بھارت ۔ جمہوریت اور سیکولرزم کا شمشان گھاٹ

جنوبی ایشیا ایسا بد قسمت خطّہ ہے۔ جہاں علاقائی تعاون کی آرزوئیں خاک ہو رہی ہیں۔ دنیا بھر میں علاقائی تعاون کی تنظیمیں آسیان۔ یورپی یونین۔ افریقی یونین۔ نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ سب ایک دوسرے سے اشتراک کر رہی ہیں۔ تجارت، صنعت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ یورپی یونین تو ایک کرنسی یورو اختیار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ پاسپورٹ ویزے کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک قدم آگے نہیں بڑھا سکی۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا خطّہ ہے۔ ایک ارب 80 کروڑ انسان ان 8 ملکوں بھارت۔ پاکستان۔ بنگلہ دیش۔ نیپال۔ بھوٹان۔ سری لنکا۔ مالدیپ۔ افغانستان میں سانس لیتے ہیں۔ دنیا کی کُل آبادی کا قریباً 24 فیصد ۔ اتنی بڑی تعداد میں انسان زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ امن اور سکون سے بھی۔ اور اس کی وجہ اس خطّے کے سب سے بڑے ملک بھارت کی انتہا پسندی۔ دہشت گردی اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ اب 2014 میں نریندر مودی کے دہلی راجدھانی سنبھالنے کے بعد سے تو بھارت انتہا پسند ہندو ذہنیت کا گڑھ بن گیا ہے۔

نہ تو بھارت کے اپنے لوگ خوش ہیں اور نہ ہی ہمسایوں میں سے کوئی آرام سے زندگی بسر کر سکتا ہے۔ دنیا تو کیا ہم بھی چھ دہائیوں سے بھارت کی جمہوریت، تحمل و برداشت کی مثالیں دیتے آرہے ہیں۔ اپنے ہاں مارشل لائوں کی مذمت کرنے کے لیے ہمارے دانشور، سیاسی رہنما، ادیب، شاعر اور قانون دان بڑی شد و مد سے کہتے رہے ہیں کہ بھارت میں ہمیشہ حکومت ووٹ سے تبدیل ہوتی ہے۔ وہاں فوج نے کبھی نظم و نسق نہیں سنبھالا۔ اور یہ بھی کہ وہاں سیکولرازم کا دور دورہ ہے۔ ہندو۔ مسلم۔ سکھ۔ عیسائی ۔ بدھ۔ جین سب مل جل کر رہتے ہیں۔ ان کے ہاں سادگی، کفایت شعاری ہے۔ وہاں عدلیہ آزادی سے فیصلے کرتی ہے۔ اخبارات، ٹی وی، ریڈیو آزاد ہیں لیکن آج کا بھارت جمہوریت، سیکولرازم کا شمشان گھاٹ ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مرکز بن گیا ہے۔ وہاں ہندوئوں کی چھوٹی ذاتیں محفوظ ہیں نہ اقلیتیں۔ مسلمان آبادی ملک کا 13 فیصد ہیں۔ قریباً 20 کروڑ لیکن ہر لمحے اذیت اور بربریت کے شکار عیسائی پونے 3 کروڑ کے قریب وہ بھی مصائب سے دوچار ہیں۔

سکھ قریباً 2 کروڑ ان کے احتجاج اور علیحدگی پسندی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ہندو توا پورے زوروں پر ہے۔ دوسرے تمام مذاہب پابندیوں اور قدغنوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی میں انتہا پسندی کی بھی انتہا ہو گئی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے بعض امن پسند گروپ پہلے کوششیں کرتے تھے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان براہ راست رابطے ہوں تو شاید بھارت کے متعصب۔ تنگ نظر حکمرانوں پر قیام امن کے لیے دبائو بڑھے۔ لیکن بی جے پی سرکار کے بعد یہ کوششیں بھی بے سود ہو گئی ہیں ۔ دونوں ملکوں کی آزادی پر شمعیں جلانے والے کلدیپ نائر سورگباش ہو گئے۔ ادھر پاکستان سے ڈاکٹر مبشر حسن بھی اللہ کو پیارے ہوئے۔ حقوق انسانی کے حوالے سے جدوجہد کرنے والے دوسرے گروپ بھی اب جنوبی ایشیا میں امن کے لیے سازگار فضا نہیں پارہے ہیں۔ میرا بھی 1972 سے مختلف صحافتی ادبی اور علمی کانفرنسوں کے لیے بھارت جانا ہوتا رہا ہے۔ شملہ مذاکرات کی رپورٹنگ کے لیے گیا بعد میں وزیر اعظم اندرا گاندھی سے خصوصی انٹرویو کے لیے بھی 21 روز قیام رہا۔ آگرہ مذاکرات کیلئے گئے تو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے خصوصی گفتگو ہوئی۔

بعد میں مشرف من موہن مذاکرات کی رپورٹنگ بھی کی۔ بھارت میں بہت سے ہندو، مسلمان، عیسائی ادیب شاعر ، صحافی دوست ہیں۔ اب بھی ان سے سوشل میڈیا پر رابطہ رہتا ہے۔ ایک دو سال بھارت کے کئی اخبارات میں بیک وقت کالم بھی چھپتا رہا۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے جو آپ کا بھی ہو گا کہ بھارت کے عام لوگ خطّے میں امن و سکون کے خواہاں ہیں۔ آرام سے زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ مختلف شہروں میں رکشے ٹیکسی ڈرائیوروں دکانداروں ہوٹل کے ویٹرز سے بات ہوتی تھی۔ تو وہ یہی کہتے تھے یہ نیتا (سیاسی لیڈر) ہمیں آپس میں لڑواتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ تو دو وقت کی روٹی ہے۔ اب نریندر مودی کے دَور میں تو کسی کانفرنس میں جانے کا ارادہ ہی نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی قیام امن کے لیے اب کوئی مربوط کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ اکھنڈ بھارت کا جنون زوروں پر ہے۔ پاکستان میں مستقل بد امنی پیدا کرنا، اپنے ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری کی سازشیں بی جے پی کا ایجنڈا ہے۔ اپنے اس انتہا پسند پروگرام میں اس حد تک مصروف ہے کہ کورونا کی عالمگیر وبا سے اپنے شہریوں کی جانیں بچانے پر مطلوبہ توجہ نہیں دے سکی۔

اب تک مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب اموات ہو چکی ہیں۔ اپنے لوگوں کی صحت بی جے پی کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ اس لیے کورونا کی ابتدا سے ہی بھارتی حکمران موزوں حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکے۔ میری تشویش یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جمہوریت کے تجربے کے نتیجے میں معاشرے مہذب ہوئے ہیں۔ تحمل، برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں کی جانیں محفوظ ہوئی ہیں۔ لیکن یہ سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں انسانیت کا قتل کیوں ہو رہا ہے۔ تہذیب، اقدار کا جنازہ کیوں نکل رہا ہے۔ کیا جمہوریت کے دعوے فریب تھے۔ سیکولرازم ایک ڈھونگ تھا۔ اب تو پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے باقاعدہ ثبوت بھی دنیا کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں۔ اگر امریکہ یورپ ان ثبوتوں کے باوجود بھارت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے تو ان کی جمہوریت، انصاف پسندی اور انسانیت نوازی بھی ایک سوالیہ نشان بن جائے گی۔

بھارت کی اس پاکستان دشمنی کے خلاف پاکستان سے ہر شہری ہر سیاسی کارکن ہر دانشور ہر سیاسی جماعت کو یک آواز ہونا چاہئے۔ خاص طور پر سمندر پار پاکستانیوں کو حرکت میں آنا چاہئے۔ یہ کسی ایک حکومت یا ایک سیاسی پارٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ بحیثیت مملکت بقا کا سوال ہے۔ اس سال کے آغاز میں بھارت میں ہندوتوا کے خلاف ملک گیر احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ مگر کورونا کے پھیلائو کے باعث اس میں تعطل آگیا۔ اس احتجاج کے مقابلے میں مودی سرکار بے بس ہو گئی تھی۔ یہ احتجاج یقیناً پھر شروع ہو جائے گا۔ یہ مملکت پاکستان۔ عمران حکومت۔ وزارت خارجہ۔ ساری قومی سیاسی پارٹیوں کی آزمائش ہے کہ وہ بھارت کو ایک انتہا پسند اور دہشت گرد مملکت قرار دلوانے کے لیے دنیا پر کیسے دبائو ڈالتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اسلامی ملکوں کی تنظیم۔ مسلم حکمرانوں کو اپنے اتحاد اور یکجہتی سے کیسے قائل کرتے ہیں۔ بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کروانا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ کیونکہ بھارت نے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کر کے اپنی ایک ارب سے زیادہ صارفین پر مشتمل مارکیٹ کا لالچ دے کر امریکہ اور یورپ کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

نوابزادہ نصر اللہ خان

سیاست کے ہنگامے میں جب نئے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں تو مجھے سیاسی اتحادوں کے سرخیل نوابزداہ نصر اللہ خان یاد آرہے ہیں۔ جن کی ذات گرامی زندگی بھر حکومت کی اپوزیشن تحریکوں کی روح رواں رہی ۔ نواب صاحب جمہوریت کے ایسے دیوانے تھے کہ وہ اس کی بحالی اور وجود کے لیے سیاستدانوں پر کوئی قدغن لگانے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ جمہوریت کی خرابیوں کا علاج بھی جمہوریت میں ہی سمجھتے تھے۔ وہ چونکہ جمہوری مزاج کے سیاستدان تھے اس لیے میں تما م تر نیاز مندی کے باوجود بعض اوقات زبانی اور تحریری اختلاف کر لیتا تھا کہ آپ ان لوگوں کوکسی جمہوری حکومت کے قابل سمجھتے ہیں جو مصدقہ کرپٹ ہیں ۔ لیکن وہ یہی جواب دیتے تھے کہ اس کا علاج بھی جمہوریت میں ہے، یہ چھلنی حرکت میں رہے تو سب ناقص دانے اس میں سے چھٹ کر نکل جائیں گے۔ جمہوریت پر ان کا یہی پختہ ایمان ان کو عمر کے آخری حصے تک شہر شہر لیے پھرتا رہا۔

نوابزادہ صاحب کے تمام اتحادوں کا میں عینی شاہد اور زیادہ تر کا واحد ہمدرد رپورٹر رہا ہوں۔ اپوزیشن کا وجود جمہوریت کے لیے لازم سمجھتا ہوں، اگر کسی حکومت کی موثر اپوزیشن موجود نہیں ہے تووہ ملک کے لیے ایک خطرہ ہے۔ جنرل ضیاالحق کا زمانہ تھا، ان کی حکومت گو بے فکر نہ تھی مگر بے خطر ضرور تھی ۔ جناب صدر اپنی مشہور زمانہ عجزو انکساری کے ساتھ مسکرائے چلے جارہے تھے۔ ان کے نیاز مندوں یا مستقل ملاقاتیوں میں، میں بھی شامل تھا ۔ افواج پاکستان کے سپہ سالار اور پاکستان کے مطلق فرمانروا مگر اس قدر نفیس مزاج اور نرم خو کہ ان سے ملاقات میں الجھن ہر گز نہیں ہوتی تھی ۔ نواب زادہ صاحب صدر ضیاء سے بیزار ہو چکے تھے اور پیپلز پارٹی تو تھی ہی بیزار اور متنفر چنانچہ ان دونوں کے درمیان رابطے کا فیصلہ ہوا اور میرا غریب خانہ جائے ملاقات تجویز ہوا۔ نوبزادہ نصراللہ خان، بھائی ملک معراج خالد اور میاں احسان الحق ایک دن خاموشی کے ساتھ میرے ہاں وقت مقررہ پر تشریف لائے اور بحالی جمہوریت کے لیے تحریک شروع کرنے کے امکانات پر گفتگو ہوئی۔

میں اس وقت دوسرے کمرے میں تھا۔ میرا ان کے پاس بیٹھے رہنا مناسب نہ تھا۔ دونوں متحارب گروپوں میں برف پگھل گئی اور اس کے بعد رفتہ رفتہ وہ دن آیا جب ایم آر ڈی کے نام سے ایک تحریک قائم اور شروع ہو گئی ۔ یہ وہ واحد تحریک تھی جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی ورنہ نواب صاحب کسی تحریک کی ناکامی سے شناسا نہیں رہے تھے۔ میرے ہاں ملاقات کا رازکھل گیا، خفیہ ادارے سرگرم ہو گئے مگر حکومت کے تخت پر ایک شریف انسان بیٹھا تھا، اس نے کسی ملاقات میں اس طرف اشارہ تک نہ کیا اور نہ ہی ان کی گرمجوشی میں کوئی کمی آئی بلکہ میں نے محسوس کیا کہ وہ پہلے سے زیادہ مہربان ہیں۔ ممکن ہے وہ اس طرح مجھے زیادہ شرمندہ کرنا چاہتے ہوں۔ نواب صاحب عمر بھر جمہوریت دشمنوں پر کاری ضرب لگانے کے حق میں رہے اور اس میں کامیاب بھی رہے۔

عمر کے آخری حصے میں بھی انھوں نے ایک جواں مرد کی طرح نئے اتحاد کی بنیاد ڈالی حالانکہ ان کی جسمانی صورتحال یہ تھی کہ وہ اپنے دل کی دھڑکنوں کو متوازن رکھنے کے لیے ایک آلہ لگوانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر آرام کا مشورہ دیتے رہے کیونکہ ایسے مریضوں کی بقا ہی آرام میں ہے لیکن یہ مریض اپنی بقا آخری دم تک ایک بامقصد زندگی میں سمجھتا تھا ایک سرگرم اور کارکن زندگی جو اس کی اپنی بقا کے لیے مضر ہی کیوں نہ ہو جمہوریت کی بقا کے لیے لازم ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری سمیت اپنی تما م جمع پونجی جو وراثتی زمینوں اور آم کے باغوں کی صورت میں موجود تھی، وہ سیاست کی آبیاری پر لٹا دی اور اپنے پاس سیاست کے سوا کچھ نہیں چھوڑا۔ ان کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی اتنی پختہ رہی کہ جب تک آنکھوں میں دم رہا وہ جمہوریت کی پرورش کے لیے ساغر و مینا اپنے سامنے رکھے رہے ۔

نوابزادہ صاحب کی اپنی ایک پارٹی پاکستان جمہوری پارٹی کے نام سے قائم رہی ۔ یہ جماعت نواب صاحب نے چوٹی کے لیڈروں کی معیت میں قائم کی تھی جسے وہ زندگی بھر چلاتے رہے لیکن افسوس کہ ان کے وفات کے بعد ان کے صاحبزادے اپنے والد کی سیاسی میراث کو سنبھال نہ سکے۔ اب یہ تاریخی جماعت باقی نہیں اور اس کا ادغام عمران خان کی تحریک انصاف میں کئی برس پہلے کر دیا گیا تھا، ویسے تو حالات نے اس جماعت کو وقت کی نذر کر ہی دیا تھا کیونکہ اسے اپنے نام لیوا نہ مل سکے اور بالآخر نواب صاحب کے صاحبزادے منصور علی خان جو پارٹی کے صدر تھے انھوں نے اپنی جماعت کو عمران خان کے سپرد بلکہ ان کی نذر کر دیا جس کے قائد نوابزادہ صاحب تھے اور جسے ہم انھیں تنگ کرنے کے لیے تانگہ پارٹی کہا کرتے تھے لیکن چند افراد پر مشتمل یہ جماعت اپنے لیڈر کی عظمت کی وجہ سے اتنی بڑی تھی کہ ملک بھر کے سیاستدان اور پارٹی سربراہان اس کے لیڈر کے ہاں حاضری دیا کرتے تھے۔

کون سا لیڈر ہے جو میں نے اس مختصر سے کمرے میں نہیں دیکھا ۔ ایک صوفہ دو چار کرسیاں نواب صاحب اور ان کا ہردم زندہ گڑگڑاتا ہوا حقہ۔ یہ جماعت جس کے نام سے منسوب تھی وہ چلا گیا تو پارٹی بھی چند سال سسک سسک کر گزر گئی۔ مرحوم و مغفور نواب صاحب کو خدا نے ایسی صلاحیت دی تھی کہ ان کی ذات مجمع الخلائق تھی۔ قریباً تمام سیاسی اتحاد ان کی ذات کی کوششوں سے اس چھوٹے سے کمرے میں تشکیل پائے اور موچی دروازے سے ہوتے ہوئے پورے ملک میں پھیل گئے ۔ نواب صاحب سیاسی اتحاد بناتے بناتے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے۔ میں آج بھی جشم تصور میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کی آنکھیں بند ہیں، حقے کی نے منہ میں ہے لیکن ہلکی ہلکی گڑ گڑاہٹ کی دھن پر نے کو تھامی ہوئی انگلیاں اس نے کو بانسری کی طرح بجا رہی ہیں، چہرے پر طمانیت ہے اور ایک ایسی نفیس کیفیت جو کسی شعرکے الہام کے وقت طاری ہوا کرتی ہے۔

یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

عبدالقادر حسن

بشکریہ ایکسپریس نیوز

دنیا بھر میں جمہوریت زوال کی جانب گامزن

’دی اکانومسٹ‘ کے تحقیقی ادارے ’انٹیلی جنس یونٹ‘ کے نئے ’جمہوریت انڈیکس‘ کے مطابق دنیا بھر میں اس برس بھی جمہوریت زوال کی جانب گامزن دیکھی گئی۔ اس انڈیکس میں دنیا کے 167 ممالک میں جمہوریت کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق سن 2017 میں دنیا کے کسی خطے میں بھی جمہوریت کی صورت حال میں بہتری نہیں آئی۔ اس مرتبہ کے انڈیکس میں جمہوری صورت حال کو پرکھنے کے لیے بنائے گئے پیمانوں کے علاوہ میڈیا کی صورت حال پر الگ سے انڈیکس ترتیب دیا گیا ہے۔ انڈیکس میں عالمی سطح پر حکومتوں کو چار حصوں، مکمل جمہوریت، تقریباﹰ جمہوریت، نیم جمہوریت اور مطلق العنانیت، میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جمہوریت کی صورت حال پرکھنے کے لیے چھ اہم پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا جن میں انتخابی عمل، حکومتی عمل داری، سیاسی میں شرکت، سیاسی کلچر اور شہری آزادی شامل ہیں۔

عالمی انڈیکس کے مطابق دنیا بھر کے صرف انیس ممالک ایسے ہیں جہاں مکمل جمہوریت ہے اور ان ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا محض ساڑھے چار فیصد بنتی ہے۔ جب کہ دنیا کی قریب پینتالیس فیصد آبادی ایسے 57 ممالک آباد ہے جہاں کے حکومتی نظام کو ناقص ہونے کے باوجود تقریبا جمہوریت کے قریب کہا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ 39 ممالک ایسے جہاں انتخابی عمل شفاف نہیں جب کہ سول سوسائٹی اور قانون کی عملداری بھی کافی کمزور ہے۔ ان ممالک کو ’نیم جمہوریت‘ میں شمار کیا گیا ہے۔

دنیا کی ایک تہائی آبادی کو مطلق العنان حکومتوں کا سامنا ہے اور انڈیکس کے مطابق ایسے ممالک کی تعداد باون بنتی ہے جہاں جمہوریت کا وجود نہیں۔ ایسے ممالک کی فہرست میں چین بھی شامل ہے۔ انڈیکس میں ناروے سر فہرست ہے جب کہ امریکا کو اس برس بھی مکمل جمہوریت والے ممالک کی فہرست کی بجائے تقریبا جمہوری ملک قرار دیا گیا ہے۔ امریکا میں صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد ملکی اداروں کے علاوہ میڈیا کی آزادی بھی متاثر ہوئی ہے۔ عالمی درجہ بندی میں امریکا 21 ویں، جب کہ برطانیہ 14 ویں نمبر پر رہا۔ جرمنی 8.61 پوائنٹس کے ساتھ تیرہویں نمبر پر ہے۔

دی اکنانومسٹ کی اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ عالمی سطح پر میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی کی بگڑتی ہوئی صورت حال حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں جمہوریت کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی عکاس ہے۔ رپورٹ کے مطابق جمہوری نظام میں تنزلی کی عکاسی ایسے ممالک میں بھی دیکھی گئی ہے جہاں جمہوریت کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں۔ جمہوریت کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجوہات سے متعلق رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ عوام کی انتخابی عمل میں عدم شرکت کا بڑھتا رجحان ان کے جمہوری نظام سے مایوس ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