دفاع اور معیشت کی کمزوری کے باعث بھارت طاقتور ممالک کی صف سے باہر ہو گیا

عالمی ادارے کے سروے میں بھارت کو ایشیا پیسفک کے چار بڑے ممالک میں شامل ہونے کے باوجود بڑی طاقتوں کی صف سے باہر ہو گیا۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلیا میں قائم بین الاقوامی ادارے لوئی انسٹی ٹیوٹ نے 2020 کے لیے ایشیا کا پاؤر انڈیکس جاری کیا ہے جس میں بھارت نے گزشتہ برس کے مقابلے میں 40 پوائنٹ کم حاصل کیے ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ آبادی کے اعتبار سے خطے کا دوسرا بڑا ملک اب ایشیا پیسفک میں درمیانے درجے کی طاقت بن چکا ہے ۔ کورونا وائرس کے باعث خطے میں سب سے زیادہ بھارت کی ترقی کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خظے میں آبادی و دیگر حالات کے اعتبار سے بھارت چین کا مقابلہ کر سکتا ہے لیکن بدلتی صورت حال میں بھارت چین کے آس پاس بھی پہینچ جائے اس کا امکان نظر نہیں آتا۔

اس سے قبل یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ آئندہ ایک دہائی میں بھارت چین کی معاشی ترقی کے پچاس فیصد کے برابر آجائے گا تاہم موجودہ حالات میں اب چالیس فی صد کی حد عبور کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ لوئی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بھارت نے اپنے سفارتی اثر و رسوخ میں ضرور اضافہ کیا ہے تاہم دفاعی نیٹ ورک اور اقتصادی تعلقات کے دو ایسے پیمانے ہیں جن پر بھارت کی کارکردگی نیچے آئی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں خطے پر بھارتی اثر رسوخ میں بھی کمی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جس ک مطابق ماضی میں بھارت کے زیر اثر نیپال میں اب چین اس سے کئی گنا زیادہ بارسوخ ہو چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو اپنے حالات کا جائزہ لینا چاہتا ہے اور اگر اسے سپر پاور بننے کی خواہش ہے تو دہائیوں تک محنت کرنے کے بعد بھی یہ ہدف حاصل کرنا سہل نہیں ہو گا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بھارت میں تاریخی معاشی گراوٹ

کوئی ایک سال پہلے پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ طور پر جموں و کشمیر کی وہ قانونی حیثیت ختم کر دی جو آرٹیکل 370 کے تحت ریاست کو حاصل تھی، گو کہ اقوام عالم کی طرف سے بظاہر اس بھارتی ’بلنگ‘ کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا گیا لیکن درون خانہ بیرونی دنیا نے اس بھارتی اقدام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ بھارت کے اندر بھی انصاف پسند اور سیکولر حلقوں نے کشمیریوں سے ہونے والی اس زیادتی پر آواز اٹھائی۔ برطانیہ یقیناً یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہمارا ہی نامکمل ایجنڈا ہے، برطانیہ نے واشگاف الفاظ میں تو بھارت کی مذمت نہیں کی لیکن نامحسوس طریقے سے ایک بڑی معاشی چوٹ بھارت کو ضرور دی ہے مثال کے طور پر 2018ء تک یوکے انڈیا کی تجارت کا مجموعی حجم 10.1 بلین ڈالر تھا جو یکدم 2019ء میں کم ہو کر 8.8 بلین ڈالر ہو گیا۔ اگرچہ پاکستان کے ساتھ بھی یوکے کی تجارت کا حجم 2019ء میں بڑھنے کی بجائے کم ہوا ہے لیکن برطانیہ کے بعض معاشی تھنک ٹینکس اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ بھارت کے مذکورہ غیرجمہوری قدم سے کئی ایک کلیدی برطانوی سرمایہ کاروں نے بھارت کے ساتھ بزنس سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور کچھ اسی طرح کی صورتحال امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک کی بھی ہے بلکہ بھارت کے اندر لاتعداد کھرب پتی کمپنیز نے مزید سرمایہ کاری سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ بھارتی حکومت کے خود جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں ملک کی معیشت میں تشویشناک حد تک مندی دیکھنے میں آئی ہے جو کہ گزشتہ 24 سال میں معیشت کی بدترین سطح ہے۔ بظاہر تو بھارتی حکومت اس مندی کی وجہ کورونا وائرس اور لاک ڈائون کو قرار دے رہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا عدم استحکام بھی اس کی ایک بڑی وجہ بہرحال ضرور ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ بھارتی معیشت کورونا وائرس پھوٹنے سے پہلے ہی مندی کا شکار تھی۔ پچھلے دو سال سے ملک میں بیروزگاری کی شرح 45 برسوں میں سب سے زیادہ تھی اور معاشی نمو کی شرح گر کر 4.7 فیصد تک آ چکی تھی۔ ملک میں پیداوار گر رہی تھی اور بینکوں پر قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ چکا تھا۔ ایک انڈین تھنک ٹینک کے مطابق صرف ایک مہینے کے لاک ڈائون کی وجہ سے بارہ کروڑ دس لاکھ افراد بیروزگار ہوئے۔ بھارت کے ایک ڈیمو کریٹک تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ جب ہماری حکومت کشمیر میں 370 آرٹیکل کو تبدیل کرنے جیسے کاموں میں مصروف ہے دیکھئے کہ بھارت بھر میں معیشت کس طرح گر رہی ہے کہ (1) جیٹ ایئرویز بند ہو چکی ہے (2) ایئر انڈیا کو 7600 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے (3) بھارت سینچرنگم لمیٹڈ (بی ایس این ایل) جو بھارت کی نمبر ون ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی ہے اس کی 54000 ملازمتیں ختم ہو چکیں (4) ہندوستان ایروناٹکس (ایچ اے ایل) کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے رقم نہیں ہے (5) پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کو 15000 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا (6) ملک کی آٹو انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے (7) ملک میں دو ملین سے زیادہ گھر جو تیس بڑے شہروں میں بنائے گئے انہیں خریدنے والا کوئی نہیں (8) ایئرسیل ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی بینک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (9) وائڈو کون انڈسٹری لمیٹڈ جس کی کبھی انکم 291 ملین ڈالر تھی (10) ٹیلی کمیونی کیشن کی ایک بڑی کمپنی ’’ٹاٹا ڈوکومو‘‘ بینک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (11) سیمنٹ، انجینئرنگ کنسٹرکشن، رئیل اسٹیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمپنی بند ہو چکی ہے (12) ’’آئل اینڈ نیچرل گیس کارپوریشن‘‘ جسے بھارتی حکومت نے 1956ء میں قائم کیا تھا اور جس نے ملک بھر میں 11 ہزار کلومیٹر پائپ لائن بچھائی ہے آج تاریخی زوال کا شکار ہے (13) ملک کے 36 بڑے قرضہ لینے والے افراد اور کمپنیز غائب ہو چکی ہیں (14) 2.4 لاکھ کروڑ کے قرضے چند کارپوریٹس کو معاف ہو چکے (15) تمام ملکی بنکس کھربوں کے قرض لے رہے ہیں (16) ملک کا اندرونی قرضہ 500 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے (17) ریلوے برائے فروخت ہے (18) لال قلعے تک کو کرایہ پر دے دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اور بہت سے تاریخی اثاثے (19) بڑی کار کمپنی موروتی کی پروڈکشن نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے کمپنی کی 55 ہزار کروڑ نئی کاریں فیکٹریوں میں کھڑی ہیں ان کا خریدار کوئی نہیں (20) ملک میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس 18 فیصد سے بڑھ کر 28 فیصد ہونے سے کنسٹرکشن انڈسٹری تباہی کا شکار ہے کئی بلڈرز خودکشیاں کر چکے (21) انڈین ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے ادارے آرڈیننس فیکٹری بورڈ کے پاس اپنے ڈیڑھ لاکھ ملازموں کو تنخواہیں دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں (22) 45 سال میں بیروزگاری کی شرح بلند ترین ہے (23) ملک کے تمام بڑے ہوائی اڈے ایڈانی کمپنی کو بیچ دیئے گئے ہیں اور پورے ملک میں ایک معاشی جمود طاری ہے (24) کیفے کافی ڈے ’’سی سی ڈی‘‘ کمپنی جس کے ملک بھر میں 1752 کیفے تھے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اس کے چیئرمین وی جی سدھارتھ نے خودکشی کر لی۔

اوپر ذکر کئے گئے یہ چند حقائق ہیں جنہیں بھارتی میڈیا منظر عام پر نہیں لا رہا بلکہ بھارتی حکومت اور اثر انداز ہونے والے دیگر ریاستی اداروں کے دبائو میں میڈیا اپنے عوام اور دنیا کے سامنے کشمیر میں ہونے والے گزشتہ ایک سال کے لاک ڈائون سے ہونے والا تقریباً 14 ارب سے زیادہ کا وہ نقصان بھی سامنے نہیں لا رہا جو کشمیریوں اور بھارتی حکومت کو اس لئے مسلسل ہو رہا ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے وہ فروٹ جو باغوں میں ہی گل سڑ گئے اور جنہیں اتارنے والا کوئی نہیں، ظاہر ہے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ یہ نقصان بھارتی حکومت کا بھی ہے۔

وجاہت علی خان

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

بھارت میں مزدروں کا پیدل سفر اور ہلاکتیں جاری

بھارت میں دو ماہ سے جاری لاک ڈاؤن میں درجنوں مہاجر مزدر گھر واپسی کے لیے پیدل یا پھر سائیکل سے سفر کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بھارت میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جاری لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ غریب افراد، خاص طور پر مہاجر مزدر، متاثر ہوئے ہیں۔ ملازمت، روزگار اور کھانے پینے کی چیزوں سے محروم ایسے افراد اپنے آبائی علاقوں تک واپسی کے لیے بے چین ہیں اور اس کوشش میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں چار مزید مہاجر مزدور گھر کی واپسی کے دوران ہلاک ہوئے جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ چھ مزدروں پر مشتمل ایک قافلہ ریاست مہاراشٹر سے ایک آٹو رکشہ میں سوار ہوکر یوپی کے جون پور آرہا تھا۔ تقریبا 1300 کلو میٹر کا سفر طے کرنے کے بعد جب یہ لوگ گھر کے قریب تھے کہ فتح پور کے پاس ایک ٹرک سے ٹکّر میں ایک خاتون اور ان کی بیٹی موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔ اس واقعے میں دیگر افراد کو شدید چوٹیں آئی ہیں۔

اسی طرح کے ایک دوسرے واقعے میں ہریانہ میں پیدل سفر پر نکلنے والے ایک مزدر کی موت ہو گئی۔ دو مزدور انبالہ سے بہار کے لیے پیدل سفر پر نکلے تھے جنہیں ایک کار نے ٹکّر مار دی۔ ان میں سے ایک موقع پر ہی ہلاک ہو گیا جبکہ دوسرا شدید طور زخمی ہسپتال میں زندگی اور موت سے نبرد آزما ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں مزدوروں کا تعلق بہار سے ہے جو گھر جا رہے تھے۔ گزشتہ رات سائیکل پر سوار ایک اور مہاجر مزدور گھر جانے کے دوران رائے بریلی میں ہلاک ہوا۔ 25 سالہ مہاجر مزدور شیو کمار داس مغربی یوپی کے بلند شہر سے بہار جا رہے تھے اور وہ بھی کار حادثے کا شکار ہو گئے۔ گزشتہ روز سائیکل پر سوار دو اور مہاجر مزدور گورکھپور میں ہلاک ہوئے تھے۔ یہ جنوبی ریاست تلنگانہ سے آرہے تھے۔ اس سے قبل 26 سالہ صغیر لکھنؤ میں ہلاک ہوئے جو دلی سے بہار سائیکل پر جا رہے تھے۔ اور چند روز قبل ہی لکھنؤ میں چھتیس گڑھ کے میاں بیوی اس وقت ہلاک ہو گئے جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ سائیکل پر گھر واپس جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

گزشتہ تقریبا ًڈیرھ ماہ سے اس طرح کی خبریں متواتر مل رہی ہیں۔ بظاہر یہ تمام افراد حادثات کا شکار ہوئے لگتے ہیں لیکن اس کے پیچھے لاک ڈاؤن کے سبب پنپنے والی بے روزگاری، فاقہ کشی، غیر یقینی صورتحال اور افراتفری ہے۔ بے سہارا اور بے یار و مددگار مزدورں میں ایک عجیب سا خوف اور اضطراب ہے کہ جان کی پرواہ کیے بغیر سب اپنے گھروں کوواپسی کے لیے بے چین ہیں۔ مایوسی اور اضطراب کی کیفیت اور بھوک سے کورونا کا خوف زائل ہو گیا ہے اور وہ ہزاروں میل کا سفر پیدل طے کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ کوئی سائیکل پر سوار ہے تو کوئی راستے میں ٹرک، ٹریکٹر یا جو بھی سواری ملے اس سے مدد لے کر گھر پہنچنا چاہتا ہے۔ حسب معمول جب تک حکومت کو اس کا احساس ہوتا بہت دیر ہوچکی تھی۔ ان مہاجر مزدوروں کے لیے ریل یا بسوں کے کچھ انتظامات بھی کیے گئے ہیں تاہم ہر جانب افراتفری کا عالم ہے اور بحران اس بڑے پیمانے کا ہے کہ حکومت کے انتظامات کو ‘اونٹ کے منہ میں زیرہ’ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

چند روز قبل ریاست مہاراشٹر سے بیس مزدروں کا قافلہ ریاست مدھیہ پردیش کے بھساول جا رہا تھا اورتقریبا ًپچاس کلومیٹر کے پیدل سفر کے بعد ریل کی پٹری پر رات کے وقت آرام کے لیے رکا تو انہیں نیند آگئی۔ اس میں سے سولہ مزدور علی الصبح پٹری پر آنے والی مال گاڑی کے نیچے کٹ کر ہلاک ہو گئے۔ ابھی اس واقعے پر حکومت اور وزراء افسوس کا اظہار کر ہی رہے تھے کہ مدھیہ پردیش سے یوپی آنے والے چھ مزدور اس وقت ہلاک ہو گئے جب ایک ٹرک راستے میں پلٹ گیا۔ ایسے واقعات کی فہرست طویل ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس پر نہ تو ریاستی حکومتوں کی اور نہ ہی مرکزی حکومت کی کوئی خاص توجہ ہے۔ اس وقت سب کورونا وائرس کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

بھارت میں معاشی ترقی کی رفتار 6 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی

بھارت کی معاشی ترقی کی رفتار 6 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عرب خبر رساں ادارے ’’گلف نیوز‘‘ کے مطابق بھارت کی معاشی ترقی کی رفتار 2013ء کے بعد کی کم ترین سطح 4.5 فیصد پر پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے انتہاپسند مودی حکومت کے لیے پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی حکومت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق بھارتی معاشی ترقی کی رفتار گزشتہ سال 7 فیصد تھی جو کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران گراوٹ کے باعث 4.5 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ بھارت کو ایشیا کی تیسری بڑی معیشت مانا جاتا ہے لیکن ترقی کی شرح ہندوستان کو نوجوانوں کے لیے لاکھوں نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے درکار شرح سے انتہائی کم ہے۔

بھارت میں صارفین کی طلب (کنزیومر ڈیمانڈ) انتہائی کم اور بیروزگاری 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے موجودہ مودی حکومت شدید مسائل سے دوچار ہے۔ یہی وجہ ہے بھارتی کی وزیر خزانہ نرملا ستھارامان نے اہم سیکٹرز میں غیرملکی سرمایہ کاری پر عائد پابندیاں نرم کرنے، کارپوریٹ ٹیکس میں کمی اور نجکاری پالیسی شروع کرنے کا بھی اعلان کیا تاہم اعلان بھی صارفین کا اعتماد بحال کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوا ہے اور کاروں سے لے کر بسکٹ تک کی طلب (ڈیمانڈ ) انتہائی کم ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورت حال سے بھارتی معیشت پر بھی برے اثرات پڑے ہیں اور مودی سرکار کے پالیسی تھنک ٹینک کے مطابق بھارت کو جس اقتصادی سست روی کا سامنا ہے اس کی مثال پچھلے ستر سال میں نہیں ملتی۔

بھارتی حکومت کے پالیسی تھنک ٹینک نیشنل انسٹی ٹیوشن فار ٹرانسفارمنگ انڈیا کے وائس چیئرمین راجیو کمار کا کہنا تھا کہ ملک کو اس وقت جس اقتصادی سست روی کا سامنا ہے اسکی مثال پچھلے 70 سال میں نہیں ملتی۔ راجیو کمار کا کہنا ہے کہ پورا مالیاتی شعبہ خراب صورت حال سے دو چار ہے اور کوئی بھی کسی پر اعتماد نہیں کر رہا۔ امریکا کے آزاد مالیاتی ادارے جیفریز کے ایکویٹی اسٹریٹجیز شعبے کے گلوبل ہیڈ اور معروف تجزیہ کار کرس ووڈ نے بھی سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر بھارت کی اقتصادی صورتحال مزید خراب ہونے کی پیش گوئی کر دی۔ کرس ووڈ نے اپنے نیوز لیٹر گریڈ اینڈ فیئر میں انہوں نے بھارت کے ایسیٹ ایلوکیشن پورٹ فولیو میں ایک فیصد کی کمی کی ہے جو اب 16 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد پر آ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال نے بھی بھارتی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

بشکریہ دنیا نیوز

مودی کے غلط فیصلوں نے بھارتی معیشت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا

بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی منفی سوچ اور غلط فیصلوں نے بھارتی معیشت کو تباہی کے دھانے پر لا کر کھڑا کر دیا۔ عالمی ریٹنگ کے ادارے موڈیز نے بھارتی معیشت کی ریٹنگ کو منفی قرار دے دی۔ عالمی ریٹنگ کے ادارے موڈیز نے بھارتی وزیراعظم کو بڑا جھٹکا دیدیا، بھارتی معیشت کی ریٹنگ مستحکم سے منفی کر دی گئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے مودی سرکاری معیشت کو غلط سمت میں لے جارہی ہے جس سے بھارتی اداروں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق موجودہ حالات میں خسارے اور قرضوں میں اضافہ ہو گا۔ موڈیز کی رپورٹ کے آتے ہیں، بھارتی روپیہ اور سٹاک مارکیٹ تیزی سے گرنا شروع ہو گئے۔ ڈالر کے مقابلے بھارتی روپیہ 40 پیسے کمی کے بعد ایک سال کی کم ترین سطح 71 روپے 25 پیسے پر ٹریڈ کرنے لگا، اس طرح آج کے روز بھارتی روپیہ ایشیاء کی بدترین پرفارمنس دکھانے والی کرنسی رہی۔ بھارتی روپے کی گراوٹ اور معیشت کی منفی ریٹنگ کے اثرات سٹاک مارکیٹ پر بھی نظر آئے، بھارتی سٹاک مارکیٹ دوران ٹریڈنگ 150 پوائنٹس سے زائد گر گئی۔

بشکریہ دنیا نیوز

انڈیا کی معاشی ترقی کے دعوؤں میں کتنی حقیقت ہے؟

انڈیا کے سابق چیف معاشی مشیر نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انڈیا اپنی معاشی ترقی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ ایک ہندوستانی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں اروند سبرامنیئن نے کہا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق ہندوستان نے معاشی ترقی ماپنے کا طریقہ کار تبدیل کر دیا ہے جس کی وجہ سے اب اس کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) بڑھا چڑھا کر تقریباً ڈھائی فیصد تک بتائی جا رہی ہے۔ اُدھر انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے اقتصادی مشیروں کی ٹیم نے سبرامنیئن کے اخذ کردہ نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلد ہی ان تمام نکات کا تفصیلی جواب دیا جائے گا۔ حکومتی رد دلائل خواہ کیسے بھی ہوں تاہم سبرامنیئن کے مشاہدات نے ہندوستان کی معاشی ترقی کے دعووں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ 2018 میں انڈیا کی معاشی ترقی کی رفتار دنیا بھر میں سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے مگر کئی چوٹی کے ماہرینِ اقتصادیات کا ماننا ہے کہ نیا طریقہ کار درست نہیں ہے جس کے باعث یہ معیشت کی حقیقی تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

تنازع کیا ہے؟
سنہ 2015 میں ہندوستان نے اپنی جی ڈی پی ماپنے کے طریقہ کار کو تبدیل کر دیا تھا۔ بڑی تبدیلیوں میں سے ایک یہ تھی کہ جی ڈی پی کو اب بنیادی اخراجات کے بجائے مارکیٹ کی قیمتوں سے ماپا جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو پہلے جی ڈی پی کا حساب کسانوں کو ان کی مصنوعات پر ملنے والی تھوک قیمتوں سے لگایا جاتا تھا مگر اب اس کا تخمینہ صارفین کی جانب سے ادا کیے گئے مارکیٹ نرخوں پر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بیس ایئر، یعنی جس سال کی قیمتوں سے موازنہ کیا جانا تھا کو 05-2004 سے تبدیل کر کے 12-2011 میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ سہہ ماہی اور سالانہ شرحِ نمو کا جائزہ لیا جا سکے۔ 

تب سے اب تک یہ طریقہ اقتصادیات اور شماریات کے ماہرین کی کڑی نظروں میں رہا ہے۔ اور سبرامنیئن کے اس دعوے کہ 12-2011 سے 17-2016 کے درمیان معاشی ترقی بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی نے ان تمام شکوک و شبہات کو تقویت دی ہے۔ جہاں سرکاری اعداد و شمار اسے 7 فیصد قرار دیتے ہیں، وہیں سبرامنیئن کے نزدیک حقیقی ترقی تقریباً 4.5 فیصد رہی ہے۔ ان کا تبصرہ ان کی اپنی تحقیق پر مبنی ہے جسے ہارورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ نے شائع کیا ہے۔ 2015 میں جب نیا طریقہ کار نافذ ہوا تب سے اب تک کئی ماہرین نے وزیرِ اعظم نریندرا مودی کی حکومت میں لگائے گئے معاشی نمو کے بلند تخمینوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کی حکومت کی جانب سے تیز شرحِ نمو کے دعوے کے باوجود سال 2017 اور 2018 کے درمیان بے روزگاری 45 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ ہندوستان کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سابق چیف اکنامسٹ رگھورام راجن نے بلند شرحِ بیروزگاری کی بناء پر ڈیٹا پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔

انڈیا کی حکومت کیا کہتی ہے؟
حکومت نے معاشی ترقی ماپنے کے اپنے طریقہ کار کا دفاع کیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں ہندوستان کی وزارتِ شماریات نے کہا ہے کہ “ہندوستان مختلف شعبوں کی جانب سے معیشت میں کیے گئے تعاون کا معروضی تخمینہ لگاتا ہے اور ملکی جی ڈی پی کے تخمینے تسلیم شدہ طریقہ کار کے تحت لگائے جاتے ہیں۔” یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ڈیٹا جمع کرنے کے حوالے سے حکومت سوالات کی زد میں آئی ہو۔ وزارتِ شماریات کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جون 2016 کو ختم ہونے والے مالی سال میں ہندوستان کی جی ڈی پی کا تخمینہ لگانے کے لیے استعمال کیے گئے ڈیٹابیس میں موجود 36 فیصد کمپنیوں کا پتہ نہیں لگایا جا سکا یا پھر انہیں غلط زمروں میں شامل کیا گیا تھا۔

حکومت نے خود بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کی جانب سے ڈیٹا اکھٹا کرنے کے طریقہ کار میں مسائل موجود ہیں۔ سبرامنیئن نے مطالبہ کیا ہے کہ ہندوستانی اور غیر ملکی ماہرین پر مبنی ایک آزاد پینل ہندوستان کے جی ڈی پی ڈیٹا کا جائزہ لے۔ سبرامنیئن لکھتے ہیں کہ “میری نئی تحقیق کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی بحران کے بعد ماہرینِ شماریات جو عوام کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہندوستانی معیشت گولی کی رفتار سے ترقی کرے گی، اس بیانیے کو ایک مزید حقیقت پسندانہ بیانیے میں تبدیل ہونا ہو گا جس میں معیشت ٹھوس ترقی تو کرے گی مگر یہ انتہائی تیز رفتار نہیں ہو گی۔”

اس سے انڈیا پر کیا فرق پڑے گا؟
یہ وزیرِ اعظم مودی کی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جس نے حال ہی میں دوسری مدت کے لیے انتخابات جیتے ہیں مگر اس پر معیشت کو بحال کرنے کے لیے کافی دباؤ ہے۔ حکومت کی اپنی شخصیات تسلیم کرتی ہیں کہ ہندوستان اب تیز ترین رفتار سے ترقی کرنے والی معیشت نہیں ہے، گزشتہ پانچ سالوں میں معاشی ترقی کی سست ترین شرح کی وجہ سے اس نے یہ اعزاز چین کے ہاتھوں کھو دیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس سے ہندوستان کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے مگر اس سے یہ بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ کس طرح گزشتہ چند سالوں میں نافذ کی گئی معاشی پالیسیوں نے معیشت کی ایک غلط تصویر پیش کر کے اقتصادی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہو گی۔

مثال کے طور پر ہندوستان میں مہنگائی کو قابو میں رکھنے کے لیے شرحِ سود بلند رکھی گئی مگر اس سے قرضے حاصل کرنے کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا جس سے کاروبار میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ حالات اس وقت مزید خراب ہوئے جب بینکوں کو غیر وصول شدہ قرضوں کے بحران کا سامنا کرنا پڑا جس سے پیسے تک رسائی مزید مشکل ہو گئی۔ چنانچہ رواں سال جب معاشی ترقی رکنے لگی تو مرکزی بینک نے تین مرتبہ شرحِ سود میں کمی کا اعلان کیا۔ ملازمتوں کی کمی اور ملک کو لاحق زرعی بحران ایسے دو بڑے چیلنجز ہیں جنہوں نے معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔

ماہرین کے مطابق معیشت پر اعتماد کی بحالی کے ساتھ ساتھ فوری طور پر شماریاتی نظام کو از سرِ نو استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پالیسی جائزوں کے لیے تیزی سے ڈیٹا اکھٹا کیا جا سکے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈیٹا اکھٹا کرنے کے نظام میں جدت لانے کے لیے ورلڈ بینک کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ وزیرِ اعظم مودی نے حال ہی میں کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے پالیسیاں بنائیں گی۔ ہندوستانی معیشت کی مایوس کن صورتحال دیکھتے ہوئے سبرامنیئن کا بھی خیال ہے کہ حکومت کو معاشی سست رفتاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں کہ “معیشت کے تیز رفتار ہونے کے بجائے سست رفتار ہونے کی اس نئی حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر ہنگامی طور پر اصلاحات کی جانی چاہیئں۔”

سمیر ہاشمی
بشکریہ بی بی سی نیوز، ممبئی

امریکا کا بھارت کو جھٹکا، اہم تجارتی فائدہ ختم کرنے کا فیصلہ

امریکا نے بھارت کو حاصل تجارتی فائدہ اٹھانے والے ترقی پذیر ملک کا درجہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کو خط کے ذریعے بھارت کے خلاف فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ خط میں ٹرمپ نے موقف اپنایا ہے کہ بھارت اپنی منڈیوں تک امریکا کو رسائی دینے کی یقین دہانیاں کرانے میں ناکام رہا جبکہ تجارتی مفاد لینے کے لیے بھارت یقین دہانیاں کرانےمیں ناکام رہا جس کے باعث امریکا نے بھارت کو دیے گئے جی ایس پی کا درجہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔  واضح رہے کہ امریکا کے جی ایس پی پروگرام کے تحت بعض ممالک کو اشیاء پر ٹیکس سے استثنا حاصل ہے، ترقی پذیر ممالک میں اقتصادی نمو کے لیے پروگرام پر یکم جنوری  1976سے عمل کیا جارہا ہے جبکہ امریکا کی جانب سے جی ایس پی کا درجہ تجارتی ایکٹ 1974 کے تحت دیا جاتا ہے۔

کیا بھارت کی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے ؟

چین اور جاپان کے بعد بھارت ایشیا کی سب سے بڑی معیشت تھا لیکن اب دنیا بھر کا میڈیا اس کی کمزور ہوتی معیشت کا ذکر کر رہا ہے۔ 2014 میں جب اقتدار بدلا اور نریندر مودی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو امید کی جا رہی تھی کہ اب معیشت کی ترقی کی رفتار تیز ہو گی۔ 2016 میں معیشت میں تقریباً سات فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا لیکن آج کی تاریخ میں یہی معیشت چار سال میں اب تک کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اب حکومت فکر مند ہے اور حزبِ اختلاف بھی جم کر حکومت کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مودی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی جس فائنینشل ایڈوائزری کمیٹی کو تحلیل کر دیا تھا اب بحال کر دیا ہے۔ مودی حکومت کے اس یوٹرن سے ظاہر ہے کہ وہ گرتی معیشت سے فکر مند ہیں۔ مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر نہ صرف حزبِ اختلاف میں بلکہ پارٹی کے اندر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں وزیز خزانہ رہنے والے یشونت سنہا نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی حکومت نے ملک کی معیشت کو برباد کر دیا۔

مودی حکومت کی جانب سے نوٹ بندی کے فیصلے کی ہر طرف تنقید ہو رہی ہے۔ پارٹی کے اہم رہنما یشونت سنہا کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی اتحادی جماعت شو سینا نے بھی نوٹ بندی کی تنقید کی ہے۔ ریاست آندھر پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے بھی کہا ہے کہ جی ڈی پی میں گراوٹ ، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ہے۔ بھارت کی معیشت میں آنے والی مندی اور اس سے نپٹنے میں ناکامی کی خبریں چینی میڈیا میں بھی آ رہی ہیں۔ چین کی سرکاری اخبار ‘گلوبل ٹائمز’ نے مودی حکومت کے مبینہ دوہرے رویے کی سخت تنقید کی ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ ‘مودی کے قول و فعل میں بڑا تضاد ہے’۔

اس سے پہلے جون 24 کو ‘دی اکانومسٹ’ نے مودی کی اقتصادی پالیسیوں کی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مودی خود کو جتنے بڑے اصلاح کار دکھاتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔ روزنامہ ‘فورچیون’ لکھتا ہے کہ بی جے پی کے دماغ میں کونسی معیشت ہے اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ فورچیون نے سابق وزیرِ خزانہ یشونت سنہا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یشونت سنہا نے 2004 میں بی جے پی کی شکست کا ذمہ داری قبول کی تھی ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی ہار کے لیے خود خود کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

یشونت سنہا کے ایک بیان کو اخبار نے اس طرح لکھا کہ ‘میں نے بطور وزیرِ خزانہ مٹی کے تیل کی قیمت میں اضافہ کیا تھا۔ پورے بھارت کے دیہی علاقوں میں کیروسن کھانا پکانے اور روشنی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ان کے اس فیصلے سے لاکھوں دیہی لوگوں کی زندگی متاثر ہوئی تھی۔ بی جہ پی کی حکومت مہنگائی اور خاص طور پر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تنقید کا شکار ہے۔ یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے نولاٹ بندی کر کے ملک کی معیشت کو گہری چوٹ پہنچائی ہے۔ اس کے علاوہ حزبِ اختلاف کے مطابق مودی حکومت نے جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا اس میں بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔

جب پارلیمان میں نوٹ بندی پر بحث ہو رہی تھی تو منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ ملک کی معیشت میں کم سے کم دو فیصد کی گراوٹ آئے گی اور اج بلکل ویسا ہی ہوا ہے۔ حکومت کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا اور منموہن سنگھ صحیح ثابت ہوئے۔ مودی حکومت کی جاب سے جس طرح جی ایس ٹی کو نافذ کیا گیا اس پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ابتدا میں جی ایس ٹی پر کافی کنفیوژن تھا۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ بھاری ٹیکس شرح کے سبب اس سے فائدہ نہیں نقصان ہی ہو گا۔ ‘بلوم برگ’ نے لکھا ہے کہ بھارت کی کرنسی اور بانڈ مارکیٹ پر پریشانی کے بادل منڈلا رہے ہیں، غیر ملکی بازار سے اپنا پیسہ واپس نکال رہے ہیں اور انڈین بازار پر لوگوں کا بھروسہ کم ہو رہا ہے اور اس سے معیشت میں مزید گراوٹ کا اندیشہ ہے اور آنے والے وقت میں روپیہ ڈالر کے مقابلے مزید کمزور ہو سکتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو