استنبول کینال پراجیکٹ : یہ کسی فوارے کا نہیں اس صدی کے بڑے نہری منصوبے کا آغاز ہے

ترکی کے صدر طیب اردوغان نے ’استنبول کینال‘ (یعنی نہر استنبول) پراجیکٹ کا افتتاح کر دیا ہے۔ اس منصوبے پر 15 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوغان کا کہنا تھا ’ہم اس پراجیکٹ کو استنبول کے مستقبل کو بچانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم ترکی کی ترقی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر رہے ہیں۔‘  صدر اردوغان نے منصوبے کا افتتاح اس پراجیکٹ میں شامل ایک بڑے پُل کا سنگ بنیاد رکھ کر کیا۔ اس بڑے منصوبے کا مقصد آبنائے باسفورس سے گزرنے والے تجارتی جہازوں کے دباؤ کو کم کرنا اور تجارتی مقاصد کے لیے ایک متبادل بحری روٹ فراہم کرنا ہے۔

صدر اردوغان کا مزید کہنا تھا کہ یہ منصوبہ استنبول کے عوام کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ’یہ کسی فوارے کی افتتاحی تقریب نہیں بلکہ یہ اس صدی کے بڑے نہری منصوبے کا آغاز ہے۔‘ صدر اردوغان نے پہلی مرتبہ اپریل 2011 میں اس منصوبے کا اعلان کیا تھا اور اسے ’بڑے بجٹ کے کریزی منصوبے‘ کی حیثیت سے سراہا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس کا موازنہ پاناما یا سوئز کینال سے نہیں کیا جا سکتا ہے (یعنی یہ ان دونوں منصوبوں سے بہتر اور بڑا منصوبہ ہے)۔  نہر استنبول کی گہرائی 25 میٹر، لمبائی 45 کلومیٹر ہو گی اور اس سے ہر روز تقریباً 160 بحری جہاز گزر سکیں گے۔ اس منصوبے کے ناقدین نے اس پراجیکٹ کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد اس منصوبے کے قابل عمل پر سوالات اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ اس کے موحولیات پر بُرے اثرات ہوں گے۔

روئٹرز کے مطابق صدر اردوغان کی جانب سے پُل کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد وہاں موجود مزدوروں نے 1.6 کلومیٹر طویل پُل کے پلرز میں کنکریٹ بھرا جبکہ اس موقع پر موجود ہجوم میں شامل افراد ترکی کے پرچم لہراتے رہے۔ صدر طیب اردوغان اس منصوبے کو آبنائے باسفورس کا متبادل قرار دیتے ہیں۔ آبنائے باسفورس وہ واحد بحری راستہ ہے جو بحیرۂ اسود کو بحیرۂ روم سے ملاتا ہے جہاں اکثر بحری جہازوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ اس راستے سے پہلے ہی سالانہ 43 ہزار کے لگ بھگ بحری جہاز گزرتے ہیں جبکہ حکام کے مطابق ماحولیات کو زیادہ نقصان نہ پہنچانے کی غرض سے یہاں سے صرف 25 ہزار بحری جہاز سالانہ گزرنے چاہییں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں کو بعض اوقات طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اندازوں کے مطابق سنہ 2050 تک آبنائے باسفورس سے گزرنے والے تجارتی بحری جہازوں کی تعداد 78 ہزار کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ ترکی کی حکومت نے رواں برس مارچ میں استنبول کینال کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ یہ نہر آبنائے باسفورس کے مغرب میں واقع ہو گی اور اس کا بہاؤ استنبول کے شمال سے جنوب کی جانب ہو گا اور یہ 45 کلومیٹر طویل ہو گی۔ اس نہر کے منصوبے کی سرکاری ویب سائٹ پر اس نہر کو بنانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آبنائے باسفورس کی بحری ٹریفک، بڑے جہازوں کی بڑی تعداد، جو ‘خطرناک’ مواد وہ لے کر جاتے ہیں، استنبول شہر کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق سو سال پہلے آبنائے باسفورس سے گزرنے والی کشتیوں کی سالانہ تعداد 3000 یا 4000 ہوتی تھی جو اب بڑھ کر تقریباً 45 سے 50 ہزار ہو گئی ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

سنہ 2023 میں ایردوان نہیں تو کون؟

ترکی میں اپوزیشن جماعتوں نے ابھی سے قبل از وقت انتخابات کا واویلا شروع کر دیا ہے جبکہ ملک میں صدارتی انتخابات سن 2023 میں ہوں گے تاہم یہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک ساتھ ماہ نومبر 2022 میں ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ترکی میں سیاسی جماعتیں اپنی پوزیشن کو جانچنے کے لئے مختلف کمپنیوں کی جانب سے کروائے جانے والے سرویز کو بڑی اہمیت دیتی ہیں اور ان سرویز ہی کے نتیجے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھاتی ہیں۔ حالیہ سرویز سے یہ معلوم ہوا ہے کہ صدر رجب طیب ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (آق پارٹی ) حسبِ معمول پہلی پوزیشن حاصل کیے ہوئے ہے۔ مختلف سرویز فرموں کے مطابق جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی 36 فیصد سے 42 فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے ہوئے ہے جبکہ دوسرے نمبر پر ملک کی سب سے پرانی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی ( CHP) 25 فیصد سے 29 فیصد تک ووٹ حاصل کیے ہوئے ہے۔

یہ دونوں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور ان دونوں سیاسی جماعتوں کے گرد دیگرسیاسی جماعتوں کا اتحاد گھومتا ہے۔ یعنی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا جمہوری اتحاد جبکہ دوسرا ہے ری پبلکن کا ملت اتحاد۔ ملت اتحاد کو امید پیدا ہو گئی ہے کہ وہ آخر کار بیس سال کے طویل عرصے بعد صدر ایردوان کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن میری ذا تی رائے میں صدر ایردوان کو شکست سے دوچار کرنا اتنا آسان نہیں جتنا اپوزیشن والے سمجھ رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ طویل اقتدار کی وجہ سے آق پارٹی کی مقبولیت میں کافی حد تک کمی آئی ہے لیکن صدر ایردوان اپنی جماعت کو فتح سے ہمکنار کروانے کے ماہر ہیں اور وہ آخری لمحے تک اپنی فتح کیلئے جنگ جاری رکھتے ہیں اور ان کا یہی عزم ان کو کئی بار شکست کے دہانے سے فتح تک پہنچانے میں کامیاب رہا ہے۔

اس اتحاد میں شامل تین جماعتوں کے ووٹوں کو اگر موجودہ حالات کے مطابق یکجا کیا جائے تو صورتِ حال کچھ یوں ابھر کر سامنے آتی ہے 50=0.5+8+42 یعنی صدر ایردوان کے اتحاد کو بمشکل کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ مختلف اداروں کی سروے رپورٹوں کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کی شرح میں تبدیلی آسکتی ہے اور صدر ایردوان لازمی طور پر انتخابات سے قبل اپنے ووٹوں میں اضافہ کیلئے تن من دھن کی بازی لگانے سے گریز نہیں کریں گے۔ اب دیکھتے ہیں صدر ایردوان کے مد مقابل’’ ملت اتحاد‘‘ میں ری پبلکن پیپلز پارٹی، گڈ پارٹی جسے 10 سے 14 فیصد تک ووٹ حاصل ہیں، پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (HDP) جسے 9 فیصد سے 11 فیصد ووٹ حاصل ہونے کی توقع ہے جبکہ ڈیڑھ اور ایک فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرنے والی سعادت پارٹی، دعا پارٹی اور مستقبل پارٹی شامل ہیں ۔

ملت اتحاد کی صورتِ حال بڑی دلچسپ ہے۔ اس کی سب سے بڑی پارٹی یعنی ریپبلکن کے چیئرمین کمال کلیچدار اولو اگر خود صدر ایردوان کے مد مقابل کھڑے ہوتے ہیں تو اس جماعت کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اگر بہت زیادہ ووٹ حاصل بھی کر لیں تو یہ 35 فیصد کے لگ بھگ ہو سکتے ہیں جو صدر ایردوان کی کامیابی کی راہ کو ہموار کر دے گا، اس لئے یہ اتحاد کبھی اس قسم کا خطرہ مول لینے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اگر اسی اتحاد میں دوسرے نمبر پر موجود گڈ پارٹی ( ترک قومیت پسند پارٹی ) کی چیئر پرسن میرال آق شینر صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑی ہوتی ہیں تو انہیں بائیں بازو کی ری پبلکن پیپلز پارٹی کے 25 فیصد، اپنی جماعت سے دس سے چودہ فیصد اوراس اتحاد میں شامل تمام چھوٹی پارٹیوں کے ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں لیکن وہ اپنے ہی اس اتحاد میں شامل کردوں کی نمائندہ جماعت HDP  کے ووٹ حاصل کرنے سے قاصر رہیں گی ۔

علاوہ ازیں اسی اتحاد میں شامل دو دیگر متبادل بھی موجود ہیں جن کے صدارتی امیدوار ہونے کی صورت میں ان کے اور صدر ایردوان کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ان دو امیدواروں میں ایک استنبول کے موجودہ مئیر اکرم امام اولون ہیں جنہیں اس اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں اور یہ امیدوار صدر ایردوان کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں جبکہ دوسرے منصور یاواش ہیں جنہوں نے انقرہ میں ’’جمہور اتحاد‘‘ کے مئیر کے امیدوار کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی اور ترکی بھر میں بلدیاتی کارناموں کی بدولت جو شہرت حاصل کر رکھی ہے، اس کے نتیجے میں انہیں بھی صدر ایردوان کے مقابلے میں ایک طاقتور امیدوار قرار دیا جا رہا ہے لیکن ان کی راہ میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ ان کا ترک قوم پسند ہونا ہے اگرچہ منصور یاواش ترکی کی تمام سیاسی جماعتوں سے ووٹ حاصل کر سکتے ہیں بلکہ وہ آق پارٹی کے اندر سے بھی چند ایک ووٹ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ان کو کردوں کی جماعت HDP سے ووٹ ملنا ممکن نہیں۔

