حکومت طلبا اور تعلیم سے لا تعلق ہو چکی ہے؟

کیا پاکستان کی پرائیویٹ اور پبلک یونیورسٹیوں کے جملہ معاملات سے ہماری صوبائی اور مرکزی حکومتیں لاتعلق ہو چکی ہیں؟ کیا نجی اور سرکاری جامعات کو من مانی کرنے اور بے لگام ہو کر طلبا و طالبات سے من پسند اور بھاری فیسیں بٹورنے کی کھلی چُھٹی دی جا چکی ہے؟ کوئی پوچھنے والی ایسی اتھارٹی نظر نہیں آ رہی جو سرکاری اور نجی جامعات کی انتظامیہ سے استفسار کر سکے کہ داخلہ ٹیسٹوں میں بیٹھنے کے نام پر بھی طلبا و طالبات سے کمر شکن پیسے وصول کیے جا رہے ہیں۔ مجھے اس قیامت کا شاید معلوم ہی نہ ہو پاتا اگر مجھے گھر آئے کچھ بچوں کے مسائل سُننے کا براہِ راست موقع نہ ملتا۔ ابھی پچھلے ہفتے ملک بھر کے ینگ ڈاکٹروں پر پولیس نے جو مظالم ڈھائے ہیں، اس کی باز گشت ابھی تھمی نہیں ہے۔ اسلام آباد میں PMC کی عمارت کے سامنے احتجاجی طلبا اور پولیس کے درمیان جو افسوسناک تصادم ہُوا ہے، اس کا احوال سب نے دیکھا اور سُنا ہے۔

میرے بڑے بیٹے کے چار دوست ہمارے غریب خانہ آئے ہُوئے تھے۔ بیٹے سمیت پانچوں دوستوں نے حال ہی میں بی ایس انجینئرنگ کی ہے ۔ اب سب، اپنے اپنے پسندیدہ شعبوں میں، ایم ایس کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ بیٹھک میں بیٹھے وہ باتیں کر رہے تھے کہ اجازت لے کر مَیں بھی اُن کے پاس جا بیٹھا۔ سب اکٹھے ہی ایم ایس کی نئی کلاسوں میں داخلے کے خواہشمند تھے لیکن پہلے سب کو اسلام آباد کی تین یونیورسٹیوں میں علیحدہ علیحدہ داخلہ ٹیسٹوں کے ریٹرن مراحل سے گزرنا تھا۔ اور اس مرحلے سے بھی پہلے انھیں نجی اور سرکاری جامعات میں ٹیسٹ کے لیے داخلہ فیس بھرنی تھی۔ مَیں نے سب سے ٹیسٹ فیس بارے استفسار کیا تو خاصی حیرت بھی ہُوئی اور پریشانی بھی۔ ایک یونیورسٹی داخلہ ٹیسٹ کے لیے پانچ ہزار روپے، دوسری تین ہزار روپے اور چوتھی ڈھائی ہزار روپے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مجھے حیرانی اس بات کی تھی کہ صرف داخلہ ٹیسٹ کے لیے ہزاروں روپے کی فیس چہ معنی دارد؟

ٹیسٹ کا سوالنامہ صرف ایک چھوٹے سے کاغذ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور بس۔ ٹیسٹ میں بیٹھنے والے بچے اپنے خرچ پر یونیورسٹی پہنچتے ہیں۔ کمرۂ امتحان میں صاف پانی تک فراہم نہیں کیا جاتا۔ پھر یہ ہزاروں روپوں میں ٹیسٹ فیس کس مَد میں؟۔ میرا تجسس بڑھا تو دوسرے روز میں خود ایک جامعہ کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ پہنچ گیا۔ میرا بیٹا مجھے منع ہی کرتا رہا لیکن مَیں پہنچ گیا۔ متعلقہ شعبے کے ذمے دار کلرک بادشاہ سے ہزاروں روپے میں وصول کی جانے والی اس داخلہ ٹیسٹ فیس کی جزئیات بارے کچھ سوالات پوچھے۔ کوئی مناسب اور شافی جواب دینے کے بجائے وہ حضرت تو میرے بال نوچنے کو آگئے۔ میرا بیٹا تمیز کے ساتھ خاموش دیکھتا رہا۔ وہ بولا تو بس یہ بولا: ’’بابا، اسی لیے مَیں نے آپ سے کہا تھا کہ ان لوگوں سے وجہ جاننے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، چلیے گھر چلتے ہیں۔‘‘گھر تو مَیں آگیا لیکن تب سے مسلسل خود اذیتی کے عذاب میں مبتلا ہُوں۔

زیادہ اذیتناک بات یہ ہے کہ جو کم وسائل والدین اپنی ساری اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہاں جائیں؟ کہاں فریاد کریں؟ وہ یہ بھاری داخلہ ٹیسٹ فیسیں کہاں سے پوری کریں؟ اور اگر داخلہ ہو بھی جاتا ہے تو ہر سمسٹر پر لاکھوں روپے کی فیس کہاں سے لائیں؟ یاد رہے کہ ’’وطنِ عزیز‘‘ کی ہر پرائیویٹ اور پبلک یونیورسٹی میں ہر سمسٹر کی فیس لاکھ ، سوا لاکھ روپے سے کم نہیں ہے۔ فیس کے علاوہ بچے اور بچی کے کپڑوں، ٹرانسپورٹ، ہوسٹل، جیب خرچ پر ہزاروں روپے کے اخراجات اضافی طور پر اُٹھتے ہیں۔ گویا جامعہ نجی ہو یا سرکاری، فی سمسٹر ایک بچے پر کم ازکم دو لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔ ایک سال میں چار لاکھ روپے سے زائد۔ اور اگر کسی والدین کے تین بچے بیک وقت یونیورسٹی گوئنگ ہوں اور والد کی تنخواہ ہی پچاس ساٹھ ہزار روپے ہو، وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کیسے دلوا سکے گا؟

یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کی یونیورسٹیوں سے یہ تبدیلی حکومت لا تعلق ہو چکی ہے ۔ یہ بیگانگی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جامعات کی انتظامیہ بے مہار اور بے مہر ہو چکی ہیں۔ ان پر کوئی چیک رہا ہے نہ نگرانی کا کوئی معیار۔ حکومت کی طلبا و طالبات کے مسائل اور مصائب سے لا تعلقی اس’’ بلندی‘‘ پر پہنچ چکی ہے کہ HEC نے ذہین ترین طلبا و طالبات کے وظائف روک دیے ہیں۔ ایچ ای سی سے پوچھا جائے تو وہ کھرا سا جواب دیتی ہے: ہم کیا کریں؟ تبدیلی سرکار نے ہمارے فنڈز روک رکھے ہیں یا فنڈز میں کٹوتی کر دی ہے۔ ایچ ای سی کے بَین سُنے جائیں تو وحشت میں اپنا گریباں چاک کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ نوبت ایں جا رسید کہ غیر ممالک میں سرکاری وظائف پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے گئے ہمارے طلبا کے تبدیلی سرکار نے مبینہ طور پر وظائف بھی بند کر دیے ہیں۔ وہ بیچارے وہاں بیٹھ کر سینہ کوبی کررہے ہیں۔

حکومت کے کانوں پر مگر جُوں تک نہیں رینگ رہی ۔ یوں احساس ہو رہا ہے جیسے اِس حکومت اور اس کے ذمے دار کار پردازوں کو تعلیم نام کی ہر شئے سے بیزاری ہے۔ تعلیم حاصل کرنا اور تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا کبھی ایسا دشوار اور پیچیدہ نہیں تھا جتنا اب کر دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے اٹھارویں ترمیم کے تحت تعلیم کو ویسے بھی اپنے ہاں سے ’’دیس نکالا‘‘ دے رکھا ہے۔ پھر تعلیم زدگان اپنے دکھ رکھیں تو کس کے سامنے رکھیں؟ وزیر اعظم صاحب انگریزی زبان کے خلاف بیان بازی کر کے اپنی پاپولسٹ سیاست کا شوق پورا کر رہے ہیں اور پنجاب میں اُن کے وزیر تعلیم کی زبان پر اُردو کم اور انگریزی زیادہ رواں نظر آتی ہے۔ ویسے سارے ملک میں ایک ہی نصابِ تعلیم کو متعارف کروانے کا حکومتی بیانیہ بھی خوب ہی لطیفہ ہے۔ لطائف ہر جگہ نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے میڈیا پر اُن تعلیمی مسائل پر بات کرنا ویسے بھی عنقا ہو چکا ہے جن سنگین اور بنیادی سوالات کی اساس پر والدین کی درد سری روز بروز بڑھ رہی ہے۔

