ہر شہری کا خواب کرپشن فری پاکستان

توشہ خانہ میں ہو نے و الی اربوں روپوں کی بے ضابطگیوں کے حوالے سے ملک کے سنجیدہ سیاسی حلقوں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ تحریک انصاف اور ماضی کی حکومتوں میں وزرائے اعظم نے اربوں روپے کے تحائف کو معمولی قیمت ادا کر کے خریدا اور بیچا۔ اس کرپشن میں اقتدار میں رہنے والی سیاسی پارٹیوں کے لوگ برابر کے شریک ہیں۔ گزشتہ تیس برسوں کا ریکارڈ بھی منظر عام پر لایا جانا چاہئے تاکہ قوم کو بھی معلوم ہو سکے کہ اس بہتی گنگا میں کس کس نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی حکومتوں نے ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اقتدار کے حصول کی اس جنگ میں ملک کے اندر، انتقامی اور ایک دوسرے کی عزت اچھالنے کی جو سیاست ہو رہی ہے وہ کسی طور پر بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں دونوں کو قومی اداروں میں ایسے افراد درکار ہوتے ہیں جو انہیں کندھوں پر اٹھا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائیں۔ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

ماضی میں سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی ہوس نے ریاستی نظام کو کمزور اور اخلاقی اقدار کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ جب تک اسمبلیوں میں عام آمی نہیں پہنچے گا، اس وقت تک حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے ملکی سیاست اور معیشت دونوں کو مفلوج کر دیا ہے قوم کو ان کے خلاف اٹھنا ہو گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عوام ڈینگی سے مر رہے ہیں۔ سیلاب زدگان سردیوں کی آمد سے پریشان ہیں، عوام مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کی بھینٹ چڑھتے چلے جارہے ہیں، مگر لگتا ہے کہ اربابِ اقتدار کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔ حالات دن بدن سنگین سے سنگین تر ہوتے چلے جارہے ہیں حیرت ہے کہ جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی باتیں کرنے والے اپنی پارٹی میں جمہوریت قائم نہیں کر سکے۔ ان پارٹیوں میں کلیدی عہدوں پر موروثیت ہی نظر آتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوریت کا نہ ہونا المیہ اور ملک کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اقتدار کے حصول کی خاطر اداروں کی طرف دیکھنا، انہیں بدنام کرنا، جھوٹے اور من گھڑت بیانیے بنا کر چڑھائی کرنا، ملک کے اندر انتشار پھیلانا، اضطراب کی کیفیت طاری کرنا اور سفارتی تعلقات خراب کرنا شرمناک عمل ہیں۔

تحریک انصاف کی قیادت اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہئے۔ تعجب خیز امر ہے کہ سائفر اور ایبسلوٹلی ناٹ کے بیانیے والے اب امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ ملک کے حالات کو ذاتی مفاد کی خاطر بند گلی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ جمہوری اقدار کی مضبوطی کے لئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ملک ہے تو سب کچھ ہے۔ حالات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں لے جانا چاہئیں۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں ہی موجودہ حالات کی ذمہ دار ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی دونوں ملکی مفاد کی خاطر ایک دوسرے کو برداشت کریں اور ملک کو معاشی مسائل اور غربت سے نکالنے کے لئے اپنا کردا ادا کریں۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے کسی کو کچھ نہیں ملے گا۔ اتحادی حکومت بھی عوام کو ابھی تک کوئی بڑا ریلیف نہیں دے پائی۔ شہباز شریف جب سے وزیراعظم بنے ہیں، عام آدمی کی زندگی دن بدن مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ پاکستانی روپیہ بھی سنبھلنے کا نام نہیں لے رہا۔

ڈالر کو اسحق ڈار کنٹرول نہیں کر سکے۔ ان حالات میں عوام کی زندگی مصائب کا مسکن بن چکی ہے۔ تین ماہ کے لئے گیس کی سپلائی بند کرنے سے صنعتیں مستقل بند اور کروڑوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ارباب اقتدار کے عاقبت نا اندیش فیصلوں کے باعث ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ کرپشن اور خرد برد کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ ملک میں امن وامان کی صورتحال بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ کراچی کی طرح اب صوبائی دارالحکومت لاہور میں بھی جرائم کی وارداتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے۔ ملک میں جنگل کا قانون ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق جنوری 2022ء سے 31 جولائی 2022ء تک جرائم کی وارداتوں کے حوالے سے جو کیسز رجسٹرڈ ہوئے ان کی تعداد 4 لاکھ 32 ہزار 821 تھی۔ 4632 افراد اقدام قتل کے واقعات میں زخمی ہوئے جبکہ 2673 افراد قتل کئے گئے۔ 13337 اغوا برائے تاوان کی واردتیں ہوئیں۔ جب تک پولیس کے نظام پر عوام کا اعتماد بحال نہیں ہو گا اس وقت تک حالات سازگار نہیں ہو سکتے۔ کرپشن فری پاکستان ہر محبِ وطن پاکستانی کا خواب ہے اور اس کی تکمیل کے ضروری ہے کہ قوم جرأت مند، پڑھی لکھی اور ایماندار قیادت کو آئندہ الیکشن میں موقع دے۔

محمد فاروق چوہان

بشکریہ روزنامہ جنگ

پاناما لیکس سے بھی زیادہ اہم ’’ پینڈورا پیپرز‘‘ آخر ہیں کیا؟

فراڈ، جعلسازی، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ سے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور اثاثے بنانے کی عالمی تحقیقی تفتیشی رپورٹ ’پینڈورا پیپرز‘ کے نام سے سامنے آگئی ہے۔ یہ رپورٹ بین الاقوامی صحافیوں کی غیرسیاسی تنظیم ’انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘ نے اپنی ویب سائٹ پر شائع کی ہے۔ اس میں 200 ممالک کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ ایک کروڑ بیس لاکھ دستاویز دیکھی گئی ہیں جن کا ڈیٹا تین ٹیرا بائٹ کے برابر بنتا ہے۔ رپورٹ میں اثاثے جمع کرنے ، انہیں پوشیدہ رکھنے یا ٹیکس چوری سے دولت جمع کرنے کا تفصیلی احوال بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ آف شور کمپنیاں اور اثاثے بنانا غیرقانونی نہیں لیکن پینڈورا پیپرز میں بطورِ خاص ایسے معاملات پر زور دیا گیا ہے جن میں دولت کو ان کے اپنے ملک میں ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔

ان تحقیقات دنیا بھر کے 330 حکومتی اہلکار اور سیاستداں شامل ہیں جبکہ فوربس کے تحت 130 ارب پتی افراد، مشہور کھلاڑی، فنکار، اسلحہ فروش اور منشیات کے اسمگلر بھی شامل ہیں۔ اس تحقیقات میں 117 ممالک کے 600 صحافیوں نے اپنا تحقیقاتی کردار ادا کیا ہے۔ تحقیق کے لیے افشا شدہ دستاویز کا جائزہ لیا گیا جو 14 آف شور کمپنیوں سے جاری ہوئی تھیں۔ تمام افراد نے ایسے ممالک میں سرمایہ کاری کی جہاں دھن کے متعلق کوئی سوال جواب نہیں کیا جاتا، قوانین نرم ہیں یا پھر ٹیکس کی شرح کم ہے۔

ڈیٹا کا سونامی
آئی سی آئی جے نے ان دستاویز کو ڈیٹا کا طوفان قرار دیا ہے جس میں 64 لاکھ ٹیکسٹ دستاویز شامل ہیں جن میں 40 لاکھ پی ڈی ایف ہیں اور بعض فائلیں تو دس ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں ای میلز، اسپریڈ شیٹ اور تصاویری دستاویز بھی شامل ہیں۔ دستاویز انگریزی، عربی، ہسپانوی، روسی اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ہیں۔ یہ ڈیٹا 27 ہزار کمپنیوں سے لیا گیا ہے۔

