گزر آیا میں چل کے خود پر سے

جو مطمئن ضمیر ہے، وہ تو خیر ہے ہی مطمئن۔ مگر جو ضمیر پھانس بن کے دل میں ٹیسیں اٹھاتا رہتا ہے، اس سے نپٹنے کا ایک طریقہ تو یہی ہے کہ اسے ادھر ادھر کی کہانیاں سنا کے تھپک تھپک کے سلا دیا جائے اور اس خود فریبی میں رہا جائے کہ جو کچھ بھی مجھ سے یا ہم سے سرزد ہوا اس کا قصور وار تنہا میں ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سامنے والا اپنی غلطی تسلیم کرے نہ کرے آپ سچائی کے ساتھ اپنی وہ غلطیاں، جن کا سامنا آپ خود بھی کرنے سے جھجک رہے ہیں، دل بڑا کر کے تسلیم کر لیں اور اس کانٹے کو ہمیشہ اپنے ذہن سے نکال کے مطمئن ہو کر آگے بڑھ جائیں۔ مگر ہم میں سے اکثر زندگی بھر اس پلِ صراط سے گزرنے کے بارے میں یہ سوچ سوچ کے ڈرتے رہتے ہیں کہ جانے دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچے۔ حالانکہ دنیا آپ کے بارے میں آپ سے پوچھے بغیر پہلے ہی سے کوئی نہ کوئی رائے قائم کر چکی ہوتی ہے۔ غلطی کا اعتراف کرنے سے اس رائے میں تبدیلی بہت کم آتی ہے۔ دنیا آپ کے عمل کی روشنی میں اپنی رائے بناتی ہے۔

لیکن جب آپ اپنی کسی انفرادی یا اجتماعی غلطی یا لغزش کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں تو دنیا کے سامنے آپ کا قد بڑھے نہ بڑھے اپنی نگاہوں میں آپ مزید چھوٹے ہونے کی ازیت سے ضرور نجات پا لیتے ہیں۔ بصورتِ دیگر آپ زندگی بھر خود کو صفائیاں پیش کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً جرمنی میں سن 1930 اور سن 1940 کے عشرے میں جو کچھ بھی ہوا۔ جنگِ عظیم کے بعد کا جرمنی چاہتا تو اس کی ہزار تاویلیں پیش کر سکتا تھا۔ مگر جرمنوں نے اس تھکا دینے والی سعیِ لاحاصل میں پڑنے کے بجائے اعتراف کر کے قومی ضمیر بچا لیا اور پھر ہمہ تن تعمیرِ نو کے ضروری کام میں مصروف ہو گئے۔ جاپانیوں نے بیسویں صدی کے چوتھے عشرے تک کوریا اور شمالی چین پر قبضے کے دوران جو کچھ کیا، اس پر بعد میں آنے والی چند جاپانی حکومتوں نے تھوڑے بہت تاسف کا اظہار تو کیا مگر کھل کے زیادتیوں کا اعتراف نہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک چین اور کوریا کی قومی نفسیات میں جاپان پھانس کی طرح چبا ہوا ہے۔

جاپان کے ان دونوں ممالک سے اقتصادی و سفارتی تعلقات بظاہر معمول کے مطابق ہیں مگر شیشے کی ایک دیوار بھی حائل ہے۔ وہ الگ بات کہ جاپان خود بھی دوسری عالمی جنگ میں تباہ ہو گیا اور جاپان بھی امریکہ سے اسی طرح معافی کا منتظر ہے جس طرح کوریا اور چین جاپانی معافی کے انتظار میں ہیں۔ یہی حالت فرانس کی بھی ہے جس نے الجزائر میں لگ بھگ ڈیڑھ سو سالہ نوآبادیاتی دور اور بالخصوص پچاس کے عشرے میں جو کچھ بھی کیا۔ اس کے ساٹھ برس بعد آج اگرچہ الجزائر اور فرانس کے درمیان بظاہر کوئی خاص کشیدگی نہیں، پھر بھی کسی نہ کسی موقع پر فرانس کی نوآبادیاتی زیادتیوں کا سوال دو طرفہ تعلقات کے پانیوں میں پھولی ہوئی لاش کی طرح بار بار ابھرتا رہتا ہے۔ برطانیہ اور انڈیا کے مابین گہرے تاریخی تعلقات ہیں لیکن آج بھی برطانیہ سو برس گزرنے کے باوجود جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام پر غیر مشروط معافی مانگنے کی دہلیز سے ایک قدم پیچھے ہی ہے۔

اس بابت جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی فراست کے سبب قائم ہونے والے سچائی کمیشن نے بین الانسلی تعلقات میں پڑنے والے گہرے کھاؤ کم کرنے میں خاصا اہم کردار ادا کیا اور اس کے بعد کم از کم وہاں کالے اور گورے کے درمیان موجود تاریخی نفرت کو مزید بڑھاوے کا موقع نہ مل سکا۔ افسوس کہ اس مثال کو باقی دنیا اپنانے سے آج تک ہچکچا رہی ہے۔ معافی مانگنے اور کھلے دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف بزدلی نہیں غیر معمولی بہادری ہے۔ اس ایک فعل سے نہ صرف انفرادی و اجتماعی اعلی ظرفی جھلکتی ہے بلکہ اپنی ذات پر اعتماد کا بھی مظاہرہ ہوتا ہے۔
گزذر آیا میں چل کے خود پر سے
اک بلا تو ٹلی میرے سر سے (جون ایلیا)
اس مرحلے کے بعد تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق لکھنے اور حقائق گھڑنے کے ازیت ناک کام سے نجات مل جاتی ہے۔ مگر اس کے لیے جو غیر معمولی بلوغت درکار ہے شاید انسان انفرادی و اجتماعی سطح پر ابھی اس منزل تک نہیں پہنچا۔ یہ احساس البتہ پہلے کے کسی بھی زمانے سے زیادہ پذیرائی پا رہا ہے کہ اعتراف میں ہی نجات ہے۔

یہ جاننے کے لیے کوئی غیر معمولی مورخ ہونا ضروری نہیں کہ سن 1947 میں مسلمان، سکھ اور ہندو بڑی تعداد میں مرے اور ایک دوسرے کو مارا بھی۔ چنانچہ پھر درسی کتابوں میں اس بات پر ضرورت سے زور دینے کی کیا ضرورت ہے کہ صرف ہندو یا سکھ ہی اجڑے یا صرف مسلمان ہی مرے۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے اکیاون برس ہو گئے۔ نصف صدی بعد بھی سبکدوش ہونے والے پاکستانی سپاہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو ازخود یہ بحث کیوں اٹھانا پڑ گئی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری فوج پر نہیں سیاسی طبقے پر عائد ہوتی ہے ( حالانکہ ملک میں مارشل لا حکومت تھی)۔ اگر درسی کتابوں میں بنگالیوں کے غیر بنگالیوں پر مظالم کا تذکرہ ٹھیک ہے تو بنگالیوں پر ریاستی مظالم سے یکسر انکار کیوں ٹھیک ہے؟ اگر درسی کتابوں میں ملک ٹوٹنے کی ذمہ داری بھارتی سازش کو قرار دیا جاتا ہے تو اس سازش کو ناکام نہ بنانے کے اسباب اور ذمہ داروں کا تذکرہ کرنے سے کیوں ہچکچایا جاتا ہے؟

اگر اپنوں کا کوئی قصور نہیں تو اپنے ہی قائم کردہ حمود الرحمان جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آج تک سرکاری سطح پر شائع کرنے سے کس نے روکا رکھا ہے۔ یقیناً اس رپورٹ میں آئندہ ایسے حالات سے بچنے کے لیے کچھ ٹھوس سفارشات بھی کی گئی ہوں گی۔ چلیے رپورٹ شائع نہ کیجیے مگر اس کی سفارشات پر بھی کیا خاموشی سے عمل ہوا یا نہیں؟ اگر ہوا ہوتا تو آج اس کا کوئی نہ کوئی عکس دکھائی دے رہا ہوتا۔ وہ عکس کہاں تلاش کریں؟ بنگالی انیس و اکہتر کے واقعات کو تحریکِ آزادی کہتے ہیں۔ آپ اگر آج بھی اپنی نئی نسل کو یہ بتا رہے ہیں کہ یہ آزادی کی تحریک نہیں تھی بلکہ ہندو اساتذہ کی ورغلائی ایک قوم پرست بھارت نواز تنظیم کی سازش تھی، تو پھر بھارت کے اس موقف کا موثر توڑ کیسے ہو گا کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ حقِ خود اختیاری کا مسئلہ نہیں بلکہ چند مٹھی بھر پاکستانی ایجنٹوں کا برپا کردہ ہنگامہ ہے جسے سختی سے دبانا ایک قومی ذمہ داری ہے۔

یقیناً بنگالیوں اور کشمیریوں میں فرق ہے۔ کشمیری ہمارے ساتھ نہیں رہے مگر ہم ان سے ہونے والی تاریخی ناانصافی پر بے چین رہتے ہیں۔ بنگالی تو چوبیس برس ہمارے ساتھ رہے، ہم تب بھی ان کی تکالیف کو غیر سنجیدگی سے لیتے تھے اور آج اکیاون برس بعد بھی ان کی کہانی کو یکسر مسترد کرنے پر بضد ہیں۔ جب وہ آپ کے ساتھ تھے تب بھی آپ خود کو عملاً ان کا بڑا بھائی سمجھتے تھے۔ تو پھر آج بھی خود کو بڑا بھائی تصور کر کے چھوٹے بھائی کے سامنے اپنے حصے کی غلطیوں کا اعتراف کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اسے کیوں پیشگی نتھی کیا جا رہا ہے کہ تم بھی اپنی غلطی مانو تو ہم بھی مان لیں گے؟ اس سے اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو، یہ ضرور ہو گا کہ اگلے برس سولہ دسمبر کو آپ اپنے کردار کی صفائی پیش کرنے کی مسلسل ازیت سے نجات پا لیں گے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

پاکستان میں جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا پبلک ریلوے نیٹ ورک موجود

ورلڈ بینک کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا پبلک ریلوے نیٹ ورک ہے جو کہ تقریباً 80 ہزار کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے آخر سے پاکستان کے پاس 7 ہزار 700 کلومیٹر آپریٹنگ نیٹ ورک ہے جس کے بعد بنگلہ دیش کے پاس تقریباً 3 ہزار کلومیٹر اور سری لنکا میں 1500 کلومیٹر ہے، رپورٹ کے کے مطابق بھارتی نیٹ ورک 67 ہزار کلومیٹر کے ساتھ اب تک کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ جنوبی ایشیا میں موجودہ ریلوے نیٹ ورک 4 ممالک پر مشتمل ہے جس میں بھارت، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش شامل ہیں، 1947 میں ہندوستان کی آزادی تک جنوبی ایشیا کے لیے 4 میں سے 3 ریلویز ایک ہی نظام کا حصہ تھے، اس کے بعد سے وہ سبھی ریلوے کی وزارت کے زیر انتظام سرکاری محکموں کے طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان اور سری لنکا میں اب مکمل آپریٹنگ نیٹ ورک ایک ہزار 676 ملی میٹر ہے لیکن بنگلہ دیش اور بھارت دونوں کے پاس ابھی بھی تھوڑی تعداد میں میٹر گیج ریل موجود ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ریلوے دونوں کارپوریشنز ہیں، تاہم دونوں ممالک میں ریلوے کے وزیر اور حکومت اس کے انتظام اور فنڈنگ میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ریلوے کو آپریشنز اور سرمائے کے اخراجات کے لیے حکومتی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے چاروں ممالک میں مسافروں کی سروسز بنیادی اسٹرکچر کو برقرار رکھنے کے لیے درکار اخراجات میں بہت کم حصہ ڈالتی ہیں کیونکہ حکومتی پالیسی کے تحت مسافروں کے کرایوں کو کئی برسوں سے کم رکھا گیا ہے اور مالیاتی فرق کو مال بردار سروسز سے پورا کرنا پڑتا ہے۔

