راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم

سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات کیس کے دوران کراچی کے معطل سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کا تذکرہ ہوا تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس کے لیے مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے میڈیا میں آنے والی ان رپورٹس کا نوٹس لیا جس میں بتایا گیا تھا کہ گذشتہ ہفتے کراچی کے علاقہ شاہ لطیف ٹاؤن میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کے مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں ہلاکت کے الزام میں ملیر کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کو معطل کر دیا گیا جبکہ وہ واقعے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے سامنے بھی پیش نہیں ہو رہے۔
رپورٹس میں مقتول کے ایک قریبی عزیز کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ پولیس نے نقیب اللہ کو 2 جنوری 2018 کو اس کی دکان سے حراست میں لیا تھا اور بعد ازاں ایک جعلی مقابلے میں اسے قتل کر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے ابتدا میں کیس کی سماعت بدھ کے روز (24 جنوری 2018) کے لیے مقرر کی تھی تاہم راؤ انوار کی جانب سے بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس نے وقفے کے بعد کیس کی سماعت کی اور نئی ہدایات جاری کر دیں۔ نئی ہدایات کے مطابق کیس کی سماعت کراچی رجسٹری میں 27 جنوری 2018 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کرے گا جس میں آئی جی سندھ اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ، تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کو پیش ہونے کا حکم دے دیا گیا جبکہ راؤ انوار کو بھی ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔

اس کے علاوہ چیف جسٹس نے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم بھی دے دیا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ معلوم ہوا ہے کہ راؤ انوار کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہو رہے۔ میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ماضی میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت گری تو اس کی ایک وجہ ماورائے عدالت قتل بھی تھے۔ اس موقع پر وکیل طارق اسد نے عدالت سے کہا تھا کہ راؤ انوار کے معاملے پر از خود نوٹس لیا گیا لیکن پورے ملک میں ایسے مقابلے ہو رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تمام اقدامات بنیادی انسانی حقوق کے لیے کئے جبکہ سپریم کورٹ اپنا دائرہ اختیار خود طے کرے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی تقریم کبھی کم نہیں ہونے دیں گے اور وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گھڑے مردے مت کھو دیں اگر یہ ادارہ نہ رہا تو آپ کے بچوں کو انصاف کون دے گا۔ اس سے قبل اسلام آباد کے بینظیر انٹر نیشنل ایئرپورٹ کے ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار گزشتہ شب اسلام آباد سے ای کے 615 کی پرواز سے دبئی فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے، تاہم امیگریشن کاؤنٹر پر ایف آئی اے کے عملے نے بیرون ملک جانے سے روک دیا اور ان کی بیرون ملک فرار کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔

ذرائع کے مطابق ایف آئی اے عملے نے راؤ انوار کو یہ کہہ کر دبئی جانے سے روک دیا کہ ان کے خلاف نقیب اللہ محسود کے قتل کی تفتیش جاری ہے لہٰذا جب تک یہ تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتی وہ بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ ایئرپورٹ ذرائع کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کو امیگریشن آرڈر 506 کے تحت روکا گیا، تاہم انہیں کسی ادارے نے حراست میں نہیں لیا جبکہ اس وقت تک معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا نام ابھی تک ای سی ایل میں شامل نہیں تھا۔ خیال رہے کہ 19 جنوری 2018 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا از خود نوٹس لیا تھا۔ چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس سے 7 روز میں واقعے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

زینب قتل کیس کا مرکزی ملزم گرفتار

زینب قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، پولیس نے کیس کے ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ ملزم نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران نامی ملزم زینب کے گھر واقع کورٹ روڈ کا رہائشی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم عمران کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے، ملزم کو زینب کیس کے شبہ میں ایک بار پکڑ کر چھوڑ دیا گیا تھا، جس کے بعد ملزم کچھ دنوں سے غائب تھا، اب پولیس نے اُسے دوبارہ پکڑ لیا ہے۔ ملزم کی عمر 35 سے 36 سال ہے جو مقتول بچی کا دور کا رشتے دار بتایا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق مقتول بچی اور ملزم کے گھر والوں کے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات تھے اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔ ذرائع کا یہ بھی بتانا تھا کہ زینب کے قتل کے بعد قصور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ملزم پہلے پاک پتن فرار ہوا اور پھر وہاں سے عارف والا چلا گیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو ملزم کی گرفتاری سے آگاہ کر دیا گیا ہے، وہ کچھ دیر میں اس حوال سے پریس کانفرنس کریں گے۔

یاد رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغوا کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔ زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ بعدازاں چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا ۔  تحقیقات کے سلسلے میں قصور میں 100 سے زائد افراد کے ڈی این اے بھی لیے گئے تھے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

سابق سفیر حسین حقانی کےخلاف غداری کے مقدمات درج

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف فوج اور ملک مخالف تقاریر، مضامین اور کتابیں تحریر کرنے کے الزام میں غداری کے تین مقدمات دو تھانوں میں درج کر لیے گئے۔ یہ مقدمات گذشتہ روز مومن، محمد اصغر اور شمش الحق کی مدعیت میں تھانہ کینٹ اور تھانہ بلی ٹنگ میں درج کیے گئے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تھانہ بلٹی ٹنگ پولیس نے بتایا کہ اصغر نامی شہری نے ایف آئی آر میں بیان دیا کہ حسین حقانی نے امریکا میں بطور سفیر بھارتی جاسوسوں اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کو ویزے جاری کیے۔

اصغر نے موقف اختیار کیا کہ حسین حقانی نے اپنی تصنیف کردہ کتابوں میں پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جو انہیں غدار ثابت کرتی ہیں۔ پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 120 بی اور 121 اے کے تحت مقدمات درج کر لیے، خیال رہے کہ دفعہ 120 بی مجرمانہ سازش تیار کرنے اور 121 اے پاکستان کے خلاف جنگ چھڑنے کے حوالے سے ہے۔ پولیس حکام کے مطابق قانونی تقاضوں کے مطابق حسین حقانی کو فوری طور پر تھانوں میں حاضر ہونا چاہیے ورنہ انہیں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ حسین حقانی نے اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کالم تحریر کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن میں انہوں نے اوباما انتظامیہ کی مدد کی جبکہ حکومت پاکستان اور خفیہ ایجنسی (آئی ایس آئی) تمام حالات سے بے خبر تھی۔
انہوں نے اپنے مضمون میں امریکیوں کو جاری کیے جانے والے ویزوں کے حوالے سے بھی بات کی تھی۔

حسین حقانی نے لکھا تھا کہ ‘اوباما کی صدارتی مہم کے دوران بننے والے دوستوں نے، 3 سال بعد ان سے پاکستان میں امریکی اسپیشل آپریشنز اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو تعینات کرنے کے حوالے سے مدد مانگی تھی’۔ اس حوالے سے امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر عابدہ حسین نے حسین حقانی کے حالیہ مضمون کے معاملے پر پارلیمانی کمیشن بنانے کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو عام کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے آسکیں۔ دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ سفارتی ویزوں کے اجرا کے حوالے سے حسین حقانی کے بیانات سے ‘پاکستان کے ریاستی اداروں کے موقف کی تصدیق ہوتی ہے’۔

ڈان نیوز کے پروگرام ‘نیوز وائز’ میں گفتگو کرتے ہوئے عابدہ حسین نے کہا تھا کہ ‘ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے حسین حقانی کے اس مضمون سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، لیکن یہ بات کوئی وزن نہیں رکھتی، سابق صدر آصف زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں حسین حقانی کو امریکا میں بطور پاکستانی سفیر تعینات کر کے ایک نہایت غلط اقدام اٹھایا تھا۔ میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا تھا۔

یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو روکنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک پراسرار میمو بھیجا تھا۔ اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد پاکستان کی سویلین حکومت کو امریکا کا دوست ظاہر کرنا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایٹمی پھیلاؤ روکنے کا کام صرف سویلین حکومت ہی کر سکتی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکیورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔ کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ‘حسین حقانی یہ بھول گئے تھے کہ وہ پاکستانی سفیر ہیں، انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی’۔

ایک فیصد ارب پتی افراد دنیا کی 82 فیصد دولت کے مالک ہیں

برطانوی تنظیم ’’آکسفام‘‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ سال 2017ء کے دوران محنت سے حاصل کیے گئے ہر 5 ڈالرز میں سے 4 دنیا کے ایک فیصد امیر افراد کی جیب میں گئے جبکہ نصف غریب آبادی کی دولت میں کوئی اضافہ نہ ہو سکا۔ برطانوی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سال 2017ء کے دوران ارب پتی بننے والے افراد کی تعداد تاریخ میں سب سے زیادہ رہی اور ایک فیصد امیر طبقے کی دولت میں گزشتہ سال سات سو باسٹھ ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا ۔ یہ اتنی دولت ہے کہ دنیا سے انتہائی غربت کو 7 بار ختم کیا جاسکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا کی نصف غریب آبادی یعنی 3 ارب 70 کروڑ افراد کی دولت میں گزشتہ سال کوئی اضافہ نہیں ہو سکا۔ ادارے کے مطابق اس دولت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ٹیکس چوری بھی ہے اور گزشتہ سال ایک فیصد طبقے نے تقریبا ًدو سو ارب ڈالرز کا ٹیکس بچایا۔ رپورٹ میں حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ٹیکس بچانے والے ممالک کے خلاف کارروائی کریں اور پیسے کو تعلیم، صحت اور نوجوانوں کے لیے نوکریوں پر خرچ کریں۔

میکسیکو میں دنیا کے سب سے طویل زیر آب غار

میکسیکو میں سیلابی یا پانی سے بھرے غاروں کا ایک طویل سلسلہ دریافت کیا گیا ہے۔ غاروں کا زیر زمین سلسلہ میکسیکو کے جزیرہ نما یُکاتان سے طولوم تک پھیلا ہوا ہے.

 

 

 

 

 

کیا چین اور روس ‘دہشت گردی’ سے بڑھ کر خطرہ ہیں ؟

واشنگٹن نے چین اور روس کی بڑھتی ہوئی عسکری ‘جارحیت’ کو اپنے لیے سب سے بڑا قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے نئی قومی دفاعی حکمت عملی میں دونوں ممالک کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی بجٹ میں اضافے کا فیصلہ کر لیا۔
امریکا کے سیکریٹری دفاع جنرل جیمز میٹس نے کہا کہ ‘ہم دہشت گردوں کے خلاف مہمات جاری رکھیں گے لیکن اب امریکا کی قومی سلامتی میں بڑی طاقتوں (چین اور روس) کے ساتھ عسکری مسابقت ترجیحات کی حامل ہو گی’۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جنرل جیمز میٹس نے واضح کیا کہ شام اور عراق میں کالعدم تنظیم داعش کی نام نہاد خلافت کو شکست دی جا چکی ہے تاہم داعش، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیمیں تاحال عالمی خطرہ ہیں۔ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ساؤتھ چائنا سمندر میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری صلاحیت اور دنیا بھر میں اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ سے امریکا کو سخت پریشانی لاحق ہے۔

خیال رہے کہ اس ضمن میں امریکا الزام لگا چکا ہے کہ بیجنگ سائبر حملوں کے ذریعے واشنگٹن میں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سے معلومات چوری کر رہا ہے۔ اس سے قبل امریکا اپنے سب سے بڑے حریف روس کے پڑوسی ملک یوکرین اور خلیجی ملک شام میں عسکری طاقت کے ذریعے دخل اندازی سمیت امریکا کے 2016 میں ہونے والے انتخابات میں چھڑ چھاڑ پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔ پینٹاگون سے جاری 11 صفحات پر مشمتل دستاویزات میں حکمت عملی سے متعلق کہا گیا کہ امریکا اپنے عسکری امور پر غیر معمولی تبدیلی کا خواہاں ہے۔

ڈپٹی اسسٹنٹ ڈیفنس سیکریٹری ایلبریج کولبے نے کہا کہ ‘ہم گزشتہ 25 سالوں سے بہت کچھ کر رہے ہیں اور اب ہماری موجودہ حکمت عملی کا مرکز عسکری صلاحیت پر ہی مرکوز رہے گا’۔ پینٹاگون کے دستاویزات میں تحریر کے مطابق موجودہ حکمت عملی کی بنیاد جنگ میں عسکری تیاریوں خصوصاً بڑی طاقوں کے مقابلے پر مشتمل ہو گی’۔ واضح رہے کہ امریکا کے سابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ میں ڈیفنس چیف نے مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے عسکری اور اقتصادی اثرو رسوخ پر خبردار کرتے ہوئے ایشیا پیسیفک خطے میں مزید جنگی بیڑے اور فوجیوں کی تعیناتی کی تجویز پیش کی تھی۔

دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ کا موجودہ فیصلہ گزشتہ انتظامیہ کی تجویز سے مماثلت رکھتا ہے تاہم ‘سب سے پہلے امریکا’ کا نعرہ گزشتہ حکمت عملی میں شامل نہیں۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکا کے اتحادی اور شراکت دار ممالک اہم حیثیت رکھتے ہیں جن کی موجودگی سے اضافی صلاحیت اور خطے میں رسائی ممکن ہوتی ہے ۔ ایلبریج کولبے نے کہا کہ ‘یہ سال 1999 نہیں جب کوئی کہے گا کہ امریکا خود سے کچھ نہیں کر سکتا، تاہم اب یہ حقیقت پسندانہ سچائی ہے کہ ہمیں مل کر اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہو گا تاکہ مثبت انداز میں مثبت نتائج حاصل ہو سکیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا دہشت گردی پہلی ترجیح نہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘دہشت گردی ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے اور ایران اور شمالی کوریا اس معاملے میں ہنگامی مسئلہ ہیں۔

ایگزیکٹ کی جعل سازی پا کستان سے برطانیہ تک

ڈاکٹر عامر لیاقت، ان کی اہلیہ اور 1100؍ دیگر پاکستانیوں نے ایگزیکٹ کی یونیورسٹیوں کو ڈگریاں خریدنے کیلئے رقم ادا کرنا پڑی۔ کروڑوں ڈالرز مالیت کا یہ اسکینڈل ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں کے ساتھ سامنے آ رہا ہے اور بی بی سی کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ 3000؍ سے زائد برطانوی شہریوں نے بھی جعلی ڈگریاں خریدیں۔ برطانوی میڈیا میں اس اسکینڈل کا ذکر سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اس صورتحال کا از خود نوٹس لیا اور ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ 10؍ دن میں تفتیش کے متعلق رپورٹ پیش کرے۔

ایف آئی اے کو اب تک عدالت سے کوئی آرڈر موصول نہیں ہوا۔ صورتحال کی پیشرفت سے آگاہ ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ ایف آئی اے کا ایک عہدیدار ہفتے کو عدالت پہنچا تاکہ آرڈر کی کاپی وصول کی جا سکے جو وہاں دستیاب نہیں تھی۔ اگرچہ ایگزیکٹ اسکینڈل عالمی سطح پر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا اور دنیا کے مختلف حصوں سے اس فراڈ کی باتیں سامنے آئیں لیکن پاکستان میں اس ضمن میں تحقیقات پر نہ صرف سمجھوتا کیا گیا بلکہ اسکینڈل سے جڑی کئی یونیورسٹیاں اب بھی آن لائن ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹ اسکینڈل کے متاثرین امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، مشرق وسطیٰ اور دیگر ملکوں میں موجود ہیں لیکن پاکستان میں موجود ایگزیکٹ کے صارفین پر کسی نے توجہ نہیں دی۔

ان میں سے سب سے نمایاں شخص متنازع اینکر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے حاصل کیے جانے والے ریکارڈ کے مطابق عامر لیاقت ایشووڈ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ عامر لیاقت ایگزیکٹ کی ملکیت سمجھنے جانے والے چینل ’’بول‘‘ کے اینکر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے تاریخ کے شعبے میں بیچلر اور ماسٹرز کی ڈگری کیلئے اسٹوڈنٹ آئی ڈی نمبر AU-2006-12-92888 پر اپلائی کیا۔ ریکارڈ میں فی جمع کرانے کی تاریخ 18؍ جون 2006ء درج ہے۔ خط و کتابت کیلئے دیا جانے والا پتہ، موبائل فون نمبر، ای میل ایڈریس بھی درج ہے۔ جس وقت عامر نے تاریخ کے شعبے میں ڈگریوں کی درخواست دی اسی وقت ان کی بیوی نے بھی میڈیسن اور سرجری میں بیچلرز اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز میں دلچسپی ظاہر کی۔

بیچلر ڈگری کیلئے ادائیگی کی تاریخ 17؍ مارچ 2006ء جبکہ ماسٹرز کیلئے 28؍ مارچ 2006ء درج ہے۔ خاتون کی بیچلرز کی ڈگری کیلئے آئی ڈی BU-2006-3-394666 جبکہ ماسٹرز کیلئے BU-2006-3-394667 درج ہے۔ تفتیش کے آغاز پر عامر لیاقت کو ایف آئی اے نے طلب کیا تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ڈگریوں کیلئے اپلائی تو کیا تھا لیکن انہیں یہ موصول نہیں ہوئیں۔ تاہم، جب ٹی وی پر نیوز کاسٹر نے ان سے رابطہ کر کے موقف معلوم کیا تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا کہ انہوں نے ڈگریوں کیلئے اپلائی کیا تھا۔ 2005ء میں عامر لیاقت کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ امت کی شہ سرخیوں کا حصہ بنے تھے جب یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جعلی ہیں، یہ ڈگریاں انہوں نے 2002ء میں قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کیلئے جمع کرائی تھیں۔

یہ ڈگریاں انٹرنیٹ سے خریدی گئی تھیں اور انہیں ٹرنٹی کالج نے جاری کیا تھا جس کا پتہ اسپین کا درج تھا۔ عامر لیاقت نے اُس وقت وضاحت پیش کی تھی کہ اسپین کی یونیورسٹی نے انہیں اعزازی ڈگری جاری کی تھی اور کوئی فیس نہیں لی تھی لیکن جب سائوتھ ایشیا ٹریبون نے یونیورسٹی سے پوچھا تو جواب ملا کہ انہوں نے کسی کو بھی بنا فیس کے کوئی اعزازی ڈگری جاری نہیں کی۔ ایسے 1100؍ پاکستانی ہیں جنہوں نے ایگزیکٹ کی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں خریدیں، ان میں سے 800؍ افراد ملک سے باہر ہیں۔ باقی افراد نے عامر لیاقت اور دیگر کی طرح خط و کتابت کیلئے پاکستان کا پتہ دے رکھا ہے۔

ایسے ہی ایک شخص حسن سلیم حقانی عسکری 7، اڈیالہ روڈ راولپنڈی کے ہیں جنہوں نے ایگزیکٹ کی روش ول یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ان کا اسٹوڈنٹ آئی ڈی نمبر AD-2006-12-134596 ہے جبکہ فیس کی ادائیگی کی تاریخ 21؍ دسمبر 2005ء درج ہے۔ ایک اور شخص عامر ہاشمی نے ایگزیکٹ کی بیل فورڈ یونیورسٹی سے ایجوکیشنل ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، انہوں نے خط و کتابت کیلئے ہلال روڈ، حساس ادارے کا ڈائریکٹوریٹ، راولپنڈی کا پتہ درج کرا رکھا ہے، فیس کی ادائیگی کی تاریخ 5؍ فروری 2008ء درج ہے۔ ایک اور شخص سردار علی خان فیز فور حیات آباد پشاور کے ہیں، انہوں نے بیل فورڈ یونیورسٹی سے کرمنل جسٹس میں ہائی اسکول ڈپلومہ، ٹیلی کمیونیکیشن میں ایسوسی ایٹ ڈگری جبکہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں بیچلرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

فیس کی ادائیگی 14؍ جون 2006ء کو کی گئی تھی۔ پاکستان سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کے بلال اسلم صوفی 2005ء میں ایشووڈ یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ تھے۔ کراچی کے عاصم مبین نے ایشووڈ سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ راولپنڈی کے پروفیسر رضا انجم نے روش ول یونیورسٹی سے ٹیلی کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پشاور کینٹ کے انجم افروز نے 2006ء میں ایشووڈ یونیورسٹی سے کرمنل جسٹس میں ایسوسی ایٹ ڈگری حاصل کی۔ لاہور کے ڈاکٹر سید سرفراز حسین نے روش ول یونیورسٹی سے 2005ء میں کلینکل سائیکولوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کلفٹن روڈ کراچی کے عبدالصمد مسافر نے بیل فورڈ یونیورسٹی سے آلٹرنیٹیو میڈیسن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ شیر ربانی کالونی قصور کے مقصود حسنی نے ایشووڈ یونیورسٹی سے 2005ء میں انگلش میں پی ایچ ڈی کی ڈگری خریدی۔

عمر چیمہ

بشکریہ روزنامہ جنگ

ساحر لودھی کے مارننگ شو پر پابندی کے لیے دراخواست دائر

ہائی کورٹ میں ساحر لودھی کے مارننگ شو کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر کر لی گئی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ساحر لودھی کے مارننگ شو پر پابندی کے لیے دائر دراخواست کو سماعت کے لئے مقرر کر لیا گیا ہے۔ درخواست میں وفاقی حکومت، پیمرا، ساحر لودھی اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے، درخواست گزارکا کہنا ہے کہ ساحر لودھی کے پروگرام میں کم عمر بچیوں کے ناچ گانے کے مقابلے دکھائے جاتے ہیں، کم عمر بچیوں کا رقص نشر کرنے سے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے جس سے قصور جیسے واقعات جنم لے رہے ہیں۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ پیمرا ایسے پروگراموں کی نشریات کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہا، عدالت پیمرا کو ساحر لودھی کے پروگرام میں کم عمر لڑکیوں کے ناچ گانے نشر کرنے پر پابندی کا حکم دے۔
واضح رہے کہ نامور میزبان و اداکار ساحر لودھی گزشتہ کچھ عرصے سے مارننگ شو میں کم عمر بچیوں سے ناچ گانا کروانے کے حوالے سے شدید تنقید کا شکار ہیں، سوشل میڈیا صارفین نے ساحر لودھی اور ان کے شو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا شو معاشرے میں بے راہ روی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے، لہٰذا ان کے شو کو بند کیا جانا چاہیے۔