مودی کے پاس کوئی آپشن نہیں

سترہ اٹھارہ برس پرانی بات ہے، میں ایک کانفرنس میں داخل ہو رہا تھا اور بھارتی وزیر اطلاعات سشما سوراج نکل رہی تھیں۔ راہداری میں ہونے والی ملاقات میں بھارتی وزیر نے ہاتھ ملایا تو میں نے پوچھا کہ سشما جی! کشمیر آزاد ہو جائے گا ؟ میرے اس سوال پر سشما سوراج بولیں…’’ان شاء اللہ‘‘ بی جے پی کی کٹر ہندو وزیر کے منہ سے ان شاء اللہ کا لفظ سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس شام سشما سوراج نے زعفرانی رنگ کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ کشمیر کی آزادی میرے لئے وہ خواب ہے جس کی تعبیر ہونے والی ہے چونکہ قائد اعظمؒ نے وادی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اس لئے میرا یقین ہے کہ یہ شہ رگ پاکستان کا حصہ بننے والی ہے، پاکستان کے قیام، وجود اور عظمت کے تمام ادوار میں خوابوں کا بڑا کردار ہے۔ وطن کا خواب اس اقبالؒ نے دیکھا تھا جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو جگایا۔

کچھ خوابوں کی تعبیر ابھی باقی ہے، کچھ اشارے صوفی برکت علیؒ جیسے لوگ اپنی زندگیوں میں کر چکے ہیں، عاشقانِ رسولؐ میں سے بڑی تعداد اسی خطے سے ہے، نبیوں کے سردارؐ کو ٹھنڈی ہوائیں اسی خطے سے آتی تھیں، پاکستان کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو ہے، پاکستان کی آبیاری بھی شہیدوں کے لہو سے ہو رہی ہے۔ ایک ترانہ تھا، ایک خواب تھا جس میں پاکستانی پائلٹ حسن صدیقی دشمن کے طیاروں کو مار گراتا ہے، پھر یہ خواب سچ ہوا، صرف تین برس کے بعد۔ تامل فلم کی کہانی بھی ابھی نندن نے پوری کی۔ راستے بنتے جارہے ہیں کشمیر اسی سال آزاد ہو جائے گا، جب سال کے آغاز میں لکھا تو کچھ لوگوں نے تبصرہ کیا، پتہ نہیں ایسے ہی لکھ دیا ہے، پھر پلوامہ دنیا کی زبان پر آگیا، پوری دنیا پلوامہ سے آگاہ ہو گئی، ہر طرف کشمیر کا ذکر ہونے لگا، اس دوران بھارت کو منہ کی کھانا پڑی، وزیر خارجہ سشما سوراج او آئی سی میں مہمان بن کر گئی تھیں مگر کشمیر نے پیچھا نہ چھوڑا۔ بھارتی طیاروں کو ان پاکستانی طیاروں نے مار گرایا جو کسی سے خریدے نہیں بلکہ پاکستان نے خود تیار کئے ہیں، جنوبی ایشیا میں دو اور ممالک پاکستان سے یہ طیارے خرید چکے ہیں۔

پاکستان نے فضا میں برتری ثابت کی، زمین پر بھی دشمن کو مات دی، راجوڑی پر بھارتی رو رہے ہیں، ہم نے بھارتی آرمی چیف کو لاک کر کے دکھا دیا جس کے باعث وہ مودی کی میٹنگ میں تاخیر سے پہنچے۔ بہت کچھ ہو سکتا تھا مگر پاکستان امن کا پیامبر ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے امن کا پیغام دیا، عمران خان نے تو نوبیل انعام کا رخ بھی کشمیر کی طرف موڑ دیا ہے۔ جنرل آصف غفور نے سچ کہا اور پاکستانی میڈیا نے دنیا بھر سے شاباش سمیٹی جبکہ بھارتی میڈیا ’’اپنے جھوٹ کے ہاتھوں رسوا ہوا‘‘۔ بھارتی فوجی ترجمان انجان ثابت ہوئے، بھارتی وزیر اعظم شیطانی میں چالان کروا بیٹھے۔ اب پورا ہندوستان مودی کی کلاس لے رہا ہے، اپوزیشن جماعتیں پیچھے پڑ گئی ہیں، مودی کا خواب تھا الیکشن جیتنا، وہ چکنا چور ہو گیا ہے، مودی کے پاس عوام (جنتا) کو بتانے کے لئے کچھ نہیں، وہ اپنے آخری پتے پر بھی پٹ گیا ہے، اب ساری دنیا سفارتی محاذ پر ہندوستان کے خلاف ہے، دنیا بھر کا میڈیا ہندوستانی میڈیا کو جھوٹا قرار دے رہا ہے، خود کئی ہندوستانی ا ینکروں کو اپنے دیس کے اندر رسوائی کا سامنا ہے۔

اپنی حماقتوں کے ہاتھوں رسوائی اٹھانے والا مودی ہندوستانی لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ ’’اپنی فوج کو برا نہ کہو، آج رافیل ہوتے تو نتیجہ اور ہوتا….‘‘یہ وہی رافیل ہیں جن کے بارے میں راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ ’’اس کے پیسے تو انیل امبانی کو دے دئیے‘‘. الیکشن میں مودی کو شکست صاف دکھائی دے رہی ہے۔ دراصل نریندر مودی نے جتنے دعوے کئے تھے وہ سب جھوٹ نکلے، جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو لوگوں کو بتاتے تھے کہ ’’میرا سینہ 56 انچ کا ہے‘‘۔ سینے کا ناپ بتانے کے بعد مودی مرکزی حکومت سے پانچ سوال کرتے تھے، اس وقت وزیر اعظم من موہن سنگھ تھا، مودی کی زبان پر ہوتا تھا، بتائیے ’’دہشت گردوں کو گولہ بارود کہاں سے آتا ہے؟ باہر سے کیسے آتا ہے؟ دفاعی فورسز آپ کے ہاتھ میں ہیں، دوسرا سوال یہ کہ دہشت گردوں کے پاس پیسہ کیسے آتا ہے جبکہ منی ٹرانزیکشن کا سارا نظام آپ کے ہاتھ میں ہے۔

تیسرا سوال، بیرونی ملکوں سے گھس بیٹھئے آتے ہیں، کارروائیاں کر کے بھاگ جاتے ہیں، وزیر اعظم صاحب نیوی اور بی ایس ایف آپ کے ہاتھ میں ہے، پھر یہ کیوں بھاگ جاتے ہیں، چوتھا سوال، دہشت گردوں کے آپس میں روابط کیسے ہوتے ہیں، مواصلات کا سارا نظام آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ کیوں فون یا میل نہیں پکڑتے؟ پانچواں سوال، بھارت میں کارروائیاں کر کے بھاگے ہوئے دہشت گردوں کو لانے کے لئے کیوں کچھ نہیں کر رہے ؟ بھائیو! بہنو! میرے ان پانچ سوالوں کے جواب دلی سرکار کے پاس نہیں ہیں۔‘‘ ان پانچ سوالوں کے جواب پانے کے لئے ہندوستانی عوام نے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنا دیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ مودی سچا ہے مگر مودی تو جھوٹا نکلا۔ اب ہندوستان کے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اب تو نہ نہرو ہے، نہ گاندھی اور نہ ہی منموہن ، اب تو وزیر اعظم آپ ہیں، اب بتائیے کہ دہشت گردوں کے پاس اسلحہ، پیسہ کیسے آتا ہے، دہشت گرد کیسے آتے ہیں، تھل سینا، جل سینا، وائی سینا آپ کے پاس ہے۔ اب آپ کے جواب کہاں ہیں، دیش کی جنتا آپ سے پوچھ رہی ہے، کہاں گئی بی ایس ایف، کہاں گئی را؟؟ اس صورتحال میں مودی کے پاس سوائے جھوٹ کے کوئی اور آپشن نہیں، کہ

بقول غالب؎
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

مظہر بر لاس

پاکستان نے تین روزہ جنگ میں بھارت کو شکستِ فاش دے دی

تاریخ لکھے گی کہ پاکستان نے بھارت کو فروری 2019ء میں تین روزہ جنگ میں شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ پلوامہ واقعہ کو بہانہ بنا کر بھارت نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر جارحیت کی اور اپنے چھ سات جنگی طیاروں کے ذریعے لائن آف کنٹرول کو کراس کر کے بالاکوٹ کے گائوں جابہ میں بم گرانے کے بعد اُس وقت واپس فرار ہو گیا جب پاکستانی ائیر فورس نے اس فضائی حملے کی اطلاع پر فوری اپنا دفاعی ردعمل دیا۔ اس حملے کے بعد بھارت نے دعویٰ کیا کہ اُس نے جابہ (بالاکوٹ) میں دہشت گردی کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود تقریباً ساڑھے تین سو افراد کو بھی مار دیا۔

لیکن جب صبح ہوئی تو علاقہ کے لوگوں کے علاوہ پاکستانی فوج اور میڈیا کے افراد متاثرہ علاقے میں پہنچے جہاں نہ کوئی عمارت گری ملی اور نہ ہی کسی انسان کی جان گئی۔ ہاں! جائے وقوعہ سے ایک کوّا ضرور مرا ہوا ملا۔ جہاں بمباری کی گئی تھی وہاں کچھ گڑھے ضرور پڑے اور درخت گرے ہوئے ملے جس کی بعد میں انٹرنیشنل میڈیا نے بھی توثیق کر دی۔ اگرچہ پاکستان کو کوئی جانی و مالی نقصان تو نہ پہنچا لیکن پاکستانی قوم کو یہ دکھ ضرور تھا کہ جارحیت کرنے والے بھارتی جنگی جہاز بچ کر کیوں نکل گئے۔ اس ناکام حملے کے باوجود بھارت کی مودی حکومت اور وہاں کا میڈیا شادیانے بجا رہا تھا، ایسے میں پاکستان کی حکومت اور افواج نے تمام حقائق بتاتے ہوئے دنیا کو باور کرا دیا کہ ہم اپنے مرضی کے وقت اور مقام پر اس بھارتی جارحیت کا جواب دیں گے۔

پاکستان نے یہ بھی واضح کیا کہ ہمارا جواب ایسا ہو گا کہ بھارت حیران و پریشان رہ جائے گا۔ پاکستان کے اس اعلان کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پاک فضائیہ نے ایک کامیاب حکمت عملی کے تحت دو بھارتی جنگی جہازوں کو اپنے علاقہ میں ٹریپ کر کے مار گرایا اور ایک بھارتی پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کر لیا۔ دشمن کے جنگی جہازوں کو گرانے کا یہ عظیم کارنامہ پاکستان ائیر فورس کے پائلٹ اسکوارڈن لیڈر حسن صدیقی نے سر انجام دیا۔ بھارتی جنگی جہازوں کو مار گرانے اور ایک بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کی خبر نے ایک طرف پاکستانی قوم میں 1965ء کی جنگ کا جذبہ تازہ اور پورے ملک میں جشن کا سماں پیدا کر دیا تو دوسری طرف بھارت میں جیسے موت برپا ہو گئی۔

وہ بھارت جو کتنے عرصہ سے دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ریجنل پاور کے طور پر ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا، پاکستان کے خلاف اپنی اس جارحیت کے بعد دو دن کے اندر ہی دفاعی طور پر ننگا ہو گیا اور ایک ایسا ملک بن کر ابھرا جس کی فوجی قوت انتہائی کمزور اور جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہے۔ اپنے جنگی جہازوں کے گرائے جانے پر دنیا بھر میں بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے بھارتی حکومت اور افواج نے پاکستان پر میزائل حملے کرنے کا پلان بنایا لیکن جب دیکھا کہ پاکستان نہ صرف ان حملوں کو روکنے کے لیے تیار ہے بلکہ پہلے سے زیادہ شدید جوابی حملہ کر سکتا ہے تو مودی اور اُس کی فوج کے سربراہان کے ہاتھ پائوں ٹھنڈے پڑ گئے۔

اس دوران اگرچہ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوج اور سویلین آبادی پر گولہ باری کی لیکن وہاں بھی اسے منہ کی کھانا پڑی۔ جس دن پاکستان نے امن کے قیام کی خاطر بھارت کے قیدی پائلٹ کو اُس کے سپرد کیا، اُس سے اگلے روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ایک بیان میں کچھ اس طرح اس تین روزہ جنگ کی شکست کو تسلیم کیا کہ ایک بھارتی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے پاکستان کی ائیر فورس کی برتری کو بالواسطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان دنوں ملک میں بہت شور مچ رہا اور سوال اٹھ رہا ہے (کہ بھارتی جنگی جہازوں کو پاکستان نے مار گرایا) لیکن اگر بھارت کے پاس رافیل (جنگی طیارہ جو مودی حکومت لینا چاہ رہی تھی) ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔

رافیل طیاروں کی کمی پورے ہندوستان نے محسوس کی ہے‘‘۔ لیکن مودی اور بھارت کو کون سمجھائے کہ مسلمان اسلحے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان اور جذبۂ شہادت کے زور پر جنگ لڑتے اور فتح حاصل کرتے ہیں۔

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

رافیل طیاروں سے امیدیں جوڑنے والے مودی کو علامہ اقبال کے ہی ایک اور شعر کی صورت میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

انصار عباسی

پاکستان کی جوابی کارروائی میں جے ایف -17طیارہ استعمال ہوا، رپورٹ

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے آزاد کشمیر میں بھارتی دراندازی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے بھارتی طیارے کو مار گرانے کے لیے جے ایف تھنڈر جنگی طیارے کا استعمال کیا۔ خیال رہے کہ جے ایف-17 چینی ساختہ جنگی جہاز ہے جو پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر تیار کیے تھے۔ امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ممکن ہے کہ بھارتی طیارے کو گرانے اور نتیجتاً پائلٹ ابھی نندن کو حراست میں لینے کی کارروائی میں ان میں سے ایک طیارے کا استعمال کیا گیا ہو‘۔ واضح رہے کہ امریکی سفارت کار جاننا چاہتے تھے کہ کیا پاکستان نے اس کارروائی میں امریکی ساختہ طیارے ایف-16 کو استعمال کیا تھا ؟

رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ بھارتی طیارہ روسی ساختہ ایم آئی جی-21 تھا، جو 1960 سے بھارتی فضائیہ کے زیرِ استعمال ہے اور ایسے 200 طیاروں میں سے ایک تھا۔ اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایشیا اسپیسفک کالج آسٹریلیا کے ایک استاد نشانک موٹوانی نے سی این این کو بتایا کہ یہ طیارے مختلف حادثات کا شکار ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے بھارتی پائلٹس اس جہاز کو ’اڑتا تابوت‘ قرار دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کے بھاری دفاعی بجٹ کے باوجود ان طیاروں کا استعمال مسائل کی نشاندہی کرتا ہے کیوں کہ بجٹ میں ایک بڑی رقم اس کی دیکھ بھال اور تنخواہوں کی مد میں مختص کی جاتی ہے‘۔

رپورٹ میں بھارتی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے حال ہی میں کی گئی تحقیقات کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’طیاروں کو جدید بنانے کے لیے بجٹ کی رقم کا 14 فیصد حصہ خرچ ہوتا ہے جو قطعی طور پر ناکافی ہے‘۔ دوسری جانب اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا اس بارے میں معلومات حاصل کر رہا ہے کہ آیا پاکستان نے بھارتی طیارے کو مار گرانے کے لیے امریکی ساختہ ایف – 16 کو استعمال کیا! اگر ایسا ہوا تو یہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان ایف-16 کی خریداری کے لیے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔

تاہم پاکستان کا کہنا تھا کہ اس نے اس کارروائی میں ایف-16 طیارے کا استعمال نہیں کیا جبکہ بھارتی طیارے کو دراندازی کرنے پر مار گرانے کو دفاعی کارروائی بھی قرار دیا۔ امریکی سفارتخانے کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ان اطلاعات کی خبر ہے اور اس حوالے سے مزید معلومات حاصل کر رہے ہیں، ہم دفاعی شقوں کے غلط استعمال کو نہایت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں‘۔ خیال رہے کہ امریکا عموماً فروخت کیے گئے دفاعی ساز و سامان کے استعمال میں نام نہاد ’اینڈ یوزر اگریمنٹ‘ کے تحت رکاوٹیں حائل کرتا ہے۔

قبل ازیں بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے حالیہ کارروائی میں اے آئی ایم-120 سی-5 ایڈوانس میڈیم رینج فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل فائر کیا جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ایف-16 وائپر طیاروں کا استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھارت نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایک پاکستانی طیارے کو مار گرایا تھا تاہم پاکستان نے بھارتی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے ایف – 16 طیارے کا استعمال ہی نہیں کیا تو مار گرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

بشکریہ ڈان نیوز

نوبل امن انعام کا حقدار وہ شخص ہے جو مسئلہ کشمیر حل کرائے گا

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نوبل امن انعام کا حقدار وہ شخص ہے جو مسئلہ کشمیر حل کرائے گا۔ عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ میں نوبل امن انعام کا حق دار نہیں ہوں بلکہ اس کا حق دار وہ شخص ہے جو تنازعہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے گا۔ عمران خان نے کہا کہ جو شخص برصغیر میں امن اور انسانی ترقی کے لیے کوششیں کرے اور اس کا راستہ ہموار کرے وہی شخص نوبل امن انعام کا حقدار ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو نوبل امن انعام دینے کے لیے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں دو مارچ کو قرارداد جمع کرائی ہے۔

قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے انتہائی دانشمندانہ کردار ادا کیا۔ بھارتی قیادت کا جنگی جنون دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کا سبب بن رہا تھا اور بھارتی قیادت اپنے جارحانہ رویے سے دونوں ایٹمی ریاستوں کو جنگ کے دہانے پر لے آئی تھی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرنے کے اعلان کے بعد ان کے فیصلے کو خوب سراہا گیا۔ ٹوئٹر پر ’نوبل پرائز فار عمران خان‘ ٹاپ ٹرینڈ کی صورت میں نظر آیا جب کہ بھارتی صارفین اپنے وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف ’گوبیک مودی‘ کا ٹرینڈ چلاتے رہے۔

پاکستان کو جنگی محاذ کے بعد اب سفارتی محاذ پر فتح حاصل کرنی ہو گی

پاکستان دشمنی اور پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے ذریعے اگلے انتخابات میں وزارت عظمی کا عہدہ پکا کرنے کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی چال بری طرح سے ناکام ہو چکی ہے۔ ہندوستانی اندازوں کے برعکس پاکستان بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی گنڈہ گردی سے ذرا بھی خوفزدہ نہیں ہوا۔ جب ہندوستان نے لائن آف کنٹرول کے پار جا کر جلد بازی میں بموں کو گرایا تو پاکستان نے بھی منہ توڑ جواب دیا، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی خیال رکھا کہ اس منہ توڑ کارروائی میں ہندوستان میں اموات نہ ہوں۔ پھر جب ہندوستانی طیاروں نے ایک بار پھر دراندازی کی تو پاکستان نے برق رفتار کارروائی کرتے ہوئے ان کے دو طیارے مار گرائے اور ایک ہندوستانی پائلٹ کو حراست میں لیا۔

دونوں ملکوں کے درمیان جاری کارروائیوں کے دوران، ہندوستانی حکام شروع سے ہی اپنی پہلی کارروائی کے اثر اور نیچر کے بارے میں جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہے اور دعوی کرتے رہے کہ اس کارروائی میں ایک تصوراتی ’دہشتگرد کیمپ‘ تباہ کیا گیا ہے۔ پھر اگلے دن جب ان کا ایک طیارہ تباہ ہوا تو پاکستانی ایف 16 طیارے کو گرانے کا جھوٹا دعوی کرنے لگے۔ اس کے برعکس پاکستان نے جو کہا وہ کر کے دکھایا، اور پھر جو کام کیا اسے پوری وضاحت اور سچائی کے ساتھ بیان کیا۔ اس دوران سب سے نمایاں فرق یہ دیکھنے کو ملا کہ ایک طرف بھارتی وزیراعظم مودی، ہندوستانی فوج اور سول لیڈران جارحانہ اور متکبرانہ انداز میں دھمکیاں دے رہے تھے جبکہ دوسری طرف پاکستانی وزیراعظم عمران خان سمیت پاکستان کی سول ملٹری قیادت امن و تحمل کے لیے مدبرانہ اپیل اور فوجی کارروائی کی وارننگ کے ساتھ فراخ دلی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ ہندوستان نے واضح طور پر مزید فوجی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلاشبہ اب انہیں اس کا بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا کہ کسی قسم کی کارروائی کرنے پر پاکستان جوابی کارروائی ضرور کرے گا۔

دو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملکوں کے مابین کشیدگی باقاعدہ جنگ میں بدل جانے سے ہونے والی تباہی کی حقیقت شاید اب نئی دہلی پر اجاگر ہو چکی ہے۔ جوابی کارروائی کا عملی مظاہرہ کر کے دکھایا جا چکا ہے، اسٹریٹجک استحکام بھی بحال ہو چکا ہے۔ اب بھارت کی خونی بے جی پی قیادت سفارتکاری کے ذریعے وہ سب کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی جو وہ فوجی کارروائی کے ذریعے حاصل نہ کر سکی۔ مزید فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے بھارت اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے فیصلوں، اور ان بڑی قوتوں سے اعلامیوں کا مطالبہ کرے گا، جو ان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔ وہ کونسل اور دیگر فورمز سے مطالبہ کرے گا کہ وہ پلوامہ پر ہونے والے ’دہشتگرد‘ حملے کی مذمت کریں، مسعود اظہر کا نام دہشتگردوں کی ’فہرست‘ میں شامل کریں اور جیش محمد کو سزا دیں. پاکستان کو کہا جائے کہ وہ اپنی زمین کو بیرونی ’دہشتگرد‘ حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے، پاکستان میں تمام شدت پسند تنظیموں کا خاتمہ کیا جائے اور ان کے رہنماؤں کو حراست میں لیا جائے وغیرہ وغیرہ ۔

 پاکستان کو بھارت کے ساتھ عنقریب ہونے والی سفارتی لڑائی میں خود کو پوری طرح سے تیار رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان دہشتگردی کی حمایت کرتا ہے یا انہیں مدد فراہم کرتا ہے، اس قسم کے گستاخانہ الزامات کو مسترد کرنے کے علاوہ اسلام آباد کو یہ خیال رکھنا ہو گا کہ کسی بھی فیصلے یا اعلامیہ میں زمینی حقائق لازمی طور پر شامل ہوں، یعنی جموں کشمیر کا غیر حل شدہ تنازع، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی روح کے مطابق خوداداریت کے حق کی تلفی، ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر میں جاری عوامی اور مقامی بغاوت، مقبوضہ کشمیر میں تعینات 7 لاکھ بھارتی فوج کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی زبردست خلاف ورزی (جو کہ اقوام متحدہ کی حالیہ ہائی کمشنر رپورٹ میں بھی درج ہے) جن میں ریپ، غیر مسلح مظاہرین کا قتل، پیلٹ گنز سے بچوں کو نابینا کرنے کا عمل شامل ہے.

اس کے علاوہ ہندوستان کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی خلاف ورزی، مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری کو غصب کرنے اور اس کی آبادی کے ڈھانچے (ڈیموگرافی) میں تبدیلی لانے کی مکروہ کوششیں، مقبوضہ کشمیر پر براہ راست نئی دہلی سے حکمرانی کے قانون کا نفاذ اور کشمیری رہنماؤں کی بلاجواز غیر قانونی گرفتاریاں۔ اگرچہ بھارت چند مخصوص اور متنازع موقف رکھتا ہے، مگر پھر بھی یہ اپنے سائز اور اپنی اس عمومی خواہش کہ اپنے ہی ہاتھوں سے شروع کردہ فوجی و سیاسی لڑائی میں ہونے والی شکست کے بعد بڑی طاقتیں بھارت کو بیٹھ کر منائیں، کی وجہ سے اپنے مطالبات کے لیے چند مخصوص ملکوں کی حمایت اپنے حق میں محفوظ کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ امریکا ہندوستان کے کئی مطالبات پر زور دے۔ بلکہ مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن کی جانب سے پلوامہ واقعے کے بعد ہندوستان نے ’حق دفاع‘ کا حوالہ دے کر درحقیقت ہندوستان کی فوجی جارحیت کی تائید کر دی تھی۔

واشنگٹن کو ایک متوازن رویہ اپنانے پر قائل کرنے کے لیے پاکستان کو سخت محنت کرنا ہو گی۔ بلاشبہ امریکا چین مخالفت کے تناظر میں تو ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہے لیکن امریکا کو افغان طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے پاکستان کی سہولت کاری درکار ہے۔ امریکی دوستی کے حالیہ اشارے پلوامہ بحران میں دکھائی نہیں دیے۔ اسلام آباد کو امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات میں اپنی سہولت کاری اور پاک بھارت معاملات پر امریکی رویے کے درمیان ایک مضبوط باہمی تعلق پیدا کرنا ہو گا۔ سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ پاکستان کو سلامتی کونسل اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے آگے اپنا مؤقف واضح اور بہادری کے ساتھ پیش کرنا ہو گا۔ یہ موقف کہ کشمیری عوام کی جانب سے جاری خودارادیت اور آزادی کے لیے جدوجہد نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ ان کا اخلاقی اور قانونی حق ہے۔ اس جدوجہدِ آزادی کو کسی صورت دہشتگردی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کو اپنے اہم دوستوں کی بھرپور انداز میں حمایت درکار ہو گی، جن میں سب سے پہلا ملک ہے چین، جو کہ سیکیورٹی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھتا ہے۔

بلاشبہ امریکا، ہندوستان اور اس کے دوست بھارتی مطالبات تسلیم کروانے یا پھر پاکستان کے موقف کا دفاع نہ کرنے کی غرض سے چین پر دباؤ ڈالیں گے۔ مگر اس اہم موڑ پر، اور پاکستان کو لاحق بیرونی خطرات کے پیش نظر اسلام آباد یہ توقع رکھنے کا پورا حق رکھتا ہے کہ چین پاکستان کے اہم مفادات اور اس کے موقف کا تحفظ کرے گا۔ بلاشبہ، مودی کے شروع کردہ اس بحران کے بعد جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے مقصد کو آگے بڑھانے کا ایک موقع حاصل ہوا ہے۔مودی کے غلط اندزے خطے کو جنگ کی نہج تک لے گئے جو کہ ایک زبردست تباہی اور بربادی کے ساتھ ختم ہوتی۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کو خوش کرنے کے بجائے وہ اس بحران کو جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کی نئی بنیادیں ڈالنے کے لیے استعمال کریں۔ اس قسم کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل کام نہایت اہمیت کے حامل ہیں:

بھارت کی جانب سے کشمیر میں سویلین آبادی کے خلاف فوجی کارروائی یا طاقت کا استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی۔
پاک بھارت ورکنگ گروپ کی بحالی تاکہ خطے کے اندر دہشتگردی کے تمام پہلوؤں پر توجہ دی جا سکے۔
اضافی سی بی ایمز پر عمل تاکہ کسی ممکنہ پاک بھارت تنازع کو ٹالا جا سکے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ’جامع‘ مذاکرات کی بحالی۔
روایتی اور ایٹمی اسلحہ کنٹرول کے معاملے پر دوطرفہ مذاکرات کی شروعات۔
(سرکریک، سیاچن) جیسے مسائل جو بہت زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ان کا جلد از جلد حل۔
تجارت کے فروغ اور بین الاقوامی اور ربط سازی کے منصوبوں (جن میں دیگر دلچسپی رکھنے والے ملکوں کی شمولیت بھی ممکن ہو) پر بات چیت۔

اس قسم کے امن منصوبے پر عمل کی امیدیں ہندوستان میں مودی اور بی جے پی حکومت کے ہوتے ہوئے تو زیادہ روشن نظر نہیں آتیں۔ تاہم امید ہے کہ پاکستان کے ہاتھوں ہونے والی حالیہ شکست، جو کہ بے وقوف بنائے گئے بھارتی عوام کو بھی صاف نظر آتی ہے، اس کے ساتھ اپنے بلند و بالا اقتصادی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکامی سے ایک اور مثبت نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے، یعنی عنقریب ہندوستانی انتخابات میں مودی اور بی جے کی ناکامی۔

 منیر اکرم

بشکریہ ڈان نیوز

وزیراعظم عمران کا بھارت پر امن حملہ

بین الاقوامی تعلقات اور امور و سلامتی کے عالمی حلقوں میں آج کی اس مسلمہ حقیقت کا اعتراف تو علمی و تحقیقی حوالوں کے ساتھ برسوں سے موجود ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کا شمار تربیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے لحاظ سے دنیا کی بہترین تین چات چوٹی کی افواج میں ہوتا ہے۔ ان بہترین افواج میں بھارت یہ درجہ کبھی نہ حاصل کر سکا۔ اب قومی دفاعی نظام کے سب سے بڑے، اہم اور احساس جز ترکیبی، عسکری خفیہ اداروں نے یہاں تک اہمیت اختیار کر لی ہے کہ یہ بری، فضائی اور بحری افواج کے مقابل زیاہ غالب ہو گئی ہے کہ زمانۂ امن میں بھی ہر دم سرگرم رہتے ہیں، الحمدللہ! اس میں پاکستان کی سلامتی کا سب سے بڑا اور ذمہ دار خفیہ ادارہ آئی ایس آئی، عالمی درجہ بندی میں ایک عشرے میں امریکی اور اسرائیلی عالمی خفیہ اداروں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔

نجانے برصغیر خصوصاً بھارت کی قسمت کیوں ایسی ہے کہ آج نئی دہلی کے انتہا پسند حکمرانوں کو اس حقیقت کا ادراک کیوں نہیں ہو رہا اور مودی کی سخت متعصب اور جارح مزاج سکہ بند ہندو قیادت نے جیسے بھارت کی اجتماعی دانش پر کوئی جنتر منتر کر کے اسے جنونی اور اتنا جذباتی بنا دیا ہے کہ بھارت فقط ساڑھے چار سال میں ہی اپنے’’جدید سیکولر جمہوریہ‘‘ ہونے کا تشخص کھو کر واضح اور غالب حد تک مسلسل تشویش کی حامل ایک آرتھوڈوکس (دقیانوسی اور مذہبی سیاست میں رنگی) ریاست بن کر رہ گیا۔ گویا بھارت میں ستر سال کا جمہوری عمل ریورس ہو کر ایک ایسے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جس کا آغاز دسمبر 1992ء میں بھارت کی تاریخی بابری مسجد کی نیم دہشت گرد انتہا پسند ہندوئوں کے دھاوے میں شہادت سے رکھی گئی۔

لگتا ہے یہ فقط آنجہانی واجپائی کی سیاسی ذہانت ہی تھی جس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ملکی اقتدار تک پہنچنے اور اس کے بعد بھی کافی حد تک اٹل بہاری واجپائی کے وزیراعظم بننے اور کانگریسی زور ٹوٹنے کے باوجود بھارت کے ’’سیکولر جمہوری‘‘ تشخص کو کافی حد تک بچائے رکھا۔ بیچ میں نہرو خاندان بھی کونے لگ گیا اور ایک سکھ کو شو بوائے کے طور پر وزیراعظم بھی بنا دیا گیا لیکن وزیراعظم واجپائی کا دوسرا دور ختم ہونے کے بعد جب بنیاد پرست ہندو، نریندر مودی وزیراعظم بنتے ہی سیکولر بھارت جیسے تیزی سے دہشت گردی کی طرف مائل ہندو ملک کو اپنے اقتدار کی آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی مذہبی بنیاد پرستی میں غرق کر دیا۔

یہ تو جنونی ہندو قیادت کو اقتدار میں لانے کا ایک نتیجہ ہے۔ مودی حکومت کا ایک ترجیحی ایجنڈا ’’1990 سے تسلسل کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک حصولِ حقِ خودارادیت کی تحریک کو کچل کر ختم کر دینا تھا‘‘ جو اور بھڑک کر 7 لاکھ مسلط افواج اور کشمیریوں پر اس کی کھلی ریاستی دہشت گردی کے باوجود بے قابو ہوتی چلی گئی۔ اب جبکہ مقبوضہ کشمیر بھارتی سنجیدہ اور حقیقت پسند تجزیہ کاروں کے مطابق، بھارت کے ریاستی تسلط سے تیزی سے نکلتا جا رہا ہے، مودی حکومت کی کشمیریوں کو قابو کرنے کی انتہائی خطرناک مس ہینڈلنگ خود بھارت کی سلامتی کے لئے خطرہ بن گئی۔

جس کا ادراک آنجہانی واجپائی نے کٹر جماعت کا وزیراعظم ہونے کے باوجود خوب سمجھ لیا تھا اور اس کے بعد حکومتی اقدامات بھی کئے لیکن حکمران جماعت کے ’’عقابی گروپ‘‘ نے اپنی انتہا پسندی سے اپنے جنونی وزیراعظم کو بنیاد پرستی کے دائرے سے باہر نہ آنے دیا تو اس کا بھارتی سلامتی کے لئے نتیجہ مقبوضہ کشمیر کا اس کی جکڑ بندی سے نکلتا جانا اور وہاں کے بچوں کا خودکش بننے پر آمادہ ہو کر مسلط فوج پر تباہ کن حملوں کی صورت برآمد ہو رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کے آرکائیو سے نکالی یہ رپورٹ ملاحظہ فرمائیں اور خود تجزیہ کریں کہ ایک ہی جماعت، بی جے پی کا ایک وزیراعظم کس راہ پر تھا اور مودی اس ڈگر سے ہٹ کر بھارت کے لئے کس قدر خطرناک بن گیا ہے۔

ستمبر 1998۔ ڈربن میں اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی عالمی تنظیم NAM (غیر وابستہ ممالک کی تحریک) کا سربراہی اجلاس ہوتا ہے۔ افتتاح جدید تاریخ میں حریت فکر کے سب سے بڑے عالمی رہنما آنجہانی نیلسن منڈیلا کرتے ہیں، اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکے۔ فرمایا ’’مسئلہ کشمیر سے ہم سب کا تعلق ہے‘‘ واضح رہے کہ اجلاس میں وزیراعظم واجپائی، NAM کے روح رواں کیوبن صدر فیڈل کاسترو اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان سمیت کتنے ہی دوسرے عالمی رہنما اور ریاستی سربراہ شرکا میں موجود ہیں، ان کی موجودگی میں ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کو اپنے خطاب کا اہم حصہ بناتے ہوئے منڈیلا مزید واضح کرتے ہیں ’’NAM مسلسل جاری مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں بھرپور معاونت کرے گی‘‘۔

مسئلہ کشمیر پر دنیا کے محترم ترین قائد جناب نیلسن منڈیلا کے اس عزم پر بھارت کے سرکاری اور حکمران جماعت کے حلقوں میں کھلبلی مچ گئی اور حکومت اور حکمران جماعت دونوں نے اسے نیلسن منڈیلا کی طرف سے روایت کی خلاف ورزی قرار دیا کہ ’’NAM کے فورم پر دو طرفہ مسائل پر بات نہیں ہوتی‘‘ مقبوضہ کشمیر کے کانگریسی رہنما فاروق عبداللہ یوں بولے: میں وزیر اعظم سے کہوں گا کہ وہ مجھے نیلسن منڈیلا کے پاس بھیجیں کہ میں انہیں جا کر سمجھائوں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور انہوں نے اپنے خطاب میں NAM کی مسلمہ روایت کو توڑا ہے کہ اس فورم پر دو طرفہ تنازعات زیر بحث نہیں لائے جاتے۔

گویا پورے بھارت میں یہ سمجھ نہ آئی کہ نیلسن منڈیلا تو روایت شکن اور اسٹیٹس کو توڑنے والا عالمی رہنما ہے، اس کی باکمال اور انتہائی قابل قدر جدوجہدِ آزادی روایت شکنی سے عبارت رہی۔ سمجھے تو شاید آنجہانی واجپائی سمجھ گئے، خاموش رہے، تاہم لگتا تھا کہ آنجہانی نیلسن منڈیلا نے مسئلہ کشمیر پر جو کچھ کہا وہ ان کے دل میں اتر گیا تھا لیکن عالمی سیاست و حکومت کی مجبوریوں کے باعث وہ چپ سادھ گئے، لیکن جب موقع ملا تو عملاً انہوں نے کوششیں شروع کیں جو مینار پاکستان پر حاضری اور لاہور ڈیکلریشن پر محیط ہیں، جن کے فالو اَپ آگرہ مذاکرات کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنونیوں نے ثبوتاژ کیا اور باقی کسر اب مودی نے اپنے دورِ اقتدار میں نکالی

لیکن مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی قیادت میں کمال کی تحریک آزادی اور پاکستان میں ہمارے خانِ اعظم کی قیادت نے ان کی تحریک کو منطقی نتائج سے قریب تر کر دیا ہے، دوسرا اب جبکہ مودی اپنی انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں، کشمیریوں کے بعد مسئلہ کشمیر کی دوسری بڑی اسٹیک ہولڈر حکومت پاکستان کی قیادت ایسی روایت شکن ہے، جیسے نیلسن منڈیلا اپنے Peace offence (امن حملہ) سے ساری عمر نسل پرستوں پر حملہ آور رہے اور آج نسل پرستی دنیا میں بڑی گالی بن چکی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے پاکستان پر حملہ آور پائلٹ کو اس کے عزائم کو خاک میں ملانے کے بعد گرفتار کر کے جتنی جلدی رہائی کا فیصلہ کیا اور قیدی کے طور پر جو انتہائی متاثرکن سلوک اس سے روا رکھا گیا، اس نے بھارت کی اجتماعی پاکستان دشمنی کے زہر کو دو ہی روز میں بے اثر کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے قومی اور حکومتی اخلاق، تحمل اور بردباری خصوصاً ہماری روایت شکن اور اسٹیٹس کو کو کامیابی سے چُور چُور کرنے میں کامیابی حاصل کرنے والی قیادت نے چند ہی ہفتوں میں بھارت پر جو ’’امن حملے‘‘ کئے ہیں وہ ان کے انتہائی جینوئن اندازِ ابلاغ اور انسان دوست اقدامات سے جاری ہیں، اس میں بھارت کی بچت اور مزید بگاڑ سے بچنے کی فقط ایک صورت ہے کہ وہ جواب میں امن اور مذاکرات کی طرف لوٹے۔

اگر آنجہانی واجپائی کا اندازِ حکمرانی اور مسئلہ کشمیر پر سوچ و اپروچ ان کا سبق نہیں بن سکی تو نیلسن منڈیلا کے خطاب کو یاد کر لیں، وہ تو کوئی ’’پاکستان کے ایجنٹ‘‘ نہ تھے۔ یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا تو بھارت کو ہوش دلانے میں ناکام کچھ اداروں کی آوازیں سنیں اور اپنے جارحانہ مزاج اور وزیراعظم عمران خان کے امن حملوں کے اب تک کے نتائج کو سمجھنے کی فہم پیدا کریں۔ انہیں کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان کی دفاع اور حملے کی صلاحیت کس قدر بڑھ چکی ہے اور پاکستان میں جس ایک شدت سے مطلوب قومی قیادت کی ضرورت تھی، وہ بھی پوری ہو چکی مگر مودی صاحب بھارت کو کہاں لے جا رہے ہیں؟

ڈاکٹر مجاہد منصوری

بھارتی پائلٹ ابھی نندن کا تازہ بیان سامنے آگیا

بھارتی پائٹ ابھی نندن کا ایک اور ویڈیو بیان سامنے آیا ہے، جس میں اُس کا کہنا ہے کہ وہ پاک فوج سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ تازہ بیان میں بھارتی پائلٹ کا کہنا ہے کہ میں بھارتی فضائیہ کے ایک لڑاکا طیارے کا پائلٹ ہوں، میں ٹارگٹ تلاش کررہا تھا، پاکستان ایئرفورس نے مجھے گرایا۔ بھارتی پائلٹ کا مزید کہنا ہے کہ مجھے اپنا جہاز چھوڑنا پڑا، جو ٹوٹ گیا تھا۔ بیان میں ابھی نندن کا کہنا ہے کہ جب طیارہ ہٹ ہوا تو میں ایجیکٹ کر گیا تھا، جب میرا پیراشوٹ کھلا اور میں نیچے گرا تو میرے پاس پستول تھی، لوگ بہت زیادہ تھے اور میرے پاس بچاؤ کے لئے ایک ہی راستہ تھا میں نے اپنی پستول گرا دی، میں نے بھاگنے کی کوشش کی، میرے پیچھے لوگ آئے تھے، ان کا جوش بہت اونچا تھا۔

بھارتی پائلٹ کا مزید کہنا ہے کہ اسی دوران پاکستانی آرمی کے 2 جوانوں آئے اور مجھے ان لوگوں سے بچایا، پھر وہ مجھے اپنے یونٹ لے کر گئے، جہاں مجھے فرسٹ ایڈ دی گئی، اُس کے بعد مجھے اسپتال لے جایا گیا جہاں میرا طبی معائنہ کیا گیا۔ ابھی نندن نے پاک فوج کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی آرمی بڑی پروفشنل سروس ہے، میں پاک فوج کے ساتھ وقت گزارا ہے اور میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ انہوں نے بھارتی میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو مرچ لگا کر پیش کرتا ہے، جس سے لوگ بہکاوے میں آجاتے ہیں۔

پائلٹ کی رہائی کا اعلان بھی مودی کو نہ سدھار سکا

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کے اعلان کا جہاں بھارت سمیت دنیا بھر میں خیر مقدم کیا گیا وہیں بھارتی وزیر اعظم امن کی طرف بڑھے ہوئے اس قدم سے گریز کرتے ہی نظر آئے۔ سائنسدانوں کے لیے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ ’آپ تو لیبارٹریز میں زندگی گزارنے والے لوگ ہیں آپ میں پہلے پائلٹ پروجیکٹ کرنے کی روایت ہوتی ہے، پائلٹ پروجیکٹ کرنے کے بعد اسکیل ایبِلٹی ہوتی ہے، ابھی ابھی ایک پائلٹ پروجیکٹ پورا ہو گیا ابھی ریئل کرنا باقی ہے، پہلے تو پریکٹس تھی۔ بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے یہ بیان وزیراعظم عمران خان کے اس اعلان کے فوراً بعد سامنے آیا کہ بھارتی پائلٹ کو رہا کردیا جائے گا۔

امن کے لیے بھارتی پائلٹ کی واپسی کو تیار ہیں، پاکستان

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر بھارتی پائلٹ کی واپسی کشیدگی میں کمی کا باعث بن سکتی ہے تو پاکستان اس کے لیے بھی تیار ہے اور وزیراعظم عمران خان خود بھی اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے بات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا مودی تیار ہیں؟ شاہ محمود قریشی کے بقول حکومت پاکستان نے ہمیشہ امن کی خواہش کو ترجیح دی ہے کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ امن کے بغیر پاکستان کی ترقی ممکن نہیں۔ وزیر خارجہ قریشی کا کہنا تھا،’’بھارت کا ڈوزیئر مل گیا ہے اس ڈوزیئرسمیت ہر معاملے پر پاکستان بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے مگر آپ کو بتانا ہو گا کہ آپ آخر چاہتے کیا ہیں؟‘‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان عالمی برادری کے ساتھ رابطے میں ہے، ’’سعودی وزیر خارجہ کا پیغام موصول ہوا ہے کہ وہ ولی عہد محمد بن سلمان کا پیغام پہنچانے کے لیے آنا چاہتے ہیں۔ ترکی، چین اور روس کے وزراء خارجہ سے بھی بات چیت ہو رہی ہے۔‘‘ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو مثبت پیشرفت قرار دیا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکی صدر نے اس موقع پر کہا، ’’اچھی خبر جلد موصول ہو گی ۔ پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو ہوئے کہا کہ اس معاملے پر پاکستان اور بھارت کی تاریخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں رونما ہونے والے ہر منفی واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتا ہے۔

شمشاد احمد خان، ’’دسمبرسن 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کو جواز بنا کر فوجیں سرحدوں پر لے آیا اور پھر بڑی طاقتوں نے مداخلت کی اور معاملہ حل کروایا تھا کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان ایسا کوئی رابطہ ہے ہی نہیں کہ دونوں ایک دوسرے کو تسلی کرا سکیں‘‘۔ شمشاد احمد خان نے کہا کہ گزشتہ 10 برس میں رونما ہونے والے واقعات نے بھارت کو اتنی شے دے دی ہے کہ ابھی اسے خود کو نئے پاکستان کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے میں وقت لگے گا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ امریکا کے رویے پر کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے مشرف دور میں جنگ بندی کرائی، سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے مذاکرات کرائے کیونکہ اس وقت امریکا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی ضرورت تھی مگر اب امریکا کو افغانستان سے نکلنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔ سابق وزیر دفاع نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ بھارت کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے،’’امریکا کے دو بنیادی اہداف ہیں، پہلا جب وہ افغانستان سے نکلیں تو ان کی فیس سیونگ ہوں، دوسرا امریکا کے نکلنے کے بعد افغانستان میں افراتفری رہے، ایسا نہ ہو کہ افغانستان میں امن آجائے، سی پیک چل پڑے، روس بھی نکل جائے۔

جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ بھارت اور امریکا کے درمیان انٹیلیجنس شیئرنگ سمیت بہت سے معاہدے ہیں۔ پاکستانی فوج کی کارروائی کے بعد امریکا کو لگا تھا ہے کہ اگر بھارت کو مار پڑ سکتی ہے لہذا مداخلت ضرور ہو گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی کی جانب سے پاکستان کو دیے گئے ڈوزیئر میں کوئی نئی بات ممکن نہیں، جیسے بھارت نے پاکستان میں جش محمد کے کیپ پر کارروائی کے بے بنیاد دعوے کیے اسی طرح ڈوزیئر میں بھی ایسا ہی کچھ ہو گا۔