ارنب ، پلواما اور جرمن ڈراما

ٹی وی چینلز کی جعلی ریٹنگز کیس کے سلسلے میں ممبئی پولیس کی جانب سے مودی نواز ریپبلک ٹی وی چینل کے معروف اینکر ارنب گوسوامی اور براڈ کاسٹ آڈئینس ریسرچ کونسل (بارک) کے سربراہ پراتھو گپتا کے مابین وٹس ایپ پیغامات کے دستاویزی ریکارڈ نے دلی سے اسلام آباد تک بھونچال برپا کر دیا ہے۔ تین ہزار صفحات سے زائد اس ریکارڈ میں پاکستانیوں کے کام کے ٹویٹس وہ ہیں جن سے انکشاف ہوتا ہے کہ ارنب کو چھبیس فروری دو ہزار کو بھارتی فضائیہ کی جانب سے بالا کوٹ پر حملے کے بارے میں کم ازکم تین روز پہلے تئیس فروری کو ہی معلوم ہو چکا تھا اور اس کا سبب کشمیر میں ہونے والی ’’ ایک بڑی چیز ’’ ( پلوامہ بم دھماکا ) بتایا گیا تھا۔ ارنب کے ٹویٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ پلواما حملہ ایک ’’ نعمتِ غیر مترقبہ ’’ تھا جس کے سہارے ایک بڑی جوابی کارروائی ( بالاکوٹ حملہ ) کر کے مودی حکومت کی لوک سبھا کے انتخابات میں شاندار کامیابی شک و شبہے سے بالا بلکہ دوبالا ہو گئی۔

پاکستانی دفترِ خارجہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پلواما حملہ دراصل بھارت نے خود اسٹیج کیا اور ایکٹ دو میں بالاکوٹ کا واقعہ ہوا۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس مودی حکومت علاقائی اور عالمی امن کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے۔ عالمی طاقتیں اب تک اس سنجیدہ خطرے کو غیر سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ بقول دفترِ خارجہ آر ایس ایس یافتہ مودی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر پلواما حملہ ڈرامہ سازی ثابت ہو جاتی ہے تو پھر یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہو گا۔ بیس برس پہلے صدر بل کلنٹن کے بھارت کے دورے کے موقع پر پاکستان کی کشمیر میں جاری ’’دہشت گردی ‘‘کے ایک بین ثبوت کے طور پر بیس مارچ دو ہزار کو ضلع اننت ناگ کے گاؤں چھتی سنگھ پورہ میں پینتیس کشمیری سکھوں کے قتلِ عام کی واردات بھی ہو چکی ہے۔

بھارت نے اس واردات کا ذمے دار لشکرِ طیبہ کو قرار دیا۔ مگر آج تک کسی بھی جانب سے اس بہیمانہ واردات کی ذمے داری قبول نہیں کی گئی۔ خود کشمیری سکھ قیادت کو روزِ اول سے یقین ہے کہ یہ کام بھارتی انٹیلی جینس ایجنٹوں نے کیا کیونکہ پاکستان نواز مسلح تنظیموں کو کشمیری سکھوں کے خلاف دہشت گردی سے کوئی سیاسی یا اسٹرٹیجک فائدہ نہیں تھا۔ مقامی سکھوں کے اس یقین پر اس لیے بھی یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ کلنٹن انتظامیہ کی وزیرِ خارجہ میڈلین البرائٹ نے اپنی یاداشتوں پر مبنی دو ہزار چھ میں شایع ہونے والی کتاب ’’ دی مائٹی اینڈ دی آلمائٹی، ریفلیکشن آن امریکا ، گاڈ اینڈ ورلڈ افئیرز‘‘ میں ہندو انتہا پسندوں کو کشمیری سکھوں کے قتلِ عام کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ ( بعد ازاں بے پناہ دباؤ پڑنے کے بعد کتاب کے ناشر ہارپر کولنز نے وضاحت کی کہ مسودے میں غلطیو ں کی ناقص چھان بین سے یہ مسئلہ پیدا ہوا۔ البتہ میڈلین آلبرائٹ نے کبھی بھی اعتراف نہیں کیا کہ ان سے سکھ قتلِ عام کے بیان میں کوئی غلطی ہوئی ہے)۔

چونکہ ان دنوں بھارت میں انتہاپسندی کی سرخیل آر ایس ایس اور اس کا تفریقی قوم پرستانہ نظریہ غالب ہے اور سب جانتے ہیں کہ اس نظریے کے ڈانڈے آر ایس ایس کے بانی رہنماؤں نے فاشسٹ مسولینی اور نازی نسل پرستانہ نظریے سے مستعار لیے۔ مگر ارنب کی ٹویٹس سے لگتا ہے کہ آر ایس ایس نے صرف نظریہ نازیوں سے مستعار نہیں لیا بلکہ نازیوں کے توسیع پسندانہ ہتھکنڈوں کی بھی نقالی ہو رہی ہے۔ ذرا پلواما کی واردات اور بالاکوٹ پر حملہ ذہن میں رکھئے اور اکیاسی برس پہلے کی ایک حقیقی کہانی سنئے۔ دوسری عالمی جنگ سے ذرا پہلے نازی جرمنی میں ہٹلر کے دست راست اور گسٹاپو کے سربراہ ہیملر نے چیکوسلواکیہ کے جرمن اکثریتی علاقے سوڈیٹنز لینڈ کو ہڑپ کرنے کے لیے وہاں کے کچھ جرمن نژاد باشندوں کو سادہ کپڑوں میں ملبوس گسٹاپو ایجنٹوں سے قتل کرایا۔ املاک کو آگ لگوائی اور پھر ہٹلر نے یہ کہہ کر کہ چیکو سلواکیہ کی سرکار اپنے جرمن نژاد شہریوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے، نازی فوجیں سوڈیٹنز لینڈ میں اتار کر اس علاقے کو ہڑپ کر لیا۔

اس کے بعد جرمنی نے اپنے دوسرے ہمسائے پولینڈ سے جرمن شہر ڈانزگ تک رسائی کے لیے زمینی کاریڈور کا مطالبہ کیا۔ پولینڈ نے چیکوسلواکیہ کا حشر دیکھتے ہوئے برطانیہ اور فرانس سے اسٹرٹیجک تعاون کا معاہدہ کر لیا۔ اس کے تحت کسی ایک ملک پر حملہ تینوں ممالک پر حملہ تصور ہو گا۔ ہٹلر کو اب پولینڈ ہڑپ کرنے کے لیے ایک ٹھوس جواز کی ضرورت تھی اور یہ جواز ایسے تخلیق کیا گیا کہ پولش سرحد سے متصل جرمن قصبے گلیوٹز کے ریڈیو اسٹیشن پر گٹساپو کے پولش بولنے والے ایجنٹوں کا قبضہ کروا کے نازی مخالف پروپیگنڈہ شروع کروایا گیا۔ اس کے بعد آشوٹز کے کنسنٹریشن کیمپ سے درجن بھر ہٹلر مخالف قیدیوں کو گلیوٹز لایا گیا۔ انھیں پولش فوج کی وردیاں پہنائی گئیں اور پھر انھیں گولی مار کر ہلاک کر کے ان کی لاشیں قصبے کے قریب ڈال دی گئیں۔ ان کی جیبوں میں جعلی پولش فوجی شناختی کارڈ بھی رکھے گئے اور وہ بندوقیں بھی رکھ دی گئیں جو پولش فوج استعمال کرتی ہے۔

یہ واقعہ تیس اگست انیس سو انتالیس کو ہوا۔ گزشتہ روز ہٹلر نے رائشتاغ ( جرمن پارلیمنٹ ) میں جرمن سرزمین کے خلاف ’’ ننگی پولش جارحیت‘‘ کی شدید مذمت کرتے ہوئے جرمن فادر لینڈ کے چپے چپے کی خون کے آخری قطرے تک حفاظت کا عہد کیا اور اگلے چوبیس گھنٹے میں کئی ڈویژن جرمن فوج نے پولینڈ کی سرحد عبور کر لی۔ اس حملے کے دو دن بعد تین ستمبر کو برطانیہ اور فرانس نے پولینڈ کے ساتھ کیے گئے اسٹرٹیجک معاہدے کی پاسداری میں نازی جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ یوں دوسری عالمی جنگ باقاعدہ چھڑ گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ گلیوٹز میں پولش فوجی حملے کے گسٹاپو کے ترتیب کردہ ڈرامے سے آٹھ روز پہلے ہٹلر نے جرمن فوجی ہائی کمان کے بند کمرے کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آنے والے وقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’میں آپ کو ایک ٹھوس جواز فراہم کروں گا۔ آپ کا کام صرف عظیم جرمن قوم کی فتح کو یقینی بنانا ہے۔ فاتح سے کوئی مورخ نہیں پوچھتا کہ اس نے کیا جھوٹ بولا تھا اور کتنا سچ بولا ‘‘۔ اب آپ اس کہانی کی روشنی میں ایک بار پھر پلواما کے دھماکے میں اکتالیس بھارتی نیم فوجی جوانوں کی ہلاکت، اس کے ردِعمل میں بالاکوٹ پر کارروائی، اس کارروائی سے تین دن پہلے کیے جانے والے ارنب گوسوامی کے ٹویٹس اور لوک سبھا کے عام انتخابات کی بی جے پی حکمتِ عملی کو جوڑ کے تصویر بنانے کی کوشش کیجیے۔ آپ کو اس تصویر میں اکاسی برس پہلے کے اصلی جرمن ڈرامے کا چربہ پن شاید نظر آ جائے۔ اور پھر سوچئے گا کہ آر ایس ایس اور کیا کیا نہیں کر سکتی۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

بالاکوٹ میں کوئی پاکستانی شہری یا فوجی ہلاک نہیں ہوا : سشما سوراج

بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ بھارتی فضائیہ کے آپریشن بالاکوٹ میں نہ تو کوئی پاکستانی سویلین ہلاک ہوا اور نہ ہی کوئی پاکستانی فوجی۔ انہوں نے یہ بات احمد آباد میں بی جے پی کی خاتون کارکنوں سے خطاب کے دوران کہی۔ خیال رہے کہ اس کارروائی کے بعد بھارت کے خارجہ سیکرٹری نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ بڑی تعداد میں دہشت گرد، ان کے کمانڈر اور تربیت کار مارے گئے ہیں اور جیش محمد کا کیمپ تباہ کر دیا گیا ہے۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے ڈھائی سو اور یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے چار سو دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ جب کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ہلاکتوں کے ثبوت مانگے۔ حکومت اور بی جے پی کی جانب سے ثبوت مانگنے والوں کو غدار، ملک دشمن اور پاکستان کا حامی قرار دیا گیا۔

کانگریس کے قومی ترجمان م۔ افضل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امت شاہ نے ڈھائی سو دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن اب سشما سوراج نے ان کے بیان کی تردید کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس معاملے کو ہوا دے کر الیکشن میں فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ لیکن اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ سفارت کاری میں ہمیشہ ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جو وزن دار ہوں اور سچائی پر مبنی ہوں۔ تاہم م۔ افضل نے یہ بھی کہا کہ سشما سوراج کے بیان کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر اس ایک واقعہ میں ایسا ہوا ہے تو پاکستان ہر معاملے میں درست ہی بولتا ہو۔

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور نے سشما سوراج کے بیان کے بعد ٹویٹ کر کے کہا کہ یہ بیان اس معاملے میں پاکستان کے موقف کی توثیق کرتا ہے اور اس سے بھارت کے جھوٹے دعوے کا انکشاف ہوتا ہے۔ ​انھوں نے یہ امید ظاہر کی کہ 2016 کے سرجیکل اسٹرائیک کے بھارت کے جھوٹے دعوے، پاکستانی فضائیہ کی جانب سے بھارت کے دو جیٹ طیارے مار گرانے اور پاکستان کا ایک ایف 16 طیارہ گرانے کی بھارت کے جھوٹے دعوے کی سچائی بھی سامنے آئے گی۔ پاکستان نے بالاکوٹ کارروائی کے بعد بھارت کے دعوے کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستانی فضائیہ کی جوابی کارروائی سے مجبور ہو کر بھارتی طیارے ایک ویران علاقے میں اپنے بم گرا کر عجلت میں واپس چلے گئے تھے۔

سہیل انجم

بشکریہ وائس آف امریکہ

دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں، چین

چین نے اقوام متحدہ کی جانب سے تجویز کردہ اقدامات پر عمل درآمد کے معاملے پر پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا خیر مقدم کیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لو کانگ نے بیجنگ میں معمول کی بریفنگ کے دوران بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے موثر اقدامات کو عالمی سطح پر پذیرائی ملنی چاہیے۔ پاکستان نے گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل کی تعزیراتی کمیٹی اور دہشت گردی کے لئے مالی وسائل کی فراہمی کی روک تھام سے متعلق بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی مرتب کی تھی۔

پاکستان کی طرف سے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب عالمی برادری کی جانب سے پاکستان پر کالعدم تنظیموں اور گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔ پاکستان کے حالیہ اقدامات کی تفصیلات سے متعلق سوال پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کی روک تھام کے لئے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ اقدام انسداد دہشت گردی اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد سے متعلق پاکستان کے عزم کا اظہار ہے اور چین اسلام آباد کی ان کوششوں کو سراہتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اہم شراکت دار ہے اور پاکستان نے دہشت گردی کی روک تھام کے لئے بین الاقوامی سطح پر جاری کوششوں کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس توقع کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی برادری مشترکہ طور پر عالمی اور علاقائی امن کو برقرار رکھنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف تعاون کو مضبوط کرے گی۔ رواں سال فروری میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی بس پر خود کش حملے کے بعد پاکستان پر شدت پسند گروپوں اور عناصر کے خلاف موثر کارروائی کے لئے عالمی دباؤ میں اضافہ ہوا تھا۔

اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند گروپ جیش محمد نے قبول کی تھی جس کے سربراہ پاکستان میں مقیم مسعود اظہر ہیں۔ پاکستان نے پلوامہ واقعے کے بعد کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی تیز کی ہے اور ان کے درجنوں دفاتر، تعلیمی اور فلاحی اداروں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ دوسری طرف فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے بھی پاکستان پر دہشت گرد تنظیموں کو مالی وسائل کی فراہمی روکنے کے لئے موثر اقدامات کرنے کا دباؤ ہے۔ کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ کالعدم تنطیموں کے خلاف جاری پاکستان کے اقدامات بین الاقوامی دباؤ کا نتیجہ ہیں، جب کہ پاکستانی حکام اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ یہ کارروائیاں قومی مفاد میں کر رہے ہیں۔

محمد جلیل اختر

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

مودی کی گرتی مقبولیت کو آپریشن بالاکوٹ سے ملنے والا سہارا کمزور پڑ گیا : سروے

سی ووٹر کے ایک ملک گیر سروے کے مطابق پلوامہ کے دہشت گرد حملے اور آپریشن بالاکوٹ کے بعد حکمران جماعت بی جے پی نے قوم پرستی کا جو ماحول بنایا تھا اس سے عام انتخابات میں اس کو ملنے والے سیاسی فائدے کے امکانات کم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی گرتی مقبولیت کو جو سہارا ملا تھا وہ بھی کمزور پڑ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب مودی نے اپنی تقریروں میں مبینہ طور پر پاکستان کو سبق سکھانے کا ذکر کم کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اب بی جے پی فرقہ وارایت کے اپنے پرانے ایجنڈے پر لوٹ آئی ہے۔

مودی نے اپنی ایک تقریر میں سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں ملزموں کے بری ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس پر الزام لگایا کہ اس نے ہندو دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کی تھی جس سے ہندووں کو تکلیف پہنچی، وہ اس سے ناراض ہو گئے اور کانگریس کو سزا دینا چاہتے ہیں۔ مودی نے کیرالہ کے علاقے ویاناڈ سے کانگریس کے صدر راہل گاندھی کے الیکشن لڑنے کو بھی ہندو مسلم رنگ دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ وہاں ہندو اقلیت میں ہیں اس لیے راہل وہاں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کانگریس نے اس پر مودی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ وہ اپنی شکست کو بھانپ کر بھارتی تہذیب کی توہین کر رہے ہیں۔ “کیا مختلف مذاہب کے لوگ ملک میں نہیں رہتے۔” خیال رہے کہ ویاناڈ میں ہندو تقریباً پچاس فیصد ہیں۔

نریندر مودی کا کہنا ہے کہ آپریشن بالاکوٹ پر سوال اٹھانے کی وجہ سے کانگریس پارٹی کی پاکستان میں بہت پذیرائی ہو رہی ہے۔ ایک معروف تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ حکومت کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے اس لیے وہ انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہی ہے۔ ایک سینئر صحافی عارفہ خانم شیروانی بھی اس کی تائید کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اب مودی نے بھی جو کہ بی جے پی کے سب سے بڑے رہنما ہیں انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ دینا شروع کر دیا ہے۔ ان کے بقول “جس مسلم دشمن سیاست کا بدصورت چہرہ ہم نے پانچ برسوں میں دیکھا ہے وہی پھر دکھایا جا رہا ہے۔”

ان کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو یقین نہیں ہے کہ آپریشن بالاکوٹ سے اسے کوئی سیاسی فائدہ پہنچے گا۔ اس لیے وہ اپنے پرانے ایجنڈے پر لوٹ آئی ہے جس میں اسے مہارت حاصل ہے۔ مودی اپنی تقریروں میں پاکستان کا نام لے کر رائے دہندگان کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ آر جے ڈی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ مودی دن بھر میں دو سو مرتبہ پاکستان کا نام لیتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومت کی کامیابیاں بتائیں۔ وزیر اعظم کی مبینہ فرقہ وارانہ مہم پر ملک کے کئی اخباروں نے اداریے لکھے ہیں اور اسے جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔

سہیل انجم

بشکریہ وائس آف امریکہ

پاک بھارت تناؤ میں کمی، کیا خطرہ واقعی ٹل گیا ہے ؟

پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی میں بظاہر کمی کے بعد دونوں ممالک کے ہائی کمشنرز ایک دوسرے کے ممالک میں واپس چلے گئے ہیں جبکہ کرتاپورہ راہداری پر بات چیت کے لیے پاکستانی وفد بھارت جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں تناؤ عارضی طور پر کم ہوا ہے۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود اسلام آباد سے واپس نئی دہلی چلے گئے ہیں جبکہ پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے واپس اسلام آباد پہنچ کر اپنی سفارتی ذمہ داریاں سنبھبال لیں ہیں۔ پلوامہ واقعے اور بھارت کا پاکستان کے علاقے بالا کوٹ میں فضائی کارروائی کے بعد سے پاکستان اور بھارت نے اپنے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلا لیا تھا۔

دونوں ملکوں کے ہائی کمشنرز کی ایک ہی دن واپسی اور ذمہ داریاں سنبھالنا نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان رابطے کا پتہ دیتا ہے جس سے امید بندتی ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے بیچ کشیدگی میں مزید کمی کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے پاکستان نے 6 مارچ کو یکطرفہ طور پر آئندہ چند دنوں میں اپنا ہائی کمشنر نئی دہلی واپس بھیجنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں بھارت نے اپنا ہائی کمشنر اسلام آباد بجھوا کر مثبت اشارہ دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین جنگی تناؤ میں اگرچہ ٹھراؤ آیا ہے جس کے واضع اشارے بھی مل رہے ہیں تاہم دو جوہری طاقتوں کے درمیان غیر یقینی کی صورتحال تاحال برقرار ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق صورتحال میں یہ بہتری عارضی ہے جس کی وجہ بیرونی دنیا کا دباؤ ہے۔ خارجہ امور پر نظر رکھنے والے سابق سفیر اور سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک اسٹڈیز کے سربراہ علی سرور نقوی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کسی حد تک کم ہوئی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں سعودی عرب اور امریکہ سمیت دیگر ممالک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نے اس نازک صورتحال میں بہتر سفارتکاری سے کام لیا۔ سابق سفیر علی سرور نقوی کا کہنا ہے کہ صورتحال میں بہتری پاکستان کے مثبت ردعمل کا نتیجہ ہے اور سفارتی کامیابی ہے جس کے باعث بھارت کو اپنے جارحانہ رویہ کو نرم کرنا پڑا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی میں دوسری اہم پیش رفت کرتارپور راہداری کے حوالے سے آئندہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں شرکت کا عندیہ ہے جو 14 مارچ کو واہگہ اٹاری بارڈر پر بھارت میں ہو گا۔ کرتار پور راہداری کا مقصد بھارت میں مقیم سکھ زائرین کے لیے پاکستان میں موجود اہم ترین مذہبی مقام تک بغیر ویزہ رسائی دینا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور بھارت کے نائب صدر ونکیا نائیڈو نے گذشتہ سال نومبر میں سرحد کے اپنی اپنی طرف اس راہداری کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 14 مارچ کے اس اجلاس کے بعد کرتارپور راہداری کی تعمیر کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے بھارت کا وفد اس ماہ کے آخر میں 28 مارچ کو پاکستان آئے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس کشیدہ صورتحال کے دوران بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں نے غلطی سے سرحد پار کرنے والے 70 سالہ پاکستانی کسان کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کر دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے مستقبل کے حوالے سے بنیادی سوالات کے بارے میں اب بھی ابہام ہیں چونکہ بھارت نے پاکستان سے بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی خواہش کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ بحران کے حل کے لئے عالمی ثالثی کی پیش کش کو بھی حوصلہ شکنی کی ہے۔

علی فرقان

بشکریہ وائس آف امریکہ

بھارتی بمباری کا کوئی ثبوت نظر نہیں آیا، روئٹرز

نیوز ایجنسی روئٹرز کا کہنا ہے کہ اس نے ایسی ہائی ریزولولشن سیٹیلائٹ تصاویر دیکھی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ بھارت کی جانب سے جیش محمد کے مدرسے پر براہ راست بمباری نہیں کی گئی اور وہ اپنی موجودہ حالت میں قائم ہے۔ سان فرانسیسکو شہر میں قائم کمپنی پلینٹ لیبز ایک پرائیویٹ سیٹیلائٹ آپریٹر ہے۔ بھارتی فضائی حملوں کے چھ دن بعد چار مارچ کو اس کمپنی کی جانب سے لی گئی تصایر میں مدرسے کے مقام پر قائم چھ عمارتوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اب تک عوامی سطح پر اس مقام کی سیٹیلائٹ تصایر جاری نہیں کی گئی تھیں لیکن پلینیٹ لیبز کی جانب سے جاری گئی تصایر میں بہت واضح طور پر وہ عمارتیں دیکھی جا سکتی ہیں جن پر بھارت نے فضائی حملہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

روئٹرز کے مطابق اب یہ تصایر بھارتی موقف کے حوالے سے مزید شکوک وشبہات پیدا کرتی ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ 26 فروری کو بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہوئے خیبر پختونخواہ کے شہر بالاکوٹ کے گاؤں جبا میں دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے مدرسے پر حملے کیے تھے۔ سیٹیلائٹ تصاویر سے متعلق روئٹرز کو بھارتی وزیر خارجہ اور دفاع کو بھیجے گئے سوالات کے جوابات موصول نہیں ہوئے۔ ایسٹ ایشیا نان پرولیفیریشن ادارے کے ڈائریکٹر جیفری لیوس سیٹیلائٹ تصاویر کا تجزیہ کرنے کا پندرہ سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ لیوس نے روئٹرز کو بتایا، ان تصاویر میں بمباری کا کوئی ثبوت نظر نہیں آتا۔

بھارتی حکومت نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ فضائی حملوں میں کون سے ہتھیار استعمال ہوئے تھے۔ روئٹرز کو بھارتی سرکاری ذرائع تاہم یہ ضرور بتاتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے 12 میراج 2000 طیارے جو کہ ایک ہزار کلو گرام وزنی بموں سے لیس تھے، نے پاکستان کی سرزمین پر حملے کیے تھے۔ وزارت دفاع کے ایک اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ بھارتی طیارو‌ں نے اسرائیلی ساختہ اسپائس 2000 گلائیڈ بم برسائے تھے۔ روئٹرز کے صحافیوں نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ کا دورہ بھی کیا تھا۔ ان صحافیوں کو بھی کوئی تباہ حال کیمپ نہیں ملا اور نہ ہی یہ بھارتی فضائی حملوں کے باعث کسی شخص کی ہلاکت کی تصدیق کر پائے۔ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ انہیں بم دھماکوں کی آوازیں آئیں اور کچھ بم درختوں پر گرے۔ مقامی افراد نے کچھ درخت بھی دکھائے جن کے پاس سے کچھ بارودی مواد ملا تھا۔

اس سال مئی میں بھارت میں عام انتخابات ہوں گے اور اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چودہ فروری کو پلوامہ حملے، جس میں قریب چالیس بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے، کا بدلہ لیتے ہوئے بھارت کی حالیہ کارروائی نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ بھارت کی جانب سے جیش محمد کے عسکریت پسندوں پر حملے کے ثبوت نہ دینے پر مودی حکومت کو سیاسی حریفوں کی تنقید کا سامنا ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کا کہنا ہے،’’ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اصل میں کتنے لوگ اس حملے میں مارے گئے، بم کہاں گرائے گئے ؟‘‘ مودی نے اپوزیشن جماعت کانگریس اور دیگر سیاسی حریفوں پر ملک دشمنوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ مودی کا کہنا ہے، ’’جب ہماری فوج ملک کے اندر اور باہر دہشت گردوں کی کمر توڑ رہی ہے، اس وقت کچھ لوگ فوج کے عزائم کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ ہمارے دشمن کے لیے خوشی کا باعث بن رہا ہے۔‘‘

بشکریہ DW اردو

نوبل امن انعام کا حقدار وہ شخص ہے جو مسئلہ کشمیر حل کرائے گا

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نوبل امن انعام کا حقدار وہ شخص ہے جو مسئلہ کشمیر حل کرائے گا۔ عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ میں نوبل امن انعام کا حق دار نہیں ہوں بلکہ اس کا حق دار وہ شخص ہے جو تنازعہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے گا۔ عمران خان نے کہا کہ جو شخص برصغیر میں امن اور انسانی ترقی کے لیے کوششیں کرے اور اس کا راستہ ہموار کرے وہی شخص نوبل امن انعام کا حقدار ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو نوبل امن انعام دینے کے لیے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں دو مارچ کو قرارداد جمع کرائی ہے۔

قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے انتہائی دانشمندانہ کردار ادا کیا۔ بھارتی قیادت کا جنگی جنون دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کا سبب بن رہا تھا اور بھارتی قیادت اپنے جارحانہ رویے سے دونوں ایٹمی ریاستوں کو جنگ کے دہانے پر لے آئی تھی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرنے کے اعلان کے بعد ان کے فیصلے کو خوب سراہا گیا۔ ٹوئٹر پر ’نوبل پرائز فار عمران خان‘ ٹاپ ٹرینڈ کی صورت میں نظر آیا جب کہ بھارتی صارفین اپنے وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف ’گوبیک مودی‘ کا ٹرینڈ چلاتے رہے۔

کیا پاک بھارت جنگ چھڑ جائے گی ؟

’’جب تک فریقین یہ جانتے ہیں کہ جتنا زیادہ اور ہلاکت خیز اسلحہ ہمارے پاس ہے، اتنا ہی زیادہ اور ہلاکت خیز اسلحہ ہمارے مخالف کے پاس بھی ہے، تب تک اگلی جنگ کا کوئی امکان نہیں۔‘‘ یہ الفاظ ہیں آنجہانی ایڈورڈ ٹیلر کے، جو انہوں سرد جنگ کے دوران امریکا اور سوویت یونین میں ممکنہ جنگ پر بات کرتے ہوئے کہے تھے۔ لیکن کیا یہ رائے آج بھی درست ہے؟ کیا پاکستان اور بھارت میں جنگ ہو گی؟ اور اگر جنگ ہوئی تو اس سے خطّے اور ساری دنیا کا کیا نقصان ہو گا ؟

پلوامہ حملہ، بھارت کی احمقانہ اور جعلی سرجیکل اسٹرائیکس، رات میں بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے ساتھ پاکستانی آبادیوں پر ایک بار پھر گولہ باری، پاک فوج کی کارروائی اور دو بھارتی لڑاکا طیاروں کی تباہی، بھارتی پائلٹ گرفتار، بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستانی ایف سولہ طیارے گرانے کے بھارتی دعوے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی تردید، نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا خصوصی اجلاس، وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب، سوشل میڈیا پر (دونوں طرف سے) جنگی جذبات کو ہوا دینے والی پوسٹس… حالات بظاہر اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ شاید دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔

لیکن واضح رہے کہ یہ صرف ایک امکان ہے، اور امید ہے کہ دونوں ممالک سمجھداری کا ثبوت دیں گے۔ کم از کم ڈی جی آئی ایس پی آر کی تازہ پریس کانفرنس کے بعد یہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان، ایسی کسی بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں، پہل نہیں کرے گا۔ البتہ، شاید بھارتی چینلوں پر جنگی جنونیوں کا قبضہ ہے جو بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے کےلیے مسلسل اکسا رہے ہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ پاک بھارت جنگ چھڑ جاتی ہے۔ اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، بھارت سب سے پہلے پاکستان کی شہری آبادی کو نشانہ بنائے گا۔ جنگ کے شدت اختیار کر جانے کی صورت میں دونوں ممالک اپنے آخری حربے، یعنی ایٹم بموں کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔

خدانخواستہ اگر ایسا ہو گیا تو (ایک اندازے کے مطابق) دونوں ممالک میں مجموعی طور پر کم از کم دو کروڑ سے ڈھائی کروڑ ہلاکتیں ہوں گی۔ اس میں ایٹمی تابکاری کے باعث بھیانک بیماریاں اور نسل در نسل پھیلنے والی تباہی شامل نہیں جو مذکورہ تعداد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تعداد میں لوگوں کو متاثر کریں گی۔ بھارت چاہے یہ جنگ جیتے یا ہارے، دونوں صورتوں میں اسے زیادہ نقصان ہی اٹھانا پڑے گا کیونکہ اوّل اس کی آبادی، پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے جبکہ وہاں کے شہر بھی کہیں زیادہ گنجان آباد ہیں۔ لیکن بات صرف یہیں پر نہیں رکے گی۔

اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی جنگ ہو گئی تو وہ صرف دو ملکوں کے درمیان جنگ نہیں ہو گی بلکہ، یقینی طور پر، تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز بھی ہو گی۔ اگر ہم براعظم ایشیا کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تین ایسے ملکوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں جو ایٹم بموں سے بھی لیس ہیں: بھارت، چین اور پاکستان۔ موجودہ حالات کے تناظر میں چین کا درمیان میں نہ آنا بہت مشکل ہو گا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی امریکا، بھارت ہی کا ساتھ دے گا اور مختلف حربوں سے پاکستان کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ اس مقصد کےلیے وہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے حلیف ممالک سے بھی مدد لے گا۔ ایران اور افغانستان، دونوں ہی بھارت کے حمایتی بنیں گے اور تمام اطراف سے دباؤ ڈال کر پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں بھارت کا ساتھ دیں گے۔

ون بیلٹ ون روڈ (المعروف بیلٹ اینڈ روڈ) منصوبے پر چین کی بہت زیادہ سرمایہ کاری ہے اور تزویراتی اعتبار سے پاکستان اس کے لیے غیر معمولی طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ ناممکن ہو گا کہ وہ اس معاملے میں الجھنے سے خود کو روک پائے… وہ بھی اس جنگ میں شریک ہو جائے گا اور پھر شاید ہمارا سامنا ایک ایسی جنگ سے ہو جو ناقابلِ یقین عالمی تباہی پر منتج ہو۔ ضروری نہیں کہ ساری کی ساری دنیا ختم ہو جائے لیکن فی الحال اس تباہی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ نہ ہو، اور موجودہ حالات کا سبب کچھ اور ہو۔

مودی سرکار کی ذہنی سطح اور مکارانہ سوچ سے سب واقف ہیں۔ مسلمانانِ گجرات کا یہ قاتلِ اعظم صرف اس وقت تک بہادر ہے جب تک اس کا سامنا کمزوروں سے ہے۔ اس کی سوچ وہی ہے جو بی جے پی اور شیوسینا کے دہشت گردوں کی ہے: کمزور اور اکیلا دیکھ کر ہجوم سے گھیرو اور پھر مارو۔ لیکن اگر کہیں پلٹ کر وار کر دیا، اور کرارا سا جواب دے دیا تو چپ کر کے بیٹھ جاؤ… بلکہ بھاگ جاؤ۔ چانکیہ فلسفہ، جو بھارت کی سیاسی ڈاکٹرائن بھی ہے، دوسری بہت سی چالاکیوں اور مکاریوں کے ساتھ ساتھ، مضبوط مدِ مقابل کی صورت میں ’’بھاگ جاؤ‘‘ کا درس بھی دیتا ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاک فوج کی آج کی کارروائی کے بعد بھارت کا میدانِ جنگ میں اترنا تقریباً ناممکن ہے۔ اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو وزیر اعظم سے لے کر پاک فوج کے سپہ سالار تک، سب بار بار ایک ہی بات کر رہے ہیں: جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، آئیے مذاکرات کر کے باہمی تنازعات و مسائل حل کرتے ہیں۔ یادش بخیر، مئی 1998 میں بھارت نے دوسری بار ایٹمی دھماکے کیے (بھارت نے اپنے اوّلین ایٹمی دھماکے 1974 میں کیے تھے)۔ خطّے پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔ بھارت کی عسکری اور سیاسی قیادت، دونوں ہی پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگیں اور پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔

یہاں تک بتایا گیا کہ اسرائیلی فضائیہ کے لڑاکا طیارے، سری نگر ایئرپورٹ پر تیار کھڑے ہیں جو کسی بھی وقت پرواز کر کے مظفر آباد (آزاد کشمیر) کو ہدف بنانے کے بعد، اسلام آباد کو تباہ کر ڈالیں گے۔ لیکن 28 مئی 1998 کے روز پاکستان نے جوابی ایٹمی دھماکے کر دیئے۔ اس کے بعد بھارتی رویہ ایسے تبدیل ہوا جیسے اس سے زیادہ امن پسند اِس دنیا میں کوئی اور ہی نہیں۔ اسرائیلی فضائیہ کے لڑاکا طیارے جہاں سے آئے تھے، وہیں واپس چلے گئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کو ’’میدانِ عمل‘‘ میں تنبیہ کرنا، اسے وارننگ دینا بھی پاکستان کی مجبوری ہے ورنہ وہ ذرا سی دیر میں آپے سے باہر ہونے لگتا ہے۔

ہاں! اتنا ضرور ہوا کہ مودی سرکار کو الیکشن جیتنے کےلیے نیا ’’مُدّا‘‘ (مدعا) مل گیا۔ اب اس کے امیدواران بڑی آسانی سے اپنے ووٹروں کی توجہ مقامی مسائل سے ہٹا کر سرحدی کشیدگی کی طرف لے جائیں گے، پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر الیکشن جیتیں گے، اور ایک بار پھر ’’سیکولر بھارت‘‘ پر بے جے پی اور اس جیسے انتہاء پسند ہندوؤں کی حکومت قائم ہو جائے گی… اور یہی تو وہ چاہتے ہیں! تو اے میرے پیارے قارئین! گزارش ہے کہ زیادہ پریشان نہ ہوں۔ کچھ روز یہ دھما چوکڑی رہے گی، اور بھارت میں انتخابات کے بعد سناٹا چھا جائے گا۔ بہتر ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونا چھوڑیئے اور کچھ سمجھداری کا، کچھ بردباری کا ثبوت دیجئے ورنہ، خاکم بدہن، ایک ایسی تباہی کےلیے تیار رہیے جس کے سامنے بے روزگاری اور بیماری تک کو بھول جائیں گے۔

علیم احمد

پاکستان اور بھارت، جوہری تصادم سے بچنے کے لیے عالمی طاقتیں کردار ادا کریں

جنوبی ایشیا کی دو جوہری قوتوں بھارت اور پاکستان کے درمیان تصادم ساری دنیا کے لئے پریشانی کا سبب ہے اور یہاں امریکہ میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس تصادم کو طول پکڑنے سے روکنے اور کسی جوہری تصادم سے بچنے کے لئے عالمی قوتوں کو اپنا بھرپور اور فوری کردار اد کرنا چاہئے. امریکہ میں فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی نائب صدر ایلان برمن نے وائس آف امریکہ اردو سروس کے قمر عباس جعفری کو بتایا کہ جنگ میں وسعت کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے لئے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ خاص طور پر کشیدگی میں کمی لانے کے لیے بھارت اور پاکستان پر یہ دباؤ ڈالیں کہ جنگ مزید نہ پھیلے۔

کیونکہ یہ کسی کی طرفداری کرنے سے زیادہ خطے کی سلامتی اور سیکورٹی کا مسئلہ ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں امریکہ کی طویل المدت پالیسی یہ ہو گی کہ بھارت کے ساتھ زیادہ رابطے میں رہا جائے۔ امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے معید یوسف کا کہنا تھا کہ جہاں جوہری ہتھیار ہوں اور فریقین کے درمیان عدم اعتماد بھی ہو تو خطرہ تو رہے گا۔ انہوں کہا کہ گزشتہ دنوں اندازی کی ایک بڑی غلطی ہمارے سامنے آئی ہے۔ ہندوستان نے جو حملہ کیا تھا وہ اس لیے نہیں تھا کہ پاکستان جواب دے۔ بلکہ اس نے بڑی سوچ بچار کے بعد اپنی طرف سے ایسا حملہ کیا تھا کہ جس میں ایک جانب تو وہ اپنے عوام کو یہ بتا سکیں کہ انہوں نے پاکستان کو منہ توڑ جواب دے دیا اور دوسری جانب پاکستان کو بھی ایسا کوئی نقصان نہ پہنچے کہ وہ یہ محسوس کرے کہ اسے جواب دینا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں پاکستان جواب دینا بھی نہیں چاہتا تھا لیکن اس پر بھی اندرونی دباؤ بڑھ گیا اور اسے کارروائی کرنی پڑی۔ اب مودی صاحب خود کو خراب پوزیشن میں دیکھ رہے ہوں گے۔ کیونکہ اگر سیاسی نقطہ نظر سے اسے دیکھا جائے تو مودی صاحب کی صورت یہ ہے کہ اگر وہ جواب نہ دیں تو یہ ان کے لئے سیاسی موت کے مترادف ہو گا۔ اور اپوزیشن ان پر چڑھ دوڑے گی۔ اور اس وقت ہندوستان میں یہ بات نہیں ہو رہی ہو گی کہ جواب دینا ہے یا نہیں بلکہ یہ بات ہو رہی ہو گی کہ کس طرح جواب دینا ہے۔

انہوں کہا ہندوستان اور پاکستان دونوں کے پاس رابطے کا کوئی براہ راست چینل نہیں ہے اور ماضی میں بھی جب ان ملکوں کے درمیان تلخیاں ہوئی ہیں تو امریکہ۔ چین اور دوسری بڑی قوتوں نے مدد کی ہے۔ لیکن اس بار یہ صورت نظر نہیں آ رہی ہے اور امریکہ کی توجہ خاص طور پر دوسرے عالمی امور پر مرکوز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ بات ہو رہی ہے کہ دنیا کے یقینی جوہری فلیش پوائنٹ کے بارے میں جہاں جنگ دنوں میں نہیں لمحوں میں شدت اختیار کر سکتی ہے تو بڑی طاقتوں کو مداخلت کرنی پڑے گی۔ اور اس معاملے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔

قمرعباس جعفری

بشکریہ وائس  آف امریکہ