سیاست کاری کا شوق ہر مسئلے پر غالب ہے۔ تعلیم اور تعلیم یافتگان سے ریاست مکمل طور پر بیگانہ ہو چکی ہے ۔ ویسے ریاست کا اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے حُب الوطنی کا مطالبہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ریاست اور ریاستی ادارے اگر دانستہ اپنے تعلیم یافتگان کی روزی روٹی کا بنیادی اور ضروری بندوبست ہی نہ کر سکیں تو حُب الوطنی کے گیت کس زبان سے کیسے ادا ہوں گے؟ معروف کہاوت ہے بھرا پیٹ فارسیاں بولتا ہے ۔ خالی پیٹ اور بے روزگاری زدہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان حُب الوطنی کی آواز لگائے گا تو کہاں سے ؟ ایک ادارے (PIDE) نے سروے شایع کیا ہے کہ پاکستان میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی شرح 21 فیصد ہے ۔ کیا یہ شرح ہمارے حکمرانوں کے لیے قابلِ فخر ہو سکتی ہے؟ معروف ادارے ’’گیلپ‘‘ نے ایک سال قبل سروے کروایا تھا جس میں یہ نتیجہ نکلا کہ پاکستان میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری ہولڈرز خواتین میں سے 60 فیصد بے روزگار ہیں۔ پاکستان بنا تو اُس وقت ملک میں صرف دو جامعات تھیں جن میں صرف 600 طلبا زیر تعلیم تھے۔ آج ان نجی اور سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد 200 ہو چکی ہے اور ملک میں بے روزگاری کا سیلاب گردن تک آ پہنچا ہے ۔ پروا مگر کسے ہے؟

تنویر قیصر شاہد

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بہترین سی وی لکھنے کا طریقہ

ایمینی سینر  نے لکھا کہ ” ایک سروے کے بعد یہ سمجھ آ گئی کہ اکثر کمپنیوں کے مالکان اور ان کی جانب سے رکھے گئے ایچ آر منیجرز کسی کو رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اکثر اوقات بھرتی یا مسترد کرنے کا فیصلہ 60 سیکنڈ کے اندر اندر کر دیا جاتا ہے۔ ‘ایڈیکو ریٹیل ‘  نے ایک ہزار افسروں سے پوچھا کہ بھرتی کرنے کا فیصلہ وہ کتنی دیر میں کر لیتے ہیں ؟ تو ان کا مجموعی جواب تھا کہ یہ فیصلہ 34 سیکنڈ میں کر لیا جاتا ہے‘‘۔ ایک ہزار ماہرین نے مزید بتایا کہ ”انہیں سی وی دیکھتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ نوجوان نے کون کون سی باتیں جھوٹی لکھی ہیں۔ سی وی میں بیان کردہ خوبیاں عمر، تجربے اور کیریئر میں بھی نظر آنا لازمی ہیں ۔ بسا اوقات نوجوان اتنا زیادہ تجربہ لکھ دیتے ہیں جو ان کی عمر اور تعلیم سے میل نہیں کھاتا۔ یا اگر کوئی انگریزی زبان کی اغلاط ہیں اور نوجوان خود کو ایم اے انگریزی کہہ رہا ہے تو اسے بلانے کی بھی ضرورت نہیں ہے‘‘۔

اتنے کم وقت میں انہیں سی وی (بائیو ڈیٹا کی ترتیب ) اور درخواست دہندہ کے حلیے اور چال ڈھال کو دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ نوجوان ان کے قابل ہے بھی یا نہیں۔ مارکیٹنگ میں بھرتی ہونے کے لئے ایک نوجوان انٹرویو کمیٹی کے روبرو پیش ہوا، کمیٹی نے اس کی شخصیت کے بارے میں سوال کیا تو اس نے عاجزی سے جواب دیا۔ کمیٹی حیران رہ گئی کہ جو شخص اپنی مارکیٹنگ نہیں کر سکتا وہ کسی دوسرے کی مارکیٹنگ کیا کرے گا۔ یہ سوچتے ہی انہوں نے پہلے سوال کے جواب میں ہی اسے نہ رکھنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ دیگر سوالوں کے جواب سے درست ثابت ہوا ۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ سی وی کو کھینچ تا ن کر لمبا لکھنے سے گریز کیجئے، جو آپ نہیں ہیں وہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ دوسرے ہی سوال میں اپنی بے جا تعریفوں کا پول کھل جائے گا اور آپ انٹرویو کمیٹی کے سامنے ڈھیر ہو جائیں گے۔

جیسا کہ ایک بے روزگار نے لکھا کہ ”مجھے بک ریڈنگ کا بڑا ہی شوق ہے‘‘۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ آخری کتاب کون سی پڑھی ہے تو کوئی جواب نہ بن پایا۔ یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ آجر کو آپ کے سی وی میں کوئی جھوٹ یا غلطی نہیں چاہیے، ایسا ہوا تو یہ مسترد ہونے کی علامت بن سکتا ہے عین ممکن ہے کہ انٹرویو کی کال ہی نہ آئے۔ لہٰذا مشغلے میں وہی کچھ لکھئے جس کی آپ کمانڈ رکھتے ہوں ،اول تو سی وی کو زیادہ وسعت دینے کی ہرگز ضرورت نہیں، اس میں چیدہ چیدہ باتوں کو ہی بیان کیجئے۔ ایچ آر کے ماہرین کے مطابق ایک یا زیادہ سے زیادہ سوا صفحے پر مشتمل سی وی بہترین سمجھی جاتی ہے۔ مگر ہر نکتے کی جزئیات بیان کیجئے۔ ”چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف پرسنل اینڈ ڈویلپمنٹ ‘‘ کے ڈیوڈ ڈی سوزا کا کہنا ہے کہ ”سب سے پہلے جاب کی تفصیلات پر غور کیجئے اور یہ دیکھئے کہ اس معیار پر پورا اترنے کے لئے کن خوبیوں کا ہونا ضروی ہے۔ پہلے خود یقین کیجئے کہ آپ وہ کام بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں یا نہیں۔

کچھ آجر کورنگ لیٹر کو پسند کرتے ہیں لیکن اکثر آجر ایسا نہیں کرتے وہ براہ راست آپ کی خوبیوں کو جاننا چاہتے ہیں لہٰذا یہی طریقہ اختیار کیجئے ۔ ایچ آر کی ماہر رتھ کورنش کا کہنا ہے کہ ”بہت زیادہ استعمال ہو جانے والے الفاظ سے گریز کیجئے جیسا کہ انتہائی محنتی، ٹیم لیڈر بننے کی صلاحیت کا حامل ، پرجوش وغیرہ۔ یہ باتیں تجربے یا تعلیمی سرٹیفکیٹ میں جھلکنا چاہئیں۔ لیکن اگر آپ لکھنا ہی چاہتے ہیں تو یہ لکھئے کہ آپ اس جاب کے لئے کیوں موضوع ہیں اور اپنا پلان بیان کیجئے لیکن بہت مختصر‘‘۔ اس لئے سی وی کو بار بار پڑھیے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کیجئے ۔ رتھ کورنش نے بتایا کہ ”کچھ نوجوان بعض جگہ بہت ہی بڑا فونٹ استعمال کر لیتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے، سوچ سمجھ کر مناسب فونٹ استعمال کیجئے۔

فونٹ کا استعمال بھی کم اہم نہیں ، کیونکہ ا سے سائنسی ذہن رکھنے والے آجر کو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ آپ کی ترجیحات کیا ہیں۔ اور یہ کہ آپ نے درست ترجیحات کا تعین کیا ہے یا نہیں‘‘۔ ضرورت کے مطابق کسی کو بولڈ کیجئے اور کسی کو کم نارمل انداز میں لکھئے۔ اپنے بارے میں کچھ لکھتے وقت ڈرنے کی ضرورت نہیں جو کر سکتے ہیں وہی بیان کیجئے‘‘۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تصاویر مانگی جائیں تب ساتھ لگانا ضروری ہیں ورنہ کچھ آجر اور ایچ آر ایکسپرٹ تصاویر پسند نہیں کرتے۔ ایسی کوئی بات ضرور لکھئے جس سے آپ کی کام سے انسیت یا رغبت ظاہر ہو۔

طیب رضا عابدی

بشکریہ دنیا نیوز

بڑے لوگ پیدا ہونے سے باز نہ آویں گے

دنیا میرا ڈونا سے پہلے بھی رواں تھی۔ اس کے بغیر بھی رواں ہے اور رہے گی۔میراڈونا سے پہلے بھی فٹ بال کے بہت ستارے ابھرے، اس کے ہوتے ہوئے بھی عالمی معیار کے کھلاڑیوں کی کمی نہیں تھی ، آیندہ بھی نہیں ہو گی۔ کروڑوں لوگ میراڈونا کے لیے جتنے افسردہ ہیں میں اتنا ہی پرامید ہوں۔ جب تک محرومی، غربت، ذلت اور ارادے جیسی نعمتیں موجود ہیں تب تک یہ دنیا عظیم کرداروں سے خالی نہیں ہو سکتی۔ پچھلے سات ہزار برس کے تمام اولیا، اہلِ سخاوت، انقلابیوں، باغیوں ، شعلہ بیانوں ، نثرنگاروں، شاعروں، فلسفیوں ، مورخوں ، وقایع نگاروں ، اساتذہ ، سورماؤں، محققین ، سائنسدانوں ، موجدوں، تاجروں، ارب پتی صنعت کاروں، بینکاروں، کھلاڑیوں ، مہم جوؤں ، جہاز رانوں، سیاحوں ، تعمیراتی ماہرین ، موسیقاروں ، اداکاروں سمیت کسی بھی شعبے کی فہرست اٹھا لیں۔ ننانوے فیصد نے غربت میں آنکھ کھولی، محرومیوں کی گھٹی پی، ذلتوں کا وزن اٹھایا اور ارادوں پر سواری کرتے ہوئے عظمت کی سیڑھیوں پر درجہ وار جا کر بیٹھ گئے۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں ایسے لوگوں کے احسانات نظرانداز کروں کہ جنھوں نے متمول ماحول میں آنکھ کھولی، سونے کا نوالہ دیکھا ، آسودگی کے پروں تلے پرورش پا کر اعلیٰ مقام تک پہنچے اور دنیا کو اور بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا اور اپنے ارد گرد سے نکل کے باقی انسانوں کے لیے بھی سوچا۔ اس کی سب سے درخشاں مثال گوتم بودھ ہے۔ مگر آسودگی کی گود میں پرورش پانے والے عظیم دنیا بدل لوگوں کی تعداد غربت اور محرومی سے نکلنے والے عظام کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شائد یہ ہو کہ اہلِ ثروت اگر آگے بڑھنے میں ناکام بھی رہیں تو انھیں سنبھالنے کے لیے کئی مددگار ہاتھ اور چند مضبوط کندھے میسر رہتے ہیں۔ اگر نا بھی ہوں تو وہ اپنی ناکامی وضع داری کے پلو میں چھپا لیتے ہیں۔ مگر کچی بستیوں کے گلیاروں پلنے والا یا بند گھٹن زدہ سماجی و معاشی ناہمواری کی فضا میں سانس لینے والا کوئی بچہ یا بچی اونچائیاں چھونے کے خواب دیکھتا ہے تو ابتدا میں اس کا ہاتھ پکڑنے والا وہ خود ہی ہوتا ہے۔

اسے گھر میں اور گھر کے باہر تمسخر و طعنہ زنی کا راتب ملتا ہے۔ اسے سنکی سمجھا جاتا ہے۔ اس پر ترس کھایا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں پیش گوئیوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں کہ یہ گھر کو تو خیر کیا سنبھالے گا خود کو ہی سنبھال لے تو بڑی بات ہے۔ اسے ہر آن زندگی کا رندہ چھیلتا رہتا ہے۔ اس کے اردگرد ناکامیوں، ناامیدوں، گریہ بازوں اور کم نظروں کی ایک فوجِ ظفر موج ہمہ وقت رہتی ہے۔ وہ تنہائی گزیدہ اپنے ارادے، منصوبے، خدشات اور امیدوں کا رازداں ایک آدھ کو ہی بنا سکتا ہے۔ وہ ایک آدھ جو اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے سرگوشی کرتا رہتا ہے ’’ ہارنا نہیں ایک نہ ایک دن تیرا بھی آئے گا بس تو لگا رہ ‘‘۔ میں ایک بار اسکردو سے خپلو جانے والے تنگ اور خطرناک راستے پر سفر کر رہا تھا۔ اچانک ایک موڑ پر ایک بورڈ نظر آیا ’’ یہاں غلطی کا موقع صرف آخری بار ملتا ہے ‘‘۔ سوچیے اپنی مدد آپ پر مجبور جو بچے یا بچیاں عظیم خوابوں پر سوار ہو کر اندھے مستقبل میں چھلانگ مارنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ان کے ذہن پر کیسا کیسا بوجھ ہوتا ہو گا۔کیسے کیسے خدشاتی اژدھے ان کو لپیٹے رہتے ہوں گے۔ خبردار ذرا سی لغزش اور پلٹنے کا ایک بھی موقع نہیں۔

شکستگی نے یہ دی گواہی بجا ہے اپنی یہ کج کلاہی
سنو کہ اپنا کوئی نہیں ہے ہم اپنے سائے میں پل رہے ہیں
( احمد نوید )

اور جب وہ اندھے مستقبل میں چھلانگ مار کر گمنامی و صدمے کی کھائی میں گرنے کے بجائے خود کو سنہرے مستقبل کی گود میں پاتے ہیں تو سب سے پہلے ان کی زندگی کے تمام ولن و حاسد و ریاکار ان کی جانب یہ کہہ کر دوڑ پڑتے ہیں کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے تو ایک نہ ایک دن یہ کمال کر دکھائے گا، دراصل ہمارا یہ بچہ شروع سے ہی باقی بچوں سے الگ تھا، ہماری گودوں میں کھیلا ہے نا۔ ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا وغیرہ وغیرہ۔ جولیس سیزر سے ہوچی منہہ تک، ایڈیسن، ہنری فورڈ ، عبدالسلام سے بل گیٹس تک ، دلیپ کمار سے شاہ رخ خان تک ، نور جہاں سے ریشماں تک، کالی داس سے منٹو تک ، موزارٹ سے اے آر رحمان تک، وان گاف سے شاہد رسام تک ، جانی واکر سے معین اختر تک، میر صاحب سے سبطِ علی صبا تک، ڈاکٹر قدیر سے اے پی جے عبدالکلام تک ، محمد علی سے پیلے اور میرا ڈونا تک اگر میں ہر شعبے میں نام لیتا چلا جاؤں تو کئی جلدیں درکار ہیں۔

مگر میں نوحہ گر ہوں ان لاکھوں بچوں کے لیے جن میں بے شمار بڑے لوگوں کے ہم پلہ ہونے کے تمام اجزائے ترکیبی موجود تھے ، ہیں اور رہیں گے لیکن وہ اور ان کے خواب برابری کے مواقع نہ ملنے اور ہوش سنبھالتے ہی حوصلہ کچل دیے جانے کے سبب تاریک راہوں پر دھکیل دیے گئے اور دھکیلے جاتے رہیں گے۔ اور میں سلام کرتا ہوں ان بچوں کے والدین اور بھائیوں بہنوں کو جنھوں نے اپنا مستقبل سنوارنے کے بجائے اپنے کسی ایک بچے اور بچی کی اصل صلاحیتیں پہچان کر تمام پونجی اور توانائی اس بچے پر لگا دی اور اس کے شاندار مستقبل کی بنیاد کا پتھر بن گئے اور بچے نے بھی اپنے محسنوں کا سر فخر سے بلند کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہی زندگی ہے۔ نہ نظام بدلے گا نہ بڑے لوگ پیدا ہونے سے باز آویں گے۔ اور معجزہ کیا ہوتا ہے؟

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

غریب کیوں غریب ہے؟

ہمارے ملک کے کئی المیوں میں‘ میرے نزدیک سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف دولت کے انبار ہیں‘ تقریباً ناجائز‘ لوٹ مار سے بنائی ہوئی دولت کے انبار‘ اور دوسری طرف غربت اس حد تک کہ چالیس فیصد بچوں کی غذائی ضرورت پوری نہ ہونے کے موجب ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما نہیں ہو پاتی اور ان کی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت محدود رہ جاتی ہے۔ غریب خاندانوں میں زیادہ بچوں کا رجحان نہایت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے‘ لیکن ہمارے حکمرانوں کی توجہ کہیں اور ہے۔ ذاتی خزانے بھرنے‘ سیاسی جنگیں لڑنے‘ حکومتیں گرانے‘ اقتدار پر قبضہ کرنے اور کرسیٔ اقتدار پہ قائم رہنے کی ہوس نے قومی مسائل کو ہر گزرتے سال کے ساتھ مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اقتدار میں ہوں تو کچھ کرتے نہیں‘ حزبِ اختلاف میں ہوں تو کچھ کرنے نہیں دیتے۔ انہیں کیا فکر‘ سیاست بازی‘ اکھاڑ پچھاڑ‘ جلسے جلوس‘ بنتے بگڑتے سیاسی اتحاد ان کا مشغلہ‘ ان کیلئے کھیل ہے۔ مشکل فیصلے اور وہ بھی جو آسانی سے ہو سکتے ہیں‘ ہمیشہ تاخیر کا شکار رہے ہیں۔

آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ کسی محکمے اور کسی شعبے کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے تو ردِ عمل اتنا شدید آتا ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو‘ ڈر کے مارے کچھ کر نہیں سکتی۔ غربت‘ عدم مساوات اور آبادی کا دبائو عام مسائل نہیں ہیں۔ ایسے مسائل قوموں اور ملکوں کو تباہ کر سکتے ہیں‘ اور انہوں نے ہر جگہ ایسا کیا ہے‘ معاشرے میں بدامنی اور بے حسی پھیلتی جاتی ہے‘ کوئی بھی حکومت ان کو روکنے کے قابل نہیں رہتی‘ یوں حالات بے قابو ہو جاتے ہیں۔ سیاست باز بے چینی پر پلتے‘ پھلتے‘ پھولتے اور ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ سیاست میں طوفان اٹھتے ہیں تو یہی مسائل دگنے چوگنے ہو جاتے ہیں۔ سیاست باز تو اپنا اور اپنے حواریوں کا گھر آباد رکھتے ہیں‘ مگر اس عمل کے نتیجے میں قوم برباد ہو جاتی ہے۔ قومیں کیوں تباہ ہوتی ہیں یا کیسے سنورتی ہیں‘ یہ کوئی اجنبی موضوع نہیں ہے۔ سیاسیات کے طلبا کو تو یہ ازبر کرایا جاتا ہے اور عمرانی علوم کے ہر شعبے میں تاریخ اور مشاہدات کی روشنی میں سبق دیئے جاتے ہیں کہ جو راستہ اور طرزِ حکمرانی غالب طبقے منتخب کریں گے‘ اس سے قومیں بن یا بگڑ سکتی ہیں‘ اور جب بگڑے‘ تباہ حال معاشروں کا ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کیا جائے تو انگلی ان کی طرف اٹھے گی‘ جو مسندِ اقتدار پر تقریباً نصف صدی تک براجمان رہے۔ قرضے کئی گنا چڑھا دیئے اور حالت یہ ہے غریب طلبہ کیلئے سکولوں اور جامعات میں پڑھنے کیلئے فیسیں تک نہیں ہیں۔

خاکسار کے غربت کے حوالے سے کئی ذاتی مشاہدے ہیں‘ جن کی وجہ سے میں بہت بے چین رہا ہوں۔ غربت کو کسی ایک علاقے سے منسوب یا مخصوص کرنا ایک روایتی سی بات لگتی ہے۔ ہر جگہ غریب لوگ بس رہے ہیں۔ چلو یہی کہہ دیتے ہیں کہ پنجاب کے ایک پس ماندہ ضلع میں ایک غریب اور یتیم بچے کا گزشتہ ہفتے قریبی سرکاری جامعہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں داخلہ ہو گیا۔ عجیب بات ہے کہ ایک دن اطلاع ملی‘ دوسرے دن فیس جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ فیس بھی کوئی بہت زیادہ نہیں‘ صرف بائیس ہزار ایک سو روپے۔ عدم مساوات دیکھیں‘ اتنی رقم ہمارے شہروں کے باسی شام کے ایک معمولی کھانے پہ خرچ کر ڈالتے ہیں۔ خیر فیس کا تو بندوبست ہو گیا‘ مگر معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ طالب علم کہاں ہے اور کیسے اگلے روز فیس جمع کرائی جائے۔ معلوم ہواکہ وہ کراچی مزدوری کرنے کے لئے گیا ہوا ہے تاکہ کچھ پس انداز کر کے اپنی فیس جمع کرا سکے۔ کئی سال پہلے بھی ایسا واقعہ ذاتی مشاہدے میں آیا تھا۔ کسی قریبی محلے میں کچھ گھر زیرِ تعمیر تھے۔

مزدوروں میں ایک نوجوان مختلف سا دیکھا۔ وضع قطع سے پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا۔ گلی کوچوں میں مٹر گشت اور اجنبی لوگوں سے بات چیت کرنا خاکسار کا سطح پر رہ کر معاشرے اور انسانوں کو سمجھنے کا پُرانا طریقہ ہے۔ مشقت سے اسے ذرا فراغت ملی تو تاریخ و جغرافیہ معلوم کیا۔ اس نے ایف اے کر رکھا تھا‘ اور چارسدہ سے اسلام آباد میں مزدوری کرنے کیلئے آیا ہوا تھا۔ وہ بھی محنت مزدوری کر کے کالج میں داخلے کی فیس جمع کرانے کا خواہش مند تھا۔ یہ دونوں نوجوان میرے نزدیک بہت خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر لیا۔ کاش علم کی دولت حاصل کرنے کا جوش و جذبہ سب میں موجزن ہو جائے۔ غربت سے نکلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے‘ علم اور صرف علم۔ سوچتا ہوں‘ اگر ہم اپنے قومی میزانیے کا اتنا ہی حصہ تعلیم پر خرچ کرتے‘ جتنا سری لنکا اور بنگلہ دیش کر رہے ہیں تو غربت اور عدم مساوات کا اب تک خاتمہ ہو سکتا تھا۔ چلو دیر سے سہی‘ یہ کام تو کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔

دکھ سے کہتا ہوں کہ ہماری دو بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی سیاست بازی کے درمیان ایک اور دس سالہ غیر منتخب حکومت‘ یوں سمجھیں کہ نصف صدی ضائع ہو گئی۔ ظلم یہ ہے کہ ”جمہوریت‘‘ کا جھنڈا اٹھا کر جعلی گھسے پٹے بیانیوں اور تقریروں کے سہارے ملک کے اقتدار پر ان کی اگلی نسل قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انہیں صرف وہی جمہوریت اور انتخابات پسند اور قابلِ قبول ہیں‘ جو ان کو اقتدار میں لے آئیں‘ لیکن اس پر ذرا غور کریں کہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے والے تیسری‘ چوتھی اور پانچویں دفعہ وطنِ عزیز یا ہم جیسے بدنصیب دیگر ممالک میں سیاست اور معاشرت پر کیوں غالب رہتے ہیں؟ ہر جگہ جواب ایک ہی ہے۔ عوام کو ان پڑھ‘ غریب اور محتاج رکھ کر تحصیل سے لے کر وفاقی اداروں تک نظام ہی ایسا وضع کیا گیا کہ براہ راست شہریوں کیلئے انصاف‘ حقوق اور کسی بھی سرکاری ادارے سے معمولی نوعیت کا کام بھی کسی کی سفارش کے بغیر کرانا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ دوسرا راستہ نوٹوں کی راہداری ہے‘ مگر غریب کہیں پھنس جائے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔

غربت اور مفلسی کے نتیجے میں صرف غالب طبقہ اقتدار میں رہتا ہے‘ عوام ان سے سوال کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ یہ ہیں جھنڈے اٹھا کر ہمارے رہنمائوں کی گاڑیوں کے دھوئیں اور گرد میں لپٹے نعرے لگانے والے۔ مغرب اور امریکہ میں بھی جلسے اور جلوس نکلتے ہیں‘ مگر لوگ لائے نہیں جاتے‘ خود آ تے ہیں‘ نہ آنا چاہیں تو کوئی ان کو مجبور نہیں کر سکتا۔ ووٹ وہ اپنی مرضی سے دیتے ہیں۔ یہاں بھی سب لوگ تو کسی کے دبائو میں آ کر یہ سب کچھ نہیں کرتے‘ مگر ہمارے دیہاتوں اور شہروں کے غریب محلوں میں بے بسی لوگوں کو جھنڈے اٹھانے پر مجبور رکھتی ہے۔ میرے جیسے خاکسار کی آزادی صرف تعلیم کے سہارے ہے۔ اگر اس سے محروم رہ جاتا‘ تو جیسے ہماری کئی گزری نسلیں رہیں‘ پتہ نہیں کیا زندگی ہوتی؟ اس شعبے میں تقریباً نصف صدی تک تدریس کا تجربہ ہے‘ اور سفر ابھی جاری ہے۔ ہزاروں طلبہ جامعات میں سنورتے دیکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے‘ جو سرحدی علاقوں سے‘ بلوچستان کے قبائلی اور انتہائی مفلس گھرانوں سے آئے تھے۔ تعلیم نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔

جامعات میں تعلیم نہ صرف آزادی‘ ہنر اور زندگی کا سلیقہ سکھاتی ہے بلکہ دل اور ذہن بھی منور ہو جاتے ہیں‘ دنیا کی سب گرد دھل جاتی ہے۔ بات معمولی فیسوں سے چلی تھی۔ کپتان کی حکومت نے تو یہ قدم ایسا اٹھایا ہے کہ مثال نہیں ملتی۔ پچاس ہزار احساس وظیفے ہر سال غریب طلبہ کو دیئے جا رہے ہیں۔ میں تو ایک قدم آگے جائوں گا‘ کوئی بھی طالب علم داخلہ مل جانے کی صورت میں تعلیم سے اس لئے محروم نہ رہے کہ وہ فیس ادا نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے جامعہ کے منتظمین کو بندوبست کرنا چاہئے‘ صوبائی حکومتیں زیادہ رقوم اس مقصد کیلئے وقف کریں۔ دنیا بھر میں ہر جگہ تعلیمی ادارے اربوں میں چندہ جمع کرتے ہیں‘ صرف حکومت کی گرانٹ پر اکتفا نہیں کرتے۔  پاکستان اس قدر کمزور ریاست نہیں ہے کہ اسے بنیادی اُصول سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکے۔

رسول بخش رئیس

بشکریہ دنیا نیوز

اصغر مال کالج : جسم کا رؤاں رؤاں اس درسگاہ کا شکر گزار ہے

اس کالم کی پہلی قسط ڈاکٹر شاہد صدیقی نے دو تین دن پہلے انہی صفحات پر لکھی‘ گویا دبستاں کھول دیا ع
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں گورنمنٹ کالج اصغر مال میری بھی مادر درسگاہ ہے۔ اس کے درودیوار میرے بھی دل پر نقش ہیں۔ دو سال جو وہاں گزرے‘ ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزارے گئے عرصہ کے بعد‘ عمر کے بہترین دو سال ہیں۔ سترہ سال کا تھا جب بی اے کے لیے اس عظیم الشان دارالعلم میں داخل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب درسگاہیں واقعی درسگاہیں تھیں۔علم بھی بٹتا تھا تربیت بھی دی جاتی تھی۔ تعلیمی ادارے ابھی یرغمال نہیں بنے تھے۔ تقاریب میں اہلِ سیاست نہیں اہلِ علم تشریف لاتے تھے۔ اس کالج میں حفیظ جالندھری کے ہاتھوں سے انعام حاصل کیا۔ قادرالکلام شاعر‘ معرکہ آرا شعری مجموعے‘‘ ہفت کشور” کے مصنف جعفر طاہر کو پہلی اور آخری بار یہیں دیکھا۔ وہ کچھ کچھ سیہ فام تھے۔ سٹیج پر جہاں وہ کھڑے تھے‘ ان کے پیچھے کالے رنگ کا پردہ تھا۔ طلبہ نے شور مچایا کہ جعفر طاہر نظر نہیں آرہے اس لیے پیچھے سے کالے رنگ کا پردہ ہٹایا جائے۔ ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف کے‘ جو قائد اعظم یونیورسٹی میں تھیں‘ لیکچر یہیں سنے۔ کیا تقریر ہوتی تھی ان کی شستہ انگریزی میں‘ دریا کی روانی کے مانند !

اس زمانے کے دو بہترین ماہرینِ تعلیم ہمارے پرنسپل رہے۔ پروفیسر اشفاق علی خان اور ڈاکٹر سید صفدر حسین ! پروفیسر اشفاق علی خان کو کون نہیں جانتا۔ الحمزہ کے نام سے برسوں انگریزی کالم لکھتے رہے۔ سٹیل انڈسٹری قائم کرنے کے بہت بڑے مبلغ تھے اور سول سروس کے ناقد۔ ہمیں ان کی ایک تلقین یہ بھی ہوتی تھی کہ جوتے صاف رکھا کرو۔ ان کے صاحبزادے کامران علی خان اسی کالج میں میرے کلاس فیلو تھے۔ سی ایس ایس کر کے انفارمیشن سروس میں آئے۔ شاید میرے بیچ میٹ تھے۔ اس زمانے میں کامن ٹریننگ نہیں تھی اور ہر گروپ کی تربیت الگ الگ ہوتی تھی۔ عجیب اتفاق ہے کہ کالج چھوڑنے کے بعد آج تک کامران سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر سید صفدر حسین شاعر بھی تھے۔ معرّا نظم کہتے تھے۔ نظم سنانے کا انداز ان کا خاص تھا۔ محفل پر چھا جاتے تھے۔ نظموں کے کئی مجموعے تھے جن میں ”رقص ِطاؤس‘‘ بہت مشہور ہوا۔ پروفیسر اقبال بخت ہمارے اکنامکس کے پروفیسر تھے۔ ہمیشہ سفید براق پتلون شرٹ میں ملبوس۔

یہاں یہ ذکر بھی ہو جائے کہ اُس عہد میں کالجوں کے اساتذہ خوش لباس ہوتے تھے اور اس حوالے سے طلبہ کے آئیڈیل ! بہترین سوٹ میں ملبوس۔ اور گرما میں بہترین قمیض اور پینٹ! برسوں بعد اسی اپنے کالج میں ایک پروفیسر دوست کے ساتھ گیا۔ سٹاف روم میں اساتذہ کی ہیئت کذائی اور لباس کا انداز دیکھا تو دم گھٹنے لگا۔ بغیر استری کے شلوار قمیضیں ! اکثر نے واسکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی اور کچھ کے پیروں میں چپلیں تھیں۔ پروفیسر سجاد حیدر ملک ہمیں انگریزی شاعری اور ڈراما پڑھاتے تھے۔ ادب کا ذوق رکھتے تھے اور پڑھاتے ہوئے مسحور کر دیتے تھے۔ میں اکثر انہیں کسی گوشے میں بیٹھ کر ٹائم یا نیوزویک میگزین پڑھتے دیکھتا۔ غالبا وہ اُس زمانے کے بڑے انگریزی روزنامے ”پاکستان ٹائمز‘‘ میں بھی کام کرتے تھے۔ ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ کلاسیکی انگریزی شاعری کی جگہ جدید شاعری کورس میں رکھی گئی تھی۔ اس میں ٹی ایس ایلیٹ سے لے کر رالف ہاجسن تک سب نئے شعرا تھے۔ ساٹھ میں سے اکثر نظمیں زبانی یاد ہو گئی تھیں۔ استادِ مکرم پروفیسر سجاد حیدر سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں مقیم ہیں۔

دوست عزیز شاہد مسعود ملک نے از راہ کرم ان کا ایڈریس اور فون نمبر عطا کیا۔ پروفیسر صاحب سے بات کی تو آواز سے ان کی صحت اچھی لگ رہی تھی۔ فرمانے لگے : آج کل خط لکھنے کا رواج نہیں رہا‘ تم مجھے خط لکھو۔ انگریزی ہی کے شعبے میں پروفیسر نذیر بھی تھے۔ سرخ گلابی رنگ کا چہرہ۔ ایک باکمال استاد! پھر وہ نئی نئی اٹھتی ہوئی پیپلز پارٹی کی نذر ہو گئے اور ایک دن ہم نے سنا کہ وفاقی وزیر خورشید حسن میر کے سیکرٹری تعینات ہو گئے۔ کہاں پروفیسری کی بادشاہی اور بلند باعزت مقام اور کہاں دربار کی ملازمت‘ مگر اُن کا اپنا نقطہ نظر تھا! بہت کم اداروں میں ایم اے کی کلاسیں تھیں‘ مگر ہمارے کالج میں اُس زمانے میں تین مضامین میں ایم اے کرایا جا رہا تھا۔ جغرافیہ‘ ریاضی اور اکنامکس۔ ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں باقاعدگی سے منعقد ہوتی تھیں۔ کالج میگزین ” کوہسار‘‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ حصۂ اردو کا ایڈیٹر مجھے مقرر کیا گیا۔ بزم ِادب فعال تھی۔ ہم اس میں اپنی تازہ کہی ہوئی غزلیں اور نظمیں سناتے جن پر باقاعدہ تنقید کی جاتی۔

کالج میں اکثر مشاعرے ہوتے۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے مشاعروں میں اپنے کالج کی نمائندگی کی۔ اسلامیہ کالج لاہور کے شہرہ آفاق” شمع تاثیر‘‘ کے مشاعرے سے بھی اپنے کالج کے نام پر انعام حاصل کیا۔ انہی دنوں کالج کینٹین پر بیٹھے تھے کہ کسی طالب علم نے بتایا کہ ظفر اقبال کا نیا شعری مجموعہ ” گلافتاب‘‘ چھپا ہے اور چھپتے ہی ازحد متنازعہ ہو گیا ہے۔ فوراً حاصل کیا اور سوائے آخری حصے کے جو ” مشکل‘‘ ہے باقی سارا حفظ ہو گیا۔ یہ ظفراقبال سے طویل تعلق اور عقیدت کی یک طرفہ ابتدا تھی۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ انہوں نے کُلبۂ احزاں کو قیام سے مشرف کیا اور اس بے بضاعت کو حکم دیا کہ ” آبِ رواں‘‘ کے نئے ایڈیشن کے لیے فلیپ لکھوں۔ اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ حافظہ خوب شعر پسند تھا۔ کالج کے دورانیہ میں احمد ندیم قاسمی کی ”دشتِ وفا‘‘، ناصر کاظمی کی” برگِ نے‘‘، مجید امجد کی” شب ِرفتہ‘‘ اور فراز کی ”درد آشوب‘‘ مکمل کی مکمل حفظ تھیں۔ عدم اور جوش کے بھی بے شمار اشعار یاد تھے۔ یوسف ظفر کے صاحبزادے نوید ظفر مرحوم ( جو بعد میں پی ٹی وی میں اعلیٰ مناصب پر رہے ) ایک سال سینئر تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ کالج لائبریری میں انہیں اپنے والد کی فلاں کتاب نہیں ملی۔ پوچھا‘ کون سی نظم کی ضرورت پڑ گئی؟ بتایا تو وہ نظم انہیں زبانی سنا دی

