اور قابلِ رحم ہے وہ قوم…

مشہور لبنانی مصنف ادیب و شاعرخلیل جبران اپنی نظم “THE PITY NATION” جس کا اردو ترجمہ عظیم شاعر اور صحافی جناب فیض احمد فیض نے کیا ہے۔ یہ مجھے میرے عزیز ترین دوست نیوٹرو فارما کے جنرل منیجر جناب سیف اللہ صاحب نے موجو دہ حالا ت کی عکاسی کرتے ہوئے بھیجا ہے جو میں قارئین سے شیئر کروں گا۔ خلیل جبران فرماتے ہیں. قابل رحم ہے وہ قوم جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں مگر دل یقین سے خالی ہیں۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم جو ایسے کپڑے پہنتی ہے جس کے لئے کپاس ان کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی۔ اور قابلِ رحم ہے وہ قوم جو باتیں بنانے والے کو اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فا تح کو اپنا ان داتا سمجھ لیتی ہے۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی ہوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے مگر عالم بیداری میں مفاد پرستی کو اپنا شعا ر بنا لیتی ہے ۔

قابلِ رحم ہے وہ قوم جو جنازوں کے جلوس کے سوا کہیں اپنی آواز نہیں بلند کرتی اور ماضی کی یادوں کے سوا اس کے پاس فخر کرنے کا کوئی سامان نہیں ہوتا وہ اس وقت تک صورت حال کے خلا ف احتجاج نہیں کرتی جب تک اس کی گردن عین تلوار کے نیچے نہیں آ جاتی ۔ اورقابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے نام نہاد سیاستدان لومڑیوں کی طر ح مکار اور دھوکے باز ہوں اور جس کے دانشور محض شعبد ہ باز اور مداری ہوں ۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جو اپنے نئے حکمرانوں کو ڈھول بجا کر خوش آمدید کہتی ہے اور جب اقتدار سے محروم ہو ں تو ان پر آوازے کسنے لگتی ہے۔ اورقابل رحم ہے وہ قوم جس کے اہل علم و دانشور وقت کی گردش میں گونگے بہرے ہو کر رہ گئے ہوں ۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جو ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے اور جس کا ہر طبقہ اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو ۔

میرے ایک اور دوست نے ہمارے ملک کے تازہ ترین حالات کے مطابق اس نظم میں کچھ اضافہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قابل رحم ہے وہ قوم جو سگریٹ کی ڈبیا پر منہ کے کینسر زدہ بندے کی تصویر دیکھ کر بھی سگریٹ نوشی کر تی نظر آتی ہے، اور قابلِ رحم ہے وہ قوم جو اپنے سیاستدانوں کی کرپشن دیکھ کر بھی انہیں کندھوں پر اٹھائے پھرتی ہے اور انہیں ووٹ دینے کے لئے بے قرار ہے۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جو کئی سالوں سے شہید سیاستدانوں کو ابھی تک زندہ سمجھتی ہے اور ان کی برسیاں بھی مناتی ہے، اور قابل رحم ہے وہ قوم جس کے حکمران اربوں ڈالر سے بھی زائد قرضے آئی ایم ایف اور عالمی بنک سے لیکر موج مستیوں میں مصروف ہیں اور قابل رحم ہے وہ قوم جہاں پچاس فیصد سے زائد   آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندہ رہنے پر مجبور ہے مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔

اور قابل رحم ہے وہ قوم جس ملک کے ٹیلی ویژن کا چیئر مین یا چیف ایگزیکٹو پندرہ لاکھ روپے اور پیمرا کا چیئرمین پچیس لاکھ روپے ماہوار تنحواہ وصول کر رہے ہیں مگر بے چارے مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر ہے اور قابل رحم ہے وہ قوم جس کے منتخب اراکین پارلیمنٹ اپنی تنخواہوں میں ازخود ہر سال اضافہ کر لیتے ہیں، رکن پارلیمنٹ ، پارلیمنٹ میں آ ئے یا نہ آئے ماہوار تنخواہ اور الاؤنس ضرور وصول کرتا ہے۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جو اپنی زندگی کا پرائم ٹائم پرائیویٹ سیکٹر میں ملا زمت میں گزار دیتی ہے اور جب ریٹائر ہوتی ہے تو اسے صرف اولڈ ایج بیننی فٹس (ای او بی آئی) پنشن باون سو روپے دیئے جاتے ہیں ۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جس کے سرکاری افسران جی اور آر میں بیس کنال اور دس دس کنال کی کوٹھیوں میں رہتے ہیں ، ملک مقروض ہو چکا ہے، مگر یہ ا شرافیہ اپنی مو ج مستیوں میں مگن ہے۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جس کے تاجراور دکاندار مذہبی تہواروں خصوصاً رمضان شریف میں قیمتوں میں اضافہ کرتے وقت خوف خدا سے عاری نظر آتے ہیں۔

اور قابل رحم ہے وہ قوم جو جھوٹے وعدوں کے باوجود ان پر اعتبار کر لیتی ہے اور پھر انہیں ووٹ بھی دیتی ہے ۔ اور قابل رحم ہے وہ قوم جس کے لیڈران کی دولت، جائیدادیں، کاروبار اوربال بچے بیرون ملک رہتے ہیں، مگر وہ حکمرانی پاکستان میں کرتے ہیں ۔ ہماری قوم واقعی قابل رحم ہے جو ہر انتخاب میں ایسے لوگوں کو منتخب کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے، جنہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ عوام کی حالا ت بدلنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ جو ایک ایک حلقہ انتخاب میں کروڑوں روپے پارٹی فنڈ دے کر پارٹی ٹکٹ لیتے ہیں اور کروڑوں روپے لگا کر انتخاب جیتتے ہیں وہ صرف اپنی حالت بدلنا جانتے ہیں بے چاری قابل رحم قوم پانچ سال اسی اْمید پر گزاردیتی ہے کہ شاید ہماری حالت بدل جائے مگر ستر سال سے قوم کے ساتھ یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ واقعی قابل رحم ہے ہماری پاکستانی قوم۔

شہریار اصغر مرزا

دبئی نے اپنا مائیکرو سافٹ فونٹ بنا لیا

دنیا کی سب سے اونچی عمارت اور سب سے بڑے شاپنگ سینٹر کے حامل شہر دبئی نے اپنا مائیکرو سافٹ فونٹ بنا لیا ہے۔ یہ نیا فونٹ ٹائپ فیس ہے. جسے مائیکرو سافٹ کمپنی نے تیار کیا ہے اور یہ عربی اور لاطینی سکرپٹ میں ہے اور 23 زبانوں میں دستیاب ہو گا۔ حکومتی اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ سرکاری نمائندوں سے کہیں کہ وہ اسے استعمال کریں۔ دبئی کے شہزادے ہمدان بن محمد المختوم نے کہا ہے کہ اس فونٹ کی تیاری کے تمام مراحل میں انھوں نے بذاتِ خود حصہ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ‘ڈیجیٹل دنیا میں صفِ اول آنے کے لیے ہماری مسلسل کوششوں کے سلسلے میں یہ ایک اہم قدم ہے۔’

‘ہم پراعتماد ہیں کہ یہ نیا فونٹ اور اس کی امتیازی صفات دنیا بھر میں آن لائن اور سمارٹ ٹیکنالوجیز میں استعمال ہونے والے رسم الخط میں معروف ثابت ہو گا۔’ ادھر دبئی کے حکام کا کہنا ہے کہ ٹائپ فیس کا ڈیزائن جدت کا عکاس ہے اور یہ لاطینی اور عربی دونوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ٹائپ فیس کے تعارف سے متعلق ایک آن لائن اشتہار میں کہا گیا ہے۔ اپنی رائے کا اظہار آرٹ کی ایک قسم ہے۔ اگرچہ یہ آپ ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ آپ کیا ہیں، کیا سوچتے ہیں اور دنیا کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے آپ کو ایک ذریعے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس سب کو بیان کر سکے جو آپ کو کہنا ہے۔ ‘دبئی فونٹ بالکل ویسا ہی کرتا ہے۔ یہ ذاتی اظہار کے لیے ایک نیا عالمی میڈیم ہے۔

ڈان کی خبر کا معاملہ : ٹھنڈے دماغ سے کام لینے کی ضرورت ہے

جس چیز کو سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کے ایک دور کا خاتمہ ہونا چاہیے تھا، وہ
خاتمے کے بجائے ایک تازہ اور غیر ضروری بحران میں بدل گئی ہے۔ سیاست کی دھندلی دنیا میں اداروں کے درمیان تعلقات کے بارے میں حقائق جاننا ویسے تو بہت مشکل ہے، لیکن پھر بھی آگے بڑھنے کا راستہ تقریباً تلاش کر لیا گیا تھا۔ اس اخبار میں ایک خبر کی اشاعت کے تقریباً آٹھ ماہ بعد ایک انکوائری کمیٹی، جس میں فوج اور سویلین دونوں ہی کے نمائندے شامل تھے، نے ایک متفقہ رپورٹ اور سفارشات تیار کیں جنہیں وزیرِ اعظم نواز شریف کو پیش کیا گیا۔ حکومت نے عوامی سطح پر وعدہ کیا تھا کہ وہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات قبول بھی کرے گی اور نافذ بھی کرے گی۔ معلوم ہونے لگا تھا کہ معاملہ اب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔

مگر پریشان کن طور پر حکومت نے کمیٹی کی سفارشات کے اعلان کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ فوج نے اس معاملے پر حکومت کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اور نئے آرمی چیف جنرل باجوہ پانچ ماہ قبل قیادت سنبھالنے سے اب تک اس قومی سطح کے مسئلے میں مرکزی کردار کے طور پر تھے۔ یہاں سے آگے ٹھنڈے دماغ سے کام لینا چاہیے، اور اس کے لیے دونوں فریقوں کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ یقینی بنانا چاہیے کہ یہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔

حکومت کی جانب سے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات کو عوام میں لانے سے اس پر چھائے شکوک اور بدگمانی کے بادل ہٹ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ایک دوسرے سے متصادم پیغامات مزید عدم استحکام یا اس سے بھی خطرناک صورتحال کا سبب بن سکتے ہیں۔

یہاں تک کہ جب بحران پیدا ہوا تو وزیرِ داخلہ نثار علی خان کی پریس کانفرنس نے صرف شش و پنج میں اضافہ کیا۔ ایک موقع پر تو یہ بھی محسوس ہوا کہ شاید وزیرِ داخلہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان کی وزارت انتظامی طور پر وزیرِ اعظم کے دفتر سے بالاتر ہے۔

 تکنیکی باتیں جو کچھ بھی ہوں، لیکن اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ معاملے کو سلجھایا جائے، نہ کہ مزید الجھن پیدا کی جائے۔ اور حکومت کی جانب سے انکوائری کمیٹی کی سفارشات ہینڈل کرنے میں جو بھی خامیاں رہی ہوں، مگر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی ٹوئیٹ وہ لکیر تھی جسے نظام کی خاطر پار نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کیا آرمی چیف خود وزیرِ اعظم سے ذاتی طور پر بات کر کے فوج کے تحفظات دور کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتے تھے؟ یہ بھی ممکن نہیں کہ فوجی قیادت کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹوئیٹ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر جمہوریت سے بالاتر قدم قرار دیا جائے گا۔ شرمناک بات یہ ہے کہ ملک کی اپوزیشن جماعتیں باہمی اختلافات کی وجہ سے اس وقت جمہوریت کے برخلاف جا رہی ہیں. تمام جماعتوں کو فوری طور پر اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لینا چاہیے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 1 مئی 2017 کو شائع ہوا۔