کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی کا ایک انٹرویو

حال ہی میں حکومت پاکستان نے کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی کو نشان پاکستان سے نوازا- اسی مناسبت سے میں بیس سال پہلے ان سے لئے گئے انٹرویو کے کچھ اقتباسات پیش کر رہا ہوں – یہ انٹرویو میں نے ان کی اس وقت کی رہائش گاہ بلبل باغ سرینگر میں لیا تھا جو سرینگر کے مشہور ہفت روزہ چٹان میں اپریل 2000 میں شائع ہوا تھا

سوال: پاکستان میں فوجی بغاوت کے بعد بھارت کا استدلال ہے کہ بات چیت صرف کشمیریوں کے ساتھ ہو گی پاکستان کے ساتھ نہیں؟
جواب: باون سال کے طویل عرصے میں ہم نے دیکھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی بار بات چیت ہوئی- اسی طرح بھارت اور کشمیریوں کے بیچ میں بھی بات چیت کے کئی دور ہوئے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا- اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے اولاً اقوام متحدہ کی قراردادیں بنیاد ہیں یا سہ فریقی مذاکرات ہونے چاہئیں جن میں پاکستان بھی شریک ہو

سوال: حالات کافی بدل گئے ہیں اور اب تو امریکی صدر کلنٹن بھی کہہ رہے ہیں کہ بھارت اور کشمیریوں کو مذاکرات کرنے چاہئیں؟
جواب: ہماری جدوجہد نہ تو کلنٹن صاحب کے ارشادات کےمطابق ہے اور نہ کسی اور عالمی قوت کے اشاروں پر- یہ جدوجہد 1947 سے جاری ہے اور آج آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ عالمی قوتیں مثلا امریکہ، برطانیہ، اقوام متحدہ اور جی ایٹ یا پی فائیو ممالک ہمارے کاز کی اس سطح پر حمایت نہیں کرتے جس سطح پر ان کو کرنا چاہئے تو اس لئے ہمیں اپنی جدوجہد سے ہاتھ اٹھانا چاہئے اور مایوس ہونا چاہئے اور بھارت کی قوت اور طاقت کے سامنے سرینڈر کرنا چاہئے- یہ حقیقت پسندانہ رویہ قرار نہیں دیا جاسکتا- یہ حق و صداقت پر مبنی جدوجہد ہے اور اسکو برقرار رکھنا چاہئے، چاہے امریکہ ساتھ دے یا نہ دے- اسکا ساتھ دیا جانا چاہئے اور ہر قیمت پر دیا جانا چاہئے

سوال: مگر موجودہ دور میں آپ کوئی بھی مسئلہ بین الاقوامی برادری کی مداخلت یا تعاون کے بغیر حل نہیں کر سکتے؟
جواب: آپکو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے اپنے مفادات ہیں، برطانیہ کے اپنے، پی فائیو یا جی ایٹ کے سامنے ان کے اپنے معاشی یا قومی مفادات ہیں اور وہ ہماری توقعات کےمطابق ہماری جدوجہد کی حمایت نہیں کر سکتے- لیکن پھر بھی میں آپکو بتا دوں کہ کوئی بھارت کے اس مؤقف کو تسلیم نہیں کرتا کہ جموں و کشمیر اسکا جزو لاینفک ہے- سب کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر متنازعہ ہے اور اسکو پر امن طریقے سے حل کیا جانا چاہئے

سوال: پچھلے کچھ عرصے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں کئی قسم کے فارمولے منظر عام پر آچکے ہیں- ان پرآپکی کیا رائے ہے؟

جواب: بنیادی بات تو لوگوں کی رائے ہے- اگر استصواب رائے میں لوگ بھارت کے حق میں فیصلہ دیں تو ہمیں کوئی عذر نہیں ہو گا- اگر بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے تو تینوں فریقوں کے نمائندے ملکر کسی بھی فارمولے پر غور و خوض کر سکتے ہیں اور جو بھی فارمولا سامنے آئے گا اور جس پر اتفاق ہو جائے اسکو ہم تسلیم کریں گے

سوال: نیشنل کانفرنس ہمیشہ حریت کانفرنس اور بھارت کی مرکزی سرکار کے درمیان مذاکرات کی مخالفت کرتی آئی ہے؟
جواب: نیشنل کانفرنس کا ہدف اور مقصد صرف اقتدار ہے- اس لئے وہ ہر وقت اندیشوں میں گھرے رہتے ہیں کہ کہیں انکا اقتدار چھن نہ جائے- وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حریت کانفرنس اور بھارت میں مصالحت ہو جائے تو شاید ان کی حکومت نہ رہے- آپ انکا یہ اندیشہ دور کر دیں کہ حریت کانفرنس اقتدار کیلئے نہیں لڑ رہی اس لئے ان کو اپنے اقتدار کے حوالے سے پریشان نہیں رہنا چاہئے- ان کا اقتدار فوج کے سہارے سے ہے اور جب تک یہاں پر بھارت کا فوجی تسلط ہے ان کا اقتدار قائم رہے گا- نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر میں ہندوستان کے آدرشوں کی ترجمان ہے- آج سے بہت پہلے فاروق عبداللہ نے کہا تھا کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل بنایا جائے وہ ہندوستان کی آواز تھی- اسلئے ہم بار بار یہ واضح کرتے آئے ہیں کہ ایل او سی کو مستقل لائن قرار دینا مسئلے کا حل نہیں اور نہ اندرونی خود مختاری یا 53 کی پوزیشن- انکو ہم کسی لگی لپٹی یا ابہام کے بغیر مسترد کرتے ہیں

سوال: آپکی آئندہ کی حکمت عملی کیا ہے؟
جواب: ہماری حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ رہنا چاہئے کہ لوگوں کے حوصلے بلند رہیں اور اگر خدا نخواستہ انکی کچھ غلط توقعات ہیں کہ ہم جہدوجہد کے اس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں کہ سمجھوتہ کر کے کچھ مشکلات کو کم کریں، لیکن شہدا کی قربانیوں اور ہمارے مقصد کا احترام برقرار نہ رکھا جائے تو انکی ان غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے

مرتضیٰ شبلی

بشکریہ روزنامہ جنگ

سید علی گیلانی کون ہیں؟

سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے۔ 1950 میں ان کے والدین نے پڑوسی ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور ہجرت کی۔ گیلانی نے اورینٹل کالج لاہور سے ادیب عالم اور کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ 1949 میں ان کا بحیثیت استاد تقرر ہوا اور مستعفی ہونے سے پہلے بارہ سال تک کشمیر کے مختلف اسکولوں میں اپنی خدمات انجام دیں۔ 1953 کو وہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ وہ پہلی بار 28 اگست 1962 کو گرفتار ہوئے اور 13 مہینے کے بعد جیل سے رہا کیے گئے۔ مجموعی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کا 14 سال سے زیادہ عرصہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارا جبکہ گذشتہ زائد ایک دہائی سے اپنے گھر میں نظربند ہیں۔

گیلانی کشمیر میں پندرہ سال تک اسمبلی کے رکن رہے۔ وہ اسمبلی کے لیے تین بار 1972، 1977 اور 1987 میں حلقہ انتخاب سوپور سے جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے 30 اگست 1989 کو اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔ سید علی گیلانی نے جماعت اسلامی میں مختلف مناصب بشمول امیر ضلع، ایڈیٹر اذان، قائم جماعت اور قائم مقام امیر جماعت کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ وہ تیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ بزرگ رہنما گیلانی مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا ہیں۔ ان کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا ہے۔ ان کا گال بلیڈر اور ایک گردہ نکالا جاچکا ہے جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالا جاچکا ہے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
 

سیدعلی گیلانی : تحریک ِ آزادی کشمیر کے درخشندہ ستارے

بھارت مقبوضہ کشمیر میں ’’لگائے ظلم کے بازار‘‘ سے دنیا کی توجہ ہٹا سکتا ہے ‘نہ انسانیت کو کچلنے کیلئے متنازع قانون شہریت کو مہذب دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھ سکتا ہے۔ چھ ماہ سے زائد کے بدترین کرفیو اور مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کئے جانے کے باوجود بھارتی فوجیوں کی گولیوں کے مقابلے میں ’’توتیر آزما‘ ہم جگر آزمائیں‘‘ کے مصداق ہر نئی صبح کشمیریوں کے نئے جذبہ آزادی سے طلوع ہوتی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر جانوں کے نذرانے‘ عصمت دری‘ تشدد اور اپاہج کر دینے والی پیلٹ گنوں کے استعمال سمیت بھارت کے مختلف ہتھکنڈے کشمیریوں کے جذبہ حریت میں کمی نہیں لا سکے۔ 5 اگست کے مودی سرکار کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کی صورت میں شب خون نے کشمیریوں کے اندر بھارت کیخلاف اشتعال‘ انتقام اور نفرت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

اسی لاکھ کشمیریوں کی مزاحمت پر قابو پانے کیلئے ساڑھے 9 لاکھ فوج کی تعیناتی کا مطلب ہر گھر کے سامنے ایک فوجی کھڑا ہے‘ مگر جب بھی موقع ملتا ہے‘ کشمیری سر پر کفن باندھ کر گھروں سے نکلتے اور مظاہرے کرتے ہیں ‘ مگر ان کی آواز انٹرنیٹ سوشل میڈیا کی بندش‘ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور آزاد میڈیا پر پابندیوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنے آزادی جیسے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں کم عمر بچوں سمیت اس وقت 12 ہزار سے زائد کشمیری قید ہیں‘ جن میں محمد یاسین ملک ‘ شبیر احمد شاہ ‘ مسرت عالم بٹ‘ ڈاکٹر حمید فیاض اور آسیہ اندرابی شامل ہیں۔ نظر بندوں کو طبی سہولیات اور مناسب غذا بھی فراہم نہیں کی جا رہی۔

نظر بندوں کو مقررہ تاریخوں پر عدالتوں میں بھی پیش نہیں کیا جاتا۔ کشمیری نظربندوں کو اکثر و بیشتر ہندو توا نظریے سے وابستہ غنڈوں کی طرف سے تشدد کا سامنا بھی رہتا ہے۔ ادھر بدترین کرفیو کے باوجود پوری وادی سراپا احتجاج اور ’’آزادی آزادی‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی ہے‘ جبکہ تحریک آزادی کے دوران بھارتی بربریت سے شہید ہونیوالے نوجوانوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر بڑے بڑے جلوسوں کی صورت میں آخری منزل تک پہنچایا جارہا ہے‘ اس سے بھارتی حکمرانوں کے دہشت گردی کے پروپیگنڈے کی دھجیاں بھی بکھر گئی ہیں۔ دنیا بھر میں انسانیت کی اعلیٰ اقدار سے محبت کرنے والے لوگ مقبوضہ کشمیر کے ان بچوں‘ جوانوں اور بوڑھوں کو سلام پیش کر رہے ہیں‘ جنہوں نے ہر قسم کے مظالم کا سامنا کرنے اور ہر روز اپنے پیاروں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجود آزادی و حریت کا پرچم نا صرف سر بلند رکھا‘ بلکہ ان کی جدوجہد ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ ولولہ انگیز نظر آرہی ہے۔

مظلوم کشمیری عوام نے بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر ظلم کے باوجود آزادی آزادی کے نعرے لگا کر اور جابجا پاکستانی پرچم لہرا کر اقوام عالم کے سامنے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ اپنی مرضی سے کرنے کے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ گزشتہ دنوں آزادی کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان ہی ہمارا مقصد‘ منزل اور نعرہ ہے‘ ہم اس مقصد پر ہمیشہ قائم رہیں گے اور اپنی منزل حاصل کر کے ہی دم لیں گے۔ اپنی جدوجہد آزادی کی طویل جنگ کے دوران مقبوضہ کشمیر کے رہنمائوں اور عوام نے دنیا پر ثابت کر دیا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور پاکستان اور کشمیر لازم و ملزوم ہیں۔

