بے دماغ و بد دماغ سیاست

اعلیٰ دماغ مغربی ممالک کی کوویڈ سے نمٹنے کی حکمتِ عملی سے اس تاثر کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ کوویڈ کا متاثر بظاہر صحت یاب ہو جائے تب بھی اثرات جسم اور ذہن کے مختلف افعال پر عرصے تک غالب رہتے ہیں اور ان سے چھٹکارا رفتہ رفتہ ہی ممکن ہے۔ اس تناظر میں مغربی بالخصوص یورپی دنیا کی ذہنی کیفیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کوویڈ کی نئی قسم اومیکرون سے بچنے کے لیے اپنی بری، بحری اور فضائی سرحدیں تو بند کر رہے ہیں مگر زائد از ضرورت کوویڈ ویکسین ذخیرے کو ایکسپائر ہونے سے پہلے پہلے دیگر ضرورت مند انسانیت کو عطیہ کرنے کے بجائے اسے کروڑوں کی تعداد میں ضایع کرنا زیادہ بہتر سمجھ رہے ہیں۔ ان ممالک کی قیادت یہ بنیادی نکتہ بھی سمجھنے سے بظاہر قاصر ہو چکی ہے کہ جب تک پوری دنیا محفوظ نہیں ہو گی تب تک پابندیوں کی اونچی اونچی دیواریں کسی بھی خطے کو وائرس سے محفوظ نہیں رکھ سکیں گی۔

مغربی ممالک سرحدوں کو بند کرنے، پروازوں کو محدود کرنے اور لاک ڈاؤن کی قیمت پر کھربوں ڈالر کا معاشی خسارہ برداشت کرنے پر تو آمادہ ہیں مگر غریب امیر کے فرق کو بالائے طاق رکھ کے عالمی ویکسینیشن کے لیے آستینیں چڑھانے اور صرف چند ارب ڈالر خرچ کر کے اپنی معیشت کوویڈ سے مستقل محفوظ کرنے کا ہدف حاصل کرنے کے بارے میں سوچنے سے معذور ہیں۔ چلیے مان لیا کہ آپ کسی بھی وجہ سے اپنے اضافی ویکسین ذخیرے پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ ظاہر ہے آپ نے اس ذخیرے کو خریدا ہے یہ آپ کی ملکیت ہے۔ اب آپ اسے استعمال کریں یا سمندر میں پھینکیں۔ مگر جب سو سے زائد ممالک بشمول اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہِ صحت گزشتہ ایک برس سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ مغربی حکومتیں ویکسین ساز کمپنیوں پر انٹلکچوئل کاپی رائٹس قوانین سے عارضی دستبرداری کے لیے دباؤ ڈالیں تاکہ اس انہونی عالمی وبا کا تیزرفتاری سے مقابلہ کیا جا سکے تب برطانیہ اور یورپی یونین (بالخصوص جرمنی، سوئٹزر لینڈ، برطانیہ) اس ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے لبیک کہنے کے بجائے دوا ساز کمپنیوں کے وکیل بن جاتے ہیں کہ وہ نجی شعبے کو کاپی رائٹس سے دستبرداری پر ایک حد سے زیادہ مجبور نہیں کر سکتے۔

اس بابت عالمی تجارتی ادارے ( ڈبلیو ٹی او ) کے سامنے چونسٹھ ممالک کی درخواست گزشتہ ایک برس سے پڑی ہے۔ مگر جن ممالک کی دوا ساز کمپنیاں ویکسین تیار کر رہی ہیں ان کی حکومتوں کے لیے انسانیت کو درپیش بحران کے مقابلے میں چند دوا ساز کمپنیوں کا منافع مقدم ہے۔ اسی لیے ڈبلیو ٹی او کی رکنیت کے باوجود یہ حکومتیں ہاں اور نہ کے درمیان نہ صرف خود لٹک رہی ہیں بلکہ باقی دنیا کو بھی لٹکا رکھا ہے۔ ننگے پن کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ خود ویکسین ساز کمپنیاں کاروباری رقابت میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور زیادہ سے زیادہ بزنس ہتھیانے کی دوڑ میں ایک دوسرے کی ویکسین کی افادیت پر اپنی اپنی پسندیدہ اجرتی ریسرچ لابیوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً ’’ تازہ ترین تحقیق‘‘ کے نام پر جاری رپورٹوں اور آنکڑوں کو اچھالتی ہیں تاکہ حکومتیں اور عام لوگ کنفیوز ہوں اور ایک ویکسین پر اٹھنے والے سوالوں کے جب تک تسلی بخش جوابات تلاش کریں تب تک دوسری کمپنی زیرِ تفتیش کمپنی کا بزنس لے اڑے۔

