شام سے امریکی فوج کی واپسی کے حکم نامے پر دستخط

شام سے امریکی فوج کی واپسی کے حکم نامے پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔
امریکی فوج کے ترجمان نے شام سے امریکی فوج کی واپسی کے انتظامی حکم نامے پر دستخط کی مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی، نہ ہی فوجوں کے انخلاء کی تاریخ دی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے فوج واپس بلانےکا اعلان کیا تھا۔ علاوہ ازیں صدر ٹرمپ کی ترک ہم منصب رجب طیب اردوان سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی ہے جس کے دوران شام کی صورت حال سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔ گفتگو کے حوالے سے ترک صدر کا بتانا ہے کہ امریکی فوج کے جانے کے بعد شام میں ممکنہ خلا پر بات چیت ہوئی، دونوں ممالک کےدرمیان فوجی اور سفارتی سطح پر تعاون یقینی بنانے پر اتفاق بھی کیا گیا۔

جیمز میٹس بھی ٹرمپ کا ساتھ چھوڑ گئے

’امریکی صدر کو اپنا ہم خیال وزیر دفاع رکھنے کا حق حاصل ہے‘ ان الفاظ کے ساتھ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اپنا استعفٰی صدر ٹرمپ کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنے اختلاف رائے پر زور دیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اپنے استعفی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے امریکی افواج واپس بلانے کے فیصلے کا براہ راست ذکر نہیں کیا۔ تاہم انہوں نے روایتی اتحادیوں کے ساتھ امریکا کے قریبی تعاون کی اہمیت کی بات ضرور کی ہے، ’’اتحادیوں کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔‘‘ ٹرمپ نے جرمنی جیسے روایتی اتحادی ملک کو بھی اکثر ناراض کیا ہے۔ میٹس کے بقول، ’’آپ کو اپنے ہم خیال وزیر دفاع کا حق ہے۔ اسی وجہ سے میرا اس عہدے سے الگ ہونا ضروری ہے۔‘‘

ٹرمپ کے صدر بننے کے ساتھ ہی ان کی انتظامیہ میں کئی مرتبہ ردو بدل کی جا چکی ہے تاہم میٹس کا مستعفی ہونے کا فیصلہ کچھ خاص نوعیت اور اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ میٹس نے یہ اعلان ایک ایسے وقت پر کیا ہے جب امریکا اپنی دفاعی حکمت عملی کو ایک نئے انداز سے ترتیب دے رہا ہے۔ ٹرمپ شام سے امریکی افواج کے انخلاء کے ساتھ ساتھ افغستان میں تعینات امریکی دستوں میں کمی کا اعلان کر چکے ہیں۔ میٹس ٹرمپ کے ان فیصلوں کے مخالف ہیں اور ان کے استعفے کو ایک طرح کا احتجاج بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ اور میٹس کئی موضوعات پر ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے تھے اور صدر نے کئی مرتبہ اپنے وزیر دفاع کی تجاویز کو نظر انداز کیا ہے۔

مثال کے طور پر وزارت دفاع نے شام سے امریکی افواج کے انخلاء سے خبردار کرتے ہوئے اسے ایک بڑی عسکری غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ اسی طرح وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور سلامتی کے امور کے مشیر جان بولٹن نے بھی صدر کو اس اقدام سے منع کیا تھا۔ اس پیش رفت پر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا، ’’جنرل جم میٹس دو سال تک میری انتظامیہ میں بطور وزیر دفاع خدمات انجام دینے کے بعد اعزاز کے ساتھ فروری کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ جم کے دور میں زبردست ترقی ہوئی ہے‘‘۔ صدر ٹرمپ کے دور میں اب تک وائٹ ہاؤس کے عملے میں درجنوں تبدیلیاں ہو چکی ہیں، جس میں ان کی کابینہ میں ردو بدل بھی شامل ہے۔ مارچ میں ٹرمپ نے ٹویٹر پر ریکس ٹلرسن کو وزیر خارجہ کے عہدے سے برطرف کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیا تھا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ہی ٹرمپ نے اپنے وزیر انصاف جیف سیشنز کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ پھر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ چیف آف اسٹاف جان کیلی اور وزیر داخلہ رائن زنکے اس سال کے آخر تک اپنے اپنے عہدے چھوڑ دیں گے۔

