سنگاپور کی مثال

سنگا پور 1965 تک ملائیشیا کا انتہائی پس ماندہ علاقہ ہوتا تھا‘ زمین دلدلی‘ ویران اور بنجر تھی‘ لوگ سست‘ بے کار اور نالائق تھے‘ یہ صرف تین کام کرتے تھے‘ بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے‘ چوری چکاری کرتے تھے ‘ بحری جہازوں سے چوہے نکال کر کھاتے تھے اور بس‘ ملائیشیا ان سے تنگ تھا لہٰذا بڑا مشہور واقعہ ہے‘ تونکو عبدالرحمن کے دورمیں سنگا پور نے آزادی مانگی اور پارلیمنٹ کے کل 126 ارکان نے سنگاپور کے حق میں ووٹ دے دیے۔ بل کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں تھا‘ پارلیمنٹ کا کہنا تھا‘ ہم نے ان بے کار لوگوں اور دلدلی زمین کو اپنے پاس رکھ کر کیا کرنا ہے اور یوں سنگا پور آزاد ہو گیا‘ یہ قدرت کی طرف سے سنگا پور کے لیے پہلا تحفہ تھا‘ دوسرا تحفہ اللہ تعالیٰ نے اسے لی کو آن یو کی شکل میں دیا۔ لی کو آن سنگا پور کے وزیراعظم بنے اور اس شخص نے ان دلدلی زمینوں کا مقدر بدل کر رکھ دیا اور بیس سال بعد 42 بائی 23 کلو میٹر کی یہ اسٹیٹ دنیا کی کام یاب اور تیزی سے ترقی کرتی ریاست بن چکی تھی‘ اس میں امن بھی تھا‘ خوش حالی بھی‘ روزگار بھی‘ سرمایہ بھی اور مستقبل بھی‘ سنگا پور دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوام عالم کو بتایا‘ ملکوں کے لیے وسائل نہیں قوت ارادی ضروری ہوتی ہے۔

ملکوں کو آبادی‘ ہنر مندی‘ رقبہ اور تیل بھی درکار نہیں ہوتا‘ ان میں بس آگے بڑھنے کا ارادہ ہونا چاہیے‘ لی کو آن یو ایک پوری یونیورسٹی تھے‘ اس شخص نے دو دہائیوں میں پوری قوم بدل کر رکھ دی‘ کیسے؟ انھوں نے پانچ اہم کام کیے‘ وزیراعظم لی نے سب سے پہلے ملک میں امن قائم کر دیا‘ مذہب کو ذاتی مسئلہ بنا دیا‘ آپ مسلمان ہیں یا سکھ‘ عیسائی‘ بودھ یا ہندو کسی کو کوئی غرض نہیں‘ مسجد کے ساتھ چرچ‘ مندر اور ٹمپل بنا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کوئی شخص‘ کسی شخص کے مذہب کے بارے میں سوال نہیں اٹھائے گا اور ایک مذہب کا پیروکار دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں جا سکے گا اور اس پر کوئی اعتراض کرے گا اور نہ تبلیغ‘ قانون کی نظر میں سب کو برابر کر دیا۔ ملک میں کوئی کلاس کلچر نہیں تھا‘ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں تھی‘ سب برابر تھے اور ہیں‘ ملک میں ہر قسم کے احتجاج پر بھی پابندی لگا دی اور سڑکیں‘ گلیاں اور بازار ہر قیمت پر کھلے رہیں گے اور کوئی شخص کسی کے لیے سیکیورٹی رسک نہیں بنے گا‘ دو‘ لی کو آن یو نے چن چن کر اہل اور ایمان دار لوگ اہم عہدوں پر تعینات کر دیے اور انھیں کام کرنے کا بھرپور موقع دیا‘ لوگ آج بھی تیس تیس سال سے اپنے عہدوں پر بیٹھے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔

ایمان داری کا یہ عالم تھا لی کوآن یو کے ڈیڑھ درجن منسٹر اور بیوروکریٹس کرپشن کے الزام کے بعد خودکشی کر گئے‘ حکومت اہل لوگوں کو دوسرے ملکوں سے بھی بھرتی کر لیتی تھی‘ مجھے سابق صدر ممنون حسین نے ایک بار بتایا‘ میں 1999 میں گورنر سندھ تھا‘ لی کو آن یو دورے پر آئے‘ میں نے انھیں کھانے پر بلایا‘ دعوت کے دوران میں نے ان سے کہا‘ ہم کراچی پورٹ کو بھی سنگا پور پورٹ کی طرح ڈویلپ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ٹپ دیں‘ میری بات سن کر لی کو آن یو دیر تک ہنستے رہے اور پھر بولے‘ آپ کیپٹن سعید سے رابطہ کریں‘ یہ پاکستانی بھی ہیں اور کراچی کے شہری بھی ہیں‘ ہم نے ان کی مدد سے سنگاپور پورٹ ڈویلپ کی تھی‘ ممنون حسین یہ سن کر شرمندہ ہو گئے اور یہ دیر تک لی کو آن یو کی طرف دیکھتے رہے‘ تین‘ لی کو آن یو نے اپنا ملک پوری دنیا کے بزنس مینوں کے لیے کھول دیا‘ کوئی کہیں سے بھی آ سکتا تھا اور ملک میں کام کر سکتا تھا بس ایک شرط تھی‘ اس کے پاس پیسہ اور تجربہ ہونا چاہیے۔

مثلاً بھارت کے ایک مسلمان مشتاق احمد نے 1971 میں سنگاپور میں المصطفیٰ اسٹور بنایا‘ یہ اب ایک طویل کمپلیکس بن چکا ہے‘ مشتاق احمد نیک نیت بزنس مین ہے‘ منافع کم اور کوالٹی زیادہ پر یقین رکھتا ہے لہٰذا یہ اب تک کھرب پتی بن چکا ہے اور کسی نے آج تک اسے تنگ نہیں کیا اور یہ یہاں اکیلا نہیں ہے‘ ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں اور ہر شخص نے مشتاق احمدکی طرح ترقی بھی کی اور یہ دوسروں کے لیے روشن مثال بھی بنا‘ چار‘ لی کو آن یو نے تعلیم اور ہنر پر خصوصی توجہ دی‘ سنگا پور کے تعلیمی ادارے محض تعلیمی ادارے نہیں ہیں۔ یہ ہنر مند اور اہلیت کی لیبارٹریاں ہیں لہٰذا یہاں جہاں ایک طرف 96 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں وہاں یہ ہنر مند بھی ہیں‘ یہ خود بھی کما رہے ہیں اور ملک کو بھی کما کر دے رہے ہیں‘ لی کو آن یو نے پوری قوم کو تہذیب بھی سکھا دی‘ اس کا آغاز شخصی صفائی سے کیا گیا‘ لوگوں کو ٹوائلٹ استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا گیا‘ ملک میں مسلم شاور اور ٹوائلٹ پیپر لازمی قرار دے دیا‘ ہاتھوں کی صفائی کو قانون بنا دیا۔

