مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں

مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ برصغیر اور بالخصوص تاریخِ اسلامی تحاریک ان کے بغیر نامکمل ہے کیونکہ برِصغیر میں تحریکِ احیائے دین کی اولین داعی کی حیثیت مولانا ابولکلام آزاد کو حاصل ہے۔ ویسے تو مولانا ابوالکلام آزاد کی ہمہ گیر شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے تاہم ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ وہ ایک طرف اگر مجاہد آزادی تھے تو دوسری طرف ایک عالم دین بھی تھے۔ انہیں قرآن ، فقہ ، علم الکلام ، علم الحدیث پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی تو دوسری جانب وہ ایک زبردست صحافی ، مجتہد ، فلسفی اور جنگ آزادی کے عظیم قومی رہنما بھی تھے۔ پچھلی صدی کے اوائل میں مولانا آزاد نے الہلال اور البلاغ کے ذریعے حکومتِ الٰہیہ کے قیام اور اُس کیلئے ایک حزب اللہ کی تاسیس کی پرزور دعوت پیش کی۔

اُن کے مخصوص طرزِ نگاری اور پرجوش طرزِ خطابت نے تحریکِ خلافت کے دوران اُن کی شہرت کو برِصغیر ہی نہیں بلکہ برِعظیم کے طول و عرض میں پھیلایا تاہم بدقسمتی سے آواخر میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اس عظیم مشن کو جاری رکھنے کے بجائے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور مرتے دم تک اُن کے سرگرم رکن ہی نہیں بلکہ اپنی خدمات ہندوستان کیلئے وقف کر دیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستانی عوام بھی آج تک انہیں قوم کے بانیوں میں سے ایک مانتی ہے۔ مولانا ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بھی رہے۔ عالم اسلام خصوصاً ہندوستان کی یہ روشن ترین شمع 22 فروری 1958ء کو گل ہو گئی اور دہلی کے پریڈ گراؤنڈ میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان انہیں سپرد لحد کیا گیا۔

بشکریہ روزنامہ جسارت

آذربائیجان میں جشن کے موقعے پر پاکستانی پرچم

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان چھ ہفتے کی جھڑپوں کے بعد امن معاہدہ طے پایا جس کی رو سے آذربائیجان کو نگورونو کاراباغ کے متنازع علاقے پر کنٹرول مل گیا۔ اس پر آذربائیجان میں بڑے پیمانے پر جشن منایا گیا۔ آذری عوام نے جشن مناتے وقت پاکستان کو بھی یاد رکھا ہے اور آذری دارالحکومت باکو کی گلیوں میں پاکستانی پرچم بھی لہراتے نظر آ رہے ہیں۔ آذربائیجان کے لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے سفارتی محاذ پر ان کی مدد کی ہے اس لیے وہ پاکستان کو تکریم دے رہے ہیں۔ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو قرہ باغ پر تنازعے کی وجہ سے پاکستان نے ابھی تک آرمینیا کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ آذر بائیجان بھی کشمیر کے تنازعے پر پاکستان کے موقف کا حامی ہے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو