کیا عدلیہ آزاد ہے؟

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی شہرت ایک آزاد اور نڈر جج کی ہے۔ کسی بھی جج کے کسی فیصلے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں ایک تاثر بہت مضبوط ہے کہ اُن کو کسی فیصلے کے لئے ڈرایا دھمکایا نہیں جا سکتا، نہ ہی وہ کسی سے بلیک میل ہونے والی شخصیت ہیں اور اسی بنا پر اُنہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کی اُنہیں کوئی پروا نہیں۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ نے میڈیا کی آزادی کی بات کرتے ہوئے وہاں موجود صحافیوں سے سوال کیا کہ جو اخبار نویس یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے، وہ ہاتھ کھڑا کریں جس پر وہاں موجود کسی ایک صحافی نے بھی ہاتھ کھڑا نہیں کیا۔ پھر جسٹس فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ جو صحافی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں، وہ ہاتھ کھڑا کریں جس پر تمام صحافیوں نے ہاتھ اُٹھا کر اُن کی بات کی تصدیق کر دی۔

گویا عدالتِ عظمیٰ میں میڈیا کی آزادی پر ہونے والے ریفرنڈم میں سو فیصد ووٹ سے اِس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں۔ میں نے جب یہ خبر سنی تو سوچا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو ایک اور ریفرنڈم بھی کروانا چاہئے تھا جس کا اگرچہ تعلق ججوں اور وکلا سے ہے لیکن بےشک اُس کے لئے بھی وہاں موجود صحافیوں سے ہی سوال کر لیتے۔ میڈیا کی آزادی کے متعلق سوال سے بھی اہم سوال یہ پوچھا جانا چاہئے تھا کہ کیا پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے؟ کیا پاکستان کی عدلیہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے یا نہیں؟ اگر یہ سوال وہاں موجود صحافیوں سے کیا جا تا تو یقیناً اِس سوال کا جواب بھی منفی میں ہی ملتا۔ ایسا نہیں کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں آزاد منش اور نڈر جج نہیں آئے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ عمومی طور پر پاکستان کی عدلیہ کا کردار بہت منفی رہا۔

آزاد عدلیہ کا خواب خواب ہی رہا اور بار بار عدلیہ نے نہ صرف آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر طاقتور طبقوں کے آگے سر جھکائے رکھا اور اُنہی کی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلے کیے بلکہ یہاں تک کہ آئین و قانون کی دھجیاں اُڑا کر مارشل لاء لگانے والوں کی غداری تک کو تحفظ فراہم کیا اورعوام کو جلد انصاف دینے میں بھی ناکام رہی۔ میری ذاتی رائے میں سب سے اہم سوال عدلیہ کی آزادی کا ہے کیوں کہ اگر عدلیہ آزاد ہو گی تو میڈیا آزاد بھی ہو گا اور ذمہ دار بھی اور تمام اداروں کو آئین و قانون کے مطابق اپنی اپنی حدود میں رکھنا ممکن ہو گا۔ اگر عدلیہ آزاد ہو گی تو اسٹیبلشمنٹ اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر سیاست میں مداخلت نہیں کر سکیں گی، نہ ہی حکومت اور حکمران ملک میں اقربا پروری، رشوت، سفارش، کرپشن کر سکیں گے۔

اگر عدلیہ آزاد ہو تو نہ ہمیں گمشدہ افراد کا مسئلہ درپیش ہو گا اور نہ ہی صحافیوں سمیت اختلاف کرنے والوں کو اٹھانے اور اُن پر تشدد کرنے والے ہی گمنام رہیںگے ۔ اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو احتساب کے نام پر جو نیب کر رہا ہے اور جس کے بارے میں بار بار اعلیٰ عدلیہ نے خود بہت سخت فیصلے دیے اور اعتراضات اُٹھائے، وہ تماشا اب بھی جاری و ساری نہ ہوتا۔ عدلیہ آزاد ہوتی تو بہتر طرزِ حکمرانی کے لئے کیے گئے اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرواتی اور بیوروکریسی غیرسیاسی ہوتی، اس میں تعیناتیاں میرٹ کے مطابق ہوتیں اور سیاستدانوں یا بیرونی مداخلت سے روز روز سرکاری افسروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ نہ پھینکا جاتا۔ اگر عدلیہ آزاد ہو گی تب ہی آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ پاکستان میں نہ آئین کی پاسداری کی جاتی ہے اور نہ یہاں قانون کی حکمرانی موجود ہے۔

پاکستان میں تو انصاف کی فراہمی سب سے بڑا خواب ہے۔ یہاں تو لوگ انصاف کے لئے عدالتوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ ایک طرف اسٹے آرڈرز اور دوسری طرف مہنگے وکیل۔ یہ صورتحال ظالم، پیسے والے اور طاقت ور کے لئے تو بہت بہتر ہے لیکن مظلوم پر مزید ظلم ہے۔ چھوٹے چھوٹے مقدمات میں برسوں بلکہ دہائیوں میں فیصلے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے عام آدمی عدالت جانے سے ڈرتا ہے۔ سپریم کورٹ کے آزاد منش ججوں کو جب ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو اُنہیں انصاف ملنے میں مشکل پیش آتی ہے تو ایک عام پاکستانی کو کون انصاف دے گا؟ سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ جب سپریم کورٹ میں تھے تو اُن کے خلاف اسلام آباد میں بینرز لگا دیے گئے کیوں کہ وہ بھی جسٹس فائز عیسیٰ کی طرح آزاد اور نڈر تھے۔ اس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا لیکن کچھ نہیں ہوا اور کسی ذمہ دار کو پکڑ کر سزا نہیں دی جا سکی حالانکہ بہت سے ثبوت سامنے موجود تھے لیکن اُنہیں دیکھنے سے سب قاصر تھے۔ ان حالات میں عام پاکستانی کے ساتھ کیا انصاف ہوتا ہو گا؟ اُس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

’’یوتھیے‘‘ اور ’’پٹواری‘‘

گزشتہ روز قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیراعظم عمران خان جب قوم کے کردار اور اخلاقیات کو بہتر بنانے پر زور دے رہے تھے اور یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ دنیا بھر میں ترقی پانے والی قوموں میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ اُن کا کردار اور اخلاق بہت اچھا ہوتا ہے، اُس سے تھوڑی دیر قبل ٹی وی چینلز کے ذریعے پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر بداخلاقی، بدتمیزی اور بدتہذیبی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ ن لیگ کے رہنما جب پارلیمان کی عمارت کے باہر پریس کانفرنس کر رہے تھے تو پی ٹی آئی کارکنوں کے ایک جھتے نے اُنہیں آ گھیرا، نعرے لگائے، غلیظ گالیاں دیں جس کے نتیجے میں وہاں نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ (ن) لیگ کے مرد رہنماؤں کے ساتھ ساتھ وہاں پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب کے ساتھ بھی بدتمیزی کی گئی۔

گویا جو کچھ خان صاحب پارلیمنٹ کے اندر کہہ رہے تھے اُس سے یکسر برعکس اُنہی کے پارٹی کارکن ایک ایسا عمل کر رہے تھے جس کا کوئی دفاع نہیں کیا جا سکتا لیکن افسوس کہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنما اس بدتمیزی اور بد تہذیبی کا دفاع ہی کرتے دکھائی دیے۔ حتیٰ کہ ڈاکٹر شیریں مزاری بھی سوشل میڈیا پر، جو کچھ مریم اورنگزیب کے ساتھ ہوا اُس کی مذمت کرنے سے کتراتی ہوئی نظر آئیں۔ وزیر انسانی حقوق نے البتہ، جو بدتمیزی اُن کے کارکنوں نے کی، اُس کا دفاع کرتے ہوئے لاہور سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ایک رہنما اور ایم این اے کی وڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کر دی اور سوال اُٹھایا کہ ٹی وی چینل اُس کو کیوں نہیں دیکھا رہے؟ یقیناً جو گالیاں ن لیگی رہنما بک رہے تھے وہ قابلِ مذمت اور انتہائی غلیظ تھیں لیکن ایک غلط عمل کا جواب دوسرا غلط عمل کیسے ہو سکتا ہے؟ دوسری طرف ن لیگی رہنماؤں اور اُن کے سپورٹرز نے، جو بدتمیزی پی ٹی آئی کارکنوں نے کی، اُس کی تو خوب مذمت کی لیکن اُن کی طرف سے مسلم لیگ کے رہنما کی گالم گلوچ کی وڈیو پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ مریم نواز صاحبہ نے بھی ایسا ہی کیا۔

بعد میں دونوں جماعتوں کے سوشل میڈیا فالورز نے جو طوفانِ بدتمیزی ایک دوسرے کے خلاف ٹوئٹر پر شروع کیا اُس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ ٹوئٹر پر’’یوتھیوں‘‘ اور ’’پٹواریوں‘‘ کے درمیاں گالم گلوچ اور غلاظت کا ایسا مقابلہ ہوا کہ ایک دوسرے کے رہنماؤں کو دی جانے والی گالیاں ٹوئٹر پر سب سے بڑے ٹرینڈ بن گئے۔ اس گندگی اور غلاظت کا مقابلہ تو نجانے ان دونوں میں سے کون جیتا لیکن اس سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ ان سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماوں نے ایک ایسی نسل یہاں پیدا کر دی ہے جو اختلافِ رائے کا منطق اور دلیل کی بجائے گالیوں، بدتمیزی اور بدتہذیبی سے جواب دیتی ہے۔ اس رجحان کی شروعات میں یقیناً عمران خان اور ان کی پارٹی کا اہم کردار رہا لیکن افسوس کہ اب ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم بھی اس بدتہذیبی میں آگے آگے ہے۔

ہمارے رہنما اپنی تقریروں میں اخلاقیات کا درس تو دیتے دکھائی دیتے ہیں لیکن عمل اُس کے بالکل برعکس کرتے ہیں جس کی وجہ سے سیاست میں گندگی اور غلاظت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، چاہے وہ گالیوں اور ہاتھا پائی کی بات ہو یا ایک دوسرے کے ارکین کی خریدو فروخت جس میں پیپلز پارٹی سب سے آگے آگے رہتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی سب سے زیادہ ووٹ خریدتی ہے تو بکنے والے سب سے زیادہ تحریک انصاف میں پائے جاتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے اعمال کو نہیں سدھاریں گے لیکن ایک دوسرے کو بُرا ضرور کہیں گے۔ ن لیگ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس خرید و فروخت میں شامل نہ تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مبینہ طور پر خریداری کرنے والوں کو نواز لیگ کی مکمل سپورٹ حاصل رہی اور سینیٹ الیکشن میں یوسفٖ رضا گیلانی کی جیت کی پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے مل کر خوشی منائی جبکہ سب کو معلوم تھا کہ حکومتی ووٹ خریدے گئے۔

عمران خان اس ہار پر اپنے پندرہ سولہ ارکانِ اسمبلی کے بکنے پر بہت سیخ پا تھے اور اُنہوں نے کہا کہ اُن ممبران نے اپنے ضمیر بیچے لیکن تین دن کے بعد اُنہی ضمیر فروشوں کو اس لئے معاف کر دیا کیونکہ اُن کے ووٹوں کے بغیر خان صاحب دو دن قبل قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ کردار اور اخلاقیات کا ہمارے معاشرے میں جنازہ نکل چکا، جو ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ اس میں سیاستدانوں کا کتنا بڑا کردار ہے وہ خود سوچیں لیکن ایک بات اٹل ہے کہ بحیثیت قوم ہم نے اگر زندہ رہنا ہے اور ترقی کرنی ہے تو معاشرے کے کردار اور اخلاقیات پر جنگی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا جس پر ریاست، حکومت، سیاست، پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا کسی کی کوئی توجہ نہیں۔ افسوس!

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

ارنب ، پلواما اور جرمن ڈراما

ٹی وی چینلز کی جعلی ریٹنگز کیس کے سلسلے میں ممبئی پولیس کی جانب سے مودی نواز ریپبلک ٹی وی چینل کے معروف اینکر ارنب گوسوامی اور براڈ کاسٹ آڈئینس ریسرچ کونسل (بارک) کے سربراہ پراتھو گپتا کے مابین وٹس ایپ پیغامات کے دستاویزی ریکارڈ نے دلی سے اسلام آباد تک بھونچال برپا کر دیا ہے۔ تین ہزار صفحات سے زائد اس ریکارڈ میں پاکستانیوں کے کام کے ٹویٹس وہ ہیں جن سے انکشاف ہوتا ہے کہ ارنب کو چھبیس فروری دو ہزار کو بھارتی فضائیہ کی جانب سے بالا کوٹ پر حملے کے بارے میں کم ازکم تین روز پہلے تئیس فروری کو ہی معلوم ہو چکا تھا اور اس کا سبب کشمیر میں ہونے والی ’’ ایک بڑی چیز ’’ ( پلوامہ بم دھماکا ) بتایا گیا تھا۔ ارنب کے ٹویٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ پلواما حملہ ایک ’’ نعمتِ غیر مترقبہ ’’ تھا جس کے سہارے ایک بڑی جوابی کارروائی ( بالاکوٹ حملہ ) کر کے مودی حکومت کی لوک سبھا کے انتخابات میں شاندار کامیابی شک و شبہے سے بالا بلکہ دوبالا ہو گئی۔

پاکستانی دفترِ خارجہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پلواما حملہ دراصل بھارت نے خود اسٹیج کیا اور ایکٹ دو میں بالاکوٹ کا واقعہ ہوا۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس مودی حکومت علاقائی اور عالمی امن کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے۔ عالمی طاقتیں اب تک اس سنجیدہ خطرے کو غیر سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ بقول دفترِ خارجہ آر ایس ایس یافتہ مودی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر پلواما حملہ ڈرامہ سازی ثابت ہو جاتی ہے تو پھر یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہو گا۔ بیس برس پہلے صدر بل کلنٹن کے بھارت کے دورے کے موقع پر پاکستان کی کشمیر میں جاری ’’دہشت گردی ‘‘کے ایک بین ثبوت کے طور پر بیس مارچ دو ہزار کو ضلع اننت ناگ کے گاؤں چھتی سنگھ پورہ میں پینتیس کشمیری سکھوں کے قتلِ عام کی واردات بھی ہو چکی ہے۔

بھارت نے اس واردات کا ذمے دار لشکرِ طیبہ کو قرار دیا۔ مگر آج تک کسی بھی جانب سے اس بہیمانہ واردات کی ذمے داری قبول نہیں کی گئی۔ خود کشمیری سکھ قیادت کو روزِ اول سے یقین ہے کہ یہ کام بھارتی انٹیلی جینس ایجنٹوں نے کیا کیونکہ پاکستان نواز مسلح تنظیموں کو کشمیری سکھوں کے خلاف دہشت گردی سے کوئی سیاسی یا اسٹرٹیجک فائدہ نہیں تھا۔ مقامی سکھوں کے اس یقین پر اس لیے بھی یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ کلنٹن انتظامیہ کی وزیرِ خارجہ میڈلین البرائٹ نے اپنی یاداشتوں پر مبنی دو ہزار چھ میں شایع ہونے والی کتاب ’’ دی مائٹی اینڈ دی آلمائٹی، ریفلیکشن آن امریکا ، گاڈ اینڈ ورلڈ افئیرز‘‘ میں ہندو انتہا پسندوں کو کشمیری سکھوں کے قتلِ عام کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ ( بعد ازاں بے پناہ دباؤ پڑنے کے بعد کتاب کے ناشر ہارپر کولنز نے وضاحت کی کہ مسودے میں غلطیو ں کی ناقص چھان بین سے یہ مسئلہ پیدا ہوا۔ البتہ میڈلین آلبرائٹ نے کبھی بھی اعتراف نہیں کیا کہ ان سے سکھ قتلِ عام کے بیان میں کوئی غلطی ہوئی ہے)۔

چونکہ ان دنوں بھارت میں انتہاپسندی کی سرخیل آر ایس ایس اور اس کا تفریقی قوم پرستانہ نظریہ غالب ہے اور سب جانتے ہیں کہ اس نظریے کے ڈانڈے آر ایس ایس کے بانی رہنماؤں نے فاشسٹ مسولینی اور نازی نسل پرستانہ نظریے سے مستعار لیے۔ مگر ارنب کی ٹویٹس سے لگتا ہے کہ آر ایس ایس نے صرف نظریہ نازیوں سے مستعار نہیں لیا بلکہ نازیوں کے توسیع پسندانہ ہتھکنڈوں کی بھی نقالی ہو رہی ہے۔ ذرا پلواما کی واردات اور بالاکوٹ پر حملہ ذہن میں رکھئے اور اکیاسی برس پہلے کی ایک حقیقی کہانی سنئے۔ دوسری عالمی جنگ سے ذرا پہلے نازی جرمنی میں ہٹلر کے دست راست اور گسٹاپو کے سربراہ ہیملر نے چیکوسلواکیہ کے جرمن اکثریتی علاقے سوڈیٹنز لینڈ کو ہڑپ کرنے کے لیے وہاں کے کچھ جرمن نژاد باشندوں کو سادہ کپڑوں میں ملبوس گسٹاپو ایجنٹوں سے قتل کرایا۔ املاک کو آگ لگوائی اور پھر ہٹلر نے یہ کہہ کر کہ چیکو سلواکیہ کی سرکار اپنے جرمن نژاد شہریوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے، نازی فوجیں سوڈیٹنز لینڈ میں اتار کر اس علاقے کو ہڑپ کر لیا۔