تھوکنے پر پابندی لگا دی‘ سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آج بھی آپ اگر کسی سڑک یا عوامی جگہ پر تھوکتے‘ پان کی پیک گراتے یا ناک صاف کرتے پکڑے جائیں تو آپ سیدھے جیل جائیں گے لہٰذا آپ کو پورے ملک میں کوئی شخص گلا صاف کرتا یا تھو تھو کرتا دکھائی نہیں دے گا‘ آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے اس پابندی کے بعد اب سنگا پور کے لوگوں میں تھوکنے کی خواہش ہی ختم ہو گئی ہے۔ مزید لی کو آن یو کا خیال تھا سگریٹ‘ پان اور چیونگم گند پھیلاتے ہیں لہٰذا اس نے ان پر بھی پابندی لگا دی‘ سنگاپور میں سگریٹ بہت مہنگا ہے اور پینے کے لیے جگہیں بھی مختص ہیں اگرکوئی شخص ان کے علاوہ کسی جگہ ہاتھ میں ڈبی یا سگریٹ پکڑ کر کھڑا ہو تو اسے پولیس پکڑ لیتی ہے‘ چیونگم پر آج بھی پابندی ہے آپ ملک میں چیونگم لا بھی نہیں سکتے اور پانچ ‘ لی کو آن یو نے پورے ملک میں انفرااسٹرکچر بچھا دیا‘ سنگا پور میں ہائی ویز‘ میٹروز اور پل اس وقت بنے جب مشرق میں ان کا تصور بھی نہیں تھا‘ پورے ملک میں پینے کا صاف پانی حکومت سپلائی کرتی ہے‘ آپ کسی بھی ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں۔

میں نے آئی ایل او کی کانفرنس میں شرکت کی‘ کانفرنس میں 48 ممالک کے وفود آئے تھے لیکن کسی کے میز پر پانی کی بوتل نہیں تھی‘ پانی کے جگ تھے اور یہ جگ عملہ ٹونٹی سے بھر کر رکھتا تھا‘ ہوٹلوں کے اندر بھی ٹونٹیاں لگی ہیں‘ ائیرپورٹ کے بزنس لاؤنجز میں بھی پانی کی بوتلیں نہیں ہوتیں‘ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا تصور تک نہیں تاہم وسائل کی بچت ضرور کی جاتی ہے‘ فالتو لائیٹ اور جلتا ہوا چولہا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم پاکستانی مسلمان ہیں اور پاکستانی مسلمانوں کی یہ خاص نشانی ہے ہم مانتے نہیں ہیں‘ مشتاق احمد یوسفی نے پاکستانی مسلمانوں کے بارے میں تاریخی فقرہ کہا تھا‘ میں اس فقرے کو قابل ہضم بنانے کے لیے اس میں تھوڑی سی تحریف کر رہا ہوں‘ یوسفی صاحب نے لکھا‘ مجھ سے ایک عربی نے کہا‘ بھائی مسلمان ہم بھی ہیں لیکن آپ لوگ کچھ زیادہ ہی کھسک گئے ہیں (کھسک کی جگہ ایک تیزابی لفظ تھا)‘ یہ بات سو فیصد درست ہے۔

ہم لوگ حقیقتاً خوف ناک حد تک کھسکے ہوئے ہیں لہٰذا ہم نے اپنے ملک اور اپنی دونوں کی مت مار دی‘ میں اب تک 105 ملک پھر چکا ہوں‘ آپ یقین کریں مجھے کسی ملک میں پاکستان جتنا پاگل پن دکھائی نہیں دیا‘ مجھے کوئی قوم اپنے آپ کو اس طرح پھانسی دیتی اور اپنی ہی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹتی نظر نہیں آئی‘ آپ یقین کریں ہم تباہی اور خودکشی کی خوف ناک مثال ہیں‘ ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں اور بھکاری بھی ہیں‘ دنیا کی سب سے بڑی فوج کے مالک بھی ہیں اور ہم سے ملک بھی نہیں چل رہا اور ہم مسلمان بھی ہیں اور جعلی آب زم زم بھی بیچ رہے ہیں چناںچہ میں کھل کر عرض کر رہا ہوں‘ ہم نے اگر اب بریک نہ لگائی تو ہم سال بھی نہیں نکال سکیں گے۔ ہم من حیث القوم منافق ہیں‘ہم مذہبی طور پربھی منافق ہیں‘ ہم اللہ اور رسولؐ کا نام لے کر دوسروں کو قتل تک کر دیں گے لیکن رسولؐ اور اللہ کا کوئی بھی حکم نہیں مانیں گے لہٰذا میرا پہلا مشورہ ہے پلیز مذہب کو ذاتی مسئلہ بنا دیں‘ دوسروں کے عقائد پر اعتراض اور مذہبی تہواروں کے دوران سڑکیں بند کرنے پر پابندی لگا دیں اورلاؤڈ اسپیکر بین کر دیں‘ پورے ملک میں مصر‘ تیونس‘ مراکو اور ازبکستان کی طرح ایک وقت میں اذان اور نماز ہو‘ قرآن مجید ترجمے کے ساتھ شایع ہو‘ خطبہ حکومت جاری کرے۔

