قومی اداروں کی نجکاری

ملک کی معیشت کا حال مت پوچھیے۔ بظاہر اصلاح کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ بقولِ غالبؔ :
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
حالت یہ ہے کہ ڈاکٹروں پر ڈاکٹر تبدیل کیے جا رہے ہیں، لیکن مریض کی حالت ہے کہ بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑتی جا رہی ہے۔ مختلف قومی ادارے جو کبھی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہوا کرتے تھے، ملک کی معیشت کے لیے بوجھ بن چکے ہیں۔ سب سے بڑی مثال قومی ایئر لائن پی آئی اے کی ہے جس کا سلوگن ہوا کرتا تھا Great people to fly with ملک کے ہی نہیں غیر ملکی مسافر بھی پی آئی اے سے سفر کرنے پر فخر کیا کرتے تھے۔ یہ وہ ایئر لائن تھی جس نے کئی مشہور غیر ملکی ایئر لائنوں کو جنم دیا تھا جو آج پھل پھول رہی ہیں۔ وقت کی پابندی کا عالم یہ تھا کہ پی آئی اے کی پرواز سے لوگ اپنی گھڑیاں ملایا کرتے تھے۔ دورانِ پرواز مسافروں کی جو خاطر تواضع کی جاتی تھی اب وہ قصہ پارینہ ہے۔ ایئر مارشل نور خان (مرحوم) کی یاد بُری طرح ستا رہی ہے جنھوں نے اِس پودے کی اپنے خون سے آبیاری کی جس کے نتیجے میں یہ پودا ایک تناور درخت بن گیا۔ 

آج اِس درخت کا حال یہ ہے کہ شاخیں ٹوٹ رہی ہیں اور پتے جھڑ رہے ہیں۔ یہ کیسے ہوا اور کون اِس کا ذمے دار ہے، یہ کہانی بہت رقت انگیز ہے۔ قصہ مختصر:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ مریضہ کو خون پر خون چڑھایا جارہا ہے اور اس کی حالت کسی طور سُدھر نہیں رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اِس وقت ملک میں 4 پرائیوٹ فضائی کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور ہر کمپنی منافع میں جارہی ہے جب کہ پی آئی اے کا معاملہ اِس کے الٹ ہے۔ شنید یہ ہے کہ اِس کی نجکاری کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ صرف وقت کا انتظار ہے۔
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا
منافع تو کُجا پی آئی اے کو گزشتہ سال 88 بلین روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا۔ اِس سے بھی قبل ایئر لائن کو 50 بلین روپے کا نقصان ہوا تھا۔ پی آئی اے کو سال بہ سال ہونے والے نقصانات کی کُل رقم 717 بلین روپے بنتی ہے جب کہ اِس کی موجودہ قیمت 900 روپے بلین ہے۔

900 بلین روپے کی یہ رقم کسی بڑے 15 اسپتال، کسی بڑی جدید 60 جامعات اور پورے پاکستان میں 18,000 اسکول تعمیر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پی آئی اے کا یہ حشر کیوں اور کیسے ہوا؟ اِس کی سب سے بڑی وجہ اووَر اسٹافنگ ہے۔ موٹی سی بات ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بحری جہاز پر اُس کی گنجائش سے کئی گُنا سامان لاد دیا جائے تو اُس کا ڈوبنا یقینی ہے۔ سیاسی سفارشوں کے دباؤ تلے بے تحاشہ اور اندھا دھُند بھرتیاں کی گئیں جس نے اس ادارے کا دیوالیہ نکال دیا۔ دوسری جانب ضرورت سے زیادہ اسٹاف ہونے کی وجہ سے اِس کی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوئی۔ اس ادارے پر چاہے جتنا پیسہ لگا دیا جائے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام ریگستان میں آبیاری کرنے کے مترادف ہو گا۔ ایک پی آئی اے کا ہی رونا کیا دیگر قومی اداروں کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ 

پاکستان ریلوے بھی نزع کی حالت میں ہے۔ یہ قومی ادارہ بھی مسافروں کی آمد ورفت اور مال برداری کا اہم ترین اور نہایت با کفایت ذریعہ تھا لیکن کرپشن اور بدانتظامی نے اِس کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے اِس کے نقصانات کی تلافی کے لیے اِس کو 45 بلین روپے کی خطیر رقم مہیا کی تھی۔ اِس کے علاوہ 25 بلین روپے کی اضافی رقم اِس کی ترقی کی مَد میں دی تھی۔ مجموعی صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ 15 سالوں میں ملک کے ٹیکس دہندگان نے بطورِ اعانت پاکستان ریلویز کو 783 بلین روپے کی بھاری رقم فراہم کی تھی مگر نتیجہ وہی صفر کا صفر رہا۔ اِس محکمہ کی موجودہ قیمت 1000 بلین روپے ہے۔ ایک کلو گرام وزنی کارگوکی نقل و حمل پر خرچ ہونے والے ڈیزل کی قیمت ریل کے مقابلے میں ٹرک سے 3 سے 4 گُنا زیادہ ہے۔ اِس کے باوجود پاکستان ریلوے کارگو پر ٹرک کے مقابلے میں زیادہ قیمت وصول کرتی ہے۔ ریل سے سفر مسافروں کے لیے زیادہ آرام دہ اور محفوظ ذریعہ ہے لیکن پھر بھی مسافروں کی ایک بڑی تعداد ریل کے مقابلے میں بس کے لمبے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ 

ایک زمانہ وہ تھا جب ریلوے کے محکمہ کی وزارت کا قلم دان محمد خان جونیجو جیسے انتہائی ذمے دار اور فرض شناس شخص کے پاس تھا۔ پاکستان ریلوے کی کارکردگی کا وہ سنہرا دور تھا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اُس وقت ٹرینوں کی آمد ورفت نہ صرف بروقت ہوا کرتی تھی بلکہ ٹرین کی بوگیوں اور اسٹیشنوں کی حالت بھی اچھی ہوا کرتی تھی اور مسافروں کو ٹکٹ باآسانی دستیاب ہوتے تھے اور ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ریلوے کے ملازم بھی آسودہ اور خوشحال اور ایماندار ہوتے تھے اور کرپشن کا نام و نشان نہیں تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ریلوے کی انتظامیہ میں بھی تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ ہوتے ہوتے وہ وقت بھی آگیا جب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں اِس کی وزارت کا قلم دان خواجہ سعد رفیق کے سپرد کردیا گیا جنھوں نے انتہائی دیانت، فراست اور بساط کے مطابق اِس اونٹ کی کَلیں سیدھی کرنے کی انتھک کوششیں کیں جس کے نتیجے میں نہ صرف اِس قومی ادارے کی کارکردگی بہتر ہوئی بلکہ مسافروں کی سہولتوں میں بھی اضافہ ہوا اور بہتری ہوئی۔ 

پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کی حالت جاننے کے بعد اب آئیے! پاکستان اسٹیل مِلز کی حالت پر ایک سَر سَری نظر ڈالی جائے۔ اِس عظیم اور غیر معمولی اہمیت کے حامل ادارے کے قیام کا سہرا سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے سَر ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان انتہائی کشیدہ تعلقات کے پَس منظر میں اِس ادارے کا قیام محض ایک خواب تھا جس کی تعبیر ناممکن تھی لیکن کمال ہے بھٹو صاحب کا کہ نہ صرف انھوں نے اپنی بے مثل ذہانت کی بدولت دونوں ممالک کے تعلقات کی کشیدگی کو اپنی سحر انگیز ڈپلومیسی کے ذریعے دوستی میں تبدیل کر دیا بلکہ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام کو بھی ممکن بنا دیا۔ افسوس صد افسوس بعض دیگر اداروں کی طرح بد انتظامی اور کرپشن کی بھینٹ چڑھ کر یہ ادارہ بھی ایک عظیم اثاثہ کے بجائے ایک بوجھ بن گیا اور نوبت یہ ہے کہ اِس کے ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اِس کے ملازمین اور پینشنرز ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔ چار و ناچار یہ عظیم ادارہ بھی نجکاری کی زد میں ہے۔

شکیل فاروقی  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کیا تحریک انصاف کو اس کے وکیلوں نے مروایا؟

تحریک انصاف کے کارکنان اور مداح اگر عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو سخت سست کہہ کر اپنا کتھارسس فرما چکے ہوں تو انہیں اس سوال پر بھی غور فرما لینا چاہیے کہ ان کی جماعت کو اس حال تک پہنچانے میں خود ان کے وکیلوں نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کے وکیلوں نے بھی وہی غلطی کی ہو جو بھٹو مرحوم کے وکیلوں نے کی تھی ؟ بھٹو صاحب کے وکیلوں سے یہ بنیادی غلطی ہوئی کہ وہ اس مقدمے کو اس سنجیدگی سے لے ہی نہ سکے جس سے لینا چاہیے تھا۔ بھٹو کیس کی فائل پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مقدمہ اس سے بہت بہتر انداز سے لڑا جا سکتا تھا۔ ان کے وکیل اسی غلط فہمی میں رہے کہ بھٹو کی مقبولیت کے سیلاب کے آ گے ان قانونی موشگافیوں کی کیا حیثیت ہے، وہ ان سب کو بہا لے جائے گی۔ ان کے اندازے کی یہ غلطی ان کے موکل کے لیے بہت مہلک ثابت ہوئی۔ یہی غلطی عمران خان کے وکیلوں سے ہوئی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن اور الیکشن ایکٹ وغیرہ کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ وہ فارن فنڈنگ کیس ہو یا انٹرا پارٹی الیکشن کا، ان کے خیال میں اس سب کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور ان کے لاشعور میں کہیں یہ تھا کہ عمران خان کی مقبولیت اس سب کو بہا کر لے جائے گی۔ اندازے کی یہ غلطی تحریک انصاف کو بہت مہنگی پڑی۔

سیاست مقبولیت اور تاثر کی بنیاد پر چلتی لیکن قانون تکنیکی بنیادوں پر آگے بڑھتا ہے۔ یہ کام وکیل کا ہے کہ وہ اپنے موکل کی مقدمے کی تکنیکی بنیادوں کا تحفظ کرے۔ تحریک انصاف کے وکیل یہ کام نہیں کر سکے۔ کوئی جلسے کرنے لگ گیا، کسی نے سوشل میڈیا اکائونٹ بنا کر ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ عمران خان کے ساتھ وکیلوں نے وہی کیا جو ان کے یوٹیوبرز نے کیا۔ شہرت کے حصول اور سوشل میڈیا کی رونقوں میں اصل کام کو توجہ نہ دی جا سکی۔ جماعت اسلامی کے سوا شاید ہی کوئی ایسی جماعت ہو جہاں انٹرا پارٹی الیکشن قانون کی روح کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہاں سیاسی جماعت ہو یا مذہبی، ہر جانب موروثیت ہے۔  ایسے میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات بھی قانون کے مطابق نہیں ہو سکے تو ا س میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ البتہ ایک فرق نمایاں ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی قانونی ٹیم سب کچھ کے باوجود اپنا فائل ورک مکمل رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انتخابی قوانین ناقص اور نامعتبر ہیں۔ 

یہاں انتخابی اخراجات کی حد سے لے کر انٹرا پارٹی الیکشن تک سب کی حیثیت اقوال زریں کی ہے۔ سیاسی جماعت ان پر عمل نہ بھی کر سکے تو ان کی قانونی ٹیم اپنا فائل ورک مکمل کر لیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم اس سلسلے میں فائل ورک مکمل نہیں کر سکی۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ یو ٹیوبرز کا معاملہ تو قابل فہم ہے لیکن قانونی ٹیم کا کام اپنی پارٹی کا قانونی تحفظ ہوتا ہے، ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر داد شجاعت دینا نہیں ہوتا۔ یہ عذر کمزور ہے کہ الیکشن کمیشن اور عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر فیصلہ دیا۔ قانون نام ہی تکنیکی بنیادوں کا ہے۔ اگر حلقہ انتخاب سے محروم وکلا اپنی وکالت کی خدمات کی وجہ سے کسی پارٹی میں معتبر ہونا چاہتے ہوں یا ٹکٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں میں گھسنا چاہتے ہوں تو پھر کم از کم دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اس پارٹی کو ان تکنیکی قانونی نکات کے بارے میں آگاہ اور تیار رکھا جائے جو اس کے لے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہوں۔

انٹرا پارٹی میں الیکشن میں کچھ بے ضابطگیاں رہ گئی تھیں تو یہ قانونی ٹیم کی ذمہ داری تھی کہ ان کا لیگل کور بروقت تیار کرتی۔ حیران کن طور پر تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے یہ نکتہ اٹھایا ہی نہیں کہ ہمارا الیکشن ٹھیک ہوا ہے اور الیکشن کمیشن بلاوجہ اسے غلط قرار دے رہا ہے۔ ان کا بنیادی نکتہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی یہ نہیں تھا۔ انہوں نے یہ کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہمارا انٹرا پارٹی الیکشن دیکھنے اور جانچنے کا اختیار نہیں۔ یہ دلیل سپریم کورٹ کیسے مان لیتی؟ کبھی کہا گیا الیکشن کمیشن تو فیصلہ دینے والا ادارہ ہے وہ اپیل کیسے کر سکتا ہے ؟ کیا اب ہائی کورٹ بھی فیصلہ دے کر اپیلیں کرے گی؟ یہ دلیل شاید اس لیے دی گئی کہ جو لوگ لائیو دیکھ رہے ہیں وہ مرحبا مرحبا کہنے لگیں اور یوٹیوبرز اس پر سماں باندھ دیں۔ لیکن قانون کی دنیا سے منسلک لوگ خوب جانتے ہیں کہ یہ دلیل خود تحریک انصاف کے ساتھ مذاق سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ الیکشن کمیشن بنیادی طور پر انتظامی ادارہ ہے۔ اسے کچھ اختیارات ضرور ہیں کہ وہ بعض معاملات میں فیصلہ کر سکتا ہے لیکن اسے ہائی کورٹ سے نہیں ملایا جا سکتا۔

الیکشن کمیشن اس وقت سے انہیں الیکشن کا کہہ رہا ہے جب یہ اقتدار میں تھے لیکن یہ اسے نظر انداز کرتے رہے۔ کیوں؟ کیا قانونی پیچیدگی کے سامنے قانونی ٹیم کی یہ پالیسی تھی؟ کیا تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کو معلوم نہیں تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے پہلے پارٹی کے آئین میں تبدیلی کا قانونی طریقہ کار کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں ایکٹورل کالج بدلا جا رہا تھا جب پارٹی عہدیداران کی قانونی مدت ختم ہو چکی تھی تو کیا اس عمل کی کوئی قانونی توجیح سوچی گئی تھی؟ سوچی گئی تھی تو جب الیکشن کمیشن نے یہی اعتراض اٹھا دیا تو اس کا جواب کیوں نہ دیا گیا؟ پارٹی کا آئین بدلا جائے تو الیکشن قوانین کے تحت پارٹی عہدیداران کی پاس کردہ ریزولیوشن ان کے نام اور دستخطوں سے الیکشن کمیشن کو جمع کرانی ہوتی ہے۔ پارٹی کی قانونی ٹیم نے یہ پہلو کیوں نظر انداز ہونے دیا؟ جب الیکشن کمیشن نے اعتراض اٹھایا تو کیا یہ مناسب نہ تھا کہ الیکشن کمیشن کے اختیار کو چیلنج کرنے کی بجائے فائل ورک مکمل کرنے پر توجہ دی جاتی؟ کیا یہ درست نہیں کہ الیکشن کمیشن بار بار یہ دستاویزات مانگتا رہا لیکن اسے پیش نہیں کی جا سکیں؟

اکبر ایس بابر سالوں سے تحریک انصاف کے معاملات پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ان کے پارٹی سے اخراج کی آج تک کوئی دستاویز عدالت میں نہیں دی جا سکی۔ بس اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ پارٹی کے رکن نہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ساتھ ہی عدالت میں کہا گیا کہ وہ پانچ بجے تک آ جاتے تو ہم انہیں انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی دے دیتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی کے رکن ہی نہیں تو پانچ بجے تک پہنچ جانے پر پارٹی انہیں کاغذات نامزدگی کیسے دے دیتی اور کیوں دے دیتی۔ حال یہ ہے کہ تحریک انصاف نظریاتی کو انہوں نے پلان بی کے طور پر رکھا ہوا تھا حالانکہ تحریک انصاف نظریاتی ان کی شدید مخالف ہے اور پچھلے الیکشن میں اسی مخالفت پر وہ میدان میں اتری تھی؟

میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے

آصف محمود 

بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز

ہے کسی کو خودکشیوں کا احساس

ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ دس سالوں میں ملک میں خودکشیوں کی شرح 20 فی صد بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سیاسی و معاشی حالات، جنگیں، غربت، ہوش ربا مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور ذہنی امراض ہیں۔ موجودہ حالات کے باعث بچوں میں ذہنی امراض کا بڑھنا تشویش ناک ہو چکا ہے۔ خبر کے مطابق ملک میں موجودہ صورت حال میں میرٹ کا قتل، حکومت اور سرکاری اداروں پر لوگوں کا عدم اعتماد، سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال اور سوشل سسٹم کا کمزور ہونا بھی شامل ہے۔ ہر طرف سے مایوس افراد اپنے حالات کسی سے شیئر نہیں کرتے، سماجی تنہائی بڑھ گئی ہے، والدین اپنے بچوں کو موبائل اور ٹی وی کارٹونوں کا عادی بنا کر تنہائی کا شکار بنا رہے ہیں۔ لوگوں میں چڑچڑاہٹ، غصہ اور ڈپریشن سے بھی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیوں، اقتدار کے خواہش مند سیاستدانوں اور آئین پر عمل اور نوے روز میں ہر حال میں الیکشن کرانے کے حامی اینکر اور صحافیوں کا بھی سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے مگر خود کشیوں کی شرح میں بیس فی صد اضافے کی کسی کو فکر نہیں۔ 

جلد الیکشن کے انعقاد کے دلی مخالف سیاستدانوں میں کسی کو معیشت کی فکر کھائے جا رہی ہے کسی کو ریاست ڈوبنے کی اور کسی کو فکر ہے کہ جنوری کی سخت سردی اور برف باری میں لوگ ووٹ دینے کیسے نکلیں گے۔ ملک میں مہنگائی کی شرح غیر سرکاری طور پر تیس فی صد سے بھی زائد ہو چکی ہے مگر حکومت کے نزدیک مہنگائی کم ہوئی ہے۔ حکومت ڈالر اور سونے کی قیمتوں میں آنے والی کمی کو مہنگائی میں کمی سمجھ رہی ہے اور آئے دن بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے میں مصروف ہے اور حکمرانوں کے لیے مہنگائی پر تشویش کا اظہار کر لینا ہی کافی ہے۔ عوام حیران ہیں کہ اتحادی حکومت کے دور میں ڈالر پر ڈار کا کنٹرول نہیں ہوا تھا مگر نگرانوں کے دور میں وردی والوں کی محنت سے ڈالر کی قیمت تو کم ہوئی مگر مہنگائی میں کمی کیوں واقع نہیں ہو رہی۔ پی ٹی آئی حکومت میں جن لوگوں کو مہنگائی بہت زیادہ لگتی تھی جس پر وہ لانگ مارچ اور احتجاج کرتے تھے انھیں ملک میں مہنگائی و بجلی کی قیمتوں کے باعث خودکشیاں کیوں نظر نہیں آ رہیں۔ 

حال ہی میں فیصل آباد میں بجلی کے بھاری بل میں اپنا حصہ نہ دینے پر بھائی نے بھائی کو مار دیا۔ بجلی کا بھاری بل دیکھ کر متعدد افراد ہارٹ اٹیک کا شکار ہوئے اور بعض نے خودکشی کی مگر یہ سب نگران حکومت کے لیے تشویش ناک نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے تو عوام کو ریلیف دینے کی بات کی ہی نہیں تھی تو خبریں بولتی ہیں کہ جب یہ کہا گیا تھا کہ حکومت نے بجلی قیمتوں میں کمی اور ریلیف دینے کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا ہے مگر حکومت کو کمی کی اجازت نہیں ملی مگر حکومت اتنی بجلی مہنگی کر کے بھی فکرمند نہیں بلکہ کمی کے بجائے اضافے ہی کی منظوری دے دیتی ہے اور یہ اضافہ ہر ماہ ہو رہا ہے۔ میڈیا کے مطابق رواں سال 6 لاکھ سے زائد افراد ملک چھوڑ کر جا چکے اور اکثریت مایوس ہے کہ باہر کیسے جائیں، پی پی دور کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تو اپنے دور میں کہا تھا کہ باہر جائیں روکا کس نے ہے۔ کسی سیاسی لیڈر کو بھی خودکشیوں کی نہیں اپنے سیاسی مفادات کی فکر ہے۔ 

پیپلز پارٹی والوں کو بھی خود کشیوں پر تشویش ہے نہ مہنگائی کی فکر انھیں بس بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کی فکر ہے۔ پی پی موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے حصول اقتدار کے لیے جلد الیکشن اس لیے چاہتی ہے کہ عوام موجودہ صورت حال کا ذمے دار پی ٹی آئی کو نہیں سابقہ اتحادی حکومت کو سمجھتے ہیں اس لیے انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔ نگراں حکومت کی طرف سے ڈالر کم ہونے کے باوجود مہنگائی مزید بڑھنے کے کسی صوبے میں اقدامات نہیں کیے جا رہے اور مہنگائی کا ذکر کرکے حکمران عوام پر احسان کر دیتے ہیں کہ انھیں بھی مہنگائی کا احساس ہے مگر کم کرنے کے بجائے مہنگائی بڑھانے میں وہ ضرور مصروف ہیں۔ موجودہ نگرانوں کو آیندہ الیکشن نہیں لڑنا اس لیے وہ مہنگائی کرتے جا رہے ہیں مگر ان کے اقدامات پر عوام تو کچھ نہیں کر سکتے مگر جو خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ ان کا حساب ملک کی معاشی تباہی کے ذمے دار سابقہ اور موجودہ نگران ہیں جنھیں اس کا جواب عوام کو نہیں تو خدا کو ضرور دینا ہو گا کیونکہ اس کے ذمے دار حضرت عمر فاروق کے مطابق وقت کے حکمران ہی ہیں۔

ٹھنڈے دفاتر، بہترین لباس اور پروٹوکول میں سفر کرنے والے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں جا کر وہاں کی غربت اور عوام کی بدحالی نہیں دیکھ سکتے تو وہ کراچی، لاہور کی کسی بھی بڑی مسجد میں جا کر غریبوں کی حالت دیکھ لیں جہاں ہر نماز کے بعد حاجت مند اور غریب اپنے چھوٹے بچوں کے ہمراہ اپنی ضرورتیں بیان کرتے نظر آئیں گے، کوئی راشن کا طلب گار ہے تو کوئی دواؤں کے پرچے ہاتھ میں لیے کھڑے نظر آئیں گے۔ افسوس ناک حالت تو یہ ہے کہ ان حاجت مندوں میں خواتین کے علاوہ بڑی عمر کے بزرگ بھی شامل ہوتے ہیں جو شرم کے باعث مانگ نہیں سکتے اور نمازی ان کے خالی ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ ضرور دے جاتے ہیں۔ حالیہ خبروں کے مطابق اب مرد ہی نہیں عورتیں بھی غربت سے تنگ آ کر اپنے بچوں سمیت خودکشیوں پر مجبور ہو گئی ہیں۔ غربت، بے روزگاری اور قرضوں سے تنگ زندگی سے مایوس ان لوگوں کو خودکشیوں کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا اور وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے بچوں کا کیا ہو گا انھیں کون سنبھالے گا، انھیں راشن کیا بے حس حکمران دیں گے؟ بعض ادارے لوگوں کو جو کھانے کھلا رہے ہیں انھیں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے تدارک پر بھی توجہ دینی ہو گی ورنہ خودکشیاں بڑھتی ہی رہیں گی۔

محمد سعید آرائیں  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

’تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے‘

صرف 24 لاکھ لوگ یعنی شنگھائی کی آبادی کا بھی 5 فیصد اور ایک سپر پاور نے انہیں دھمکانے کے لیے دو طیارہ بردار بحری جہاز بھیج دیے تاکہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے بن یامین نیتن یاہو کو اپنی غیر مشروط وفاداری کا یقین دلایا جا سکے۔ سلام ہے غزہ کے لوگوں کو۔ کیا اسرائیلی حملے کی مزاحمت کرنے والے ان لوگوں سے زیادہ بھی کوئی بہادر ہوسکتا ہے؟ حیرت انگیز بات تو امریکی، برطانوی اور فرانسیسی لیڈروں کا ایک صف میں کھڑے ہونا اور نیتن یاہو کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ ہیکلِ ثالث کا مستقبل تھرڈ رائیخ سے مختلف ہو گا۔ یہ ہیکل ثالث بھی ارضِ اسرائیل کے لیے مزید زمین چاہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے رائیخ کو لیبینسروم درکار تھا۔ نازی تو روس میں زمین کے متلاشی تھے جبکہ صہیونی، جیسا کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے سابق رہنما جیریمی کوربن نے درست طور پر اشارہ کیا ہے، فلسطینی عوام کی قیمت پر ایسا چاہتے ہیں۔ مزید زمین کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والی اسرائیلی لالچ کو پورا کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے جنگ بندی کی بات نہ کی جائے کیونکہ یہ نیتن یاہو کی خواہش نہیں۔

ہمیں اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے اور اسے ویٹو بھی حاصل ہے۔ امریکی مندوب تو محض وائٹ ہاؤس کے ذریعے اسرائیل سے آنے والے احکامات پر عمل درآمد کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسرائیل کے حکم سے انکار کے کیا نتائج ہوں گے۔ نومبر کے آخر میں، اپنے یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل نے حماس کے ساتھ ایک مختصر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ یرغمالیوں کے تبادلے کے بعد، نیتن یاہو نے غزہ کے شہری اہداف پر دوبارہ بمباری شروع کر دی، اور سلامتی کونسل جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی۔ عام طور پر، جب سلامتی کونسل کوئی مشکل جغرافیائی سیاسی مسئلہ اٹھاتی ہے اور مندوبین کسی حل پر متفق ہونے میں ناکام رہتے ہیں، تو سب سے پہلے وہ یہ کرتے ہیں کہ خونریزی کے خاتمے کے لیے ایک بے ضرر قرارداد منظور کرتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں، اس طرح کی تحریک اسرائیلی غصے کو جنم دے گی، کیونکہ یہ غزہ کے لوگوں کی جاری نسل کشی کو روک دے گی۔

اسرائیل کے وفادار اتحادیوں کے طور پر، کونسل کے مغربی اراکین نے جنگ بندی کی قرارداد کو روک کر ایک ایسی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے جیسے ڈاکٹر بے ہوش کیے بغیر کسی مریض کا آپریشن کر دے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہمیں بیلسن اور ٹریبلنکا میں رائیخس فیوہرر ہملر کی ایس ایس کے فوجیوں کی یاد دلاتی ہے۔ صہیونیوں کو صرف لوگوں قتل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ زخمی اور حاملہ خواتین کو درد سے کراہتے ہوئے اور اس طبی امداد کے انتظار میں دیکھ کر افسوسناک خوشی سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے جو ایسا لگتا تھا کہ کبھی نہیں پہنچے گی۔ توقع کے عین مطابق واشنگٹن نے رفح میں اسرائیلی ہدایات کی تعمیل کی۔ اسرائیل کے حکم پر اور مصری حکومت کے تعاون سے خوراک اور طبی سامان لے جانے والے طیارے العریش ہوائی اڈے پر اترے اور سامان لے جانے والے ٹرک رفح جانے کے بجائے 206 کلومیٹر طویل مصری اسرائیل سرحد پر کسی رابطہ مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ معائنے کے بعد وہ رفح کراسنگ پر گئے جہاں اسرائیلی حکام نے زخمیوں اور امداد کے منتظر لوگوں کو امداد کی جلد فراہمی روکنے کے لیے اس عمل میں مزید تاخیر کی۔

سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک یہودی ریاست ہے لیکن دو صہیونی حکومتیں ہیں، ایک مقبوضہ بیت المقدس میں اور دوسری واشنگٹن میں۔ مؤخر الذکر یروشلم کی حکومت کے تابع ہے، اس کا کام بنیادی طور پر اسرائیل کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ الاہلی ہسپتال پر بمباری کے جرم سے لیکود پارٹی کی حکومت کو بری الذمہ کرنے کے صدر جو بائیڈن کے فیصلے پر غور کریں۔ بائیڈن کی اپنی کوئی رائے نہیں تھی، وہ اسرائیل میں تھے اور ظاہر ہے کہ انہوں نے امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں سے مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کے بجائے انہوں نے صرف وہی بات دہرائی جو نیتن یاہو نے ان سے کہی تھی۔ بعد میں نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کی تحقیقات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ ایک اسرائیلی میزائل تھا جس نے ہسپتال کو قبرستان میں تبدیل کر دیا۔ کیا امریکی سیاست پر صہیونی اثرات مبالغہ آمیز ہیں؟ دو امریکی پروفیسر، جان جے میرشیمر اور اسٹیفن ایم والٹ کی کتاب ’دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی‘ میں اس کا ایک علمی جواب ملتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ بائیڈن کے رویے میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔ ایک فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ لیکود پارٹی کی حکومت ’اسرائیل کی تاریخ کی سب سے قدامت پسند حکومت‘ ہے اور یہ کہ نیتن یاہو کو اپنی پالیسیاں بدلنی ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیل فلسطینی ریاست کا انکار نہیں کرسکتا‘۔ تاہم اسرائیلی اثر و رسوخ کے بارے میں سچائی ایک ایسے شخص نے بیان کی جو ہر لحاظ سے صہیونی نظریے کی نمائندگی کرتا ہے اور اسے صبرا شاتیلہ میں قتل عام کی وجہ سے بیروت کا قصائی کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 2001ء میں کابینہ کے اجلاس کے دوران، اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کی وزیر اعظم ایریل شیرون کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ ایریل شیرون نے غصے میں آتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی ہم کچھ کرتے ہیں تو آپ مجھے کہتے ہیں کہ امریکی ایسا کریں گے اور ویسا کریں گے۔ ’میں آپ کو ایک بات واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں، اسرائیل پر امریکی دباؤ کی فکر نہ کریں، ہم، یہودی لوگ، امریکا کو کنٹرول کرتے ہیں اور امریکی اسے جانتے ہیں‘۔ یہ خبر ایک اسرائیلی ریڈیو اسٹیشن کول اسرائیل نے نشر کی تھی۔

محمد علی صدیقی 
یہ مضمون 16 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

بشکریہ ڈان نیوز

آئیں اسرائیل سے بدلہ لیں

اسلامی ممالک کی حکومتوں اور حکمرانوں نے دہشت گرد اور ظالم سرائیل کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑا مایوس کیا۔ تاہم اس کے باوجود ہم مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم اور اسرائیل کی طرف سے اُن کی نسل کشی کا بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ ان شاء اللہ ضرور لیں گے۔ بے بس محسوس کرنے کی بجائے سب یہودی اور اسرائیلی مصنوعات اور اُن کی فرنچائیزز کا بائیکاٹ کریں۔ جس جس شے پر اسرائیل کا نام لکھا ہے، کھانے پینے اور استعمال کی جن جن اشیاء کا تعلق اس ظالم صہیونی ریاست اور یہودی کمپنیوں سے ہے، اُن کو خریدنا بند کر دیں۔ یہ بائیکاٹ دنیا بھر میں شروع ہو چکا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بائیکاٹ کو مستقل کیا جائے۔ یہ بائیکاٹ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت اچھا ہوتا کہ اسلامی دنیا کے حکمران کم از کم اپنے اپنے ممالک میں اس بائیکاٹ کا ریاستی سطح پر اعلان کرتے لیکن اتنا بھی مسلم امہ کے حکمران نہ کر سکے۔ بہرحال مسلمان (بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی) دنیا بھر میں اس بائیکاٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔ 

پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی مصنوعات، اشیاء، مشروبات اور فرنچائیزز سے خریداری میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ان اشیاء کو بیچنے کیلئے متعلقہ کمپنیاں رعایتی آفرز دے رہی ہیں، قیمتیں گرائی جا رہی ہیں لیکن بائیکاٹ کی کمپین جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقہ اورتاجر تنظیمیں بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس بائیکاٹ کے متعلق یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے تو ان پاکستانیوں کا، جو اسرائیلی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں یا اُنہوں نے اسرائیلی فرنچائیزز کو یہاں خریدا ہوا ہے، کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ اس متعلق محترم مفتی تقی عثمانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بہت اہم بات کی۔ تقی صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے یہودی اور امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کیلئے ان سے فرنچائیزز خرید رکھی ہیں جس کی وجہ سے آمدنی کا پانچ فیصد ان کمپنی مالکان کو جاتا ہے جو کہ یہودی و امریکی ہیں یا پھر کسی اور طریقہ سے اسرائیل کےحامی ہیں تو اگر کاروبار بند ہوتا ہے تو مسلمانوں کا کاروبار بھی بند ہوتا ہے۔

مفتی تقی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فتوے کا سوال نہیں بلکہ اس مسئلہ کا تعلق غیرت ایمانی سے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا ایک مسلمان کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے کہ اس کی آمدنی کا ایک فیصد حصہ بھی مسلم امہ کے دشمنوں کو جائے اور خاص طور پر اس وقت جب امت مسلمہ حالت جنگ میں ہو اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہو۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ بات مسلمان کی ایمانی غیرت کے خلاف ہےکہ اس کی آمدنی سے کسی بھی طرح امت مسلمہ کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے۔ اُنہوں نے ایک مثال سے اس مسئلہ کو مزید واضح کیا کہ کیا آپ ایسے آدمی کو اپنی آمدنی کا ایک فیصد بھی دینا گوارا کریں گے جو آپ کے والد کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہو۔ مفتی صاحب نے زور دیا کہ غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کہ ان مصنوعات اور فرنچائیزز کا مکمل بائیکاٹ کر کے اپنا کاروبار شروع کیا جائے۔ اسرائیلی و یہودی مصنوعات اور فرنچائیزز کے منافع سے خریدا گیا اسلحہ مظلوم فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، چھوٹے چھوے بچوں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، کو بھی بے دردی سے مارا جا رہا ہے جس پر دنیا بھر کے لوگوں کا دل دکھا ہوا ہے۔ 

ایک عام مسلمان اسرائیل سے لڑ نہیں سکتا لیکن اُس کا کاروبار اور اُس کی معیشت کو بائیکاٹ کے ذریعے زبردست ٹھیس پہنچا کر بدلہ ضرور لے سکتا ہے۔ بائیکاٹ کا یہ سارا عمل پر امن ہونا چاہیے۔ میری تمام پاکستانیوں اور یہ کالم پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ اسرائیل سے بدلہ لینے میں بائیکاٹ کی اس مہم کو آگے بڑھائیں، اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں لیکن ہر حال میں پرامن رہیں اور کسی طور پر بھی پرتشدد نہ ہوں۔

 انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

الجزیرہ کا کامیاب تجربہ

غزہ کی لڑائی میں ٹی وی چینل الجزیرہ اسرائیل، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے نیا چیلنج بن گیا ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ الجزیرہ کی حقائق سے بھرپور رپورٹنگ سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ انھوں نے قطر کی حکومت پر زور دیا ہے کہ الجزیرہ خطہ میں انتشار پھیلا رہا ہے۔ اس بناء پر اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اسرائیل نے غزہ میں الجزیرہ کے بیورو آفس کو تباہ کر دیا ہے۔ غزہ میں الجزیرہ کے بیورو چیف کے گھر پر حملے میں اس کے خاندان کے افراد جاں بحق ہوئے ہیں ۔ الجزیرہ کے قیام کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔ لندن میں بی بی سی کی عالمی سروس کے فیصلہ ساز ادارہ کے افسروں نے مشرق وسطیٰ کو خصوصی کوریج دینے کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ سعودی عرب سے بی بی سی کا عربی چینل شروع کیا جائے، یوں اس چینل کے قیام کے لیے بی بی سی میں کام کرنے والے عربی صحافیوں کو منتخب کیا گیا مگر اس وقت سعودی عرب میں ایک شاہانہ نظام تھا۔ جدہ سے شایع ہونے والے اخبارات اور ٹیلی وژن چینل سعودی حکومت کی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کے پابند تھے۔ بی بی سی نے اپنی آزادانہ پالیسی کو تبدیل کرنے پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کیا، یوں یہ پروجیکٹ ابتدائی مرحلہ میں بند ہو گیا۔

اس زمانہ میں قطر کے امیر کے سعودی عرب سے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ قطر نے ایران سے تعلقات قائم کر لیے تھے اور سرکاری ملکیت میں 1996 میں الجزیرہ کے عرب چینل کا آغاز ہو گیا۔ جب بی بی سی کا عربی چینل کا پروجیکٹ بند ہوا تو 2006 میں حکومت نے الجزیرہ کا انگریزی ایڈیشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا، یوں بی بی سی کے پروجیکٹ سے فارغ ہونے والوں کو الجزیرہ کے انگریزی چینل کو منظم کرنے کا موقع ملا اور دوحہ سے اس کی نشریات شروع ہوئیں۔ یوں مشرقِ وسطیٰ کا پہلا آزاد ٹی وی چینل وجود میں آیا۔ الجزیرہ نے یورپ، امریکا اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک بشمول اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب، اسلام آباد نئی دہلی وغیرہ میں اپنے بیورو آفسز قائم کیے۔ الجزیرہ نے افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملات پر خصوصی توجہ دی۔ پاکستان کے ایبٹ آباد میں مقیم سعودی منحرف اسامہ بن لادن پر امریکی میرین دستوں کے آپریشن، اسامہ کی ہلاکت، کابل شہر پر امریکا اور اتحادیوں کے حملے جیسے اہم موضوعات پر خصوصی توجہ دی گئی۔ القاعدہ کی سرگرمیوں، القاعدہ کے قائدین کی افغانستان اور پاکستان میں گرفتاریوں کے بارے میں سب سے پہلے الجزیرہ کے رپورٹرز نے دنیا کو آگاہ کیا اور افغانستان میں امریکا اور اتحادیوں کی بمباری نے مساجد اور گھروں میں مقیم افراد کو نشانہ بنایا۔

امریکا اور اتحادی فوج کے تعلقات عامہ کے افسروں نے مرنے والوں کو طالبان دہشت گرد قرار دیا مگر الجزیرہ کی نشریات سے پوری دنیا کو پتہ چلا کہ مرنے والے بے گناہ تھے، یوں امریکی حکومت کو الجزیرہ کی آزادانہ پالیسی پر اعتراضات ہونے لگے۔ الجزیرہ نے اپنے قیام کے بعد سے فلسطینیوں کی جدوجہد کو بہت زیادہ کوریج دی۔ لبنان، اردن، مغربی کنارہ اور غزہ میں حماس اور حزب ﷲ کی کارروائیوں اور اسرائیل میں ان کارروائیوں کے اثرات کے بارے میں الجزیرہ نے معروضی رپورٹنگ کر کے ایسے بہت سے حقائق کو آشکار کیا جن کو مغربی میڈیا Kill کر دیتا تھا، یوں سب سے پہلا اعتراض اسرائیل کو ہوا اور اسرائیل کی حکومت نے تل ابیب میں قائم الجزیرہ کے بیورو کو پہلے ہی بند کر دیا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں 2010 میں ایک عوامی جدوجہد شروع ہوئی جس کو Arab Spring کا نام دیا گیا۔ یہ عوامی جدوجہد تیونس سے شروع ہوئی اور مصر اور لیبیا تک پھیل گئی۔ سعودی عرب بھی اس عوامی احتجاج سے محفوظ نہ رہ سکا۔ سعودی عرب میں 2011 میں حکومت مخالف احتجاج ہوئے۔ الجزیرہ نے ان تمام واقعات کو بہت تفصیل سے اپنے ناظرین کے لیے ٹیلی کاسٹ کیا۔ 

جب سعودی عرب کو بھی الجزیرہ کی نشریات پر اعتراض ہو گیا اور سعودی عرب اور قطر کے درمیان دوبارہ مفاہمت کے لیے بات چیت ہوئی تو سعودی حکومت نے قطر کے سامنے جو مطالبات رکھے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ الجزیرہ پر پابندی عائد کی جائے۔ قطر کی حکومت نے اس مطالبہ کو نہیں مانا البتہ الجزیرہ کی پالیسی میں کچھ تبدیلی کے رجحانات کی عکاسی نظر آنے لگی۔ جب حماس کے جہادیوں نے اسرائیل پر حملہ کیا اور پھر اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بم باری شروع کر دی تو اسرائیل نے اس بمباری میں خاص طور پر بچوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں فرائض انجام دینے والے 16 کے قریب صحافیوں کو قتل کیا۔ گزشتہ ہفتے 17 اکتوبر کو اسرائیل کی فوج نے الحئی اسپتال پر براہِ راست حملہ کیا۔ الحئی اسپتال جس کو دار الشفاء بھی کہا جاتا ہے غزہ کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ اسرائیل کے حملے میں 500 کے قریب مریض جاں بحق ہوئے جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ مرنے والوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملہ بھی شامل تھا۔

الجزیرہ نے اس اسپتال پر حملے کو تفصیلی طور پر کور کیا اور اس رپورٹنگ میں واضح شواہد سے ثابت کیا گیا کہ اسرائیل کے راکٹ نے الشفاء اسپتال کو تباہ کیا۔ یہ اسرائیل کی غزہ میں سب سے بڑی کارروائی تھی جس سے پوری دنیا میں اس واقعے پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ سب سے پہلے اسرائیلی میڈیا نے الزام لگایا تھا کہ یہ راکٹ اسرائیل کا نہیں تھا بلکہ یہ راکٹ حماس کے فدائین نے پھینکا تھا۔ مغربی میڈیا نے اس بیانیہ کو نشر کرنا اور شایع کرنا شروع کیا۔ امریکا کے معروف نشریاتی اداروں فوکس اور سی این این وغیرہ نے بھی یہ الزام لگایا کہ اسپتال پر گرنے والا راکٹ اسرائیلی فوج کا نہیں تھا، یہ حماس کا راکٹ تھا۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن بھی اسرائیل کے اس پروپیگنڈے کا شکار ہوئے۔ انھوں نے دورہ اسرائیل کے دوران یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا کہ الشفاء اسپتال پر حملے میں اسرائیل ملوث نہیں، یوں الجزیرہ کو ایک متعصب چینل قرار دینے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ 

اس واقعے کے بارے میں آزادانہ تحقیقات نیو یارک ٹائمز کے سامنے آنے والی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ ان کے ماہرین نے تمام شہادتوں کے جائزے کے بعد حملے کے بارے میں وڈیوز کا بغور جائزہ لیا اور ماہرین نے اپنی رپورٹ میں اسرائیل کے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا کہ حماس کے راکٹ سے اسپتال میں تباہی ہوئی۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ جو وڈیوز ٹیلی کاسٹ کی گئی ہے، اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اسپتال پر گرنے والا میزائل حماس یا اسلامی جہادی گروپوں نے پھینکا تھا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان وڈیوز کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہ راکٹ اسرائیل نے نہیں پھینکا۔ برطانیہ کے نشریاتی ادارے، بی بی سی نے جو تحقیقات کی تھیں ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ آزادانہ ذرایع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ اسرائیل نے الشفاء اسپتال پر حملہ کے بارے میں وڈیوز پیش کی ہیں ان کی تصدیق نہیں ہوتی۔ الجزیرہ مسلسل دباؤ میں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ جہاں بیشتر ممالک میں اس وقت بادشاہتیں ہیں، کچھ ممالک میں شخصی آمریتیں اور کچھ میں فوجی حکومتیں ہیں اس ماحول میں الجزیرہ کا ایک کامیاب تجربہ ہے۔ الجزیرہ کے اس آزادانہ کردار کو اگر باقی ممالک بھی اپنا لیں تو اسرائیل اور مغربی پروپیگنڈے کا جواب دیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کون کس سے فریاد کرے

پاکستانی سماج میں جو دکھ اور تکالیف کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ غریب طبقہ ہو یا مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس، دیہی یا شہری افراد، کاروباری یا ملازم پیشہ افراد یا نئی نسل کی آوازیں ہوں ہمیں ان کا مشترکہ دکھ معاشی تکالیف کی شکل میں دیکھنے اور سننے کا موقع مل رہا ہے۔ گھر گھر کی کہانی معاشی بدحالی کے مختلف مناظر کے ساتھ لوگ بیان کرتے ہیں او ریہ سناتے وقت ان پر جو بے بسی یا مایوسی غالب ہے وہ بھی توجہ طلب مسئلہ ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج یا عدم توازن نے پورے سماج کی سطح پر گہری معاشی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، چینی، آٹا، دالیں، گھی، گوشت، ادویات، تعلیم اور صحت کے اخراجات سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں پر جو ضرب کاری لگی ہے اس پر سب ہی سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ لوگوں کی کہانیاں سنیں تو اپنی کہانی کا دکھ پیچھے رہ جاتا ہے۔ یقین کریں لوگوں نے اپنے گھروں کی قیمتی اشیا کو بیچ کر بجلی کے بلوں کی آدائیگی کی ہے۔ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام اور ریاستی وحکومتی سطح سے عام لوگوں سے جبری بنیادوں پر ٹیکسوں کی وصولی کے پورا نظام نے ہی لوگوں کو عملی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ طاقتور طبقات کو نظرانداز کر کے یا ان کو سیاسی و معاشی ریلیف دے کر عام آدمی کی زندگی میں مسائل بڑھائے جارہے ہیں۔

سفید پوش طبقہ یا ملازم پیشہ افراد کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنا دکھ کسی کو بیان کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور کوئی ایسا ریاستی , حکومتی یا ادارہ جاتی نظام موجود نہیں جو ان کی آوازوں کو بھی سن سکے یا ان کی شفافیت کی بنیاد پر داد رسی کر سکے۔ یہ ہی المیہ کی کہانی ہے جو آج پاکستان کی سیاست پر غالب ہے۔ آپ کسی بھی علمی یا فکری مجلس کا حصہ ہوں یا سیاسی مباحثوں کا یا کاروباری طبقات یا نوکری پیشہ افراد یا مزدود کہیں بھی بیٹھ جائیں تو دکھوں کی ایک لمبی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ اس کہانی میں حکمرانی کے ظالمانہ نظام سے لے کر حکمران طبقات کی شاہانہ زندگی کے معاملات اور عام آدمی کو جو تکالیف ہیں سب کچھ سننے کو ملتا ہے۔ جس کی بھی کہانی ہو گی اس کا ایک ولن بھی ہو گا اور ہر فریق کا ولن ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن ان سب میں ایک مشترکہ دکھ حکمرانی کا بدترین نظام اور معاشی استحصال ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے مستقبل کا نقشہ کھینچیں اور ان کو بتائیں کے حالات درست ہونے والے ہیں یا آپ امید رکھیں تو وہ مزید کڑوا ہو جاتا ہے اور اس میں مزید غصہ اور انتقام کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس طرح کی جذباتیت پر مبنی کہانیاں کے حالات درست ہونے والے ہیں سن سن کر خود ہمت ہار بیٹھا ہے۔

حکومتی نظام برے طریقے سے اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور لوگوں کو اب اس نظام پر اعتماد نہیں رہا۔ یہ واقعی ایک بڑا المیہ ہے جو اس وقت ریاستی سطح پر ہمیں درپیش ہے۔ مسئلہ محض ماتم کرنا , دکھ بیان کرنا یا کسی کو بھی گالیاں دینا نہیں اور نہ ہی یہ مسائل کا حل ہے لیکن سوال یہ ہے طاقت ور طبقہ یا فیصلہ ساز قوتیں کیونکر لوگوں کی آوازوں کے ساتھ اپنی آواز نہیں ملا رہی اور کیوں لوگوں کے بنیادی نوعیت کے معالات کے حل کے بجائے اس سے فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ارباب اختیار میں یہ سوچ کیونکر غالب نہیں ہو رہی کہ ریاستی یا حکومتی نظام موجودہ طریقوں یا حکمت عملی یا عملدرآمد کے نظام سے نہیں چل سکے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام عملاً گونگا اور بہرہ ہو گیا ہے اور لوگوں کے دکھ اور آوازوں کو سننے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں اور حکمران طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے اور لوگ حکمران طاقتور طبقات کو اپنے مسائل کی جڑ سمجھ رہے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سیاسی نظام , سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور سیاسی کارکن سب ہی غیر اہم ہوتے جارہے ہیں۔ جن سیاسی افراد نے ملک کے سیاسی نظام کی باگ ڈور کی قیادت کرنا تھی وہ کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ 

لوگوں کو ایک ایسے ظالمانہ ادارہ جاتی نظام میں جکڑ دیا گیا ہے کہ لوگ خود کو ہی غیر اہم سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ہم وہ طبقہ نہیں جن کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا بلکہ یہ ملک ایک خاص طبقہ کے مفادات کی تقویت کے لیے بنایا گیا اور ہم اس میں محض تماشائی کی حیثیت سے موجود ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کئی سیاسی افراد جو قومی اور صوبائی اسمبلیو ں کے سابق ارکان ہیں اور جنھوں نے آنے والے انتخابات میں حصہ لینا ہے سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے بقول ہمیں یہ ہی سمجھ نہیں آرہی کہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو ہم عوام کا سامنا کیسے کریں گے اور کیوں لوگ ہمیں ان حالات میں ووٹ دیں گے۔ کیونکہ ہم نے اپنے سیاسی حکمرانی کے نظام میں کچھ ایسا نہیں کیا کہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کدھر جائیں اور کس سے فریاد کریں کیونکہ ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ یہ تو شکر کریں کہ ان بدترین معاشی حالات میں ایسے خدا ترس لوگ یا خوشحال لو گ موجود ہیں جو اپنے اردگرد لوگوں کی خاموشی کے ساتھ مدد کر رہے ہیں ۔

میں کئی لوگوں کو انفرادی سطح پر جانتا ہوں جو بغیر کسی شور شرابے کے اپنے اردگرد ہمسائیوں یا رشتہ داروں یا دوست احباب کی مدد میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان خد ا ترس افراد کے مقابلے میں ریاستی اور حکومتی نظام کدھر ہے اور کیونکر لوگوں کے ساتھ لاتعلق ہوتا جارہا ہے ریاست اور حکومت کا جوابدہ ہونا , ذمے داری کا احساس ہونا , لوگوں کو ریلیف دینا اور ان کی زندگیوں میں خوشیا ں لانا ہی ریاستی نظام کی ساکھ کو قائم کرتا ہے۔ لوگوں کو اب طاقتور طبقات کی جانب سے امید نہیں چاہیے بلکہ وہ عملی بنیادوں پر اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ بھی فوری طور پر ایسے اقدامات جو ان کی زندگیوں میں کچھ مثبت نمایاں تبدیلیاں لا سکے۔ موجودہ حالات میں مڈل کلاس یا درمیانی درجے کی کلاس کو ہم نے واقعی مفلوج کر دیا ہے اور ان کو اپنے رہن سہن میں مختلف نوعیت کے معاشی سمجھوتے کرنے پڑرہے ہیں۔ ان حالات کے ذمے دار وہی ہیں جن کو حکمرانی کرنے کا حق ملا، اختیارات ملے، وسائل ملے اور لوگ ان ہی کو جوابدہ بنانا چاہتے ہیں۔

جنگ وہ نہیں جو اسلحہ کی بنیاد پر کسی دشمن ملک سے لڑی جائے، ایک جنگ پاکستان کے لوگ پاکستان کے اندر حکمرانی کے نظام سے لڑ رہے ہیں اور اس جنگ نے لوگوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے یا اس ریاستی نظام سے لاتعلق بھی۔ اس جنگ کا دشمن ظالمانہ حکمرانی کا نظام ہے اور اس میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو عوام دشمنی کو بنیاد بنا کر اپنے لیے وسائل کو سمیٹ رہے ہیں۔ یہ جنگ عملاً ریاستی نظام کمزور کر رہی ہے اور لوگو ں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور دنیا میں اپنی منزل تلاش کریں۔ ہمیں اگر واقعی ملک میں سول نافرمانی سے بچنا ہے یا ملک کو ایک بڑی ہیجانی یا انتشار یا ٹکراو کی سیاست سے باہر نکالنا ہے تو ہمیں بہت کچھ نیا کرنا ہو گا۔ غیرمعمولی اقدامات ہماری بنیادی نوعیت کی ترجیحات ہونی چاہیے اور ایسی ترجیحات جس میں طاقتور طبقات کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے اور عام آدمی کے مقدمہ کو زیادہ فوقیت دی جائے لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور کون لوگوں کے دکھوں میں خود کو ایک بڑے سہارے کے طور پر پیش کریگا کیونکہ ریاستی اور حکومتی نظام آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی طاقتور طبقہ اسے آسانی سے بدلنے کی اجازت دیتا ہے۔

یہ ایک سیاسی جدوجہد کی کہانی ہے جہاں ہمیں ریاستی یا حکومتی نظام پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کرنا ہوتی ہے۔ یہ کام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کرتی ہیں لیکن وہ تو سیاسی بانجھ پن کا شکار ہیں اور ان کے مفادات عوامی مفادات کے برعکس نظر آتے ہیں۔ ایسے میں لوگ کدھر جائیں گے، ڈر ہے کہ لوگوں میں موجود غصہ ایک بڑے انتقام کی سیاست کی صورت میں آج نہیں تو کل سامنے آئے گا۔ سیاسی نظام کی قیادت سے لاتعلق عوامی ردعمل کسی بھی صورت میں ریاستی مفاد میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ عمل حالات کو اور زیادہ خراب کرتا ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش سنبھالیں اور خود کو عوام کے ساتھ جوڑیں یہ ہی حکمت عملی ہمیں کچھ بہتری کا راستہ دے سکتی ہے۔

سلمان عابد  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

نواز شریف، شیر سے کبوتر تک : وسعت اللہ خان

میاں جب جب باز بننے سے باز نہ آئے تب تب بازی چھنتی چلی گئی۔ چنانچہ اس بار انھوں نے جہاندیدہ لیگیوں کی درخواست پر اقبال کا شاہین احتیاطاً دوبئی میں چھوڑا اور مینارِ پاکستان کے سائے میں بازو پر کبوتر بٹھا لیا۔ یہ احتیاط بھی ملحوظ رکھی کہ کبوتر لقا نہ ہو کہ جس کی دم پنکھ کی طرح پھیلی اور گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بلکہ سادہ سا غٹرغوں ٹائپ باجرہ کھانے والا کبوتر ہو (باجرے کو براہِ کرم باجرہ ہی پڑھا جائے)۔ اس قدر پھونک پھونک کے تیاری کی گئی کہ اس بار جلسے میں نہ تو کوئی پنجرہ بند شیر نظر آیا اور نہ ہی یہ نعرہ لگا کہ ’دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا آیا‘۔ مبادا و خدانخواستہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اگر میاں شیر ہے تو پھر ہم کون ہیں؟ میاں صاحب نے ابتدا میں ہی شکیل بدایونی کے دو الگ الگ مصرعہِ ثانی جوڑ کے ایک نیا شعر اسمبل کیا اور ادب سے نابلد اسٹیبلشمنٹ کی توجہ چاہی۔

کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں
زرا نظر تو ملے پھر انہیں سلام کروں
مگر اسی غزل کا یہ سالم شعر احتیاطاً نہیں پڑھا

انہی کے ظلم کا شکوہ کروں زمانے سے
انہی کے حق میں دعائیں میں صبح و شام کروں

ان کی تقریر سے پہلے برادرِ خورد شہباز شریف نے ’امیدِ پاکستان، معمارِ پاکستان اور عظیم مدبر‘ کو مخاطب کر کے اشارہ دے دیا تھا کہ بڑے بھیا کے خطاب کی روح کیا ہو گی۔ انھیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ آپ اب ماشااللہ تہتر برس کے ہیں۔ آپ کی صحت بھی پہلے جیسی نہیں۔ آپ کو شاید ایک بار اور بھاری ذمہ داریاں اٹھانا پڑ جائیں۔ لہذا ’ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرے‘ یا ’اپنے حلف کی پاسداری کرے‘ یا ’جمہوریت کو بار بار پٹڑی سے اتارنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے‘ یا ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے گھاتک جملے ہرگز زبان پر نہیں آنے چاہییں۔ بس پولی پولی باتیں کرنی ہیں۔ مثلاً ’ہم سب کو ساتھ لے کے چلنا چاہتے ہیں‘، ’کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے‘، ’معیشت کو مل کے دلدل سے نکالیں گے‘، ’مہنگائی ختم کریں گے‘، ’ہمسائیوں سے تعلقات اچھے کرنے کی کوشش کریں گے‘، ’فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘، ’ہم زندہ قوم ہیں نیز نو مئی دوبارہ نہیں ہونے دیں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔

گمان ہے کہ میاں صاحب کو لندن میں تین تصاویر بھی دکھائی گئی ہوں گی۔ عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور انوار الحق کاکڑ کی۔ اور پھر فیصلہ میاں صاحب پر چھوڑ دیا گیا ہو گا۔ انھیں بریف کیا گیا ہو گا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو انھوں نے چار برس پہلے چھوڑا تھا۔ آپ کے تو صرف پلیٹلیٹس بدلے گئے۔ پاکستان کی تو پلیٹیں بدل دی گئیں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ کو عدالت نے سزا سنائی اور عدالت نے ہی آپ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور عدالت نے ہی آپ کو علاج کے لیے باہر بھیجا اور انھی عدالتوں نے آپ کو مجرم قرار دینے کے باوجود آپ کو عارضی ضمانت بھی دی تاکہ آپ بلا خوف و تردد سٹیج پر جلوہ افروز ہوں۔ انھیں ہیتھرو ایئرپورٹ پر بتایا گیا ہو گا کہ آپ سے مرتضیٰ بھٹو والا سلوک نہیں ہو گا کہ جو بے نظیر کی وزراتِ عظمی کے دوران تین نومبر انیس سو ترانوے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں اشتہاری مجرم قرار دیے جانے کے سبب انھیں سیدھا لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا اور ان کی والدہ ایئرپورٹ پر ٹاپتی رہ گئیں۔

نہ ہی اس بار آپ اس حالت سے گزریں گے جب آپ کی اہلیہ لندن میں موت و زیست کی کش مکش میں تھیں مگر آپ اور آپ کی صاحبزادی جب چودہ جولائی دو ہزار اٹھارہ کو لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو آپ دونوں کو مطلوب ملزم کے طور پر حراست میں لے کے اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔ حتیٰ کہ آپ کے برادرِ خورد بھی ٹریفک سگنل پر مسلسل لال بتی کے سبب آپ کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ پہنچ سکے۔ میاں صاحب کو بتایا گیا ہو گا کہ فضا اگر آپ کے حق میں عارضی طور پر بدلی ہوئی لگ رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلا زمانہ بھی جوں کا توں لوٹ آئے گا۔ آج کے پاکستان میں آئین کے ورقوں کو پھاڑ کے جہاز بنا کے اڑانا ایک معمول ہے، عدالت ضرور ہے مگر ترازو ہوا میں جھول رہا ہے، گرفتاری اور ایف آئی آر ایک لگژری ہے۔ رات کو انسان سوتا ہے تو صبح بستر خالی ہوتا ہے۔ گھر والے بھی نہیں جانتے کہ بندہ چالیس روزہ چلے پر گیا ہے، شمالی علاقہ جات میں دوستوں کے ساتھ عیاشی کر رہا ہے یا کسی غار میں بیٹھا سوچ رہا ہے کہ مجھے یہاں سے اسلام آباد پریس کلب جانا ہے کہ کسی ٹی وی اینکر کو فون کرنا ہے یا کسی جہانگیر ترین کے گھر کی گھنٹی بجانی ہے۔

ہو سکتا ہے طیارے کی لینڈنگ سے پہلے میاں صاحب سے یہ ’قسم بھی چکوائی گئی ہو‘ کہ جلسے میں اقبال کے کسی ایسے شعر کا حوالہ نہیں دینا جس میں شاہین اڑ رہا ہو۔ حبیب جالب آج کے بعد آپ کے لیے شجرِ ممنوعہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ پروین شاکر پڑھ سکتے ہیں یا طبیعت بہت ہی مچلے تو غالب سے کام چلانا ہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے اپنے تاریخی خطاب کا اختتام اس شعر پر کیا۔
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہِ طوفاں کیے ہوئے
جس طرح چھ برس پہلے میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کیسز نمٹانے کے لیے ثاقب نثار نے نیب عدالتوں پر ایک نگراں جج مقرر کیا تھا، لگتا ہے واپس آنے والے میاں نواز شریف پر شہباز شریف کو نگراں مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ جب بھی بڑے میاں صاحب عالمِ جذب میں جانے لگیں تو ان کے کان میں برادرِ خورد سرگوشی کر دیں کہ بے شک انسان فانی ہے۔ جولیس سیزر کا کوئی چھوٹا بھائی نہیں تھا۔ لہذا اسے ایک مصاحب کی ڈیوٹی لگانا پڑی تھی کہ جب بھی میں دورانِ خطابت جوش میں آ کے بڑک بازی میں مبتلا ہوں تو تمھیں میرے کان میں بس یہ کہنا ہے ’سیزر تو لافانی نہیں ہے‘۔

میاں صاحب نے جلسے کے اختتام پر قوم کی خیر کے لیے اجتماعی دعا کروائی۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اگر میاں صاحب کو چوتھی بار موقع ملے تو پہلے کی طرح اپنا دماغ لڑا کے دل سے فیصلے کرنے کے بجائے خود کو اس بار نگراں وزیرِ اعظم ہی سمجھیں تاکہ کوئی ایک مدت تو پوری ہو سکے کم از کم۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

وطن کی فکر کر ناداں

دردِ دل رکھنے والوں کی ہر محفل میں ’’گھرکی بربادی‘‘ کا رونا رویا جارہا ہے، پڑھے لکھوں کی نشست میں بربادی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، سنجیدہ لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ وطنِ عزیز کو اس ناگفتہ بہ حالت تک پہنچانے میں کس حکمران نے سب سے زیادہ حصّہ ڈالا ہے اور کونسا ادارہ جسدِ ملّت کو لگنے والے ناقابلِ علاج امراض کا زیادہ ذمّے دار ہے۔ صاحبانِ دانش کی بہت بڑی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ خطرناک بیماری کا آغاز 2017 میں رجیم چینج یعنی منتخب وزیرِ اعظم کو انتہائی مضحکہ خیز طریقے سے ہٹانے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور پھر 2023 تک اس کی شدّت میں اضافہ ہوتا گیا۔  حکومتی ایوانوں کے احوال سے باخبر حضرات اور اقتصادی ماہرین کی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کا دورِ حکومت ملکی معیشت کی بنیادیں کھوکھلی کر گیا اور اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نالائقی، نااہلی، افتادِ طبع، نرگسیّت اور فسطائی سوچ کا بڑا بنیادی کردار تھا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کے حکماء بھی اپنے تمام تر ٹوٹکوں اور تجربوں کے باوجود مرض پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ شہباز شریف صاحب آئی ایم ایف سے معاہدے کے علاوہ کوئی کارنامہ نہ دکھا سکے، وہ پنجاب کی طرح چند منظورِ نظر بیوروکریٹوں پر بہت زیادہ تکیہ کرتے رہے، محدود سوچ کے حامل اور تعصبات کے مارے ہوئے یہ بابو قومی سطح کے مسائل کا ادراک ہی نہ کرسکے۔

وہ صرف یاریاں پالتے رہے اور میرٹ کو پامال کرتے ہوئے کرپٹ افسروں کو اہم عہدوں پر لگواتے، اور بدنام افسروں کو پروموٹ کرواتے رہے۔ اس بار پی ایم آفس میں تعینات بیوروکریٹوں نے وزیرِاعظم کا امیج خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لہٰذا شہباز شریف صاحب کی تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود پی ڈی ایم کی حکومت کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ مختلف ادارے سروے کروا رہے رہے ہیں کہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، عدلیہ اور بیوروکریسی میں سے کس کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ میرے خیال میں وطنِ عزیز کو نقصان پہنچانے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فیصلہ سازی جس کے ہاتھ میں ہو گی اور جس کے پاس اختیارات زیادہ ہوں گے اصلاحِ احوال کی سب سے زیادہ ذمّے داری بھی اس کی ہو گی۔ لگتا ہے وہاں چیلنجز کی سنگینی کا بھی ادراک نہیں ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے درست افراد کے انتخاب (Right man for the right job) کی صلاحیّت کا بھی فقدان ہے۔ اہلِ سیاست کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف (چاہے نام کا ہی تھا) دونوں اپنے آئینی اختیار سے دستبردار ہو گئے اور نگران وزیراعظم کے لیے انھیں جو نام دیا گیا وہ انھوں نے پڑھ کر سنا دیا۔ عام تاثر یہی ہے کہ ایک دو پروفیشنلز کے علاوہ کابینہ کا انتخاب بادشاہوں کی طرح کیا گیا ہے۔

کسی شاعر کی کوئی غزل پسند آگئی تو اسے وزیر بنا دیا، کسی معمّر خاتون کی لچھے دار باتیں اچھی لگیں تو اسے مشیر لگا دیا۔ کسی مصوّر کی تصویر دل کو بھا گئی تو اس سے بھی وزارت کا حلف دلوا دیا، کیا ایسی کابینہ اس قدر گھمبیر مسائل کا حل تلاش کرسکے گی؟ اس وقت سب سے تشویشناک بات عوام کی بے چینی اور ناامیدی ہے۔ انھیں کہیں سے امید کی کرن نظر نہیں آتی، نوجوانوں میں یہ مایوسی اور ناامیدی بہت زیادہ بڑھی ہے اور وہ بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، میں نے پچھلا کالم اسی بات پر لکھا تھا اور کچھ ملکوں کی مثالیں دے کر لوگوں کو ملک چھوڑنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر بہت سی میلز موصول ہوئیں، کچھ لوگوں نے اتفاق بھی کیا مگر کچھ نے شدید اختلاف کیا۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک نوجوان دانشور محمد طیّب فائق کھیتران کی میل قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔ ’’جب سے آپ کی تحریریں پڑھ رہا ہوں تب سے لے کر آج تک یہ پہلی تحریر ہے جس میں ایسا محسوس ہوا ہے کہ یہ تحریر لکھتے ہوئے آپ کے ذہن و دل آپ کے ہمنوا نہیں بن سکے۔

ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے آپ نے اپنا فریضہ ادا کرنا ضروری سمجھا لیکن یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ آپ نے جس انداز میں یا جس بوجھل دل سے عوام کو روکنے کی کوشش کی ہے یہ آواز عوام کے دلوں تک نہیں پہنچے گی۔ آپ ہی بتائیں کہ جس ملک میں بھوک و افلاس، بے روزگاری اور مہنگائی، بد امنی، اسٹریٹ کرائمز، اور لاپتہ افراد جیسی بلائیں روزانہ صبح اٹھتے ہی نئی نئی صورتوں میں نازل ہوتی ہوں، جہاں کرپشن کا کبھی نہ رک سکنے والا سیلاب سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہو۔ ملک کے عوام حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشیاں کر رہے ہوں بچوں کے گلے کاٹ رہے ہوں، بچے برائے فروخت یا گردہ برائے فروخت کے چارٹ گلے میں آویزاں کیے چوک پر کھڑے ہوں، جس ملک میں مزدور کی کل آمدن سے زیادہ بجلی کا بل آتا ہو اور احتجاج کرنے پر ڈنڈے پڑتے ہوں یا جیل بھیج دیا جاتا ہو آٹے کی قطار میں کھڑے ہوکر کئی عورتیں جان کی بازی ہار گئی ہوں، ملک قرض در قرض اور سود در سود کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہو، حکمران طبقے کی کرپشن اور عیاشیاں مزید بڑھتی جا رہی ہوں وہاں بندہ کسی کو روکے بھی تو کس امید پر؟؟

اس ملک میں پہلے تین طبقے ہوتے تھے۔ امیر، متوسط اور غریب لیکن اب صرف دو طبقے ہیں امیر اور غریب جو متوسط تھے وہ غریب ہو چکے ہیں اور جو غریب تھے وہ غربت کی لائن سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ آپ نے جاپان کا حوالہ دیا، جاپان پر تو ایک ایٹم بم گرایا گیا تھا ہم پر تو حکمران ہر روز ایٹم بم گراتے ہیں۔ جس جس نے بھی اس ملک کو لوٹا، برباد کیا کوئی ہے ایسا جو اُن کے گریبان میں ہاتھ ڈال سکے؟ یقیناً کوئی بھی نہیں۔ جب اشیائے خورد و نوش ہی اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ انسان اگر بیس ہزار کما رہا ہے تو صرف کھانے پینے کا خرچ ہی پچاس ہزار تک چلا جائے تو وہ بندہ کیسے پورا کرے؟ کوئی متبادل راستہ؟ مڈل کلاس کے لوگوں نے بھی حالات سے مجبور ہو کر بھیک مانگنا شروع کر دیا ہے۔ پھر کسی جانے والے کو ہم کس طرح قائل کر سکتے ہیں کہ تم نہ جاؤ یہ ملک جنت بن جائے گا؟۔ ہم پر کوئی آفت نازل نہیں ہوئی بلکہ ہم ایک منظم طریقے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برباد کیے جا رہے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمارت کو گرانے میں چند لمحات لگتے ہیں اور بنانے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔

اس ملک کی اشرافیہ اور حکمرانوں نے 75 سال اس کی عمارت کو گرانے میں ہی تو صرف کیے ہیں۔ آپ اگر اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بجائے ان لوگوں کو روکنے کے ان کے نکلنے کے لیے کوئی محفوظ راستہ تجویز فرمائیں‘‘۔ اسی نوعیّت کی اور میلز بھی آئیں جن میں بڑے تلخ حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ چلیں میں اپنے مشورے میں ترمیم کر لیتا ہوں’’آپ بہتر مستقبل کے لیے جہاں جانا چاہتے ہیں جائیں مگر وطنِ عزیز کو ہی اپنا گھر سمجھیں، گھر کی خبر لیتے رہیں اور اس سے ناطہ نہ توڑیں اور آپ کا گھر کبھی مدد کے لیے پکارے تو اس کی پُکار پر دل و جان سے لبّیک کہیں‘‘۔ گھر کی معیشت آئی سی یو میں ہو تو گھر کے ہر فرد کے دل میں اس چیز کا شدید احساس اور تشویش پیدا ہونی چاہیے، ہر فرد کو اپنے طرزِ زندگی میں سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے، گھر کے اخراجات میں واضح طور پر کمی آنی چاہیے، مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے مقتدر حلقے اخراجات میں کمی کرنے یا سادگی اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ اشرافیہ کسی قسم کے ایثار کے لیے آمادہ نہیں، بیوروکریسی کے اللّے تللّے اور عیاشیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ سینئر افسروں کو صرف ضرورت کے لیے ایک سرکاری گاڑی مہیّا کی جاتی اور باقی سب واپس لے لی جاتیں، مگر گاڑیاں واپس لینے کے بجائے ان کے جونیئر ترین افسروں کے لیے بھی مہنگی ترین گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ ان حالات میں بیوروکریسی کو کچھ شرم اور حیاء کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، خود مملکت کے سربراہ کا رویّہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے اور صدر تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ لگتا ہے پورے کارواں کے دل سے احساسِ زیاں ہی جاتا رہا ہے اور کسی میں متاعِ کارواں چھننے کا افسوس، تشویش یا احساس تک نہیں ہے اور یہی چمن کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

؎ وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

موجودہ انتہائی تشویشناک حالات کا فوری تقاضا ہے کہ سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت اپنے ذاتی اور گروہی مفاد سے اوپر اُٹھے اور صرف ملک کی بقاء اور فلاح کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے، ان کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ طے پائے اور ایک نیا چارٹر اور روڈ میپ تشکیل دیا جائے۔ اس کے بعد یہ تمام لوگ قائدؒ کے مزار پر جاکر اس پر صدقِ دل سے عمل کرنے کا عہد کریں اور پھر ہر ادارہ اور ہر فرد پورے اخلاص اور نیک نیّتی سے اس عہد پر عمل پیرا ہو۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قوم کے ہر فرد اور ہر ادارے کے اندر ملک کا درد اور سادگی اور ایثار اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کر دے۔

ذوالفقار احمد چیمہ 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ایف بی آر اور غریب

عجب تیری سیاست عجب تیرا نظام جاگیرداروں ، مل مالکان کو سلام جبکہ غریبوں کا کردیا ہے تو نے جینا حرام، ہماری ریاست کا کچھ یہ ہی حال ہے، ریاست کے پارلیمان میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کا غریب سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عمران خان کا سچ سے رہا ہے۔ پارلیمان میں بیٹھے ہوئے لوگ ہوں یا اسلام آباد میں بیٹھا بابو، یہ تمام لوگ عوام کے پیسے پر عیاشیاں کر رہے ہیں، ان کی اولادیں بھی عوام کے پیسے پر دنیا بھر گھومتی ہیں، میرے اور آپ کے بچوں کا علاج پاکستان میں مفت نہیں ہو سکتا مگر ہمارے سیاسی لوگوں اور ان کی اولادوں کے علاج کے لیے بیرون ملک میں بھی انسانی ہمدردی کے نام پر گرانٹس جاری کر دی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے پالیسی سازوں کا اگر ٹیکس چیک کیا جائے تو ان کے سر شرم سے جھکیں نہ جھکیں ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ یہ ہیں ہمارے پالیسی ساز جو ہر حوالے سے ٹیکس چوری میں کسی سے کم نہیں ہیں مگر وہ کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑتے جس سے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے میں کمی ہو۔ ایسے میں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سینئر سٹیزن کو بھی نہیں بخشتے۔ 

حال ہی میں حکومت نے بہبود سرٹیفکیٹ ، شہداء فیملی اکاؤنٹ اور پنشنرز بینیفٹ اکاؤنٹ کی آمدنی پر پانچ فیصد انکم ٹیکس عائد کر دیا ہے، جو سال 2023ء سے لاگو ہو گا، یعنی شہداء کو بھی ٹیکس دینا ہو گا، جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر دیا ہم نے انھیں بھی نہ بخشا، بنیادی طور پر، اس طرح کی اسکیمیں شہداء کے اہل خانہ کو مالی فوائد فراہم کرنے کے لئے متعارف کروائی گئی تھیں، جنہوں نے قوم اور شہریوں کے لئے اپنی زندگی قربان کر دیں یا پھر وہ سینئر سٹیزن جو تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ایک حصے کے طور پرانکم ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتا رہے ہیں اور جب ان کے پاس آمدنی کا باقاعدہ ذریعہ ہوتا تھا تو قوم کی ترقی میں حصہ ڈالتے تھے ٹیکس کی صورت میں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی جمع پونجی کو ایسی اسکیموں میں اس لئے لگاتے ہیں کہ بڑھاپا آسانی سے کٹ جائے۔ یہ کلاس اب اس طرح کی اسکیموں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر مکمل طور پر انحصار کرتا ہے،

آرام دہ اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے اس طبقے میں مزید وسائل کی ضرورت ہے مگر ہونا تو چاہے تھا کہ ان کی بچت اسکیموں میں ٹیکس کی شرح صفر رہتی لیکن حکومت نے ان کو بھی نہ بخشا، ٹیکس لگانے سے ان اسکیموں پر منافع کے مارجن میں اضافے کے بعد اکاؤنٹ ہولڈرز کی قلیل زندگی کی خوشی ختم ہو جائے گی فیڈرل بورڈ آف ریونیوپالیسی ونگ کو انسانی بنیادوں پر اس آمرانہ پالیسی کو ختم کرنا چاہئے۔ کیا ایف بی آر مل مالکان، جاگیرداروں یا سرمایہ کاروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے ؟ کیا ایف بی آر خود اپنا کام ٹھیک کر رہا ہے، ایف بی آر جیسے ادارے کا تو ملک سے فوری خاتمہ ہونا چاہیے کیوں کہ سندھ میں 2011 میں قائم ہونے والا ایس آر بی ایف بی آر سے 1000 فیصد بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے۔ نگراں وزیر اعظم اور کابینہ سے گزارش ہے کہ بچت اسکیموں میں غریبوں کو پہنچنے والے فائدے پر دوبارہ سوچ بچار کیا جائے۔ اور پرانے نظام میں واپس آنا چاہئے جہاں اس طرح کی آمدنی سے غربت کا خاتمہ اور ساتھ لوگوں کے وسائل میں اضافہ ہورہا تھا. اور اس آمدنی پر ٹیکس مسلط کر کے یہ چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاروں پر بہت زیادہ بوجھ ثابت ہو رہا ہے۔ موجودہ شرح ٹیکس پر 5 ملین روپے کی سرمایہ کاری پرنئی نافذ شدہ پالیسی کے تحت قابل اطلاق انکم ٹیکس 41 ہزار روپے ہو گا، جبکہ، پرانےنظام کے تحت یہ 11 ہزارروپے ہوتا تھا۔ حکومت سے گزارش ہے کہ بچت اسکیموں میں بیواؤں، سینئر سٹیزن اور شہداء کی فیملیز کی سرمایہ کاری کو تحفظ دے اور فی الفور ٹیکس کی مکمل چھوٹ کا اعلان کرے۔

محمد خان ابڑو

بشکریہ روزنامہ جنگ