پاکستان سے صرف جھوٹ اور دھوکہ ملا، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ گزشتہ پندرہ سالوں میں پاکستان کو دی جانے والی تینتیس بلین ڈالر کی امداد ضائع گئی ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان پر ایک بار پھر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کے خلاف اس تازہ ترین ٹویٹ پیغام میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو تینتیس بلین ڈالر کی خطیر رقم کی امداد دینے کے باوجود امریکا کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ ٹرمپ نے مزید لکھا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی یہ امداد امریکا کی بے وقوفی تھی اور بدلے میں پاکستانی حکومت نے اُسے دھوکے اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔

نئے سال کے پہلے دن اس ٹویٹ میں ٹرمپ نے پاکستان کے لیے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ امريکا جن دہشت گردوں کو افغانستان میں تلاش کر رہا ہے، پاکستان انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ ٹرمپ نے ’ نو مور ‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو مزید امداد نہ دیے جانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ امریکا کی جانب سے اس بیان پر پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے صدر ٹرمپ کے اس بیان کا جلد ہی جواب دیا جائے گا اور حقائق اور من گھڑت کہانیوں میں فرق کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا جائے گا۔

اس حوالے سے پاکستان میں دفاعی امور کی ماہر ماریہ سلطان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے امریکا کا تازہ بیان افسوسناک ہے اور حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ ماریہ سلطان کا کہنا تھا کہ یہ رقوم، جن کا الزام پاکستان پر عائد کیا جا رہا ہے، وہ امریکا نے اپنے سفیر کو دیے یا پھر افغانستان پاکستان کے لیے اپنے خصوصی نمائندے کو دیے۔ سو اس کا جواب بھی انہی کو دینا چاہیے۔ اور یا پھر وہ امریکن کانٹریکٹرز امریکا کے اس الزام کا جواب دیں جن کو یہ رقم دی گئی۔

ماریہ سلطان کا مزید کہنا تھا، ’’بات یہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف امریکا کی مدد کی ہے بلکہ اس کی بہت بڑی قیمت بھی ادا کی ہے۔ امریکا نے افغانستان میں پہلے القاعدہ کے خلاف جنگ شروع کی اور پھر طالبان کے خلاف۔ پھر امریکا کا موقف یہ بھی رہا کہ طالبان سے مذاکرات کرنے چاہئیں تاہم وہ طالبان کے حقانی گروپ سے جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو اپنے مسائل کا سیاسی، عسکری اور معاشی حل افغانستان میں نظر آ رہا ہے۔‘‘ پاکستان کے ایک اور دفاعی تجزیہ کار لیفٹینیٹ جنرل امجد شعیب نے ٹرمپ کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کسی بھی فریق سے زیادہ کام کیا ہے۔ جنرل شعیب کے مطابق ، ’’ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے افغانستان کے لیے اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لیں۔‘‘

پاکستان کو دیے گئے 33 ارب امریکی ڈالر کہاں گئے ؟

امریکا نے اپنے جنگی جنون میں پہلے عراق، پھر افغانستان کی جنگوں میں سیکڑوں ارب ڈالر جھونکے مگر پاکستان کو 16 سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دیئے جانے والے 33 ارب ڈالرز امریکی صدر ٹرمپ کو کھٹکنے لگے۔
امریکی اخبار کا دعویٰ ہے کہ امریکا پاکستان کی مزید امداد بند کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ بھول گئے کہ 42 فیصد امداد تو پاکستان کو محض اس کے ہونے والے اخراجات کی مد میں دی گئی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی رہا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اربوں ڈالرز کے نقصانات اٹھائے، بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات میں شہدا کی قربانیوں کی داستانیں رقم ہوئیں، مگر امریکی صدر ٹرمپ کو یاد ہیں تو صرف 33 ارب ڈالرز جو بطور امداد پاکستان کو دیئے گئے ۔

نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان میں جس جنگ کا آغاز کیا اس کو ختم نہ کر سکا اور اس دلدل میں دھنستا چلا گیا، امریکی سینیٹر آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کے مطابق 16 سال میں افغان جنگ پر 8 سو 41 ارب ڈالرز کے اخراجات آئے۔
امریکا کی برائون یونیوسٹی کے کاسٹ آف وار پروجیکٹ کے مطابق یہ اخراجات 2 کھرب ڈالرز ہیں، دوسری جانب امریکی اداروں کی رپورٹ کے مطابق 2001ء سے 2017ء کے دوران پاکستان کو صرف اور صرف 33 ارب 92 کروڑ ڈالرز کی امداد دی، جس میں ساڑھے 14 ارب سے زائد اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں دیئے گئے جو پاکستان کی سڑکوں ائیر پورٹس اور انفراسٹرکچر کے اخراجات کی مد میں ادا کئے گئے۔

امریکی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ملنے والی امداد میں 8 ارب 29 کروڑ ڈالرز سیکیورٹی کے شعبوں میں دیئے گئے جبکہ 11 ارب ڈالرز سے زائد مہاجرین کی آباد کاری، بچوں کی صحت اور انسداد منشیات سمیت مختلف معاشی شعبوں کے لئے دیئے گئے ۔ رپورٹ کے مطابق 2018 میں امریکا کی جانب سے پاکستان کو ساڑھے 34 کروڑ ڈالرز دیئے جانے ہیں، جن میں سے 21 کروڑ ڈالرز معاشی شعبے کے لئے ہیں۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق مایوسی کا شکار امریکا پاکستان کی ساڑھے 25 کروڑ ڈالرز کی امداد روک کر اس کی ادائیگی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے مشروط کر سکتا ہے۔

امریکا نے انسداد دہشت گردی آپریشن کے لیے دیے گئے ہیلی کاپٹرز واپس مانگ لیے

امریکا نے پاکستانی وزارت داخلہ کو انسداد دہشت گردی آپریشن کے لیے دیے گئے ہیلی کاپٹرز واپس مانگ لیے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق امریکا نے پاکستان کو بارڈر پیٹرولنگ کے لیے دیے گئے ہیلی کاپٹرز واپس مانگ لیے ہیں، امریکی ساخت کے یہ ہیلی کاپٹرز وزارت داخلہ کے پاس تھے اور یہ انسداد دہشت گردی آپریشن میں بھی استعمال ہوتے تھے جب کہ ان ہیلی کاپٹرز کو مظاہروں کی نگرانی کے لیے بھی استعمال کیا جا تا تھا اور ان کی پرواز سے قبل امریکی سفارت خانہ سے اجازت لی جاتی تھی۔

امریکا کی جانب سے ہیلی کاپٹرز کی واپسی کے مطالبے کے بعد ان کو واپس لے جانے کے لیے کارگو طیارہ پاکستان پہنچ گیا ہے۔ واضح رہے امریکا نے 2002 میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کو 9 ہیلی کاپٹرز پاک افغان سرحد کی مانیٹرنگ کے لیے دیے تھے جن میں سے 4 ہیلی کاپٹر امریکا کو پہلے ہی واپس کر دیے گئے تھے۔

کیا امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کا استقبال سرد مہری سے کیا گیا ؟

امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ کو پریس بریفنگ کے دوران تجویز دی گئی کہ پاکستان نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہونے کے امریکی الزامات کو ماننے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے اس پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں تو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل کے بارے میں کوئی پیشن گوئیاں نہیں کر سکتیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے ان کی سر زمین پر دہشت گردوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی کے انکار کی وجہ سے پاکستان پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔

اپنی پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے پاک امریکا تعلقات کے لیے امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کے دورہ اسلام آباد پر بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم امریکی میڈیا کا ریکس ٹلرسن کے دورہ پاکستان کے حوالے سے کہنا ہے کہ سیکریٹری آف اسٹیٹ کا استقبال دفترخارجہ کے درمیانی سطح کے حکام اور پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے راولپنڈی کے چکلالہ ایئربیس پر کیا ۔  امریکی سرکاری ریڈیو کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریکس ٹلرسن کا ان کے شایانِ شان استقبال نہیں کیا جیسا کہ عموماً ایک اعلیٰ سطح کے سرکاری حکام کا استقبال کیا جاتا ہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ٹوئٹ کیا تھا کہ سیکریٹری اسٹیٹ نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی جبکہ وہ اس وقت بگرام ایئر بیس پر موجود تھے تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک معمولی سے غلطی تھی۔ تاہم اسے حوالے سے امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان میں قائم امریکی بیس میں سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات کے بعد سرکاری طور پر جاری کی جانے والی تصویر میں ہیر پھیر کی گئی تھی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ ان کی ملاقات کابل میں ہوئی۔

خیال رہے کہ امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن مختصر دورے پر پاکستان پہنچے جہاں انہوں نے اسلام آباد میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیرخارجہ خواجہ آصف اور مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہاں سے ملاقات کی اور پاکستان کو خطے میں امن واستحکام اور مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے نہایت اہم قرار دے دیا تھا۔

پاک امریکہ تعلقات بند گلی میں

ان سطور کی اشاعت تک امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن پاکستان کا دورہ کر کے خطے میں امریکہ کی نئی پالیسی کے بارے میں واضح پیغام دے کر بھارت میں بھی مذاکرات و معاملات طے کر چکے ہوں گے۔ واشنگٹن سے روانگی سے قبل اور ایک ہفتہ میں پانچ دوروں کے دوران ان کے بیانات سے بھی واضح ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں صدر ٹرمپ کی اعلان کردہ نئی امریکی حکمت عملی کے نفاذ کا پیغام پہنچانے آئے ہیں۔ اس حکمت عملی میں امریکہ کے نئے اتحادی بھارت کی خطے میں بالادستی اور اس کیلئے امریکہ کی مکمل حمایت کا پیغام بھی ہے جبکہ امریکہ بھارت کو فوجی میدان میں تعاون سے چین کے مقابلے میں کھڑا کر کے چینی اثرونفوذ روکنا بھی چاہتا ہے ۔

گویا امریکہ بھارت کا محاذ تو چین اور اس کے دوستوں کے خلاف ہے لیکن ارد گرد کے علاقوں پر بھارتی بالادستی اور صفائی بھی لازمی ضرورت ہے۔ امریکہ خود ان تما م کاموں میں آگے بڑھ کر وہ تمام خدمات اور تعاون انجام دے رہا ہے جس کی بھارت کو ضرورت ہے۔ پاکستانی ترجمان ٹلرسن کے دورہ اسلام آباد کے بارے میں ’’سب اچھا‘‘ کے بیانات جاری کرنے کی بجائے حقائق سے عوام کو آگاہ فرمائیں، جلد ہی امریکی وزیر دفاع جنرل میٹس بھی اسلام آباد کے دورہ کیلئے متوقع ہیں ورنہ اگلے چند دنوں میں خود امریکی صدر ٹرمپ بھی بھارت کا دورہ کر کے خود جنوبی ایشیا بھر کے عوام کو ان نئے حقائق سے مطلع کر دیں گے۔ لہٰذا اب ہمارے سرکاری ترجمان حقائق کو غلاف میں لپیٹ کر بیان کرنے کی پالیسی ترک فرما دیں۔

جب ہماری ضرورت تھی تو امریکی صدور بھی کیا دلکش بیانات پاکستان کے حق میں دیا کرتے تھے۔ 23؍ جنوری 2004ء کو جنرل (ر) پرویز مشرف اور ری پبلکن صدر جارج بش کی کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات ہوئی تو مشترکہ کانفرنس میں صدر بش سے میں نے سوال کرتے ہوئے بھارت اور روس کے 20 سال کے تعلقات کے ’’رومانس‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے عالمی اداروں میں بھارت کے امریکہ کے خلاف ووٹوں کی تعداد اور شرح کا ذکر کیا اور پوچھا کہ امریکہ اپنے اتحادی پاکستان کی سیکورٹی کیلئے اب کیا گارنٹی اور اقدامات کرے گا ؟ تو صدر جارج بش نے پرویز مشرف اور ان کے وفد کی موجودگی میں جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ امریکہ پاک بھارت تنازع حل کرنے کے لئے اپنا رول ادا کر ے گا۔ وہ اس وقت بھی بھارت روسی تعلقات کے 20 سالہ دور کو نظرانداز کر گئے تھے لیکن پاکستان ، چین تعلق کو امریکہ ہضم نہیں کر پا رہا بلکہ محاذ آرائی پر آمادہ نظر آتا ہے۔

پھر بھی صدر مشرف اور وفد کے اراکین صدر بش کے اس بیان پر بڑے مسرور تھے۔ اسی طرح جب ایک اور مرتبہ میں نے صدر بش سے سوال اٹھایا کہ ماضی میں امریکہ پہلی افغان جنگ میں اپنا مقصد پورا ہونے پر پاکستان کو تنہا اور جنگ کے بعد کے اثرات سمیت چھوڑ کر چلا آیا تو صدر بش نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’’ اس بار یہ ڈانس شارٹ نہیں ہو گا۔‘‘ اور پھر تفصیل سے پاکستان کی تعریف کی لیکن آج حالات ثابت کر رہے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات کا رومانوی ’’ڈانس‘‘ بہت ہی ’’شارٹ‘‘ ثابت ہوا اور آج وہی امریکہ اب بھارت کے ساتھ ’’رومانس‘‘ اور پاکستان کو ’’ولن‘‘ قرار دے کر تمام تعاون بھول چکا ہے۔ ڈپلومیسی کی دنیا میں کوئی تعلق مستقل نہیں ہوتا لیکن ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بجائے اپنی ذاتی خواہشات، اقتدار کی طوالت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر امریکہ سے مذاکرات اور سمجھوتے کئے جس کے نتیجے میں ہم نے امریکی مفادات کیلئے قربانیاں دیں.

مگر ہمیں ہرچند سال امریکہ کی جانب سے اقتصادی ، فوجی پابندیاں اورمشکلات ملیں اور ہمارا ایٹمی طاقت بننا بھی پسند نہ آیا۔ پاک امریکہ تعلقات کو ’’بند گلی‘‘ میں لانے والوں میں خود ہمارے حکمرانوں کی کمزور یاں خواہشات اور کم عقلی کا بھی دخل ہے۔ حال ہی میں پانچ امریکی کینیڈین افراد کی دہشت گردوں سے پانچ سال بعد رہائی کا واقعہ بھی صرف دو دن تک اثر قائم رکھ سکا۔ صرف آٹھ منٹ کی فون کال پر امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کےسامنے ہتھیار ڈال کر غیر مشروط طور پر افغان جنگ میں اتحادی بن کر امریکہ کیلئے پاکستان کی پوری سرزمین اور فضا کھول دینے والے حکمراں تو پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کی یقین دہانیاں کراتے رہے۔ آج وہ کہاں ہیں؟

بہرحال بھارت اور امریکہ کے درمیان ڈرامائی انداز میں تعلقات گہرے ہو رہے ہیں چین کے اثرو رسوخ کو روکنے کیلئے بھارت کو امریکہ فوجی ، معاشی اور ہر طرح کی فنانسنگ اور تعاون فراہم کرے گا بلکہ آسٹریلیا اور جاپان کو بھی بھارت امریکہ سیکورٹی تعاون کا حصہ بنانے پر کام ہو رہا ہے تاکہ چین اور اس کے دوست ممالک کے خلاف حصار مکمل ہو سکے۔ وزیر خارجہ ٹلرسن قطر سعودی تعلقات کو بہتر بنانے پر تو کوئی قدم نہ اٹھا سکے لیکن مسلم دنیا کی بے بسی دیکھئے کہ حالیہ ماضی میں عراق پر سعودی سرزمین سے امریکی طیاروں نے اڑ کر نہ صرف بمباری کی بلکہ عشروں تک سعودی، عراق سرحدیں بند رکھی گئیں لیکن اب سعودی، عراق کوآرڈی نیشن کونسل قائم کر کے ایران کے خلاف جنگی محاذ قائم ہو گیا ہے ٹلرسن اس کونسل کے اجلاس میں شرکت کر کے قطر روانہ ہوئے۔

مشرق وسطیٰ اور چین کے اردگرد اپنے مفادات اور سیکورٹی کا حصار اور اتحاد قائم کرنے کے علاوہ جنوبی ایشیا میں افغانستان، پاکستان اور بھارت کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کے تحت پرانے اتحادی پاکستان کو ’’ڈومور‘‘ کے دبائو اور ’’سی پیک ‘‘ کی سزا کا حقدار قرار دیتے ہوئے بھارت کو علاقے کی سب سے بڑی قوت کے طور پر ابھار کر جنوبی ایشیامیں بالادستی اور چین کی مقابل طاقت کے طور پر کھڑا کرنا مقصود ہے۔ اس امریکی اسٹرٹیجی میں پاکستان کیلئے امریکہ نے کوئی گنجائش نہیں رکھی اور پاکستان کو اپنے وسائل اور چینی حمایت پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔ سری لنکا اور پاکستان میں چین کے جو تعمیراتی پروجیکٹ جاری ہیں ان پر بھارت کو بڑی تشویش ہے اور امریکہ بھی ان پروجیکٹس کو خطرہ سمجھتا ہے کہ چین اپنی سرحدوں سے نکل کر بیرونی دنیا میں اپنا اثرونفوذ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے.

بلکہ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے تو چین کے مالی تعاون اور سرمایہ کاری کو ایک مختلف رنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’’چین کا رویہ شکاریوں جیسا ہے اور وہ قرضوں اور سرمایہ کاری کے ذریعے بعض ملکوں کو معاشی دبائو تلے لا رہا ہے۔ ’’بھارت کو اپنے عقب میں ہونے والی یہ ’’جیو۔ اکنامک‘‘ ترقی و توسیع سے خطرات ہیں اور جب چین کا ’’ہوا‘‘ کھڑا کر کے بھارت کو امریکہ جیسی عالمی طاقت اور اسرائیل جیسی مہارت اور مشرق وسطیٰ میں امریکی حامی اور عرب مخالف ملک کا خفیہ تعاون اور حمایت حاصل ہو رہی ہے تو ا س سے زیادہ اچھا موقع کیا ہو گا۔ بھارت تو افغانستان میں اپنے فوجی بھیجنے سے تاحال انکاری ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ جس روز بھارتی فوج نے افغانستان میں قدم رکھا تو اسی روز نہ صرف پورا افغانستان بھارت کو اپنا دشمن قرار دے کر اٹھ کھڑا ہو گا بلکہ بھارت کو وہ قیمت ادا کرنا ہو گی جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت انٹیلی جنس اور دیگر طریقوں سے افغانستان میں مصروف ہے اور افغانستان میں ’’ترقی و تعمیر‘‘ کے عنوان سے اپنا رول ادا کرنا چاہتا ہے مگر اپنے ’’فوجی بوٹس‘‘ افغانستان میں بھیجنے سے انکاری ہے وہ کوئی جانی قربانی دیئے بغیر ہی افغانستان میں اپنا قدم جمانا چاہتا ہے۔

اس لئے پاکستان پر ابھی تک ’’ڈومور‘‘ کے دبائو کے ذریعے پاکستانی فوج کو افغان جنگ اور صفائی کی مہم میں ’’انگیج‘‘ رکھنا مقصود ہے۔ ٹلرسن پاکستان کا موقف سننے کیلئے نہیں پاکستان کو سخت لہجے میں پیغام دینے کیلئے آئے ہیں۔ اسی لئے وہ واشنگٹن ، ریاض، دوحہ اور کابل میں اپنے بیانات میں افغانستان اور پاکستان کا ذکر خیر اور اپنے دورے کا مقصد بیان کرتے رہے ہیں حالانکہ ڈپلومیسی کا تقاضا ہے کہ کسی ملک کا دورہ کرنے اور مذاکرات کے بعد ہی کسی بیان اور موقف کا اظہار کرنا مناسب ہوتا ہے۔ پاکستان پہنچنے سے قبل پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرنا بہت کچھ واضح کر رہا ہے۔ افغانستان میں 783 ارب ڈالرز کے اخراجات اور ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجیوں کے 14 سالہ قیام اور آپریشنز کے بارے میں امریکہ کوئی بات کرنے اور امریکی ناکامی کو زیر بحث لانے کیلئے تیار نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام تو لگاتا ہے مگر ثبوت فراہم نہیں کرتا۔

 پاکستان کو امریکہ سے مشروط تعلقات کی اطلاع بھی پہلے سے دی جا چکی ہے۔ خطے میں بھارتی برتری قائم کرنے کے بعد پاکستان کی سلامتی کا ذکر امریکی وزیر خارجہ کے منہ سے اچھا نہیں لگتا۔ ٹلرسن کا لب و لہجہ یکطرفہ شرائط پر ڈائیلاگ سے قبل ہی حاکمانہ ہے۔ یہ دورہ اسلام آباد محض یکطرفہ پیغام تک محدود اور امریکی پلان کو تمام شرائط کے ساتھ قبول کرنے پر مجبور کرنے تک محدود ہے۔ خدا خیر کرے۔

عظیم ایم میاں

امریکی وزیر خارجہ کا پاکستان آنے سے’’ قبل ڈومور کا‘‘ مطالبہ

پاکستان آمد سے قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے سخت پیغام دیا ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبے کے عملی جامہ پہنانے کیلئے پاکستان پہنچیں گے اور اسلام آباد پر زور دیں گے کہ محفوظ پناہ گاہوں کے متلاشی دہشت گردوں کو چھپنے کا موقع فراہم نہ کرے ۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ 2014 میں امریکی قیادت میں نیٹو فورسز کی افغانستان سے واپسی کے بعد طالبان کی کارروائیاں دن بہ دن تشویشناک حد تک بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس بڑھتی بغاوت کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ امریکی ڈرون حملوں میں شدت سے اضافہ کیا جائے۔

ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ریکس ٹلرسن پاکستان پہنچ رہے ہیں جہاں وہ اسلام آباد پر زور دیں گے کہ پاکستان میں موجودعسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔ ٹلرسن کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان پر لازم ہے کہ موجودہ صورت حال پر وہ واضح اور خاص طور پر نظر رکھے اور محفوظ پناہ گاہوں کے متلاشی دہشت گردوں کوان کو چھپنے کا موقع فراہم نہ کرے ۔ امریکی وزیر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد پاکستان کا استحکام اوراس کے مستقبل کی ضمانت ہیں۔ واضح رہے کہ رواں سال اگست میں ریکس ٹلرسن نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ پاکستان کی جانب سے افغان عسکریت پسندوں کی مدد جاری رکھنے کی صورت میں وہ اپنا وہ مقام اور مرتبہ کھو بیٹھے گا جو اسے نان نیٹو الائی کی حیثیت میں ملتا ہے، جس میں اربوں ڈالرز کی امداد اور جدید امریکی ملٹری ٹیکنالوجی شامل ہے۔

امریکا سی پیک کے خلاف کُھل کر سامنے آ گیا

امریکا پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف کھل کر سامنے آ گیا۔
بھارت کو سی پیک منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ بہانے بہانے سے اسے متنازع اور ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سی پیک کو ناکام بنانے کی اس مہم میں امریکا بھی کھل کر بھارت کا ہمنوا بن گیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری متنازع علاقے سے گزر رہی ہے۔  امریکی وزیر دفاع جم میٹس اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور ارکان کانگریس کو پاک افغان خطے کی موجوہ صورتحال سے آگاہ کیا۔

وزیر دفاع جم میٹس نے کہا کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ متنازع علاقے سے بھی گزرتا ہے جو بجائے خود کسی نئے تنازعے کو جنم دے سکتا ہے، امریکا اصولی طور پر ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ایک سے زیادہ سڑکیں اور گزر گاہیں موجود ہیں لہذا کسی بھی ملک کو صرف ’ایک گزرگاہ اور ایک سڑک‘ کے ذریعے اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرنی چاہیے، امریکا پاکستان میں اس منصوبے کی مخالفت اس لیے بھی کرتا ہے کیونکہ وہ متنازع علاقے سے گزرتا ہے۔

امریکی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو ہم انسداد دہشت گردی کے حوالے سے چین کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں تاہم جہاں چین کی سمت غلط ہے وہاں ہمیں اس کی مخالفت بھی کرنی ہو گی۔ سی پیک پر امریکا کا نیا موقف دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ مزید خراب ہونے کا خطرہ ہے جب کہ پاکستان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں بھارت کو زیادہ بڑا اور اہم کردار دینے کی بھی مخالفت کرتا ہے۔

افغان امن کے لیے پاکستان امریکہ کی ضرورت ہے، امریکی تجزیہ کار

بھارتی وزیر دفاع نِرملا سیتا رمن نے امریکی وزیر دفاع میٹس کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت افغانستان میں اپنی افواج نہیں بھیجے گا، لیکن وہ افغانستان کی امداد جاری رکھے گا۔ دورہ بھارت کے بعد، امریکی وزیر دفاع، پاکستان نہیں گئے بلکہ وہاں سے افغانستان چلے گئے، جس سے یہ سوالات پیدا ہوئے کہ کیا امریکہ نے بھارت سے افغانستان میں اپنی فوج بھیجنے کے لیے کہا تھا اور کیا اب امریکہ افغان جنگ میں پاکستان کو نظر انداز کر رہا ہے۔ جب ایک امریکی تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں قائم پاکستان سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون سے پوچھا گیا کہ آیا امریکہ نے بھارت سے اپنی افواج افغانستان بھیجنے کے لیے کہا تھا یا یہ بات مذاكرات کے دوران زیر بحث آئی تھی، تو ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ کسی کو علم نہیں کہ مذاكرات کے دوران کیا باتیں ہوئی، لیکن جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا کہ امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس نے بھارت سے اپنی فورسز بھیجنے کے لیے کہا ہو۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان پالیسی کے اعلان کرتے ہوئے بھارت سے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں ایک وسیع تر کردار ادا کرے۔

ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ ایک بڑے تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں امکانی طور پر جو ہوا ہو گا وہ یہ ہے کہ بھارت کو مزید کچھ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے، اور بھارت کے وزیر دفاع نے یہ کہا ہے کہ ہم زیادہ کچھ تو کریں گے، لیکن اس میں افغانستان میں بھارتی افواج بھیجنا شامل نہیں ہے۔ سو ایک طرح سے ان کی یہ بات حفظِ ماتقدم کے طور پر کہی گئی کہ کہیں فورسز کے حوالے سے کوئی براہ راست درخواست نہ کر دی جائے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ایسے اشارے سامنے نہیں آئے کہ اس دورے میں حقیقتا کوئی ایسی درخواست کی گئی تھی۔ سابق معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیائی امور، کارل اِنڈرفرتھ سے جب بھارتی وزیر دفاع کے بیان سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ اُنہیں اس بیان پر کوئی حیرت نہیں ہوئی، کیونکہ بھارت کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ وہ افغانستان میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھارت کا فیصلہ بالکل درست ہے۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ بھارت کا درست فیصلہ ہے بلکہ میرے خیال میں پاکستان بھی اس بات سے مکمل اتفاق کرے گا کہ بھارتی فوج کو أفغان سرزمین پر موجود نہیں ہونا چاہیئے۔ میرے خیال میں یہ بھارت کی جانب سے سرکاری سطح پر اپنی پالیسی کا اعادہ تھا، اور مجھے یقین ہے کہ وزیر دفاع میٹس نے یہ واضح طور پر سمجھ لیا ہے۔ اس سوال پر کہ امریکی وزیر دفاع بھارت سے سیدھے افغانستان چلے گئے اور پاکستان نہیں گئے، تو کیا امریکہ پاکستان کو نظر انداز کر رہا ہے؟ جواب میں کارل انڈر فرتھ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جا رہا، لیکن ہوا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے بڑی سخت زبان میں افغانستان میں پاکستان کے کردار اور اس کی طالبان کی حمایت کے معاملے پر تنقید کی تھی، جس کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ نے امریکہ کا دورہ منسوخ کر دیا تھا ۔ آج کل امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ اور اس بنا پر جیمس میٹس پاکستان نہیں گئے۔

تاہم ان کا کہنا تھا انہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں وہ اسلام آباد جائیں گے، اور جب وہ جائیں، تو اس وقت کے لیے ان کی ایک تجویز ہے اور یہی تجویز وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے لیے بھی ہے کہ وہ بھی جب اسلام آباد جائیں تو پاکستان اور بھارت کی اس بارے میں حوصلہ افزائی کریں کہ دونوں ملک براہ راست، بند دروازوں کے پیچھے افغانستان کے متعلق بات چیت کریں، اور یہ کام ان دونوں کو ہی کرنا ہے کیونکہ افغانستان میں طویل مدتی قیام ِامن کے لیے یہ چیز بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا ایک اور کام جو امریکی وزیر دفاع کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کی اس بارے میں حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر کسی نہ کسی طرح کی بات چیت کا آغاز کرے، جس میں دونوں ملک اپنے اُن باہمی شکوک اور مفادات کے بارے میں بات کریں، جو افغانستان میں ان کے لئے تصادم کا باعث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ أفغانستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکے گا، جب تک بھارت اور پاکستان افغانستان کے حوالے سے اپنے تنازعات کو حل نہیں کرتے۔
دورہ بھارت اور افغانستان میں پاکستان کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی پر مسلسل اپنی ناپسندیدگی کے بارے میں پیغام دیتا آ رہا ہے اور امریکی وزیر دفاع کا پاکستان نہ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے اشتراک کو کم اہمیت دے رہا ہے۔ تاہم ایسا کوئی اشارہ نظر نہیں آ رہا جس سے یہ ظاہر ہو کہ امریکہ، کم از کم اس وقت، پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرنے کا خواہاں ہے، اور جتنی بھی بیان بازی ہم سن رہے ہیں وہ دباؤ بڑھانے کے لیے ہے نہ کہ اس کا مقصد کسی قسم کا قدم اٹھانا ہے۔

ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ امریکہ نے جو کوئی بھی اقدامات اٹھائے ہیں وہ پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے کیے ہیں۔ امریکہ کو اب بھی پاکستان کی شمولیت کی ضرورت ہے۔ اور وہ اس طرح سے کہ امریکہ وہاں کسی بھی بغاوت کے کامیاب انسداد کے لیے پاکستان کے کردار کو انتہائی اہم سمجھتا ہے۔ اس لئے وہ پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

 نجم ہیرلڈ گل – واشنگٹن ڈی سی

 بشکریہ وائس آف امریکہ

کیا پاکستان اپنی سرزمین پر کسی مشترکہ فوجی کارروائی کی اجازت دے سکتا ہے؟

ایسے میں جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے اندر مبینہ پناہ گاہوں کے خلاف سخت اقدامات کا اعادہ کر چکے ہیں اور اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات بظاہر کشیدہ ہیں، کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کوئی ’’آوٹ آف باکس‘‘ حکمت عملی نقشہ تبدیل کر سکتی ہے۔ اور اس وقت امریکہ کا جھکاؤ اگر بھارت اور افغانستان کی طرف ہے تو پاکستان ایک بار پھر خطے میں عسکریت پسندی کے خاتمے میں مرکزی اہمیت حاصل کر سکتا ہے۔

سیدہ عابدہ حسین، پاکستان کی سینئر سیاستدان اور سابق سفیر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مشترکہ فوجی آپریشن کے فوائد ہیں۔ لیکن، پاکستان شاید ہی اس کی اجازت دے۔ تاہم، وہ افغانستان میں نیٹو فورسز کی کسی بڑی کامیابی کی مثال نہ ہونے پر تشکیک بھی رکھتی ہیں کہ ایسا کوئی مشترکہ آپریشن پاکستان میں کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کی فوج نے تن تنہا بہت کامیاب کارروائیاں کی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ملک پہلے کی نسبت کہیں زیادہ محفوظ ہے۔

بریگیڈیر (ر) سعد محمد دفاعی تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کبھی اپنی سرزمیں پر مشترکہ فوجی کاروائی کی اجازت نہیں دے گا اور افغانستان یا بھارت کے ساتھ تو بالکل نہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت پر اس حوالے سے اندرونی دباؤ بھی بہت ہو گا اور صورتحال کا فائدہ انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں اٹھا سکتی ہیں۔ تاہم، وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ پاکستان کو صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد ایسے اقدامات ضرور کرنے چاہیں جس سے امریکہ اور اتحادی ملکوں کی تشفی ہو۔ ان کے بقول، افغان طالبان کے ایسے دھڑوں تک ضرور پہنچنا چاہیے تو مذاکرات کے حامی ہیں، اس طرح ان کو جنگ پر بضد گروپوں سے الگ کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنے حالیہ بیانات میں کئی بار باور کرایا ہے کہ دہشتگردی ایک مشترکہ مسئلہ ہے اور اس کا حل عالمی اشتراک سے ہونا چاہیے۔ تاہم، پاکستان ملک کے اندر ڈرون حملوں یا کسی طرز کے سرجیکل حملوں کے امکانات کو بھی سخت انداز میں مسترد کرتا ہے اور اسے پاکستان کی سالمیت کے منافی خیال کرتا ہے۔

اسد حسن – واشنگٹن
بشکریہ وائس آف امریکہ

امریکی ناروا سلوک کے ذمہ دار ہم خود ہیں ؟

امریکہ 2003ء میں عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ کر کے اِس پر قابض ہونا چاہتا تھا اور عراق میں داخل ہونے کیلئے امریکہ کو آسان ترین راستہ پڑوسی ملک ترکی سے دستیاب تھا، امریکہ نے ترکی کو پیشکش کی کہ اگر ترکی امریکی افواج کو اپنی زمینی اور فضائی حدود فراہم کر دے تو اِس کے عوض ترکی کو 20 ارب ڈالر کی امداد دی جائے گی مگر ترک پارلیمنٹ نے ’’پرکشش امریکی پیشکش‘‘ کو متفقہ طور پر ٹھکراتے ہوئے اپنی زمینی اور فضائی حدود امریکہ کو فراہم کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد امریکہ، کویت کے راستے عراق میں داخل ہو کر قابض ہوا۔

عراق پر امریکی قبضے کے بعد ایک غیر ملکی صحافی نے ترک وزیراعظم سے سوال کیا کہ ’’امریکہ تو بالآخر عراق پر قابض ہو گیا مگر ترکی نے 20 ارب ڈالر کی امریکی پیشکش ٹھکرا کر بہت بڑی غلطی کی۔‘‘ ترک وزیراعظم نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’ہم نے امریکی پیشکش کو اِس لئے ٹھکرایا کہ کل عراق کی آئندہ نسلیں ہماری طرف اشارہ کر کے یہ نہ کہیں کہ قابض امریکی افواج ترکی کے راستے اُن کے ملک میں داخل ہوئی تھیں۔‘‘ 9/11 کے بعد افغانستان پر حملے اور قبضے کیلئے امریکہ کو پاکستان کے زمینی اور فضائی راستے کی ضرورت پڑی، اُس وقت پاکستان، افغانستان کا اتحادی تھا اور ملک میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف برسراقتدار تھے۔ اِسی دوران امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو نائب امریکی وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے 7 مطالبات پر مشتمل ایک فہرست پیش کی اور بعد ازاں ایک امریکی ٹیلیفون کال پر جنرل پرویز مشرف نے کابینہ کے اراکین سے صلاح و مشورہ کئے بغیر امریکی خوشنودی کیلئے وہ تمام مطالبات تسلیم کر لئے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

جنرل مشرف نے کسی تحریری دستاویز کے بغیر بلوچستان اور سندھ کے 3 فضائی اڈے امریکہ کو استعمال کرنے کی اجازت دیدی جہاں سے امریکی بی 52 بمبار طیارے اڑ کر افغانستان کے مسلمانوں پر بمباری کرتے رہے جبکہ امریکی ڈرون طیارے ہمارے ہی لوگوں کو نشانہ بناتے رہے۔ اسی طرح میرانشاہ اور دیگر قبائلی علاقوں میں امریکی افواج کو بیسز قائم کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی جہاں امریکی خفیہ ادارے کے ہزاروں اہلکاروں کو تعینات کیا گیا اور یوں پاکستان امریکی سی آئی اے کا سب سے بڑا اسٹیشن بن گیا۔ امریکہ کیلئے یہ خدمات انجام دیتے وقت جنرل پرویز مشرف نے اپنے قریبی فوجی ساتھیوں کو اعتماد میں لینا بھی مناسب نہ سمجھا۔ مشرف دور کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کے بقول وہ اور اُن کے دوسرے سینئر جنرلز اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان، امریکہ افغان جنگ میں مکمل غیر جانبدار رہے گا.

ایک موقع پر جیکب آباد ایئر فیلڈ کو جب امریکہ کے حوالے کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی گئی تو جنرل پرویز مشرف نے ہمیں یہ کہہ کر خاموش کروا دیا کہ ’’میں امریکہ کو کمٹمنٹ دے چکا ہوں، امریکہ بھارت کو افغانستان سے دور رکھے گا۔‘‘ اسی طرح سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل آصف نواز کے بھائی اور دفاعی تجزیہ نگار شجاع نواز نے یہ انکشاف کر کے تمام پاکستانیوں کو مزید حیرت زدہ کر دیا کہ جنرل پرویز مشرف نے امریکی زمینی افواج کو بلوچستان کے ساحل پر اترنے کی اجازت دی جہاں سے امریکی افواج قندھار میں داخل ہو کر افغانستان پر قابض ہوئیں جبکہ امریکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے جنرل مشرف نے اسلام آباد میں متعین افغان سفیر عبدالسلام ضعیف کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا اور پاکستان میں پکڑے جانے والے القاعدہ کے600 سے زائد مشتبہ افراد کو کسی عدالتی حکم کے بغیر سی آئی اے کے طیاروں میں بٹھا کر نامعلوم مقام یا گوانتانا موبے پہنچا دیا گیا۔

شجاع نواز کے بقول جنرل مشرف نے یہ سب کچھ امریکی خوشنودی کیلئے کیا تا کہ اقتدار کو طول دیا جا سکے۔ انہوں نے یہ تک نہ سوچا کہ کل امریکہ افغانستان پر قابض ہو کر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر دے گا اور وہاں بھارت کا اثر و رسوخ قائم ہو جائے گا۔ بعد میں ایسا ہی ہوا، امریکہ نے بھارت نواز حامد کرزئی کو افغانستان میں لانچ کیا جس نے افغانستان میں بھارت کو لا بٹھایا اور بھارت نے براہمداغ بگٹی کے ٹریننگ کیمپس کھلوا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک شروع کی۔ پاکستان کی تمام تر قربانیوں کے باوجود آج امریکہ نے پاکستان کے تمام احسانات کا بدلہ یہ دھمکی دے کر اتار دیا ہے کہ ’’امریکہ پاکستان کو اربوں ڈالر دیتا ہے لیکن پھر بھی پاکستان نے دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے مگر اب امریکہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر مزید خاموش نہیں رہے گا۔‘‘

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں بھارتی کردار کو سراہتے ہوئے پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے اور اتحادی ممالک کا درجہ واپس لینے کا عندیہ بھی دیا ہے جبکہ مزید 4 ہزار امریکی افواج افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی اور پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیان کے بعد خطے میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ افغان پالیسی کے جو خدوخال بیان کئے گئے ہیں، اُن سے خطرات کی بو آرہی ہے۔ امریکہ، افغانستان میں طالبان کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کے بعد افغان جنگ کا دائرہ پاکستان تک پھیلانے کی مذموم منصوبہ بندی کر رہا ہے تا کہ پاکستان میں افغانستان کی طرح خانہ جنگی کا ماحول پیدا کر کے اِسے اندرونی طور پر غیر مستحکم کیا جائے اور خطے میں بھارت کی چوہدراہٹ قائم ہو سکے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو بڑی حکمت اور جرات سے مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا اور امریکہ پر یہ واضح کرنا ہو گا کہ پاکستان امریکہ سے اب مزید کوئی ڈکٹیشن نہیں لے گا۔

آج امریکہ پاکستان کے ساتھ جو سلوک روا رکھ رہا ہے اور افغانستان بھارت کی زبان بول رہا ہے، اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ ہم امریکیوں کے ساتھ مل کر لڑتے رہے اور اپنی غیرت اور اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ آج امریکہ پاکستان کو کمزور اور بھارت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ ہم امریکہ میں تعینات سابق سفیر حسین حقانی کو اس لئے غدار قرار دیتے ہیں کہ اس نے امریکیوں کے ساتھ مل کر امریکی سی آئی اے سینکڑوں اہلکاروں کو ویزے جاری کئے جس کے نتیجے میں اسامہ کے خلاف آپریشن کامیاب ہوا اور دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنا۔ کیا پرویز مشرف کی امریکہ کیلئے دی گئی خدمات حقانی سے مختلف نہیں جو غداری کے زمرے میں آتی ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کو بہت زیادہ شدید نقصانات ہوئے۔

میرے نزدیک مشرف بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا حقانی جس نے پاکستان کو اپنے مفادات کیلئے نقصان پہنچایا۔ افغانستان میں تعینات ایک پاکستانی سفارتکار نے مجھے بتایا کہ افغانیوں کی آنکھوں میں جو نفرت پاکستان کیلئے انہوں نے دیکھی ہے، وہ کسی دشمن ملک میں نظر نہیں آئی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ نئی افغان نسل پاکستان کی طرف اشارہ کر کے یہ کہتی ہوں کہ قابض امریکی افواج پاکستان کے راستے ان کے ملک میں داخل ہوئی تھیں۔ کاش کہ ہماری قیادت نے ترکی کے دانشمندانہ فیصلے سے سبق سیکھا ہوتا۔ ہم اتنے سستے کیوں بک گئے؟ ایک ڈکٹیٹر نے اپنے مفادات کیلئے امریکہ کے ساتھ گھاٹے کا سودا کیوں کیا؟ آج جو سلوک امریکہ ہمارے ساتھ روا رکھ رہا ہے، اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔

مرزا اشتیاق بیگ