مساجد کوئی بھی بنائے لیکن یہ چلیں حکومت کی نگرانی میں اور عقائد کے بجائے عوام کو مسجد میں مذہب کے ثقافتی اور اخلاقی پہلو سکھائے جائیں‘ دوسرا مشورہ ملک کو ہر قسم کی تجارت‘ صنعت کاری اور سرمایہ کاری کے لیے کھول دیں‘ دوبئی‘ سنگا پور اور ترکی کی طرح دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو آنے دیں اور کام کرنے دیں‘ کسی سے رقم کے بارے میں نہ پوچھیں‘ یہ یاد رکھیں سیاحت دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے‘ آپ اس پر توجہ دیں‘ کراچی سے ایران کے بارڈر تک ڈیڑھ ہزار کلو میٹر کوسٹل لائین ہے۔ آپ یہ یورپی ملکوں کو دے دیں‘ یہ یہاں ٹیکس فری یورپی شہر بنائیں اور چلائیں‘ حکومت راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے اور چوتھا مشورہ مہربانی فرما کر ملک میں استحکام پیدا کریں‘ فوج تمام سیاست دانوں کو بٹھائے‘30 سال کا پلان بنائے اور اس کے بعد جو اس پلان کی خلاف ورزی کرے اسے پکڑ کر الٹا لٹکا دیں‘ یہ ملک اس کے بغیر نہیں چل سکے گا‘ ہمیں لی کو آن یو بننا پڑے گا۔

خدا کی پناہ 683 مربع کلو میٹر کے سنگاپور کے مالیاتی ذخائر اڑھائی سو بلین ڈالر ہیں اور ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی ایک ایک بلین ڈالر کے لیے کشکول لے کر پھر رہے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمیں آپس میں لڑنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی‘ ہم پاگل پن کے اس لیول پر چلے گئے جہاں انسان لذت لینے کے لیے خودکشی تک کر جاتا ہے چناں چہ خدا خوفی کریں اور آنکھیں کھولیں‘ ہم برباد ہو چکے ہیں۔

جاوید چوہدری

بشکریہ ایکسپریس نیوز

پیسا مینار، اپنی تعمیر کے فوراً بعد ہی جھکنا شروع ہو گیا

پیسا کا صحیح تلفظ اطالوی زبان میں ”پیزا‘‘ ہے۔ یہ وسطی اٹلی کا شہر ہے جو دریائے آرنو کے قریب واقع ہے۔ گیارہویں صدی کے آخر تک پیسا ایک طاقتور جمہوریہ بن چکا تھا۔ تیرہویں صدی عیسوی میں یہاں مجسمہ سازی کا ایک دبستان تھا جس کا بانی نیکولا پیزانو تھا۔ گیلیلیو گلیلی بھی اسی جگہ پیدا ہوا۔ پیسا مینار دنیا بھر میں پیسا کا ٹیڑھا یا خمیدہ مینار کہلاتا ہے۔ اس ٹیڑھے مینار نے پیسا شہر کو بڑی شہرت بخشی۔ 190 فٹ بلند یہ مینار جو عجائبات عالم میں شامل ہے اپنی تعمیر کے فوراً بعد ہی جھکنا شروع ہو گیا تھا۔ اب یہ عمود سے 14 فٹ ہٹا ہوا ہے۔ برطانیہ کی شاہی یادگاروں کی سوسائٹی کے ارکان ہر سال اس کے جھکائو کی پیمائش کرتے ہیں۔ ہر سال یہ مینار ایک انچ ضرور جھکتا ہے۔ اس مینار کی تعمیر کا مقصد کلیسا کے لئے گھنٹی گھر تھا تا کہ آواز سن کر لوگ عبادت کے لئے پہنچیں۔ اس کی تعمیر کا آغاز تو 1174ء میں ہوا تھا مگر تکمیل 1350ء میں ہوئی۔

اس کی جنوبی بنیاد ریت میں رکھی گئی اور ابھی بمشکل تین گیلریاں بنی تھیں کہ یہ مینار جھکنا شروع ہو گیا۔ پھر اس کی تعمیر کے منصوبے میں کچھ ردوبدل کیا گیا۔اسی چوک میں کلیسا بھی ہے۔ یہ دونوں عمارتیں رومن فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں ۔ قریب ہی قدیم قبرستان موجود تھا۔ اس قبرستان کے تقدس میں اضافے کے لئے یروشلم سے 35 جہازوں میں مٹی منگوائی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شہرہ آفاق یادگار ”نیم دراز ‘‘ ہو گئی تھی۔ پوری دنیا کے لوگ اس مینار کے گرنے کے منتظر تھے۔ ہزاروں سیاح اسے دیکھنے آتے تھے۔ تقریباً دس سال تک اس مینار پر انسانی قدم نہیں پڑے تھے۔ یہ صورتحال اٹلی کی حکومت کے لئے تکلیف دہ تھی۔ بالآخر انہوں نے اس مینار کو سیدھا کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ یادگار کم از کم 16 انچ سیدھی ہو جائے تاکہ اس کی وجہ شہرت یعنی اس کا مشہور ٹیڑھاپن بھی برقرار رہے اور اس کے زمین بوس ہو نے کا خطرہ بھی نہ رہے۔

اس مینار کو سیدھا کرنے کا کام پولینڈ کے ماہر تعمیرات اور انجینئر مائیکل سیموئیل کوسکی کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم کو سونپا گیا۔ ماہرین کی اس ٹیم نے مینار کے جھکائو کے مخالف سمت میں کھدائی کی۔ ٹیم نے 18 ماہ تک جانفشاتی سے کام کیا اور بالآخر کوششیں رنگ لائیں اور یہ مینار 12 سینٹی میٹر تک سیدھا ہو گیا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ گزشتہ 800 سال سے اس شاندار مینار کو سیدھا کرنے کی کوشش ناکام ہو رہی تھی مگر جذبوں کے آگے اس مینار نے اپنی ضد چھوڑ دی اور سیدھا ہونے پر آمادہ ہو گیا۔ مینار کو سیدھا کرنے میں اور اس کا جھکاو کم کرنے میں تقریبا 26 ملین ڈالر کی لاگت آئی۔ مینار کو سیدھا کرنے کی کوششیں جزوی طور پر بار آور ثابت ہوئیں تو حکومت نے اعلان کیا کہ یہ مینار پہلے مرحلے پر بچوں کے لئے کھول دیا جائے، دنیا بھر کے لوگوں کو شدت سے انتظار تھا کہ یہ کھولا جائے۔

ان کا یہ انتظار رنگ لایا اور 17 جون 2000ء کو روم یونیورسٹی کے 200 طلباء نے مینار کی 293 سیڑھیاں چڑھ کر اس کی مضبوطی اور استحکام کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ پیسا کا علاقہ سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے۔ جن دنوں پیسا رومن کالونی تھا اُن دنوں کے کھنڈرات باقی ہیں۔ ان کھنڈرات کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اس شہر کی تاریخی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب گیارہویں صدی عیسوی میں اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ 1284ء میں میلور کے پرے بحری لڑائی میں شکست کے بعد اس کی اہمیت کم ہو گئی۔ 1406ء میں فلورنس نے اسے فتح کر لیا ۔1859ء میں پیسا اٹلی کا حصہ بن گیا۔

مزمل حسین عابر

بشکریہ دنیا نیوز

کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم کی سیاحت کیسے کریں ؟

سیر و سیاحت کے فوائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اور سیاحت میں جو لطف مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں نے دیا ہے اس کا اپنا ہی لطف ہے۔ آج کل کی مصروف ترین زندگی میں ہر انسان کو سیاحت کیلئے سال میں کم از کم ایک ہفتہ ضرور نکالنا چاہیے۔ اور دنیا بھر میں بکھرے ہوئے قدرت کے شاہکاروں سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ مگر دنیا گھومنے سے پہلے اپنے پیارے پاکستان کی سیر و سیاحت کو پہلی ترجیح دیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیسے کیسے حسین قدرتی مناظر ہمارے ملک کو دیے ہیں آپ دیکھ کر دھنگ رہ جائیں گے۔ یہاں سمندر، پہاڑ، ریگستان، میدان، دریا، چشمے، آبشاریں کیا کچھ نہیں دیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے۔ نیلم ویلی آزاد کشمیر کی خوبصورت ترین وادی ہے۔ طالب علمی کے دور میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے توست سے مجھے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلی مرتبہ 92-1991ء میں اس حسین وادی کے نظاروں کا موقع دیا۔ آج تک اس سفر کا سحر تاری ہے۔ ان دنوں بھارتی فوجی اکثر و بیشتر راہ گیروں پر فائرنگ کر کے اپنی دھشت بٹھانے کی ناکام کوشش کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے مسافر رات کے اندھیرے میں اپنی گاڑیوں کی لائٹس بجھا کر کچھ علاقے عبور کرتے تھے۔

رات کے اندھیرے میں اٹھمقام سے شاردہ جاتے ہوئے ہماری گاڑی پر بھی انڈین آرمی نے فائرنگ کر دی۔ جس سے میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا مسافر، جو پاک فوج کا جوان تھا اور ڈیوٹی پر جا رہا تھا شہید ہو گیا۔ اس شہید کا گرم گرم لہو میرے اوپر گرا ، جس کی گرمیش و خوشبو آج تک قائم ہے۔ جو آج بھی مجھے احساس دلاتا ہے کہ پاک فوج کے جوان، پاک دھرتی کی حفاظت کیلئے کس طرح اپنی جانوں کی قربانی دے کر ہمارا سکون و امن قائم رکھے ہوئے ہیں اور دشمن کے ناپاک ارادوں کو زمین بوس کر رہے ہیں۔ ڈرائیور کی دلیرانہ ڈرائیونگ کی وجہ سے مجھ سمیت باقی سب مسافر محفوظ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ واپسی کا سفر بھی بڑا دلچسپ رہا کیونکہ ہمارے شاردہ میں پڑاؤ کے دوران ہی طوفانی بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس سے دریا بپھر گئے اور تمام پل بہا کر لے گئے۔ سلائڈنگ کی وجہ سے بیشتر جگہوں سے سڑک دریا برد ہو گئی۔

گاڑیوں کے لیے راستے بند ہو گئے۔ راقم نے راولپنڈی جمعیت کے ساتھی عبدالرحیم بھائی کے ساتھ شاردہ سے مظفرآباد تک پیدل ہی سفر کا آغاز کیا فجر سے مغرب تک پیدل تقریبآ پندرہ سے بیس کلومیٹر کا سفر طے کرتے رات کسی مسافر خانے یا سڑک کے کنارے سو جاتے صبح پھر چل پڑتے۔ یاد گار سفر تھا تقریباً پچہتر فیصد سفر پیدل اور پچیس فیصد سفر جیپوں پر طے کر کے بالآخر مظفرآباد پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ جس جگہ ہم پر جاتے ہوئے انڈین آرمی نے فائرنگ کی، واپسی پر پیدل وہاں سے گزرتے ہوئے دن کی روشنی میں بھارتی مورچوں کے سامنے ٹھیک اس جگہ نماز پڑھی جس کا بھی اپنا ہی لطف تھا۔ کچھ عرصہ بعد شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والا میرا جگری دوست و شاگرد ریاض ناصر وٹو بھی اٹھمقام میں بھارتی گولہ باری سے شہید ہو گیا۔ نا جانے اور کتنے معصوم لوگ اس وادی میں انڈین آرمی کے ہاتھوں شہید ہوئے ہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی شہادتوں کو قبول فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھی بھارتی درندگی سے نجات دلانے۔

بہر حال انہیں شہادتوں کے نتیجہ میں آج نیلم ویلی میں کوئی خوف خطرہ نہیں پچھلے سال میرا بیٹا مصعب بن ناصر اپنے دوستوں کے ہمراہ شاردہ کیل وغیرہ کی سیر کر کے آیا ہے۔ اب گزشتہ کئی سالوں سے سیاح قدرت کے اس حسین شاہکار کا نظارہ کر رہے ہیں ۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما شبیر شہید و سردار ذوالفقار المعروف منشی کے آباؤ اجداد کے اس حسین علاقہ، خطہ زمین پر قدرت کی اس حسین وادی نیلم کی سیر و سیاحت کے خواہشمند لوگوں کی رہنمائی کے لئے بہت ہی پیارے دوست زاہد السلام بھائ نے کیا خوب رہنمائی فرمائی ہے، انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ وہ لکھتے ہیں۔ نیلم ویلی آزاد کشمیر کی سیاحت کا ارادہ رکھنے والے سیاح حضرات کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کے کسی بھی شہر سے نیلم ویلی آنے کے لیے اسلام آباد سے پراستہ ایکسپریس ہائی وے مری سے ہوتے ہوئے آئیں۔