اس کے بعد جرمنی نے اپنے دوسرے ہمسائے پولینڈ سے جرمن شہر ڈانزگ تک رسائی کے لیے زمینی کاریڈور کا مطالبہ کیا۔ پولینڈ نے چیکوسلواکیہ کا حشر دیکھتے ہوئے برطانیہ اور فرانس سے اسٹرٹیجک تعاون کا معاہدہ کر لیا۔ اس کے تحت کسی ایک ملک پر حملہ تینوں ممالک پر حملہ تصور ہو گا۔ ہٹلر کو اب پولینڈ ہڑپ کرنے کے لیے ایک ٹھوس جواز کی ضرورت تھی اور یہ جواز ایسے تخلیق کیا گیا کہ پولش سرحد سے متصل جرمن قصبے گلیوٹز کے ریڈیو اسٹیشن پر گٹساپو کے پولش بولنے والے ایجنٹوں کا قبضہ کروا کے نازی مخالف پروپیگنڈہ شروع کروایا گیا۔ اس کے بعد آشوٹز کے کنسنٹریشن کیمپ سے درجن بھر ہٹلر مخالف قیدیوں کو گلیوٹز لایا گیا۔ انھیں پولش فوج کی وردیاں پہنائی گئیں اور پھر انھیں گولی مار کر ہلاک کر کے ان کی لاشیں قصبے کے قریب ڈال دی گئیں۔ ان کی جیبوں میں جعلی پولش فوجی شناختی کارڈ بھی رکھے گئے اور وہ بندوقیں بھی رکھ دی گئیں جو پولش فوج استعمال کرتی ہے۔

یہ واقعہ تیس اگست انیس سو انتالیس کو ہوا۔ گزشتہ روز ہٹلر نے رائشتاغ ( جرمن پارلیمنٹ ) میں جرمن سرزمین کے خلاف ’’ ننگی پولش جارحیت‘‘ کی شدید مذمت کرتے ہوئے جرمن فادر لینڈ کے چپے چپے کی خون کے آخری قطرے تک حفاظت کا عہد کیا اور اگلے چوبیس گھنٹے میں کئی ڈویژن جرمن فوج نے پولینڈ کی سرحد عبور کر لی۔ اس حملے کے دو دن بعد تین ستمبر کو برطانیہ اور فرانس نے پولینڈ کے ساتھ کیے گئے اسٹرٹیجک معاہدے کی پاسداری میں نازی جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ یوں دوسری عالمی جنگ باقاعدہ چھڑ گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ گلیوٹز میں پولش فوجی حملے کے گسٹاپو کے ترتیب کردہ ڈرامے سے آٹھ روز پہلے ہٹلر نے جرمن فوجی ہائی کمان کے بند کمرے کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آنے والے وقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’میں آپ کو ایک ٹھوس جواز فراہم کروں گا۔ آپ کا کام صرف عظیم جرمن قوم کی فتح کو یقینی بنانا ہے۔ فاتح سے کوئی مورخ نہیں پوچھتا کہ اس نے کیا جھوٹ بولا تھا اور کتنا سچ بولا ‘‘۔ اب آپ اس کہانی کی روشنی میں ایک بار پھر پلواما کے دھماکے میں اکتالیس بھارتی نیم فوجی جوانوں کی ہلاکت، اس کے ردِعمل میں بالاکوٹ پر کارروائی، اس کارروائی سے تین دن پہلے کیے جانے والے ارنب گوسوامی کے ٹویٹس اور لوک سبھا کے عام انتخابات کی بی جے پی حکمتِ عملی کو جوڑ کے تصویر بنانے کی کوشش کیجیے۔ آپ کو اس تصویر میں اکاسی برس پہلے کے اصلی جرمن ڈرامے کا چربہ پن شاید نظر آ جائے۔ اور پھر سوچئے گا کہ آر ایس ایس اور کیا کیا نہیں کر سکتی۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز