کوویڈ اتنی جلدی دفعان ہونے والا نہیں

ویسے تو پاکستان ہمیشہ سے ہی نازک دوراہے پر بتایا جاتا ہے مگر اگلے تین ماہ کے دوران پاکستان واقعی نازک دوراہے پر نظر آ رہا ہے۔ ایک جانب افغان سرحد کی طرف سے ناگہانی آ سکتی ہے تو دوسری جانب سے کوویڈ کا ڈیلٹا ویرینٹ ہمیں گھور رہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ حوصلہ افزا سہی کہ اکانومسٹ جریدے نے پاکستان کو پچھلے ڈیڑھ برس میں کوویڈ مینیجمنٹ کی اپنی مرتب کردہ عالمی فہرست میں حسنِ انتظام کے اعتبار سے سنگا پور اور نیوزی لینڈ کے بعد تیسرے درجے پر رکھا ہے۔ لیکن یہ فہرست ڈیلٹا ویرینٹ کے پھیلاؤ سے پہلے کی ہے۔ پاکستان نے یقیناً اب تک کوویڈ کی تین لہروں کو خوش اسلوبی سے جھیل لیا ہے مگر اب وزیرِ اعظم اور ان کی مینیجمنٹ ٹیم نے ڈیلٹا کی شکل میں چوتھی لہر کی خبر دی ہے جس کے آثار نمودار ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں کوویڈ متاثرین کی تعداد ہزاروں سے کم ہو کر سیکڑوں میں پہنچنے کے بعد اب پھر ہزاروں میں پہنچ رہی ہے اور جس رفتار سے چوتھی لہر آ رہی ہے اس کے سبب ہر ہفتے متاثرین کی تعداد دوگنی ہونے کی جانب تیزی سے سفر کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نئے متاثرین میں سے پچاس فیصد ڈیلٹا ویرینٹ کا شکار ہوئے ہیں۔

کیا ہم واقعی ڈیلٹا کے مقابلے کے لیے تیار ہیں یا گزشتہ تین لہروں کی پسپائی کے سرور میں ہیں ؟ آثار یہی ہیں کہ ہم سرور میں ہیں۔ تمام تر حسنِ انتظام کے باوجود گزشتہ پانچ ماہ کے دوران بائیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف پانچ ملین شہریوں کو ہی کسی بھی قسم کی کوویڈ ویکسین کی دو خوراکیں لگ پائی ہیں۔ جب کہ سرکاری ہدف اگلے پانچ ماہ میں سات کروڑ پاکستانیوں کی ویکسینیشن کا بتایا جا رہا ہے۔ موجودہ رفتار سے یہ ہدف حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس دوران اگر ڈیلٹا ویرینٹ کی لہر قابو سے باہر ہونے لگی تو نہ صرف یہ ہدف اور دور جا سکتا ہے بلکہ پچھلی کامیابیوں پر بھی پانی پھر سکتا ہے۔ فرض کریں ویکسینیشن کا ہدف حاصل ہو بھی جائے تب بھی آرام سے بیٹھنے کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ویکسینیشن کوویڈ سے ہونے والی اموات کے مقابلے میں ایک ڈھال کا کام کر رہی ہے۔ البتہ یہ ڈھال کتنے ماہ و سال کے لیے موثر ہے اور اگلی اضافی خوراک ( بوسٹر ) لینے کی ضرورت کتنے عرصے بعد پڑے گی کوئی نہیں جانتا۔

محض اندازے ہیں کہ فلاں ویکسین اتنے ماہ کے لیے موثر ہے اور فلاں ایک سے دو برس تک ہمیں بچا کے رکھے گی اور پھر تیسری ڈوز کی ضرورت پڑے گی۔ یعنی یہ ایک مستقل جنگ ہے جو اگلے کئی برس پوری دنیا کو انتھک لڑنی ہے۔ اور جنگ بھی گھمسان کی ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اگر ستر فیصد آبادی کی ویکسینیشن ہو جائے تو باقی تیس فیصد بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ جب تک ہر انسان کی ویکسینیشن نہیں ہو جاتی تب تک ہم سب خطرے کے دائرے میں رہیں گے۔ اس تناظر میں حالات اور بھی مایوس کن ہیں۔ ترقی یافتہ اور دولت مند ممالک نے تو اپنی کم ازکم پچاس فیصد آبادی کی ویکسینشن مکمل کر لی ہے اور اگلے پانچ ماہ کے دوران وہ سو فیصد ہدف حاصل کرنے کے قریب ہیں مگر بہت سے ترقی پذیر ممالک میں ابھی ویکسینیشن شروع بھی نہیں ہوئی۔ بہت سے ممالک کا دار و مدار عالمی ادارہِ صحت کی کوششوں سے چندے اور خیرات میں ملنے والی ویکسین پر ہے۔

پاکستان جیسے ممالک ایک حد تک تو ویکسین خریدنے کی سکت رکھتے ہیں لیکن ان کی زیادہ تر امید کا محور امداد میں ملنے والی ویکسین کے گرد ہی رہے گا۔ تیز رفتار ویکسینشن کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ تجارتی مفادات کو ویکسین کے معیار کے پردے میں آگے بڑھانے کی سیاست ہے۔ یعنی امریکا ، یورپی ممالک اور دولت مند عرب ریاستیں صرف اس ویکسینیشن کو تسلیم کرتے ہیں جس میں مغربی و امریکی ویکسین ساز کمپنیوں کی ویکسین استعمال ہو رہی ہے جیسے فائزر ، استرا زینیکا ، موڈرنا ، جانسن اینڈ جانسن وغیرہ۔ جن لوگوں نے چینی یا روسی ویکسین لگوائی ہے اسے مغرب تسلیم نہیں کرتا۔ اس امتیاز کی بنیاد کسی سائنسی ثبوت پر ہے یا یہ مشرق و مغرب کی سیاسی رقابت کی بنیاد پر ہے ؟ جو بھی وجہ ہو مگر اس کی زد میں ایک عام آدمی ہی آ رہا ہے۔ مثلاً میں گزشتہ ہفتے برطانیہ گیا تو وہاں کے صحت حکام نے میرا نادرا کا جاری کردہ ویکسینیشن سرٹیفکیٹ ماننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ نے چینی ویکسین لگوائی ہے جو ہمارے ہاں رجسٹرڈ نہیں لہٰذا آپ کو اپنے خرچے پر دس دن مخصوص ہوٹل میں قرنطینہ کرنا پڑے گا۔

اگر آپ نے ہماری منظور شدہ ویکسین لگوائی ہوتی تو پھر آپ گھر پر پانچ دن قرنطینہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ مجھے ایک ہوٹل کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔  عالمی ویکسینیشن کی راہ میں دوسری اہم رکاوٹ مینوفیکچرنگ رائٹس اور لائسنسگ ہے۔ یعنی ویکسین ساز کمپنیاں ترقی پذیر غریب ممالک کو نہ تو برانڈڈ ویکسین کی مقامی تیاری کا لائسنس دے رہی ہیں اور نہ ہی ان کی ضرورت کے اعتبار سے ویکسین کی کھیپ تیار کر پا رہی ہیں۔ گویا غریب ممالک کو سہہ طرفہ مار پڑ رہی ہے۔ تیسری بڑی رکاوٹ خود وہ عوام ہیں جنھیں مرنا اور دوسروں کو وائرس سے متاثر کرنا تو منظور ہے مگر ویکسین لگوانا قبول نہیں۔ ان میں سے کئی لوگ نہ صرف خود ویکسین لگوانے کے قائل نہیں بلکہ جو لگوانا چاہتے ہیں انھیں بھی بھٹکانے اور گمراہ کرنے کو ثوابِ جاریہ سمجھ رہے ہیں۔

