عالمِ اسلام کے خلاف روا رَکھا جانے والا ظلم

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تاریخی واقعات کی ہماہمی اور تواتر میں کچھ ایسے الفاظ اُن اقوام کے زبان و اَدب کا لاشعوری طور پر حصّہ بن جاتے ہیں جو اُن کے خلاف ایک منصوبے کے تحت وضع کیے گئے تھے۔ اِس کی واضح ترین مثال’ ’بربریت‘‘ کا لفظ ہے جو ہمارے ہاں درندگی اور بہیمیت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ آج کل اخبارات و جرائد اِس لفظ سے بھرے ہوتے ہیں۔ میں جس وقت بھی لفظ ’’بربریت‘‘ سنتا یا پڑھتا ہوں، تو مجھے گہرا ملال ہوتا ہے اور میرا ذہن اُن بربر قبائل کی طرف جاتا ہے جو بڑے بہادر اَور جنگجو تھے اور یورپ کی سرزمین پر مسلم ہسپانیہ کی سلطنت کے معمار تھے۔ میرے اندر جستجو پیدا ہوئی کہ اِس لفظ کے ماخذ اور تاریخی پس منظر کا سراغ لگایا جائے۔ میں نے پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری سے رابطہ قائم کیا جو عربی ادب کے علاوہ یورپ کی مختلف زبانوں کے مزاج کا گہرا علم رکھتے ہیں۔ جناب سجاد میر سے بھی گفتگو کی جو اُردو اَور انگریزی ادب کے شناور ہیں۔ حیرت انگیز معلومات کا ایک دبستاں کھل گیا۔ میرے پوتے ایقان قریشی نے بھی لسانیات کے بعض نکات واضح کیے۔

دراصل یونانی زبان میں ‘وحشی’ کا لفظ اُن تمام غیرملکیوں کے لیے استعمال ہوتا رہا جو غیرعیسائی تھے۔ بعدازاں اِس زمرے میں وہ جرمن قبائل بھی شامل کر لیے گئے جو روم اَور یونان کو باربار تاراج کرتے رہے تھے۔ آگے چل کر بربر قبائل بھی ہدف بنے جو یورپ کی ایک وسیع و عریض مسلم سلطنت کے محافظ تھے۔ عیسائیوں کی یہ کوشش رہی کہ مسلمان یورپ میں داخل نہ ہونے پائیں ، مگر 91 ہجری کے لگ بھگ ایک طرف محمد بن قاسم قزاقوں کی سرکوبی کے لیے ہندوستان بھیجے گئے اور دُوسری طرف طارق بن زیاد نے بحرِقلزم کا رخ کیا۔ اِس مہم سے کوئی پچاس برس پہلے ’’مغرب‘ ‘یعنی تیونس، الجزائر اور مراکش مسلم سلطنت میں شامل ہو چکے تھے۔ خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ کے زمانے میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے مصر فتح کیا اور وَہاں کے گورنر مقرر ہوئے۔ اُنہوں نے اپنے خالہ زاد بھائی عقبیٰ بن نا فع کو دس ہزار فوج دے کر افریقہ میں ’’مغرب‘‘ کی طرف بھیجا۔

اُنہوں نے بحرِاوقیانوس تک سارے ممالک فتح کر لیے جہاں بربر قبائل آباد تھے۔ اُنہوں نے تیونس میں قیروان شہر آباد کیا جہاں ایک مدت سے جامعہ الازہر کے معیار کی جامعۃ الزیتون مرجع خلائق بنی ہوئی ہے۔ طارق بن زیاد اَپنے لشکر کے ساتھ مراکش کے شمال میں اس مقام پر پہنچے جہاں سے ہسپانیہ کی سرزمین صرف نو میل کے فاصلے پر تھی۔ اُن کی فوج میں بربر بہت بڑی تعداد میں تھے۔ یہ میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ مجھے وہ تاریخی مقام دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مَیں لندن میں تھا تو یہ اعلان سنا کہ عرب لیگ کا ایک اہم سربراہ اجلاس مراکش میں ہو رہا ہے۔ جناب الطاف گوہر کی معاونت سے میں رباط پہنچا اور رَات بھر سفر کر کے اُس جگہ پہنچ گیا جہاں عرب لیگ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ فراغت کے بعد منتظمین نے بتایا کہ یہ وہی مقام ہے جہاں سے طارق بن زیاد نے بحرِقلزم عبور کیا تھا اور وَہاں خشکی پر اُتر کر کشتیاں جلا دی تھیں اور فوج سے ایک انتہائی مؤثر خطاب کیا تھا: ’’سمندر ہمارے پیچھے ہے اور دُشمن سامنے۔ اگر تم ذرا صبر اور ہمت سے کام لو، تو تمہاری نسلیں صدیوں تک اِس علاقے پر حکمرانی کریں گی اور اِسلام کی تہذیبی شان و شوکت جلوہ گر ہو گی۔‘‘