مجموعی طور پر چار جنوبی ایشیائی ریلویز سالانہ تقریباً 7 کھرب 50 ارب نیٹ ٹن-کلومیٹر مال بردار اور 1200 ارب مسافر- کلومیٹر سے زائد لے جاتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک سے کوئی لنک جڑا ہوا نہیں ہے، پاکستان اور ایران کے درمیان صرف ایک غیر معیاری لنک موجود ہے جس پر بہت کم آمدورفت ہوتی ہے۔  پاکستان اور بنگلہ دیش میں مال برداری کے ذریعے صرف محدود تعداد میں سامان کی ترسیل کی جاتی ہے جبکہ سری لنکا میں یہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے تمام پاور اسٹیشنز ساحل پر واقع ہیں اور سمندر کے ذریعے یا مختصر فاصلے کے نقل و حمل کے ذریعے انہیں سپلائی فراہم کی جاتی ہے، بنگلہ دیش کا واحد علاقہ جو سمندر سے مناسب فاصلے پر واقع ہے وہ تقریباً مکمل زرعی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سڑکوں کا خاصا مضبوط نظام موجود ہے، ریلوے انتظامیہ کے لیے بندرگاہ سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر مال برداری کے اہم علاقے کے باوجود ایک پرکشش سروس فراہم کرنا بڑا چیلنج ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر شہری مسافر سروس کو سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بسوں سے قیمت اور سروس فریکوئنسی کے لحاظ سے سخت مقابلے کا سامنا ہے جبکہ سفر کے وقت کے لحاظ سے اسے بھارت اور پاکستان میں ہوائی جہاز سے مقابلے کا سامنا ہے۔

امین احمد

بشکریہ ڈان نیوز

کاش ہم بنگالی ہوتے

جواہر لال نہرو جب بھارت کے وزیراعظم بنے تو وہ حلف لینے کے بعد مہاتما گاندھی کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے پوچھا ’’باپو ہم نے انڈیا کو کیسے چلانا ہے؟‘‘ مہاتما گاندھی نے جواہر لال نہرو کو مشورہ دیا ’’آپ اگر انڈیا کے مقبول ترین وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تو آپ دیش میں کبھی آٹا‘ سائیکل اور سینما کی ٹکٹ مہنگی نہ ہونے دینا‘‘ گاندھی رکے اور پھر کہا ’’آٹا غریب کا کھانا ہے‘ یہ مہنگا ہو گا تو غریب بھوکا ہو جائے گا اور بھوکی عوام حکومت نہیں چلنے دیتی‘ سائیکل غریب کی سواری ہے۔ یہ مہنگی ہو گئی تو غریب کا پہیہ رک جائے گا اور اگر غریب کا پہیہ رک گیا تو حکومت کا کوئی سسٹم نہیں چلنے دے گا اور سینما غریب کی تفریح ہے اور اگر یہ مہنگا ہو گیا تو پھر غریب سرکار کو فٹ بال بنا لے گا لہٰذا آپ کو کچھ بھی کرنا پڑے سینما‘ سائیکل اور آٹا یہ تینوں مہنگے نہیں ہونے چاہییں‘‘ جواہر لال نہرو نے یہ بات پلے باندھ لی لہٰذا آج بھی انڈیا میں سینما‘ سائیکل اور آٹا سستا ہے اور لوگ کہتے ہیں آپ اگر انڈیا کو توڑنا چاہتے ہیں تو آپ بالی ووڈ بند کر دیں اور آٹا مہنگا کر دیں انڈیا ٹوٹ جائے گا جب کہ سائیکل اب موٹر سائیکل میں تبدیل ہو چکا ہے اور یہ بھی بھارت میں سستا ہے۔

بزنس میں ایک ٹرم ہوتی ہے ’’مدر انڈسٹری‘‘ اس کا مطلب ہوتا ہے کوئی ایک ایسی انڈسٹری جو آگے چل کر دوسری انڈسٹریز کو بھی چلا دے مثلاً پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکا خوف ناک معاشی بحران کا شکار ہو گیا تھا‘ حکومت نے ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لیے امریکا کی 50 ریاستوں کو ہائی ویز کے ذریعے جوڑنے کا فیصلہ کیا‘ 1923 میں پین امریکن ہائی وے اسٹارٹ ہوئی اور یہ دنیا کی سب سے بڑی ہائی وے بن گئی۔ یہ 45 ہزار کلو میٹر لمبی سڑک ہے اور اس نے یو ایس اے کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکا کے تمام ملکوں کو بھی آپس میں جوڑ دیا‘ یہ سڑک دو عظیم جنگوں کے درمیان امریکا کے لیے مدر انڈسٹری ثابت ہوئی اور اس نے پورے امریکا کو معاشی طور پر قدموں پر کھڑا کر دیا‘ کیسے؟ سائنس بڑی سادہ تھی‘ دنیا کی سب سے بڑی ہائی وے کی وجہ سے کنسٹرکشن سے متعلق تمام صنعتیں چلنے لگیں‘ صنعتیں چلیں تو کمپنیوں اور فیکٹریوں کو انجینئرز‘ پلانرز اور ورکرز کی ضرورت پڑ گئی۔

اس ضرورت نے یونیورسٹیاں اور ٹیکنیکل ادارے ایکٹو کر دیے‘ یونیورسٹیوں سے انجینئرز نکلے تو ہزاروں فیکٹریاں مشینری بنانے لگیں اور یوں مشینری کی انڈسٹری بھی چل پڑی‘ سڑک مکمل ہو گئی تو آٹو موبائل کی صنعت بھی انگڑائی لینے لگی‘ سڑک کے ساتھ ساتھ نئے شہر‘ نئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں‘ نئے انڈسٹریل ہب اور فارم ہاؤسز بننے لگے‘ یہ ایکٹو ہوئے تو لوگوں کے پاس پیسہ آ گیا اور وہ شاپنگ بھی کرنے لگے‘ ریستورانوں میں کھانا بھی کھانے لگے‘ چائے اور کافی کے لیے بھی جانے لگے اور بچوں کو پلے ایریاز میں بھی لے جانے لگے یوں لوگوں میں صحت مند زندگی کا رجحان پیدا ہو گیا۔ اس سے جم بھی بنے اور کلینک اور اسپتالوں میں بھی اضافہ ہوا‘ غرض حکومت کے صرف ایک فیصلے نے پورے امریکا کو بدل کر رکھ دیا‘ ہم اگر بھارت کو بھی دیکھیں تو ہمیں دو بڑے فیصلے نظر آئیں گے‘ پہلا فیصلہ جواہر لال نہرو نے بھارت میں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ بنائے تھے‘ ان اداروں سے فارغ التحصیل طالب علم یونیورسٹیوں میں پروفیسر بنے اور ان لوگوں نے بعدازاں سندر پچائی‘ پراگ اگروال‘ ستیانڈیلا اور اروند کرشنا جیسے آئی ٹی ٹائی کونز پیدا کر دیے‘ دوسرا فیصلہ راجیو گاندھی نے 1984 میں بنگلور میں سلیکان ویلی کی بنیاد رکھی۔

آج حالت یہ ہے پاکستان کی ہر مسجد اور مدرسے میں علامہ اقبال کے شعر پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں اور قائداعظم کو رحمۃ اللہ علیہ لکھا اور بولا جاتا ہے لیکن میں دعوے سے کہتا ہوں علامہ اقبال اگر آج ہوتے اور یہ ’’شکوہ‘‘ جیسی ’’گستاخی‘‘ کر دیتے تو یہ معاشرہ انھیں جواب شکوہ لکھنے کی مہلت نہ دیتا‘ علامہ اقبال ہجوم کی نفرت کا شکار ہو جاتے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ شکوہ پڑھ لیں اور اس کے بعد جواب دیں کیا یہ آج کے دور میں لکھا اور پڑھا جا سکتا تھا اور کیا کوئی پبلشر اسے شایع کرنے کی غلطی کر سکتا تھا۔ آج اگر اسی طرح قائداعظم ہوتے تو کیا وہ اپنے کتے کے ساتھ تصویر چھپوا سکتے یا سر ظفراللہ اور جوگندر ناتھ منڈل کو اپنی کابینہ میں شامل کر سکتے؟ مجھے یقین ہے وہ اگر ہوتے تو وہ آج عدالتوں میں فلیگ اسٹاف ہاؤس‘ وزیر مینشن اور مالابار ہل ہاؤس ممبئی کی رسیدیں جمع کراتے کراتے ہلکان ہو چکے ہوتے یا اپنے اثاثوں کو اپنی انکم کے برابر کرتے کرتے انتقال کر چکے ہوتے اور قوم ان کے بعد ان کا جنازہ کس مسلک کے تحت پڑھایا جائے جیسی عظیم بحث کا شکار ہو جاتی اور یہ کیا ہے؟

یہ سب جنرل ضیاء الحق کے لیے ملک گیر انتخابی حلقہ پیدا کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ ہمیں ماننا ہو گا غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتیں‘ یہ ہمیشہ بچے دیتی ہیں اور یہ بچے بھی دن رات بچے دیتے ہیں لہٰذا مہربانی فرمائیں‘ غلطیوں کے بہت بچے جمع ہو چکے ہیں چناںچہ اب چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز بیٹھیں اور آئین کو بڑا مان لیں‘ پورے ملک کو قانون کا پابند بنا دیں اور پھر تین چار بڑے فیصلے کر لیں‘ آپ ایک دو انڈسٹریز کو ہر قسم کی ٹیکس ریلیکس سیشن دے دیں‘ سوشل میڈیا دنیا کی جدید ترین سائنس ہے۔ آپ اس کی پوری انڈسٹری کو تیس سال کے لیے ہر قسم کے ٹیکس سے چھوٹ دے دیں‘  آپ کنسٹرکشن انڈسٹری کو بھی دس سال کی ٹیکس ہالی ڈے دے دیں‘ پورے ملک کا معاشی پہیہ چل پڑے گا‘ یہ جو ہم ہر چھ ماہ بعد اپنی پوری پالیسی بدل دیتے ہیں‘ اس نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے‘ آپ پلیز یہ بند کر دیں اور دوسرا مہربانی فرما کر مذہب کو ذاتی فعل قرار دے دیں‘ ملک میں کسی شخص کو دوسرے شخص پر اپنے عقائد تھوپنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ یہ ملک چل پڑے گا ورنہ دو تین برس بعد اس ملک کا ہر شخص اپنے منہ سے کہے گا کاش ہم بنگالی ہوتے‘ آپ اس وقت سے ڈریں۔

جاوید چوہدری

بشکریہ ایکسپریس نیوز

سانحہ مشرقی پاکستان؛ غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت

یوم سقوط ڈھاکا پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن 1971 سے لے کر آج تک ہم نے اس سانحے سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ آج بھی حالات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے، فرق صرف اتنا ہے کہ گزشتہ دور کی نسبت اس دور میں ’’جمہوریت ‘‘ کا تڑکہ زیادہ لگایا جاتا ہے ۔ خیر یہ باتیں سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ اس سانحے کے پیچھے دشمن ملک کا ’’بڑا ہاتھ‘‘ تھا، لیکن وہ دشمن تو آج بھی ویسا ہی ہے، دشمن کا تو کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ آپ کی حکمت عملی کیا ہے؟ آپ کیسے اپنے آپ کو بچائیں گے؟ ویسے بھی متحدہ پاکستان کی تقسیم کے لیے سازگار حالات تو ہمارے حکمرانوں نے پیدا کیے۔ ہم کسی اور پر یہ الزام کیوں عائد کریں۔ ہمارے حکمراں خود دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔

اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت علیحدہ وطن کے لیے کوشاں رہتی ہے کیونکہ وہ اکثریت سے متنفر ہوتی ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے چھٹکار پانے کی جدوجہد کی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی، ان میں احساس محرومی نے جنم لیا کہ وسائل کی تقسیم میں اُن سے ناانصافی ہو رہی ہے اور ان کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو بنگالی زبان سے بھی ناآشنا تھے۔ حد تو یہ تھی کہ ایک جانب یہ اندوہناک سانحہ ہو چکا تھا اور دوسری جانب گزشتہ روز ہی اقتدار کی بندر بانٹ شروع ہو چکی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نیویارک سے پاکستان پہنچے۔ 20 دسمبر 1971 کو آغا محمد یحییٰ خان اقتدار بھٹو کو منتقل کر کے ایک طرف ہو گئے۔ سترہ دسمبر کی صبح سقوط مشرقی پاکستان پر آنسو بہانے کے بجائے سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں ہر کوئی بنگالی افسروں کے نکل جانے پر سنیارٹی لسٹ میں اپنا نمبر اور نام چیک کرتا پھر رہا تھا۔ یہ تھا وہ’’ سبق ‘‘جو ہمارے حکمرانوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سیکھا تھا۔

قارئین! قوم وہ ہوتی ہے جو ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو آیندہ سدھارنے کی کوشش کرے، جس کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار اکثریت نے اقلیت سے آزادی حاصل کی، کم ازکم ان غلطیوں کو تسلیم ہی کر لیں۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین برطرف کیا گیا پھر حسین شہید سہروردی جو قائد اعظم کے قریبی ساتھی اور بنگالی بھی تھے، کو ’’غدار‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا ، اور وہ 1962 میں قتل ہو گئے۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’قیام پاکستان کے بعد مجھے انڈر سیکریٹری کے طور پر امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ سیکشن کا انچارج بنایا گیا۔ کراچی میں دفتری اور رہائشی ضروریات کے لیے نئی عمارتیں زیر تعمیر تھیں، اُن کے لیے سینٹری کا سامان درآمد کرنا تھا اس کے لیے ایک میٹنگ بلائی گئی۔ اس میں چار وزیر اور کچھ افسر تھے مولوی فضل الرحمان بھی تھے، وہ وزیر داخلہ تھے۔ جب سینٹری کے سامان کا کوٹہ طے ہو گیا تو ایک وزیر نے دبے الفاظ میں تجویز پیش کی کہ اگر امپورٹ کا کچھ حصہ ڈھاکا کے لیے مخصوص کر دیا جائے تو مناسب ہو گا۔ اس تجویز پر بڑی ہنسی اُڑی، کسی نے کہا ڈھاکا میں سامان بھیجنے کی کوئی تُک نہیں، کسی نے کہا سامان اسمگل ہو کر کولکتہ پہنچ جائے گا۔

مولوی فضل الرحمان مسکرائے نہ بگڑے بلکہ زور دے کر کہا کہ علامتی طور پر کچھ حصہ ضرور بھیج دیں، یوں بات مان لی گئی میرے خیال میں لاشعوری طور پر بنگلہ دیش کی بنیادوں کی کھدائی کا کام اُسی روز سے شروع ہو گیا تھا۔ پھر آپ ریکارڈ چیک کر لیں، ہمیں آج تاریخ سے سیکھنا چاہیے ۔ بیس برسوں میں مجموعی طور پر مغربی پاکستان پر 11334 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جو بیس سالہ کل اخراجات کا 71.16 % تھے اور اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان پر کل 3593 کروڑ روپے خرچ ہوئے جو کل اخراجات کا 28.84 % ہوتا ہے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس کی رسیدیں فی الوقت موجود نہیں ہیں۔ حالانکہ اُس وقت مشرقی پاکستان ’’کماؤ پوت‘‘ تھا کیوں کہ 1960 کی دہائی اور اُس کے بعد بھی وہ متحدہ پاکستان کی کل برآمدات کا 70 فیصد برآمد کرتا جب کہ مغربی پاکستان کا ملکی معاشی ترقی میں 30 فیصد حصہ تھا۔ اور یہ سب کچھ ایوب دور (1969-1958) میں بھی جاری رہا بلکہ اسے یوں بھی کہا جائے کہ ایوب دور میں بنگالیوں میں سب سے زیادہ احساس محرومی پیدا ہوا تو غلط نہ ہو گا، صدر ایوب خان کی پالیسیوں اور اقدامات کا خصوصی جائزہ لیا جائے تو پائیں گے کہ اُن کا بنیادی مقصد اپنی حکومت کو بحال رکھنا اور طول دینا ہی تھا، یوں اُن کی حکومت نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بیج کو مزید پانی دیا اور کھاد فراہم کی۔

علی احمد ڈھلوں

بشکریہ ایکسپریس نیوز

پاکستان بنگلادیش تعلقات میں اہم پیش رفت، بھارت تنہا ہو گیا

پاکستان اور بنگلادیش کے مابین سفارتی تعلقات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے اور تین سال بعد پاکستانی ہائی کمیشن ڈھاکا میں مکمل فعال ہو گیا ہے۔ یہ اقدام وزیراعظم عمران خان کی بنگلادیشی ہم منصب حسینہ واجد سےرابطہ کی کڑی ہے۔ نجی ٹی وی نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سفارتی کشیدگی کم کرانے میں چین کا اہم کردار ہے، پاک بنگلادیش تعلقات میں بہتری سے بھارت پریشان اور بنگلادیشی وزیراعظم نے بھارت کی کئی درخواستوں کے باوجود ملنے سے انکار کیا ہے۔  خطے میں چین، پاکستان، ایران، بنگلادیش اور دیگر ممالک کی صف بندی بھارت کے جارحانہ عزائم اور اقلیتوں پر سرزمین تنگ کرنے کے ردعمل کے طور پر بن رہی ہے جب کہ سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے باہمی تجارت کو فروغ اور خطے کی ترقی کے لیے بھی بھارت مائنس فارمولا کارگر ثابت ہو رہا ہے۔

بھارت بھوک و افلاس کا شکار ملک بن گیا

بھوک و افلاس کے شکار ممالک کی درجہ بندی میں جہاں پاکستان کی عالمی رینکنگ بہتر ہوئی ہے، وہیں پڑوسی ملک بھارت تنزلی کا شکار ہو گیا۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کی جانب سے عالمی درجہ بندی جاری کی گئی جس میں 117 ممالک کا نام شامل کیا گیا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ غربت و افلاس کا شکار ملک ہے جو اس فہرست میں 102 نمبر پر ہے۔  پاکستان اس معاملے میں بھارت سے بہتر ہے تاہم اس کی بہتری پڑوسی ملک سے صرف 8 درجہ بہتر ہے جو اس فہرست میں 93 نمبر پر ہے۔ بھارت کی 2015 میں رینکنگ پاکستان سے بہتر تھی اور اس کا خوراک کی کمی کے شکار ممالک میں 93 نمبر تھا جبکہ پاکستان 106 نمبر پر موجود تھا۔

گلوبل ہنگر انڈیکس کے لیے 117 ممالک کے 2014 سے 2018 تک کے اعداد و شمار ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں ان ممالک کے غذائیت سے محروم بچوں کی شرح اور 5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات و دیگر شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں مانع حمل کی شرح سب سے زیادہ ہے جو 20.8 فیصد ہے جو افریقا کے ذیلی صحارا خطے کے ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بھارت میں 6 سے 23 ماہ کے بچوں کو کم سے کم قابل قبول غذا فراہم کی جاتی ہے۔ جی ایچ آئی نے اپنی رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے ایک اور ملک بنگلہ دیش کی اس معاملے میں آنے والی بہتری کی تعریف کی جسے اس کی اقتصادی ترقی سے منسوب کیا گیا۔

مذکورہ انڈیکس میں ان ممالک کو صفر سے لے کر 100 تک کے نمبر دیے گئے ہیں جن میں 0 کو غذا کے معاملے میں بہترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح 1 سے 10 کے نمبر لینے والے ممالک غذا کی کمی زیادہ نہیں ہے، جبکہ 20 سے 34.9 نمبر لینے والے ممالک بھوک و افلاس کی سنجیدہ صورتحال سے نبرد آزما ہیں، 35 سے لے کر 49.9 تک پوائنٹس لینے والے ممالک میں غذا کی صورتحال خطرناک جبکہ 50 سے زائد پوائنٹس لینے والے ممالک انہتائی خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ تاہم پاکستان کے پوائنٹس 28.5 ہیں جبکہ بھارت کے پوائنٹس 30.3 ہیں، تاہم پوائنٹس کی کیٹیگری کے حوالے سے دیکھا جائے تو دونوں ممالک میں بھوک و افلاس کی صورتحال سنجیدہ ہے۔

خطرناک ممالک کی فہرست میں صرف 4 ہی ممالک شامل ہیں جبکہ دنیا کا واحد ملک سینٹرل افریقن ریپبلک انتہائی خطرناک ممالک میں شامل ہے۔ اس فہرست کے 17 ممالک ایسے ہیں جہاں خوراک کی قلت کا مسئلہ سب سے کم ہے اور یہی ممالک مشترکہ طور پر اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہیں۔ ان ممالک میں یوراگوئے، یوکرائن، ترکی، سلواکیا، رومانیہ، مونٹی نیگرو، لتھوانیا، لیٹویا، کویت، اسٹونیا، کیوبا، کروشیا، کوسٹاریکار، چلی، بلغاریہ، بوسنیا ہرزیگوینیا اور بیلاروس شامل ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ 

کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیے گئے، روہنگیا مسلمان

سات لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے اس وقت بنگلہ دیش میں مختلف مقامات پر موجود مہاجربستیوں میں مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ رواں برس بھی یہ روہنگیا مسلمان اپنے ملک واپس نہیں جا سکے۔ اگست سن 2017 میں میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا کے خلاف شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن میں مسلمان اقلیت روہنگیا کے متعدد دیہات تباہ کر دیے گئے تھے۔ اس آپریشن کے دوران سینکڑوں روہنگیا مسلمان میانمار کی فوج کے ہاتھوں ہلاک بھی ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین کے لیے امدادی ادارے یو این ایچ سی آر کے اعداد وشمار کے مطابق اس کریک ڈاون کے نتیجے میں قریب سات لاکھ روہنگیا افراد سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہوئے۔ اس سے قبل بھی تین لاکھ کے لگ بھگ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش پہنچ چکے تھے بلکہ ان میں سے بعض تو کئی عشروں سے یہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ نے میانمار آرمی کے اس آپریشن کو روہنگیا کی ’نسلی تطہیر‘ کا نام دیا تھا تاہم ینگون حکومت ان الزامات سے انکار کرتی ہے۔ یہ لاکھوں افراد اب بھی بنگلہ دیش کے مخلف مقامات پر قائم کچی بستیوں اور مہاجر کیمپوں میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں پناہ گزین روہنگیا فرد جو عربی کے استاد بھی ہیں، نے ڈھاکا حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ جلد اپنے گھر واپس لوٹ سکیں گے۔ کوٹوپالونگ مہاجر کیمپ میں ہر روز گیارہ ہزار مہاجرین کی دیکھ بھال کرنے والی امدادی تنظیم ’کیئر انٹرنیشنل‘ کی جینیفر بوس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’ صورت حال اتنی خراب نہیں جتنی کہ سن 2018 میں تھی تاہم اب بھی خاصی مشکلات ہیں۔ پناہ گزینوں کو اب بھی بہت سی بنیادی سہولتوں کی کمی ہے اور امداد کے حوالے سے یہاں ہمہ وقت ایک ہنگامی صورت حال رہتی ہے۔‘‘

روہنگیا مسلمانوں نے عشروں قبل بنگلہ دیش نقل مکانی شروع کی تھی۔ جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے علاقے کوکس بازار میں روہنگیا مہاجرین کا کوٹو پالونگ مہاجر کیمپ وجود میں آیا۔ سن 2017 میں سات لاکھ روہنگیا کی یہاں آمد کے بعد اب یہ کیمپ بذات خود ایک چھوٹا سا شہر بن چکا ہے۔ قریب جرمن شہر کلون کے رقبے جتنا لیکن کسی انتظامی ڈھانچے کے بغیر۔ ’دی اینیمی وِد ان‘ نامی کتاب کے مصنف فرانسس واڈے نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا،’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ روہنگیا بغیر ریاست کے افراد ہیں لہذا کوئی بھی ملک خود کو ان کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری اٹھانے کا ذمہ محسوس نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ یہ افراد ایک ایسے ملک میں پناہ گزین ہوئے ہیں جو پہلے ہی سے غربت اور سہولیات کی کمی کا شکار ہے۔‘‘

روہنگیا باشندے محمد طاہر کا بنگلہ دیش میں تا دیر قیام کا ارداہ ہے۔ اُن کے بقول،’’ جب ہمیں انصاف ملے گا تب ہم میانمار لوٹ جائیں گے۔‘‘ واڈے کے مطابق روہنگیا مہاجرین کے پاس فی الحال بنگلہ دیش میں رہنے کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ دن کب آئے گا جب اس مسئلے کا کوئی بہتر حل نکل سکے گا۔ دوسری جانب بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا مہاجرین بھی میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔ ابھی حال ہی میں جب ڈیڑھ سو روہنگیا کو واپس میانمار بھیجے جانا طے پایا تھا، تو سینکڑوں افراد نے اس کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔

ص ح / ع ب / نیوز ایجنسی

بشکریہ DW اردو

بنگلہ دیش : اپوزیشن نے انتخابی نتائج مسترد کر دیے

بنگلہ دیش میں گیارہویں عام انتخابات میں پولنگ کے دوران مختلف پر تشدد واقعات میں 17 افراد ہلاک ہوئے اور پولنگ کے چند گھنٹوں بعد ہی اپوزیشن نے انتخابات کے نتائج مسترد کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کر دیا۔ انتخابات میں پولنگ کے دوران اپوزیشن کے حامیوں کو دھمکیوں اور حکمراں جماعت عوامی لیگ پارٹی کو ووٹ دینے پر مجبور کرنے کی شکایات بھی موصول ہوئیں۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بنگلہ دیش میں ہونے والے انتخابات کو موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی طاقت ور حکمرانی کی وجہ سے ایک ریفرنڈم قرار دیا جا رہا ہے جس میں تیسری مدت کے لیے شیخ حسینہ واجد کے منتخب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

خیال رہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ اور اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو بدعنوانی کے الزامات میں قید کی سزا کے بعد نااہل قرار دیا گیا تھا ۔ دوسری جانب خالدہ ضیا کی غیر موجودگی میں اپوزیشن جماعتوں نے 82 سالہ کمال حسین کی سربراہی میں اتحاد تشکیل دیا ہے، کمال حسین نے آکسفورڈ سے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور وہ شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے سابق رکن بھی ہیں۔ اس مرتبہ بنگلہ دیش کے انتخابات میں 10 کروڑ 40 لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل ہیں جن میں سے اکثر نوجوانوں نے پہلی مرتبہ حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ مقامی و غیر ملکی میڈیا کے مطابق ووٹنگ شروع ہونے کے بعد سے ووٹنگ ختم ہونے تک ملک کے 6 اضلاع میں اپوزیشن اور حکمراں جماعتوں کے درمیان تصادم میں 17 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پولیس نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

اے پی کو بنگلہ دیش سے 50 سے زائد افراد کی فون کالز موصول ہوئیں جنہوں نے اپنا تعارف اپوزیشن جماعت کے حامیوں کے طور پر کروایا، انہوں نے پولنگ بوتھ میں حکمراں جماعت کی جانب سے دھمکیاں موصول ہونے اور عوامی لیگ کو ووٹ دینے پر مجبور کرنے کی شکایات کیں۔ بنگلہ دیش کے چیف الیکشن کمشنر کے ایم نور الہدیٰ نے بتایا کہ ’ کچھ حادثات پیش آئے ہیں، ہم نے حکام سے معاملات حل کرنے کا کہا ہے ‘۔ یوریشیا گروپ کے جنوبی ایشیائی تجزیہ کار ساشا رائزر کے مطابق ’ اپوزیشن کو شکست دینے کے لیے حسینہ واجد کی جانب سے ریاستی مشینری کا استعمال ان کی انتخابی کامیابی کو یقینی بناتا ہے‘۔ حسینہ واجد نے اپنی بیٹی اور بہن کے ہمراہ ڈھاکا میں ووٹ کاسٹ کیا، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ’ ووٹرز ہمیں ایک اور موقع دیں گے تاکہ ہم ترقی کو بڑھائیں اور بطور ترقی پذیر ممالک بنگلہ دیش کو مزید آگے بڑھائیں‘۔

دوسری جانب کمال حسین نے بھی ڈھاکا میں ووٹ کاسٹ کیا، ان کا کہنا تھا کہ انہیں مختلف حصوں سے دھمکیوں اور ووٹ ٹیمپرنگ سے متعلق شکایات موصول ہورہی ہیں‘۔ بنگلہ دیش بھر میں قائم 40 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن 4 بجے بند ہو گئے جس کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ بنگلہ دیش میں گیارہویں عام انتخابات کے موقع پر 6 لاکھ سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے جن میں فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے اہلکار بھی شامل تھے۔

پولنگ کے دوران ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے بنگلہ دیش میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل رہیں۔ عام انتخابات کے دوران بنگلہ دیش کے بڑے نیوز چینل کی نشریات کو بند اور 7 صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اے ایف پی کے مطابق ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب بنگلہ دیش کے بڑے نیوز چینل کو بند کر دیا گیا۔ حکام نے اتوار کو تصدیق کی کہ نجی ٹی وی چینل جمونا کی نشریات ملک بھر میں معطل کر دی گئی ہیں۔ چینل کے چیف نیوز ایڈیٹر فہیم احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ کیبل آپریٹرز نے ہمارے چینل کو بغیر کسی وضاحت کے بند کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم اب بھی اپنی نشریات چلارہے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں کوئی بھی ہمارا چینل نہیں دیکھ سکتا، تاہم ہماری نشریات کو آن لائن دیکھا جا سکتا ہے۔

اپوزیشن کا انتخابات کالعدم قرار دینے کا مطالبہ
بنگلہ دیش اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کمال حسین نے ملک میں جاری عام انتخابات کو ’ مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے نتائج کو مسترد کیا جائے گا۔ پولنگ کے اختتام کے چند گھنٹوں بعد میڈیا بریفنگ میں کمال حسین نے کہا کہ ’ اپوزیشن الیکشن کمیشن سے انتخاب کو کالعدم قرار دینے اور ایک غیر جانبدار حکومت کی زیر نگرانی نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کرتی ہے‘۔ کمال حسین نے کہا کہ اپوزیشن کے تقریباً ایک سو امیدوار آج ملک میں جاری انتخابات سے دستبردار ہو گئے تھے۔

خیال رہے کہ چند روز قبل بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں کی نے انتخابات کے پیشِ نظر پولیس نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ساڑھے 10 ہزار سے زائد کارکنان کو حراست میں لیے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔ علاوہ ازیں انتخابی مہم میں مختلف تصادم میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک بھی ہوئے جبکہ انتخابات سے چند روز قبل نواب گنج میں صحافیوں پر بھی نامعلوم افراد نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 10 صحافی زخمی ہو گئے تھے۔ خیال رہے کہ حسینہ واجد نے انتخابی مہم کے دوران ملکی معاملات چلانے کے لیے نگراں حکومت کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

حکمراں جماعت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے 2014 کی تاریخ دہرانے سے اجتناب کیا جا رہا ہے جب خالدہ ضیا اور ان کی جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور ووٹر ٹرن آؤٹ 22 فیصد رہا تھا۔ مزید برآں پارلیمنٹ کی 3 سو نشستوں میں سے نصف سے زائد پر مقابلہ نہیں ہوا تھا جبکہ عوامی لیگ کی فتح پر ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ 1990 سے لے کر اب تک بنگلہ دیش میں حسینہ واجد یا خالدہ ضیا نے اپنی حکومتیں قائم کی ہیں اور یہ دونوں طاقتور خواتین ایک وقت میں قریبی اتحادی رہنے کے بعد اب ایک دوسرے کی خطرناک سیاسی دشمن بن چکی ہیں۔

اور پاکستان ٹوٹ گیا

مشرقی پاکستان محب وطن پاکستانیوں کی دکھتی ہوئی رگ ہے۔ دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی دل میں پرانے زخم میں ٹیس اٹھنے لگتی ہے۔ 70 ‍‌میں ہونے والے انتخابات کا پر کشش نعرہ، روٹی کپڑا اور مکان ‍ جس نے عوام کو اپنے شکنجے میں کس لیا جسکا نتیجہ، 16 دسمبر 1971 کو ہمارا مشرقی بازو کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ لاالہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی اس ریاست کو عصبیت کی آگ میں دھکیلنے کا اصل مقصد، پاکستان کو دو لخت کرنا تھا۔ اسلئے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان دونوں کی عوام کو انکے مفادات کے پیش نظر الگ الگ قسم کے سنہرے جالوں میں جکڑا گیا۔ دونوں جانب کی عوام اور پاکستان کی کچھ سیاسی تنظیمیں بھارت کے اس بچھائے ہوئے جال کو سمجھ نہیں رہی تھیں۔

مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اپنا کوئی امیدوار مشرقی پاکستان سے نامزد نہیں کیا تھا۔ اور نہ مجیب رحمان کی عوامی لیگ نے پاکستان سے، صرف 2‍ پارٹیاں ایسی تھیں انہوں نے متحدہ پاکستان میں اپنے نمائندے کھڑے کئے۔ جماعت اسلامی اور بی این پی۔ لیکن عصبیت کی لگائی ہوئی پر کشش آگ نے ان کی مخلصانہ کوششوں کو جلا کر بھسم کر دیا۔ اور اقتدار کی بھوکی پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کامیاب ہو گئیں۔ واضح اکثریت عوامی لیگ کی تھی اور اقتدار کا حق بھی عوامی لیگ کا تھا اگر اس وقت بھی فوج اور بیورو کریسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتی اور اقتدار مجیب الرحمان کے حوالے کر دیا جاتا تو مشرقی بازو ہم سے جدا نہ ہوتا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ادہر ہم ادہر تم کا نعرہ لگا کر تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی۔ اور یوں مشرقی پاکستان ہم سے جدا کر دیا گیا۔

طلعت شیخ

بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کو 5 سال قید کی سزا

بنگلا دیش کی عدالت نے سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کو کرپشن کیس میں 5 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کو کرپشن کیس میں 5 سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ 2 مرتبہ وزیراعظم رہنے والی خالدہ ضیا اور ان کے بڑے بیٹے سمیت 4 افراد پر 2001 سے 2006 کے دورِ حکومت میں فلاحی ادارے کے ڈھائی لاکھ ڈالر کی خرد برد کا الزام تھا۔ 72 سالہ خالدہ ضیا کو عدالت نے جرم ثابت ہونے پر 5 سال قید کی سزا سنا دی ہے جس کے بعد بنگلا دیش میں رواں برس دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔

عدالت نے کیس میں ملوث خالدہ ضیا کے بڑے بیٹے طارق رحمان، سابق رکن پارلیمنٹ قاضی سمیع الحق کمال، وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری کماالدین صدیقی، بنگلادیش نیشنل پارٹی کے بانی ضیاالرحمان کے بھتیجے مومن الرحمان اور بزنس مین شرف الدین احمد کو 10 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ عدالت نے طارق الرحمان کو 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر جرمانہ بھی ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیس کی سماعت کے بعد بنگلادیش نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل فخرالاسلام عالمگیر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خالدہ ضیا کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور ایک جھوٹے مقدمے میں سزا دی گئی جسے ہم کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے، اور امید ہے کہ یہ فیصلہ ہائیکورٹ منسوخ کر دے گی۔ عدالتی فیصلے کے بعد دارالحکومت بنگلادیش اور دیگر شہروں میں صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے اور حکومت کی جانب سے سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