کبھی ویکسین کے حرام حلال ہونے کا سوال اٹھا دیا جاتا ہے تو کبھی اس مبینہ چپ سے ڈر لگتا ہے جو دراصل ویکسین کی آڑ میں ان کے جسم میں داخل کیا جا سکے۔ اس کے بعد دشمن ممالک کی ایجنسیاں اور بل گیٹس جیسے لوگ ان کی ہر سرگرمی پر نظر رکھ سکیں گے۔ بھلے ان کے پلے نظر میں آنے کے لیے کچھ ہو یا نہ ہو۔ جو ان دلائل سے گمراہ نہیں ہو سکتے انھیں یہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ ویکسینیشن سے مردانہ قوت سلب ہو جاتی ہے۔ اس اطلاع پر سب سے زیادہ پریشان ہونے والوں میں نوجوان کم اور ستر برس سے اوپر کے بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بندہ ان سے پوچھے کہ بھائی صاحب آپ نے ویکسین آنے سے پہلے اس مخصوص شعبے میں کیا کیا تیر چلا لیے جو اب آپ کو اپنی رہی سہی قوت کھونے کا خیال ستائے جا رہا ہے۔ مگر یہ کہانیاں اور تھیوریاں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ یہی کہانیاں اور وہمات خاندانی منصوبہ بندی کی مہم اور پولیو ویکسین کے بارے میں بھی پھیلائے جاتے رہے۔ آپ ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے البتہ یہ لوگ آپ کا کچھ نہ کچھ ضرور بگاڑ سکتے ہیں اگر آپ کچے کانوں کے مالک ہیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

فواد چوہدری پاکستان کو کورونا سے بچا سکتے ہیں

چند ہفتے پہلے اسلام آباد میں گھر میں گھس کر کچھ نامعلوم افراد نے ایک صحافی پر تشدد کیا۔ جب اس واقعے پر خبر بنانے کے لیے برطانوی نشریاتی ادارے کے ایک صحافی نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا ردِعمل حاصل کرنا چاہا تو انھوں نے فرمایا کہ پہلے پاکستانی حکومت کی کورونا کے خلاف کامیابی پر ایک پروگرام کرو، پھر صحافیوں کے رونے دھونے پر بھی ردِ عمل دوں گا۔ نہ اسلام آباد کبھی رہا ہوں نہ ہی وہاں پر میرے کوئی ذرائع ہیں، لیکن ہزار میل دور سے بیٹھا بھی بتا سکتا ہوں کہ صحافیوں پر تشدد کروانے میں فواد چوہدری کا کم از کم کوئی ہاتھ نہیں ہو سکتا۔ جب انھیں کسی صحافی کو سبق سکھانا ہوتا ہے تو وہ بھری محفل میں اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں، رات کی تاریکی میں نامعلوم افراد نہیں بھیجتے۔ کچھ صحافی، جنھیں چوہدری صاحب صحافی نہیں مانتے، یہ شکایت کرتے پائے گئے کہ چوہدری صاحب نے انھیں نوکری سے نکلوایا ہے، شاید نکلوایا ہو لیکن میرے صحافی بھائیوں کو اپنے چہیتے سیٹھوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اتنی آسانی سے چوہدری صاحب کی بات کیوں مان لیتے ہیں۔

معلوم نہیں کہ برطانوی نشریاتی ادارے نے فواد چوہدری کی فرمائش پر پاکستان کی کورونا کے خلاف کامیابی پر کوئی پروگرام کیا کہ نہیں لیکن ایک صحافی کے طور پر میرا فرض بنتا ہے کہ اس کامیابی کی بابت کچھ عرض کرتا چلوں۔ ملک میں سیاسی تقسیم اتنی شدید اور گالم گلوچ سے بھری ہے کہ ہم زمینی حقائق بھی نہیں مانتے۔ کورونا کی وبا نے ایک پرانا مغالطہ دور کر دیا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں نظام ہی کوئی نہیں۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کروائے اور زیادہ تر عوام کے شکوے شکایتوں کے باوجود کامیاب کروائے۔ کبھی سمارٹ اور کبھی بدھو لاک ڈاؤن، لیکن ان سے وبا کے پھیلاؤ میں کافی کمی آئی۔ حکومت نے طالب علموں کی بد دعائیں لیں، تاجروں کی دھمکیاں سنیں، کچھ جیب خرچ غریبوں کی جیب میں ڈالا، کچھ سیٹھوں کی تجوریاں بھریں لیکن بیماری اور معاشی بدحالی کو اس نہج پر نہیں جانے دیا جو ہمسایہ ملک میں نظر آئی۔

فواد چوہدری مانیں یا نہ مانیں ہمارے صحافی یا غیر صحافی بہنوں اور بھائیوں نے بھی وبا کی رپورٹنگ زیادہ تر ذمہ دارانہ انداز میں کی، جھوٹی اور سنسنی خیز خبریں کم سے کم پھیلائیں لیکن حکومت کی اصل کامیابی اس وقت نظر آئی جب پاکستان میں ویکسینیشن کا عمل شروع ہوا۔ یہ عمل تھوڑا تاخیر سے شروع ہوا اور شروع میں تھوڑا کنفیوژن رہا، لیکن اب جس بڑے پیمانے پر اور جس نظم و ضبط سے لوگوں کو وبا کے ٹیکے لگ رہے ہیں میں نے اپنی زندگی میں اس طریقے سے پاکستان میں کوئی کام ہوتے نہیں دیکھا۔ اپنی تاریخ کی وجہ سے ہم حکومت اور اس کے کارندوں پر اعتبار کم ہی کرتے ہیں، چاہے حکومت کو ہم نے خود منتخب کیا ہو۔ ہم نے تو گاڑی کو پنکچر بھی لگوانا ہو تو کوئی واقف ڈھونڈتے ہیں، کسی سرکاری محکمے میں کام پڑ جائے تو سب سے پہلے سفارش ڈھونڈ لیتے ہیں، ہسپتال جانا ہو تو کسی انکل کے دوست ڈاکٹر سے فون کرواؤ، عدالت میں کلرک کے کزن کا دوست ڈھونڈو، تھانے میں تو کوئی واقف مل بھی جائے تو بھی نہ جاؤ۔

میں تقریباً سو سے زیادہ لوگوں سے پوچھ چکا ہوں کہ ویکسین کہاں سے اور کیسے لگوائی۔ کسی کو سفارش کی ضرورت نہیں پڑی، کسی کا چاچا ماما کام نہیں آیا۔ ان لوگوں میں گھریلو ملازم، سینیئر فنکار اور سیٹھ بھی شامل ہیں اور ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو صبح اٹھتے ہی یہ ’حکومت نالائق ہے، اس ملک میں کوئی نظام ہی نہیں ہے‘ کا ورد کرتے رہتے ہیں، لیکن کسی ایک کے منھ سے بھی ویکسین لگوانے کے عمل کے بارے میں شکایت نہیں سُنی۔ میں نے خود بھی کراچی میں ویکسین کی پہلی خوراک لگوائی اور دوسری پنجاب میں اپنے آبائی شہر میں۔ صرف اتنا پوچھا گیا کہ آپ نے پہلی سندھ میں لگوائی تھی؟ میں نے کہا جی ہاں اور انھوں نے بغیر دوسرا سوال پوچھے مجھے دوسری خوراک لگا دی۔ زندگی میں پہلی دفعہ یہ خوشگوار احساس ہوا کہ یہ تو ہماری حکومت ہے اور اس کے کارندے کتنے مہذب لہجے میں ہم سے بات کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جن لوگوں نے ویکسین لگائی ہے تو چند لمحوں کے لیے وہ حکومت کے ساتھ ایک پیج پر آ گئے تھے۔

یہ نظام اس لیے بھی قابل تعریف ہے کہ حکومت نے ابھی تک پرائیویٹ سیکٹر میں ویکسین کی فراہمی کو مؤخر کر کے سیٹھ اور مزدوروں کو چند لمحوں کے لیے سہی مگر ایک صف میں ضرور کھڑا کر دیا۔ چوہدری صاحب جانتے ہوں گے کہ جو حکومت کا قصیدہ پڑھتا ہے وہ اس کے بعد کوئی فرمائش بھی کرتا ہے تو عرض ہے کہ پاکستان میں 30 لاکھ یا اس سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ وہ آپ کے اور ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، ساتھ کام کرتے ہیں، اگر ان کو ویکسین نہیں لگے گی، جو کہ اب تک نہیں لگ رہی، تو کورونا کے بڑھنے کا خدشہ موجود رہے گا۔ چوہدری صاحب کو یہ کام اگر مشکل لگے تو وہ اپنی سائنسی سوچ پر انحصار کریں۔ ابھی ایک سال پہلے تک پوری قوم سمجھتی تھی کہ اگر مفتی منیب اپنی آنکھوں سے چاند نہیں دیکھیں گے تو عید نہیں ہو گی۔ چوہدری صاحب نے مفتی صاحب کو سائنس کی مار مار دی اور اب پوری قوم آرام سے عید مناتی ہے۔

چوہدری صاحب کے ساتھ ساتھ نادرا کے نئے چیئرمین طارق ملک اور مشیر صحت فیصل سلطان صاحب بھی سائنسی سوچ کے لوگ ہیں۔ اگر وہ اپنے رہنما عمران خان کو بھی قائل کر لیں اور وہ بغیر شناختی کارڈ والے شہریوں کے لیے ویکسین کھول لیں تو پوری دنیا میں ہماری غریب پروری اور سائنسی سوچ کے چرچے ہوں گے اور پھر برطانوی کیا ہر غیر ملکی نشریاتی ادارے کو کورونا کے خلاف ہماری کامیابی پر پروگرام کرنے ہوں گے۔

محمد حنیف

بشکریہ بی بی سی اردو

کیا اصل مجرم سیاست دان ہیں؟

ہر پند‘ ہر نصیحت کا مخاطب سیاست دان ہی کیوں؟ علاج میں اختلافِ رائے ہو سکتا ہے لیکن اگر تشخیص ہی میں اختلاف ہو تو علاج سرے سے ممکن نہیں رہتا۔ اہلِ دانش کو معاملہ یہ ہے کہ تشخیص کی طرف کوئی دھیان نہیں۔ سارا زور مریض پر ہے۔ اس کو کوسا جا رہا ہے کہ احتیاط کیوں نہیں کرتا؟ گویا وائرس کا تو کوئی قصور نہیں‘ اصل مجرم مریض ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کورونا سے نمٹنے کیلئے سارا اصرار ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے پر ہو۔ ویکسین یا علاج کو سرے سے موضوع ہی نہ بنایا جائے۔ کیا اس طرح کورونا ختم ہو سکتا ہے؟ اس طرح کورونا تو ختم نہیں ہو سکتا لیکن اس کا پورا اندیشہ ہے کہ انسان ختم ہو جائے۔ چیچک نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں۔ اگر اس کی ویکسین نہ تلاش کی جاتی تو آج کرۂ ارض پہ انسان نام کی مخلوق نہ پائی جاتی۔ انسان نے پہلے یہ سمجھا کہ مرض کیا ہے اور پھر اس کا علاج دریافت کیا۔ جب تک علاج کی تلاش جاری تھی‘ احتیاط کی تلقین کی گئی۔

کورونا کے بارے میں آج عالمِ انسانیت کا اجماع ہے کہ یہ ایک وائرس ہے اور انسان کو اس سے محفوظ بنانے کے لیے ویکسین کی ضرورت ہے۔ اب ساری دنیا جُت گئی کہ یہ ویکسین بنائی جائے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ویکسین یا علاج پر سرمایہ اور وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں۔ ساری توانائیاں مریض پر صرف کی جائیں کہ اس کی حرکت محدود ہو جائے۔ گویا کورونا دندناتا پھرتا رہے اور انسان چار دیواری میں قید ہو جائے۔ کورونا کا یہ حق مان لیا جائے کہ یہ زمین اس کی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے بنی ہے‘ انسانوں کے لیے نہیں۔ صحت مند معاشرہ کون سا ہے؟ وہی جس کی فضا کسی وائرس سے آلودہ نہ ہو۔ لوگوں کو ماسک پہننے کی ضرورت نہ پڑے۔ سماجی فاصلے نہ ہوں‘ اور اگر کوئی وائرس حملہ آور ہو تو سب مل جائیں اور اس کا اہتمام کریں کہ یہ وائرس انسانی بستیوں سے دور رہے۔ صحت مند معاشرے وہ نہیں ہوتے جو وائرس سے صرفِ نظر کریں اور مریض کو کوستے رہیں کہ وہ احتیاط کیوں نہیں کرتا۔ اسے بھی احتیاط کرنی چاہیے لیکن اس سے وائرس کے لیے کوئی جواز پیدا نہیں ہو جاتا کہ وہ انسانی بستیوں کو برباد کرتا پھرے۔

انسانی جسم کی طرح‘ انسانی سماج کے بھی معالج ہوتے ہیں۔ یہ سماج کی صحت کو موضوع بناتے ہیں۔ اس کے امراض کی نشاندہی کرتے ہیں اور پھر ان کے علاج تجویز کرتے ہیں۔ یہ علاج انسانی رویوں اور ان کے تجربات کو سامنے رکھ کر مرتب کیے جاتے ہیں جو صدیوں پر محیط ہوتے ہیں۔ انسانی جسم کی اور انسانی سماج کی کارگزاری میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ ایک اجماع اس پر ہے کہ ایک سماج کس طرح کام کرتا ہے‘ اس کو کیا عوارض لاحق ہوتے ہیں اور اسے صحت مند بنانے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے۔ علاج کے بارے میں سماج کے ماہرین میں اختلاف ہو جاتا ہے جیسے جسم کے ماہرین میں ہوتا ہے لیکن تشخیص میں یہ اختلاف کم وبیش ختم ہو گیا ہے۔ پہلے ہم اس اجماع کی بات کرتے ہیں۔ انسانی سماج کو جو بڑے عوارض درپیش ہوتے ہیں‘ ان میں ایک عدم استحکام ہے۔ ان ماہرین نے یہ جانا کہ جن معاشروں میں اقتدار تک رسائی کا کوئی پُرامن راستہ موجود نہیں ہے‘ ان میں ہمیشہ فساد برپا رہتا ہے۔

جہاں طاقت کے زور پر اقتدار کا استحقاق ثابت ہوتا ہے‘ وہاں ہمیشہ قتل و غارت گری رہتی ہے‘ لہٰذا اس کا علاج ہونا چاہیے کہ ایک معاشرے میں پُرامن انتقالِ اقتدار ممکن ہو سکے۔ اس تشخیص کے بعد اس کا علاج جمہوریت کی صورت میں تجویز کیا گیا۔ یہ حق تلوار کے بجائے عوام کو دے دیا گیا کہ وہ جسے پسند کریں اسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیں اور جسے چاہیں‘ تخت سے اتار دیں۔ عوام اپنے اس حق کا اظہار اپنے ووٹ سے کرتے ہیں۔ اس تشخیص اور اس علاج پر آج اجماع وجود میں آ چکا۔ اس سے اختلاف کرنے والے وہی ہیں جو جسمانی عوارض کو بھی کسی پھونک یا پھکی سے دور کرنا چاہتے ہیں؛ چنانچہ دیکھیے کہ جن معاشروں میں جمہوریت ہے‘ وہاں استحکام ہے۔ جہاں جمہوریت نہیں ہے یا جمہوریت کے نام پر دھوکہ دیا جا رہا ہے‘ جیسے برصغیر کے کچھ ممالک میں تو وہاں نتیجہ وہی ہے جو جعلی دوائی دینے کا ہو سکتا ہے۔ گویا وہاں عدم استحکام کا سبب جمہوریت نہیں‘ جعلی جمہوریت ہے۔

دوسری بات جس پر سماج کے طبیبوں کا اجماع ہے‘ وہ اس کا نظام ہے۔ جس طرح انسانی جسم میں مختلف اعضا یا نظام‘ جیسے نظامِ تنفس یا نظامِ انہضام‘ مختلف کام کرتے ہیں‘ اسی طرح انسانی سماج میں بھی مختلف طرح کے نظام کام کرتے ہیں۔ انسانی جسم میں اگر گردے‘ پھیپھڑے اور دل سمیت تمام اعضا اپنا اپنا کام کرتے رہیں اور ایک صحت مند دماغ ان پر نظر رکھے تو انسانی جسم صحت مند رہتا ہے۔ اسی طرح اگر سماج کا سیاسی نظام‘ معاشی نظام اور دیگر شعبے اپنا اپنا کام کرتے رہیں اور ایک ادارہ ان کی نگرانی کرے تو سماج بھی صحت مند رہتا ہے۔ اگر جسم میں پھیپھڑے یہ ضد کرنے لگیں کہ وہ دل کا کام کریں گے۔ وہ جسم کو آکسیجن کی فراہمی کے ساتھ‘ خون کی گردش کو بھی کنٹرول کریں گے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ دل اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کر رہا تو وہ جسم پہلے شدید بیمار ہو گا اور پھر مر جائے گا۔ دل جتنا بیمار کیوں نہ ہو‘ اس کا کام پھیپھڑوں کو نہیں سونپا جا سکتا۔ اگر پھیپھڑے اپنے زور پر یہ کام اپنے ذمے لیں گے تو اس جسم کی موت یقینی ہو جائے گی۔

اگر کسی جسم میں دل اپنا کام درست طور پر نہیں کر رہا تو اچھا معالج اس کا علاج کرے گا۔ اس کو صحت مند بنانے کے لیے ادویات تجویز کرے گا۔ وہ کبھی یہ نہیں کرے گا کہ دل کی رگوں کو کاٹ کر پھیپھڑوں سے جوڑ دے کہ آج کے بعد یہ کام بھی تم ہی سنبھالو۔ انسانی سماج کا معالج بھی یہی کرتا ہے۔ انسان سماج میں کچھ لوگ ہیں جو سیاسی نظام کو چلاتے ہیں۔ کچھ اس کی حفاظت کا ذمہ لیتے ہیں۔ سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی نظام درست طور پر نہیں چل رہا تو اس کا علاج یہ ہے کہ اہلِ سیاست کی اصلاح کی جائے۔ اس کا علاج یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی اور کو سیاسی امور سونپ دیے جائیں۔ اس پر سماجی ماہرین کا اجماع ہے۔ آج پاکستان کے اہلِ دانش کو بتانا چاہیے کہ پاکستان کو بطور سماج اور ریاست کیا مرض لاحق ہے؟ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس باب میں عوام کی صحیح راہنمائی کریں۔ علاج اگلا مرحلہ ہے‘ تشخیص تو درست ہونی چاہیے۔

میرا تاثر ہے کہ آج کا دانشور یہ نہیں کر رہا‘ الا ماشااللہ۔ وہ صاف دیکھ رہا ہے کہ پھیپھڑوں نے بزور دل کا کام سنبھال رکھا ہے۔ دانشور اس کو نظر انداز کرتے ہوئے مریض کو کوس رہا ہے کہ وہ ماسک کیوں نہیں پہنتا۔ وہ احتیاط کیوں نہیں کرتا؟ گویا اس کا خیال ہے کہ اگر مریض ماسک پہن لے تو بچ جائے گا‘ باوجود اس کے کہ پھیپھڑوں نے دل کا کام سنبھال رکھا ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ مریض کو ماسک ضرور پہنائیں لیکن کم از کم تشخیص تو درست کریں۔ پھیپھڑوں کو بھی سمجھائیں کہ دل کا کام دل کو کرنے دیں۔ مرض کی تشخیص پہلا مرحلہ ہے۔ اس کا ادراک علاج کا پہلا زینہ ہے۔ افسوس کہ ہمارا معالج اس پر قدم رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ صرف مریض کو کوستا ہے اور خوش ہے کہ اس نے اپنا فریضہ ادا کر دیا۔ آج دانشور کے ہر پند‘ ہر نصیحت کا مخاطب صرف مریض ہے۔

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

خورشید ندیم

بشکریہ دنیا نیوز

دنیا ایک بار پھر کورونا کی لپیٹ میں

پانچ کروڑ سے زیادہ افراد دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ دوسری لہر میں اب تک 7.2 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ متاثر امریکا، میکسیکو، برطانیہ، برازیل، فرانس، جرمنی اور ہندوستان وغیرہ ہیں۔ پاکستان میں روزانہ کے متاثرین تین ہزار سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور روس میں ویکسین کی دریافت ہوئی ہے۔ اس وقت درست اعداد و شمار بتانا مشکل ہے اس لیے کہ تعداد میں تیزی سے روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ موڈرینا کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ یہ ویکسین 95 فیصد کارآمد ہے، یہ وائرس کو ختم کرے گی۔ فائزر اور جانسن اینڈ جانسن امریکی کمپنیوں نے بھی ویکسین بنا لی ہے، یہ 94.5 فیصد کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک کمپنی 22 ملین ویکسین فراہم کر سکتی ہے جب کہ دوسری 50 ملین ویکسین فراہم کر سکتی ہے۔

امریکی حکومت نے 1.1 ملین ویکسینز خریدنے کا اعلان کیا ہے۔ 1.1 ملین ویکسینز امریکا لینے کے بعد دوسرے ملکوں کو مل سکتی ہے۔ امریکا میں ایک روز میں ایک لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ روسی سائنسدان نے ایسی ویکسین دریافت کی ہے جو اینٹی باڈی پلازمہ 24 گھنٹے میں بنا سکتی ہے اور بھی کئی ملکوں کے سائنسدانوں نے ویکسین اور اینٹی باڈیز کی دوا دریافت کی ہے۔ شروع میں چین، اٹلی، اسپین اور ایران زیادہ متاثر ہوئے تھے جب کہ دوسری لہر میں ایسا نہیں ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پی ٹی آئی کے جلسے روک دیے ۔ جب انتخابی مہم ختم ہوئی تو یہ اعلان کیا۔ جن ملکوں نے اسے اہمیت نہیں دی یا مذاق کے طور پر دکھایا چھپایا وہیں زیادہ پھیلا۔ جیساکہ امریکا، اٹلی، اسپین، بھارت، میکسیکو، برازیل، برطانیہ اور فرانس وغیرہ۔ جہاں احتیاط کی گئی وہاں رک گیا۔

جیساکہ بھوٹان، نیپال، چین، کوریا، ویتنام، کمبوڈیا، برما، لاؤس، یونان اور کچھ افریقی ممالک۔ جن کے پاس وسائل کم ہیں انھوں نے احتیاط کی اور روک لیا۔ جن کے پاس بہت وسائل ہیں، ایٹم بم بھی ہیں مگر کورونا کو روک نہیں پائے۔ ویسے تو وائرس خطہ، رنگ و نسل، مذہب، طبقہ اور زبان سے بالاتر ہے، کسی پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے، مگر ساتھ ساتھ طبقاتی بھی ہے۔ وہ ایسے جیسا کہ امریکا میں سیاہ فام لوگوں میں زیادہ پھیلا۔ اس لیے کہ وہ پسماندہ ہیں، غذا کی کمی ہے، بہتر ماحول میسر نہیں، تحفظات کا انتظام نہیں۔ چونکہ سیاہ فام سفید فاموں کے مقابلے میں غذائی قلت کا شکار ہیں، اس لیے کہ آمدنی اور وسائل کم ہیں۔ چونکہ بھرپور غذا حاصل کرنے سے قاصر ہیں اس لیے اینٹی باڈی یعنی قوت مدافعت کی کمی ہے۔ اس کے باعث اموات زیادہ ہوئیں۔ یہی صورتحال دنیا بھر میں ہے۔

پاکستان، ہندوستان، برازیل، میکسیکو اور برطانیہ وغیرہ میں ہے۔ مرنے والوں میں غریب، محنت کش اور پسماندہ لوگ قرنطینہ میں رہتے ہوئے غذائیت سے بھرپور کھانا نہیں کھا سکتے ہیں اس لیے ان میں قوت مزاحمت بہتر طور پر پیدا نہیں ہوتی ہے اور وہ وائرس کو شکست بھی نہیں دے سکتے ہیں۔ محنت کش اگر کورونا سے بچ جاتے ہیں تو پھر بھوک کے شکار ہوکر مر جاتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں ہی تیس کروڑ محنت کشوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے قبل صرف سال کے پہلے تین ماہ میں تیرہ کروڑ لوگ اپنی نوکریوں سے فارغ کر دیے گئے۔ اس طرح غریب ممالک کے تقریباً 1.8 ارب غیر رسمی مزدوروں کو لاک ڈاؤن اور اس کے بعد پیدا ہوئی صورتحال کی وجہ سے غربت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی بینک کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کی معیشت اس سال کے اختتام تک 7 فیصد تک سکڑ جائے گی اور مجموعی طور پر عالمی معیشت 5.2 فیصد تک سکڑ سکتی ہے، جب کہ زیادہ تر ممالک کی معیشتیں کساد بازاری کی لپیٹ میں رہیں گی۔

معیشتوں کی اس قدر ابتر صورتحال کے سب سے زیادہ بھیانک اثرات بھی محنت کش طبقے پر ہی پڑیں گے جو پہلے ہی ابتر صورتحال سے دوچار ہے۔ دوسری طرف وبا کی شروعات پانچ مہینوں میں صرف امریکی ارب پتیوں کی کل دولت میں 6.37 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ جو دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آن لائن تعلیم یا مختلف اجناس کی آن لائن کھپت، کورونا وبا کے دوران بھی ان سرمایہ داروں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا ہے جس سے ان کی دولت میں اضافہ ہو سکے۔ دولت میں اضافے کی یہ ہوس اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ آج ہمارا ایکو سسٹم بھی اس کی زد میں آچکا ہے۔ چین سے جس وبا کا آغاز ہوا وہ محض کوئی حادثہ نہ تھا بلکہ یہ فطرت میں پیدا کیے گئے بگاڑ ہی کا نتیجہ تھا جس کا خمیازہ آج پوری دنیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں ایک ہفتہ میں 5 گنا کورونا کے متاثرین کا اضافہ ہوا ہے۔

عمران خان نے ہزارہ، حافظ آباد اور جی بی کے دورے کے بعد یعنی اپنا سیاسی دورہ مکمل کر کے اب جلسوں کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ اب اگر حزب اختلاف جلسے کرنے جا رہی ہے تو وہ بھی جرم ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں مزید 12 ہزار 839 افراد متاثر ہوئے۔ سوئیڈن کے حکام نے کورونا وائرس کے باعث سماجی تقریبات میں لوگوں کی تعداد کو 300 سے کم کر کے 8 کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جنوبی کوریا میں 11 مزید امریکی فوجیوں کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ برطانوی وزیر صحت نے کہا کہ حکومت ویکسین کی دستیابی کے بعد اسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ بھارت کی سیاسی جماعت کانگریس کے مرکزی رہنما احمد پٹیل بھی وائرس کا شکار ہو گئے، یہ اعداد و شمار 19 نومبر 2020 تک کے ہیں۔ بھارت میں متاثرین کی تعداد 80 لاکھ 45 ہزار تک جا پہنچی ہے جب کہ مزید 447 اموات کے  بعد مجموعی ہلاکتیں ایک لاکھ 30 ہزار 109 ہو گئیں۔

امریکا میں متاثرین کی تعداد ایک کروڑ تیرہ لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ جب کہ 2 لاکھ 51 ہزار افراد لقمہ اجل ہو چکے ہیں۔ برازیل میں متاثرین افراد کی تعدد 58 لاکھ 63 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ اب تک ایک لاکھ 65 ہزار 800 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ آسٹریا میں لاک ڈاؤن کا دوسرا مرحلہ، سعودی عرب کے علاقے نجران میں دوبارہ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے 13 لاکھ 32 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کسی زمانے میں ٹی بی کے مرض کو لاعلاج قرار دیا جاتا رہا مگر اب اس کا باقاعدہ علاج ہوتا ہے۔ کینسر کا بھی علاج ہو رہا ہے مگر دھن والے کروا سکتے ہیں۔ اب بھی پولیو کی معذوریت سے بچانے کی دوا کے بجائے اسے نسل کو بڑھانے سے روکنے کی دوا بعض لاعلم حضرات قرار دیتے ہیں۔ کورونا کو بھی بہت سے لوگ اور حکمران اسے خطرناک نہیں سمجھتے اور مذاق اڑاتے ہیں۔ ہر دور میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بیماریوں کے علاج کو فضول سمجھتے ہیں۔

ابوبکر الرازی جو فادر آف میڈیسن بھی کہلاتے ہیں جب چیچک کی دوا دریافت کی تو انھیں حکمرانوں نے جیل میں یہ کہہ کر قید کر دیا کہ چیچک کی تو بڑھیا ہوتی ہے اس نے کہاں سے دوا نکال لی؟ بیماری ہو، وبا ہو، ماحولیات ہو یا جنگ، ہر سانحے میں پیداواری قوتیں، محنت کش اور شہری کی اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ اس وقت احتیاط سب سے بڑا علاج ہے۔ یونان اور مشرق بعید کے ممالک بہتر احتیاط کرنے کی وجہ سے کورونا کم پھیلا ہے۔ یہ عمل قابل تقلید ہے۔ یونان کی حزب اختلاف کی تجویز اور حکومت کی جانب سے ایک حد تک عمل کرنے پر بہتر نتائج آئے ہیں۔ انھوں نے پہلے مرحلے میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ مل، فیکٹریاں، کارخانے، دکانیں سب کھلی رہیں، مگر فیکٹریوں میں ایک شفٹ میں 35 افراد کو کام کرنے کی اجازت دی تھی۔ ہر شفٹ کے ساتھ ایک ڈاکٹر ورلڈ ہیلتھ کے احکامات پر مکمل عمل کیا۔ اس سے بہتر نتیجہ نکلا۔

زبیر رحمٰن

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کورونا کے بگڑنے کا انتظار نہ کریں

آپ میں سے جن لوگوں کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ زندگی نے اُن کے ساتھ بہت نا انصافی کی ہے، وہ یہ واقعہ پڑھنے کے بعد فیصلہ کریں کہ کیا اُن کے ساتھ ڈاکٹر لی سے بھی زیادہ نا انصافی ہوئی ہے؟ چین کا ڈاکٹر لی وہ پہلا شخص تھا جس نے دنیا کو کورونا وائرس کے خطرے سے آگاہ کیا۔ یہ ڈاکٹر ووہان کے اسپتال میں کام کرتا تھا ، دسمبر 2019 میں جب وہاں اوپر تلے سات مریض داخل ہوئے جن میں ایک ہی قسم کی علامات تھیں تو اِس ڈاکٹر کا ماتھا ٹھنکا۔ اُس نے اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے سامنے یہ بات رکھی اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ اسے یہ سارس وائرس کی کوئی شکل لگ رہی ہے۔ چار دن بعد ڈاکٹر لی کو’عوامی تحفظ بیورو ‘ نے طلب کیا جہاں اسے ایک ’بیانِ حلفی‘ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جس میں لکھا تھا کہ اُس نے جھوٹی افواہیں پھیلائیں ’’جس سے نظم اجتماعی کو سخت نقصان پہنچا‘‘۔

بیورو کے افسران نے اسے سخت لہجے میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم تمہیں متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر تم نے اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی اور اسی لاپروائی کے ساتھ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے تو تمہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا، بات سمجھ میں آ گئی ؟‘ ڈاکٹر لی نے خاموشی سے سر جھکا دیا اور ’جی جناب‘ کہہ کر وہاں سے نکل آیا۔ یہ 3 جنوری 2020 کا واقعہ ہے۔ چینی حکام کی جانب سے ڈاکٹر لی کو جاری کیا گیا یہ خط آج بھی بی بی سی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ 10 جنوری کو خود ڈاکٹر لی میں کورونا کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں اور دو دن بعد اسے اسپتال داخل کر دیا گیا۔ 20 جنوری کو چین نے اِس وبا کے تناظر میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ چینی حکام نے ڈاکٹر لی سے معافی مانگی۔مگر اس وقت تک دیر ہو چکی تھی ۔ ٹھیک اٹھارہ دن بعد 7 فروری 2020 کو تینتیس سالہ ڈاکٹر لی وین لیانگ کی کورونا وائرس کی وجہ سے موت واقع ہو گئی۔

سنہ 2020 کورونا وائرس کا سال تھا ، اِس ایک سال میں جہاں یہ وائرس دنیا کو لاکھوں اموات دے گیا وہاں انسان کو یہ سبق بھی سکھا گیا کہ اپنی خواہش کے تابع کسی چیز کا انکار یا اقرار کرنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ چینی حکام نے ڈاکٹر لی کی سرزنش تو کر دی مگر اُس سے کورونا وائرس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اِس پورے سال میں ہم نے کئی سازشی تھیوریاں سنیں ، کسی نے کہا کہ بل گیٹس اپنی ویکسین بیچنے کی خاطر یہ وائرس پھیلا رہا ہے اور کسی نے فائیو جی کے کھمبوں کو وائرس پھیلانے کا ذریعہ قرار دیا ۔ کسی نے وائرس کے متعلق عجیب و غریب پیشگوئیاں کیں تو کسی نے کووڈ کا علاج جڑی بوٹیوں سے بتایا۔  کوئی پیشگوئی درست ثابت ہوئی اور نہ ہی کوئی ٹوٹکا کام آیا، کسی سازشی تھیوری کا سراغ ملا اور نہ ہی فائیو جی کے کھمبے اکھاڑ کر کچھ نکلا۔ آج ہم سب کو اُس ویکسین کا انتظار ہے جو تیاری کے آخری مراحل میں ہے ، یہ ویکسین پچانوے فیصد تک موثر ہے ۔

ماہرین کے مطابق اس ویکسین کے استعمال سے اگلے موسم سرما تک دنیا اپنے معمول پر واپس آ جائے گی۔ ہمارا کام بس اتنا ہے کہ جب تک یہ ویکسین نہیں آتی، اُس وقت تک احتیاط کریں اور اگر خدانخواستہ آپ میں کورونا کی علامات ظاہر ہوں تو کچھ ایسی باتو ں پر عمل کریں جن سے یہ بیماری بگڑنے نہ پائے۔ یہ باتیں کیا ہیں؟ پہلی بات یہ ہے کہ بیماری کا انکار نہ کریں ۔ یہ درست ہے کہ ہر کھانسی یا بخار کورونا نہیں ہوتا، آج کل موسم تبدیل ہو رہا ہے جس سے لوگوں کو عام فلو بھی ہو رہا ہے مگر کورونا کی علامات مخصوص ہیں۔ جونہی یہ علامات ظاہر ہوں فوراً اِس کا ٹیسٹ کروائیں مگر ساتھ ہی اپنی چھاتی کا ایکسرے اور کچھ خون کے ٹیسٹ بھی کروا لیں، مثلاً سی بی سی ، ای ایس آر، ڈی ڈائمر وغیرہ ، پوری تفصیل آپ کو کسی مستند ڈاکٹر سے مل سکتی ہے، ویسے تو فدوی کے پاس بھی یہ تفصیل موجود ہے مگر فدوی چونکہ ڈاکٹر نہیں اس لیے (اعلان دستبرداری) دے دیا ہے۔

فائدہ اِس کا یہ ہو گا کہ کورونا کے ٹیسٹ سے پہلے یہ ٹیسٹ مل جائیں گے اور علاج فوراً شروع ہو سکے گا۔ اِس بیماری میں بروقت تشخیص بے حد ضروری ہے۔  ہمارے دلبر جانی ارشد وحید چوہدری کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انہیں کچھ دنوں سے بخار، کھانسی وغیرہ تھی مگر وہ یہی سمجھے کہ عام موسمی بخارہے، اس میں کئی دن گزر گئے۔ جب تک کورونا کا ٹیسٹ کروایا اُس وقت تک بیماری بگڑ چکی تھی، ارشد کو وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا اور پھر وہاں سے یہ ہیرے جیسا صحافی واپس نہیں آیا۔ کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور! کورونا میں بروقت تشخیص کے دو فائدے ہوتے ہیں ، ایک تو ڈاکٹر آ پ کو اسی سنجیدگی سے لیتے ہیں جس سنجیدگی سے آ پ بیماری کو لیتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر یہ دیکھے کہ آپ پورے ٹیسٹ لے کر اُس کے پاس آئے ہیں تو اسے علاج میں بھی آسانی ہو جاتی ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ایکسرے یا خون کے نمونوں میں کوئی بڑی خرابی نظر آئے تو پھر جان بچانے والی ادویات ، اینٹی بائیوٹک اور ضروری انجکشن وغیرہ بر وقت دیے جا سکتے ہیں۔

یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے اگر مریض بیماری کا انکار کرنے کی بجائے حقیقت قبول کرے اور ٹوٹکوں کی بجائے میڈیکل سائنس کے مطابق علاج کروائے۔ اِس دوران مریض کو اپنا سیچوریشن لیول بھی دیکھتے رہنا چاہیے ، آج کل یہ اسمارٹ فون سے بھی دیکھا جا سکتا ہے ، اگر کسی دن یہ مسلسل چوبیس گھنٹوں تک 94 سے نیچے رہے تو ایسی صورت میں فوراً اسپتال داخل ہو جانا چاہیے ۔ اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ وائرس اب اتنا خطرناک ہو چکا ہے کہ کسی ٹیسٹ میں ظاہر نہیں ہوتا لہٰذا اِس سے پریشان نہ ہوں ۔ یہ وہ چند باتیں ہیں جن پر عمل کر کے اِس موذی مرض کو بگڑنے سے روکا جا سکتا ہے ۔ رہ گئی احتیاط تو وہ آج بھی وہی ہے ، ماسک پہنیں ، ہاتھ دھوئیں ، ہجوم اور بھیڑ سے بچیں۔ البتہ حواس باختہ نہ ہوں، گھر کی چیزوں کو ، اپنے جوتوں یا کپڑوں کو پاگل پن کی حد تک صاف کرنے کی ضرورت نہیں ۔ دل کا میل البتہ ضرور صاف کرتے رہیں۔

یاسر پیر زادہ

بشکریہ روزنامہ جنگ

دس لاکھ افراد کو بیروزگار کرنے کا پروگرام

باپ بیٹا جنگل میں شکار کھیلنے گئے، شکار ہاتھ نہ لگا تو تھک ہار کر اپنے اپنے خیموں میں سو گئے۔ آدھی رات کو باپ نے بیٹے کو اُٹھایا اور کہا کہ اوپر دیکھو بیٹے نے کہا کہ آج آسمان پر ستارے جگمگا رہے ہیں، چاند روشنی بکھیر کر جنگل کو منگل کر رہا ہے۔ باپ نے غصے سے بیٹے کو تھپڑ مار کر کہا بیوقوف دیکھ نہیں رہا کہ ہمارے خیمے غائب ہو گئے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہماری معیشت کے ساتھ ہوا اور جو صرف 28 مہینوں میں دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی اور اب مہنگائی کی آڑ میں یہ حکومت، جس نے کنٹینر پر بیٹھ کر قوم کو سبز باغ دکھائے تھے جو ایک ایک کر کے خوفناک بدحالی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کورونا کی آڑ میں دوبارہ معاش یعنی روزگار پر حملہ کرنے کے درپے ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ہم روزگار اور کاروبار کسی قیمت پر بند نہیں کریں گے، مگر ان کے وزراء، معاونین، مشیر بڑے بڑے شہروں کو اور 21 نومبر سے شادی ہالوں کو جو 7 ماہ بعد کھلے تھے یک لخت بند کر کے لاکھوں افراد کو بیروزگار کرنے والے ہیں۔

صرف شادی ہال بند کرنے سے اس سے منسلک کاروبار جس میں بیوٹی پارلرز، جیولری، ملبوسات، کاسمیٹکس کی دکانیں، فلاور شاپس اور بارہ، پندرہ دیگر کاروبار شامل ہیں، بند ہو جائیں گے۔ لاکھوں افراد دوبارہ قرضوں میں جکڑے جائیں گے جو ابھی بمشکل دو تین ماہ بعد اپنے پرانے قرضے اور فاقوں سے نجات حاصل کر پائے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہوٹل، ریسٹورینٹس کھلے رہیں گے تو کیا وہاں کورونا کا اثر نہیں ہو گا جبکہ شادی ہالوں کی مارکیاں تو کئی کئی گز کھلی اور اونچی ہوتی ہیں۔ شادی میں شرکت کے لئے تعداد بھی آدھی کر دی گئی ہے اور ایس او پیز بھی بتا دیے گئے ہیں۔ بوفے سسٹم ختم کر کے میز پر کھانا سرو کیا جارہا ہے۔ ماسک اور سینی ٹائزر کا بھی پابند بنا دیا گیا ہے۔ پھر بیٹھے بٹھائے یہ مصیبت دوبارہ کیوں مسلط کی جا رہی ہے۔ جب کہ ایک طرف حکومت خود اور اس کے مقابلے میں حزب اختلاف اور پی ڈی ایم ہر چھوٹے بڑے شہر میں بڑھ چڑھ کر جلسے کر رہی ہے، کیا اس سے کورونا نہیں پھیلے گا ؟

ان شادی ہالوں میں جہاں مرد و خواتین گھروں سے نہا دھو کر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے ہیں، صرف 2، ڈھائی گھنٹوں میں فاصلوں سے بیٹھ کر کھانا کھانے سے کورونا پھیلنے کا اندیشہ حماقت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ فیکٹریوں میں لاکھوں کاریگر مرد و خواتین بسوں میں سفر کر کے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ کمرشل مارکیٹیں پبلک سے بھری ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ 22 کروڑ کی آبادی والے پاکستان میں کورونا کی ہلاکت خیزی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اتنا واویلا مچا کر قوم کو دہشت زدہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ پہلے ہی قوم مہنگائی اور بیروزگاری سے دو چار ہے اور دوبارہ چوریوں اور ڈاکہ زنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دن دہاڑے عوام لٹنے لگے ہیں، پرس اور موبائل چھننے کے واقعات میں تیزی آچکی ہے۔پولیس اور انتظامیہ بے بس ہے ایسے میں مزید بیروز گاری پھیلانا خود حکومت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ ایس او پیز پر سختی سے عمل کرا کر شادی ہال اور اس سے منسلک کاروبار بند نہ کرے۔ شادیوں کی بکنگ اور پلاننگ مہینوں قبل ہوتی ہے، صرف ایک ہفتے کے نوٹس سے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کو یک لخت بند کر دیا جائے، بہتر ہے کہ اس مسئلہ کا افہام و تفہیم سے متعلقہ کاروباری افراد کو بلا کر کوئی حل نکالا جائے۔ دوسری جانب اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کے آغاز سے ملک میں باقاعدہ سیاسی جنگ چھڑ گئی ہے، اپوزیشن اتحاد کے 3 بڑے اور کامیاب جلسے گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ میں منعقد ہو چکے ہیں جن میں عوام نے بلاشبہ بڑی تعداد میں شرکت کی اور اس میں کوئی حیرت یا اچنبھے کی بات اس لئے نہیں کہ اپوزیشن نے جن حالات میں اپنی تحریک کا آغاز کیا عوام کی بد دلی اور مایوسی اپنے نقطہ عروج کو چھو رہی ہے۔ منہ زور مہنگائی نے اچھے بھلے کھاتے پیتے گھرانوں کے افراد کو بھی تگنی کا ناچ نچا دیا ہے، بے روزگاری ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر اس ملک کو چلانے اور عوام کے نام پر سیاست کرنے والوں کے سامنے موجود ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران بجلی و گیس کے بلوں میں قسطوں کی سہولت دینے والی حکومت نے جب یکدم واجبات اور ٹیرف بڑھا کر بل بھیجے ہیں تو لوگ بلبلا اٹھے ہیں۔ وزیر اعظم ان سوا دو برس میں اتنا تو ضرور جان چکے کہ ان کی ٹیم وہ ڈیلیور نہیں کر پا رہی جس کی انہیں امید تھی۔ لیکن ان کی شاید مجبوری ہو کہ وہ سیاسی پرندوں کی زیادہ اکھاڑ پچھاڑ نہیں کر سکتے کیونکہ ایک جانب تو پی ٹی آئی کے اقتدار کی کرسی اتحادیوں کی مرہون منت ہے تو دوسری جانب الیکٹیبلز کی بڑی تعداد بھی ان کی جماعت میں شامل ہے۔ جس دن الیکٹیبلز کو احساس ہوا کہ اب ان تلوں میں تیل نہیں رہا تو موسمی پرندوں کی طرح اُڑ جائیں گے اور عمران خان کچھ کرنا بھی چاہیں گے تو دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح صرف تماشہ ہی دیکھتے رہ جائیں گے۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ

سیکھنا ہے تو پاکستان سے سیکھیں، امریکی ماہر کی اپنی حکومت کو مشورہ

عالمی بینک کے سابق چیف اکانومسٹ اور اوبامہ کی اکنامک کونسل کے صدر لارنس سمرز نے پاکستان کے کرونا اقدامات کی شاندار تعریف کرتے ہوئے اسے زبردست قرار دیا اور اپنی حکومت کو بھی مشورہ دیا کہ وہ پاکستان سے سیکھیں کے اس وائرس پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹرپر اپنے ایک ٹویٹ میں لیری سمرز نے کہا کہ اگر امریکہ پاکستان کی طرح کووڈ کے خلاف اقدامات کرتا تو دس ٹرلین ڈالرز بچائے جا سکتے تھے۔

Told @FareedZakaria on GPS @CNN, America’s failure on COVID-19 is almost unimaginable. Heck, if the U.S. had handled the pandemic as well as Pakistan, we would have saved in neighborhood of $10 trillion.
— Lawrence H. Summers (@LHSummers) October 18, 2020

اس سے پہلے ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن اور ورلڈ اکنامک فورم بھی پاکستان کے کرونا کے خلاف اقدامات کو دنیا کے لیے قابل تقلید قرار دے چکے ہیں، ورلڈ اکنامک فورم کاکہنا تھا دنیا کو پاکستان سے سیکھنا چاہے۔

بشکریہ روزنامہ جسارت

کورونا وائرس : طویل المیعاد حکمت عملی ناگزیر ہے

دنیا کے کئی ملکوں میں کورونا وائرس کے متاثرین میں ازسرنو اضافہ دیکھا جارہا ہے جس سے واضح ہے کہ اس عالمی وبا پر قابو پانے کی کوششیں اب تک کارگر ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ پاکستان میں بھی کیسوں میں مسلسل کمی کا جو رجحان جاری تھا وہ کسی قدر تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور امریکا میں کورونا کے کیسوں میں اضافے جبکہ بحیثیت مجموعی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں کمی کا رجحان رہا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں بھی معمولات زندگی کی بڑی حد تک بحالی کے بعد کورونا کے نئے کیس سامنے آرہے ہیں۔ صورت حال کے جائزے میں اس نکتے کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے کہ متاثرین اور فوت ہونے والوں کی تعداد ضروری نہیں کہ اتنی ہی ہو جتنی سرکاری ریکارڈ پر ہے کیونکہ اس میں ٹیسٹ نہ کرانے والے لوگ شامل نہیں ہوتے جبکہ دو تہائی دیہی آبادی پر مشتمل اس ملک میں ایسے افراد کا بھی خاصی تعداد میں ہونا بالکل قرین قیاس بلکہ یقینی ہے۔

بہرحال ریکارڈ پر موجود معلومات کے مطابق وبا کی ملک میں آمد کے بعد سے اب تک اس سے متاثر ہونے والوں کی کل تعداد 3 لاکھ 13 ہزار اور اموات کی تعداد ساڑھے چھ ہزار تک پہنچی ہے۔ تقریباً تین لاکھ افراد صحت یاب ہو گئے ہیں۔ ملک بھر میں وینٹی لیٹر پر منتقل کئے گئے مریض سو سے کم ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت اور دنیا کے دوسرے کئی ملکوں کے مقابلے میں اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں یہ وبا بے لگام نہیں ہو سکی اور صورت حال قابو میں ہے لیکن کیسوں میں مسلسل کمی کے رجحان کا منفی طور پر بدلنا بہرصورت فوری توجہ کا طالب ہے۔ کراچی میں احتیاطی تدابیر ملحوظ نہ رکھنے والے شادی ہالوں، ریستورانوں اور اسکولوں کی بندش اور گاڑیوں کی ضبطی متعلقہ حکام کی ذمہ داری تھی اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اس پر شکوے شکایت کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ جب تک اس وبا کا شافی علاج دریافت اور اس سے عام استفادہ ممکن نہ ہو جائے اس وقت تک احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل درآمد ہی مسئلے کا حل ہے۔

ایسا نہ کرنے کا مطلب صرف اپنی ذات کو نہیں پورے معاشرے کو خطرے میں ڈالنا ہے جس کا سنگین جرم ہونا محتاج دلیل نہیں۔ جہاں تک مرض کے شافی علاج کا تعلق ہے تو عالمی سطح پر ادویات اور ویکسین کی تیاری کی خبریں تو بہت آتی رہی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس سمت میں اب تک کوئی واضح عملی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ ایسا کیوں ہے؟ متعلقہ عالمی اداروں پر اس سوال کا اطمینان بخش جواب واجب ہے۔ بظاہر لگتا یہی ہے کہ ابھی خاصی مدت تک کورونا کا کوئی حتمی علاج عالمی سطح پر متعارف نہیں ہو پائے گا جس کی بناء پر ناگزیر ہے کہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے طویل المیعاد اور قابلِ عمل حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ احتیاطی تدابیر کی سختی سے پابندی اس کی بہرحال اولین شق ہونی چاہئے جبکہ زیادہ سے زیادہ کاموں کا آن لائن انجام دیا جانا اور اس کے لیے مزید تمام ممکنہ سہولتوں کا ہر سطح پر فراہم کیا جانا بھی اس میں لازماً شامل ہونا چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کرونا وائرس کے خلاف پاکستان کے اقدامات : ڈبلیو ایچ او کی تعریف

دنیا بھر کی عالمی معیشت کو متاثر کرنے والی وبا کورونا کا زور اب بھی کم نہیں ہوا ، پڑوسی ملک بھارت اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک میں اس کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں۔ تاہم قدرت کی مہربانی کے ساتھ ساتھ بعض حکومتی اقدامات کے سبب خوش قسمتی سے پاکستان پر کورونا کے مہلک اثرات بڑے پیمانے پر مرتب نہیں ہوئے اور اس وائرس پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ اگرچہ رواں ماہ میں چند مقامات پر کیسز میں اضافے کے بعد فعال کیسز کی تعداد کچھ حد تک بڑھ گئی ہے تاہم مجموعی طور پر صورتحال بہتر ہے۔ جس کی تصدیق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ادھانوم کے اس بیان سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان نے وبائی بیماری کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ معیشت میں استحکام کے لئے بھی کام کیا۔

برطانوی آن لائن اخبار ‘کے ایک کالم میں ٹیدروس ادھانوم نے مزید کہا کہ پاکستان نے کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لیے پولیو کے انفراسٹرکچر کو استعمال کیا، کمیونٹی ہیلتھ ورکرز جنہیں گھر گھر جا کر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والے بچوں کو تربیت دی گئی ہے انہیں دوبارہ ملازمت فراہم کر کے ان سے نگرانی سمیت امور سرانجام دلائے گئے، اس حکمت عملی سے وائرس کا پھیلاؤ نہ صرف کم ہوا بلکہ ملکی معیشت بھی ایک بار پھر بہتر ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال چین کے شہر ووہان میں سامنے آنے والے وائرس کورونا کے عالمی پھیلائو کے نتیجے میں مجموعی طور پر دنیا بھر میں دس ملین افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں، کئی ملین اب بھی اس مہلک وائرس سے متاثر ہیں۔ ایسے میں جبکہ وائرس کے خاتمہ یا بچائو کیلئے تاحال کوئی ویکسین سامنے نہیں آسکی ہے، ڈبلیو ایچ او اور دیگر صحت کے ماہرین کی جانب سے ہاتھ دھونے، ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سمیت بتائی گئی دیگر احتیاطی تدابیر اپنا کر اس وبا کا زور ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں بھی ان تدابیر کو اپنائے رکھنا چاہئے تاکہ یہ وائرس پھیل نہ سکے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

پاکستان میں کورونا وائرس کیسسز میں کمی نے ماہرین کو چکرا کر رکھ دیا

اس وقت پوری دنیا کو کورونا وائرس نے مفلوج کر رکھا ہے لیکن پاکستان میں مزید زور پکڑنے کے بجائے حیرت انگیز طور پر گھٹ گئی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ جون کے وسط تک روزانہ 6 ہزار سے زائد کیسز سامنے آرہے تھے لیکن ستمبر میں ان کی یومیہ تعداد کم ہو کر 300 سے بھی کم رہ گئی ہے۔ سندھ میں پانچ ماہ کے دوران پہلی بار کورونا وائرس سے کوئی ہلاکت سامنے نہیں آئی۔ پاکستان میں اب تک مجموعی طور پر 297512 کیسز سامنے آئے جس میں 6335 ہلاکتیں شامل ہیں جبکہ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ گزشتہ اگست تک ہلاکتیں 80 ہزار تک پہنچ جائیں گی ۔ ان میں سے 282268 مریض صحت یاب ہو گئے۔ اس طرح پاکستان میں مجموعی کیسز جی تعداد 8909 رہ جا تی ہے ۔ ادھر بھارت میں کورونا وائرس کیسز چالیس لاکھ سے تجاوز کر گئے ہیں۔

اس طرح امریکا اور برازیل کے بعد اس وبا کا شکار بھارت دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اب تو پاکستان میں ہلاکتیں اکائی میں ہو نے لگی ہیں جس نے ماہرین کو بھی چکرا کر رکھ دیا ہے ۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جا تی ہے کہ پاکستان میں اوسط عمر 22 سال ہے یعنی آبادی کی اکثریت نوجوانوں کی ہے جبکہ کورونا وائرس زیادہ تر عمر رسیدہ افراد پر حملہ آور ہو تا ہے۔ اٹلی میں آبادی کی اوسط عمر 46.5 سال ہے جہاں پاکستان کے مقابلے میں آبادی کم ہو نے کے باوجود ہلاکتیں 35 ہزار سے تجاوز کر گئی ہیں ۔ بھارت میں تزاہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 69561 ہے۔ حالانکہ بھارت میں درمیانی عمر 26 سال ہے لیکن گنجان آبادیوں میں اس وبا کے پھیلنے کے خدشات زیادہ ہو تے ہیں۔ جو ممالک کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو ئے وہاں اوسط عمر 35 سے 45 سال کے درمیان ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وبا پر قابو پا نے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے گئے جس میں ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ کا موثر نظام شامل ہے۔ مریضوں کو قرنطینہ میں جا نے کی سہولت بہم پہنچائی گئی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