ایکسپریس ہائی وے کے اختتام پر بائٰیں جانب مری روڈ کے زریعے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کا سفر جاری رکھیں۔ (ہزارہ سے آنے والے معزز مہمان ایبٹ آباد مانسہرہ روڈ کا استعمال بھی کر سکتے ہیں)۔ اسلام آباد سے تقریباً 2 گھنٹے کے فاصلے پر نیلم ویو پوائنٹ کے نام سے دریا ئے جہلم کے کنارے مری والوں نے سیاحوں کو نیلم ویلی کا دھوکہ دینے کے لیے ایک کاروباری مرکز کھول رکھا ہے جس کا آزاد کشمیر یا نیلم ویلی سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یاد رکھیں یہ جگہ آزاد کشمیر یا نیلم ویلی قطعاً نہٰیں ہے لہٰذا دھوکہ کھانے سے بچیں۔ اسی مقام کے پاس کوہالہ پل کراس کرنے کے بعد آزاد کشمیر کی ریاست کا آغاز ہوتا ہے۔ کوہالہ سے تقریباً ایک گھنٹہ کے فاصلے پر مظفرآباد شہر واقع ہے۔ سیاح حضرات اپنے وقت کے حساب سے فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے رات مظفرآباد میں قیام کرنا ہے یا نیلم ویلی کی طرف نکلنا ہے۔ عموماً رات کے وقت نیلم ویلی کا سفر سیاحوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔

اگر آپ شام کے وقت مظفرآباد پہنچے ہیں تو رات مظفرآباد میں قیام کیجئے۔ مظفرآباد شہر میں 500 روپے فی کمرہ سے لے کر پی سی ہوٹل تک ہر معیار کے ہوٹلز موجود ہیں۔ اگر آپ دن کے وقت مظفرآباد پہنچے ہیں اور آپ کا ارادہ آگے بڑھنے کا ہے تو مظفرآباد شہر کی مرکزی شاہراہ یا براستہ نلوچھی گوجرہ بائی پاس روڈ چہلہ بانڈی کی طرف نکل جائیں ۔ چہلہ بانڈی سے نکل کر آپکا نیلم ویلی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ چہلہ بانڈی سے تقریباً 4 گھنٹے کے فاصلے پر اٹھمقام کے مقام پر متعدد گیسٹ ہا ؤسز سیاحوں کی رہائش کے لیے موجود ہیں۔ رات کا قیام اٹھمقام میں کیجئے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہے یا اٹھمقام میں رہائش کے لیے جگہہ موجود نہیں تو آپ اٹھمقام سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر وادئ کیرن کے مقام پر بھی قیام کر سکتے ہیں۔ رات کے قیام کے بعد اگلی صبح ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد اگر آپکا ارادہ رتی گلی جھیل کا ہے تو کیرن سے تقریباً 45 منٹ کے فاصلے پر دواریاں گاؤں سے ایک لنک روڈ رتی گلی جھیل کی طرف جاتی ہے۔

اگر آپ کے پاس اپنی 4WD گاڑی نہیں ہے تو دواریاں سے جیپ کرائے پر لے لیں جو تقریباً 7 سے 8 ہزار روپے میں مل جاتی ہے۔ اگر آپکا پیدل ٹریکنگ کا ارادہ ہے تو اپنے ساتھ انسٹنٹ انرجی فوڈز جیسے انرجی بسکٹ، انسٹنٹ پاؤدر جوسز ، دودھ وغیرہ لازمی رکھٰیں۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر کی سوغات کلچہ بھی کافی کار آمد رہتا ہے۔ اگر آپ کے پاس اپنی 4WD گاڑی ہے تو بھی کوشش کریں کہ دواریاں سے کسی مقامی ڈرائیور کو ساتھ رکھ لیں جو مناسب دیہاڑی پر مل جائے گا۔ رتی گلی روڈ پر نا تجربہ کار حضرات خود ڈرائیونگ سے گریز کریں۔ دواریاں سے رتی گلی روڈ جہاں تک گاڑیاں جا سکتی ہیں تقریباً 12 کلومیٹر پر مشتمل ہے اور یہ 12 کلو میٹر کا فاصلہ تقریباً 2 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ وہاں سے آگے تقریباً 2 گھنٹے کی پیدل ٹریکنگ کے بعد رتی گلی بیس کیمپ پر رات کا قیام کریں جہاں آپ اپنے ٹینٹ بھی لگا سکتے ہیں اور بصورت دیگر بیس کیمپ میں مناسب کرائے پر بھی ٹینٹ دستیاب ہوتے ہیں۔

رتی گلی بیس کیمپ میں رات کے قیام کے بعد صبح بیس کیمپ سے رتی گلی جھیل کی طرف پیدل ٹریکنگ کریں ۔ بیس کیمپ سے رتی گلی جھیل تقیباً 40 منٹ کے فاصلے پر ہے۔ اپنی زندگی کا حسین ترین دن رتی گلی جھیل پر گزار کر دن کو موسم کی صورتحال کا اندازہ کرنے کے بعد تقریباً 2 بجے واپس بیس کیمپ پہنچ کر واپس دواریاں کا سفر شروع کر دیجیے۔ شام کے تقریباً 7 بجے دواریاں پہنچ کر شاردہ کے لیے نکل جایئے۔ دواریاں سے شاردہ کا فاصلہ تقریباً 2.5 گھنٹے کا ہے۔ یاد رکھیں دواریاں سے آگے سڑک کی صورتحال زیادہ اچھی نہیں لہٰذا محتاط ڈرائیونگ کیجیئے۔ رات کا قیام شاردہ میں کیجیئے جہاں بہت سے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز موجود ہیں۔ اگر آپ کا آگے جانے کا ارادہ ہے تو انتہائی محتاط ڈرائیونگ کرتے ہوئے آپ شاردہ سے تقریباً 2.5 گھنٹے کے بعد کیل پہنچ جائیں گے۔ رات کیل میں قیام کے بعد اگلی صبح کیل سے بذریعہ چیئر لفٹ یا پیدل ٹریکنگ اڑنگ کیل کی خوبصورت وادی کا نظارہ کیجئے۔

شام کے تقریباً 3 بجے کیل واپس آکر کیل سے بذریعہ جیپ یا زاتی 4WD گاڑی تاؤ بٹ نکل جایئے۔ کیل سے تاؤبٹ کا فاصلہ تقریباً 40 کلومیٹر ہے جو تقریباً 4 گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔ رات تاؤبٹ میں قیام کے بعد اگلی صبح تاؤبٹ کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کے بعد اگر آپکا ارادہ واپسی کا ہے تو دن کو تقریباً 2 نجے واپس کیل کی جانب نکل آئیں۔ تقریباً 8 گھنٹے کی مسلسل مگر محتاط ڈرائیو کے بعد آپ واپس اٹھمقام پہنچ جائیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ رات اٹھمقام میں قیام کیجیئے کیونکہ نیلم ویلی پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں نیند کی حالت میں مسلسل ڈرائیو کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ رات اٹھمقام میں قیام کے بعد آپ اگلی صبح آرام سے مظفرآباد واپسی کا سفر کیجیے۔ نیلم ویلی آتے وقت اپنے ساتھ اپنی ضرورت کے مطابق گرم شالیں، کمبل، گرم کپڑے، کوٹ، ٹوپیاں، دستانے اور جرابیں ضرور رکھیں۔ اس کے علاوہ چونکہ نیلم ویلی میں ہسپتال وغیرہ تک جلدی پہنچنا ممکن نہیں ہے اس لیے اپنے ساتھ ایمرجنسی میڈیکیشنز جیسے بخار، زکام، دست، الٹی، قبض وغیرہ کی ادویات اور پٹیاں ، پا ئیوڈین بھی ساتھ رکھیں۔

اس کے علاوہ رتی گلی سطح سمندر سے انتہائی بلندی پر واقع ہے لہٰذا اپنی جلد کو الٹرا وائیلٹ شعاؤں سے بچانے کے لیے اچھے معیار کی سن بلاک کریمز کا استعمال بھی ضرور کیجیئے۔ آزاد کشمیر میں بہنے والے دریاؤں کی موجیں انتہائی طاقتور اور خطرناک ہوتی ہیں لہٰذا دریاؤں، ندی نالون میں اترنے سے گریز کیجیئے۔ ایک سیلفی یا کسی بھی نالے یا لکڑی کے پل پر ایک تصویر کا شوق آپ کی جان لے سکتا ہے۔ اپنی اور اپنے پیاروں کی جان کی حفاظت کیجیے۔اس کے علاوہ 4WD گاڑی کے علاوہ کوئی بھی گاڑی کچی یا سولنگ والی سڑکوں پر لے جانے کی کوشش مت کیجیئے کیونکہ یہ آپکی جان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ براہ مہربانی کسی بھی علاقے کی سیر کے دوران اس علاقے کے قدرتی حسن کا خیال کیجیے اور اپنے ساتھ لائی ہوئی کھانے پینے کی اشیا کو وہاں پھینکنے کے بجائے کسی شاپنگ بیگ میں رکھ کر اپنے ساتھ واپس لے جایئے اور اپنے ذمہ دار اور با شعور شہری ہونے کا ثبوت دیجیئے۔ اس کے علاوہ کسی بھی علاقے کی سیر کے دوران وہاں کے مقامی لوگوں کی عزت اور پرائیویسی کا خیال رکھیئے اور بغیر اجازت کسی گھر یا عورت کی تصویر نہ بنائیے کہ یہ آپ کے لیئے جھگڑے اور بدمزگی کا سبب بن سکتا ہے۔

تمام معزز مہمانوں کو دل کی گہرائیوں سے نیلم ویلی میں خوش آمدید۔

شکریہ

کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم کے بارے میں یہ معلوماتی مضمون فیس بک سے لیا گیا ہے۔

وینس : پانی کی سڑکوں پر چلتی بسوں کا شہر

دنیا میں بہت سارے شہر اپنے اوصاف کی نسبت سے مختلف ناموں سے مشہور ہو جاتے ہیں جیسے کراچی روشنیوں کا شہر، پشاور پھولوں کا شہر لاہور باغات کا شہر وغیرہ وغیرہ، لیکن اٹلی میں ایک ایسا شہر عرصہ دراز سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جسکی پہچان ایک نہیں کئی ناموں سے ہے ، مثلاً ” اس شہر کو پانیوں کا شہر، پلوں کا شہر، روشنیوں کا شہر، تیرتا شہر نہروں کا شہر ،ایڈریاٹک کی ملکہ وغیرہ ۔ اٹلی کے شمالی حصے میں واقعہ اس شہر کو سیاحوں نے ” سیاحت کے ماتھے کا جھومر ‘‘ کا نام بھی دے رکھا ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی اور اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اقوام متحدہ نے اس پورے شہر اور اس کی سمندری کھاڑی کو ” عالمی ورثہ‘‘ قرار دیا ہوا ہے۔ جی ہاں سیاحت کی دنیا کا یہ منفرد اور پر کشش شہر اٹلی کا وینس ہے۔ وینس کا نام اس کے قدیم ” وینیٹی‘‘ باشندوں کی نسبت سے اخذ کیا گیا تھا۔

جو دسویں صدی قبل از مسیح میں وہاں پر آباد تھے۔ تاریخی طور پر یہ شہر ریاست وینس کا صدر مقام ہوا کرتا تھا جسے صوبے کا درجہ حاصل تھا جس کے زیر انتظام 44 قصبے ہوا کرتے تھے۔ ریاست وینس زمانہ وسطی کی ایک بڑی بحری طاقت تھی اور ان علاقوں میں سے ایک تھی جہاں سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تھا۔ یہ اپنے زمانے کا ایک اہم تجارتی مرکز بھی تھا۔ جہاں ریشم ، اناج، مصالحہ جات وغیرہ کی تجارت ہوتی تھی۔ تیرہویں سے سترہویں صدی تک یہ آرٹ کے اہم مراکز میں بھی شمار کیا جاتا تھا۔ یہ اٹلی کا مردم خیز خطہ بھی تھا جس نے کئی نامور شخصیات کو جنم دیا۔ اگرچہ اس شہر کے وجود اور تاریخ بارے کوئی حتمی شواہد تو سامنے نہیں آئے تاہم مؤرخین علاقائی روایات اور دستیاب شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ رومی سلطنت پر بربریوں کے حملوں کے باعث پاڈو ، ایکو یلیا ، ٹریو لیو ،الٹینو اور کونکو رڈیا نامی شہروں کے لوگ نقل مکانی کر کے یہاں آ کر آباد ہوتے رہے۔ وینس نہروں کے منفرد جال اور بے شمار پلوں کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ وینس شہر 118 جزیروں کے جزیرہ نما پر مشتمل ہے جسے 150 نہریں جدا کرتی ہیں۔ جن جزیروں پر وینس آباد ہے اس کو کم وبیش 400 پلوں کے ذریعے آپس میں ملا دیا گیا ہے۔

ذرائع آمدورفت کی سہولیات
پرانے شہر میں نہریں ہی یہاں کی سڑکوں کا کام سرانجام دیتی ہیں کیونکہ ہر قسم کی آمدورفت پانی کے ذریعے یا پیدل ممکن ہے۔ جبکہ انیسویں صدی میں شہر کے دوسرے حصے کو ریل گاڑی کے ذریعے اٹلی کے دیگر شہروں تک رسائی دے دی گئی تھی جس سے ملک کے دیگر حصوں سے لوگ بشمول سیاحوں کے باآسانی وینس تک آ سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وینس میں ریلوے سٹیشن بھی قائم کر دیا گیا تھا۔ جبکہ بیسویں صدی میں بذریعہ سڑک آمدورفت کا آغاز بھی کر دیا گیا تھا۔ اور اس شہر تک سڑک اور پارکنگ کی سہولت بھی مہیا کر دی گئی۔ چونکہ وینس میں سال بھر دنیا کے کونے کونے سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس لئے سیاحوں کی آسانی کیلئے وینس کی معروف شخصیت مارکوپولو کے نام سے منسوب ایک ائیر پورٹ بھی وینس کے ساحل سے تھوڑے فاصلے پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں سے صرف 7 منٹ میں مسافروں کو واٹر بسوں کے ذریعے ہوائی اڈے تک پہنچا یا جا سکتا ہے۔ مارکو پولو ائیر پورٹ جدید سہولیات سے آراستہ اٹلی کے تین مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔

جبکہ شہر میں شمال سے داخلے کیلئے خشکی کے ان راستوں کے علاوہ باقی شہر میں ذرائع آمدورفت قدیم روائتی طرز کے مطابق ہے جو پانی کے ذریعے یا پیدل ہے۔ وینس دنیا کا واحد یورپی شہر ہے جو ” کار فری ‘‘(بغیر کار یا گاڑیوں والا) علاقہ ہے۔ کیونکہ آمدورفت محض روائتی کشتیوں کے ذریعے جسے مقامی طور پر ” گوندولا ‘‘ کہتے ہیں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ سیاحت ہو یا شادی بیاہ کی تقاریب آمدورفت کیلئے گوندولا ہی استعمال ہوتی ہے۔ جبکہ عمومی آمدورفت اب موٹر سے چلنے والی واٹر بسوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ جنہیں مقامی طور پر ” واپو ریتو ‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ بسیں شہر کی نہروں پر ایسے چلتی نظر آتی ہیں اور سہولیات مہیا کر رہی ہوتی ہیں جیسے بڑے شہروں میں عام بسیں چلتی ہیں۔ جبکہ پیدل چلنے والوں کیلئے پلوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔ جن کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا آسان ہے۔

وینس کے تفریحی مقامات
زٹیرا : وینس کے علاقے ڈورس ڈورو میں خاموش ، پرسکون اور قدرتی حسن سے مالامال تفریحی جگہ زٹیرا سیاحوں کی کشش کے سبب ہمیشہ سے انکی ترجیحات میں رہتی ہے۔

کاڈی اورو: یہ منفرد طرز کی ایک پر کشش عمارت ہے جو گرینڈ کینال کے ساتھ واقع ہے۔ اس کے لغوی معنی مقامی زبان کے مطابق ”سونے کا گھر‘‘ کے ہیں۔ یہ عمارت پندھرویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔

لیڈو: وینس کی کھاڑی میں واقع ایک طویل اور تنگ جزیرہ بھی ہر وقت سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔

آرسینالے: اپنے زمانہ عروج میں یہ دنیا کا سب سے بڑا بحری اڈہ جو ہر لمحہ مصروف رہتا تھا اب بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکزبنا رہتا ہے۔

سینٹ مارکس اسکوائر: یہ ایک چوک ہے جس کے اطراف میں زمانہ قدیم کی شاندار عمارتیں واقع ہیں جن کو دیکھ کر وینس کی قدیم سلطنت کی شان و شوکت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے مشہور چوراہا ہے۔

برج آف سائے: یہ ایک منفرد طرز کا پل ہے جو مکمل طور پر اوپر کی طرف سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہ پل دراصل ڈاگس پیلس اور ریو ڈی پلازو کو آپس میں ملاتا ہے۔

ریالٹو برج: اس پل کی تعمیر سے پہلے سان مارکو اور سان پولو کے اضلاع کے درمیان رابطے کا فقدان تھا چنانچہ اس کی تعمیر کا مقصد ان دونوں علاقوں کو ملانا تھا۔ اسکی تعمیر سولہویں صدی میں کی گئی۔

بورانو کا جزیرہ : یہ خوبصورت اور پر کشش جزیرہ دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر واقع چھوٹے چھوٹے بے شمار مختلف رنگوں سے مزین گھر سیاحوں کا دیکھتے ہی دل موہ لیتے ہیں۔ بورانو تک پہنچنے کیلئے سینٹ مارکس سکوائر سے واٹر بس کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔

سینٹ مارکس کمپانائل: یہ ایک قدیم گھنٹہ گھر ہے جو سینٹ مارکس کمپا نا ئل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وینس کا بلند ترین گھنٹہ گھر اور مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ 1902 میں اس کی عمارت تباہ ہو گئی تھی جبکہ 2008 میں اس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔

ڈاگس پیلس:یہ خوبصورت محل ایک زمانے میں وینس کی حکمرانی کا مرکز تھا۔ڈاگس نے ایک طویل عرصے وینس کی سلطنت پر حکمرانی کی۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

بھارتی مظاہرے : سیاحوں کی تعداد میں 60 فیصد کمی

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری ملک گیر مظاہروں سے بھارت کی سیاحت صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور محبت کی نشانی تاج محل کا دیدار کرنے والوں کی بھی تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔ دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک آگرہ میں تاج محل کو دیکھنے کے خواہش مند دو لاکھ سے زائد گھریلو اور غیرملکی سیاحوں نے صرف گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اپنی آمد منسوخ یا ملتوی کر دی۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی طر ف سے منظور کردہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ مظاہروں کے دوران اب تک کم از کم پچیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں صرف بیس ریاست اترپردیش میں ہلاک ہوئے ہیں جہاں آگرہ اور تاج محل واقع ہے۔ مظاہروں کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبوں پر برا اثر پڑ رہا ہے۔

مظاہروں پر قابو پانے کی حکمت عملی کے تحت انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے کے حکومتی اقدام کے منفی اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کا سب سے بُرا اثرصنعت و تجارت پر پڑا ہے جس میں سیاحت بھی شامل ہے۔ مودی حکومت کے خلاف جاری مظاہروں کے مدنظر امریکا، برطانیہ، روس، اسرائیل، سنگاپور، کینیڈا اور تائیوان نے اپنے شہریوں کو ‘ٹریول وارننگ‘ جاری کرتے ہوئے صرف مجبوری کی صورت میں بھارت جانے یا پھر سخت حفاظتی احتیاط برتنے کا مشور ہ دیا ہے۔ اپنا 20 روزہ دورہ درمیان میں ہی ختم کر کے لندن واپس جانے وانے والے یورپی سیاحوں کے گروپ میں شامل ریٹائرڈ بینکر ڈیو ملیکین کے مطابق، ”ہم ریٹائرڈ لوگ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سفر آرام دہ رہے اور وقت سکون سے گذرے۔ لیکن اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں نے ہمیں تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور ہم جلد ہی وطن واپس لوٹنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔

سیاحوں کی تعداد میں 60 فیصد کمی
تاج محل کے پاس واقع اسپیشل ٹورسٹ پولیس اسٹیشن کے پولیس انسپکٹر دنیش کمار کے مطابق، ”گزشتہ برس کے مقابلے اس برس دسمبر میں سیاحوں کی تعداد میں ساٹھ فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ بھارتی اور غیر ملکی سیاح یہاں کی صورت حال کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں مسلسل فون کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہم انہیں تحفظ فراہم کرنے کی مکمل یقین دہانی کراتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں نے نہ آنے کا فیصلہ کیا ہے۔” خیال رہے کہ ہر سال 65 لاکھ سے زائد سیاح تاج محل دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور صرف داخلہ فیس سے ہی حکومت کو چودہ ملین ڈالر سالانہ کی آمدنی ہوتی ہے۔ آگرہ میں ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ چھٹیوں کے اس سیزن میں سیاحوں کی طرف سے آخری منٹ میں بکنگ منسوخ کیے جانے سے انہیں کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ صورت حال اس لیے اور بھی تشویش ناک ہے کہ بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح گھٹ کر 4.5 فیصد رہ گئی ہے جو گزشتہ چھ برسوں میں کم ترین شرح ہے۔

موبائل انٹرنیٹ سروس معطل
حکومت مخالف مظاہروں کے دوران تشدد اور ہنگاموں پر قابو پانے کے لیے مقامی انتظامیہ نے صرف اترپردیش میں ہی آگرہ سمیت بیس اضلاع میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کر دی تھی۔ لیکن اس کی وجہ سے سیاحت انڈسٹری بری طرح متاثر ہوئی۔ ڈھائی سو سے زیادہ ٹور آپریٹروں کی تنظیم آگرہ ٹورزم ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے صدر سندیپ اروڑا کا کہنا تھا، ”انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے آگرہ میں سفر اور سیاحت میں پچاس سے ساٹھ فیصد تک کمی آگئی ہے۔” سیاحوں کی آمد میں کمی کا معاملہ صرف تاج محل تک ہی محدود نہیں ہے۔ آسام میں جہاں قدرتی ماحول میں رہنے والے گینڈوں کو دیکھنے کے لیے دسمبر میں ہر سال پانچ لاکھ سے زیادہ سیاح آتے ہیں، اس مرتبہ ان کی تعداد 90 فیصد کم ہو گئی ہے۔

دارالحکومت نئی دہلی میں سواگتم ٹریولز کے ڈائریکٹر آر پرتیبھن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے اس کی وجہ سے سیاحوں کی تعداد میں کمی یقینی ہے۔ کوئی بھی شخص غیر یقینی صورت حال میں گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ غیرملکی سیاحوں میں بھارت کا تمام مذاہب کا احترام کرنے والے ملک کے طور پر، جو امیج تھا وہ ختم ہو رہا ہے۔ پچاس برس سے زیادہ عمر والے غیر ملکی سیاح بھارت کوایک ثقافتی مرکز کے طور پر دیکھتے ہیں، وہ بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں لیکن موجودہ حالات کی وجہ سے وہ کوئی خطرہ نہیں اٹھانا چاہتے۔” نئی دہلی ہوٹل فیڈریشن کے صدر ارون گپتا کے مطابق رواں برس دسمبر میں گزشتہ برس کے مقابلے میں دہلی آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد تیس فیصد کم ہو گئی ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

نمل جھیل : 1913ء میں انگریزوں کے عہد میں بنائی گئی

نمل ڈیم کے ساتھ وادیٔ نمل کے ایک کونے میں واقع نمل جھیل میانوالی، خوشاب، تلہ گنگ، چکوال اور دیگر ملحقہ شہروں کے لیے تفریح گاہ ہے۔ پہاڑیوں کے دامن میں واقع یہ جھیل 1913ء میں انگریزوں کے عہد میں بنائی گئی تھی۔ میانوالی سے تقریباً 32 کلومیٹر کی مسافت پر واقع یہ جھیل ساڑھے پانچ مربع کلومیٹر کے لگ بھگ رقبے پر مشتمل ہے۔ اس کے مغرب اور جنوب میں پہاڑ ہیں جبکہ شمال اور مشرق میں زرعی علاقہ ہے۔ پہاڑوں سے چشموں اور برساتی نالوں کا پانی اس جھیل میں آتا ہے۔ جھیل زرعی اراضی کو سیراب کرنے کا بھی باعث ہے۔ نمل جھیل میں ایک مچھلی گھر بھی بنایا گیا ہے، یہاں مچھلیوں کا قابل ذکر ذخیرہ موجود ہے۔ لوگ یہاں پر مچھلیاں پکڑتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔

معروف آزاد