بشکریہ DW اردو

بیس لاکھ شامی بچے اسکولوں سے محروم، یونیسیف

اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ شام میں اس وقت دو ملین سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ یونیسیف کی سربراہ ہینریتا فورے کے مطابق سات سالہ خانہ جنگی کے باعث ہونے والے نقصان کے بعد شام میں ان بچوں کے لیے تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔ فورے کے مطابق یونیسیف کو رواں برس 95 ملین ڈالرز فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے ان فنڈز کی فراہمی کے لیے اپیل بھی کی ہے۔

شام کی لڑائی میں ترکی کہاں کھڑا ہے؟

مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور شام دو ایسے ممالک ہیں جو روس کے ساتھ بڑی گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ دراصل ان دونوں ممالک کی یہ وابستگی ان کی بقا کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہ ایران کے دور میں ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے اتحادی ملک تھے لیکن ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران اور امریکہ کے تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے جس کے نتیجے میں ایران امریکہ کی گود سے نکل کر روس آغوش میں جا گرا اور اس وقت سے روس ایران کے مفادات کا تحفظ کرتا چلا آرہا ہے اور دونوں ممالک اب ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم سمجھے جانے لگے ہیں۔

شام کے امریکہ کے ساتھ کبھی بھی قریبی تعلقات نہیں رہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں شام ہی واحد ملک تھا جس کے سوویت یونین کےساتھ تعلقات اپنی بلندیوں کو چھو رہے تھےاور حافظ الاسد کے انتقال کے بعد بشار الاسد نے برسر اقتدار آنے پر اپنے والد سے ہٹ کر پالیسی اپنائی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک سے بھی تعلقات قائم کرنے کے لئےخصوصی توجہ دی اوراس دور میں بشار الاسد کو دنیا بھر میں مقبولیت بھی حاصل ہونا شروع ہو گئی۔ بشار الاسد نے اسی دوران ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات جو کہ بہت ہی خراب تھے کو بہتر بناتے ہوئے ترکوں کے دلوں میں بھی جگہ بنائی۔

ترکی اور شام کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی کا ایک دور ایسا بھی آیا جب
دونوں ممالک کی کابینہ کے مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہوئے اور دونوں ممالک نے تعاون کے باون مختلف سمجھوتوں پر دستخط بھی کیے۔ بشار الاسد، صدر ایردوان کو اپنا بڑا بھائی سمجھنے لگے اور دونوں رہنما شیر و شکر ہو گئے۔ ترکی کے صدرایردوان نے مشرقِ وسطیٰ میں’’ بہارِ عرب‘‘ کے نام سے شروع ہونے والی نئی جمہوری تحریک کے بعد شام میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور ملک میں جمہوری اصلاحات کرنے کی تلقین کی اور بشار الاسد اس تلقین کو قبول کرتے ہوئے بھی دکھائی دئیے لیکن خفیہ قوتوں نے ان کو ایسا کرنے سے باز رکھا.

حالانکہ صدر ایردوان نے اس سلسلے میں بشار الاسد سے کئی بار قریبی رابطہ قائم کیا اور جمہوری اصلاحات متعارف کروانے کے لئے ہر ممکنہ تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی لیکن یہ بیل منڈھے چڑھنے میں ناکام رہی اور دونوں رہنما ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئےاور پھر شام میں شروع ہونے والی بہار عرب کی تحریک خانہ جنگی کا روپ اختیار کرتی چلی گئی اور اُس وقت سے اب تک شام خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ شام میں گزشتہ آٹھ سالوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور لاکھوں ہی کی تعداد میں شامی باشندے ہمسایہ ممالک میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اس دوران بشار الاسد انتظامیہ نے مخالفین سے چھٹکارا پانے کے لئے بمباری کے ساتھ ساتھ کیمیائی حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

شامی انتظامیہ نے سب سے پہلے 19مارچ 2013ء کو اپنے ہی زیر کنٹرول علاقے خان الاصل میں اعصاب شکن گیس استعمال کی جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ ترکی کے صدر ایردوان نے سات اپریل کے شامی انتظامیہ کے حالیہ کیمیائی حملے کے بعد کہا کہ ’’ اگر امریکہ کے اتحادی 2013ء میں ہی شام کے ان کیمیائی حملوں کے خلاف کارروائی کرتے تو شام کو دوبارہ کیمیائی حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ شامی انتظامیہ نے 2013 ہی میں 21 اگست کو مخالفین کے زیر کنٹرول علاقے غوطہ پر کیمیائی حملہ کیا جس میں 14 سو سے زائد افراد مارے گئے ۔27 ستمبر 2013ء کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے شام کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے تلف کرنے کاحکم دیا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں طاقت کے استعمال کی وارننگ بھی جاری کی جس پر شامی انتظامیہ نے اکتوبر 2013ء میں کیمیائی ہتھیاروں کی مزاحمت کار تنظیم (OPCW) کی نگرانی میں اپنے کیمیکل ہتھیار تلف کرنا شروع کر دئیے اور 23 جون 2014ء کو OPCW نے شام میں تمام کیمیائی ہتھیار ناکارہ بنائے جانے کا اعلان کیا۔

لیکن مارچ 2017ء میں شام میں انسانی حقوق کی تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے ادلب میں مخالفین کے زیر قبضہ ایک علاقے پر ایک مرتبہ پھر کیمیائی حملے میں 88 افراد کے ہلاک ہونے سے آگاہ کیا اور 7 اپریل 2018ء کے دوما میں حالیہ کیمیائی حملے نے امریکہ اور اس کے دو اتحادی ممالک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق کے ضلعے برضح اور حمص کے قریب واقع دو حکومتی تنصیبات پر مجموعی طور پر 105 میزائل داغے۔ پینٹاگون کے مطابق ان حملوں میں شامی حکومت کے زیر استعمال کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے تین مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ شامی خانہ جنگی میں مغربی ممالک کی یہ سب سے بڑی عسکری مداخلت ہے۔ تاہم امریکہ، فرانس اور برطانیہ کیمطابق ان حملوں میں فقط شام کی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں کا مقصد اسد حکومت کا خاتمہ یا شامی تنازعے میں مداخلت نہیں تھا۔

ترک صدر ایردوان نے دنیا کو بہت پہلے ہی شام میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں متنبہ کیا تھا اوراس کے خاتمے کے لئے اپنی بھرپور کوششیں صرف کی تھیں۔ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ دیتے ہوئے ان کے زخموں پر مرہم رکھا اور اس سلسلے میں امریکہ اور روس کے درمیان ثالثی کا کردار بھی ادا کرنے کی کوشش کی تاکہ شام میں معصوم انسانوں کو مرنے سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے روس اور امریکہ کے رہنمائوں سے شام کے مسئلے پراحتیاط کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے امریکہ کے صدر ٹرمپ اور روس کے صدر ولادِ میر پیوٹن سے ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی سے بھی ٹیلی فونک بات چیت کی۔ دیکھا جائے تو ترکی ہی علاقے میں واحد ملک ہے جو امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ بڑے خوشگوار تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اور ان سپر قوتوں سے برابری کی سطح پر اپنی باتیں منوانے کا بھی حق رکھتا ہے۔ ترکی ایک طرف نیٹو کا رکن ملک ہے تو دوسری طرف اس کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات بھی ہیں۔

اس سے ایس 400 میزائل خرید رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پہلا ایٹمی پلانٹ بھی روس ہی کے تعاون سے لگایا جا رہا ہے۔ ترکی اپنے ان تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس اور امریکہ کے درمیان شام کے معاملے پر ثالثی کا کردار بھی ادا کر رہا ہے اور اس سلسلے میں روسی پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ، ولادیمیر شمانوف کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اور روس کےفوجی سربراہان کے درمیان ترکی کے توسط سے رابطہ قائم ہوا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژاں اسٹولٹنبرگ بھی ترکی کے دورے پر پہنچے اور انہوں نے صدر ایردوان سے علاقے کی صورتِ حال پر بات چیت کی۔ گزشتہ ہفتے ہی انقرہ میں صدر ایردوان کی نگرانی میں شام کی صورتِ حال سے متعلق سہ فریقی سربراہی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں روس کے صدر ولادِ میر پوتن اور ایران کے صدر حسن روحانی نے شرکت کی تھی اور اب یہ سہ فریقی سربراہی اجلاس ایران میں منعقد ہو گا۔ شام سے متعلق سربراہی اجلاس سے ترکی شام کے حامی اور شام کے مخالف ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ساڑھے تین ملین شامی مہاجرین کو پناہ دیتے ہوئے ایک ثالث اور انسان دوست ملک ہونے کا بھی ثبوت فراہم کر رہا ہے۔

ڈاکٹر فر قان حمید

کیا شام کا مسئلہ ایک اقتصادی جنگ ہے؟

ہر جنگ کے کچھ اقتصادی اثرات ہوتے ہیں۔ شام کی جنگ ایک ایسی کثیر الجہتی پراکسی جنگ ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں شامل ہوتی جا رہی ہیں اور اس کے اقتصادی اثرات بھی وسیع ہوں گے۔
پے در پے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں، جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ خام تیل، گیس اور ایلومینیم کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حالیہ دو ہفتوں میں پیش آنے والے واقعات کسی نہ کسی طریقے سے شام میں جاری کثیر الجہتی پراکسی جنگ سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ امریکا ہر صورت میں شامی حکومت کے حامی روس اور ایران کی معیشت کو عالمی منڈیوں سے الگ کرتے ہوئے انہیں کمزور بنانا چاہتا ہے۔ امریکی خارجہ اور فوجی پالیسیوں میں یہ دونوں ممالک دشمن کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں۔ سن 2017 میں امریکی حکومت نے کاسٹا (سی اے اے ایس ٹی اے) نامی ایک خصوصی قانون منظور کیا تھا، جس کا مقصد روس، ایران اور شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی جنگ میں مدد حاصل کرنا تھا۔

چند روز پہلے امریکا نے اسی کاسٹا نامی قانون کو استعمال کرتے ہوئے روسی مفادات کے خلاف پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان پابندیوں کے ذریعے سات ایسی انتہائی بڑی کاروباری شخصیات کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن سے درجنوں کمپنیاں جڑی ہوئی ہیں۔ اسی طرح سترہ اعلیٰ روسی سرکاری عہدیداروں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ جن کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ان میں روس کی ایلومینیم تیار کرنے والی روسل نامی کمپنی بھی شامل ہے، جس کا عالمی مارکیٹ میں نو فیصد حصہ ہے۔ ان پابندیوں کے بعد اس کمپنی کے شیئر فوراﹰ گرنا شروع ہو گئے تھے اور روسی کرنسی روبل کی قدر میں بھی کمی ہو گئی تھی۔ اسی ہفتے ایلومینیم کی قیمتوں میں دس گنا اضافہ دیکھا گیا۔

امریکا نے روس کی دو بڑی توانائی کی کمپنیوں گیس پروم اور سورگونیفٹ گیس کے سربراہان پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اسی طرح روس کی اس آئل کمپنی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جو روس میں گیارہ فیصد خام تیل کی پیدوار کی ذمہ دار ہے۔ گیس پروم اور سورگونیفٹ گیس کمپنیوں پر فی الحال پابندیاں عائد نہیں کی گئیں کیوں کہ ایسا کرنے سے امریکا کے اتحادی یورپی ممالک کو گیس کی ترسیل میں خلل پیدا ہوتا اور پھر یورپ نے اس کی شدید مخالفت کرنی تھی۔ دوسری جانب  مقامی منڈی میں ایرانی ریال کی قیمت باسٹھ ہزار ریال فی امریکی ڈالر تک گر گئی تھی، جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی اور جو اس سے دو دن قبل سات اپریل کے روز ریال کی قیمت کے مقابلے میں 18 فیصد کم تھی۔

بشکریہ DW اردو

شام میں جنگ کیوں ہو رہی ہے؟

سات سال قبل شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف ہونے والے پرامن احتجاج نے جلد ہی کھلم کھلا خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی جس میں اب تک اس میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں اور اس سے متعدد شہر اور قصبے تباہ ہو گئے ہیں۔

جنگ شروع کیسے ہوئی؟
لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی بہت سے شامیوں کو صدر اسد کی حکومت سے بےروزگاری، بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کی شکایتیں تھیں۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی جگہ 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ مارچ 2011 میں جنوبی شہر دیرا میں پڑوسی عرب ملکوں کے ‘عرب سپرنگ’ سے متاثر ہو کر جمہوریت کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں تشدد پھوٹ پڑا۔ حکومت نے اسے کچلنے کے لیے مہلک طاقت کا استعمال کیا جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج ہونے لگا جن میں صدر اسد سے استعفے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

مظاہروں اور انھیں دبانے کے لیے طاقت میں شدت آتی گئی۔ حزبِ مخالف کے حامیوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے اور انھیں پہلے اپنے دفاع اور بعد میں سکیورٹی فورسز سے لڑنے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ بشار الاسد نے کہا کہ مظاہرے ‘بیرونی پشت پناہی سے ہونے والی دہشت گردی’ ہے، اور عزم کیا کہ وہ انھیں کچل کر رہیں گے۔ تشدد پھیلتا چلا گیا اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔

کتنے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں؟
برطانیہ میں قائم تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے شام میں موجود ذرائع نے مارچ 2018 تک شام میں 353,900 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، جن میں 106,000 عام شہری ہیں۔ اس تعداد میں وہ 56,900 افراد شامل نہیں ہیں جو یا تو غائب ہیں یا پھر ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔ اسی دوران خلاف ورزیوں کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے وی ڈی سی نے شام میں اپنے ذرائع کی مدد سے بین الاقوامی انسانی قانون کی متعدد خلاف ورزیوں کی خبر دی ہے۔ اس نے فروری 2018 تک جنگ میں 185,980 افراد کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے جن میں 119,200 عام شہری شامل ہیں۔

جنگ کیوں لڑی جا رہی ہے؟
بہت جلد جنگ صرف بشار الاسد اور ان کے مخالفین کے درمیان محدود نہیں رہی۔ اس میں متعدد تنظیمیں اور متعدد ملک ملوث ہو گئے جن میں ہر ایک کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔ ایک طرف مذہبی جنگ ہو رہی ہے، جس میں سنی اکثریت صدر اسد کی علوی شیعہ اقلیت سے نبردآزما ہے۔ دوسری طرف ملک کے اندر بدامنی سے دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں کو وہاں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔
شام میں رہنے والے کرد الگ ہیں جو سرکاری فوج سے تو نہیں لڑ رہے لیکن اپنے لیے الگ ملک چاہتے ہیں۔

شامی حکومت کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے، جب کہ امریکہ، ترکی اور سعودی عرب باغیوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ روس نے شام میں فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں اور اس نے 2015 سے بشار الاسد کی حمایت میں فضائی حملے شروع کر رکھے ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے پانسہ اسد کی حمایت میں پلٹ گیا ہے۔ روسی فوج کا کہنا ہے کہ وہ صرف ‘دہشت گردوں’ کو نشانہ بناتی ہے، لیکن امدادی کارکنوں کے مطابق وہ حکومت مخالف تنظیموں اور شہریوں پر بھی حملے کرتی ہیں۔

دوسری طرف ایران کے بارے میں خیال ہے کہ اس کے سینکڑوں فوجی شام میں سرگرمِ عمل ہیں اور وہ صدر اسد کی حمایت میں اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ ایران ہزاروں شیعہ جنگجوؤں کو تربیت دے رہا ہے۔ زیادہ تر جنگجوؤں کا تعلق لبنان کی حزب اللہ سے ہے، لیکن ان میں عراق، افغانستان اور یمن کے شیعہ بھی شامل ہیں۔ یہ سب شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور دوسرے مغربی ملکوں نے باغیوں کو مختلف قسم کی مدد فراہم کی ہے۔ ایک بین الاقوامی اتحادی فوج 2014 سے شام میں دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہی ہے۔ ان کی وجہ سے سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نامی باغی دھڑے کو بعض علاقوں پر تسلط قائم کرنے میں مدد ملی ہے۔

ترکی ایک عرصے سے باغیوں کی مدد کر رہا ہے لیکن اس کی توجہ کا مرکز کرد ملیشیا ہے۔ اس کا الزام ہے کہ اس کا تعلق ترکی کی ممنوعہ باغی تنظیم پی کے کے سے ہے۔ سعودی عرب کو فکر ہے کہ شام میں ایران اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، اس لیے وہ باغیوں کو اسلحہ اور پیسہ دے رہا ہے۔ اسرائیل کو تشویش ہے کہ حزب اللہ کو ملنے والا اسلحہ اس کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے، اس لیے وہ بھی شام میں حملے کر رہا ہے۔

شامی عوام کے مصائب
جنگ کی وجہ سے لاکھوں اموات کے علاوہ کم از کم 15 لاکھ شامی مستقل معذروی کا شکار ہوئے ہیں، جب کہ 86 ہزار افراد ایسے ہیں جن کا کوئی عضو ضائع ہوا ہے۔ بےگھر ہونے والوں کی کل تعداد 61 لاکھ ہے جب کہ 56 لاکھ دوسرے ملکوں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

موجودہ زمینی صورتِ حال
حکومت نے ملک کے اکثر بڑے شہروں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے لیکن دیہی علاقوں میں اب بھی بڑے پیمانے پر ایس ڈی ایف کے باغیوں کا کنٹرول ہے۔
باغیوں کے قبضے میں سب سے بڑا صوبہ ادلب ہے جس کی آبادی 26 لاکھ ہے۔
ادلب کو ‘غیر جنگی علاقہ’ قرار دیا گیا ہے، لیکن حکومتی فوج اس پر یہ کہہ کر حملے کرتی رہتی ہے کہ یہاں القاعدہ کے جنگجو چھپے ہیں۔ ایس ڈی ایف اب رقہ پر بھی قابض ہے جو 2017 تک دولت اسلامیہ کا نام نہاد دارالخلافہ تھا۔ اس کے علاوہ مشرقی غوطہ پر حملہ جاری ہے، جہاں چار لاکھ کے قریب افراد 2013 سے حکومتی محاصرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔

جنگ کیسے ختم ہو گی؟
ماہرین کے مطابق اس تنازعے کا تصفیہ جنگ سے نہیں سیاسی مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ اقوامِ متحدہ نے 2012 کی جنیوا مراسلے کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شام میں صلاح و مشورے سے ‘عبوری حکومت’ قائم کی جائے۔ لیکن 2014 کے بعد سے اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں جنیوا 2 کہلائے جانے والے مذاکرات کے نو دور بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔ صدر اسد حزبِ مخالف سے بات کرنے سے کترا رہے ہیں، جب کہ باغیوں کا اصرار ہے کہ پہلے اسد استعفیٰ دیں۔ اسی دوران مغربی ملکوں کا الزام ہے کہ روس نے ایک متوازی سیاسی عمل شروع کر کے امن مذاکرات کھٹائی میں ڈال دیے ہیں۔ جنوری 2018 میں روسی نے ‘آستانہ عمل’ کا آغاز کیا، تاہم اس میں حزبِ اختلاف کی اکثر جماعتوں نے شرکت نہیں کی۔

بشکریہ بی بی سی اردو

US missile attack on Syria

The United States, France, and the United Kingdom carried out a series of military strikes, involving manned aircraft and ship-based missiles, against multiple government sites in Syria. The three western powers said they carried out the strikes in response to the alleged chemical weapons attack on Douma of eastern Ghouta on 7 April, which they attributed to the Syrian government. Syria denied involvement in the Douma attacks and called the airstrikes a violation of international law.
On 7 April 2018, a suspected chemical attack was carried out in the Syrian city of Douma, with at least 70 people being reported as killed by the attack. Several medical, monitoring, and activist groups—including the White Helmets—reported that Syrian Army helicopters dropped barrel bombs on the city of Douma. The bombs were suspected to be filled with chemical munitions such as chlorine gas and sarin.

 

As with previous incidents, France, the United Kingdom, the United States, and other nations accused the Assad regime of being responsible for the use of chemical weapons. Russia and Iran, the Syrian government’s main allies, denied that chemical weapons had been used, claiming the Douma attack was a false flag attack. Russia has alleged that video of the chemical attack had been staged by members of the White Helmets organization. In May 2017, French President Emmanuel Macron said the use of chemical weapons in Syria would be a red line which would require immediate reprisal. France and the United States cited positive urine and blood samples collected as proof of chlorine being used in Douma. In the early hours of 9 April 2018, an airstrike was conducted against Tiyas Military Airbase in Syria. comment.
On 10 April, an emergency UN Security Council meeting was held, where competing solutions on how to handle the response to the alleged chemical attack were presented and ultimately vetoed. By 11 April, each of the western nations began to consider military action in Syria seeking a “strong joint response.” On 11 April, the Syrian government said it has invited Organization for the Prohibition of Chemical Weapons to investigate the sites of the alleged attacks. “Syria is keen on cooperating with the OPCW to uncover the truth behind the allegations that some western sides have been advertising to justify their aggressive intentions,” state news agency SANA said, quoting an official source in the Foreign Ministry. On 13 April, after initially denying the use of chemical weapons Russia alleged Britain “staged” the attack in order to provoke U.S. airstrikes.
The strikes were carried out by the forces of the United States, the United Kingdom and France. The strikes were delivered by ship-based cruise missiles as well as by aircraft. The British forces consisted of four Tornado GR4s armed with Storm Shadow missiles. The French frigate Aquitaine was involved in the strikes. The French Air Force also sent several warplanes. The US forces included B-1 bombers and at least one warship based in the Red Sea. The Tomahawks were fired from the guided missile destroyer USS Donald Cook (DDG-75) and an unspecified Ticonderoga-class cruiser. U.S. Secretary of Defense James Mattis said that twice as many weapons were used in the initial strike compared to the 2017 Shayrat missile strike. An anonymous US Defense Department official quoted by The Washington Post said that about 100 Tomahawk missiles were fired by the US. Syria responded using its air defense systems and its state media aired a video of missiles being fired into the sky. Syrian state news agency SANA, as well Colonel-General Sergei Rudskoi of the Russian military, claimed that the Syrian air defense systems Pantsir-S1, S-125, S-200, Buk, and Kvadrat intercepted and destroyed many missiles.

 

President Trump announced the strikes at 9PM 13 April ET (4AM 14 April in Syria) along with allies France and the United Kingdom. Explosions were heard in Damascus, the capital of Syria, just as Trump was speaking. U.S. Chairman of the Joint Chiefs of Staff Joseph Dunford said three sites were targeted: a research center in Damascus, a chemical weapons storage facility near Homs, and an equipment storage facility and command post also near Homs. The UK Ministry of Defence reported that British aircraft struck chemical weapons sites in Homs. Witnesses reported loud explosions and smoke in the capital Damascus in the early morning, including in the Barzeh neighborhood, the site of the Barzah scientific research centre, a major scientific research establishment. The Syrian Observatory for Human Rights said that attack sites included two scientific research centers in Damascus and another in the Homs area, as well as military bases in Damascus.
Syrian state media said that Syria responded to the attacks by firing anti-aircraft weapons, and that its air defenses shot down 13 incoming missiles near Al-Kiswa, south of Damascus. The Russian military reported that Syria’s air defenses shot down 71 out of 103 cruise missiles. The Syrian Observatory of Human Rights accounted for more than 65 missiles intercepted by the Syrian government and their allies. Missiles launched at Homs fell away from their target. No human losses were reported, but large material damage was reported.

 

Hundreds of Syrians in Damascus were seen protesting, denouncing the attack. Demonstrators were seen waving Iranian, Syrian and Russian flags while also shouting slogans of allegiance to President al-Assad.

 

دونوں سپر قوتیں محلے کے بدمعاشوں کی مانند ایک دوسرے کو دہمکیاں دے رہی ہیں

ترکی کے وزیر اعظم نے روس اور امریکہ کو شام کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب گلی کوچوں کی جنگ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس جنگ کا خمیازہ سویلین اپنے جانیں دیتے ہوئے بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار استنبول میں یوریشیا اقتصادی سربراہی اجلاس کے موقع پر کیا انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مستقل نمائندئے جن کو بڑی قوت حاصل ہے پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو ٹویٹ کے ذریعے متنبہ کر رہے ہیں۔ کیا دنیا ان دونوں ممالک کو ایک دوسرے کو نشانہ بناتے ہوئے جن میں ہزاروں افرا ہلاک ہو چکے ہیں تماشا ہی دیکھتے رہیں گے؟ ایک کہتا ہے میرے میزائل زیادہ موثر ہیں جبکہ دوسرا کہتا ہے میرے میزائل زیادہ طاقتور ہیں۔

یہ ممالک محلے کی لڑائی کی طرح ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ محلے کے بد معاشوں کے مانند لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ لیکن اس کا حساب کون چکا رہا ہے۔؟ بے چارے معصوم سویلین چکا رہے ہیں۔ علاقے میں مزید خون خرابہ روکنے کے لیے شام میں برسر پیکار ممالک کو متنبہ کرتے ہوئے بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ یہ لڑائی کا وقت نہیں ہے بلکہ علاقے میں زخمی ہونے والے افراد کے زخموں پر مرہم پٹی کرنے کا وقت ہے۔ ان تمام ممالک کو اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے علاقے میں امن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ممالک کو آپس میں اتحاد کرتے ہوئے شام اور عراق میں امن کے قیام کے لیے اپنی بھر پور کوششیں جاری رکھنے چاہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا کر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔

بشکریہ RT اردو

کیا صدر ٹرمپ شام پر میزائل حملہ کر دیں گے ؟

صدر ٹرمپ نے روس کو متنبہہ کیا ہے کہ وہ شام کے اندر کیمیائی حملے کرنے والوں کا ساتھ نہ دیں اور ساتھ ہی اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے ’’ روس تیار ہو رہو، میزائل آ رہے ہیں، بہترین، جدید اور سمارٹ‘‘. دوسری جانب روس نے بھی خبردار کیا ہے کہ شام کی جانب آنے والے تمام میزائلوں کو مار گرائے گا۔ صدر ٹرمپ کا ٹویٹ محض انتباہ ہے یا اس پر عمل درآمد بھی ہو سکتا ہے؟ ردعمل کیا ہو گا ؟ وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں اسد حسن کے ساتھ گفتگو میں ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ صورتحال بہت پیجیدہ ہے، صدر ٹرمپ کے واضح اعلان کے بعد شام پر امریکہ کے حملہ کرنے یا نہ کرنے، دونوں صورتوں میں نتائج سنگین ہیں۔

’’ اب جبکہ صدر ٹرمپ نے حملے کا اعلان کر دیا ہے تو بدقسمتی سے یہ حملہ ہو کر رہے گا۔ اگر حملہ نہیں ہوتا تو پھر (صدر ٹرمپ کی) ساکھ کو مزید دھچکہ پہنچے گا‘‘۔ زبیر اقبال کے بقول امریکہ کے صدر ٹرمپ کے بیانات تضاد ناتجربہ کاری کے عکاس ہیں یہ ناتجربہ کاری ہے۔ ان کے مشیروں کو چاہیے کہ مناسب سمت کی جانب ان کی راہنمائی کریں۔ ناتجربہ کاری بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ کیونکہ دوسرے ملک اس کو اس نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ اس کو پالیسیوں میں لڑکھڑاہٹ یا تذبذب کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ملکوں کے لیے اس کے بہت خطرناک نتائج ہوا کرتے ہیں‘‘۔

پاکستان سے تجزیہ کار، سابق سفیر ظفر ہلالی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے شام پر میزائل حملے کے عندیہ پر تنقید کی اور کہا کہ امریکہ وہیں حملے کیا کرتا ہے جہاں اسے یقین ہو کہ جواب میں حملہ نہیں کیا جائے گا۔ اسے معلوم ہو کہ جواب میں کاروائی ہو گی تو وہاں وہ بات چیت کیا کرتا ہے۔ اس ضمن میں شمالی کوریا کی مثال واضح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام پر میزائل حملہ ان کے الفاظ میں احمقانہ فیصلہ ہو گا جس کے حق میں دلائل نہیں دیے جا سکتے۔ سال 2013 میں اوباما انتظامیہ بھی شام پر اس وقت حملے پر سوچ بچار کرتی رہی ہے جب صدر بشارالاسد نے امریکہ کی جانب سے متعین کردہ سرخ لکیر پار کی تھی اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔

اسد حسن

بشکریہ وائس آف امریکہ

اگلے بہتر گھنٹوں میں شام پر فضائی حملے کا امکان

فضائی حدود کی نگرانی کے یورپی ادارے ’یوروکنٹرول‘ نے فضائی کمپنیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ مشرقی بحیرہ روم سے گزرنے والی اپنی پروازوں کے حوالے سے احتیاط کریں کیونکہ اگلے بہتر گھنٹوں میں شام پر فضائی حملہ کیا جا سکتا ہے۔ شام کے علاقے مشرقی غوطہ کے شہر دوما میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے کے بعد سے صورتحال مسلسل کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مغربی اتحادی دوما میں کیے جانے والے اس مبینہ کیمیائی حملے کی ذمہ داری شامی حکومت پر عائد کرتے ہوئے صدر اسد کو سزا دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

ماسکو اپنے حلیف اسد کے خلاف کسی بھی طرح کی عسکری کارروائی کے حوالے سے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی بارہ قراردادوں کا راستہ روک چکا ہے۔ ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ دوما میں کیمیائی حملے کے ذمہ داروں کا تعین ہوتے ہی اس کے خلاف فوری اور بھرپور کارروائی کی جائے گی۔ ماسکو اور واشنگٹن شامی علاقے دوما میں کیے جانے والے مبینہ کیمیائی حملے کے حوالے سے مختلف موقف رکھتے ہیں۔ یہ دونوں ممالک اس واقعے کی آزاد تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس تناظر میں ایک دوسرے کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بھی بن رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق ٹرمپ نے لاطینی امریکی خطے کا پہلے سے طے شدہ اپنا دورہ منسوخ کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ شام پر مرکوز کی ہوئی ہے۔ دوما میں مبینہ کیمیائی حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے متضاد خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ سیریئن ریلیف گروپ کے مطابق اس واقعے میں ساٹھ افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ڈیڑھ سو ہلاکتوں کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے۔

بشکریہ DW اردو