ویکسین کی یہ جنگ محض کمپنیوں تک محدود نہیں۔ ریاستیں بھی ویکسین سازی کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لیے ایک دوسرے سے مصروفِ پیکار ہیں۔ جیسے متعدد مغربی ممالک اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے دوسری دنیا کے چند متوسط ممالک چینی ، روسی ، بھارتی یا دیگر غیر مغربی ویکسینز کی افادیت تسلیم نہیں کرتے اور اصرار کرتے ہیں کہ مسافر اور مقامی شہری صرف وہی ویکسینز لگوائیں جو مغربی کمپنیاں بناتی ہیں۔ حالانکہ عالمی ادارہِ صحت کی منظور شدہ ویکسین فہرست میں غیر مغربی ویکسینز نہ صرف شامل ہیں بلکہ انھیں محفوظ اور موثر بھی قرار دیا گیا ہے۔ گویا مغرب نہ تو ویکیسن کا فالتو ذخیرہ ضرورت مندوں کو عطیہ کرنے پر آمادہ ہے ، نہ ہی ویکسین کی ترقی پذیر دنیا میں مقامی تیاری کی خاطر کاپی رائٹس قوانین کی عارضی معطلی میں تعاون کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظریے پر کاربند ہوتے ہوئے بھی مغرب کو یہ پہلو تنگ نہیں کر رہا کہ منڈی بیمار ہو گی تو مال کون خریدے گا اور مال نہ بکا تو خود مغربی معیشتوں کا کیا حال ہو گا۔

اور اگر حال دگرگوں ہوا تو چین کو ہدف بنا کر نئی سرد جنگ کے ایجاد کردہ خوف کا مستقبل کیا ہو گا ؟ اس بوالعجبیانہ تضاد کا علاج کوئی مہان ماہرِ نفسیات ہی بتا سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور عالمی ادارہِ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہنوم کا موقف ہے کہ کوویڈ کی وبا سے نمٹنے کی کوششوں میں گہری عدم مساوات کا مسئلہ تب ہی حل ہو سکتا ہے جب اسے بھی بنیادی انسانی حقوق کی عینک سے دیکھا جائے۔ مگر دونوں اعلیٰ عالمی عہدیدار یہ بھی جانتے ہیں کہ مغرب چونکہ گرم و سرد جنگ کا برس ہا برس سے چشیدہ ہے۔ لہٰذا ذہنی عینک بھی وہی ہے جو اس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے نہیں اتاری۔ مغرب کے لیے آج کا چین اور روس کوویڈ سے بڑا خطرہ ہے۔ کوویڈ اگر جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوتا یا کوئی خود کش بمبار ہوتا تب شاید دنیا کو اس خطرے سے بچانے کے نام پر مغرب کب کا دوڑ پڑتا۔

مغرب کوویڈ سے پہنچنے والے معاشی خسارے سے اتنا ہونق نہیں جتنا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے ہے۔ اس منصوبے کے مقابلے کے لیے مغرب نے تین سو ارب یورو کے فنڈ کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو چین کے قرضوں کے جال والی سفارت کاری سے بچاتے ہوئے انھیں  انفرا اسٹرکچر منصوبوں کو کھڑا کرنے میں رعائیتی نرخوں پر مدد فراہم کی جائے۔ مگر مغرب چین کی کوویڈ ڈپلومیسی کے مقابلے میں تیسری دنیا کو کوویڈ ویکسین سے بھر دینے یا ویکسین کی تیاری کے لیے انٹلکچوئل کاپی رائٹس معطل کروانے کے کام پر ہرگز آمادہ نہیں۔ اگر یہی اعلیٰ دماغ سفارت کاری ہے تو پھر بین الاقوامی بد دماغی اور بے دماغی کیا ہے؟

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کورونا کے بگڑنے کا انتظار نہ کریں

آپ میں سے جن لوگوں کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ زندگی نے اُن کے ساتھ بہت نا انصافی کی ہے، وہ یہ واقعہ پڑھنے کے بعد فیصلہ کریں کہ کیا اُن کے ساتھ ڈاکٹر لی سے بھی زیادہ نا انصافی ہوئی ہے؟ چین کا ڈاکٹر لی وہ پہلا شخص تھا جس نے دنیا کو کورونا وائرس کے خطرے سے آگاہ کیا۔ یہ ڈاکٹر ووہان کے اسپتال میں کام کرتا تھا ، دسمبر 2019 میں جب وہاں اوپر تلے سات مریض داخل ہوئے جن میں ایک ہی قسم کی علامات تھیں تو اِس ڈاکٹر کا ماتھا ٹھنکا۔ اُس نے اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے سامنے یہ بات رکھی اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ اسے یہ سارس وائرس کی کوئی شکل لگ رہی ہے۔ چار دن بعد ڈاکٹر لی کو’عوامی تحفظ بیورو ‘ نے طلب کیا جہاں اسے ایک ’بیانِ حلفی‘ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جس میں لکھا تھا کہ اُس نے جھوٹی افواہیں پھیلائیں ’’جس سے نظم اجتماعی کو سخت نقصان پہنچا‘‘۔

بیورو کے افسران نے اسے سخت لہجے میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم تمہیں متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر تم نے اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی اور اسی لاپروائی کے ساتھ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے تو تمہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا، بات سمجھ میں آ گئی ؟‘ ڈاکٹر لی نے خاموشی سے سر جھکا دیا اور ’جی جناب‘ کہہ کر وہاں سے نکل آیا۔ یہ 3 جنوری 2020 کا واقعہ ہے۔ چینی حکام کی جانب سے ڈاکٹر لی کو جاری کیا گیا یہ خط آج بھی بی بی سی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ 10 جنوری کو خود ڈاکٹر لی میں کورونا کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں اور دو دن بعد اسے اسپتال داخل کر دیا گیا۔ 20 جنوری کو چین نے اِس وبا کے تناظر میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ چینی حکام نے ڈاکٹر لی سے معافی مانگی۔مگر اس وقت تک دیر ہو چکی تھی ۔ ٹھیک اٹھارہ دن بعد 7 فروری 2020 کو تینتیس سالہ ڈاکٹر لی وین لیانگ کی کورونا وائرس کی وجہ سے موت واقع ہو گئی۔

سنہ 2020 کورونا وائرس کا سال تھا ، اِس ایک سال میں جہاں یہ وائرس دنیا کو لاکھوں اموات دے گیا وہاں انسان کو یہ سبق بھی سکھا گیا کہ اپنی خواہش کے تابع کسی چیز کا انکار یا اقرار کرنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ چینی حکام نے ڈاکٹر لی کی سرزنش تو کر دی مگر اُس سے کورونا وائرس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اِس پورے سال میں ہم نے کئی سازشی تھیوریاں سنیں ، کسی نے کہا کہ بل گیٹس اپنی ویکسین بیچنے کی خاطر یہ وائرس پھیلا رہا ہے اور کسی نے فائیو جی کے کھمبوں کو وائرس پھیلانے کا ذریعہ قرار دیا ۔ کسی نے وائرس کے متعلق عجیب و غریب پیشگوئیاں کیں تو کسی نے کووڈ کا علاج جڑی بوٹیوں سے بتایا۔  کوئی پیشگوئی درست ثابت ہوئی اور نہ ہی کوئی ٹوٹکا کام آیا، کسی سازشی تھیوری کا سراغ ملا اور نہ ہی فائیو جی کے کھمبے اکھاڑ کر کچھ نکلا۔ آج ہم سب کو اُس ویکسین کا انتظار ہے جو تیاری کے آخری مراحل میں ہے ، یہ ویکسین پچانوے فیصد تک موثر ہے ۔

ماہرین کے مطابق اس ویکسین کے استعمال سے اگلے موسم سرما تک دنیا اپنے معمول پر واپس آ جائے گی۔ ہمارا کام بس اتنا ہے کہ جب تک یہ ویکسین نہیں آتی، اُس وقت تک احتیاط کریں اور اگر خدانخواستہ آپ میں کورونا کی علامات ظاہر ہوں تو کچھ ایسی باتو ں پر عمل کریں جن سے یہ بیماری بگڑنے نہ پائے۔ یہ باتیں کیا ہیں؟ پہلی بات یہ ہے کہ بیماری کا انکار نہ کریں ۔ یہ درست ہے کہ ہر کھانسی یا بخار کورونا نہیں ہوتا، آج کل موسم تبدیل ہو رہا ہے جس سے لوگوں کو عام فلو بھی ہو رہا ہے مگر کورونا کی علامات مخصوص ہیں۔ جونہی یہ علامات ظاہر ہوں فوراً اِس کا ٹیسٹ کروائیں مگر ساتھ ہی اپنی چھاتی کا ایکسرے اور کچھ خون کے ٹیسٹ بھی کروا لیں، مثلاً سی بی سی ، ای ایس آر، ڈی ڈائمر وغیرہ ، پوری تفصیل آپ کو کسی مستند ڈاکٹر سے مل سکتی ہے، ویسے تو فدوی کے پاس بھی یہ تفصیل موجود ہے مگر فدوی چونکہ ڈاکٹر نہیں اس لیے (اعلان دستبرداری) دے دیا ہے۔

فائدہ اِس کا یہ ہو گا کہ کورونا کے ٹیسٹ سے پہلے یہ ٹیسٹ مل جائیں گے اور علاج فوراً شروع ہو سکے گا۔ اِس بیماری میں بروقت تشخیص بے حد ضروری ہے۔  ہمارے دلبر جانی ارشد وحید چوہدری کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انہیں کچھ دنوں سے بخار، کھانسی وغیرہ تھی مگر وہ یہی سمجھے کہ عام موسمی بخارہے، اس میں کئی دن گزر گئے۔ جب تک کورونا کا ٹیسٹ کروایا اُس وقت تک بیماری بگڑ چکی تھی، ارشد کو وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا اور پھر وہاں سے یہ ہیرے جیسا صحافی واپس نہیں آیا۔ کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور! کورونا میں بروقت تشخیص کے دو فائدے ہوتے ہیں ، ایک تو ڈاکٹر آ پ کو اسی سنجیدگی سے لیتے ہیں جس سنجیدگی سے آ پ بیماری کو لیتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر یہ دیکھے کہ آپ پورے ٹیسٹ لے کر اُس کے پاس آئے ہیں تو اسے علاج میں بھی آسانی ہو جاتی ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ایکسرے یا خون کے نمونوں میں کوئی بڑی خرابی نظر آئے تو پھر جان بچانے والی ادویات ، اینٹی بائیوٹک اور ضروری انجکشن وغیرہ بر وقت دیے جا سکتے ہیں۔

یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے اگر مریض بیماری کا انکار کرنے کی بجائے حقیقت قبول کرے اور ٹوٹکوں کی بجائے میڈیکل سائنس کے مطابق علاج کروائے۔ اِس دوران مریض کو اپنا سیچوریشن لیول بھی دیکھتے رہنا چاہیے ، آج کل یہ اسمارٹ فون سے بھی دیکھا جا سکتا ہے ، اگر کسی دن یہ مسلسل چوبیس گھنٹوں تک 94 سے نیچے رہے تو ایسی صورت میں فوراً اسپتال داخل ہو جانا چاہیے ۔ اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ وائرس اب اتنا خطرناک ہو چکا ہے کہ کسی ٹیسٹ میں ظاہر نہیں ہوتا لہٰذا اِس سے پریشان نہ ہوں ۔ یہ وہ چند باتیں ہیں جن پر عمل کر کے اِس موذی مرض کو بگڑنے سے روکا جا سکتا ہے ۔ رہ گئی احتیاط تو وہ آج بھی وہی ہے ، ماسک پہنیں ، ہاتھ دھوئیں ، ہجوم اور بھیڑ سے بچیں۔ البتہ حواس باختہ نہ ہوں، گھر کی چیزوں کو ، اپنے جوتوں یا کپڑوں کو پاگل پن کی حد تک صاف کرنے کی ضرورت نہیں ۔ دل کا میل البتہ ضرور صاف کرتے رہیں۔

یاسر پیر زادہ

بشکریہ روزنامہ جنگ

کورونا وائرس : طویل المیعاد حکمت عملی ناگزیر ہے

دنیا کے کئی ملکوں میں کورونا وائرس کے متاثرین میں ازسرنو اضافہ دیکھا جارہا ہے جس سے واضح ہے کہ اس عالمی وبا پر قابو پانے کی کوششیں اب تک کارگر ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ پاکستان میں بھی کیسوں میں مسلسل کمی کا جو رجحان جاری تھا وہ کسی قدر تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور امریکا میں کورونا کے کیسوں میں اضافے جبکہ بحیثیت مجموعی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں کمی کا رجحان رہا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں بھی معمولات زندگی کی بڑی حد تک بحالی کے بعد کورونا کے نئے کیس سامنے آرہے ہیں۔ صورت حال کے جائزے میں اس نکتے کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے کہ متاثرین اور فوت ہونے والوں کی تعداد ضروری نہیں کہ اتنی ہی ہو جتنی سرکاری ریکارڈ پر ہے کیونکہ اس میں ٹیسٹ نہ کرانے والے لوگ شامل نہیں ہوتے جبکہ دو تہائی دیہی آبادی پر مشتمل اس ملک میں ایسے افراد کا بھی خاصی تعداد میں ہونا بالکل قرین قیاس بلکہ یقینی ہے۔

بہرحال ریکارڈ پر موجود معلومات کے مطابق وبا کی ملک میں آمد کے بعد سے اب تک اس سے متاثر ہونے والوں کی کل تعداد 3 لاکھ 13 ہزار اور اموات کی تعداد ساڑھے چھ ہزار تک پہنچی ہے۔ تقریباً تین لاکھ افراد صحت یاب ہو گئے ہیں۔ ملک بھر میں وینٹی لیٹر پر منتقل کئے گئے مریض سو سے کم ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت اور دنیا کے دوسرے کئی ملکوں کے مقابلے میں اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں یہ وبا بے لگام نہیں ہو سکی اور صورت حال قابو میں ہے لیکن کیسوں میں مسلسل کمی کے رجحان کا منفی طور پر بدلنا بہرصورت فوری توجہ کا طالب ہے۔ کراچی میں احتیاطی تدابیر ملحوظ نہ رکھنے والے شادی ہالوں، ریستورانوں اور اسکولوں کی بندش اور گاڑیوں کی ضبطی متعلقہ حکام کی ذمہ داری تھی اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اس پر شکوے شکایت کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ جب تک اس وبا کا شافی علاج دریافت اور اس سے عام استفادہ ممکن نہ ہو جائے اس وقت تک احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل درآمد ہی مسئلے کا حل ہے۔

ایسا نہ کرنے کا مطلب صرف اپنی ذات کو نہیں پورے معاشرے کو خطرے میں ڈالنا ہے جس کا سنگین جرم ہونا محتاج دلیل نہیں۔ جہاں تک مرض کے شافی علاج کا تعلق ہے تو عالمی سطح پر ادویات اور ویکسین کی تیاری کی خبریں تو بہت آتی رہی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس سمت میں اب تک کوئی واضح عملی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ ایسا کیوں ہے؟ متعلقہ عالمی اداروں پر اس سوال کا اطمینان بخش جواب واجب ہے۔ بظاہر لگتا یہی ہے کہ ابھی خاصی مدت تک کورونا کا کوئی حتمی علاج عالمی سطح پر متعارف نہیں ہو پائے گا جس کی بناء پر ناگزیر ہے کہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے طویل المیعاد اور قابلِ عمل حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ احتیاطی تدابیر کی سختی سے پابندی اس کی بہرحال اولین شق ہونی چاہئے جبکہ زیادہ سے زیادہ کاموں کا آن لائن انجام دیا جانا اور اس کے لیے مزید تمام ممکنہ سہولتوں کا ہر سطح پر فراہم کیا جانا بھی اس میں لازماً شامل ہونا چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کورونا وائرس پر شک و شبہات

پوری دنیا اس وقت کورونا وائرس کا شکار ہے۔ اب 3 ماہ کے کلی اور جزوی لاک ڈائون پر شکوک کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ بڑے بڑے نامور پروفیسر صاحبان پہلے اس وائرس کو سمجھنے میں لگے ہوئے تھے، اب اس پر اپنے اپنے تحفظات؍ تحقیقات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک نامور کیمسٹری کے پروفیسر مائیکل لیوٹ جن کو 2013ء میں کیمسٹری میں نوبیل پرائز ملا تھا، نے برملا اس وائرس پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک غیر تحقیق شدہ مفروضہ وائرس صرف اقتصادی ماہرین کی منطق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس پر سائنسی ماہرین کی رائے ایک جیسی نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی حتمی حل نظر آرہا ہے۔ ماسوائے اقتصادی تباہی، اربوں انسانوں کو لاک ڈائون کر کے بھوک پیاس اور خوف سے مارا جا رہا ہے۔