پھر امتحان ہوا اور کالج سے جدائی کا مرحلہ آیا۔ ڈر تھا کہ فیل نہ ہو جاؤں۔ نتیجہ آیا تو کالج میں پہلی پوزیشن تھی۔ رول آف آنر بھی ملا۔ کچھ برسوں بعد کالج جانا ہوا تو مین ہال میں دیواروں پر سال بہ سال رول آف آنر لینے والوں کے نام آویزاں دیکھے۔ صرف 1967 ء والی جگہ خالی تھی کہ اُس سال میں نے لیا تھا بقول ناصر کاظمی

کتنی مردم شناس ہے دنیا
منحرف بے حیا ہمیں سے ہوئی

ایم اے اکنامکس کے لیے داخلہ اصغر مال کالج ہی میں لیا۔ پروفیسر اصغری شریف صدر شعبہ تھیں۔ مجموعی ( ایگریگیٹ ) نمبروں کی بنیاد پر پنجاب یونیورسٹی کا سکالرشپ بھی ہو گیا۔ اسی اثنا میں مشرقی پاکستان کے لیے بین الصوبائی فیلو شپ کا مقابلہ ہوا۔ خوش بختی سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات کی نشست مل گئی۔ یہ ایک نئی دنیا تھی۔ اڑھائی تین سال وہاں گزارنے اور پورا مشرقی بنگال دیکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اصل عوامل سے بخوبی آگاہی ہے۔ اور یہ جو ہر سال سولہ دسمبر کو بھانت بھانت کے نام نہاد تجزیے نظر آتے ہیں ان کا کھوکھلا پن واضح ہے۔ اصغر مال کالج کے کلاس روم اور چھلکتے برآمدے آج بھی دل میں آباد ہیں ! جسم کا رؤاں رؤاں اس درسگاہ کا شکر گزار ہے۔ اس کی لائبریری کے بے پناہ احسانات ہیں۔ اس کے اساتذہ میرے لیے مقدس ہیں۔

شاد باد اے عشق خوش سودائی ما

محمد اظہارالحق

بشکریہ دنیا نیوز

یہ استاد نہیں جانور ہیں

ہمارے معاشرے میں خواتین کی تعلیم پر تو بڑا زور ہے لیکن قوم کی بچیوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں جو ہوتا ہے، اس بارے میں ایک حالیہ میڈیا رپورٹ پڑھ کر بہت دکھ ہوا۔ معاشرے کی تنزلی اس حالت کو پہنچ چکی ہے کہ کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی بچیاں مرد اساتذہ تک کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک این جی او نے اپریل 2018ء میں ایسی خواتین جنہیں ورک پلیس پہ ہراساں کیا جاتا ہے، کے لیے ایک ہیلپ لائن شروع کی۔ اس این جی او کو تقریباً 21 ہزار شکایتیں موصول ہوئیں جن میں سے 17 ہزار شکایتیں مختلف جامعات سے تعلق رکھنے والی طالبات کی طرف سے درج کروائی گئیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے برعکس سرکاری جامعات کی طالبات کی طرف سے یہ شکایات زیادہ موصول ہوئیں۔

جب ان میں سے کئی طالبات کی طرف سے اپنی اپنی جامعہ کی انتظامیہ سے شکایت کی گئی کہ اُنہیں مرد اساتذہ کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے تو اس سلسلے میں انتظامیہ کی طرف سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کے اراکین میں بھی استاد کی روپ میں ایسے بھیڑیے شامل تھے جنہوں نے طالبات کی مدد کے بجائے اُنہیں جنسی طور پر ہراساں کیا۔ رپورٹ میں ایک طالبہ کا انٹرویو بھی شامل تھا جس کا کہنا تھا کہ بچپن سے اُسے بتایا گیا تھا کہ استاد والدین کی طرح ہوتے ہیں، اس لیے اُن کا احترام کیا جانا چاہیے۔ طالبہ کا کہنا تھا کہ جب اُس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اسے استاد کا وہ مکروہ چہرہ نظر آیا جو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ راولپنڈی کی ایک اہم سرکاری درسگاہ سے تعلق رکھنے والی اس طالبہ نے بتایا کہ اُس کا استاد اُس پر دبائو ڈالتا رہا کہ وہ اُس سے دوستی کرے، وہ طالبہ کو رات گئے فون کرتا اور میسج بھیجتا لیکن جب اُس نے کوئی مثبت جواب نہ دیا تو اُسے امتحان میں ڈی گریڈ دے دیا (یعنی بُرے نمبر دیے)۔

طالبہ نے بتایا کہ وہ اکیلی نہیں بلکہ اُس جیسی کئی دوسری بچیاں بھی ہیں جنہیں مرد اساتذہ کی طرف سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ایسے واقعات کے لیے بنائی گئی انکوائری کمیٹیاں اساتذہ کے حق میں ہی رپورٹ دیتی ہیں جس کا مقصد تعلیمی ادارے کو بدنامی سے بچانا ہوتا ہے۔ مگر ایسے حالات میں ہراسانی کے واقعات بہت بڑھتے جا رہے ہیں۔ صرف خواتین کو ہراسانی سے بچائو کے لیے بنائے گئے وفاقی محتسب کو 2018 کے مقابلے میں 2019 میں تقریباً دو گنا زیادہ شکایتیں موصول ہوئیں، سب سے زیادہ شکایتیں پنجاب سے موصول ہوئیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے زیادہ تر واقعات سمیسٹر سسٹم اور اُس نظام سے جڑے ہیں جہاں بچیوں کو پروجیکٹ اور اسائنمنٹ وغیرہ کے نمبروں کے لیے متعلقہ استاد کا محتاج بنا دیا جاتا ہے۔

یہ بڑی پریشانی کے ساتھ ساتھ انتہائی دکھ اور شرمندگی کی بھی بات ہے کہ اب حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ اساتذہ تک اعتبار کے قابل نہیں رہے اور اُن میں بھی انسان نما جانور اور درندے بڑی تعداد میں چھپے بیٹھے ہیں۔ استاد تو بچوں اور نئی نسل کی تربیت کا ذریعہ ہوتا ہے لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ اساتذہ میں کیوں ایسے بھیڑیے شامل ہو گئے ہیں جن کے شر سے پڑھنے والے بچیاں تک محفوظ نہیں۔ اس معاملے پر حکومت، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تنظیموں کو بھی فکر مندی کے ساتھ ایسے حل تلاش کرنے چاہئیں کہ پڑھنے والی تمام بچیوں کو کسی بھی قسم کی جنسی ہراسانی سے بچایا جا سکے اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسا ماحول قائم کیا جائے کہ مرد چاہے وہ استاد ہو یا طالبعلم، کا خواتین طالبات کے ساتھ اکیلے ملنا ممکن نہ ہو اور کوئی انہیں بلیک میل نہ کر سکے۔

امتحان اور اسائنمنٹ کا نظام بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی بھی طالبعلم یا طالبہ کسی بھی استاد کی طرف سے کسی بھی قسم کی بلیک میلنگ یا بغض کا شکار بنے۔ جہاں تک طالبات کی بات ہے تو اُنہیں چاہیے وہ کسی بھی قسم کی غیر مناسب حرکت کو قطعی طور پر برداشت نہ کریں اور ہراسانی کی صورت میں نہ صرف والدین کو بتائیں بلکہ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ سے بھی فوری شکایت کریں۔ یہ امر نہایت قابلِ افسوس ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں طالبات کی طرف سے شکایات کے باوجود بہت کم ایسے کیس سننے کو ملتے ہیں جہاں ہراسانی کے مجرم استاد کو سزا ملی ہو۔ اگر چھوٹے بچوں اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے والے درندوں کو سرِعام پھانسی دی جانی چاہیے تو استاد کے روپ میں چھپے جانوروں کو بھی نوکریوں سے نکال کر اُن کی میڈیا کے ذریعے خوب تشہیر کی جانی چاہئے تاکہ ایسے لوگ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔
ایسے جانور اور درندے انسانی حقوق کے نام پر کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

بیس لاکھ شامی بچے اسکولوں سے محروم، یونیسیف

اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ شام میں اس وقت دو ملین سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ یونیسیف کی سربراہ ہینریتا فورے کے مطابق سات سالہ خانہ جنگی کے باعث ہونے والے نقصان کے بعد شام میں ان بچوں کے لیے تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔ فورے کے مطابق یونیسیف کو رواں برس 95 ملین ڈالرز فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے ان فنڈز کی فراہمی کے لیے اپیل بھی کی ہے۔

76 Questions To Help You Find The Career of Your Dreams

76 Questions To Help You Find The Career of Your Dreams

 

Trying to figure your dream career can be really challenging, especially if you’re older and are considering starting something new. It can be an intimidating prospect with so many possibilities and so much uncertainty.

 

How can anyone possibly figure out their dream career? There are so many options, each with pros and cons.

 

What can you do?

 

Fortunately, you don’t have to wander blindly as you try to identify where you want to be in life. There are some very specific questions you can ask that will help you nail down who you are, what you love and what you really want to.

 

Consider these questions to be a map leading you to your desired destination.

 

Question #1: Who Are You?

 

 

If you are facing in the right direction, all you need to do is keep on walking. – Anonymous

 

Before you can figure out what you want to do, you need to determine who you are and what you stand for. A dream career will line up with your core value and most tightly held beliefs. If you choose a career that contradicts these core values, you’ll probably end up deeply unhappy.

 

Ask yourself:

 

  • What do I care about most?
  • What underlying values motivate everything I do?
  • What am I willing to sacrifice for?
  • What drives me?

 

For example: I am Jessie, a single mother of three children. I am a spiritual, kind, loving person. I care deeply about helping my children succeed, social justice and alleviating poverty. I’m driven to sacrifice my time and comfort to provide financial security for my children. I’m driven to use my planning skills to help the homeless in my city.

 

Identifying your core values shapes the trajectory of your career path.

 

Question #2: What Do You Love Doing?

 

Consult not your fears but your hopes and your dreams. Think not about your frustrations, but about your unfulfilled potential. Concern yourself not with what you tried and failed in, but with what it is still possible for you to do. – Pope John XXIII

 

What are you passionate about? What do you absolutely love doing? What gets your juices going, your creativity pumping and your energy moving? What do you think about when you’re standing in line at the grocery store?

 

As you ponder this question, don’t limit yourself to things that you think could be a career. Do you love reading? What about hiking? Does the thought of making a delicious meal make you feel all warm and fuzzy? Do you get pumped at the idea of helping someone make money?

 

Finding your dream career starts with identifying your true passions. Once you’ve nailed those down, you can start moving toward the how.

 

Question #3: What Are You Really Good At?

 

You are not here merely to make a living. You are here in order to enable the world to live more amply, with greater vision, with a finer spirit of hope and achievement. You are here to enrich the world, and you impoverish yourself if you forget the errand. – Woodrow Wilson

 

This one will get your mind going in a slightly different direction. What do you have real talent for? What’s the thing everyone says you’re amazing at? Art? Coaching sports? Teaching? Writing music?

 

Many times, a dream career comes at the intersection of your skills and passions. Of course, this makes sense. If you’re passionate about photography, you spend a lot of time taking photographs and thus get really good at it.

 

When you combine your skills and your passions, you’ll often discover a dream career waiting to happen.

 

Question #4: What Goals Do You Have?

 

What are your long term goals when it comes to:

 

  • Relationships?
  • Health?
  • Family?
  • Finances?
  • Spiritual development?

 

In some ways, your goals will shape the dream career you pursue. For example, if you want to be a family man who spends most of his time at home, a career as a traveling musician probably isn’t right for you. If you want to be financially secure by the time you’re 45, it will be difficult to spend your life working among the poor in India (although that’s an admirable goal).

 

Ideally, your dream career will align well with your life goals.

 

Question #5: If You Could Do Anything, What Would It Be?

 

The only goal you can’t accomplish is the one that you don’t go after! – Vilis Ozols

 

If your life had no limits, what would you do? Think about it. If you had all the money, time and resources you needed, how would you spend your time? Where would you go? Who would hang out with?

 

This line of thinking pushes you outside your normal box. You probably have a series of limiting beliefs when it comes to what you can do with your life. In many ways, this is reasonable. There are actual limits imposed on you by your job, relationships, etc. But many of our limiting beliefs simply aren’t true. We’ve picked them up somewhere over the years and unconsciously treat them as law.

 

When you think about a limitless life, it allows you to explore possibilities you’ve never considered.

 

Question #6: Who Do You Look Up To?
The value of a man should be seen in what he gives and not in what he is able to receive. – Albert Einstein

 

Who are the people you truly and deeply admire? Think on both a personal level and a professional level. Is there an author you love for her ability to turn phrases and create beautiful word pictures?

 

Is there a friend you admire for his willingness to help anyone at the drop of a hat?

 

Is there a photographer who always inspires you with his astounding nature shots?

 

What about a mentor who you look up to for her constant guidance?

 

As you think about the people you admire, consider why you hold them in such high esteem. What unique qualities do they possess? How could those qualities segway into a career for you? Could you become like the photographer you love? Could you also become a wonderful author?

 

Identifying the people you look up to can help you get ahead on what a dream career could look like for you.

 

Question #7: What Do You Dislike Doing?

 

Better to have spent a life reaching for a dream that never came true, than to have slept through a life that never had a dream. – Samantha Pickreign

 

This question will take you to the other end of the spectrum. Are there particular activities you really dislike? For example, if you’re an introvert who really doesn’t like being in large crowds, a career as an event planner probably isn’t for you.

 

When you consider these activities, think about why you don’t like doing them. Do you dislike manual labor because you don’t like being outside or because you’re in pain afterwards? Do you hate writing because you struggle with words or simply because you don’t like sitting in front of a computer?

 

Your goal isn’t necessarily to figure out what careers you want to avoid, although that helps. Rather, you want to determine why you don’t like particular activities. Knowing that you dislike the outdoors keeps you away from much more than manual labor and should be taken into account when considering your career.

 

Putting It All Together

 

Once you’ve answered all these questions, you can begin considering possible careers. You should have a good idea of what you love doing, what matters most to you and what types of things you want to avoid.

 

Now you’re ready to start taking steps in the right direction.

 

Depending on the complexity of your dream career, there are some relatively simple steps you can take to get started:

 

  • Taking online classes in your field of choice
  • Joining a mentor program
  • Reading books about your dream career
  • Starting a small side business

 

What matters most is that you do something. Take at least one step in the direction you want to head.

 

Conclusion

 

It’s never too late to start doing what you love. You don’t have to work in a job you hate until you retire. If you know the right questions to ask and the correct steps to take, you can chart a path to the career of your dreams.

 

Ralph Waldo Emerson said, “Dare to live the life you have dreamed for yourself. Go forward and make your dreams come true.”

 

We wholeheartedly agree.

 

 

ایگزیکٹ کی جعل سازی پا کستان سے برطانیہ تک

ڈاکٹر عامر لیاقت، ان کی اہلیہ اور 1100؍ دیگر پاکستانیوں نے ایگزیکٹ کی یونیورسٹیوں کو ڈگریاں خریدنے کیلئے رقم ادا کرنا پڑی۔ کروڑوں ڈالرز مالیت کا یہ اسکینڈل ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں کے ساتھ سامنے آ رہا ہے اور بی بی سی کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ 3000؍ سے زائد برطانوی شہریوں نے بھی جعلی ڈگریاں خریدیں۔ برطانوی میڈیا میں اس اسکینڈل کا ذکر سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اس صورتحال کا از خود نوٹس لیا اور ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ 10؍ دن میں تفتیش کے متعلق رپورٹ پیش کرے۔

ایف آئی اے کو اب تک عدالت سے کوئی آرڈر موصول نہیں ہوا۔ صورتحال کی پیشرفت سے آگاہ ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ ایف آئی اے کا ایک عہدیدار ہفتے کو عدالت پہنچا تاکہ آرڈر کی کاپی وصول کی جا سکے جو وہاں دستیاب نہیں تھی۔ اگرچہ ایگزیکٹ اسکینڈل عالمی سطح پر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا اور دنیا کے مختلف حصوں سے اس فراڈ کی باتیں سامنے آئیں لیکن پاکستان میں اس ضمن میں تحقیقات پر نہ صرف سمجھوتا کیا گیا بلکہ اسکینڈل سے جڑی کئی یونیورسٹیاں اب بھی آن لائن ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹ اسکینڈل کے متاثرین امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، مشرق وسطیٰ اور دیگر ملکوں میں موجود ہیں لیکن پاکستان میں موجود ایگزیکٹ کے صارفین پر کسی نے توجہ نہیں دی۔

ان میں سے سب سے نمایاں شخص متنازع اینکر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے حاصل کیے جانے والے ریکارڈ کے مطابق عامر لیاقت ایشووڈ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ عامر لیاقت ایگزیکٹ کی ملکیت سمجھنے جانے والے چینل ’’بول‘‘ کے اینکر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے تاریخ کے شعبے میں بیچلر اور ماسٹرز کی ڈگری کیلئے اسٹوڈنٹ آئی ڈی نمبر AU-2006-12-92888 پر اپلائی کیا۔ ریکارڈ میں فی جمع کرانے کی تاریخ 18؍ جون 2006ء درج ہے۔ خط و کتابت کیلئے دیا جانے والا پتہ، موبائل فون نمبر، ای میل ایڈریس بھی درج ہے۔ جس وقت عامر نے تاریخ کے شعبے میں ڈگریوں کی درخواست دی اسی وقت ان کی بیوی نے بھی میڈیسن اور سرجری میں بیچلرز اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز میں دلچسپی ظاہر کی۔