پھر ایسا ہی ہوا۔ طارق بن زیاد نے اسپین فتح کر لیا اور مسلمانوں نے ہسپانیہ کو علم و فضل اور علوم و فنون کا گہوارا اُس وقت بنایا جب پورا یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ بربر قبائل حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، تو اُن کی زندگیوں میں زبردست انقلاب آیا۔ امام غزالیؒ کا تعلق بربر قبیلے ہی سے تھا۔ امام غزالیؒ نے انسانی تہذیب میں جو قابلِ رشک اضافہ کیا ہے، اس کا اعتراف مغربی اسکالر بھی کرتے ہیں۔ اِسی طرح ابنِ خلدون بھی بربر تھے جو فلسفہ اور تاریخ کے امام تسلیم کیے جاتے ہیں۔ دنیا کے بہترین جرنیل یوسف بن تاشفین کا تعلق بھی بربر قبیلے سے تھا۔ اندلس کے حکمران جن پر یورپ کے عیسائی چڑھائی کرتے رہتے تھے، وہ یوسف بن تاشفین کو مدد کے لیے پکارتے اور وَہ لشکر کے ساتھ آتے اور عیسائیوں کی خوب خبر لیتے ۔ اُن کی سرفروشی اور مردانگی سے خائف ہو کر عیسائی مصنفین نے وحشی لفظ کا اطلاق بربر قبیلے پر پورے شدومد سے کیا۔ یہ لفظ یونانی سے اطالوی اور اَنگریزی زبانوں میں منتقل ہونے لگا جس کے بعد اُردو زبان میں ’’بربریت‘‘ کا لفظ بھی کثرت سے برتا جانے لگا۔

مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ بربر قبائل جن کی قربانیوں، سخت کوشیوں اور بےپایاں جنوں خیزیوں سے اسلام کی شان و شوکت کا سورج یورپ پر طلوع ہوا اَور جن کے اندر اِسلام کے عظیم الشان مفکر، فلسفی، سائنس دان اور سپہ سالار پیدا ہوئے، ہم ’’بربریت‘‘ کا لفظ استعمال کر کے کہیں اُن کی شان میں گستاخی کا ارتکاب تو نہیں کر رہے۔ ہمارے اربابِ علم و فضل کو اِس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ آیا ہم اِس لفظ کا استعمال فوری طور پر ترک کر سکتے ہیں۔ زبانوں میں الفاظ متروک ہوتے رہتے ہیں۔ ہماری اسلامی حمیت کا اوّلین تقاضا ہے کہ جس لفظ میں اہانت کا ذرہ برابر بھی احتمال پایا جاتا ہو، اسے بول چال اور لغت ہی سے خارج کر دیں، کیونکہ ’’بربریت‘‘ میں بربر کا جزو بہت نمایاں ہے۔ اِس کا استعمال ہمارے دینی شعور کو چرکے لگاتا ہے اور دُشمن کا مقصد پورا کر رہا ہے۔

الطاف حسن قریشی

بشکریہ روزنامہ جنگ

بھارت میں تاریخی معاشی گراوٹ

کوئی ایک سال پہلے پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ طور پر جموں و کشمیر کی وہ قانونی حیثیت ختم کر دی جو آرٹیکل 370 کے تحت ریاست کو حاصل تھی، گو کہ اقوام عالم کی طرف سے بظاہر اس بھارتی ’بلنگ‘ کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا گیا لیکن درون خانہ بیرونی دنیا نے اس بھارتی اقدام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ بھارت کے اندر بھی انصاف پسند اور سیکولر حلقوں نے کشمیریوں سے ہونے والی اس زیادتی پر آواز اٹھائی۔ برطانیہ یقیناً یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہمارا ہی نامکمل ایجنڈا ہے، برطانیہ نے واشگاف الفاظ میں تو بھارت کی مذمت نہیں کی لیکن نامحسوس طریقے سے ایک بڑی معاشی چوٹ بھارت کو ضرور دی ہے مثال کے طور پر 2018ء تک یوکے انڈیا کی تجارت کا مجموعی حجم 10.1 بلین ڈالر تھا جو یکدم 2019ء میں کم ہو کر 8.8 بلین ڈالر ہو گیا۔ اگرچہ پاکستان کے ساتھ بھی یوکے کی تجارت کا حجم 2019ء میں بڑھنے کی بجائے کم ہوا ہے لیکن برطانیہ کے بعض معاشی تھنک ٹینکس اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ بھارت کے مذکورہ غیرجمہوری قدم سے کئی ایک کلیدی برطانوی سرمایہ کاروں نے بھارت کے ساتھ بزنس سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور کچھ اسی طرح کی صورتحال امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک کی بھی ہے بلکہ بھارت کے اندر لاتعداد کھرب پتی کمپنیز نے مزید سرمایہ کاری سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ بھارتی حکومت کے خود جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں ملک کی معیشت میں تشویشناک حد تک مندی دیکھنے میں آئی ہے جو کہ گزشتہ 24 سال میں معیشت کی بدترین سطح ہے۔ بظاہر تو بھارتی حکومت اس مندی کی وجہ کورونا وائرس اور لاک ڈائون کو قرار دے رہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا عدم استحکام بھی اس کی ایک بڑی وجہ بہرحال ضرور ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ بھارتی معیشت کورونا وائرس پھوٹنے سے پہلے ہی مندی کا شکار تھی۔ پچھلے دو سال سے ملک میں بیروزگاری کی شرح 45 برسوں میں سب سے زیادہ تھی اور معاشی نمو کی شرح گر کر 4.7 فیصد تک آ چکی تھی۔ ملک میں پیداوار گر رہی تھی اور بینکوں پر قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ چکا تھا۔ ایک انڈین تھنک ٹینک کے مطابق صرف ایک مہینے کے لاک ڈائون کی وجہ سے بارہ کروڑ دس لاکھ افراد بیروزگار ہوئے۔ بھارت کے ایک ڈیمو کریٹک تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ جب ہماری حکومت کشمیر میں 370 آرٹیکل کو تبدیل کرنے جیسے کاموں میں مصروف ہے دیکھئے کہ بھارت بھر میں معیشت کس طرح گر رہی ہے کہ (1) جیٹ ایئرویز بند ہو چکی ہے (2) ایئر انڈیا کو 7600 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے (3) بھارت سینچرنگم لمیٹڈ (بی ایس این ایل) جو بھارت کی نمبر ون ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی ہے اس کی 54000 ملازمتیں ختم ہو چکیں (4) ہندوستان ایروناٹکس (ایچ اے ایل) کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے رقم نہیں ہے (5) پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کو 15000 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا (6) ملک کی آٹو انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے (7) ملک میں دو ملین سے زیادہ گھر جو تیس بڑے شہروں میں بنائے گئے انہیں خریدنے والا کوئی نہیں (8) ایئرسیل ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی بینک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (9) وائڈو کون انڈسٹری لمیٹڈ جس کی کبھی انکم 291 ملین ڈالر تھی (10) ٹیلی کمیونی کیشن کی ایک بڑی کمپنی ’’ٹاٹا ڈوکومو‘‘ بینک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (11) سیمنٹ، انجینئرنگ کنسٹرکشن، رئیل اسٹیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمپنی بند ہو چکی ہے (12) ’’آئل اینڈ نیچرل گیس کارپوریشن‘‘ جسے بھارتی حکومت نے 1956ء میں قائم کیا تھا اور جس نے ملک بھر میں 11 ہزار کلومیٹر پائپ لائن بچھائی ہے آج تاریخی زوال کا شکار ہے (13) ملک کے 36 بڑے قرضہ لینے والے افراد اور کمپنیز غائب ہو چکی ہیں (14) 2.4 لاکھ کروڑ کے قرضے چند کارپوریٹس کو معاف ہو چکے (15) تمام ملکی بنکس کھربوں کے قرض لے رہے ہیں (16) ملک کا اندرونی قرضہ 500 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے (17) ریلوے برائے فروخت ہے (18) لال قلعے تک کو کرایہ پر دے دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اور بہت سے تاریخی اثاثے (19) بڑی کار کمپنی موروتی کی پروڈکشن نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے کمپنی کی 55 ہزار کروڑ نئی کاریں فیکٹریوں میں کھڑی ہیں ان کا خریدار کوئی نہیں (20) ملک میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس 18 فیصد سے بڑھ کر 28 فیصد ہونے سے کنسٹرکشن انڈسٹری تباہی کا شکار ہے کئی بلڈرز خودکشیاں کر چکے (21) انڈین ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے ادارے آرڈیننس فیکٹری بورڈ کے پاس اپنے ڈیڑھ لاکھ ملازموں کو تنخواہیں دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں (22) 45 سال میں بیروزگاری کی شرح بلند ترین ہے (23) ملک کے تمام بڑے ہوائی اڈے ایڈانی کمپنی کو بیچ دیئے گئے ہیں اور پورے ملک میں ایک معاشی جمود طاری ہے (24) کیفے کافی ڈے ’’سی سی ڈی‘‘ کمپنی جس کے ملک بھر میں 1752 کیفے تھے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اس کے چیئرمین وی جی سدھارتھ نے خودکشی کر لی۔

اوپر ذکر کئے گئے یہ چند حقائق ہیں جنہیں بھارتی میڈیا منظر عام پر نہیں لا رہا بلکہ بھارتی حکومت اور اثر انداز ہونے والے دیگر ریاستی اداروں کے دبائو میں میڈیا اپنے عوام اور دنیا کے سامنے کشمیر میں ہونے والے گزشتہ ایک سال کے لاک ڈائون سے ہونے والا تقریباً 14 ارب سے زیادہ کا وہ نقصان بھی سامنے نہیں لا رہا جو کشمیریوں اور بھارتی حکومت کو اس لئے مسلسل ہو رہا ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے وہ فروٹ جو باغوں میں ہی گل سڑ گئے اور جنہیں اتارنے والا کوئی نہیں، ظاہر ہے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ یہ نقصان بھارتی حکومت کا بھی ہے۔

وجاہت علی خان

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

ہمیں اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کرنا چاہیے؟

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اس سلسلے میں انہوں نے تمام ضروری اقدامات بھی مکمل کر لیے ہیں۔ اسرائیل سے بائیکاٹ کے تمام قوانین منسوخ کر دیے گئے ہیں اور اب اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان باقاعدہ کمرشل فلائٹس کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے۔ اسرائیل ایک سراسر ناجائز ریاست ہے اور مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کر کے بنائی گئی ہے۔ اس ریاست کے قیام کے لیے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ جس کی وجہ سے مسلم دنیا نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کیے اور اسے ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن رفتہ رفتہ بعض مسلم ممالک چھوٹے موٹے ذاتی مفادات یا کسی بڑے ملک جیسے امریکا وغیرہ کی لالچ یا دباؤ میں آکر اسے تسلیم کرتے رہے۔ چند مسلم ممالک نے اسے تسلیم کر لیا ہے جبکہ بہت سے ممالک نے ابھی تک اس ریاست کو تسلیم نہیں کیا، جن میں پاکستان سرفہرست ہے۔

چند دیگر مسلم ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں لیکن ابھی تک ایسا کوئی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کر پائے لیکن ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی وہ یہ کام کرتے جارہے ہیں۔ اسرائیل کی اس ناجائز ریاست کو خالصتاً نظریاتی بنیادوں پر قائم کیا گیا، اس لیے اس سے ہمارے اختلافات بھی نظریاتی ہیں۔ پاکستان بھی ایک نظریاتی ریاست ہے، جس کی نظریاتی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے۔ پاکستان کو اسلام کے نام پر وجود ملا اور اس دین متین کے نام پر یہاں کے باشندوں کو آزادی جیسی دولت نصیب ہوئی۔ اس ملک کی بقا بھی اسلامی نظریات کی حفاظت کرنے میں ہے۔ پاکستان کے دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی نظریہ اسلام کارفرما ہے اور ہم نظریاتی بنیادوں پر دیگر ریاستوں سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ ریاستوں کے انہی تعلقات میں ایک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا معاملہ بھی ہے۔

پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور موجودہ حکومت سے قبل کسی نے اس ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کی گفتگو تو دور کی بات، کسی نے اس بارے میں سوچا بھی نہیں۔ لیکن موجودہ حکومت کے کچھ اراکین نے اس حوالے سے گفتگو کی بلکہ ایک خاتون رکن اسمبلی عاصمہ حدید نے تو برملا اسرائیل کو تسلیم کرنے پر زور دیا اور اسلامی حوالوں کو انتہائی بے دردی سے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ بہرحال اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات خالصتاً نظریاتی بنیادوں پر ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لینے چاہئیں کیوں کہ اس سے ہمیں فائدہ ہو گا۔ ہمیں اسرائیل کی بلاوجہ دشمنی مول نہیں لینی چاہیے ہمارا اس نے کیا بگاڑا ہے، ہماری اس سے کیا دشمنی ہے؟ ہمیں اپنے نفع نقصان کو دیکھتے ہوئے اس ملک سے تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔

اس قسم کے اعتراضات یا دلائل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہمارے مفکرین کی طرف سے سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ ان حضرات کی خدمت میں نہایت مودبانہ گزارش ہے کہ جناب نظریہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ دین، مذہب و ملت بھی کوئی حیثیت رکھتے ہیں، اسلامی اخوت و بھائی چارہ بھی اسلام کے اہم موضوعات ہیں۔ کیا ہم اپنے تھوڑے سے نفع اور نقصان کی خاطر ان سب کو پس پشت ڈال دیں؟ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے سے ہم کتنے معاشی فائدے حاصل کر لیں گے؟ ہمیں کیا ترقی حاصل ہو جائے گی؟ دنیا کے تمام ممالک سے تعلقات میں سے کون سی ایسی چیز رہ گئی ہے جو ہمیں اسرائیل سے ہی ملنی ہے؟ اس کے سوا دنیا کا کوئی دوسرا ملک ہمیں نہیں دے سکتا۔ ہم اپنی ناقص پالیسیوں اور اپنی غلطیوں کی وجہ سے ترقی نہیں کر پا رہے۔ اس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا کوئی قصور نہیں۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر کے ہم کوئی مادی فائدہ تو حاصل نہیں کر سکیں گے کیونکہ ہمارے ماضی کے تجربات اسی پر شاہد ہیں کہ ہم نے امریکا سے تعلقات قائم کیے، اس سے فائدہ ہم کیا حاصل کرتے ہم نے اپنے نقصانات ہی کیے۔ دیگر کئی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں لیکن ہم وہیں کے وہیں ہیں۔ ہم کسی سے کوئی کام نہیں نکلوا سکے۔ اس لیے اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات قائم کر کے ہم اپنے نظریات کا گلہ گھونٹنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اس سے صرف امت مسلمہ کے مفادات کو شدید دھچکا لگے گا اور جو ممالک اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں ان کا حوصلہ بھی پست ہو جائے گا۔ لہٰذا ہمیں اپنے نظریات کی حفاظت کرنی چاہیے اور ان پر قائم و دائم رہتے ہوئے جو تھوڑی بہت تکالیف یا پریشانی آئے تو اس پر صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے۔ ہمیں چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

اگر تمام مسلمان مل جل کر ایک ہی موقف اپناتے اور اسرائیل کے خلاف کمربستہ ہو جاتے تو آج اسرائیل کی جرأت نہ ہوتی کہ وہ مسلم ممالک کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا۔ لیکن مسلم ممالک کی اپنی کمزوریوں نے اسے طاقت دی۔ اب متحدہ عرب امارات نے امت مسلمہ کے مفادات اور اسلامی نظریات کا گلہ گھونٹ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سے وہ کتنا فائدہ حاصل کرتے ہیں اور فلسطینیوں کو کتنا ریلیف دلاتے ہیں؟ غیر مسلموں بالخصوص یہود و نصاریٰ سے کسی بھی طرح کی خیر کی توقع رکھنا تو بالکل فضول ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو آپس کے اتحاد پر زور دینا چاہیے۔ اخوت، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینا چاہیے۔

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے

ضیا الرحمٰن ضیا

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کو کیسے لوٹا ؟

بہت برس گزرے، استاذی رضی عابدی ہمیں چارلس ڈکنز کا ناول ہارڈ ٹائمز پڑھا رہے تھے۔ یہ ناول انیسویں صدی کے انگلستان میں کوئلے کے کان کنوں کی زندگیاں بیان کرتا ہے۔ ناول میں ایک مزدور میاں بیوی کی گھریلو توتکار کا تفصیلی بیان پڑھتے ہوئے ایک طالب علم نے کہا کہ ان دو کو لڑنے جھگڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں؟ عابدی صاحب نے مسکرا کر کہا کہ ’’چھوٹے گھروں کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ سارا وقت ایک دوسرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑے گھروں میں رہنے والے اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں۔‘‘ اس کاٹ دار مشاہدے سے اچانک بچپن کی ایک یاد روشن ہو گئی۔ ہمارے قصبے کے اکثر مرد، نوجوان اور بوڑھے، زیادہ وقت گھر سے باہر گلی کے نکڑ یا کسی دکان کے تھڑے پر بیٹھے نظر آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ گھروں میں اتنی جگہ ہی نہیں تھی کہ غربت سے برآمد ہونے والی تلخی اوجھل ہو سکے۔

انتظار حسین کا افسانہ ’’قیوما کی دکان‘‘ تو اب ہماری اجتماعی یاد داشت کا حصہ بن چکا۔ یہ صرف چھوٹے گھروں کا المیہ نہیں، قوموں پر بھی ایسا وقت آتا ہے جب والٹیئر کو تخیلاتی قصبوں اور زمانوں کے قصے سنانا پڑتے ہیں یا میلان کنڈیرا کو پراگ سے نکل کر پیرس میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ بفضل خدا، ہم ایک آزاد اور جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں دستور اور قانون کی بالادستی قومی شعار ہے۔ صحافی کسی بھی حکمران کی بدعنوانی بے نقاب کرنے میں آزاد ہیں۔ سیاسی کارکن بلاخوف جمہوری مکالمے میں حصہ لیتے ہیں۔ ہمیں افسانوی کرداروں اور فرضی زمینوں سے غرض نہیں۔ ہمیں ٹھوس تاریخی حقائق اور زمینی حقیقتوں کے بارے میں تحریر و تقریر کی مکمل آزادی ہے۔ آئیے دیکھیں کہ 1765ء سے 1858ء تک ایسٹ انڈیا کمپنی نے کس طرح ہندوستان کا معاشی استحصال کیا اور پھر اگلے نوے برس میں تاج برطانیہ نے اس لوٹ مار میں کیا اختراعات پیدا کیں۔

حالیہ برسوں میں برطانوی تاریخ دان لکھتے ہیں کہ برطانیہ نے ہندوستان کی حفاظت اور ترقی کا فرض محض انسانی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کیا۔ مغربی دانشوروں پر جانبداری اور یک طرفہ دلائل کا جو اعتراض کیا جاتا ہے، ششی تھرور پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان مصنفین نے اپنا مقدمہ جیتنے کے لئے حقائق کا من مانا انتخاب کیا ہے۔ تاہم 2018 میں ممتاز ماہر معاشیات اوشا پٹنائیک نے کولمبیا یونیورسٹی سے ایک زبردست تحقیق شائع کی جس میں 1765 سے 1938 تک ٹیکس اور تجارت کے تفصیلی اعداد و شمار کی مدد سے ثابت کیا کہ برطانیہ نے 173 برس کے عرصے میں ہندوستان سے 45 کھرب ڈالر کی لوٹ مار کی۔ یہ رقم برطانیہ کی موجودہ کل داخلی پیداوار سے بھی 17 گنا زیادہ ہے۔ اوشا پٹنائیک نے سیاسی اور سماجی زاویوں کی بجائے خالص معاشی تجزیے کی مدد سے اس وسیع پیمانے پر استحصال کے قانونی اور تجارتی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا۔

اٹھارہویں صدی کے پہلے نصف میں برطانوی تاجر ہندوستانی باشندوں سے چاندی کے سکوں کے عوض کپاس اور چاول خریدتے تھے۔ 1757ء میں جنگ پلاسی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان سے مالیہ اور محصولات کے نظام کی مدد سے تجارت پر اجارہ داری قائم کر لی۔ طریقہ کار یہ تھا کہ ہندوستانیوں سے وصول کردہ محصولات کا قریب ایک تہائی ہندوستانی مصنوعات کی خریداری پر صرف کیا جاتا تھا۔ گویا ہندوستانی محصولات کی صورت میں جو رقم ادا کرتے تھے، اسی کے ایک تہائی کے بدلے اپنی مصنوعات بیچنے پر مجبور تھے۔ 1858 میں تاج برطانیہ نے ہندوستان پر عمل داری قائم کر کے ایک نیا ہتھکنڈہ متعارف کروایا۔ ہندوستانیوں کو اپنی مصنوعات غیر برطانوی تاجروں کو بیچنے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم اس خریداری کے لئے لندن میں خصوصی کرنسی نوٹ جاری کئے جاتے تھے جنہیں غیر برطانوی تاجر سونے اور چاندی کے عوض خریدتے تھے۔

ہندوستانی تاجر یہ کرنسی نوٹ برطانوی حکومت کو واپس بیچتے تو انہیں ہندوستانی روپوں میں قیمت ادا کی جاتی۔ یہ روپے ہندوستانی باشندوں کے ادا کردہ محصولات ہی ہوتے تھے۔ اس طرح ہندوستان کی پوری پیداوار سونے اور چاندی کی شکل میں لندن سرکار کے پاس پہنچ جاتی تھی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں ہندوستان زبردست تجارتی منافع کے باوجود کاغذ پر خسارے میں چل رہا تھا کیونکہ اصل منافع کی رسد تو لندن کے لئے بندھی تھی۔ الٹا یہ کہ اس مصنوعی خسارے کے باعث ہندوستان کو برطانیہ سے قرض لینا پڑتا تھا۔ اس لوٹ مار سے برطانیہ نے چین اور دوسرے ممالک میں جنگیں لڑیں جن کے اخراجات بھی ہندوستانی محصولات سے ادا کئے جاتے تھے۔ ہندوستان سے لوٹی اسی دولت سے کینیڈا اور آسٹریلیا کی یورپی نوآبادیوں میں سرمایہ کاری کی گئی۔ برطانیہ بہادر نے محتاط اندازے کے مطابق پونے دو سو برس میں ہندوستان سے 44.6 کھرب ڈالر کی لوٹ مار کی۔ اس دوران میں ہندوستانیوں کی فی کس آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ 1920 تک ہندوستانیوں کی متوقع عمر میں 20 فیصد کمی واقع ہو چکی تھی کیونکہ سامراجی پالیسیوں سے بار بار قحط پیدا ہوتا تھا۔ خدا نہ کرے کہ کوئی قوم قبضہ گیری اور اجارے کا شکار ہو۔

وجاہت مسعود

بشکریہ روزنامہ جنگ