مگر یہ صرف اندازہ ہے میرا

 آپ سب کو نیا سال مبارک۔

میں نے سوشل میڈیا پر سالِ نو کے بارے میں ہر طرح کا عہد دیکھا۔’’ میں اس سال سگریٹ چھوڑ دوں گا ، والدین کو حج کراؤں گا ، میٹرک میں کم از کم تیسری پوزیشن کے لیے محنت کروں گی، نئے برس کے دوران تین اسٹریٹ چلڈرنز کو پڑھاؤں گا، اس برس ضرور میں رضیہ سے شادی کر لوں گا ، نامکمل مکان تعمیر کروں گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مگر میں نے ایک بھی عہد ایسا نہیں دیکھا کہ ’’اس برس میں اپنے اہلِ خانہ کی نہ صرف بنیادی کوویڈ ویکسینیشن مکمل کرواؤں گا بلکہ آس پاس کے لوگوں سے بھی ضد کروں گا کہ وہ نہ صرف اپنی بلکہ ہر جاننے والے کی ویکسینشین کروائیں ۔‘‘ نئے سال کے ولولے اور قسمیں وعدے اپنی جگہ۔ مگر کوویڈ کا نیا ویرئینٹ ایمکرون بھی نئے سال میں ’’ میں اس برس سب سے زیادہ انسانوں کو متاثر کروں گا‘‘ کے عہد کے ساتھ گھس آیا ہے۔ اس کی رفتار پچھلے کسی بھی ویرئنٹ کے پھیلنے کی رفتار سے سات گنا زائد ہے۔

پاکستان میں اگرچہ سرکاری طور پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تیس فیصد مجموعی آبادی اور چھیالیس فیصد بالغ آبادی کی ویکسینیشن مکمل ہو چکی ہے۔ جب کہ صوبہ پنجاب نے ستر فیصد اہل افراد کی ویکسینسیشن مکمل ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ مگر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ دنیا ایمیکرون کے توسط سے کوویڈ کی پانچوں لہر میں پھنس چکی ہے اور پاکستان میں یہ لہر جنوری کے آخر سے تھپیڑے دینا شروع کر دے گی۔ جنھوں نے بنیادی ویکسینیشن بھی نہیں مکمل کروائی وہ سب سے پہلے زد میں آئیں گے۔ جنھوں نے بنیادی ویکسینیشن کروا لی ہے انھیں اس کے حملے سے بچنے کے لیے اب بوسٹر ڈوز لگوا لینی چاہیے۔ اگرچہ ویکسین شدہ افراد کے لیے ایمیکرون سے مرنے کا خطرہ کم بتایا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ لہر میں پھیلنے والے ڈیلٹا ویرئینٹ کے مقابلے میں ایمیکرون پھیلنے کی رفتار سات گنا ہے مگر اس کا مہلک پن ڈیلٹا سے کم ہے۔ لیکن ایمیکرون پھیلنے کا عالمی چلن بتا رہا ہے کہ اس کا ہدف نسبتاً جوان آبادی ہے، اور یہی آبادی کسی بھی ملک کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ آگے آپ خود سیانے ہیں۔

عالمی ادارہِ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) کے سربراہ ٹیڈروس گیبریسس نے کورونا نامی مصیبت کے دو برس پورے ہونے کے موقعے پر پریس کانفرنس میں ایک اور کورونا سونامی سے خبردار کیا ہے۔ اس وقت روزانہ عالمی سطح پر ایک ملین افراد وائرس کی اس نئی شکل سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایمیکرون نومبر کے شروع میں جنوبی افریقہ کے طبی ماہرین نے دریافت کیا تھا۔ مگر اس کا سب سے بڑا نشانہ اس وقت امریکا اور مغربی یورپ ہے۔ اس تیزی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ایک سو چورانوے رکن ممالک نے گذرے برس کے شروع میں عہد کیا تھا کہ سال کے اختتام تک کم ازکم چالیس فیصد آبادی کی ویکسینیشن کا ہدف حاصل کر لیں گے۔ مگر بانوے ممالک اس ہدف کو حاصل نہ کر سکے۔ اب عالمی ادارہِ صحت کے سربراہ نے دنیا سے اپیل کی ہے کہ تمام متعلقہ ریاستی عمل دار نئے سال کے موقعے پر عزم کریں کہ اگلے چھ ماہ میں ستر فیصد آبادی کی ویکسینیشن کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔

اس وقت عالمی سطح پر ایمیکرون سے متاثر لوگوں کی تعداد میں گیارہ فیصد فی ہفتہ یعنی چوالیس فیصد ماہانہ کے اعتبار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اتنی رفتار اب تک کسی بھی کورونا وائرس کی نہیں رہی۔ نصف سے زائد متاثرین یورپی باشندے ہیں۔دنیا کا طبی ڈھانچہ کوویڈ کے پچھلے تھپیڑوں سے ادھ موا ہو چکا ہے۔ اوپر سے یہ تازہ قسم نازل ہو گئی ہے۔ تصور کریں کہ جن ممالک کا صحت ڈھانچہ پہلے ہی سے کمزور ہے ان پر کس قدر دباؤ ہو گا۔ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے پر ایک اور نیا بھاری دباؤ الگ گل کھلائے گا۔ نئے وائرس کے لیے اس سے زیادہ پر مسرت ماحول ممکن نہیں جب چند ممالک نے ضرورت سے زائد ویکسین ذخیرہ کر لی اور بہت سے ممالک اپنی آبادی کو ویکسین لگانے کے لیے پہلی خوراک بھی بمشکل مہیا کر پا رہے ہیں۔ امیر ممالک نے تیسری دنیا بالخصوص افریقی ممالک کو جو ویکسین مفت میں دان کی ہے اس میں سے بھی بیشتر مقدار ایکسپائر ہونے کے قریب ہے۔چنانچہ جنھیں یہ خیرات ملی وہ بھی اسے بلڈوز کر کے گڑھوں میں دبانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

مزید برآں ویکسین کی افادیت کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ اور اس کے لیے سوشل میڈیا کا موثر استعمال بھی لاکھوں شہریوں کو شش و پنج کے وائرس میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ اس سے صرف ایک آدمی کنفیوز نہیں ہو رہا بلکہ اس منفی رجحان کے اثرات اس کے پورے خاندان اور اردگرد کے لوگوں پر بھی پڑتے ہیں۔ حالانکہ حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ مرنے والوں کی اکثریت اب ان لوگوں پر مشتمل ہے جنھوں نے ویکسین ہی نہیں لگوائی۔ ان میں سے بہت سے وہ بھی ہیں جن کی عقل ٹھکانے پر لانے کے لیے خود کورونا کو زحمت کر کے ان کے جسم میں داخل ہونا پڑا۔ اور اب وہی اینٹی ویکسین لوگ سب سے زیادہ ویکسین نواز بن گئے ہیں۔ دو ہزار بیس میں کورونا سے دنیا بھر میں اٹھارہ لاکھ اور دو ہزار اکیس میں پینتیس لاکھ اموات ہوئیں، مگر یہ وہ اموات ہیں جن کا ریکارڈ موجود ہے۔

تاہم عالمی ادارہِ صحت کو امید ہے کہ دو برس کے تجربات کی روشنی میں دو ہزار بائیس اس عفریت سے مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ بہتر پالیسی و تزویراتی ڈھانچہ مہیا کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ ریاستیں پہلے سے زیادہ سنجیدگی اختیار کریں اور ویکسین کی دستیابی گزشتہ برس کی نسبت زیادہ سہل اور تیز رفتار ہو۔ ہو سکتا ہے نئے سال میں دنیا کے فیصلہ ساز اور دوا ساز کمپنیاں دیوار پر موٹا موٹا لکھا پڑھنے کے قابل ہو جائیں کہ جب تک آخری آدمی محفوظ نہیں ہو گا تب تک دنیا غیر محفوظ ہی رہے گی۔
سبھی چلتے رہیں گے ساتھ میرے
مگر یہ صرف اندازہ ہے میرا
جاوید صبا

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بے دماغ و بد دماغ سیاست

اعلیٰ دماغ مغربی ممالک کی کوویڈ سے نمٹنے کی حکمتِ عملی سے اس تاثر کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ کوویڈ کا متاثر بظاہر صحت یاب ہو جائے تب بھی اثرات جسم اور ذہن کے مختلف افعال پر عرصے تک غالب رہتے ہیں اور ان سے چھٹکارا رفتہ رفتہ ہی ممکن ہے۔ اس تناظر میں مغربی بالخصوص یورپی دنیا کی ذہنی کیفیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کوویڈ کی نئی قسم اومیکرون سے بچنے کے لیے اپنی بری، بحری اور فضائی سرحدیں تو بند کر رہے ہیں مگر زائد از ضرورت کوویڈ ویکسین ذخیرے کو ایکسپائر ہونے سے پہلے پہلے دیگر ضرورت مند انسانیت کو عطیہ کرنے کے بجائے اسے کروڑوں کی تعداد میں ضایع کرنا زیادہ بہتر سمجھ رہے ہیں۔ ان ممالک کی قیادت یہ بنیادی نکتہ بھی سمجھنے سے بظاہر قاصر ہو چکی ہے کہ جب تک پوری دنیا محفوظ نہیں ہو گی تب تک پابندیوں کی اونچی اونچی دیواریں کسی بھی خطے کو وائرس سے محفوظ نہیں رکھ سکیں گی۔

مغربی ممالک سرحدوں کو بند کرنے، پروازوں کو محدود کرنے اور لاک ڈاؤن کی قیمت پر کھربوں ڈالر کا معاشی خسارہ برداشت کرنے پر تو آمادہ ہیں مگر غریب امیر کے فرق کو بالائے طاق رکھ کے عالمی ویکسینیشن کے لیے آستینیں چڑھانے اور صرف چند ارب ڈالر خرچ کر کے اپنی معیشت کوویڈ سے مستقل محفوظ کرنے کا ہدف حاصل کرنے کے بارے میں سوچنے سے معذور ہیں۔ چلیے مان لیا کہ آپ کسی بھی وجہ سے اپنے اضافی ویکسین ذخیرے پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ ظاہر ہے آپ نے اس ذخیرے کو خریدا ہے یہ آپ کی ملکیت ہے۔ اب آپ اسے استعمال کریں یا سمندر میں پھینکیں۔ مگر جب سو سے زائد ممالک بشمول اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہِ صحت گزشتہ ایک برس سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ مغربی حکومتیں ویکسین ساز کمپنیوں پر انٹلکچوئل کاپی رائٹس قوانین سے عارضی دستبرداری کے لیے دباؤ ڈالیں تاکہ اس انہونی عالمی وبا کا تیزرفتاری سے مقابلہ کیا جا سکے تب برطانیہ اور یورپی یونین (بالخصوص جرمنی، سوئٹزر لینڈ، برطانیہ) اس ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے لبیک کہنے کے بجائے دوا ساز کمپنیوں کے وکیل بن جاتے ہیں کہ وہ نجی شعبے کو کاپی رائٹس سے دستبرداری پر ایک حد سے زیادہ مجبور نہیں کر سکتے۔

اس بابت عالمی تجارتی ادارے ( ڈبلیو ٹی او ) کے سامنے چونسٹھ ممالک کی درخواست گزشتہ ایک برس سے پڑی ہے۔ مگر جن ممالک کی دوا ساز کمپنیاں ویکسین تیار کر رہی ہیں ان کی حکومتوں کے لیے انسانیت کو درپیش بحران کے مقابلے میں چند دوا ساز کمپنیوں کا منافع مقدم ہے۔ اسی لیے ڈبلیو ٹی او کی رکنیت کے باوجود یہ حکومتیں ہاں اور نہ کے درمیان نہ صرف خود لٹک رہی ہیں بلکہ باقی دنیا کو بھی لٹکا رکھا ہے۔ ننگے پن کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ خود ویکسین ساز کمپنیاں کاروباری رقابت میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور زیادہ سے زیادہ بزنس ہتھیانے کی دوڑ میں ایک دوسرے کی ویکسین کی افادیت پر اپنی اپنی پسندیدہ اجرتی ریسرچ لابیوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً ’’ تازہ ترین تحقیق‘‘ کے نام پر جاری رپورٹوں اور آنکڑوں کو اچھالتی ہیں تاکہ حکومتیں اور عام لوگ کنفیوز ہوں اور ایک ویکسین پر اٹھنے والے سوالوں کے جب تک تسلی بخش جوابات تلاش کریں تب تک دوسری کمپنی زیرِ تفتیش کمپنی کا بزنس لے اڑے۔

ویکسین کی یہ جنگ محض کمپنیوں تک محدود نہیں۔ ریاستیں بھی ویکسین سازی کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لیے ایک دوسرے سے مصروفِ پیکار ہیں۔ جیسے متعدد مغربی ممالک اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے دوسری دنیا کے چند متوسط ممالک چینی ، روسی ، بھارتی یا دیگر غیر مغربی ویکسینز کی افادیت تسلیم نہیں کرتے اور اصرار کرتے ہیں کہ مسافر اور مقامی شہری صرف وہی ویکسینز لگوائیں جو مغربی کمپنیاں بناتی ہیں۔ حالانکہ عالمی ادارہِ صحت کی منظور شدہ ویکسین فہرست میں غیر مغربی ویکسینز نہ صرف شامل ہیں بلکہ انھیں محفوظ اور موثر بھی قرار دیا گیا ہے۔ گویا مغرب نہ تو ویکیسن کا فالتو ذخیرہ ضرورت مندوں کو عطیہ کرنے پر آمادہ ہے ، نہ ہی ویکسین کی ترقی پذیر دنیا میں مقامی تیاری کی خاطر کاپی رائٹس قوانین کی عارضی معطلی میں تعاون کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظریے پر کاربند ہوتے ہوئے بھی مغرب کو یہ پہلو تنگ نہیں کر رہا کہ منڈی بیمار ہو گی تو مال کون خریدے گا اور مال نہ بکا تو خود مغربی معیشتوں کا کیا حال ہو گا۔

اور اگر حال دگرگوں ہوا تو چین کو ہدف بنا کر نئی سرد جنگ کے ایجاد کردہ خوف کا مستقبل کیا ہو گا ؟ اس بوالعجبیانہ تضاد کا علاج کوئی مہان ماہرِ نفسیات ہی بتا سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور عالمی ادارہِ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہنوم کا موقف ہے کہ کوویڈ کی وبا سے نمٹنے کی کوششوں میں گہری عدم مساوات کا مسئلہ تب ہی حل ہو سکتا ہے جب اسے بھی بنیادی انسانی حقوق کی عینک سے دیکھا جائے۔ مگر دونوں اعلیٰ عالمی عہدیدار یہ بھی جانتے ہیں کہ مغرب چونکہ گرم و سرد جنگ کا برس ہا برس سے چشیدہ ہے۔ لہٰذا ذہنی عینک بھی وہی ہے جو اس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے نہیں اتاری۔ مغرب کے لیے آج کا چین اور روس کوویڈ سے بڑا خطرہ ہے۔ کوویڈ اگر جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوتا یا کوئی خود کش بمبار ہوتا تب شاید دنیا کو اس خطرے سے بچانے کے نام پر مغرب کب کا دوڑ پڑتا۔

مغرب کوویڈ سے پہنچنے والے معاشی خسارے سے اتنا ہونق نہیں جتنا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے ہے۔ اس منصوبے کے مقابلے کے لیے مغرب نے تین سو ارب یورو کے فنڈ کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو چین کے قرضوں کے جال والی سفارت کاری سے بچاتے ہوئے انھیں  انفرا اسٹرکچر منصوبوں کو کھڑا کرنے میں رعائیتی نرخوں پر مدد فراہم کی جائے۔ مگر مغرب چین کی کوویڈ ڈپلومیسی کے مقابلے میں تیسری دنیا کو کوویڈ ویکسین سے بھر دینے یا ویکسین کی تیاری کے لیے انٹلکچوئل کاپی رائٹس معطل کروانے کے کام پر ہرگز آمادہ نہیں۔ اگر یہی اعلیٰ دماغ سفارت کاری ہے تو پھر بین الاقوامی بد دماغی اور بے دماغی کیا ہے؟

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کوویڈ اتنی جلدی دفعان ہونے والا نہیں

ویسے تو پاکستان ہمیشہ سے ہی نازک دوراہے پر بتایا جاتا ہے مگر اگلے تین ماہ کے دوران پاکستان واقعی نازک دوراہے پر نظر آ رہا ہے۔ ایک جانب افغان سرحد کی طرف سے ناگہانی آ سکتی ہے تو دوسری جانب سے کوویڈ کا ڈیلٹا ویرینٹ ہمیں گھور رہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ حوصلہ افزا سہی کہ اکانومسٹ جریدے نے پاکستان کو پچھلے ڈیڑھ برس میں کوویڈ مینیجمنٹ کی اپنی مرتب کردہ عالمی فہرست میں حسنِ انتظام کے اعتبار سے سنگا پور اور نیوزی لینڈ کے بعد تیسرے درجے پر رکھا ہے۔ لیکن یہ فہرست ڈیلٹا ویرینٹ کے پھیلاؤ سے پہلے کی ہے۔ پاکستان نے یقیناً اب تک کوویڈ کی تین لہروں کو خوش اسلوبی سے جھیل لیا ہے مگر اب وزیرِ اعظم اور ان کی مینیجمنٹ ٹیم نے ڈیلٹا کی شکل میں چوتھی لہر کی خبر دی ہے جس کے آثار نمودار ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں کوویڈ متاثرین کی تعداد ہزاروں سے کم ہو کر سیکڑوں میں پہنچنے کے بعد اب پھر ہزاروں میں پہنچ رہی ہے اور جس رفتار سے چوتھی لہر آ رہی ہے اس کے سبب ہر ہفتے متاثرین کی تعداد دوگنی ہونے کی جانب تیزی سے سفر کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نئے متاثرین میں سے پچاس فیصد ڈیلٹا ویرینٹ کا شکار ہوئے ہیں۔

کیا ہم واقعی ڈیلٹا کے مقابلے کے لیے تیار ہیں یا گزشتہ تین لہروں کی پسپائی کے سرور میں ہیں ؟ آثار یہی ہیں کہ ہم سرور میں ہیں۔ تمام تر حسنِ انتظام کے باوجود گزشتہ پانچ ماہ کے دوران بائیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف پانچ ملین شہریوں کو ہی کسی بھی قسم کی کوویڈ ویکسین کی دو خوراکیں لگ پائی ہیں۔ جب کہ سرکاری ہدف اگلے پانچ ماہ میں سات کروڑ پاکستانیوں کی ویکسینیشن کا بتایا جا رہا ہے۔ موجودہ رفتار سے یہ ہدف حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس دوران اگر ڈیلٹا ویرینٹ کی لہر قابو سے باہر ہونے لگی تو نہ صرف یہ ہدف اور دور جا سکتا ہے بلکہ پچھلی کامیابیوں پر بھی پانی پھر سکتا ہے۔ فرض کریں ویکسینیشن کا ہدف حاصل ہو بھی جائے تب بھی آرام سے بیٹھنے کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ویکسینیشن کوویڈ سے ہونے والی اموات کے مقابلے میں ایک ڈھال کا کام کر رہی ہے۔ البتہ یہ ڈھال کتنے ماہ و سال کے لیے موثر ہے اور اگلی اضافی خوراک ( بوسٹر ) لینے کی ضرورت کتنے عرصے بعد پڑے گی کوئی نہیں جانتا۔

محض اندازے ہیں کہ فلاں ویکسین اتنے ماہ کے لیے موثر ہے اور فلاں ایک سے دو برس تک ہمیں بچا کے رکھے گی اور پھر تیسری ڈوز کی ضرورت پڑے گی۔ یعنی یہ ایک مستقل جنگ ہے جو اگلے کئی برس پوری دنیا کو انتھک لڑنی ہے۔ اور جنگ بھی گھمسان کی ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اگر ستر فیصد آبادی کی ویکسینیشن ہو جائے تو باقی تیس فیصد بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ جب تک ہر انسان کی ویکسینیشن نہیں ہو جاتی تب تک ہم سب خطرے کے دائرے میں رہیں گے۔ اس تناظر میں حالات اور بھی مایوس کن ہیں۔ ترقی یافتہ اور دولت مند ممالک نے تو اپنی کم ازکم پچاس فیصد آبادی کی ویکسینشن مکمل کر لی ہے اور اگلے پانچ ماہ کے دوران وہ سو فیصد ہدف حاصل کرنے کے قریب ہیں مگر بہت سے ترقی پذیر ممالک میں ابھی ویکسینیشن شروع بھی نہیں ہوئی۔ بہت سے ممالک کا دار و مدار عالمی ادارہِ صحت کی کوششوں سے چندے اور خیرات میں ملنے والی ویکسین پر ہے۔

پاکستان جیسے ممالک ایک حد تک تو ویکسین خریدنے کی سکت رکھتے ہیں لیکن ان کی زیادہ تر امید کا محور امداد میں ملنے والی ویکسین کے گرد ہی رہے گا۔ تیز رفتار ویکسینشن کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ تجارتی مفادات کو ویکسین کے معیار کے پردے میں آگے بڑھانے کی سیاست ہے۔ یعنی امریکا ، یورپی ممالک اور دولت مند عرب ریاستیں صرف اس ویکسینیشن کو تسلیم کرتے ہیں جس میں مغربی و امریکی ویکسین ساز کمپنیوں کی ویکسین استعمال ہو رہی ہے جیسے فائزر ، استرا زینیکا ، موڈرنا ، جانسن اینڈ جانسن وغیرہ۔ جن لوگوں نے چینی یا روسی ویکسین لگوائی ہے اسے مغرب تسلیم نہیں کرتا۔ اس امتیاز کی بنیاد کسی سائنسی ثبوت پر ہے یا یہ مشرق و مغرب کی سیاسی رقابت کی بنیاد پر ہے ؟ جو بھی وجہ ہو مگر اس کی زد میں ایک عام آدمی ہی آ رہا ہے۔ مثلاً میں گزشتہ ہفتے برطانیہ گیا تو وہاں کے صحت حکام نے میرا نادرا کا جاری کردہ ویکسینیشن سرٹیفکیٹ ماننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ نے چینی ویکسین لگوائی ہے جو ہمارے ہاں رجسٹرڈ نہیں لہٰذا آپ کو اپنے خرچے پر دس دن مخصوص ہوٹل میں قرنطینہ کرنا پڑے گا۔

اگر آپ نے ہماری منظور شدہ ویکسین لگوائی ہوتی تو پھر آپ گھر پر پانچ دن قرنطینہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ مجھے ایک ہوٹل کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔  عالمی ویکسینیشن کی راہ میں دوسری اہم رکاوٹ مینوفیکچرنگ رائٹس اور لائسنسگ ہے۔ یعنی ویکسین ساز کمپنیاں ترقی پذیر غریب ممالک کو نہ تو برانڈڈ ویکسین کی مقامی تیاری کا لائسنس دے رہی ہیں اور نہ ہی ان کی ضرورت کے اعتبار سے ویکسین کی کھیپ تیار کر پا رہی ہیں۔ گویا غریب ممالک کو سہہ طرفہ مار پڑ رہی ہے۔ تیسری بڑی رکاوٹ خود وہ عوام ہیں جنھیں مرنا اور دوسروں کو وائرس سے متاثر کرنا تو منظور ہے مگر ویکسین لگوانا قبول نہیں۔ ان میں سے کئی لوگ نہ صرف خود ویکسین لگوانے کے قائل نہیں بلکہ جو لگوانا چاہتے ہیں انھیں بھی بھٹکانے اور گمراہ کرنے کو ثوابِ جاریہ سمجھ رہے ہیں۔

کبھی ویکسین کے حرام حلال ہونے کا سوال اٹھا دیا جاتا ہے تو کبھی اس مبینہ چپ سے ڈر لگتا ہے جو دراصل ویکسین کی آڑ میں ان کے جسم میں داخل کیا جا سکے۔ اس کے بعد دشمن ممالک کی ایجنسیاں اور بل گیٹس جیسے لوگ ان کی ہر سرگرمی پر نظر رکھ سکیں گے۔ بھلے ان کے پلے نظر میں آنے کے لیے کچھ ہو یا نہ ہو۔ جو ان دلائل سے گمراہ نہیں ہو سکتے انھیں یہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ ویکسینیشن سے مردانہ قوت سلب ہو جاتی ہے۔ اس اطلاع پر سب سے زیادہ پریشان ہونے والوں میں نوجوان کم اور ستر برس سے اوپر کے بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بندہ ان سے پوچھے کہ بھائی صاحب آپ نے ویکسین آنے سے پہلے اس مخصوص شعبے میں کیا کیا تیر چلا لیے جو اب آپ کو اپنی رہی سہی قوت کھونے کا خیال ستائے جا رہا ہے۔ مگر یہ کہانیاں اور تھیوریاں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ یہی کہانیاں اور وہمات خاندانی منصوبہ بندی کی مہم اور پولیو ویکسین کے بارے میں بھی پھیلائے جاتے رہے۔ آپ ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے البتہ یہ لوگ آپ کا کچھ نہ کچھ ضرور بگاڑ سکتے ہیں اگر آپ کچے کانوں کے مالک ہیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

غریب ملکوں کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی کمی کا سامنا ہے

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کوویکس پروگرام کے تحت وافر مقدار میں ویکسی نیشن فراہم نہ کیے جانے کے سبب غریب ملکوں کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی کمی کا سامنا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے سینئر مشیر نے کہا ہے کہ کوویکس پروگرام کے تحت 131 ملکوں کو 9 کروڑ خوراک کی فراہمی ناکافی ہے۔  انہوں نے کہا کہ آبادیوں کو وائرس سے بچانے کے لئے یہ ناکافی ہے جبکہ کچھ افریقی ملکوں میں تیسری لہر کا سامنا ہے۔ افریقی صدر کا کہنا ہے کہ افریقہ میں 40 ملین ڈوزز لگائی گئیں، یہ 2 فیصد سے بھی کم آبادی کو لگائی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور دیگر عالمی تنظیموں کی سربراہی میں قائم کوویکس پروگرام کے تحت ابتدا میں 2021 ء کے اختتام تک دنیا بھر میں 2 ارب خوراکیں پہنچانے کا ہدف رکھا گیا تھا، لیکن ویکسین بنانے میں تاخیر، سپلائی میں پریشانی کی وجہ سے قلت پیدا ہو رہی ہے۔  دوسری جانب یوگنڈا، زمبابوے، بنگلادیش بھی ویکسین ختم ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

چین کی ویکسین ڈپلومیسی

فروری 2021 میں عالمی ادارۂ صحت نے چینی کمپنیوں کی تیار کردہ ویکسین سائنو فارم کی کورونا کی مدافعتی ویکسین کے طور پر منظوری دے دی۔ اس منظوری سے پیشتر ہی چینی حکومت نے دوست ممالک کو کورونا ویکسین، ماسک اور کٹس کی فراہمی شروع کر دی تھی، یہ دوست ممالک بنیادی طور پر درمیانی یا کم آمدنی والے ممالک تھے۔ چینی حکومت ان شعبوں میں بھی اپنی اہمیت منوا رہی ہے جو مغربی اقوام کا خاصہ رہے ہیں۔ چینی طبی صنعت اب صرف ادویہ ساز ہی نہیں بلکہ تحقیق و ترقی کا مرکز بھی بن چکی ہے۔ تجزیہ نگار اور علاقائی حکمت عملی کے ماہرین اسے سفارت کاری کا نیا رجحان قرار دے رہے ہیں جسے’’ ویکسین ڈپلومیسی‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ علاقائی تسلط کے لیے وسعت پذیر سپر پاور اپنی ویکسین کو بہتر طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اس رجحان کے نتائج مستقبل قریب میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔

سائنوفارم ویکسین کے عطیات صرف فطری انسان دوست جذبات کے مظہر نہیں بلکہ چین کے سیاسی مقاصد کے حصول کا بھی ذریعہ ہیں۔ 2020 میں جب وبائی امراض پھیل رہے تھے، ہندوستان ڈھاکہ کو کورونا ماسک اور کٹس فراہم کر رہا تھا ۔ بعد ازاں یہ فراہمی چین سے ہونے لگی۔ جب ویکسینز آئیں تو ہندوستان ہی بنگلہ دیش کو آسٹرازینیکا ویکسین کا فراہم کنندہ تھا، لیکن جیسے ہی بھارت میں وبا کے پھیلائو میں تیزی آئی اور سپلائی متاثر ہوئی تو آسٹرا زینیکا کی جگہ چین نے بنگلہ دیش کو سائنوفارم عطیہ کرنا شروع کر دی۔ بنگلہ دیش حکومت نے بخوشی یہ عطیات قبول کیے اور ویکسی نیشن کا آغاز کر دیا، بنگلہ دیش میں نجی دواساز کمپنیوں نے سائنوفارم ویکسین خریدنے میں پہلے ہی دلچسپی ظاہر کررکھی تھی۔جب یہ سپلائی شروع ہوئی تو چین نے اپنی اعانت کے بدلے بنگلہ دیش کو چین مخالف کواڈ الائنس کے کسی بھی منصوبے سے دور رہنے کی تنبیہ کر دی۔

کواڈ بنیادی طور پر امریکہ، ہندوستان، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل چین مخالف اتحاد ہے۔ چینی حکومت کے اس بیان پر بنگلہ دیش کی حکومت کسی حد تک سٹپٹائی لیکن پھر بھی اس نے ویکسی نیشن جاری رکھی۔ اب تک، چین بنگلہ دیش کو تقریباً چھ لاکھ ویکسین کی خوراکیں مفت فراہم کر چکا ہے۔ سری لنکا کا معاملہ بھی کم و بیش ایسا ہی ہے۔ ہمبنٹوٹا بندرگاہ واقعہ سے کشیدہ تعلقات کے بعد، چینی حکومت نے سری لنکن عوام کو مثبت پیغام دینے کے لیے سائنو فارم کو بطور عطیہ استعمال کیا۔ سری لنکن حکومت کے پاس بڑھتے ہوئے انفیکشن کے پیش نظر یہ عطیہ قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ڈبلیو ایچ او کی منظوری سے سربراہان مملکت کو پالیسی معاملات میں فیصلہ سازی کی سہولت رہی ۔ اسی طرح ماسک، کٹس اور آکسیجن سلنڈر باہمی معاہدے کے تحت بیجنگ اور کولمبو کے مابین تعلقات کی بحالی کا باعث بنے۔

لیکن سری لنکا کے اندر سے بہت سی آوازیں بلند ہوتی رہیں کہ یہ عطیات بلا قیمت نہیں ہیں۔ سری لنکا بیلٹ اینڈ روڈ میری ٹائم پروجیکٹ کا ایک حصہ ہے مستقبل میں، چین سری لنکا حکومت سے وبائی مرض کے متوقع خاتمے سے پیشتر ہی اپنے مفادات کے متعلق مطالبات پورا کروانے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ افغانستان میں انتقامی جذبات کے ساتھ طالبان پھر زور پکڑ رہے ہیں۔ امریکی فوج کا نومبرتک انخلا ہو رہا ہے جبکہ چین پہلے ہی اپنا راستہ ہموار کر چکا ہے۔ کورونا میں بنگلہ دیش کی طرح افغانستان کے لئے ابتدائی مدد ہندوستان سے آئی تھی لیکن اب طبی سامان اور ویکسی نیشن کا سب سے بڑا برآمد کنندہ چین ہے۔ سائنو فارم کی چارلاکھ خوراکوں کا عطیہ کابل پہنچا ، کابل میں نجی کمپنیاں پہلے ہی چینی کمپنیوں کو ویکسین فراہمی کے لئے آرڈر دے چکی تھیں۔ افغانستان وسطی ایشیا اور خطے میں استحکام کا بنیادی مرکز ہے خطے میں چینی اثر و رسوخ کے لئے دو طرفہ تعلقات ناگزیر ہیں۔

پاکستان چین تعلقات دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ گرم جوش ہیں۔ چین میں یہ ویکسین شروع ہوتے ہی پاکستان میں سائنو فارم اور سائنو ویک ویکسین کی آزمائش شروع ہو گئی۔ تینوں بڑے شہروں لاہور، اسلام آباد اور کراچی نے آزمائشی خوراکیں وصول کیں، نتائج سامنے آنے کے بعد ڈبلیو ایچ او کی منظوری سے قبل ہی حکومت پاکستان نے عام لوگوں کی ویکسی نیشن شروع کر دی۔ سی پیک پر پہلے ہی تیزی سے کام چل رہا ہے پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت نے معیشت کو سی پیک اور بی آر آئی منصوبوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے جس کا چینی حکام نے خیرمقدم کیا ہے۔ ویکسی نیشن کی ایک بڑی مہم نے پاک چین تعلقات کو مزید تقویت بخشی ہے۔ کم آمدن والے ممالک کو جدید ترین طبی سہولتوں اور انفراسٹرکچرل منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے چین سے ہاتھ ملانے کی ترغیب ملی ہے۔

اب سیرل پاکستان’’ پاک ویک‘‘ کے نام سے پاکستان میں سائنو ویک تیار کر رہی ہے جو چینی امداد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں چینی اثر و رسوخ کا بنیادی محرک ہے اور چینی سفارت کاری ہر گزرتے دن اسے مضبوط کررہی ہے۔ امریکی اور یورپی اقوام ذاتی مفادات کی بدترین تحفظ پسندی میں مشغول ہیں جبکہ چین اپنی ویکسین ڈپلومیسی کے ذریعے کم آمدن والی ترقی پذیر معیشتوں کے لیے ویکسین سپلائر بن کر غالب آ رہا ہے۔ چین ایک طرح سے ترقی پذیر دنیا کا چیمپئن ہے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ چینی حکومت نے ’’ویکسین ڈپلومیسی‘‘ کی اصطلاح کو بے بنیاد قرار دیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی صحافی یا تجزیہ کار اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ صرف اپنے مفادات کے محافظ ممالک کے ایجنڈوں کے مقابلے میں انتہائی مطلوب اقدام ہے۔

چینی ویکسین اب MENA (مشرقِ وسطیٰ شمالی افریقی) ممالک میں جانے لگی ہے۔ نئی قومیں سائنو فارم اور سائنو ویک کی خریداری کے ذریعے بڑھتے ہوئے کورونا انفیکشن کی روک تھام کے لئے واحد قابل عمل آپشن استعمال کر رہی ہیں۔ مغربی ممالک ابھی تک اس چینی برتری کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ چین عالمی رہنما اور غریب ممالک کا نجات دہندہ بن گیا ہے ۔ اس کے مخالفین میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ ہر لحاظ سے چینی ویکسین ڈپلومیسی کارگر ہو رہی ہے۔ اگرچہ مغربی ممالک اس کو قرضوں کے جال یا سفارتی حربے سے تعبیر کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ چینی ویکسین وہاں وہاں جانیں بچا رہی ہے جہاں اقوام متحدہ یا مغربی ممالک پہنچ ہی نہیں پا ئے۔ چین اپنی موجودگی کو محسوس کروا رہا ہے۔ وبائی مرض بیجنگ کی کامیابی کی ایک اور کہانی لکھ رہا ہے۔

امتیاز رفیع بٹ

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

بشکریہ روزنامہ جنگ

فواد چوہدری پاکستان کو کورونا سے بچا سکتے ہیں

چند ہفتے پہلے اسلام آباد میں گھر میں گھس کر کچھ نامعلوم افراد نے ایک صحافی پر تشدد کیا۔ جب اس واقعے پر خبر بنانے کے لیے برطانوی نشریاتی ادارے کے ایک صحافی نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا ردِعمل حاصل کرنا چاہا تو انھوں نے فرمایا کہ پہلے پاکستانی حکومت کی کورونا کے خلاف کامیابی پر ایک پروگرام کرو، پھر صحافیوں کے رونے دھونے پر بھی ردِ عمل دوں گا۔ نہ اسلام آباد کبھی رہا ہوں نہ ہی وہاں پر میرے کوئی ذرائع ہیں، لیکن ہزار میل دور سے بیٹھا بھی بتا سکتا ہوں کہ صحافیوں پر تشدد کروانے میں فواد چوہدری کا کم از کم کوئی ہاتھ نہیں ہو سکتا۔ جب انھیں کسی صحافی کو سبق سکھانا ہوتا ہے تو وہ بھری محفل میں اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں، رات کی تاریکی میں نامعلوم افراد نہیں بھیجتے۔ کچھ صحافی، جنھیں چوہدری صاحب صحافی نہیں مانتے، یہ شکایت کرتے پائے گئے کہ چوہدری صاحب نے انھیں نوکری سے نکلوایا ہے، شاید نکلوایا ہو لیکن میرے صحافی بھائیوں کو اپنے چہیتے سیٹھوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اتنی آسانی سے چوہدری صاحب کی بات کیوں مان لیتے ہیں۔

معلوم نہیں کہ برطانوی نشریاتی ادارے نے فواد چوہدری کی فرمائش پر پاکستان کی کورونا کے خلاف کامیابی پر کوئی پروگرام کیا کہ نہیں لیکن ایک صحافی کے طور پر میرا فرض بنتا ہے کہ اس کامیابی کی بابت کچھ عرض کرتا چلوں۔ ملک میں سیاسی تقسیم اتنی شدید اور گالم گلوچ سے بھری ہے کہ ہم زمینی حقائق بھی نہیں مانتے۔ کورونا کی وبا نے ایک پرانا مغالطہ دور کر دیا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں نظام ہی کوئی نہیں۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کروائے اور زیادہ تر عوام کے شکوے شکایتوں کے باوجود کامیاب کروائے۔ کبھی سمارٹ اور کبھی بدھو لاک ڈاؤن، لیکن ان سے وبا کے پھیلاؤ میں کافی کمی آئی۔ حکومت نے طالب علموں کی بد دعائیں لیں، تاجروں کی دھمکیاں سنیں، کچھ جیب خرچ غریبوں کی جیب میں ڈالا، کچھ سیٹھوں کی تجوریاں بھریں لیکن بیماری اور معاشی بدحالی کو اس نہج پر نہیں جانے دیا جو ہمسایہ ملک میں نظر آئی۔

فواد چوہدری مانیں یا نہ مانیں ہمارے صحافی یا غیر صحافی بہنوں اور بھائیوں نے بھی وبا کی رپورٹنگ زیادہ تر ذمہ دارانہ انداز میں کی، جھوٹی اور سنسنی خیز خبریں کم سے کم پھیلائیں لیکن حکومت کی اصل کامیابی اس وقت نظر آئی جب پاکستان میں ویکسینیشن کا عمل شروع ہوا۔ یہ عمل تھوڑا تاخیر سے شروع ہوا اور شروع میں تھوڑا کنفیوژن رہا، لیکن اب جس بڑے پیمانے پر اور جس نظم و ضبط سے لوگوں کو وبا کے ٹیکے لگ رہے ہیں میں نے اپنی زندگی میں اس طریقے سے پاکستان میں کوئی کام ہوتے نہیں دیکھا۔ اپنی تاریخ کی وجہ سے ہم حکومت اور اس کے کارندوں پر اعتبار کم ہی کرتے ہیں، چاہے حکومت کو ہم نے خود منتخب کیا ہو۔ ہم نے تو گاڑی کو پنکچر بھی لگوانا ہو تو کوئی واقف ڈھونڈتے ہیں، کسی سرکاری محکمے میں کام پڑ جائے تو سب سے پہلے سفارش ڈھونڈ لیتے ہیں، ہسپتال جانا ہو تو کسی انکل کے دوست ڈاکٹر سے فون کرواؤ، عدالت میں کلرک کے کزن کا دوست ڈھونڈو، تھانے میں تو کوئی واقف مل بھی جائے تو بھی نہ جاؤ۔

میں تقریباً سو سے زیادہ لوگوں سے پوچھ چکا ہوں کہ ویکسین کہاں سے اور کیسے لگوائی۔ کسی کو سفارش کی ضرورت نہیں پڑی، کسی کا چاچا ماما کام نہیں آیا۔ ان لوگوں میں گھریلو ملازم، سینیئر فنکار اور سیٹھ بھی شامل ہیں اور ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو صبح اٹھتے ہی یہ ’حکومت نالائق ہے، اس ملک میں کوئی نظام ہی نہیں ہے‘ کا ورد کرتے رہتے ہیں، لیکن کسی ایک کے منھ سے بھی ویکسین لگوانے کے عمل کے بارے میں شکایت نہیں سُنی۔ میں نے خود بھی کراچی میں ویکسین کی پہلی خوراک لگوائی اور دوسری پنجاب میں اپنے آبائی شہر میں۔ صرف اتنا پوچھا گیا کہ آپ نے پہلی سندھ میں لگوائی تھی؟ میں نے کہا جی ہاں اور انھوں نے بغیر دوسرا سوال پوچھے مجھے دوسری خوراک لگا دی۔ زندگی میں پہلی دفعہ یہ خوشگوار احساس ہوا کہ یہ تو ہماری حکومت ہے اور اس کے کارندے کتنے مہذب لہجے میں ہم سے بات کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جن لوگوں نے ویکسین لگائی ہے تو چند لمحوں کے لیے وہ حکومت کے ساتھ ایک پیج پر آ گئے تھے۔

یہ نظام اس لیے بھی قابل تعریف ہے کہ حکومت نے ابھی تک پرائیویٹ سیکٹر میں ویکسین کی فراہمی کو مؤخر کر کے سیٹھ اور مزدوروں کو چند لمحوں کے لیے سہی مگر ایک صف میں ضرور کھڑا کر دیا۔ چوہدری صاحب جانتے ہوں گے کہ جو حکومت کا قصیدہ پڑھتا ہے وہ اس کے بعد کوئی فرمائش بھی کرتا ہے تو عرض ہے کہ پاکستان میں 30 لاکھ یا اس سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ وہ آپ کے اور ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، ساتھ کام کرتے ہیں، اگر ان کو ویکسین نہیں لگے گی، جو کہ اب تک نہیں لگ رہی، تو کورونا کے بڑھنے کا خدشہ موجود رہے گا۔ چوہدری صاحب کو یہ کام اگر مشکل لگے تو وہ اپنی سائنسی سوچ پر انحصار کریں۔ ابھی ایک سال پہلے تک پوری قوم سمجھتی تھی کہ اگر مفتی منیب اپنی آنکھوں سے چاند نہیں دیکھیں گے تو عید نہیں ہو گی۔ چوہدری صاحب نے مفتی صاحب کو سائنس کی مار مار دی اور اب پوری قوم آرام سے عید مناتی ہے۔

چوہدری صاحب کے ساتھ ساتھ نادرا کے نئے چیئرمین طارق ملک اور مشیر صحت فیصل سلطان صاحب بھی سائنسی سوچ کے لوگ ہیں۔ اگر وہ اپنے رہنما عمران خان کو بھی قائل کر لیں اور وہ بغیر شناختی کارڈ والے شہریوں کے لیے ویکسین کھول لیں تو پوری دنیا میں ہماری غریب پروری اور سائنسی سوچ کے چرچے ہوں گے اور پھر برطانوی کیا ہر غیر ملکی نشریاتی ادارے کو کورونا کے خلاف ہماری کامیابی پر پروگرام کرنے ہوں گے۔

محمد حنیف

بشکریہ بی بی سی اردو

کچھ افراد کو کورونا ویکسین کے مضر اثرات کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟

کورونا وائرس کی ویکسین لگوانے کے بعد چند افراد کو وقتی طور پر اس کے مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس میں سر درد، تھکن اور بخار کی کیفیت شامل ہے۔ کسی بھی ویکسین سے انسانی جسم میں ردعمل پیدا ہونا ایک عام بات ہے جو مدافعتی نظام کے فعال ہونے کی علامت بھی ہے۔ خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن میں ویکسین چیف ڈاکٹر پیٹر مارکس نے اپنے حوالے سے کہا کہ ویکسین لگوانے کے اگلے دن وہ کسی بھی قسم کی سخت جسمانی سرگرمی میں شرکت کا منصوبہ نہ بنائیں۔ ویکسین کی پہلی خوراک لگوانے کے بعد ڈاکٹر مارکس بھی تھکاوٹ کا شکار ہو گئے تھے۔

ویکسین کے مضر اثرات کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
انسان کے مدافعتی نظام کے بنیادی طور پر دو بازو ہیں۔ جیسے ہی انسانی جسم میں کوئی چیز باہر سے داخل ہوتی ہے تو پہلا بازو فوراً حرکت میں آ جاتا ہے۔ خون کے سفید خلیے اس مقام پر اکھٹے ہو جاتے ہیں جو سوزش کا سبب بھی بنتے ہیں۔ سوزش کے باعث سردی، تھکن، جسم میں درد اور دیگر مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مدافعتی نظام میں اس نوعیت کا تیز ردعمل عمر کے ساتھ کمزور ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی عمر کے نوجوانوں کے مقابلے میں چھوٹی عمر کے زیادہ افراد کو ویکسین کے مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چند اقسام کی ویکسین کے لگوانے سے بھی انسانی جسم میں زیادہ ردعمل رونما ہوا ہے۔ تاہم ہر شخص میں ویکسین کا مختلف ردعمل سامنے آیا ہے۔ اگر ویکسین کی پہلی یا دوسری خوراک کے بعد کسی بھی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ویکسین اثر نہیں کر رہی۔

ویکسین کی خوارک سے مدافعتی نظام کا دوسرا حصہ بھی حرکت میں آ جاتا ہے جو جسم میں اینٹی باڈیز بنا کر وائرس سے حفاظت کرتا ہے۔ تاہم کورونا ویکسین سے ہونے والے تمام مضر اثرات معمول کی بات نہیں ہیں۔ ویکسین کی لاکھوں کی تعداد میں خوراکیں لگنے کے بعد صرف چند ہی سنگین خطرات سامنے آئے ہیں۔ ایسڑا زنیکا اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین لگوانے والوں میں سے چند فیصد نے خون میں پھٹکیاں بننے کی شکایت کی ہے۔ تاہم نگران اداروں نے کہا تھا کہ ویکسین نہ لگوانے کے خطرات سے اس کے فوائد کہیں زیادہ ہیں۔ کچھ لوگوں کو ویکسین کے باعث الرجک ری ایکشن کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی لیے ویکسین لگوانے کے 15 منٹ بعد تک سنٹر میں انتظار کرنا چاہیے تاکہ کسی ری ایکشن کی صورت میں فوراً نمٹا جا سکے۔ حکام اس بات کا بھی تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا دل کی وقتی سوزش فائزر اور موڈرنا جیسی ایم آر این اے ویکسین کا مضر اثر ہے۔ امریکی حکام نے فی الحال دل کی سوزش کی وجہ ویکسین نہیں قرار دی تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس کو مانیٹر کیا جا رہا ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

کورونا ویکسین کی دونوں خوراکوں کے درمیان وقفہ نقصان دہ نہیں ہے

کورونا ویکسین کی دوسری خوراک لینے میں تاخیر نہ صرف خوراک کی فراہمی کو جسم میں زیادہ وسیع پیمانے پر تقسیم کرنے کی اجازت دیتی ہے بلکہ دوسری خوراک دینے میں زیادہ وقت کا وقفہ حفاظتی قوت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ویکسین کی دونوں خوراکوں کے درمیان وقفہ نقصان دہ نہیں بلکہ فائدے مند ثابت ہوا ہے۔ نئی تحقیق بتاتی ہے کہ جب دوسری ویکسین دیر سے لگائی جاتی ہے تو وائرس سے لڑنے کے لئے تیار ہونے والی اینٹی باڈیز زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ویکسین کی محدود فراہمی اور ویکسین کے منتظر ممالک کے لوگ تذبذب کا شکار ہیں اور مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں ۔ پہلی اور دوسری ویکسین ڈوز کے درمیان وقفہ کو دوگنا یا تین گنا کرنا بہتر ہے۔ سائنسدانوں نے بھی اب اس کی تصدیق کر دی ہے۔ سنگاپور میں ویکسین کی درمیانی مدت کے پہلے تین ہفتوں کو اب چھ سے آٹھ ہفتے کر دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد اگست تک پوری اٹھارہ سے اوپر عمر کی آبادی کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک دینا ہے۔

انڈیا میں بھی ویکسین کی پہلی اور دوسری خوراک کے درمیان وقفہ کو 12 سے 16 ہفتوں تک کر دیا گیا ہے۔ 2020 میں جب تک ویکسینیشن شروع ہوئی، اس وقت تک خوراک میں طویل وقت کے وقفے کی یقین دہانی کے لئے کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد ممالک نے سب سے زیادہ خطرے والی آبادی کو ویکسین کی خوراک دینی شروع کی اور ان کی دوسری خوراک کے انتظار کو لیکر گارنٹی دی۔ برطانیہ نے سب سے پہلے ان رکاوٹوں کو 2020 کے آخر میں ایک بڑے پیمانے پر ختم کیا۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پہلا شاٹ مدافعتی نظام کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے اس وائرس کے خلاف حفاظتی اینٹی باڈیز بننا شروع کر دیتے ہیں۔ اس ردعمل کو جتنا لمبا اور پختہ ہونے دیا جاتا ہے ، دوسرے بوسٹر شاٹ کا رد عمل اتنا ہی بہتر ہوتا ہے جو ہفتوں یا مہینوں بعد آتا ہے۔ دوسری طرف تیسری لہر خصوصی طور پر بچوں کو متاثر کرے گی۔ وہیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ COVID-19 انفیکشن والے زیادہ تر بچوں کو تیسری لہر میں شدید بیماری ہو گی۔

انتباہ کیا گیا ہے کہ دوسری لہر ختم ہونے کے بعد اگر ہم کوویڈ کے خلاف ویکسین مناسب طرز عمل پر جاری نہیں رکھتے ہیں تو تیسری لہر ممکن ہے کہ باقی غیر استثنیٰ افراد کو بھی متاثر کر دے۔ یونیسیف (UNICEF ) کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2020 سے لے کر مارچ 2021 تک 100 ممالک سے COVID-19 کے اعداد و شمار مرتب کیے گئے، اس وقت بچوں کے 80 ملین کیسوں میں سے 11 ملین (13 فیصد) بچوں میں کورونا کے اثرات پائے گئے تھے۔ مزید یہ کہ 78 ممالک میں 6,800 سے زیادہ بچے اور نو عمر نوجوان COVID-19 کی وجہ سے فوت ہو گئے۔ یکم جنوری سے 21 اپریل کے دوران اکٹھے کیے گئے سرکاری اعداد و شمار سے انکشاف ہوا ہے کہ کچھ ممالک میں کوویڈ کے 5.6 ملین تصدیق شدہ کیسوں میں سے تقریباً 12 فی صد 20 سال سے کم عمر کے افراد پائے گئے ہیں۔ بچوں میں ملٹی سسٹم سوزش سنڈروم انفیکشن کا اثر ہو سکتا ہے۔ کچھ ممالک میں ویکسین کو کسی بھی 18 سال سے کم عمر افراد میں استعمال کے لئے منظور نہیں کیا گیا ہے۔

جن لوگوں کو ذیابیطس ، ہائی بلڈ پریشر ، کینسر ، دل کی بیماری ، گردوں کی بیماری ، جگر (لیور کی بیماری) ، تھائیرائڈ ، امیونوس پریسو جیسی بیماری ہوتی ہے ان کو ویکسین ضرور لینا چاہئے کیونکہ ان پر وائرس کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ویکسین لیتے وقت بتانا چاہئے کہ وہ کیا دوائیں لے رہے ہیں۔ تاہم جس شخص کو ویکسین کی پہلی خوراک سے الرجی ہوئی ہو اسے اس کی دوسری خوراک نہیں لینی چاہئے۔ ایسے لوگ جو بخار ، کھانسی ، نزلہ ، بخار وغیرہ سے دوچار ہیں وہ اس وقت تک ویکسین نہیں لیں جب تک کہ وہ مکمل طور پر ٹھیک نہ ہو جائیں۔ جن لوگوں کے خون کے بہاؤ میں گڑبڑ ہے جیسے کہ جسم میں پلیٹ لیٹس کا کم ہونا یا اگر وہ کوئی ایسی دوا لے رہے ہیں جو خون کو پتلا کرتی ہے تو انہیں اس بارے میں ویکسین لینے سے پہلے ہیلتھ افسر کو آگاہ کرنا چاہئے۔

رانا حیات

بشکریہ دنیا نیوز

کورونا 70 فیصد آبادی کو ویکسین لگنے تک ختم نہیں ہو گا : ڈبلیو ایچ او

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ جب تک دنیا کی 70 فیصد آبادی کو کورونا ویکسین نہیں لگ جاتی کورونا کی وبا ختم نہیں ہو گی۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے یورپ کے ڈائریکٹر ہانس کلوج نے یورپ میں ویکسین لگائے جانے کی رفتار کو سست قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ مت سوچیں کہ کورونا کی وبا ختم ہو گئی ہے۔ کورونا ویکسین لگنے کی شرح میں اضافے کی ضرورت ہے۔‘  ان کا کہنا ہے ’وبا اس وقت ختم ہو گی جب 70 فیصد لوگوں کو ویکسین لگ جائے گی۔‘ اے ایف پی کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 26 فیصد لوگوں کو کورونا ویکسین کی پہلی خوراک لگ چکی ہے، جبکہ یورپ میں 36.6 فیصد آبادی کو کورونا کی پہلی اور 16.9 فیصد کو دوسری خوراک لگ چکی ہے۔

ہانس کلوج نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کو سب سے زیادہ تشویش کورونا کی نئی اقسام کی وجہ سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مثال کے طور پر انڈین قسم B.1617 ایک دوسری قسم B.117 (برطانوی قسم) سے زیادہ پھیلتی ہے۔‘ کورونا کی انڈین قسم 53 ممالک میں پھیل چکی ہے۔ تاہم دنیا بھر میں نئے کیسز اور اموات میں گذشتہ پانچ ہفتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔  ہانس کلوج نے کہا کہ اگرچہ کورونا ویکسینز نئی اقسام کے خلاف کارگر ثابت ہوئی ہیں لیکن لوگوں کو محتاط رہنا ہو گا۔ ہانس کلوج کا کہنا تھا کہ ’یہ قابل قبول نہیں ہے کہ کچھ ممالک نوجوانوں کو ویکسین لگانا شروع کر دیں اور خطے کے باقی ملکوں نے طبی عملے اور بزرگ افراد کو بھی ویکسین نہ لگائی ہو۔‘

بشکریہ اردو نیوز

ایشیائی ممالک ویکسین کے لیے چین سے رابطے کرنے لگے

بنگلا دیش اور سری لنکا جیسے جنوبی ایشیائی ممالک کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کے لیے چین سے رجوع کر رہے ہیں کیونکہ بھارت نے اپنے ملک میں وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ اور ویکسین کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث اس کی برآمد معطل کر دی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے بیجنگ کو اسٹریٹجک اہمیت کے حامل بحرہند کے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد ملے گی۔ چین نے اپنی سائنو فارم ویکسین کی 11 لاکھ خوراکیں سری لنکا کو دی ہیں جب کہ بنگلہ دیش کو اس مہینے چین سے پہلے عطیے میں پانچ لاکھ خوراکیں وصول ہوئی ہیں۔ چین نے نیپال کو بھی ویکسین کی مزید 10 لاکھ خوراکیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ چین کی سپلائی سے ان ملکوں کو اپنے ہاں ویکسین لگانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں مدد ملے گی جو بھارت کی جانب سے فراہمی کی معطلی کے بعد رک گیا تھا۔

عالمی وبا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث یہ خوف سر اٹھا رہا تھا کہ کہیں کرونا وائرس کی دوسری لہر، جس سے بھارت نبرد آزما ہے، ہمسایہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے لیے پروگرام ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے ویکسین کی برآمد میں معطلی بیجنگ کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کے موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب بیجنگ کو اپنی ساکھ کے سلسلے میں مشکل وقت کا سامنا ہے، ویکسین ڈپلومیسی اس کام میں چین کی مدد کر سکتی ہے۔  سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے کئی ممالک کو، جنہیں چین کی تیار کردہ ویکسینز کے بارے میں ہچکچاہٹ کا سامنا تھا، پچھلے مہینے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے چین کی ویکسین سائنوفارم کے ہنگامی استعمال کے لیے منظوری مل گئی تھی جس کے بعد ان کے لیے چین سے ویکسین لینے کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اس سے قبل یہ ملک بھارت پر انحصار کر رہے تھے جس نے اس سال کے شروع میں سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال سمیت کئی ملکوں کو ایسٹرازینیکا اور دوسری ویکسینز فراہم کی تھیں۔

ان ملکوں نے بھارت میں قائم ویکسین بنانے والے دنیا کے سب سے بڑے مرکز سیرم لیبارٹریز کو کمرشل آرڈرز بھی دے دیے تھے لیکن بھارت میں وبا کے تیز پھیلاؤ کے باعث ان کی فراہمی رک گئی۔ پچھلے مہینے کئی ایشیائی ملکوں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے خطے کے لیے ویکسین کا ایمرجنسی سٹاک رکھنے کی پیش کش کی تھی۔  تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب جب کہ چین، بھارت کے چھوڑے ہوئے خلا کو بھرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے، ویکسین ڈپلومیسی اس خطے میں بیجنگ کی مدد کر سکتی ہے جو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کے تحت کئی ملکوں میں انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل کرنا چاہتا ہے۔ دہلی میں قائم اورسیز ریسرچ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہرش پنت کہتے ہیں کہ اس چیز کے پیش نظر کہ یہ بحران مستقبل میں جاری رہ سکتا ہے، اگر بھارت صورت حال مستحکم ہونے کے چند ماہ بعد تک ویکسین میں اپنا حصہ نہ ڈال سکا تو ان ملکوں میں چین کو ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔

سری لنکا میں چین پہلے ہی بندرگاہ، سڑکوں اور ریلوے سمیت انفراسٹرکچر کے کئی اہم منصوبے مکمل کر چکا ہے اور اب وہ کولمبو کے قریب ایک اہم بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے۔ کولمبو کے ایک سیاسی تجزیہ کار اسانگا ابے یاگونا سیکیرا کہتے ہیں کہ چین کو ویکسین کی مدد سے ملک میں اپنی بڑھتی ہوئی موجودگی میں مزید اضافے کے لیے ایک اور جہت مل گئی ہے۔  وبا کی دوسری لہر شروع ہونے سے پہلے بھارت نے ویکسین کی ساڑھے چھ کروڑ خوراکیں بیرونی ملکوں کو بھیجی تھیں، جس کے بعد برآمد کو روکنا پڑا۔ نئی دہلی کو توقع ہے کہ وہ وبا پر قابو پانے کے بعد ویکسین کی سپلائی بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا موجودہ سال کے آخر تک ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری جانب چین دنیا بھر میں سب سے زیادہ ویکسین برآمد کرنے والے ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ وہ اس وقت ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کو ویکسین فراہم کر کے عالمی وبا پر قابو پانے میں وہاں کے ملکوں کی مدد کر رہا ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