پانامہ پیپرز سے بڑا اسکینڈل
واضح رہے کہ یہ دستاویز پانامہ لیکس کے مقابلے میں دوگنا ہیں۔ اس میں 330 سیاستدانوں اور حکومتی اہلکاروں کا احوال شامل کیا گیا ہے۔ ان کا تعلق 90 ممالک سے ہے جن میں 35 ایسے افراد ہیں جو اس وقت یا سابق سربراہان میں شامل تھے۔ تاہم روس اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے جن میں ارجنیٹٰینا، برازیل اور ویینزویلا سرِ فہرست ہیں۔ واضح رہے کہ اس ضمن میں مزید تفصیلات آئی سی آئی جے کی ویب سائٹ پر ریلیز کی جارہی ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ایف بی آر اور پاکستانی معیشت

کسی بھی ملک یا ریاست کی معیشت کے مضبوط یا کمزور ہونے کا دارومدار کسی حد تک اس کے ٹیکس نظام پر ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے لیکن اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد ٹیکس سے متعلق ڈیپارٹمنٹس نے کرنا ہوتا ہے۔ اگر قانون کو اس کی اصل روح کے مطابق لاگو کیا جائے اور مانیٹرنگ کا بااثر نظام موجود ہو تو سرکار کے ساتھ عام آدمی کو بھی اس کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ قوانین بن جاتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اگر مجبوراً عمل کرنا پڑ بھی جائے تو انہیں اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ لیا جاتا ہے۔ اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو تو سٹے آرڈر کے سہارے کئی سال گزار لیے جاتے ہیں۔ مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے‘ جس پر قائم ہوتے ہی سٹے لے لیا گیا تھا جو تقریباً گیارہ سال تک چلا۔ اس عرصے میں یہ ادارہ غیر فعال رہا۔ اس کا کام اشیا کی قیمتوں کو بلاوجہ بڑھنے سے روکنا تھا لیکن اس ادارے کو غیر فعال کرنے کے لیے پاکستان کی تقریباً تمام بڑی صنعتوں نے عدالت سے رجوع کیا اور اس پر سٹے لے لیا؛ یعنی کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کا احتساب کیا جائے۔

اکتوبر 2020ء میں جب سے یہ ادارہ بحال ہوا ہے‘ اسے کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔ جو افسر بھی کسی بڑی کمپنی‘ کسی بڑے ادارے پر چھاپہ مارتا ہے اس کو ٹرانسفر کروانے کی کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بحالی کے نو ماہ بعد بھی اس کی کارکردگی غیر متاثر کن ہے۔ اسی طرح کی صورتحال وفاقی ٹیکس محتسب پاکستان (ایف ٹی او) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کی بھی ہے۔ ایف ٹی او کا کام ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر ٹیکس افسران کا احتساب کرنا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر سے لے کر ایف بی آر کے کلرکس تک‘ سب کا احتساب ایف ٹی او کے سپرد ہے۔ اپریل 2021ء میں ایف بی آرہیڈ کوارٹر نے کراچی، اسلام آباد اور لاہور کے آٹو میٹک ایکسچینج آف انفارمیشن زونز (اے ای او آئی) کو دو ارب ڈالر ریکوری کے 1579 کیسز بھیجے تھے جن میں مارچ 2021ء تک 1150 کیسز سے ریکوری کی گئی وہ بھی محض 30 ملین ڈالرز۔ اسلام آباد اور کراچی سے ریکوری 22 ملین ڈالرز سے بھی کم تھی۔ فارن کرنسی اکائونٹس کراچی اے ای او آئی زون کی کارکردگی لاہور اور اسلام آباد سے بھی زیادہ مایوس کن رہی۔ 899 میں سے 275 کیسز حل طلب تھے۔

ہیڈکوارٹر نے تقریباً ایک بلین ڈالرز مالیت کے کیسز کراچی زون کو بھجوائے تھے جن سے صرف 19 ملین ڈالرز کی وصولی ہو سکی۔ اسی طرح اسلام آباد زون کو 365 ملین ڈالرز کے کیسز دیے گئے جس میں سے صرف 3 ملین ڈالرز روصول کیے گئے۔ میں نے اپریل میں بھی اپنے ایک کالم کے ذریعے اس ایشو کی نشاندہی کی تھی۔ اب اس معاملے نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے اور آج اس نئی پیش رفت کے بارے میں بات کریں گے۔ یاد رکھیے کہ ایف ٹی او کا مقصد اس بات پر تحقیق اور تفتیش کرنا تھا کہ اتنی کم وصولی ہونے کی وجہ کیا ہے۔ کیا یہ لاپروائی کا نتیجہ ہے یا پھر ملی بھگت سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایف ٹی او کا یہ شک بے بنیاد نہیں ہے۔ ایف بی آر میں ایسا طریقۂ واردات بہت عام ہے۔ کسی نوٹس کے جواب میں تھوڑا بہت ٹیکس جمع کروا کر خانہ پوری کر دی جاتی ہے۔ بعض معاملات میں سرکاری ملازمین خود ہی سارے چور راستے بتا دیتے ہیں۔

کروڑوں روپوں کے ٹیکس کو ہزاروں میں بدل دیا جاتا ہے۔ جعلی کاغذات کیسے تیار کیے جاتے ہیں‘ اس بارے میں بھی مکمل رہنمائی کی جاتی ہے۔ کسی بھی طرح فائلوں کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے۔ فائلیں اسی نظریے سے تیار کی جاتی ہیں کہ اگر آڈٹ ہو جائے یا انکوائری کرنی پڑ جائے تو اس میں سے بآسانی نکل جائیں۔ یہ پریکٹس عام ہونے کی وجہ سے وفاقی ٹیکس محتسب پاکستان نے مذکورہ کم ریکوریز کے حوالے سے انکوائری کا حکم دیا۔ آن لائن شکایات ملنے کے بعد سوموٹو نوٹس لیا گیا۔ یہ کارروائی یکطرفہ نہیں تھی بلکہ اس میں ایف بی آر کو پورا موقع دیا گیا کہ ان کا ایک نمائندہ انکوائری ٹیم میں شامل ہو‘ تاکہ مستقبل میں اعتراض نہ اٹھایا جا سکے کہ تحقیقاتی رپورٹ تعصب پر مبنی ہے۔ جواب نہ آنے پر چیئرمین ایف بی آر اور ممبر ان لینڈ ریونیو کو نوٹس بھیجا گیا۔ ایف بی آر نے جواب دیا کہ ایف ٹی او کے پاس اختیار ہے کہ وہ ایف بی آر کے نمائندے کے بغیر بھی انکوائری کر سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایف بی آر نے اپنا نمائندہ مقرر کرنے کے بجائے ایف ٹی او کے نوٹس کے خلاف سٹے لے لیا جس میں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ ایف ٹی او کے مطابق وزیراعظم کے شکایت پورٹل پر عوام نے ایف بی آر کے خلاف شکایات کی ہیں لیکن کیا شکایات کی گئیں اور کن لوگوں نے شکایات کیں‘ اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ ممکنہ طور پر اسی دلیل کی بنا پر سٹے آرڈر جاری کر دیا گیا۔ بعدازاں ایف ٹی او کو یہ جواب بھجوا دیا گیا کہ جب عدالت فیصلہ کرے گی تب آپ کے نوٹس پر عمل درآمد کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے خلاف سٹے لے کر اسے غیر فعال کر دیا گیا تھا‘ اسی طرح وفاقی ٹیکس محتسب پاکستان کو بھی بے اثر کیا جا رہا ہے جس سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو کھلی چھوٹ مل سکتی ہے اور آئی ایم ایف کا تجویزکر دہ ٹیکس کا سالانہ ہدف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل ٹیکسز اور ممبر ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق کے مطابق‘ ایف ٹی او کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ بورڈ کا نہیں تھا بلکہ یہ دونوں زونز کے کمشنرز کا ذاتی فیصلہ تھا۔

اشفاق صاحب کی رائے محترم ہے لیکن میرے مطابق بیسویں گریڈ کا آفیسر اپنے باس کے اشیرباد کے بغیر اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا اور جس خود اعتمادی اور پروفیشنل انداز میں پٹیشن فائل کی گئی ہے‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کی مشاورت اس میں شامل ہے۔ اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ قانونی طور پر ایف بی آر کو وفاقی ٹیکس محتسب کے خلاف اپیل صدر مملکت کو کرنی چاہیے تھی لیکن انہوں نے عدالت کا راستہ منتخب کیا۔ دوسری طرف ذرائع کے مطابق وفاقی ٹیکس محتسب کے سربراہ نے اس مدعے کو ایوانِ صدر میں بھی اٹھایا مگر اس مسئلے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی گئی بلکہ یہ مشورے دیا گیا کہ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے آمدن ڈاکٹر وقار مسعود کے سامنے اس مدعے کو رکھا جائے، ممکن ہے کہ وہ اس کا بہتر حل تجویز کر سکیں۔ بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے۔ اپنے کاندھوں سے اتار کر بوجھ کسی اور پر لادنے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

اس طریقہ کار سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ڈور مزید الجھ جاتی ہے‘ بعد میں جس کا سرا ڈھونڈنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایف بی آر احتساب کروانے کو تیار نہیں ہے اور دوسری طرف بیرونِ ملک سے آنے والے پاکستانیوں کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ مسافر کے سامان کے حوالے سے بنائے گئے قانون کے مطابق رول 2006 کہتا ہے کہ جو بیرونِ ملک پاکستانی فارن ایکسچینج ریمیٹنس کارڈ کے ذریعے درآمدات پر ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کریں گے‘ انہیں مخصوص کسٹم اور ٹیکس چھوٹ دی جائے گی لیکن وزیراعظم کے شکایت پورٹل پر ہزاروں شکایات موصول ہوئی ہیں کہ ایف بی آر کا کسٹم ڈیپارٹمنٹ مطلوبہ سہولت نہیں دے رہا۔ بعض شکایات میں رشوت لینے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں جن کی تحقیقات ہونا ضروری ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتساب کون کرے گا۔ اگر ایف بی آر کے اپنے ہی لوگ پوچھ گچھ کریں گے تو بچ نکلنے کے کئی راستے نکل آئیں گے۔ اگر وفاقی ٹیکس محتسب سوال پوچھے گا تو اس کے خلاف سٹے آرڈر آ سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان سے لوٹا ہواپیسہ واپس لانا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکس اور احتساب کے موجودہ نظام کے تحت کیا یہ ممکن ہے؟ وزیراعظم کو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔

میاں عمران احمد

بشکریہ دنیا نیوز

پاکستان ریلوے کا خسارہ کیوں بڑھ رہا ہے؟

ملک کا سب سے بڑا قومی اثاثہ یا قومی ادارہ پاکستان ریلوے کیوں خسارے کی جانب بڑھ رہا ہے، جب کہ یہ ادارہ 1860 میں پورے طور پر برصغیر میں مکمل ہو گیا تھا، یہ ادارہ انتہائی کامیابی سے چلتا رہا اور بالاخر وہ وقت آن پہنچا جب 1947 میں دو ملک آزاد ہو گئے تھے۔ قائداعظم کی قیادت میں ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آگیا۔ بٹوارے میں ہمیں سڑکیں ملیں، نہری نظام ملا، کے پی ٹی ملی، کے ایم سی ملی، سمندر ملا اور پھر سب سے بڑھ کر ملک بھر میں پھیلی ہوئی ریلوے لائن ملی۔ والٹن ٹریننگ اسکول ملا، ہیڈ کوارٹرز کی قلعہ نما عمارت ، گراؤنڈ ، اسکول ،اسپتال ، ڈسپنسریاں ، ڈاک بنگلے ملے، ریلوے کے بہترین کلب ملے، کوئٹہ میں سردار بہادر ٹی بی سینی ٹوریم ملا، 75 ہزار سے زائد ملازمین کو کوارٹرز ملے، مغل پورہ سمیت ملک بھر میں 10 سے زئد ورکشاپس اور فیکٹریاں ملیں، انجن اور ہزاروں مسافر کوچز ملیں، مال گاڑیوں کے ہزاروں ڈبے ملے۔

بھاری بھرکم ریلوے جنرل اسٹور ملا، بڑے بڑے برجز پل ، ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی پختہ عمارتیں ، بنے بنائے 850 سے زائد اسٹیشن ملے، ملک بھر میں چلتی پھرتی برانچ لائنوں کی ٹرینیں ملیں، ریلوے کی بے پناہ زمین جو کراچی تا لنڈی کوتل اور کوئٹہ تا چمن، زاہدان تک ملی، ریلوے افسران کی ایماندار افسران کی فوج ملی، ریلوے کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد ملازمین کی تعداد ملی، بہترین کاریگر ملے اور بڑی اچھی حالت میں چلتی پھرتی ہمیں ٹرینیں ملیں، خیر یہ بہت لمبی کہانی ہے۔ پرانے لوگ جانتے ہوں گے تاریخ موجود ہے چونکہ میرا تعلق بھی 75 برس سے ریلوے سے رہا ہے ، والد صاحب ریلوے میں ملازم تھے، سو میں بھی ریلوے کالونی کراچی سٹی میں 4 دسمبر 1945 کو پیدا ہوا۔ بچپن دیکھا، لڑکپن دیکھا، جوانی دیکھی اور بڑھاپا دیکھ رہا ہوں۔ ریلوے بڑی اچھی دیکھی کالونی ہی میں اسکول دیکھا، ریلوے ڈسپنسری دیکھی، ریلوے کے بنے راشن ڈپو دیکھے اور پھر ریلوے میں بطور بکنگ کلرک، ریزرویشن کلرک اور دوڑتی ہوئی ٹرینوں میں بطور ٹکٹ چیکر

Pakistan Railways 3

اب سیاست، ٹریڈ یونین اور ادبی کتابیں اور تاریخ کی کتابیں پڑھ کر جدوجہد کرتے ہوئے زندگی گزار رہا ہوں۔ خیر یہ ہو گیا اب کیا کہنا ہے کہ ریلوے زوال پذیر کیوں ہوئی؟ ریلوے ایک ہی تھی ایک ہی وزیر ہوتا تھا سوئی سے لے کر انجن اور کوچز تک ریلوے کے کاری گر اور فورمین تیار کرتے تھے۔ درزی خانہ تھا جہاں ملازمین کی وردیاں سلتی تھیں جیسے میں نے پہلے کہا کہ ریلوے ایک تھی۔ وزیر ایک تھا، اس کا بجٹ ملکی بجٹ سے الگ تھا۔ بڑا خوبصورت اور آرام دہ سفر تھا۔ بعد میں ایئرلائنز پی آئی اے بھی آگئی۔ ریلوے کی آمدنی کا زیادہ تر انحصار گڈز ٹرینیں عرف عام میں مال گاڑیاں یا فریٹ ٹرینیں ہوتی تھیں بڑی آمدنی تھی بڑا فائدہ تھا عوام کا بھی ریلوے کا بھی اور حکومت کا بھی۔ ریلوے کبھی بھی حکومت پر بوجھ نہیں بنا بلکہ حکومت کا مددگار رہا، یہ ادارہ 1975 تک فعال اور منافع بخش رہا، بعد میں اس میں بڑی تبدیلی آئی۔ کرپشن بڑھنا شروع ہو گئی۔ ریلوے منسٹری اسلام آباد میں بنائی گئی جب کہ ریلوے ہیڈ کوارٹرز لاہور میں موجود تھا۔

ریلوے کے 5 ڈویژن میں جن میں کراچی ڈویژن، کوئٹہ ڈویژن، ملتان ڈویژن، لاہور ڈویژن اور راولپنڈی ڈویژن موجود تھا۔ ریلوے میں واچ اینڈ وارڈ کا سسٹم موجود تھا۔ ڈسٹرک پولیس کے چند اہلکار تھانے میں ہوتے تھے اور وہ صوبائی حکومتوں کے ملازمین ہوتے تھے، پھر بعد میں دو ڈویژن ایوب خان کے دور میں چھٹا ڈویژن سکھر بنایا گیا اور پھر ضیا الحق کے دور میں پشاور ڈویژن بھی بنا دیا گیا۔ دوسری طرف لاہور میں مغل پورہ ورکشاپ ڈویژن پہلے سے موجود تھا۔ اور پھر جنرل اسٹور اور ہیڈ کوارٹر ڈویژن بھی بنا دیا گیا۔ یعنی 10 ڈویژن، ریلوے منسٹری اسلام آباد بلاک ڈی کی چار منزلیں۔ افسران کی تعداد بڑھ گئی اور ملازمین کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ پھر ریلوے نے کئی ایک پروجیکٹ بنائے، مائیکر و سسٹم ٹیلی فون کا لایا گیا ناکام ہو گیا۔ مارشکنگ یارڈ بنایا گیا۔ نئے نئے سسٹم بنائے گئے سب ناکام ہو گئے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں نج کاری کا ڈنکہ بجایا گیا۔ چین سے 69 انجن خریدے گئے ناکارہ ہو گئے۔ پیسنجر کوچز خریدی گئیں۔ ریلوے کلب ریلوے اسپتال بیچے گئے۔ ریلوے اسکول بیچے گئے، ریلوے کی قیمتی زمینیں فروخت کی گئیں، اب ٹرینوں کی نجکاری جوکہ نواز شریف کے دور سے شروع کی گئی، ناکام ہوگئی ٹھیکیدار مال کما کر بھاگ گئے اور اب پھر وفاقی حکومت ریلوے کی نج کاری کی طرف جا رہی ہے، ملازمین کی تعداد گھٹ کر 65 ہزار رہ گئی ہے افسران کی فوج ظفر موج موجود ہے ریلوے کا خسارہ بڑھ گیا ہے۔ شیخ رشید کے تازہ دور 2018، 2019 میں 36 ارب کا خسارہ تھا اور اب تازہ ترین ایک رپورٹ کے مطابق جوکہ تازہ خبر ہے کہ ملک کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے مطابق ریلوے کو ایک کھرب 19 ارب کا خسارہ ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ریلوے کو 1470 کروڑ روپے کی منظوری دی ہے جس کے تحت 7 ارب 50 کروڑ کی رقم پنشن اور تنخواہ کی مد میں ہوگی اس طرح رواں مالی سال میں 36 ارب 28 کروڑ کا خسارہ ہوا جب کہ 1918-19 میں ریلوے کا خسارہ 32 ارب 76 کروڑ تھا۔

سنہ 2019-20 میں یہ خسارہ 50 ارب 15 کروڑ تھا۔ ٹرینوں کی تعداد 120 تھی، اب کم کرکے 84 ٹرینیں رہ گئی ہیں۔ 36 ٹرینیں بند کر دی گئی ہیں۔ 15 ٹرینوں کو آف سورس کر کے نجکاری کی جائے گی اور وہ بھی صرف ٹکٹ بیچنے تک محدود رہے گی۔ یہ کیسی نج کاری ہے کہ ٹریک ہمارا، انجن ہمارا، ڈیزل اور تیل ہمارا، کوچز اور بوگیاں ہماری، ٹھیکیدار صرف ٹکٹ بیچ کر اور مال کما کر چلا جائے گا ایسا پہلے بھی ہوتا رہا۔ کئی ٹھیکیدار بھاگ گئے، بلور صاحب کے دور میں پہلی بزنس ٹرین کی نجکاری کی گئی، ٹھیکیدار ریلوے کے ایک ارب 80 کروڑ روپے لے کر بھاگ گیا اور مقدمہ کئی سال سے سپریم کورٹ میں چل رہا ہے کب فیصلہ ہو گا۔ یہ نجکاری نہیں ہے اگر پرائیویٹ سیکٹر والے آتے ہیں تو وہ اپنے انجن لائیں۔ اپنی کوچز لائیں اپنا اسٹاف لائیں اور ہمارے ٹریک پر چلائیں ہمیں صرف اس کا کرایہ ادا کریں اور مقابلہ کریں پاکستان ریلوے بمقابلہ پرائیویٹ ٹرین تاکہ نفع نقصان کا پتا چل سکے۔ خیر اس پر پھر کبھی لکھیں گے۔ نجکاری کیا ہوتی ہے ، حکومت کیا ہوتی ہے، ادارے کیا ہوتے ہیں ، ریلوے کیسے چلتی ہے۔

منظور رضی

بشکریہ ایکسپریس نیوز

نیب، تاریخ میں سب سے بڑی پلی بارگین

نیب کی تاریخ میں سب سے بڑی پلی بارگین، ملزم لوٹی ہوئی دولت واپس قومی خزانے میں جمع کرانے کے لیے تیار ہو گیا۔ عدالت نے ملزم کامران افتخار لاری کی جانب سے پلی بارگین کی درخواست منظور کر لی۔ ہفتے کو احتساب عدالت میں پاکستان اسٹیٹ آئل میں 23 ارب روپے کی کرپشن کے حوالے سے پی ایس او اور بائیکو آفیشلز کے خلاف ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر نیب حکام نے عدالت میں رپورٹ پیش کی جس میں بتایا کہ نیب کی تاریخ میں سب سے بڑی پلی بارگین پہلی بار ہوئی ہے۔  ملزم لوٹی ہوئی دولت واپس قومی خزانے میں جمع کرانے کے لیے تیار ہے۔ ملزم کامران افتخار لاشاری 1 ارب 29 کروڑ روپے سے زائد کی رقم واپس کرنا چاہتا ہے، رقم تین اقساط میں ادا کرے گا، ملزم نجی کمپنی بائیکو کا ملازم تھا جس نے پی ایس او کے ساتھ سیل ایگریمنٹ کیا تھا۔ ملزمان کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو 23 ارب سے زائد کا نقصان پہنچا تھا۔ چیئرمین نیب نے بھی ملزم کی پلی بارگین کی درخواست پر دستخط کر دیے۔ عدالت نے ملزم کامران افتخار لاری کی جانب سے پلی بارگین کی درخواست منظور کر لی ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

ملک مقروض : اشرافیہ کی پانچوں انگلیاں گھی میں

آغاز میں، مجھے یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کو ہی اہمیت حاصل ہے ، پاکستان میں ’’اشرافیہ‘‘ بھی کئی قسم کی ہے۔ ایک سیاسی اشرافیہ، دوسری جاگیر دار ، قبائلی اشرافیہ، تیسری سرمایہ دار اشرافیہ اور چوتھی اعلیٰ سرکاری اشرافیہ۔ سیاسی اشرافیہ کی بات کریں تو یہاں ہر سیاسی سیٹ اپ اشرافیہ کی ایڈجسٹمنٹ کا نتیجہ ہوتا ہے، جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اقتدار میں کوئی بھی ہو اس کا مقصد اپنے معاشی اور سماجی مفادات کا تحفظ اور فروغ دینا ہوتا ہے، جس کے لیے وہ مختلف اقدامات اور ذاتی پروپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے اور عوام کے بارے میں نہیں سوچتا۔ مثال کے طور پر مشرف عہد میں جب اسٹاک مارکیٹ کے بڑوں نے مصنوعی مستحکم معیشت اور فرضی ترقی سے پیسہ کمایا۔ جب زرداری کا دور آیا تو اشرافیہ کے چند سرمایہ دار ملک سے باہر چلے گئے۔ جب کہ دیگر نے اپنے اثاثوں میں حیرت انگیز اضافہ کیا، جب نواز شریف کا دور آیا تو وہ اشرافیہ جو زرداری کے عہد میں بھاگ گئی تھی، دوبارہ واپس آئی اور بے پناہ پیسہ بنایا۔

دوسری جاگیردار اور قبائلی اشرافیہ ، یہ وہ اشرافیہ ہے جو پشتوں سے چلی آرہی ہے، یہ وراثتی اشرافیہ بھی ہے۔ جب کہ تیسری اشرافیہ سرمایہ دار ہے جس کے ہتھے مزدور طبقہ چڑھا ہوتا ہے، اس میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو جاتا ہے۔ جب کہ چوتھی قسم کی اشرافیہ سرکاری اشرافیہ ہے، جس کی اِجارہ داری تو ایک طرف مگر اس کی مراعات بعد از ریٹائرمنٹ سب پر بھاری ہوتی ہیں۔ آج ہمارا موضوع بھی یہی اشرافیہ ہے، جس کے بارے میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک عدالتی فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ نہ ملکی آئین اور نہ کسی قانون میں ججوں اور دیگر فورسز کے افسران کو پلاٹ جیسی مراعات کی اجازت دی گئی ہے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’’بیشتر پاکستانیوں کو بنیادی رہائش کی سہولت تک میسر نہیں ہے، ایسے میں ملک کی زمین اشرافیہ میں تقسیم کرنا قرآن پاک کے اصول کی نفی ہے جب کہ جہاں تک عوامی فلاح کے لیے زمین حاصل کرنے کا سوال ہے تو یہاں آئین خاموش ہے۔ معیاری رہن سہن زندگی کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ یہ عوامل ثابت کرتے ہیں کہ عوامی مقصد کے لیے ہاؤسنگ اسکیم بنائی جا سکتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کے عوام ہیں جن کے بارے میں اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ملک کی 65 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، 43 فیصد پاکستانیوں کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر نہیں، 74 فیصد کو صاف پانی میسر نہیں، 27 فیصد کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، 40 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں، اور تو اور 11 فیصد پاکستانی خاندان ایسے ہیں جن کا ذرایع آمدن نہ ہونے کی وجہ سے وہ مانگ کر گزارہ کر رہے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب سرکاری ملازمین جنھیں سروس کے دوران ہی لامحدود مراعات ملنا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ سلسلہ ان کی ریٹائرمنٹ تک چلتا ہے بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سستے داموں رہائشی پلاٹس اور دیگر مراعات کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت جاری رہتا ہے۔’’پلاٹی پالیسی‘‘ کسی آئین میں تو درج نہیں مگر اس کی منظوری 2007 میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے دی تھی، اس لیے اس اضافی پلاٹ ملنے کی سہولت کو آج بھی وزیر اعظم پالیسی کہا جاتا ہے۔

قصہ مختصر کہ ہمارے ہاں سرکاری ملازمین میں زمین کی تقسیم ایک ’’رسم‘‘ بن چکی ہے، جب کہ کسی قانون میں نہیں لکھا کہ سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت پلاٹ ملے گا ، اس کے علاوہ یہاں یہ جان کر بھی حیرت ہو گی کہ ہر سال پینشن کی مد میں بجٹ میں 5 سے 6 سو ارب روپے کا بجٹ رکھا جاتا ہے، یہ پینشن سول ملازمین سمیت فورسز کے اہلکاروں کو دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک میں ہر سال 1200 سے 15 سو ارب روپے کے خسارے کا بجٹ پیش کیا جاتا ہے، جس ملک میں ہر سال 5 سے 6 سو ارب روپے سود ادا کیا جاتا ہے، جس ملک میں آئی ایم ایف ہی بجٹ بناتا ہے اور جس ملک میں ہر سال ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں وہاں چند لاکھ اشرافیہ کے لیے خزانے کے منہ کھول دینا کہاں کا انصاف ہے؟ بلکہ اب تو سبھی یہی سمجھتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں ۔

اس تناظر میں یہ چیز دیکھنا کافی دل شکنی کا باعث بنتا ہے کہ عام آدمی بس یہ تصور ہی کر کے رہ جاتا ہے کہ اس کی رائے کوئی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ دیکھنا دل ٹوٹنے کا سبب بنتا ہے کہ لوگوں کے اندر یہ سوچ رائج پا چکی ہے کہ اشرافیہ کو نکال باہر کرنے یا طرز حکمرانی کی قسم میں تبدیلی سے ان کی زندگیوں اور ان کے بچوں کی زندگیوں پر کسی بھی قسم کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ احتجاجی ریلیوں، جلسوں اور دھرنوں کی ان گنت تعداد درحقیقت کسی کام کی نہیں نظر آتی جب کوئی پاکستانی قوم کے 99 فیصد کو نچلی قطاروں میں دیکھتا ہے۔ یہ اس وقت مزید دلچسپ ہو جاتا ہے جب اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد اشرافیہ کو حاصل مراعات کے خاتمے کی بات کرتا ہے، اور یہ دیکھنا باعث شرم ہوتا ہے کہ ایک ہی جیسے گروپس کے افراد پرجوش انداز میں سیاستدانوں کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں جو کہ خود معاشی اشرافیہ کے گروپ کی جانب سے اقتصادی وسائل پر قبضے کی جنگ کا حصہ ہوتے ہیں، تاکہ وہ عوامی پیسے کا رخ اپنی جانب کرسکیں۔

لہٰذااس غریب ملک میں جہاں ہزاروں افراد فاقہ کشی پر مجبور ہیں، وہاں ہم سب کو مل کر اس ملک کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کر نا ہو گا، جیسے ملایشیا، ترکی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سب سے پہلے زمین کی تقسیم وہاں کے عوام کے لیے ہوتی ہے، جو بے گھر افراد ہیں، ریاست انھیں ناصرف جگہ فراہم کرتی ہے بلکہ انھیں گھر بنانے کے لیے بھی معاونت کرتی ہے۔ اس کے بعد سرکاری ملازمین کا ریکارڈ دیکھ کر انھیں قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹ دیے جاتے ہیں، ایسا کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمین اپنے لیے زمین کا حقدار سمجھنے کے بجائے اسے قسمت کا کھیل سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہاں بھی ایسا ہی نظام قائم ہونا چاہیے، یہاں سب سے پہلے بے گھر افراد کو گھر دیا جائے ، چلیں یہ بھی چھوڑیں حکومت سب سے پہلے 50 لاکھ گھرتعمیر کرنے کا وعدہ ہی پورا کر دے تاکہ عوام اپنے آپ کو ان سرکاری ملازمین کے سامنے کم تر نہ سمجھیں اور احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔ اسی میں ہمارے ملک اور معاشرے کی بقاء ہے

علی احمد ڈھلوں

بشکریہ ایکسپریس نیوز

عمران خان کے پاس ابھی بھی وقت ہے

اس کی ذمے دار کون سی وزارت ہے، اس کا مجھے علم نہیں لیکن جو کوئی بھی ہے وہ وزیر اعظم عمران خان پر اقتدار کو تنگ کر رہا ہے۔ ناتجربہ کاری اور مہنگائی کے بے جواز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور اس پر متعلقہ حکام جو ابہام پھیلا رہے ہیں، اس نے خلق خدا کو زچ کر دیا ہے، ایک دن کچھ اعلان کیا جاتا ہے اور دوسرے دن کچھ ۔ ایک دن روز مرہ کی انسانی ضروریات کی قیمتوں میں کمی کی نوید سنائی جاتی ہے اور دوسرے دن وہ ضروری اشیاء بازار سے غائب ہو جاتی ہیں ۔ دکاندار اپنی مرضی کی قیمتیں وصول کرنے کے لیے حربے استعمال کرتے ہیں اور حکومت کی جانب سے اعلان کردہ قیمتوں کو عملاً ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایک دن حکومت کی جانب سے وضاحت جاری ہوتی ہے اور دوسرے دن ایک اور وضاحت آجاتی ہے اور تیسرے دن کچھ اور بیان جاری کر دیا جاتا ہے لیکن تاجر حضرات جو موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، ان اعلانات اور وضاحت سے صرف وہی مطلب برآمد کرتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہوتا ہے اور یوں مارکیٹ میں جس چیز کے دام ایک بار بڑھ جاتے ہیں وہ کم نہیں ہوتے، بالکل اسی طرح جیسے ایک عید پر جو قیمتیں بڑھتی ہیں وہ عید ختم ہونے پر کم نہیں ہوتیں اور دوسری عید پر مزید بڑھ جاتی ہیں۔

اس ابہام کی ایک بڑی وجہ دلوں کا وہ چور ہے جو حکومت کی متعلقہ وزارت خزانہ کو صاف بات بتانے نہیں دیتا، وہ عوام کو اپنے نامکمل اور مبہم بیانات اور اعلانات سے اس قدر پریشان کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ قیمتوں میں اضافے کو بھول کر اس چکر میں پڑ جائیں کہ قیمتیں کتنی بڑھی ہیں یا نہیں بڑھیں اور دکاندار صحیح کہہ رہے ہیں یا غلط۔ حکومت کے اعلان اس قدر مبہم اور غیر واضح ہوتے ہیں اور اس قدر الجھی ہوئی زبان میں جاری ہوتے ہیں کہ انھیں سمجھنے کے لیے ایف بی آر کے کسی استاد قسم کے پرانے افسر کی ضرورت پڑتی ہے۔ عمران خان کی حکومت میں وزیر اور مشیر بدلتے رہتے ہیں، انھیں اختیار ہے کہ وہ جسے چاہئیں وزیر بنا دیں اور جسے چاہئیں اپنا مشیر مقرر کر لیں لیکن یہ خود ان کے مفاد میں ہے کہ وہ کوئی ذمے داری ان لوگوں کے سپرد کریں جو اسے پورا کر سکتے ہوں ۔ ان کی ٹیم میں زیادہ ترایسے لوگ شامل ہیں جن کا سیاست اور حکومتی معاملات کو چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی مقدور بھر کوشش سے معاملات چلانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے بات بنتی نظر نہیں آرہی، ان کی وزیر اعظم سے وابستگی اور مخلصانہ پن میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن ان کی یہ قابلیت اور اہلیت نہیں ہے کہ وہ عوام کے مفاد کی خاطر اپنی پالیسیوں میں سب سے پہلے عوام کی سہولت اور قوت برداشت کو ذہن میں رکھیں۔

لگتا یہ ہے کہ ہماری حکومت کے حساب کتاب کرنے والے وہ لوگ ہیں جو وزراء وصولی کہلائے جانے چاہئیں جن کا فرض اور ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ وہ ان عالمی ساہوکاروں کے مطالبات پورے کرتے رہیں خواہ اس میں عوام کے بھوکے پیٹوں کی انتڑیاں بھی باہر کیوں نہ نکل آئیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ جو حکمران قرض لینے کو لعنت قرار دیتے تھے اور اس پر خود کشی کو ترجیح دیتے تھے آج وہی قرض ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور قرض کی رقم جب خزانے میں آتی ہے تو لا محالہ اسے زرمبادلہ کا نام دے کر قوم کو خوش خبری سنائی جاتی ہے ۔ یہ وہی قرضے ہیں اور وہی لوگ اس کے مدارلمہام ہیں جو گزشتہ حکومتوں کے بھی وزیر اور مشیر رہے ہیں ۔ ان قرضوں کی خبریں تو عوام تک پہنچتی ہیں لیکن قوم کو اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ یہ غیر ملکی قرضے کہاں چلے جاتے ہیں ۔ عوام تک تو ان کی ایک پائی بھی نہیں پہنچتی لیکن ان کی وصولی عوام سے ضرور کی جاتی ہے جو ایک ریاستی جبر اور دھاندلی ہے اور یہ جبر اور دھاندلی آج کی بات نہیں قوم اس کو ایک مدت سے برداشت کرتی آرہی ہے بلکہ اب تو اس کی عادی ہو چکی ہے ۔

حکومت اپنے دعوؤں کے برعکس ملک کے بند کارخانوں کو چلانے کی بجائے بیچنے کی بات کر رہی ہے اور ملک کی برآمدات میں اضافے کے لیے اب تک کچھ نہیں کر سکی بلکہ برآمدات میں تیزی کے ساتھ کمی آرہی ہے اور بیرون ملک سے جو زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے اس میں بھی شدید کمی کے آثار ہیں۔ جب کہ ہماری حکومت نہایت بھدے انداز میں روزمرہ کی اشیاء ضروریات کی قیمتیں بڑھانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکی جس کی وجہ سے عوام کی شدید تنقید کی زد میں ہے اور عوامی حمایت کھو رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان قوم سے براہ راست مخاطب ہوتے ہیں لیکن ان کی ٹیم ان کا ساتھ نہیں دے رہی اور جس طرح کی حکومت وہ چلانا چاہتے ہیں ان کی ٹیم میں اس حکومت کے لیے قابلیت نہیں ہے جس کی وجہ سے معاملات روزبروز بگڑتے جارہے ہیں اور اس کے ذمے دار وزیر اعظم کی ٹیم ہے جس کو یہ معلوم نہیں کہ ہماری آمدنی کتنی ہے کتنا خرچ کرنا ہے یا عوام تک حکومتی اقدامات کے ثمرات کیسے پہنچانے ہیں۔ ٹیکس لگانا یا قرض لینا کون سی مہارت کا تقاضا کرتا ہے ۔

اتنا حساب تو ہر کوئی جانتا ہے کہ قرض کی ادائیگی کے لیے کتنی رقم درکار ہوتی ہے۔ ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے والے ماہرین ایسی پالیسیاں وضع کرتے ہیں جن سے ملک کی معاشی حالت سدھرنا شروع ہو جاتی ہے، گزشتہ ڈیڑھ برس میں خاص طور پر وزرات خزانہ نے کوئی ایک پالیسی بھی ایسی وضع نہیں کی جس کے اقتصادیات پر مثبت اثرات ہوتے ہوں۔ ہمارے سامنے تو قیمتیں بڑھنے اور ضرورت کی اشیاء کی قلت کی خبریں آئیں ہیں جنہوں نے ملک کے عام آدمی کو بہت پریشان کیا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ ملک میں کوئی ایسا فرد موجود نہیں جو حکومت کی معاشی حالت کو درست سمت میں گامزن کر سکے یا پھر اگر موجود ہے تو وہ اس خدمت پر تیار نہیں یا پھر عمران خان کو کوئی موزوں آدمی میسر نہیں آرہا ۔ کچھ بھی ہو عمران خان کو اگر باقی ماندہ تین برس پورے کرنے ہیں تو وہ ملک کی معاشیات پر توجہ دیں ورنہ عمران خان کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو پہلے حکمرانوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے کہ وہ وقت جلد آجاتا ہے جب عوام حکومت سے اکتا جاتے ہیں، ابھی بھی وقت ہے کہ اکتانے والے وقت کو ٹال دیا جائے ۔

عبدالقادر حسن 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

مافیا میں گھرا پاکستان

حکومت قائم کرلینا اصل کمال نہیں بلکہ اصل چیز حکومتی رٹ کا قیام ہے۔ کہ حکومت کیسے اپنے کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کرواتی ہے۔ لیکن افسوس آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے مختلف مافیاز اور مفاد پرستوں کے گروہ حکومت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اور حکومتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ پھر کس قدر ان کی فر مانبرداری کرتے ہوئے حکومت اپنے کیے گئے فیصلوں سے منحرف ہو جاتی ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ پھر ان کے دفاع میں عجیب و غریب تاویلیں پیش بھی کرتی ہے کہ یہ تمام فیصلے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیے گئے ہیں اور یہ “مفاد” ہوتا اصل میں ہے ٹرانسپورٹ مافیا کا، بلڈر مافیا کا، فارماسوٹیکل مافیا کا، شوگر مافیا کا، اور پیٹرولیم مافیا کا۔ 

لیکن آج تک کبھی اس “عوامی مفاد” میں میں اس غریب عوام کا خیال نہ رکھا گیا جو کہ ہمیشہ آواز اٹھاتی ہے بجلی کی بے وقت لوڈ شیڈنگ کے خلاف، الیکٹرک کے بڑھتے ہوئے بلوں کے خلاف، ڈاکڑوں کی بڑھتی فیس کے خلاف، ہسپتالوں کے مہنگے بل کے خلاف، مہنگے اسکولوں کے خلاف، صاف پینے کے پانی کی سپلائی کے ذمہ داروں کے خلاف، سڑک کی صفائی اور استرکاری کے ذمہ داروں کے خلاف ، کچرے کے ڈھیر کے ذمہ داروں کے خلاف، امن وامان کے قیام کے ذمہ دار اداروں کے افراد کے خلاف جو عوام کی خدمت کے بجائے انہیں پریشان کرتے ہوں، اور آخر میں وہ تمام سرکاری ادارے جو سرکار کے نام پر عوام سے رشوت لے کر کام کرتے ہوں۔ 

اور اس سے کئی گناہ زیادہ رشوت لیکر ان (اوپر ذکر کی گئی تمام مافیاز) کے راستے سے ساری رکاوٹیں دور کرنا اور ہر ناجائز قدم کو جائز قرار دینا ۔ سلام ہے موجودہ حکومت کو، جس نے جتنے سبز باغ اس حکومت نے دکھائے اور جس انداز میں ساری ہونے والی بدعنوانیوں کو اجاگر کیا امید ہو چلی تھی کہ اب تو ملک درست سمت پر گامزن ہو جائے گا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ حکومت تو آئی لیکن آتے ہی مافیاز میں گھر گئی۔ کرپشن کے خلاف عملا کچھ کرنے کے بجائے آواز ہی بند ہو گئی۔ بلکہ ہر قسم کی بدعنوانی کو “قانونی ٹوپی” پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پیٹرول کی قیمت بڑھتی تو پیڑولم مافیا اس دن پٹرول نہیں فروخت کرتی تھی بلکہ اگلے دن جس دن سے بڑھنے کا طلاق ہوتا تھا بیچنا شروع کرتی تھی ۔ آج تک کبھی اس کے اوپر حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ 

بالکل اسی طرح پٹرولیم کی قیمت بڑھنے کے بعد جب دوسرے پیداواری ادارے اپنی پیداوار کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے تھے۔ لیکن کیا صرف انکی قیمتوں میں ہی اضافہ ہوتا تھا یا ان کی پیداوار کی معیار میں بھی کمی کر دی جاتی ہے۔ اس کی تازہ مثال پچھلے دنوں پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ساتھ جب روٹی بنانے والے تندور والوں نے اپنی روٹیوں کی قیمت بڑھائیں تھیں تو حکومت نے یہ تو کہا کہ قیمت اس حد سے زیادہ نہی بڑھائیں گے۔ لیکن یہ نہیں دیکھا کہ تندور والوں نے قیمت بڑھانے کے ساتھ ساتھ روٹی کے سائز اور وزن میں بھی کمی کر دی تھی۔ بالکل اسی طرح ٹیکسٹائل انڈسٹریز کے مالکوں نے اپنی مصنوعات میں تو اضافہ کیا لیکن ساتھ ساتھ اس کے معیار اور اس کی تعداد میں بھی کمی کی۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

لیکن کوالٹی کنٹرول اور پرائس کنٹرول کے ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور سب کچھ اچھا ہے کی گردان کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح جب حکومت نے پٹرول کی قیمت میں کمی کی جو کہ بین الاقوامی منڈی میں کمی ہونے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ تو پیٹرولیم مافیا نے پٹرول کو سرے سے غائب کر دیا ۔ اس وقت سی سی پی یعنی مسابقتی کمیشن آف پاکستان (competitive commission of Pakistan) اس معاملہ میں مکمل طور پر غیر فعال ہو گیا اور اس کا وجود ہی نظر نہ آیا ۔ یہ وہ سرکاری ادارہ ہے جس کی سربراہی کے لیے آئے دن مختلف نام منظر عام پر آتے رہتے ہیں اور جو اسٹیٹ بینک کے بعد دوسرے نمبر پر معاشی کنٹرول کا ادارہ بنتا ہے۔ افسوس کہ کوئی کچھ نہیں کرتا سب مافیا کے آگے بے بس ہیں۔

سید منہاج الرب

بشکریہ روزنامہ جنگ

چینی کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد

آٹا اور چینی کے مصنوعی بحران پاکستان میں کوئی نئی چیز نہیں۔ ہم ان سے بار ہا دوچار ہو چکے ہیں اور ہر بحران کے بعد اِن بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں مستقل اضافہ معمول کا حصہ بنا رہا ہے۔ حکومتوں کا طریق کار عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ان ناگزیر اشیائے صرف کی مصنوعی نایابی پر جب عوام میں اضطراب بڑھتا ہے تو تحقیقات کی یقین دہانیاں کرا کے احتجاج کی روک تھام کا بندوبست کر لیا جاتا ہے جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ یا تو قیمتوں میں اضافے کو قبول کر لیتے ہیں یا ان میں معمولی کمی کے ذریعے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عوام کا احتجاج رائیگاں نہیں گیا اور یوں نفسیاتی طور پر ان کی تسکین کا اہتمام کر دیا جاتا ہے۔ بھاری منافع کی وجہ سے شوگر ملیں خاص طور پر ملک کے مقتدر طبقوں کی توجہ کا مرکز بنیں اور اس کاروبار میں نہایت بااثر سیاسی خاندان شامل ہوتے چلے گئے۔ ہر سال دو سال بعد چینی کے مصنوعی بحرانوں پر قابو پانے میں ناکامی کی اصل وجہ بھی یہی رہی۔