بیچلر ڈگری کیلئے ادائیگی کی تاریخ 17؍ مارچ 2006ء جبکہ ماسٹرز کیلئے 28؍ مارچ 2006ء درج ہے۔ خاتون کی بیچلرز کی ڈگری کیلئے آئی ڈی BU-2006-3-394666 جبکہ ماسٹرز کیلئے BU-2006-3-394667 درج ہے۔ تفتیش کے آغاز پر عامر لیاقت کو ایف آئی اے نے طلب کیا تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ڈگریوں کیلئے اپلائی تو کیا تھا لیکن انہیں یہ موصول نہیں ہوئیں۔ تاہم، جب ٹی وی پر نیوز کاسٹر نے ان سے رابطہ کر کے موقف معلوم کیا تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا کہ انہوں نے ڈگریوں کیلئے اپلائی کیا تھا۔ 2005ء میں عامر لیاقت کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ امت کی شہ سرخیوں کا حصہ بنے تھے جب یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جعلی ہیں، یہ ڈگریاں انہوں نے 2002ء میں قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کیلئے جمع کرائی تھیں۔

یہ ڈگریاں انٹرنیٹ سے خریدی گئی تھیں اور انہیں ٹرنٹی کالج نے جاری کیا تھا جس کا پتہ اسپین کا درج تھا۔ عامر لیاقت نے اُس وقت وضاحت پیش کی تھی کہ اسپین کی یونیورسٹی نے انہیں اعزازی ڈگری جاری کی تھی اور کوئی فیس نہیں لی تھی لیکن جب سائوتھ ایشیا ٹریبون نے یونیورسٹی سے پوچھا تو جواب ملا کہ انہوں نے کسی کو بھی بنا فیس کے کوئی اعزازی ڈگری جاری نہیں کی۔ ایسے 1100؍ پاکستانی ہیں جنہوں نے ایگزیکٹ کی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں خریدیں، ان میں سے 800؍ افراد ملک سے باہر ہیں۔ باقی افراد نے عامر لیاقت اور دیگر کی طرح خط و کتابت کیلئے پاکستان کا پتہ دے رکھا ہے۔

ایسے ہی ایک شخص حسن سلیم حقانی عسکری 7، اڈیالہ روڈ راولپنڈی کے ہیں جنہوں نے ایگزیکٹ کی روش ول یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ان کا اسٹوڈنٹ آئی ڈی نمبر AD-2006-12-134596 ہے جبکہ فیس کی ادائیگی کی تاریخ 21؍ دسمبر 2005ء درج ہے۔ ایک اور شخص عامر ہاشمی نے ایگزیکٹ کی بیل فورڈ یونیورسٹی سے ایجوکیشنل ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، انہوں نے خط و کتابت کیلئے ہلال روڈ، حساس ادارے کا ڈائریکٹوریٹ، راولپنڈی کا پتہ درج کرا رکھا ہے، فیس کی ادائیگی کی تاریخ 5؍ فروری 2008ء درج ہے۔ ایک اور شخص سردار علی خان فیز فور حیات آباد پشاور کے ہیں، انہوں نے بیل فورڈ یونیورسٹی سے کرمنل جسٹس میں ہائی اسکول ڈپلومہ، ٹیلی کمیونیکیشن میں ایسوسی ایٹ ڈگری جبکہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں بیچلرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

فیس کی ادائیگی 14؍ جون 2006ء کو کی گئی تھی۔ پاکستان سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کے بلال اسلم صوفی 2005ء میں ایشووڈ یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ تھے۔ کراچی کے عاصم مبین نے ایشووڈ سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ راولپنڈی کے پروفیسر رضا انجم نے روش ول یونیورسٹی سے ٹیلی کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پشاور کینٹ کے انجم افروز نے 2006ء میں ایشووڈ یونیورسٹی سے کرمنل جسٹس میں ایسوسی ایٹ ڈگری حاصل کی۔ لاہور کے ڈاکٹر سید سرفراز حسین نے روش ول یونیورسٹی سے 2005ء میں کلینکل سائیکولوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کلفٹن روڈ کراچی کے عبدالصمد مسافر نے بیل فورڈ یونیورسٹی سے آلٹرنیٹیو میڈیسن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ شیر ربانی کالونی قصور کے مقصود حسنی نے ایشووڈ یونیورسٹی سے 2005ء میں انگلش میں پی ایچ ڈی کی ڈگری خریدی۔

عمر چیمہ

بشکریہ روزنامہ جنگ

حصولِ تعلیم کے لیے پُرخطر سفر

ایک شکستہ حال سڑک کئی دیہات کے لوگوں کے لیے مشکلات کی باعث بننے کے ساتھ ساتھ بچوں کے اسکول چھوڑ دینے کا سبب بھی بنتی جا رہی ہے۔ چنیوٹ میں موجود بھوانہ-امین پور نہ صرف چنیوٹ کے دو بڑے قصبوں کو ملاتی ہے، بلکہ بھوانہ قصبے کو امین پور قصبے کے ذریعے فیصل آباد سے بھی ملاتی ہے جو کہ 2000ء میں تعمیر کی گئی تھی لیکن جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور دو سال کے عرصے کے اندر ہی اس سڑک کا زیادہ تر حصہ ٹوٹ کر پتھروں کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا۔

یہ سڑک نہ صرف سینکڑوں دیہات کو بھوانہ کے تحصیل ہیڈ کوارٹرز سے ملاتی ہے بلکہ اسی سڑک پر موجود اسکولوں کے ہزاروں طلباء بھی گزر کر اسکول جاتے ہیں جن میں گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول چک 184 اور بوائز ہائی اسکول چک 237 جے بی اور کئی پرائمری اور ایلیمنٹری شامل ہیں جو اس سڑک پر واقع ہیں۔ ان دیہات کے لوگ گزشتہ 15 برس سے اذیت کا شکار ہیں مگر یکے بعد دیگرے تین صوبائی حکومتیں بھی اس مسئلے کو حل نہیں کر سکیں جبکہ یہ علاقہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 86 اور پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 74 کا حصہ ہے۔

چنیوٹ کے چک 237 جے بی کے ایک عمر رسیدہ کسان غلام علی کے مطابق اس علاقے سے الیکشن میں کامیاب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی اور ممبر صوبائی اسمبلی دونوں ہی نے انتخابات کے بعد سے اب تک یہاں کا رخ نہیں کیا۔ سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے دونوں قصبوں کے درمیان پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند ہو چکی ہے۔ ٹرانسپورٹ مالکان اب بھوانہ – جامی آباد – امین پور روڈ کو ترجیح دیتے ہیں جو اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ تاہم علاقے میں موجود ہائی اسکولز چھوٹے دیہات سے 10 سے 15 کلومیٹر دور تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ ہی طلباء کے لیے اسکولوں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ تھا، چنانچہ جب سے ٹرانسپورٹ بند ہوئی ہے تب سے بچوں کی تعلیم کو دھچکا لگا ہے۔

علاقہ مکینوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقے طلبہ تو پھر بھی صبح کسی نہ کسی طرح اپنے اسکولوں تک پہنچ جاتے ہیں مگر طالبات کو اسکولوں تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں اپنی تعلیم کو مکمل طور پر چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ پنجاب کے محکمہ تعلیم کے ایک مقامی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لڑکیوں کے اسکولوں میں داخلے حقیقتاً ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے کم ہوتے جا رہے تھے تاہم پھر بھی محکمہ تعلیم کسی نہ کسی طرح والدین کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش میں ہے۔

پنجاب ہائی ویز سب ڈویژنل آفیسر (مینٹیننس اینڈ ریپیئر) منظور احمد نون نے ڈان کو بتایا کہ ان کا محکمہ صوبے کے مرکزی ہائی وے کی دیکھ بھال اور مرمت پر توجہ دیے ہوئے ہے جو چنیوٹ کو دوسرے بڑے شہروں سے ملاتا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ 24 کلومیٹر طویل سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ اس کا 4 کلومیٹر کا حصہ مکمل طور پر ناقابلِ استعمال ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ محکمے نے حکومتِ پنجاب سے مرمت کے لیے 3 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کرنے کی درخواست کی ہے، اور جیسے ہی فنڈز جاری کر دیے جائیں گے تو اس کی مرمت پر کام شروع کر دیا جائے گا۔

یہ خبر 14 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