اس لئے اگر’’ملت اتحاد‘‘ میں شامل تمام امیدواروں کا ایک ایک کر کے جائزہ لیا جائے تو ابھی تک صدر ایردوان کے پائے کا کوئی بھی امیدوار سامنے نہیں آیا۔ اگر صدر ایردوان 2022 تک ملک کی اقتصادی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر صدر ایردوان کا حریف اتحاد کامیابی حاصل نہیں کر پائے گا۔ جب تک حریف اتحاد صدر ایردوان کے مقابلے میں ان جیسا نڈر اور مقبول لیڈر سامنے نہیں لاتا ان کے لئے صدارتی انتخابات جیتنا ممکن نہیں ہے۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ

اردگان کی جرأت مومنانہ

پہلی جنگ عظیم کے اسباب کچھ بھی رہے ہوں اس جنگ کے طرفین میں ایک طرف برطانیہ عظمیٰ، فرانس، روس اور سربیا تھے تو دوسری طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور سلطنت عثمانیہ تھے۔ جیسا کہ کہا گیا اس جنگ کی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں مگر نتائج سلطنت عثمانیہ کے لیے بڑے ہولناک ثابت ہوئے۔ یہ جنگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی اور چار سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی اور اس کا اختتام فریق اول کی فتح کی صورت میں نکلا۔ برطانوی طریقہ واردات کے عین مطابق یہ جنگ محض فوج اور اسلحے سے نہیں لڑی گئی بلکہ سلطنت عثمانیہ میں داخلی خلفشار پیدا کر کے اور عربوں کو عرب نیشنلزم اور اس کی بنیاد پر عرب علاقوں پر حکمرانی کا لالچ دے کر سلطنت عثمانیہ سے علیحدہ کیا گیا اور یوں شریف مکہ کو مکہ کی حکمرانی اور اس کی اولاد کو عراق و اردن پر حکمراں بنا کر عظیم عثمانیہ سلطنت کے حصے بخرے کر دیے گئے چھوٹی چھوٹی عرب ریاستیں کویت، شارجہ، دبئی وغیرہ وغیرہ کی صورت میں معرض وجود میں آئیں اور مغرب کی دست نگر بن کر رہیں۔

ان کی خوش بختی کہ ان چھوٹی ریاستوں میں تیل نکل آیا جس کی تلچھٹ یہ قومیں اٹھاتی رہیں اور تیل کی پیداوار کا اصل منافع اقوام مغرب کا مقدر ٹھہرا۔ اب ترکی کی حکمرانی اس کی روایتی حدود تک محدود ہو کر رہ گئی اور ایک متحد مسلم حکومت خواب و خیال بن کر رہ گئی۔ مگر مغرب کے ذہن سے اسلاموفوبیا کا اثر زائل نہیں ہو سکا اور اچھا ہے زائل نہ ہو کیونکہ یہ فوبیا ہی انشا اللہ ان کے زوال کا سبب بنے گا مگر ابھی تو صورت یہ ہے کہ کسی مسلم ملک کے حکمران نے اگر ان سے آزاد ہو کر اپنا حق حکمرانی حاصل کرنا چاہا تو ان ممالک نے ایسے حکمرانوں کی سرکوبی میں دیر نہیں کی۔ کرنل معمر قذافی اور عراق کے صدر صدام حسین کی عبرت ناک اموات اس پر شاہد ہیں۔ ہمارے عہد میں ایک فرد واحد اسامہ بن لادن کی حکمرانی کو بہانہ بنا کر افغانستان کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔ مغرب جس طرح اسلام کے نام اور نام لیواؤں سے لرزہ براندام ہے وہ بڑی دلچسپ صورت حال ہے۔ ابھی اسلامی دنیا نے وہ مرد آزاد پیدا ہی نہیں کیا ہے جو اسلامی دنیا کو مغرب کے تسلط سے نجات دلا کر ایک بار پھر ایک اسلامی یا کم ازکم مسلم قوت بنا دے مگر اس متوقع مرد آزاد کے خوف سے یہ لرزہ براندام رہتے ہیں۔

اس کی تازہ ترین مثال فرانس کے صدر عمانویل میکرون نے پیش کی انھوں نے فرمایا کہ اگر مسلمانوں کو فرانس میں رہنا ہے تو اپنے علیحدہ تشخص کا خیال دل سے نکال دیں۔ لحم الخنزیر کے علاوہ حلال جانور کے اس گوشت کو بھی کھانا پڑے گا جو ان کے تصور حلال کے مطابق ذبح نہ کیا گیا ہو۔ نیز مدرسوں میں بچوں کو اسلامی تعلیم دینے پر بھی پابندی ہو گی۔ عورتوں کا حجاب یا برقعہ پہننا ضروری نہیں ہو گا۔ نیز ایسی عبادت گاہیں بنائی جائیں گی جن میں عورت اور مرد یکجا عبادت کر سکیں۔ عورتوں اور مردوں کے مخلوط اجتماعات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور ختم نبوت کے عقیدے اور احترام نبوت کو بالائے طاق رکھ دیا جائے گا اور گستاخانہ خاکے دراصل بنانے والے کی تخلیقی قوت کا اظہار سمجھے جائیں گے اور ان پر احتجاج نہیں ہو گا وغیرہ۔ اس سے قطع نظر کہ عمانویل میکرون کی یہ ہرزہ سرائی ان کے خیال میں اسلام کو زندہ دفن کرنے کی کوشش ہے مگر اس اقدام سے جس کا وہ برملا اظہار کر چکے ہیں اور ایسے قوانین بنانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں اور طاقت بھی مگر یہ اقدام خود ان کی (یعنی مغرب کی) روشن خیالی، وسیع النظری، رواداری، شخصی آزادی اور ہر طبقہ اور فرقہ کو اپنے انداز میں زندگی گزارنے کے دعوؤں کو دفنانے کا سبب بنے گی۔

ہمیں مغرب کے ان دعوؤں پر کبھی اعتبار نہ تھا کیونکہ وہاں ان سے ٹکرانے کے مسائل ابتدا میں پیدا ہی نہیں ہوئے تھے اور اگر وہ اب پیدا ہو رہے ہیں تو ان کے دعوؤں کی قلعی خود کھل جائے گی۔ ہمیں تو افسوس اس بات کا ہے اور گلہ اس رویے سے ہے کہ عمانویل میکرون نے بزعم خود جو ہرزہ سرائی، لغو گوئی اور بے ہودہ گفتاری کی ہے اس پر مسلم ممالک، مسلمانوں کی عالمی تنظیمیں، کسی سربراہ مملکت کی طرف سے کوئی احتجاج اور احساس ناخوشگواری اور ناپسندیدگی نہ آ سکا۔ کوئی آواز بلند نہیں ہوئی بلند تو کیا ہوتی پست آواز میں بھی کسی سمت سے احتجاج نہیں ہوا۔ اس صورت حال پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ مسلم ممالک کی واحد نمایندہ تنظیم او آئی سی نے بھی کوئی رسمی قرارداد یا کسی ذمے دار شخص کا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ عرب ممالک کو حسب معمول سانپ سونگھ گیا ہے۔ عربوں پر تنقید کرتے ہوئے قلم تھراتا ہے کہ رسول آخر الزماںؐ انھی میں پیدا ہوئے تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں بھی مسلمانوں کے سارے نقصانات ترکوں کے کھاتے میں گئے تھے کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی قیادت کے ذمے دار ترک تھے۔ علامہ اقبال نے اس وقت کہا تھا

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دین مصطفیٰ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش

آج بھی وہی ترکمان سخت کوش مصلحت آمیز خاموشیوں کے اس جنگل میں اپنا آوازہ بلند کر رہا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے فرانسیسی صدر کی ہرزہ سرائی کے جواب میں ببانگ دہل کہا ہے فرانسیسی صدر کو اسلام کے خلاف لب کشائی کی جرأت کیوں کر ہوئی۔ دراصل مغربی ممالک کے حکمران اپنے لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اسلام پر اس قسم کے حملے کرتے رہتے ہیں۔ میکرون نے کہا کہ وہ اسلام کی تنظیم نو کرنا چاہتے ہیں۔ اردگان نے میکرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کبھی آپ نے ہم سے سنا کہ ہم عیسائیت کی تنظیم نو کرنا چاہتے ہیں۔ میکرون تم کو یہ جرأت کیوں کر ہوئی کہ تم اسلام کی تنظیم نو کی بات کرو۔ نو آبادیاتی ذہن کے حامل مغربی رہنما اپنے ووٹر کو مطمئن کرنے اور اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے ایسی باتیں کرتے رہے ہیں۔ عربوں کی گنگ زبانی اور خاموشی کی فضا میں ایک عجمی کی یہ جرأت رندانہ ایسی صدائے حریت ہے جو میکرون کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہے۔ ہماری لیڈر شپ کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے فرصت ملے تو انھیں پتا چلے کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔ ابھی وقت ہے کہ قیامت کی چال چلنے والوں کے راستے روکے جا سکیں اگر تردد کا یہی عالم رہا تو سارے امکانات ہی ختم ہو جائیں گے۔

 ڈاکٹر یونس حسنی

بشکریہ ایکسپریس نیوز

مسئلہ کشمیر اور ترک پالیسی

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں مسئلہ کشمیر پر حمایت کی شکل میں واشگاف الفاظ میں اپنے ملک کے ساڑھے آٹھ کروڑ عوام اور اپنے موقف کی ترجمانی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر اور ایف اے ٹی ایف پر پاکستان کے موقف کو ترکی اپنا موقف سمجھتا ہے۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا چاہیئے۔ کشمیریوں کی آزادی اور حاصل شدہ حقوق کو چھیننے پر مبنی پالیسیاں کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوں گی۔ اس کا حل جبری پالیسیوں سے نہیں بلکہ انصاف اور حقاق کے اصول پر ممکن ہے۔ 

پاکستانی قیادت اور ملک کے 22 کروڑ عوام ہر دل عزیز اور معزز مہمان کے اس جذبہ کو انتہائی قدر کی نگاہوں سے دیکھتے اور فخر کرتے ہیں۔ کشمیر پر متذکرہ بیان ترکی کی طرف سے کوئی نئی بات نہیں اس مسئلہ سمیت ہر اچھے برے وقت میں ترکی ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے اپنے خطاب میں ترک صدر نے دو ٹوک الفاظ میں کشمیر کی خراب صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وہاں کے عوام کے ساتھ جو یک جہتی ظاہر کی۔ عمران خان نے بجا طور پر اس پر پاکستانی قوم کی طرف سے شکریہ ادا کیا۔ 

