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے میں چھپنے والی دلچسپ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 67 ہے۔ 2018ء میں اس حوالے سے جاری ہونے والی رپورٹ میں عالمی درجہ بندی میں خوشی کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر 75 تھا اور اس طرح ایک سال کے دوران پاکستان آٹھ درجے اوپر آیا ہے۔ پاکستانی اپنے ہمسایہ ممالک میں سے سب سے زیادہ خوش قوم ہیں۔ پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کا نمبر خوشی کی اس درجہ بندی میں 140 واں ہے۔ چین کا 94، سری لنکا 131، ایران 118 جبکہ افغانستان 154 ویں پوزیشن پر ہے۔

یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی طرف سے تیار کرائی گئی جبکہ اسے عالمی سطح پر 20 مارچ کو منائے جانے والے خوشی کے عالمی دن یعنی ’ورلڈ ہیپی نیس ڈے‘ کے موقع پر جاری کیا گیا۔ ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ 2019ء میں دنیا کے 156 ممالک میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ اس ملک کے شہری اپنے ملک میں زندگی گزارنے پر کس قدر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ درجہ بندی مختلف عوامل کو مدنظر رکھ کر مرتب کی جاتی ہے جن میں اوسط عمر، ویلفیئر سپورٹ، سماجی آزادی، فیاضی اور کشادہ دلی اور حکومت اور تجارت میں بدعنوانی کا درجہ وغیرہ شامل ہیں۔

ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ 2019ء کے مطابق دنیا کی پانچ سب سے خوش اقوام میں فِن لینڈ پہلے، ڈنمارک دوسرے، ناروے تیسرے، آئس لینڈ چوتھے جبکہ ہالینڈ پانچویں نمبر ہے۔ دوسری طرف خوشی کے حوالے سے مرتب کی گئی 156 مملک کی اس درجہ بندی میں جنوبی سوڈان سب سے نیچے ہے جس کے بعد وسطی افریقی جموریہ، افغانستان، تنزانیہ اور روانڈا کا نمبر آتا ہے۔ جرمنی سال 2019ء کی اس درجہ بندی میں 17ویں نمبر پر آیا ہے جبکہ گزشتہ برس یعنی 2018ء میں جرمنی اس فہرست پر 15ویں نمبر پر تھا۔ امریکا رواں برس 19ویں نمبر پر ہے تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ امریکا مسلسل اس فہرست میں نیچے کی طرف جا رہا ہے۔

بشکریہ دنیا نیوز

چھوٹی بچیوں پر تو رحم کرو ؟

قصور سانحہ کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک وڈیو سامنے آئی جس میں چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں سے بڑے بے ہودہ انداز میں ایک ٹی وی چینل کے شو میں ڈانس کروایا گیا۔ یہ بے ہودگی اور چھوٹی بچیوں کی معصومیت سے کھیلنا اس قدر گری ہوئی حرکت تھی کہ اس پر مغربی میڈیا تک نے بھی اعتراض کیا لیکن نہ تو اس پر پیمرا نے کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی اس پر میڈیا کی طرف سے کوئی خاص اعتراض اٹھایا گیا۔ میں نے جب اس وڈیو کو دیکھا تو دکھ ہوا کہ اپنی ریٹنگز کے لیے کوئی اس حد تک بھی گر سکتا ہے۔ ریٹنگ اور پیسے کے لیے پہلے ہی عورت کو استعمال کیا جا رہا ہے اب معاملہ چھوٹی بچیوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔

ایسے پروگرامز پر تو متعلقہ ٹی وی چینل کے ساتھ ساتھ اینکر کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے اور کم از کم ایسے پروگرامز اور اینکرز پر پابندی تو ضرور عائد کرنی چاہیے لیکن یہاں ایسی کوئی روایت ہم قائم ہی نہیں ہونے دینا چاہتے کیوں کہ میڈیا کی ایسی گھٹیا حرکتوں کو بھی آزادی رائے کی آڑ میں بچا لیا جاتا ہے ۔ اگر میڈیا کے علاوہ ایسی حرکت کسی اسکول میں ہوئی ہوتی تو اس پر بریکنگ نیوز چل چکی ہوتیں، بڑے بڑے اینکرز پروگرامز کر چکے ہوتے۔ مجھے امید نہیں کہ اس حرکت پر پیمرا بھی کوئی ایکشن لے گا۔ ویسے مجھے تو اس بات پر بھی سخت اعتراض ہے کہ ٹی وی چینلز نے کس طرح کراچی میں انتظار نامی نوجوان کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد اُس لڑکی کے متعلق خبریں نشر کیں جو وقوعہ کے وقت گاڑی میں موجود تھی۔

یہ بات پہلے ہی تسلیم کی جا چکی تھی کہ انتظار کو پولیس نے بے قصور مارا جس کی تحقیقات کا بھی اعلان ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود اُس لڑکی کے بارے میں بار بار خبریں چلائی گئیں اور پھر پہلے اُس کا نام اور پھر اُس کی تصویریں ٹی وی اسکرینز پر چلائی گئیں۔ بعد میں اُس لڑکی کے ٹیلی فون انٹرویوز تک چلائے گئے۔ اگرچہ میں لڑکی لڑکے کی دوستی کا قائل نہیں اور نہ ہی پسند کرتا ہوں کہ کوئی اس طرح نامحرم نوجوان لڑکی لڑکا اکیلے گھومیں پھریں۔ لیکن اگر کوئی لڑکا لڑکی اس طرح گھوم رہے تھے اور اس دوران حادثہ ہو گیا تو کیا یہ مناسب تھا کہ اُس لڑکی کا نام لے لے کر اس مسئلہ کو بلاوجہ اسکینڈیلائز کیا جائے جبکہ یہ سب کو معلوم تھا کہ قتل پولیس نے کیا نہ کہ لڑکی نے۔

کاش ٹی وی چینلز ایسے نازک معاملات میں دوسروں کی عزت کا خیال رکھیں۔ ویسے عمومی طور پر تو ہمارے چینلز کا رواج ہے کہ اگر کوئی لڑکی لڑکا گھر سے بھاگ نکلیں تو اُنہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ والدین کو ولن کے روپ میں دکھایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے ڈراموں میں، اشتہاروں کے ذریعے اور دوسرے طریقوں سے لڑکوں لڑکیوں کو دوستی کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسے ترقی اور روشن خیالی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ لیکن انتظار قتل کیس میں چینلز کے لیے سب سے بڑی attraction وہ لڑکی بن گئی جو وقوعہ کے وقت گاڑی میں مقتول کے ساتھ بیٹھی تھی کیوں کہ اس سے ریٹنگ مل رہی تھی۔

اگر وہ لڑکی اس قتل میں شریک جرم ہوتی تو اُس کا نام ضرور لیا جانا چاہیے تھا لیکن اگر وہ میڈیا کے اس کلچر کے مطابق جسے وہ خوب پروموٹ کر رہا ہے ایک نامحرم کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی تو اس غلطی پر اُس کی اور اُس کے خاندان کی عزت کا چینلز کو خیال رکھنا چاہیے تھا۔ ایسے نجی و اخلاقی معاملات میں ہمیں پردہ رکھنے کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔ ہمارے میڈیا مالکان، نیوز ڈائیرکٹرز، رپورٹرز، اینکرز اور مجھ سمیت ہر صحافی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے اخلاقی و نجی معاملات میں اگر ہم دوسروں کی غلطیوں اور گناہوں کی پردہ داری کریں گے تو آخرت میں ہمارے گناہوں پر بھی پردہ پڑا رہے گا۔ میڈیا ایسے معاملات کو اچھالنے کی بجائے اپنی روش بدلے اور مغربی ثقافت کی بجائے اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ میں ماحول فراہم کرنے میں مدد دے جس کے مجھے کوئی اثار نہیں نظر آتے۔

انصار عباسی

شدت پسندی چاہے مذہبی ہو یا سیکولر نامنظور

فتنہ کا ایسا زما نہ آ گیا کہ آپ اسلام کی بات کریں تو ایک طبقہ جسے لبرل شدت پسند یا سیکولر شدت پسند کہا جا سکتا ہے وہ آپ کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ جاتا ہے۔ آپ کی کہی بات کی اپنی مرضی کی تعویلیں نکالتا ہے اور جھوٹ اور اپنی من پسند باتیں گڑھ کر حقائق کو بگاڑ کر اصل بات کو ایسا رنگ دیتا ہے کہ بات کرنے والا خود سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ گالی دینا، بُرا بھلا کہنا، گھٹیا الزامات لگانا سب ایک طریقہ سے ایک مہم کے ذریعے کیا جاتا ہے تاکہ اسلام کی بات کرنے والا بھاگ کھڑا ہو اور دوسرے بھی اس سے سبق سیکھیں۔ میں ایک گناہ گار آدمی ہوں لیکن اس امید سے کہ میرا رب مجھے معاف کر دے، مجھ میں بھی کبھی کبھی میرے دین کا جوش اٹھتا ہے اور میں کوشش کرتا ہوں کہ معاشرہ میں بڑھتے غیر اسلامی اقتدار کو روکنے میں اپنا کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتا رہوں۔

گزشتہ ہفتہ کے دوران مجھے اطلاع ملی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک اسکول میں ایک کنسرٹ منعقد کیا جا رہا ہے جس میں دوسرے گانوں کے ساتھ ساتھ ایک انگریزی گانا ـــ’’Imagine‘‘ بھی گایا جائے گا جوملحدانہ افکار کی عکاسی کرتا ہے۔ میں نے بغیر اسکول کا نام لکھے سوشل میڈیا میں صرف ایک ٹوئٹ کیا کہ ایک کنسرٹ میں یہ گانا گایا جائے گا۔ مقصد یہ تھا کہ متعلقہ حکومت اور اسکول تک بات پہنچ جائے اور بروقت درستگی ہو سکے۔ الحمد اللہ ایسا ہی ہوا۔ متعلقہ اسکول نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ متنازع گانا کنسرٹ میں نہیں گایا جائے گا۔ اسکول کی طرف سے یہ فیصلہ بہت ہی خوش آئند تھا جسے پاکستان کے مذہبی حلقوں سمیت بہت سوں نے سراہا۔ یہاں تک کہ عالمی شہرت کے حامل پاکستان کے اہم ترین اسلامی اسکالر محترم مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی اپنے ٹوئٹ کے ذریعے اسکول کے ساتھ ساتھ اس ناچیز کو بھی شاباش دی۔

جیسے ہی یہ مسئلہ سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا اور اسکول نے بھی فیصلہ کر لیا کہ متنازع گانا نہیں گایا جائے گا تو لبرل اور سیکولر شدت پسندوں کے ایک گروہ نے مجھ پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ انہیں تکلیف اس بات پر تھی کہ پہلے تو میں نے اس مسئلہ کو اجاگر کیوں کیا اور دوسرا کہ متنازع گانا اسکول کے کنسرٹ میں کیوں نہ گایا جائے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی تاویلے دیں اور مقصد صرف یہ تھا کہ مجھ پر لعن طعن کی جائے۔ چند سیکولر شدت پسند وں نے تو مجھ پر پاکستان میں طالبانائزیشن کو بڑھاوا دینے کا الزام لگا دیا۔ ایک سیکولر نے بھی مجھے کوسہ اور افسوس کا اظہار کیا کہ بچے گانا نہیں گا سکیں گے۔ حالانکہ بچوں نے گانے تو گائے، کنسرٹ بھی ہوا لیکن وہ گانا نہیں گایا گیا جو ملحدانہ افکار کی عکاسی کرتا تھا۔

ان شدت پسندوں کو اگر غصہ مجھ پر تھا تو وہ اسکول سے بھی خوش نہ تھے کہ اسکول انتظامیہ نے متنازع گانا کیوں نہ گایا۔ جب یہاں اُن کی دال نہ گلی تو برطانیہ کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف میں ہفتہ کے روز میرے خلاف خبر چھپوا دی۔ اُس خبر میں مجھ سے ایسی باتیں منسوب کی گئی جو نہ میں نے کہیں اور نہ لکھیں۔ میرے حوالے سے اسکول کا نام اور پرنسپل کے خلاف بھی بات کی گئی حالانکہ نہ تو میں نے کسی اسکول کا نام لیا اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ اُس اسکول کا پرنسپل کون ہے۔ میں نے اس پر ٹیلی گراف اخبار سے احتجاج کیا جس پر اتوار کے روز انہوں نے اپنی خبر کی اس حد تک درست کر دی کہ جو باتیں مجھ سے غلط منسوب کی گئیں انہیں خبر میں سے ہٹا دیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ ٹیلی گراف کے متعلقہ رپورٹر نے بھی اپنے ٹوئٹ کے ذریعے اس درستگی کا اعلان کر دیا۔ ابتدا میں توسیکولر اور لبرل شدت پسندوں نے سوشل میڈیا پر ایسی مہم چلائی کہ بہت سے لوگوں کو اصل حقیقت کا علم ہی نہ تھا۔ جیسے جیسے سچ سامنے آنے لگا تو عام طبقہ کے ساتھ ساتھ اسلامی اسکارلز اور جماعتوں نے بھی اس مسئلہ پر اپنا ردعمل دینا شروع کر دیا اور باقاعدہ سوشل میڈیا پر مہم چلائی جس میں اسکول کو مبارکبادیں دی گئیں اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان کو ان شاء اللہ ایک اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے گا۔ اگرچہ سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ یہاں یہ بات کرتے ہیں کہ جس کی جو مرضی وہ بچوں کو اسکولوں میں پڑھائے لیکن اس بات کی پاکستان کا آئین اجازت نہیں دیتا۔

آئین پاکستان کی شق 31 کے مطابق یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور نظریاتی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کئے جائیں جن کی مدد سے وہ قرآن اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ اسی شق کے مطابق ریاست پاکستان کے مسلمانوں کے لیے قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازم قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولتیں بہم پہنچانے کا اہتمام کرے گی۔ آئین کو بنے چوالیس سال گزر گئے لیکن ہم نے اب تک آئین کی اسلامی روح کے مطابق پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں کوئی خاص کام نہیں کیا۔ اسلامی شقیں آئین میں موجود ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔

لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ گزشتہ دو تین سال کی کوشش کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک قانون متفقہ طور پر پاس کر لیا ہے جس کے مطابق وفاقی حکومت کے تمام اسکولوں میں بچوں کے لیے قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھانا لازم ہو گا۔ گزشتہ جمعہ کے روز سینیٹ میں اس بل کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا لیکن عمومی طور پر میڈیا نے اس خبرکو نظر انداز کیا یا اہمیت نہیں دی۔ قومی اسمبلی پہلے ہی اس بل کو منظور کر چکی گویا اب یہ قانون بن گیا جو صدر پاکستان کے دستخط کے بعد وفاقی حکومت کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں لاگو ہو گا۔

خیبر پختون خوا حکومت اس کے نفاذ کا پہلے ہی اعلان کر چکی ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ نظام پورے ملک کے اسکولوں میں جلد از جلد نافذ ہو جائے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے بچے جب خود قرآن پاک سمجھ کر پڑھیں گے تو ایک ایسا معاشرہ جنم لے گا جو صحیح معنوں میں اسلامی ہو گا، جہاں سب کے لیے انصاف ہو گا، فرقہ واریت، نفرت اور عدم برداشت کا خاتمہ ہو گا۔ عورتو ں، اقلیتوں، غریب کے حقوق کی پاسداری ہو گی۔ سب سے اہم بات یہ کہ جب ہم اپنے بچوں کو قرآن سے جوڑیں گے تو ہر قسم کی شدت پسندی چاہے وہ مذہبی شدت پسندی ہو یا سیکولر ہر ایک کا خاتمہ ہو گا۔ اس منزل کے لیے ہم سب کو اپنا پنا کردار ادا کرنا ہے۔

انصار عباسی

پاکستانی ثقافت کی لندن کی سڑکوں پر عکاسی

لندن میں مسافر بسوں کے ذریعے پاکستان کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے طریقہ کو بہت سراہا گیا اور کئی لوگوں کے بقول پاکستان کے روش چہرے کو خاموشی سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اس سے مؤثر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا.