پاکستان کا نقشہ اسی دن مکمل ہو گا‘ جب مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا۔یوں تو اور بھی صف اول کے کئی کشمیری رہنما مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کے خلاف اور آزادی کیلئے بھارت سے ہر محاذ پر نبرد آزما ہیں‘ لیکن سید علی گیلانی کی شخصیت کشمیری عوام کیلئے ایک ایسی مثال ہے ‘جس نے انہیں بھارت جیسی طاغوتی قوت سے ٹکرانے کا حوصلہ دیا ہے؛ اگرچہ وہ عمر عزیز کے اس حصے میں ہیں‘ جہاں انسان کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں ‘لیکن یہ علی گیلانی ہی ہیں‘ جنہوں نے ہر موقع پر اپنی بصیرت سے بھارت کے ہر حربے کو ناکام بنا دیا۔ سیدعلی گیلانی مقبوضہ کشمیر کی تحریک حریت کے ایک درخشندہ ستارے اور مشعل راہ ہیں‘ایک دہائی تک گھر میں محصور قیدی رہے‘ ان کا نام کشمیریوں کے دلوں میں دھڑکتا ہے‘ قابض بھارتی فورسز اپنی ناپاک کوششوں کے باوجود ان کے جذبہ حریت کو کم نہ کر سکی‘ وہ تحریک آزادی کشمیرکے رول ماڈل تھے اور رہیں گے۔

بزرگ کشمیری رہنما کے پیغام نے ایک بار پھر بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اور پاکستانی عوام ان کے ساتھ کھڑے ہیں‘ وہ کشمیر کو پاکستان کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں اور آزادی کے بعد کشمیر کا الحاق ہر صورت میں پاکستان کے ساتھ ہی چاہتے ہیں۔ دنیا کے سامنے اب تک جو پابندیوں کے باوجود حقائق آچکے ‘ ان کے مطابق بھی مقبوضہ وادی میں بدترین انسانی بحران جنم لے چکا۔ مقبوضہ کشمیر میں یہ دنیا کا طویل ترین کرفیو ہے‘ جس میں ہر ممکنہ سختی کوروا رکھا جارہا ہے‘ لیکن و ہ وقت دُور نہیں کہ جب مقبوضہ کشمیر آزاد ہو جائے گا‘ کیونکہ سید علی گیلانی جیسے بزرگ کے اعصاب کو اگر بھارتی سرکار نہیں توڑ سکی‘ تو مقبوضہ کشمیر کی نسل ِ نو کو وہ کیسے غلام بنا سکتی ہے؟

بشکریہ دنیا نیوز

سید علی گیلانی کا وزیراعظم عمران خان کو خط

کشمیر کے بزرگ حریت رہنما اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے مقبوضہ وادی کے حالات پر وزیراعظم عمران خان کو خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ آپ کے ساتھ میرا آخری رابطہ ہو۔ حریت رہنما سید علی گیلانی نے اپنے خط میں اقوام متحدہ میں بھارت کی جانب سے متنازع علاقےکی حیثیت کو تبدیل کرنے پر عمران خان کی جانب سے کی جانے والی تقریر کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں آپ سے رابطہ قومی اور ذاتی ذمہ داری ہے۔ سید علی گیلانی نے خط میں لکھا ہے کہ کشمیری اپنی جدوجہد سے دست بردار نہیں ہوئے ہیں، بھارت کی جانب سے غیرقانونی فیصلوں کے بعد کشمیری عوام مسلسل کرفیو جھیل رہی ہے، نہتے کشمیریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے نوٹسز بھیجے جا رہے ہیں۔

سید علی گیلانی نےخط میں مزید لکھا ہےکہ کشمیری خواتین کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے، بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، بھارت نے غیر قانونی اقدامات کر کے اپنی طرف سے پاکستان سے ہوئے معاہدوں کو ختم کیا ہے، پاکستان کی طرف سے کچھ مضبوط اور اہم فیصلوں کی ضرورت ہے۔ سید علی گیلانی کا خط میں کہنا ہے کہ پاکستان کو حکومتی سطح پر کچھ کارروائی عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ سید علی گیلانی نے اپنے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ختم کرنے کا اعلان کرے، پاکستان دوطرفہ معاہدوں شملہ، تاشقند اور لاہور معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کرے۔ ایل او سی پرمعاہدے کے تحت باڑ لگانے کے معاہدے کو بھی ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے، حکومت پاکستان ان سارے فیصلوں کو لے کر اقوام متحدہ بھی جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

بھارت انسانی تاریخ کا بڑا قتل عام کرنے جارہا ہے، سیّد علی گیلانی

مقبوضہ کشمیر میں سینئر حریت رہنما سیّد علی گیلانی کا کہنا ہے کہ بھارت انسانی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام کرنے جا رہا ہے ہمیں بچایا جائے۔ ٹویٹر پر مسلم امہ کے نام پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ اگر ہم شہید اور آپ خاموش رہے تو اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہو گا۔

This tweet must be taken as an SOS (Save Our Souls) message to all Muslims living on this planet. If we all die and you kept quite you will be answerable to Allah the Magnificent. Indians are about to launch the biggest genocide in the history of Mankind. May Allah protect us.
— Syed Ali Geelani (@sageelani) August 3, 2019

سینئر حریت رہنما کا مزید کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

I strongly condemned the arrest of Qazi Shibli.#KashmirUnderThreat https://t.co/eqiZNV875G
— Syed Ali Geelani (@sageelani) August 3, 2019

ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے سینئر صحافی قاضی شبلی کو حراست میں لیے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

سید علی گیلانی کی کال

اپنی پوری زندگی ، اپنی صحت، آرام، فیملی اور تمام صلاحیتیں اور توانائیاں کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق اور آزادی کے لیے وقف کر دینے والے سب سے مقبول رہنما اور کشمیری کے بوڑھے شیر سید علی گیلانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مدد کے لیے پکارا ہے تو یقینا بات ہی ایسی ہے۔ وہاں کی صورت حال غیر معمولی ہے۔ بھارتی درندوں نے کشمیریوں پر ہر قسم کے ظلم ڈھا کر دیکھ لیا کہ وہ اب آزادی کے علاوہ کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا اب مودی اور اس کے کارندوں نے اپنے آئین اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو روندتے ہوئے کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کا خوفناک منصوبہ بنایا ہے

اور اسی سلسلے میں انھوں نے کلسٹر بم گرانا شروع کر دیے ہیں۔ بھارتی درندے چاہتے ہیں کہ لاکھوں کشمیریوں کا قتل عام کیا جائے اور وہاں ہندوؤں کی اکثریت ہو جائے۔ پوری دنیا کا مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان کے باشندوں (چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہوں) کا فرض ہے کہ اپنے کشمیری بھائیوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے انھیں جواب دیں کہ ’’ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم آپ کو genocide کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔

٭ اس سلسلے میں فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر تمام سیاسی قائدین متحد ہو کر کشمیریوں کے قتل عام کے خلاف زور دار قرار داد پاس کر کے اہم ملکوں کے سربراہوں کو بھیجیں۔

٭ وزیراعظم عمران خان صاحب خود امریکا، برطانیہ، چین، روس، ترکی، جرمنی، فرانس، سعودی عرب، یو اے ای اور ملائیشیا کے حکمرانوں کو فون کر کے حالات کی سنگینی سے آگاہ کریں اور ان پر زور دیں کہ وہ بھارت کو اس بربریت سے روکیں۔

٭ امریکا اور برطانیہ میں تعینات پاکستانی سفیر وہاں بااثر پاکستانیوں کی میٹنگ بلائیں اور انھیں تیار کریں کہ وہ ان ملکوں کے اہم حکام سے مل کر انھیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر آمادہ کریں تاکہ وہ بھارت کو اس شیطانی منصوبے سے روکیں۔

٭ کشمیر کا مقدمہ بہتر پیش کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد پر مشتمل وفود فوری طور پر اہم ملکوں میں بھیجے جائیں تاکہ وہاں کے حکمرانوں کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے اور بے گناہ کشمیریوں کے تحفظ کے لیے انھیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر قائل کیا جا سکے۔

اگر ہم کشمیری مسلمانوں کی SOS کال پر خاموش رہے تو سید علی گیلانی کے بقول ہم رب ذوالجلال کو کوئی جواب نہیں دے سکیں گے اور ہم شرمندگی کے مارے آقائے دو جہاں ﷺ کا سامنا نہیں کرسکیں گے۔

ذوالفقار احمد چیمہ

بشکریہ ایکسپریس نیوز