رجب طیب اردوان نہ صرف ترکی کی طرح پاکستانی عوام میں بھی یکسر مقبول ہیں بلکہ عالمی برادری میں وہ ایک نڈر اور بے باک لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ترکی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات محض دوستی اور بھائی چارے تک محدود نہیں حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر ہونے والے تجارتی معاہدوں کے تحت عسکری تربیت ، ریلوے کی ترقی، سیاحت، خوراک، پوسٹل سروسز سمیت بارہ شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط اور تجارتی حجم بڑھا کر پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کے اقدامات دونوں ملکوں کے تعلقات میں یقیناً سنگ میل ثابت ہوں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

صدر کی رجب اردوان کو نماز جمعہ کی امامت کی دعوت

صدر مملکت عارف علوی نے ترک صدر رجب طیب اردوان کو جمعے کی نماز کی امامت کرنے کی دعوت دی جب کہ امام صاحب نے بھی رجب طیب اردوان سے یہی بات کہی۔ ترک صدر رجب طیب اردوان دو روزہ دورے پر پاکستان میں موجود تھے۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا بعد ازاں ایوان صدر میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی کی۔ اس موقع پر کئی دلچسپ مناظر دیکھنے میں آئے۔ ترکی اردو نامی ٹوئٹر ہینڈل سے ترک صدر کی ایوان صدر میں نماز جمعہ کی ادائیگی کی ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں نماز سے قبل صدر عارف علوی رجب طیب اردوان کو نماز جمعہ کی امامت کی دعوت دے رہے ہیں جب کہ امام صاحب نے بھی ترک صدر سے کہا کہ آپ کا امامت کرنا دنیا و آخرت میں ہمارے لیے باعث سعادت ہو گا۔ تاہم ترک صدر نے نہایت عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امام صاحب سے امامت کرنے کا کہا۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے موقع پر دیکھا جاسکتا ہے کہ پہلی صف میں ترک صدر رجب طیب اردوان ان کے برابر میں صدر عارف علوی اور پی ٹی آئی رہنما فیصل جاوید نماز ادا کررہے ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا خواب

ترک صدر رجب طیب اردوان کی یہ تجویز موجودہ حالات میں تازہ ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے جس کے مطابق مسلمان دنیا کے تین ممالک ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کو مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کردار ادا کرنے پر اتفاق کرنا چاہیے۔ طیب اردوان نے یہ تجویز ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کو دورہ ٔ ترکی کے دوران ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں پیش کی۔ طیب اردوان کی اس تجویز کی حمایت ڈاکٹر مہاتیر محمد نے بھی۔ دونوں ملکوں کا اتفاق تھا یہ تین مسلمان ملک اپنے کندھوں پر اسلامی ثقافت اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا بار گراں اُٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ترکی میں بلند ہونے والی ان صدائوں کے دوران ہی طیب اردوان نے وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلی فون کر کے اس تجویز کو عملی شکل دینے کے ساتھ مسلمانوں کے دوسرے مسائل اور دوطرفہ تعلقات پر بھی بات کی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترک صدر کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور اسے وقت کی ضرورت قرار دیا۔

اسلامی ثقافت کی تعمیر نو اور تشکیل نو کی تجویز اور مجوزہ معاہدے کے خدوخال ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئے ظاہر ہے کہ ابھی یہ معاملہ تجویز کے مرحلے میں ہے مگر طیب اردوان اور ڈاکٹر مہاتیر محمد کے ذہن میں اس کا نقشہ اور تصور واضح ہو گا۔ مسلمان دنیا کے مذکورہ دونوں راہنما بھی ایک ٹھوس نظریاتی شناخت اور اساس رکھنے والے مسلمان حکمرانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ مسلمان عوام کے مسائل ومعاملات پر ان کا وژن بھی واضح ہے۔ اسی طرح عمران خان اپنے ہر خطاب میں ریاست مدینہ کا حوالہ دے کر اپنی سوچ وساخت کا برملا اظہار کرتے ہیں ان کے ذہن میں بھی جدید ریاست کا تصور مدینہ کی شہری ریاست سے مستعار لیا گیا ہے۔ او آئی سی کے اجلاس میں انہوں نے فلسطین کے دو ریاستی حل اور گولان کی پہاڑیوں کے مجوزہ فلسطینی ریاست کا حصہ ہونے کی بات دوٹوک انداز میں کی تھی۔ 

یہ وہ بات ہے جو خود عرب حکمران بھی زبان پر لانے سے گریزاں رہتے ہیں کیوںکہ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو یہ بات گوارا نہیں ہوتی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ او آئی سی کے تمام رکن ممالک اپنے سمت کا واضح تعین کرتے ہوئے مسلمانوں اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے سرگرم کردار ادا کرتے مگر مسلمان دنیا میں جو تقسیم بری طرح اُبھار دی گئی اس میں فی الحال ایسی کسی بھی اجتماعی کوشش کے آغاز اور بارآور ہونے کا امکان نہیں مگر مسلمان دنیا کے تین اعتدال پسند اور مسلکی جھنجٹ سے آزاد ممالک اگر اس نقطے پر متحد ہوجائیں تو شاید مجموعی منظر بدلنے کا عمل بھی شروع ہو جائے۔ اسلامی نشاۃ ثانیہ مسلمان دنیا کا پرانا خواب ہے۔ اس خواب کی تعبیر میں بہت سے بہادر اور صاحب بصیرت حکمران اور راہنما اپنی جانیں اور اقتدار گنواتے رہے۔ ایک مدت تک یہ خواب زندہ رہا مگر پھر حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ یہ خواب بھی آنکھوں میں ہی مر کر وہیں دفن ہو کر رہ گیا۔ 