 

 

 

 

ریاست کا انتظار کیوں کرتے ہو ؟

حالانکہ یہ مشہور جملہ ریاست کنیکٹیکٹ کے اس اسکول ہیڈ ماسٹر جارج سینٹ جان کا ہے جہاں جان ایف کینیڈی نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مگر بیس جنوری انیس سو اکسٹھ کے بعد سے یہ جملہ دنیا بھر میں ایسے مشہور ہوا اور کروڑوں بار استعمال ہوا جیسے کینیڈی کا ہی ہو۔ مزے کی بات ہے کہ کینیڈی نے بھی کبھی ریکارڈ کی درستی کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ جب کینیڈی نے یہ جملہ استعمال کیا تو اس وقت ہیڈ ماسٹر صاحب بھی زندہ تھے۔ ہو سکتا ہے کہ انھیں بھی عجیب سا لگا ہو کہ ان کا یہ ہونہار شاگرد بغیر حوالہ دیے کیسے دھڑلے سے کئی برس پہلے کا ان کا کہا گیا جملہ اپنا بنا کے پیش کر رہا ہے۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ استاد کا دل بڑا ہوتا ہے۔ اتنا بڑا کہ اس میں ہزاروں شاگرد اور لاکھوں خطائیں سما سکتے ہیں۔

اب بچے تو غلطیاں ہی کرتے رہتے ہیں۔ ہر بھول چوک پر سرزنش تو نہیں ہو سکتی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ میاں کینیڈی کوئی ننھے بچے تو تھے نہیں جب وہ امریکا کے صدر بنے اور حلف برداری کے بعد کہا ’’ یہ مت پوچھو کہ ملک تمہارے لیے کیا کر سکتا ہے۔ یہ پوچھو کہ تم ملک کے لیے کیا کر سکتے ہو‘‘۔ ( یہ پورا قصہ آپ کرس میتھیوز کی کتاب ’’جیک کینیڈی۔ الیوسیو ہیرو‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں)۔ مذکورہ بالا قول کسی کا بھی ہو مگر ہے بہت شاندار۔ کیونکہ یہ بات طے ہے کہ ترقی یافتہ ریاست بھی اپنے تمام شہریوں کو یکساں سہولتیں فراہم نہیں کر سکتی۔ ریاستوں کی اکثریت میں تو خیر عوامی اکثریت کو بھی بنیادی سہولتیں میسر نہیں لیکن جو فلاحی ریاستیں ہونے کی دعوے دار ہیں وہاں بھی کوئی نہ کوئی طبقہ یا علاقہ بنیادی سہولتوں سے باہر رہ جاتا ہے۔ مثلاً میں نے معیارِ زندگی کے عالمی جائزوں میں ہمیشہ اول یا دوم آنے والے کینیڈا میں ٹورنٹو یونیورسٹی کے باہر نیٹیو انڈینز کو فٹ پاتھ پر سوتے یا کسی ستون کے سہارے بے سہارا بیٹھے دیکھا۔

مگر اس میں ریاست کا بھی کوئی قصور نہیں۔ ریاست بھلے جتنی بھی ایماندار ، دلدار اور جذبہِ فلاح سے مالامال ہو اس کا ڈھانچہ کچھ اس طرح کا ہے کہ سو فیصد لوگوں کو آسودہ رکھنا ممکن نہیں۔ جو ریاستیں اپنے نوے فیصد تک لوگوں کو بھی آسودہ رکھ پا رہی ہیں اس کے پیچھے بھی کروڑوں لوگوں کی ایماندارانہ محنت ہے۔ ویسے بھی ریاست لوگوں کے اجتماعی فخر کے اظہار کے سمبل کے سوا اور کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ جب کسی ریاست کو کوئی استحصالی اقلیت یا سوٹڈ بوٹڈ چور یا ڈاکو ہائی جیک کرلیں تو وہی ریاست ایک مراعات یافتہ اقلیت کی جنت کے سوا کچھ نہیں رہتی۔ ایسے حالات میں لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے ریاست کا انتظار کرنے کے بجائے اپنی زندگی میں خود کوئی بہتری لانے کے لیے سوچنا چاہیے۔

جہاں ریاست کسی بھی خامی، غفلت یا کم مائیگی کے سبب نہ پہنچ سکے وہاں سے انفرادی ذمے داری کا سفر شروع ہوتا ہے۔ مگر یہ بات کبھی اکثریت کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اکثریت بیشتر وقت کسی معجزے ، کرامت یا نجات دھندہ کا انتظار کرنے میں مرتی کھپتی رہتی ہے۔ البتہ اسی ریوڑ میں سے کچھ لوگ ذرا الگ ہٹ کر سوچتے ہیں تو پہلے پہل پاگل ، سنکی اور پھر نجات دھندہ اور دیوتا کہلانے لگتے ہیں۔ یہ دنیا شائد ایسے ہی پاگلوں کے بل پر چل رہی ہے جنہوں نے کبھی ریاست یا غیبی مدد کا انتظار نہیں کیا اور بساط بھر کر گذرے۔ آپ پہیے ، چھاپے خانے ، سلائی مشین، دخانی انجن ، بلب ، اینٹی بائیوٹک ، ریڈیو ، ٹی وی ، کمپیوٹر ، انٹرنیٹ ، موبائیل فون ، مصنوعی کھاد سمیت انسانی ارتقا و ترقی کا دھارا موڑنے والی ایک بھی ایسی ایجاد بتا دیں جو ریاستی سرپرستی میں ہوئی ہو۔ریاست ایجادات و تحقیق کو اپنے اچھے برے مقاصد کے لیے استعمال تو کر سکتی ہے مگر خود سوائے ستم و کرم کے کچھ ایجاد نہیں کر سکتی۔

اس لایعنی اور طویل تمہید کے بعد آتے ہیں فرد کی طاقت کی جانب۔ یعنی ایک فرد جس کے پاس کوئی وسیلہ یا بہت زیادہ تعلیم بھی نہ ہو وہ کیسے تبدیلی لا سکتا ہے۔ اپنے اندر چھپے ہوئے ایدھی ، مدر ٹریسا اور روتھ فاؤ کو کیسے دریافت کر سکتا ہے۔ اب میں بات نہیں کروں گا ایمبولینس دادا کی کہانی سناؤں گا۔ کریم الحق عرف ایمبولینس دادا مغربی بنگال کے ضلع جلپائی گڑی کے دھالا باری گاؤں میں رہتا ہے۔علاقے کی آبادی کا گذارہ چائے کے باغات میں مزدوری یا چھوٹی موٹی کسانیت پر ہے۔ کریم بھی چائے باغ میں مزدوری کرتا ہے۔ اس کی تنخواہ پانچ ہزار روپے ہے۔ گاؤں سے بنیادی مرکزِ صحت آٹھ کلومیٹر اور جلپائی گڑی ڈسٹرکٹ اسپتال پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ شہر تک رسائی کے تمام راستے یا تو کچے یا پتھریلے یا جو پختہ ہیں ان میں بھی بڑے بڑے گڑھے ہیں۔ کسی حاملہ عورت کے لیے ایمبولینس کا شہر سے آنا ایک خواب ہے۔ آ بھی جائے تو پورا ایک دن لگتا ہے۔ لہذا اس کا آنا نہ آنا برابر ہے۔

پندرہ برس پہلے کریم الحق کی ماں بیمار ہوئی اور اس سے پہلے کہ کریم اسے لے کر اسپتال پہنچ پاتا وہ راستے میں ہی دم توڑ گئی۔اس دن کریم الحق نے عہد کیا کہ اب وہ کسی کو اس لیے نہیں مرنے دے گا کہ وہ اسپتال نہ پہنچ پایا۔ کچھ دن بعد چائے کے کھیت میں اس کا ساتھی مزدور عزیز اچانک چکرا کے گر پڑا۔ کریم نے باغ کے مینیجر سے کہا کہ اگر وہ اپنی موٹر سائیکل کی چابی دے دے تو میں عزیز کو اسپتال پہنچا سکتا ہوں۔ مینیجر نے پس و پیش کے بعد چابی دے دی اور کریم اپنے ساتھی کو بقول ڈاکٹروں کے بروقت اسپتال پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔یہاں سے کریم الحق کو خیال آیا کہ موٹرسائیکل کو بھی تو بطور ایمبولینس استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس نے قرضے پر ایک موٹر سائیکل خریدی ، فیصلہ کیا کہ آدھی تنخواہ اپنے اخراجات کے لیے اور آدھی ایمبولینس کے پٹرول کے لیے وقف کرے گا۔

آج تک کریم الحق اپنی موٹرسائیکل ایمبولینس سروس کے ذریعے اپنے اور اردگرد کے بیس دیہاتوں کے لگ بھگ پانچ ہزار مریضوں اور زخمیوں کو اسپتال تک پہنچا چکا ہے۔ ضلعی حکومت نے ایک بار اسے چند ہزار روپے دیے اس کے سوا کوئی سرکاری امداد نہیں ملی۔ البتہ ریاست نے اسے بھارت کے اصلی ہیروؤں کی صف میں ضرور شامل کر لیا ہے۔ اربوں روپے کا کاروبار کرنے والے بجاج موٹرز نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے کریم الحق کی موٹرسائیکل ایمبولینس پر بارش سے بچاؤ کا کور اور دائیں بائیں دو آکسیجن سلنڈرز رکھنے کے پائیدان بنوا دیے ہیں۔

کریم الحق نے اس دوران ایک ڈاکٹر سے فرسٹ ایڈ کی ٹریننگ بھی لے لی تا کہ راستے میں یا کسی گھر میں ایمرجنسی کی صورت میں وہ بروقت مدد کر سکے۔اپنی سالانہ چھٹی کریم الحق اردگرد کے جنگلوں میں بسنے والے قبائلیوں کے ساتھ گذارتا ہے اور جو فرسٹ ایڈ کی تربیت لینا چاہے اسے تربیت دیتا ہے۔
کریم الحق آج بھی موٹر سائیکل کی قسطیں ادا کر رہا ہے۔ لیکن گلوکارہ نیہا نے اسے تین دن پہلے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اب نئی موٹرسائیکل لے سکے گا۔ ایک مخیر نے اسے باقاعدہ ایمبولینس عطیہ کرنے کی بھی پیش کش کی مگر کریم الحق کا کہنا ہے کہ چار پہیوں والی گاڑی کی اس علاقے کے ٹوٹے پھوٹے راستوں پر ہر جگہ رسائی نہیں ہو سکتی لہذا موٹرسائیکل ایمبولینس ہی زیادہ کارآمد ہے۔

یہ بتائیے کہ اگر کریم الحق بھی کروڑوں دیگر کی طرح ریاست کا انتظار کرتا رہتا تو پانچ ہزار میں سے کتنے مریض بروقت اسپتال پہنچ پاتے۔ آپ کا جو بھی پیشہ ہو ، آپ کی جتنی بھی آمدنی ہو ، آپ کے جتنے بھی ذاتی مسائل ہوں۔ آپ چاہیں تو اس بوجھ کے باوجود اپنی اور دوسروں کی زندگی میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ بات ہے آئیڈیے کی ، بات ہے جذبے کی۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے ’’اندھیرے کو بیٹھے بیٹھے کوسنے سے کہیں بہتر ہے کہ ایک شمع روشن کر دو اور اس سے بھی زیادہ اتم کام یہ ہو گا کہ اس شمع کو مسلسل روشن رکھنے کے بارے میں سوچو‘‘.

وسعت اللہ خان

اور قابلِ رحم ہے وہ قوم…

مشہور لبنانی مصنف ادیب و شاعرخلیل جبران اپنی نظم “THE PITY NATION” جس کا اردو ترجمہ عظیم شاعر اور صحافی جناب فیض احمد فیض نے کیا ہے۔ یہ مجھے میرے عزیز ترین دوست نیوٹرو فارما کے جنرل منیجر جناب سیف اللہ صاحب نے موجو دہ حالا ت کی عکاسی کرتے ہوئے بھیجا ہے جو میں قارئین سے شیئر کروں گا۔ خلیل جبران فرماتے ہیں. قابل رحم ہے وہ قوم جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں مگر دل یقین سے خالی ہیں۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم جو ایسے کپڑے پہنتی ہے جس کے لئے کپاس ان کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی۔ اور قابلِ رحم ہے وہ قوم جو باتیں بنانے والے کو اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فا تح کو اپنا ان داتا سمجھ لیتی ہے۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی ہوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے مگر عالم بیداری میں مفاد پرستی کو اپنا شعا ر بنا لیتی ہے ۔

قابلِ رحم ہے وہ قوم جو جنازوں کے جلوس کے سوا کہیں اپنی آواز نہیں بلند کرتی اور ماضی کی یادوں کے سوا اس کے پاس فخر کرنے کا کوئی سامان نہیں ہوتا وہ اس وقت تک صورت حال کے خلا ف احتجاج نہیں کرتی جب تک اس کی گردن عین تلوار کے نیچے نہیں آ جاتی ۔ اورقابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے نام نہاد سیاستدان لومڑیوں کی طر ح مکار اور دھوکے باز ہوں اور جس کے دانشور محض شعبد ہ باز اور مداری ہوں ۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جو اپنے نئے حکمرانوں کو ڈھول بجا کر خوش آمدید کہتی ہے اور جب اقتدار سے محروم ہو ں تو ان پر آوازے کسنے لگتی ہے۔ اورقابل رحم ہے وہ قوم جس کے اہل علم و دانشور وقت کی گردش میں گونگے بہرے ہو کر رہ گئے ہوں ۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جو ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے اور جس کا ہر طبقہ اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو ۔

میرے ایک اور دوست نے ہمارے ملک کے تازہ ترین حالات کے مطابق اس نظم میں کچھ اضافہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قابل رحم ہے وہ قوم جو سگریٹ کی ڈبیا پر منہ کے کینسر زدہ بندے کی تصویر دیکھ کر بھی سگریٹ نوشی کر تی نظر آتی ہے، اور قابلِ رحم ہے وہ قوم جو اپنے سیاستدانوں کی کرپشن دیکھ کر بھی انہیں کندھوں پر اٹھائے پھرتی ہے اور انہیں ووٹ دینے کے لئے بے قرار ہے۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جو کئی سالوں سے شہید سیاستدانوں کو ابھی تک زندہ سمجھتی ہے اور ان کی برسیاں بھی مناتی ہے، اور قابل رحم ہے وہ قوم جس کے حکمران اربوں ڈالر سے بھی زائد قرضے آئی ایم ایف اور عالمی بنک سے لیکر موج مستیوں میں مصروف ہیں اور قابل رحم ہے وہ قوم جہاں پچاس فیصد سے زائد   آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندہ رہنے پر مجبور ہے مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔

اور قابل رحم ہے وہ قوم جس ملک کے ٹیلی ویژن کا چیئر مین یا چیف ایگزیکٹو پندرہ لاکھ روپے اور پیمرا کا چیئرمین پچیس لاکھ روپے ماہوار تنحواہ وصول کر رہے ہیں مگر بے چارے مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر ہے اور قابل رحم ہے وہ قوم جس کے منتخب اراکین پارلیمنٹ اپنی تنخواہوں میں ازخود ہر سال اضافہ کر لیتے ہیں، رکن پارلیمنٹ ، پارلیمنٹ میں آ ئے یا نہ آئے ماہوار تنخواہ اور الاؤنس ضرور وصول کرتا ہے۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جو اپنی زندگی کا پرائم ٹائم پرائیویٹ سیکٹر میں ملا زمت میں گزار دیتی ہے اور جب ریٹائر ہوتی ہے تو اسے صرف اولڈ ایج بیننی فٹس (ای او بی آئی) پنشن باون سو روپے دیئے جاتے ہیں ۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جس کے سرکاری افسران جی اور آر میں بیس کنال اور دس دس کنال کی کوٹھیوں میں رہتے ہیں ، ملک مقروض ہو چکا ہے، مگر یہ ا شرافیہ اپنی مو ج مستیوں میں مگن ہے۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جس کے تاجراور دکاندار مذہبی تہواروں خصوصاً رمضان شریف میں قیمتوں میں اضافہ کرتے وقت خوف خدا سے عاری نظر آتے ہیں۔

اور قابل رحم ہے وہ قوم جو جھوٹے وعدوں کے باوجود ان پر اعتبار کر لیتی ہے اور پھر انہیں ووٹ بھی دیتی ہے ۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جس کے لیڈران کی دولت، جائیدادیں، کاروبار اوربال بچے بیرون ملک رہتے ہیں، مگر وہ حکمرانی پاکستان میں کرتے ہیں ۔ ہماری قوم واقعی قابل رحم ہے جو ہر انتخاب میں ایسے لوگوں کو منتخب کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے، جنہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ عوام کی حالا ت بدلنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ جو ایک ایک حلقہ انتخاب میں کروڑوں روپے پارٹی فنڈ دے کر پارٹی ٹکٹ لیتے ہیں اور کروڑوں روپے لگا کر انتخاب جیتتے ہیں وہ صرف اپنی حالت بدلنا جانتے ہیں بے چاری قابل رحم قوم پانچ سال اسی اْمید پر گزاردیتی ہے کہ شاید ہماری حالت بدل جائے مگر ستر سال سے قوم کے ساتھ یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ واقعی قابل رحم ہے ہماری پاکستانی قوم۔

شہریار اصغر مرزا