انہوں نے بھارتی حکومت پر خصوصی طور پر تبصرہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ 1 ارب 40 کروڑ عوام کو 2 ماہ غیر صحتمند علاقوں، مکانوں اور بستیوں میں قید رکھا گیا، جبکہ وائرس سے اموات صرف چند سو تھیں۔ بھوک اور گھٹن سے کتنی اموات ہوئیں، اس غریب ملک میں جہاں 30 فیصد آبادی بے گھر ہے، 2 وقت کا کھانا بھی دستیاب نہیں، کل کام ملے گا یا نہیں اس خوف سے کتنے لوگ مر گئے، اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ پوری دنیا کو بیروزگاری میں مبتلا کر کے کس کس کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔ یقیناً یہ ایک گھنائونا کھیل، انسانوں کی آبادیاں کم کرنے اور معیشت پر کنٹرول کرنے کی سازش گزشتہ 10 سال سے خصوصی طور پر تیار کی گئی تھی۔

یہی نہیں امریکہ جو اس وائرس کی لپیٹ میں سب سے آگے ہے، یہاں کے دانشور اور ماہر اقتصادیات بھی اب کھل کر لاک ڈائون کے خلاف میدان میں عوام کے شانہ بشانہ آ چکے ہیں۔ ہر محاذ پر اس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بیروزگاری سے تنگ آکر امریکہ کی پہلے 28 ریاستوں نے بغاوت کی اور عوام کے غم و غصہ سے بچنے کے لئے لاک ڈائون میں نرمیاں کیں، پھر اب پورے امریکہ سے لاک ڈائون ختم کر دیا۔ شراب خانے، جوا خانے، شاپنگ مالز ایک ایک کر کے سب کھول دیا گیا ہے۔ ریسٹورنٹس میں عوام کو کھانا کھانے کی اجازت بھی مل چکی ہے، کئی ریاستوں میں ماسک اور فاصلے بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔ اٹلی جو اس مہلک وائرس کا شکار دوسرا بڑا ملک ہے، جہاں 35 ہزار اموات اور لاکھوں مریضوں ہیں، اس کی پارلیمنٹ کی ایک معزز رکن سارہ کونیل نے اس وائرس کا موجد مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس کو ٹھہرا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا۔

اپنی تقریر میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی معلومات کے مطابق اربوں ڈالر خرچ کر کے بل گیٹس نے اپنی کورونا چپس بیچنے کے لئے یہ خوف پھیلایا اورعالمی میڈیا کو اپنے ساتھ ملا کر 8 ارب چپس عوام کے جسموں میں لگا کر اپنے نامعلوم عزائم کے لئے 10 سال سے راہیں پیدا کی گئیں تاکہ وہ ان کی ویکسین اور چپس سے بڑھتی ہوئی آبادیوں کو کنٹرول کر سکے۔ خصوصاً افریقہ کی غریب آبادیاں ان کا ٹارگٹ تھیں اس لئے انہوں نے اپنی ویکسین کو آزمانے کے لئے کینیا کو بہت بڑی رقم پیش کی جس کو کینیا کی حکومت نے ٹھکرا دیا، انہوں نے بل گیٹس کو بین الاقوامی مجرم ٹھہراتے ہوئے عالمی عدالت میں ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سینئر رکن اسمبلی کی تقریر کو عالمی میڈیا نے خاص کوریج نہیں دی اور دیگر میڈیا نے خصوصاً مائیکرو سافٹ کے زیر اثر ہونے کے سبب اس خبر کا بلیک آئوٹ کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے اپنا الیکشن جیتنے کیلئے چین کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے یہ کھیل رچایا تھا اور بار بار کہہ رہا ہے کہ آپ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون بند کریں اور اس نے اس کو نیچا دکھانے کے لئے 28 کمپنیوں کو وہاں سے نکال کر انڈونیشیا میں نئے معاہدے پر دستخط کئے۔ الیکشن جیتنے کے لئے اسی طرح فلسطین کو تقسیم کر کے بیت المقد س پر یہودیوں کے قابض ہونے کا جو پلان بنایا تھا وہ سارا اس کے اگلے الیکشن کا اہم حصہ ہے۔

بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پوری دنیا کی معیشت جو امریکی یہودیوں کے نو، دس اداروں کے پاس ہے وہ آئی ایم ایف کے ذریعے پوری دنیا کو مفلوج بنانا چا ہتے تھے اور وہ اس پر کافی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں، اس لئے یہ وائرس کا معاملہ شک و شبہات سے بھرپور ہے۔ اس وقت اس وائرس کی وجہ سے ایئر لائنز کی صنعت کو 60 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ ہزاروں طیارے پوری دنیا کے ہوائی اڈوں پر قطار در قطار کھڑے طیاروں کے قبرستان کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ لاکھوں ایئر لائنز اسٹاف کو فارغ کیا جا چکا ہے، اس سے ملحق ہوٹل، ریسٹورنٹس اشیاء کی بندش سے 130 ارب ڈالرز کی مزید انڈسٹری کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

البتہ پیٹرول کی قیمتیں 30 ڈالر تک واپس آچکی ہیں۔ عرب امارات، افریقی ممالک، کوریا، تائیوان، یورپی یونین اور برطانیہ کی حکومتیں لاک ڈائون ختم کر چکی ہیں اور آہستہ آہستہ دیگر ممالک بھی لاک ڈائون بتدریج ختم کر رہے ہیں۔ جولائی تک حتمی طور پر پوری دنیا لاک ڈائون سے چھٹکارا پا سکے گی، بشرطیکہ اس وائرس کے منفی اثرات میں غیر معمولی تیزی نہ آئے۔ مگر ایک بات ہے ہر طبقہ میں اس وائرس پر شک و شبہ کا اظہار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھوک و افلاس اور بیروزگاری ہے جو 90 فیصد دنیا کی آنکھیں کھول چکی ہے۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ

کرونا وائرس : دنیا کساد بازاری کی زد میں

کورونا کے حوالے سے دنیا میں معاشی عدم استحکام کے جو خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے، وہ حقیقت بن کر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، اس کی ایک جھلک محض امریکہ میں یہ سامنے آئی ہے کہ بیروزگاری الائونس کی درخواست جمع کرانے والے شہریوں میں کمی کے باوجود 32 لاکھ امریکیوں نے بیروزگاری الائونس کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ دوسری جانب کورونا کے باعث یورپ کی بڑی معیشتوں جرمنی، فرانس اور برطانیہ کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے۔ جرمنی اور فرانس میں لاک ڈائون کے باعث صنعتی پیداوار متاثر ہوئی ہے جبکہ برطانیہ کا کہنا ہے کہ اس سے معیشت 14 فیصد سکڑ جائے گی۔ یہ خبر سامنے آئی تھی کہ یورپ پر تاریخی کساد بازاری کے سائے منڈلا رہے ہیں معیشت میں 7.7 فیصد کمی متوقع ہے۔ بھارت میں 12 کروڑ افراد بیروزگار ہو گئے ہیں اور برطانیہ میں بھی بیروزگاروں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔

ریسرچ فائونڈیشن تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد 10 لاکھ تک جا سکتی ہے، جرمنی اگرچہ جلد سنبھل سکتا ہے تاہم یونان اور اسپین سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ان حالات میں اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ڈھلمل معیشت کے حامل پاکستان کو کن حالات اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کوئی شک نہیں کہ کورونا کے بعد کی صورتحال زیادہ پیچیدہ و کٹھن ہو گی صرف مغربی ممالک ہی نہیں پوری دنیا کساد بازاری کی زد میں آنے کا قومی اندیشہ ہے۔ پاکستان کے حوالے سے یہ روح فرسا خبر ہی کافی ہے کہ بجٹ خسارہ 9.6 فیصد پر پہنچ سکتا ہے۔ البتہ حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کا متعارف کرایا جانے والا رسک شیرنگ میکنزم جس کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو 30 ارب روپے سبسڈی دے کر بیروزگاری روکنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ لیکن کافی نہیں حکومت کو مزید ایسے پروگرام سامنے لانے کیلئے اصول و ضوابط میں نرمی لا کر پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے اس معاملے کا موثر حل تلاش کرنا ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