موجودہ دورِ حکومت میں بھی چینی کے مصنوعی بحران نے سراٹھایا تو وزیر اعظم نے فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے معاونِ خصوصی برائے احتساب کی سربراہی میں شوگر بحران کی تحقیقات کیلئے ایک بااختیار کمیشن تشکیل دیا جس نے مستقل بنیادوں پر مسئلے سے نمٹنے کے لیے اہم تجاویز کے ساتھ اپنی رپورٹ مقررہ مدت میں پیش کر دی۔ اس رپورٹ کو جس وجہ سے خاص طور پر معتبر سمجھا گیا وہ یہ تھی کہ بحران کے ذمہ داروں کی حیثیت سے اس میں محض اپوزیشن کی نہیں بلکہ حکمراں جماعت اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کی اہم اور حکومتی مناصب رکھنے والی شخصیات کے نام بھی شامل تھے؛ تاہم غیر حکومتی شوگر مل مالکان نے اس رپورٹ کی بنیاد پر کارروائی رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور بنیادی آئینی حقوق کے تقاضوں کے تحت عدالت نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے عارضی حکم امتناع جاری کر دیا جس پر وزیراعظم نے یہ شکوہ بھی کیا کہ عدالت کا یہ حکم شوگر مافیا کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ بن گیا ہے

 لیکن گزشتہ روز جب اس معاملے کی سماعت آگے بڑھی اور درخواست گزاروں اور حکومت دونوں کا موقف اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت میں پیش کیا گیا تو فاضل جج نے شوگر کمیشن کی رپورٹ کے خلاف سیاسی مخالفین سے انتقام اور تعصب کے الزام کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ اس میں خود حکومتی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ، اقتدار میں شریک حکومت کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں اور وزیراعظم کے دوستوں کے نام شامل ہیں۔ عدالت نے رپورٹ کے خلاف درخواست گزاروں کی تشویش پر معاملے کے اس کلیدی اہمیت کے حامل پہلو کی نشاندہی بھی کہ مل مالکان تو وہ لوگ ہیں جنہیں حکومتی پالیسیوں سے فائدہ پہنچا لہٰذا حقیقتاً اس رپورٹ کو ان حکومتی ذمہ داروں کے لیے فکر مندی کا باعث ہونا چاہیے جنہوں نے یہ پالیسیاں بنائیں اور نافذ کیں۔ 

فاضل جج نے انہی دلائل اور حقائق کی بنا پر شوگر کمیشن کی رپورٹ پر جاری کیے گئے حکم امتناع کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا اور حکومت کو رپورٹ کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی اجازت دی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں رپورٹ کی تجاویز پر عمل درآمد کو بالکل درست طور پر حکومت کا امتحان قرار دیا ہے کیونکہ شوگر کمیشن نے ملک میں چینی کے حالیہ بحران اور مہنگائی کا اصل سبب چینی کی قلت کے خدشے کے باوجود اس کی برآمد کی اجازت اور شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کے حکومتی فیصلوں کو قرار دیا ہے۔ ان فیصلوں کی ذمہ دارشخصیات کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکا تو یہ یقیناً ایک بڑا کارنامہ ہو گا اور قومی زندگی پر اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے بصورت دیگر یہ دور بھی ویسا ہی ایک دور قرار پائے گا جس میں طاقتوروں اور کمزوروں کیلئے قانون الگ الگ ہوتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

پاکستان میں چینی اسکینڈل کا ذمہ دار کون ہے؟

وفاقی حکومت نے چینی کی قلت کے اسیکنڈل کے مجرموں کو اپنے اور پرائے کی تمیز کیے بغیر بے نقاب کرنے کے لیے جو شوگر انکوائری کمیشن بنایا تھا اس کی اب تک کی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شوگر انڈسٹری میں بدعنوانی اور ہیرا پھیری اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی بتائی جاتی ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق کمیشن نے سینکڑوں ارب روپے کی بے نامی خریداری کرنے والے 3 ہزار بروکرز اور آڑھتیوں کے علاوہ ایسے 50 ہزار غیر رجسٹرڈ خریداروں کا بھی پتا لگایا ہے جن میں سے 40 ہزار نے ٹیکس ریٹرنز بھی جمع نہیں کرائے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب کمیشن نے 362 ارب روپے کے مشکوک بے نامی لین دین کا سراغ لگایا جو گزشتہ 5 سال میں 6 ملین میٹرک ٹن چینی کی فروخت کا نتیجہ ہے۔

ایک سروے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے شک پیدا ہوا کہ 9 ملوں نے سینکڑوں بروکرز اور آڑھتیوں کے ذریعے کھاتوں میں اندراج کے بغیر ہی گنا خریدا اور مارکیٹ سپلائی میں ہیرا پھیری کی۔ ان میں سے ایک شوگر مل نے 31 ہزار غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے 213 ملین روپے کی سبسڈی وصول کی۔ اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث مل مالکان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی بعض بااثر شخصیات شامل ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ 16 ماہ کے دوران چینی کی قیمتیں 23 سے 27 روپے فی کلو بڑھا کر صارفین کی جیبوں سے 120 ارب روپے ہتھیا لیے گئے مگر اس غیر قانونی منافع خوری کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مل مالکان نے 5 سال میں براہِ راست کوئی انکم ٹیکس نہیں دیا جو خود ایک جرم ہے۔

اسٹیٹ بینک کے ایک ذریعے کے مطابق بعض نے تو خسارہ ظاہر کر کے تقریباً 8 ارب روپے کے ریفنڈ بھی حاصل کر لیے۔ عوام انتظار کر رہے تھے کہ 25 اپریل کو چینی اسکینڈل کے بڑے بڑے مجرم بے نقاب ہوں گے اور ان کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا اور شوگر انکوائری کمیشن کی تجویز پر اسے مزید تین ماہ کی مہلت دے دی گئی۔ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ مزید تحقیقات سے چینی کی خرید و فروخت میں بدعنوانی، عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے اصلی مجرموں کا سراغ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔ آٹے اور چینی کی غیر متوقع قلت کا اسیکنڈل پوری قوم کے لیے تکلیف دہ تھا۔ وزیر اعظم نے اس کا بروقت نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کمیشن قائم کیا جو اپنا کام کر رہا ہے اور اپوزیشن نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس کے نمائندوں کو کمیشن میں پیش ہوکر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا موقع دیا جائے، ان کی بات سننا بھی ضروری ہے۔

اب جبکہ کمیشن کو تحقیقات کے لیے مزید تین ماہ دے دیے گئے ہیں تو مناسب ہو گا کہ معاملے کے تمام پہلوئوں پر تفصیلی غور و فکر کیا جائے تاکہ اس حوالے سے عام آدمی کا اعتماد بحال ہو سکے۔ عام طور پر مل مالکان ظاہری کھاتوں میں دکھاتے کچھ اور ہیں اور اصل میں کچھ اور ہوتا ہے، وہ مڈل مین کے ذریعے من چاہا منافع کما لیتے ہیں جو مارکیٹ اکانومی کا کرتا دھرتا ہے جبکہ معیشت کے مفاد میں ضروری ہے کہ شفاف تحقیقات کے ذریعے ایسی تمام خرابیوں اور ان کے ذمہ داروں کی نشاندہی کر کے اصلاحِ احوال کی تدابیر اختیار کی جائیں تاکہ ایمانداری سے کاروبار کرنے اور ہیرا پھیری سے منافع کمانے والوں میں امتیاز نظر آئے۔ ایسا نہ ہو کہ بے ایمان آنکھوں میں دھول جھونک کر بچ جائے اور ایماندار صاف ستھرا ہو کر بھی سزا پائے۔ آٹے اور چینی کے اسکینڈل میں حقیقی مجرموں تک پہنچنا انکوائری کمیشن کی بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کے لیے اسے مزید مہلت دینا مناسب ہے۔ اس کی جامع رپورٹ آئندہ اس طرح کے مسائل پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