او آئی سی جو پہلے ہی رسم دنیا نبھانے کا ایک پلیٹ فارم تھا اس معمولی سی صلاحیت سے بھی محروم ہو کر رہ گیا اور اس پلیٹ فارم کی حیثیت ایک ویران اور اجاڑ مقام کی ہو کر رہ گئی۔ پچھلے دو تین عشرے اسی حالت میں گزر گئے۔ یہ حالات تو بہت روح فرسا تھے جب یہ خواب دیکھنے والی آنکھیں تعزیر کی مستحق قرار پاچکی تھیں۔ نائن الیون نے تو مسلمان سماجوں پر ایک قیامت ڈھا دی۔ یوں لگا کہ امریکا کے گرنے والے مینار اپنی بنیادوں پر نہیں بلکہ مسلمان دنیا پر جا گرے تھے۔ اس ملبے میں مسلمان کراہتے چیختے چلاتے رہے۔ مسلمانوں کو ایک عالمی مجرم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور دنیا کا ہر الزام اور ہر جرم ان کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ مسلمان دنیا میں منہ چھپاتے پھرتے رہے۔ مسلمان ہی نہیں ان کا مذہب اور ثقافت بھی بدنامی کا اشتہار بنا دی گئی۔

 دنیا کے ہر قبیح فعل اور جرم کو مسلمان دنیا اور ان کے مذہب کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ مسلکی تقسیم نے مسلمان دنیا کی رگوں کا خون نچوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک حکمت کے تحت کبھی ایک ملک کو مسلک کے نام پر سبق سکھایا گیا تو کبھی اسی کے تعاون سے دوسرے ملک کی گردن مروڑی گئی۔ پاکستان بطور ریاست ماضی میں بھی مسلمانوں کے مسائل کے حل اور انہیں متحد کرنے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ستر کی دہائی میں پاکستان میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد اس سفر کا اہم سنگ میل تھا۔ جب شاہ فیصل، یاسر عرفات، معمر قذافی جیسے اپنے وقت کے مقبول مسلم حکمران پاکستان کی سرزمین پر اکٹھے ہو گئے۔ اس کے بعد دنیا بدلتی چلی گئی۔

افغانستان میں سوویت یونین کی آمد اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد اور ایران میں برپا ہونے والے انقلاب اور امریکا کے ساتھ شروع ہونے والی مستقل آویزش اور مخاصمت نے مسلم دنیا کا نقشہ بدلنا شروع کیا۔ پاکستان بھی ان حالات کا شکار ہوتا چلا گیا اور یوں مسلمان دنیا میں اس کا قائدانہ کردار کم ہوتا چلا گیا۔ پاکستان اپنے مسائل میں گھر گیا کہ وہ مسلمانوں کے اتحاد اور اسلامی ثقافت کی تشکیل جدید کا خواب بھول بیٹھا۔ اب وقت ایک بار پھر پاکستان کو اپنا کردار ادا اور بحال کرنے کے لیے پکار رہا ہے۔ طیب اردوان کی تجویز اور مہاتیر محمد کی تائید اور فوری عمل درآمد کی کوشش ایسی ہی ایک دستک ہے۔ پاکستان اپنے داخلی حالات اور مشکلات پر قابو پا کر آگے بڑھے تو اس کا ماضی لوٹ کر آسکتا ہے۔ 

آج مسلمان دنیا کو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں۔ اسلام کی شبیہ کو عالمی سطح پر نہایت خوفناک بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اسلامو فوبیا پیدا کر کے مغربی دنیا کو اسلام کے پھیلائو اور پیغام کو سننے اور سمجھنے سے روکنے کی ہر ممکن کو شش کی جارہی ہے۔ ایسے میں مسلمان دنیا کے تین اعتدال پسند ممالک کا اسلامی ثقافت کی تدوین نو اور اسلام کو اصل سیاق وسباق کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی سوچ بہت مثبت اور بروقت ہے۔ ایران اس سوچ اور کوشش کا حصہ بنے تو مثلث مستطیل بن کر زیادہ بامعنی اور باوقار بن سکتی ہے اور اس کے گرد باقی مسلمان دنیا کو بھی جمع کیا جا سکتا ہے۔

عارف بہار  

بشکریہ روزنامہ جسارت

صدر اردوان کی مدد سے کارکے تنازع حل اور جرمانہ معاف ہو گیا

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کارکے رینٹل پاور پلانٹ تنازع حل ہو گیا ہے اور ہماری حکومت نے پاکستان پر ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کا جرمانہ بچا لیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کارکے (کارکے رینٹل پاور پلانٹ کیس) تنازع حل کر لیا ہے یہ سب ترک صدر رجب طیب اردوان کی مدد سے ممکن ہوا، تنازع حل ہونے سے پاکستان پر ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کا جرمانہ معاف ہوا۔

صدر اردگان کی مدد سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کارکے تنازعہ کامیابی سے حل کر لیا ہے اور آئی سی ایس آئی ڈی کی جانب سے پاکستان پر عائد کئے گئے 1.2 ارب ڈالرز جرمانے کی رقم بچا لی ہے۔ اس شاندار کامیابی پر میں حکومت کی مذاکراتی ٹیم کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وزیراعظم نے حکومتی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کارکے تنازع حل کرنے میں حکومتی ٹیم کا بہترین کردار رہا جس کی بدولت انٹرنیشنل سینٹرفار سیٹلمنٹ اینڈ انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس کی جانب سے عائد کیا گیا ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کا جرمانہ بچا لیا گیا۔

پاکستان، ترکی اور ملائیشیا کا انگریزی چینل بنانے کا فیصلہ

وزیراعظم عمران خان، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے انگریزی چینل بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عمران خان نے اس حوالے سے ٹوئٹ میں تفصیلات بھی بتا دیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹ میں آگاہ کیا کہ انہوں نے آج ترک صدر اردگان اور وزیراعظم ملائشیا مہاتیر محمد سے ملاقات کی جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہم تینوں ممالک ملکر ایک انگریزی چینل شروع کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے لکھا کہ یہ چینل اسلاموفوبیا سے جنم لینے والے چیلنجز کے مقابلے اور ہمارے عظیم مذہب ’’اسلام‘‘ کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرنے کیلئے مختص ہو گا۔ عمران خان نے مزید لکھا کہ ایسی تمام غلط فہمیاں جو لوگوں کو مسلمانوں کیخلاف یکجا کرتی ہیں، کا ازالہ کیا جائے گا، توہین رسالت کے معاملے کا سیاق و سباق درست کیا جائے گا، ساتھ ہی اپنے لوگوں کیساتھ دنیا کی تاریخ، اسلام سے آگہی کیلئے فلمیں تیار کی جائیں گی۔

رجب طیب اردوان نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں اُٹھا دیا

ترک صدر رجب طیب اردوان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جبری پابندیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھا دیا۔ نیویارک میں جاری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ یو این کی منظور شدہ قرار دادوں کے باوجود 72 سال سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکا، گزشتہ 50 دنوں سے 80 لاکھ کشمیری محصور ہیں وہ باہر نہیں آسکتے کیوں کہ مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہے ۔ رجب طیب اردوان نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن کے لیے پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کا حل اعتماد اور برابری کی بنیاد پر ہونے والے مذاکرات سے کرنا چاہیے۔

ترک صدر نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے ثبوت نقشے کی صورت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک اسرائیل مسلسل فلسطینی زمین پر قبضہ کر رہا ہے، اسرائیلی زمین بڑھتی جارہی ہے اور فلسطین کا رقبہ کم ہوتا جارہا ہے، کیا کوئی اسرائیل کے بارڈرز ہیں؟ اسرائیلی سرحدوں کی تعین کیوں نہیں کیا جارہا؟ رجب طیب اردوان نے ایلان کرد کی تصویر اٹھاتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری بھوک، خوراک کی کمی، موسمیاتی تبدیلی اور دہشتگردی سمیت دیگر چیلنجز کے حل کی قابلیت کھوتی جارہی ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ترکی ، ملائیشیا اور پاکستان پر مشتمل سہ ملکی مسلم اتحاد کی تجویز

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور ملائیشیا کے صدر ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ترکی ، ملائیشیا اور پاکستان پر مشتمل سہ ملکی اتحاد کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی بدولت مسلم امہ کو تباہ ہونے سے روکنے میں مدد ملے گی ۔ انقرہ میں دونوں عظیم مسلم ممالک کے سربراہوں کی ملاقات کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے یہ تجویز پیش کی جس سے ملائیشیا کے سربراہ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم دنیا کو غیروں کی غلامی سے نجات دلانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ دونوں سربراہوں نے تین بڑے اسلامی ممالک پر مشتمل اتحاد کی بات کرتے ہوئے کہا کہ تینوں ممالک دفاع سمیت کئی شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ 

اس ضمن میں ترکی کے صدر طیب اردوان نے ٹیلی فون پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے بھی تبادلہ خیال کیا ہے اور مسئلہ کشمیر پر ترکی کے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اس سہ ملکی اتحاد پر پاکستان کا کیا موقف ہے، یہ تو ابھی سامنے نہیں آیا ہے مگر شاید ہی کوئی ہو جو اس تجویز سے اتفاق نہ کرتا ہو۔ ترکی، ملائیشیا اور پاکستان تینوں مختلف شعبہ جات میں مہارت رکھتے ہیں۔ ترکی کی مہارت سول انجینئرنگ میں زیادہ ہے اور وہ بڑے پروجیکٹوں کی تکمیل کی شہرت رکھتا ہے تو ملائیشیا ہوائی جہاز اور موٹر کار بنانے جیسے شعبوں میں مہارت رکھتا ہے ۔ اسی طرح پاکستان میزائیل سازی میں بہت آگے ہے ۔

پاکستان کے پاس بحری جہاز بنانے اور ان کی مرمت کا تجربہ موجود ہے ۔ اسی طرح پاکستان کے جے ایف تھنڈر جہازوں نے بھی دنیا پر اپنا سکہ جما لیا ہے ۔ اگر یہ تینوں ممالک صرف دفاع کے شعبہ میں ہی ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کر لیں تو مسلم دنیا کی ضروریات بڑی حد تک پوری کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح یہ تینوں ممالک ہی اگر مشترکہ خارجہ پالیسی تشکیل دے لیں تو دنیا میں مسلم امہ کو ڈھارس ہو گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں پر ہر جگہ سرکاری سرپرستی میں ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور کوئی اس کے خلاف آواز بلند کرنے والا نہیں ہے ۔ میانمار ہو یا بھارت ، فلسطین ہو یا سنکیانگ کون سا ایسا خطہ بچا ہے جہاں پر مسلمانوں کو پرامن زندگی گزارنے کی آزادی ہو ۔ 

مقتدر اور آزاد مسلم ممالک کو بھی علی الاعلان جارحیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس کے خلاف کہیں پر کوئی کمزور سی آواز بھی بلند نہیں ہوتی ۔ افغانستان ، عراق، شام ، لیبیا اور یمن کو دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈرمیں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ اگر اس سہ ملکی اتحاد پر کسی بھی درجے میں عمل ہو جاتا ہے تو پھر اس امر کی امید بندھتی نظر آتی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اجتماعی آواز بلند ہو گی ۔ ویسے تو اسلامی ممالک کی تنظیم کا قیام بھی اسی روح کے مطابق عمل میں لایا گیا تھا ۔ مگر بدقسمتی سے اس انتہائی اہم فورم کو اس طرح سے استعمال میں نہیں لایا جا سکا جس طرح اس کی ضرورت تھی اور اس وقت یہ ایک عضو معطل کی صورت میں ہے ۔ 

ایک مشترکہ تجارتی بلاک بنانے کے لیے پاکستان ، ایران اور ترکی پر مشتمل تنظیم آر سی ڈی بھی بنائی گئی تھی تاہم یہ بھی اپنی موت آپ مر گئی ۔ اب بھی وقت ہے کہ مسلم ممالک سوویت یونین، یورپی یونین یا متحدہ ریاست ہائے امریکا کی طرز پر کوئی یونین تشکیل دے لیں تاکہ دشمنوں سے محفوظ رکھنے کی کوئی سعی کی جا سکے ۔ اگر پاکستان ، ترکی اور ملائیشیا مل کر مسلم دنیا کے سامنے ایک کامیاب رول ماڈل پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے تو سوویت یونین ، یورپی یونین یا متحدہ ریاست ہائے امریکا کی طرز پر متحدہ مسلم ریاست کا خواب پورا ہونا ناممکن نہیں رہے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سمت میں پورے اخلاص کے ساتھ کام کیا جائے اور اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے کی جانے والی اغیار کی سازشوں سے ہشیار رہا جائے ۔

دنیا بھرمیں مسلمانوں کے لیے اس وقت صورتحال انتہائی مایوس کن ہے ۔ مودی کو عربوں کے دوست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر یہی مودی عملی طور پر بھارت میں مسلمانوں کے قتل میں پیش پیش ہے ۔ گجرات کا سانحہ ہو یا بابری مسجد کی شہادت ، گئو رکھشا کے نام پر مسلمانوں کا سڑک پر سرعام قتل ہو یا فسادات کی آڑ میں مسلم املاک کو تباہ کرنا ، مسلم دنیا میں کوئی نہیں ہے جو مودی کا ہاتھ روکنے کی بات کرے ۔ اور تو اور پاکستان بھی سیکوریٹی کونسل میں غیر مستقل رکن کی نشست پر بھارت کی حمایت کر رہا ہے ۔ چین جو اپنے آپ کو مسلمانو ں کا دوست کہتا ہے ، اس نے دس لاکھ سے زاید مسلمانوں کو سنکیانگ میں حراستی مراکز میں رکھا ہوا ہے ۔ 

اس کے علاوہ بھی سرکاری طبی مراکز میں جبری طور پر مسلم خواتین کو بانجھ بنایا جارہا ہے مگر ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے جو چین سے اس بارے میں سوال جواب کر سکے ۔ میانمار دیکھنے میں ایک کمزور ریاست ہے مگر اس نے سرکاری سرپرستی میں روہنگیا مسلمانوں کی منظم نسل کشی شروع کر رکھی ہے اورکسی طرف سے کوئی آواز نہیں ۔ اسرائیل کو تو گویا پوری مسلم دنیا نے مل کر آزادی دے دی ہے کہ وہ چاہے جس طرح فلسطینی مسلمانوں کی جان و مال پر حملہ آور ہو ، اس سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا ۔ اسی طرح کسی نے آج تک امریکا ، برطانیہ ، جرمنی ، فرانس اور دیگر ممالک سے سوال نہیں کیا کہ افغانستان ، عراق ، شام ، لیبیا اور یمن کو کیوں تباہ کیا گیا ۔ اگر کوئی مسلم اتحاد وجود میں آجائے تو ان سب کی ناک میں نکیل ڈالی جا سکتی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جسارت