خان صاحب کا باجوہ ڈاکٹرائن

فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا
وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا
(انور شعور)
خان صاحب کو جو خوبی دیگر سیاست گروں سے منفرد کرتی ہے وہ ہے ان کی یک رخی۔ بندہ پسند ہے تو ضرورت سے زیادہ پسند ہے اور وہی بندہ ناپسند ہے تو بے پناہ ناپسند ہے۔ خان صاحب بیک وقت بہت سے محاذ کھولنے کا جھاکا ضرور دیتے ہیں مگر عملاً ایک وقت میں کسی ایک کو ہی ہدف بناتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے تو دوسرے کھلونے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یا پھر ٹائم پاسی کے لیے پرانے کھلونے کو توڑ کے ہی ریورس انجینئرنگ کا آنند لیتے ہیں۔ مثلاً نوے کی دہائی میں نواز شریف ان کی گڈ بک میں جب تک تھے، تب تک تھے۔ پھر اسی نواز شریف کے پیچھے پڑے تو ’گو نواز گو‘ کے سوا فضا میں کوئی نعرہ نہیں گونجا۔ اس ون ڈش حکمتِ عملی سے بیزار ہوئے تو مینیو میں زرداری کو بھی بطور سلاد رکھ لیا اور اس سلاد پر مولانا فضل الرحمان کی گارنش بھی پھیر دی۔ جب برسرِاقتدار آئے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی فراست کے ایسے اسیر ہوئے کہ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے تمام گھوڑے کھول لیے اور پوری پارلیمنٹ کو ایکسٹینشن کے رتھ میں جوت دیا اور جب جنرل فیض حمید پسند آئے تو یوں پسند آئے کہ ان کی خاطر قمرجاوید باجوہ سے بھی بھڑ گئے۔

فوج میں اگرچہ سپاہ سالار بااختیار ہوتا ہے مگر وہ حکمتِ عملی سمیت تمام اہم فیصلے پرنسپل سٹاف آفیسرز اور کور کمانڈرز کو اعتماد میں لے کر ضروری مشاورت کے زریعے کرتا ہے۔ فوج اور پی ٹی آئی میں یہی بنیادی فرق ہے۔ مگر خان صاحب اس بابت حق الیقین کی سطح پر ہیں کہ مارشل لا نہ لگانے والا سادہ سپاہ سالار بھی پوری سپاہ کو اپنی من مرضی کے مطابق جیسے چاہے چلا سکتا ہے اور آئی ایس آئی کا سربراہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بعض اوقات اپنی بھی نہیں سنتا۔ چنانچہ خان صاحب کا نیا ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ بھی اسی سوچ کی پیداوار ہے۔ اس وقت نہ عمران خان وزیرِ اعظم ہیں، نہ فیض حمید جنرل ہیں اور نہ ہی قمر جاوید باجوہ سپاہ سالار مگر خانِ اعظم جب تک دوبارہ وزیرِ اعظم نہیں بن جاتے تب تک ان پر باجوائیت طاری رہے گی اور ہر جلسے، انٹرویو اور قوم سے ہفتہ وار خصوصی خطاب میں باجوہ کا نام لے لے کر ہاتھ پھیلا پھیلا کے تبرائی کوسنے جاری رہیں گے۔

تاوقتیکہ توپ دم کرنے کے لیے کوئی نیا حاضر یا غائب ہدف ہتھے نہ چڑھ جائے۔
بھرے سٹیڈیم کی تالی پیٹ توجہ مسلسل خود پر رکھنے کے لیے باجوائی وکٹ پر نیٹ پریکٹس جاری رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اپنی اقتداری ناکامیوں کی ٹاکیاں سابقین کے سینگوں سے باندھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ بھی قابلِ قبول ہو گا کہ میری گلی میں پچھلے چار برس سے اس لیے پانی کھڑا ہے کیونکہ باجوہ نے سولنگ نہیں لگانے دی۔ خان صاحب کی کچیچیاں اپنی جگہ، پر انتخابات تب ہی ہوں گے جب اطمینان ہو جائے کہ کسی کو اتنی اکثریت حاصل نہ ہو جائے کہ وہ آئین و قواعد و ضوابط کو من مرضی سے موڑنے یا بدلنے کی کوشش کرے اور روایتی توازنِ طاقت کو گڑبڑا دے اور ویٹو پاور بھی قبضا لے۔ خان صاحب چاہیں نہ چاہیں انھیں بادشاہ گروں کی با اعتماد مسلم لیگ ق اور اسی قماش و خمیر سے اٹھی کچھ دیگر ضروری جماعتوں کو ساتھ لے کر ہی چلنا پڑے گا۔

خان صاحب کو دوبارہ اقتدار کی قیمت حسبِ سابق دل پر پتھر رکھتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں ادا کرنا پڑے گی اور قطعی اکثریت کی خواہشاتی گولی کو سادہ اکثریت کے پانی سے نگلنا پڑے گا۔ وہ جتنے چاہیں نئے گیت گا لیں مگر آرکسٹرا نہیں بدلے گا۔ اس کوچے میں بیساکھیاں نہ بیچی جا سکتی ہیں نہ خریدی جا سکتی ہیں۔ کرائے پر طے شدہ مدت کے لیے ضرور فراہم کی جا سکتی ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی وغیرہ وغیرہ تو کھیل کے قوانین ہضم کرنے کی مشق سیکھ چکے ہیں۔ خان صاحب کو اسی دائرے میں رکھنے اور اس کا عادی بنانے کا کام گجرات کے چوہدریوں کے ذمے ہے۔ جب تک چوہدری پہرے دار ہیں تب تک اسٹیبلشمنٹ کو کوئی غم نہیں۔ ایسے ماہر سائیسوں کے ہوتے غیرجانبداری کے چسکے لینے میں بھی کیا حرج ہے۔ ایک سینیئر چینی سفارتکار نے پاک چین قربت پر ناک بھوں چڑھانے والے اپنے ہم منصب امریکی سفارتکار سے کہا تھا کہ پاکستان اس خطے میں چین کا اسرائیل ہے۔ اسی کسوٹی پر پاکستان بالخصوص پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ق اسٹیبلشمنٹ کا اسرائیل ہے۔ پی ٹی آئی کو اگر طاقت کی منڈی میں اپنی فصل کے اچھے دام چاہئیں تو ق کو آڑھت دیے بغیر کوئی راستہ نہیں۔ ورنہ تو فصل ارزاں تر بیچنے کے خواہش مندوں کی قطار بندھی ہے۔ ق سے صرف قائدِ اعظم نہیں ہوتے۔ ق سے قینچی بھی ہوتی ہے۔

 وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

وقت ہے کہ دنیا پاکستان کے لیے کچھ کرے

برطانوی (ر) میجر جنرل جوناتھن ڈیوڈ نے کہا ہے کہ پاکستان میں امن بحال ہو چکا ہے، اب وقت ہے کہ دنیا پاکستان کے لیے کچھ کرے۔ ایک انٹرویو میں سابق برطانوی میجر جنرل نے کہا کہ شاہی جوڑے کے دورے سے پاکستان کا مثبت تاثر ابھرا، دورے میں نظر آیا کہ پاکستان میں اندرونی سیکیورٹی کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی پاکستان میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی سوچ یکساں ہے، ایک انٹرویو میں جنرل باجوہ نے مجھے بتایا کہ خود مختار معیشت کے لیے مضبوط فوج کا ہونا ضروری ہے۔ 

جوناتھ ڈیوڈ نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم عمران نے بڑی بہادری اور جرات کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف مہم چلائی، وقت آگیا کہ دنیا پاکستان کو زیادہ عزت اور احترام دے، پاکستان میں سیکیورٹی اور امن بحال ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد صورتحال میں تبدیلی آئی، کالعدم ٹی ٹی پی اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف مزید کارروائیاں کی جارہی ہیں، ان اقدامات سے پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف موثر عزم ظاہر ہو رہا ہے۔

وزیرِ خزانہ بمقابلہ آرمی چیف : کون کتنا صحیح؟

حال ہی میں آرمی چیف اور وزیرِ خزانہ کے درمیان الفاظ کا ایک غیر معمولی تبادلہ ہوا ہے۔ اِن دونوں کے الفاظ کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے تا کہ سمجھا جا سکے کہ کس نے کیا کہا ہے، کیوں کہ اِس مسئلے پر زیادہ تر تبصروں میں بنیادی نکتے پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ 11 اکتوبر کو جنرل نے کراچی میں اپنے خطاب میں کیا کہا۔ انہوں نے تمہید باندھتے ہوئے کہا کہ ہمارے وقتوں میں، جب علاقائی خطرے بڑھ رہے ہیں اور تنازعات نئے چہرے اختیار کرتے جا رہے ہیں، تو “سلامتی ایک بار پھر ریاست کا اولین کام اور ذمہ داری بن چکی ہے۔” انہوں نے کہا کہ پاکستان اِس وقت “روٹی یا بندوق” کی بحث میں نہیں پڑ سکتا کیوں کہ “ہم دنیا کے سب سے زیادہ عدم استحکام والے خطے میں رہتے ہیں اور ملک کی تشکیل سے لے کر اب تک کئی بحرانوں کا شکار رہے ہیں، خاص طور پر گزشتہ 40 سالوں سے۔”

بھلے ہی اِن کے الفاظ میں “معیشت اور سلامتی کے درمیان توازن” کی بات کہی گئی تھی، مگر اِن کے خطاب کا بنیادی مقصد معیشت پر سلامتی کو حاصل ترجیح پر زور دینا تھا۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو، جب ریاست کے محدود مادی وسائل یعنی محصولات اور زرِ مبادلہ مختص کرنے کی بات آئی تو “توازن” تمام دیگر ترجیحات سے پہلے سلامتی کی طرف ہونا چاہیے۔ وزیرِ خزانہ نے 16 اکتوبر کی اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ فوج نے پاکستان میں دہشتگرد حملوں میں کمی لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر تب سے جب جون 2014 میں آپریشن کا دائرہ کار شمالی وزیرِستان تک پھیلایا گیا۔ لیکن اُنہوں نے زور دیا کہ تمام مشکلات بشمول کولیشن سپورٹ فنڈ میں تیزی سے کمی کے باوجود “آپریشنز کے اخراجات ہیں اور ہم یہ اخراجات ادا کر رہے ہیں۔”

مگر انہوں نے ایک اور زاویے کا بھی اضافہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگرد حملوں میں کمی تو آئی ہے، مگر ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ میں بھی کمی آئی ہے۔ اِس سے اُن کی مراد اِس حقیقت پر روشنی ڈالنی تھی کہ سلامتی اور ترقی مشترکہ ترجیحات ہیں اور اِس طرح دونوں کا ہی ریاست کے وسائل پر یکساں حق ہے۔ چوں کہ خزانہ اور زرِمبادلہ پر مشتمل یہ مادی وسائل محدود ہیں اِس لیے دونوں ترجیحات والے فریقوں کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ اُن کی ضروریات 100 فیصد پوری نہیں کی جا سکتیں۔ جب ’ریاست کے سب سے اہم کام اور ذمہ داری‘ کے تعین کی بات آئے گی تو سخت فیصلے لینے ہوں گے اور ہر کسی کو ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہوئے مسائل کے حل کی کوشش کرنی ہو گی۔

جنرل نے اپنے خطاب میں اِس دلیل کو سمجھنے کا تھوڑا اشارہ دیا، اور کیوں کہ یہ تو واضح ہے کہ الفاظ کا یہ تبادلہ 11 اکتوبر سے نہیں شروع ہوا بلکہ خفیہ میٹنگز میں سالوں سے جاری ہے۔ جب سے ملک کے اندر طرح طرح کے فوجی آپریشن، فوجی ساز و سامان کی اپ گریڈیشن اور سی پیک سیکیورٹی فورس کی تشکیل کا کام شروع ہوا ہے، تب سے فوج کو اپنے وسائل میں اضافے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے، خاص طور پر سی پیک فورس اِس سے کہیں زیادہ مہنگی ثابت ہو رہی ہے جتنا کہ ابتداء میں تخمینہ لگایا گیا تھا۔ 11 اکتوبر کو جو چیز نئی ہوئی، وہ یہ کہ یہ بحث پہلی بار عوام میں آئی۔ مثال کے طور پر، یاد کریں کہ وزیرِ خزانہ ایک “غیر معمولی دفاعی خرچے” کی بات کر رہے تھے جسے پورا کرنا ضروری تھا، اور جس کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام میں متعین بجٹ خسارے کی حد میں نرمی کی ضرورت تھی۔ ایک پریس کانفرنس میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے نتائج پر بات کرتے ہوئے انہوں نے اِس “ایک دفعہ کے خرچے” کا سائز 140 ارب روپے بتایا۔

مگر یہ خرچہ ایک بار کا نہیں بلکہ معمول کا خرچہ تھا۔ یہ دفاعی بجٹ میں شامل نہی ہے اِس لیے جو تجزیہ کار دفاعی بجٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ دفاعی بجٹ تو سالوں میں تبدیل نہیں ہوا، وہ ہم سب کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اِس طرح کے کئی خرچے ضمنی گرانٹس اور دیگر بجٹ آپریشنز کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں۔ جنرل باجوہ نے ظاہر کیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کے وسائل محدود ہیں۔ “اگر میں سیاستدان یا ماہرِ اقتصادیات ہوتا تو میں کہتا کہ یہ وقت ہے کہ ہمیں اپنی اقتصادی ترقی اور نشونما کو سب سے بلند ترجیح پر رکھنا چاہیے” جس کے بعد انہوں نے کہا کہ معیشت قومی سلامتی کونسل کی تمام بحثوں کے ایجنڈوں میں سب سے پہلا نکتہ ہوتا ہے۔

انہوں نے ٹیکس بیس بڑھانے اور “معیشت میں نظم و ضبط” لانے کو اہم اقتصادی ترجیحات قرار دیا۔ “پاکستان ٹیکس اصلاحات، معیشت کا ریکارڈ رکھنے، برآمدات میں اضافے اور بچت کے ذریعے خزانے کو اتنا مضبوط بنا سکتا ہے کہ آبادی میں اضافے سے زیادہ ترقی حاصل کر سکے۔ ” ترجمہ: اگر ریاست کے وسائل محدود ہیں تو وسائل بڑھانا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے اور یہ وہ چیز ہے جو انہیں ضرور کرنی ہو گی۔ خاص طور پر اِس لیے کیوں کہ جیسا کہ جنرل باجوہ نے کہا، “آج کے دور میں سلامتی و دفاع سستا نہیں ہے۔” بار بار انہوں نے سلامتی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک کا مستقبل “صرف ایک لفظ پر ٹکا ہوا ہے، ‘سلامتی'” اور “اگر ہمیں پائیدار ترقی چاہیے تو ہمیں ملک میں امن و امان کو یقینی بنانا ہو گا۔”

وزیرِ خزانہ نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ وسائل میں اضافے کے لیے بہت کچھ کیا گیا ہے۔ انہوں نے 2013 سے اب تک محصولات کے اعداد و شمار دیے، تب سے اب کے معاشی شرحِ نمو کا موازنہ پیش کیا اور توانائی کے شعبے اور ہائی ویز کے لیے شروع کیے گئے کئی منصوبوں کو اپنی حکومت کی وسائل بڑھانے کی کوششوں کے طور پر پیش کیا۔ ڈار اِس وقت سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مزید مالیاتی اور زرِمبادلہ کے وسائل مختص کرنے کے مطالبات کے شدید دباؤ میں ہیں اور اُنہیں اِن مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اِس وقت وہ بیک فُٹ پر ہیں کیوں کہ اُن کے استعفے کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ رائے عامہ اُن کے خلاف ہے۔

مگر وہ اب بھی اپنے نکتے پر قائم ہیں کہ ریاست کے محدود وسائل کو سلامتی اور ترقی، دونوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ جو لوگ انہیں اُن کی مشکلات کے لیے طعنے دے رہے ہیں، اور جو کابینہ اراکین اُن کی شخصیت کی وجہ سے خود کو اُن سے دور کرنے کے لیے بے تاب ہیں، اُنہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگلے وزیرِ خزانہ کو بھی اِسی بحث میں پڑنا ہو گا جو کہ دہائیوں پرانی ہے اور ہماری سول ملٹری فالٹ لائن کا مرکزی حصہ ہے۔

خرم حسین
یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 اکتوبر 2017 کو شائع ہوا۔

کیا کھیل ختم ہو گیا ہے؟

موجودہ حکومت کے قبل از وقت ختم ہونے کے حوالے سے اگرچہ کچھ عرصے سے افواہوں کی چکی بہت تیز چلتی آرہی ہے، یہ پلاٹ اب کافی پیچیدہ ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے اقتدار کے ایسے سویلین کھلاڑیوں میں تشویش پیدا ہو گئی ہے جو پہلے ایسی رپورٹس پر ہنس دیا کرتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل آصف غفور نے اگرچہ ہفتے کی پریس کانفرنس میں کسی غیر آئینی اقدام کی افواہوں کو مسترد کر دیا ہے لیکن وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دو روز قبل اس یاد دہانی کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا کہ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل ٹیکنوکریٹ حکومت نہیں ہے۔ وہ ایک ہفتے میں تین مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں۔

وزیراعظم جیسے عہدے کے حامل شخص کی طرف سے ایسی بات ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ صورتحال معمول کے مطابق نہیں ہے۔ پردے کے پیچھے جو کھیل جاری ہے اس سے کچھ اشارے ملتے ہیں کہ معاملات کس طرح ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم کا جمہوریت پر لیکچر شروع ہونے سے کچھ قبل ایک ہائی پروفائل اجلاس منعقد ہوا تھا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک بااثر رکن اور سویلین سیٹ کے ایک اہم عہدے دار کے مابین ہوا تھا۔ سویلین کو بتایا گیا تھا کہ کھیل ختم ہو چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے بااثر رکن نے وضاحت کی کہ اتنی زیادہ گڑبڑ کے ساتھ حکومت جاری نہیں رہ سکتی۔ موجودہ سیٹ اپ کے خلاف معاشی اعداد و شمار چارج شیٹ میں سب سے اوپر ہیں۔ قومی خزانے کا خالی ہونا تشویش کی وجہ بتایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا آنے والا منصوبہ ہے۔

کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی جانب سے قادیانی کمیونٹی کے خلاف کی جانے والی تلخ تنقید پر ناپسندیدگی بھی پہنچائی گئی جس میں مخصوص افراد کو ہدف بنانے کی نیت کار فرما تھی۔ پارلیمنٹ کی جانب سے فوج اور عدلیہ کو بھی قومی احتساب بیورو کے تحت لانے کو بھی متعلقہ حلقوں کی جانب سے تحسین کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ مزید یہ بھی بتایا گیا کہ عدلیہ کے خلاف بے رحمانہ مہم اور اسے اسٹیبلشمنٹ سے جوڑنے کی کوشش کہ یہ نواز شریف کو نکالنے کے لئے کی گئی تھی، اس پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ اسی طرح قانون میں ترمیم کے ذریعے نااہل وزیراعظم کو پارٹی سربراہ کے طور پر واپس لانے کو بھی پسند نہیں کیا گیا۔

اسٹیبلشمنٹ کی بااثر شخصیت نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کی ساکھ کیا ہو گی جسے عدالت سے ایک نااہل شخص ریمورٹ کنٹرول سے چلا رہا ہو۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں الیکشن بل 2017 کی منظوری کو وقت سے پہلے روکنے کی کوشش کی گئی، یہ بات الگ سے معلوم ہوئی ہے۔ سرکاری پارٹی کے ارکان کو پرائیوٹ نمبرز سے کالیں موصول ہوئیں جن میں ان پر زور دیا گیا کہ وہ اس قانون کی منظوری کا حصہ بننے سے باز رہیں، اس کوشش کو اعلی سیاسی سطح پر رابطوں کے ذریعے ناکام بنایا گیا۔ اپنے والد کی سیاسی وارث کے طور پر مریم نواز کے ابھرنے کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی بااثر شخصیت اور سویلین عہدے دار کے مابین ملاقات میں سوال اٹھایا گیا۔

اتفاق کی بات ہے کہ اس منصوبے پر مسلم لیگ ن کی بھاری بھرکم شخصیات نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور ان کی شکایت ہے کہ خاندان سے باہر کے پارٹی ممبران کی تو بات ہی الگ ہے، نواز شریف تو پارٹی کے اندر اتفاق رائے پائے جانے کے باوجود اپنے بھائی کو اپنا جانشین بنانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ کو گھر بھیجنے کے منصوبے پر غور ہو رہا ہے، یہ کس طرح ہو گا؟ کسی کے پاس بھی مکمل تصویر نہیں ہے۔ اس سازش کے محرم راز حکام سے پس پردہ تبادلہ خیال سے ظاہر ہوتا ہے کہ براہ راست مداخلت کے آپشن کو ترجیح دینے پر غور نہیں کیا جا رہا۔ آرمی چیف کسی غیرآئینی قدم کے حق میں نہیں ہیں، یہ وہ نکتہ ہے جس کی توثیق ڈی جی، آئی ایس پی آر نے ہفتے کے روز پریس کانفرنس میں کی، جب انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو گا وہ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہو گا۔

اس کے بجائے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عدلیہ ثالثی کا کردار ادا کرے۔ تبدیلی کے لئے دو ممکنہ منصوبے زیر غور ہیں۔ ایک، حکمران جماعت میں فارورڈ بلا ک کی تشکیل اور دوسرا، اسلام آباد کی جانب مارچ۔ پہلا منصوبہ اسی وقت روبہ عمل آسکتا ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لئے حکمران جماعت میں سے کافی تعداد میں انحراف کرنے والے دستیاب ہوں۔ ایک کامیاب کوشش سے آخرکار نئے انتخابات کا مطالبہ پھوٹ سکتا ہے لیکن احتساب کے بعد، جس سے پارلیمنٹ کی منظوری سے قومی اتفاق رائے پر مبنی حکومت کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ یہ منصوبہ کس قدر قابل عمل ہے اس کا کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے۔

اگرچہ سرکاری ارکان پارلیمنٹ نے پارٹی سربراہ کے بارے میں قانون میں ترمیم پر رائے شماری سے روکنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا لیکن حکمران جماعت کے لئے جو اشارے باہر آرہے ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ چار منحرفین کو مختلف محاذوں پر اپنا راستہ بنانے کا کام تفویض کیا گیا تھا اور ان کی کوششوں کے نتائج پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسکور کو 50 تک لانے کا دعوی کیا ہے۔ کون اس گروپ کی قیادت کرے گا، اسے ابھی طے نہیں کیا گیا ہے۔ دوسرا منصوبہ جس پر غور کیا جا رہا ہے وہ ایک سیاسی جماعت کے ذریعے اسلام آباد پر چڑھائی کا ہے جیسا کہ 2014 میں ہوا تھا یا جس طرح 2016 میں محاصرے کی کال کے ذریعے کوشش کی گئی تھی۔ کوئی بھی ایشو احتجاج کا نکتہ بن سکتا ہے۔ شریف خاندان کی جانب سے احتساب عدالت میں شریف خاندان کے مبینہ تاخیری حربے، پولیس اور وکلا میں ہاتھا پائی یا اگلی سماعت پر کوئی بھی مہم جوئی بہانہ فراہم کر سکتی ہے۔
انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر عدلیہ پر تنقید بھی ایک وجہ بن سکتی ہے اور یہ مطالبہ ہو سکتا ہے کہ ن لیگ کی موجودہ حکومت کی موجودگی میں احتساب ممکن نہیں ہے۔

اس مطالبے کو مزید آگے بڑھانے کے لئے کوئی درخواست دائر کر سکتا ہے، جس میں عدالت سے استدعا کی جائے گی کہ دفعہ 190 کو لاگو کیا جائے جس کے تحت تمام ایگزیکٹو اور جوڈیشل حکام سپریم کورٹ کی معاونت کریں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کس طرح ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ یا قومی اتفاق رائے سے بننے والی حکومت ان آپشنز کو استعمال کرکے قائم کی جائے گی۔ اس کا جواب اس منصوبے کے معمار کے پاس ہے۔ اس وقت آئین کے بجائے کنفیوژن بالاتر ہے۔ دی نیوز کو قابل بھروسہ ذرائع سے پتہ چلا ہے، مشرق وسطی کے دو ممالک نے نئے سیٹ اپ کے قیام کی صورت میں بیل آؤٹ پیکج پیش کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ آدمی یہی نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ممکنہ تبدیلی کا منصوبہ نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی جہات بھی رکھتا ہے۔

نواز شریف کی جانب سے یمن کے لئے فوجی دستوں کی فراہمی سے انکار کو ابھی تک بھلایا نہیں گیا ہے۔ یہ اتفاقی مطابقت ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اچانک بہتر تعلقات سے ہوئی ہے۔ افغان صدر پاکستان آر ہے ہیں جبکہ ’’را‘‘ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہان کی لندن میں ملاقات اس عزم پر ختم ہوئی ہے کہ نفرت سے گریز جائے۔ کیا خطے میں تاریخی موقعے کو گرفت میں لینے کےلئے اسٹیج تیار کیا جا رہا ہے؟ پاکستان کو لوڈ شیڈنگ فری قرار دے کر سی پیک کے صلے کا آئندہ ماہ اعلان کیا جا رہا ہے۔ کیا پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اس کا سہرا اپنے سر باندھ سکے؟ آنے والا وقت دلچسپ ہے۔

عمر چیمہ

بشکریہ روزنامہ جنگ