اقوامِ متحدہ کی غیر مستقل نشست کے لیے بھارت کا انتخاب

اٹھارہ جون 2020 کو بھارت ایک بار پھر اقوامِ متحدہ میں سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست کے لیے بھاری ووٹ لے کر منتخب ہو گیا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہُوا۔ بھارت یکم جنوری2021 سے 31 دسمبر 2022 تک یو این سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب رہے گا۔ اس سے قبل بھی وہ سات بار اسی نشست کے لیے منتخب ہو چکا ہے ۔ اُس کی نظریں دراصل سلامتی کونسل کی مستقل نشست پر ہیں تاکہ وہ امریکا ، چین ، رُوس، فرانس اور برطانیہ ایسے ویٹو کی طاقت رکھنے والے ممالک کا ہم پلّہ بن کر جنوبی ایشیا کا تھانیدار بن سکے۔ ابھی مگر یہ نوبت نہیں آنے والی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھارت کو سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن منتخب ہونے دینا اس کے ظالمانہ اقدامات کو قانونی حیثیت دینا ہے۔ عنوانات سے پہلے ہی لگ رہا تھا کہ بھارت یہ نشست لے جائیگا۔ شاید اسی لیے انتخاب سے قبل ہمارے وزیر خارجہ ، شاہ محمود قریشی، سے منسوب ایک بیان یوں شایع ہُوا ’’ اگر بھارت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بن بھی گیا تو کوئی آسمان نہیں گر پڑے گا۔‘‘ اس بیان کو وطنِ عزیز میں پسند نہیں کیا گیا ۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی طرف سے اس بارے ناپسندیدگی کا پہلا ردِ عمل آیا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا:’’ آخر کار بھارت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہو گیا ہے۔ اُسے 193 ارکان میں سے 184 ووٹ ملے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے سوال ہے کہ ہم نے ایسا کیوں ہونے دیا ؟ خطے سے بھارت کے مقابلے میں اور کوئی ملک کیوں نہیں تھا؟ پاکستان، بھارت کی بہت پہلے کی گئی نامزدگی پر راضی کیونکر ہوا؟ سب سے پریشان کن معاملہ بھارت کا اتنی تعداد میں ووٹ حاصل کرنا بھی ہے۔ یہ صرف’’ آسمان نہیں گرے گا‘‘ کا معاملہ نہیں ہے۔ اِس وقت جب بھارت نے ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں مظالم جاری کر رکھے ہیں اور پاکستان پر آئے دن حملے کر رہا ہے تو دوسری جانب بھارت نے چین اور نیپال کے ساتھ بھی تنازعات چھیڑ رکھے ہیں تو ایسے میں بھارت کو بلا مقابلہ جیتنے دینا ظالم کے ظلم کو تسلیم کیے جانے کے مترادف ہے۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات عالمی قوانین اور خود یو این سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہیں‘‘۔

شیریں مزاری نے مزید کہا: ’’ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ بھارت سلامتی کونسل کا (غیر مستقل) ممبر تحریکِ انصاف کی حکومت میں بنا ہے، ان کے لیے اطلاع ہے کہ یہ نامزدگی 2013 میں ہوئی تھی اور میں نے اُس وقت بھی تنقید کی تھی‘‘۔ ہمارے دانشمند وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب مگر اپنی بات پر اڑے ہُوئے ہیں ۔ 20 جون بروز ہفتہ اُن کا اِسی ضمن میں ایک بیان یوں سامنے آیا:’’سلامتی کونسل میں اگر ہم بھارت ( کی رکنیت) کو روکتے تو 2026 میں ہماری ممبر شپ کا امکان کم ہو جاتا۔‘‘ سننے والا عام پاکستانی تو حیرت میں ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست کے لیے بھارت کا انتخاب ایسے ایام میں ہُوا ہے جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی زیادتیاں اور ظلم عروج پر ہیں ۔ خاص طور پر ایسے ایام میں جب بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی عمارت کا گھیراؤ کر کے عالمی سفارتی اخلاقیات کی توہین کی ہے۔

اس ضمن میں بھارت نے پہلے نئی دہلی میں متعین پاکستان کے دو سفارتکاروں کو بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کیا ، اُن کی توہین بھی کی اور اُن پر نہایت شرمناک بہتان بھی عائد کیے۔ بھارت نے نہ صرف ان پاکستانی سفارتکاروں کو ہراساں کیا بلکہ انھیں پرسنہ نان گریٹا قرار دے کر ملک سے نکال دیا ۔ یہ بات یہیں نہیں رُکی بلکہ اس سانحے کے بعد اسلام آباد میں دو بھارتی سفارتکاروں نے تیز رفتاری سے ایک پاکستانی شہری کو کچل بھی دیا اور جب انھیں گرفتار کیا گیا تو اُن کے قبضے سے جعلی پاکستانی کرنسی بھی برآمد ہُوئی۔ ایسے ماحول میں اسی بھارت کا اقوامِ متحدہ کی غیر مستقل نشست کے لیے دو سال کے لیے منتخب ہونا سب کو حیرت میں مبتلا کر گیا ہے ۔ غیر جانبدار عالمی تجزیہ نگاروں کی اس بات کو نظر انداز کرنا دشوار ہے کہ اس نشست پر براجمان ہونے کے بعد یو این او میں پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائیوں میں تیزی اور شدت آ سکتی ہے ۔

تنویر قیصر شاہد

بشکریہ ایکسپریس نیوز

نیویارک ٹائمز نے کورونا کے خلاف مودی سرکار کی پالیسیوں کو ناکام قرار دیدیا

نیو یارک ٹائمز نے کورونا کے خلاف مودی سرکار کی پالیسیوں کا پول کھولتے ہوئے کہا ہے کہ سخت لاک ڈاوٴن کے باوجود بھارت میں کورونا کیسز اور اموات زیادہ ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی عوام حکومت پر اعتماد کھونے لگے ہیں، سخت لاک ڈاوٴن کے باوجود بھارت میں کورونا کیسز اور اموات زیادہ ہیں جب کہ پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں کیسز کم ہیں، جنوبی ایشیاء میں لاک ڈاؤن ہی نہیں بلکہ دیگر عوامل بھی اہم تھے، جنہیں مودی حکومت نے نظر انداز کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت نے سخت اقدامات کیے، شرح اموات سے لگتا ہے ایسا نہیں ہوا، بھارت میں 60 فیصد کیسز صرف ممبئی، دہلی، احمد آباد، چنائے اور پونے سے ہیں، ممبئی میں سب سے زیادہ 20 فیصد کورونا کیسز سامنے آئے جب کہ مودی کے آبائی علاقے گجرات میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہندوستانی مالیاتی دارالحکومت ممبئی اور چنائے اپنے بیشتر صحت وسائل گنوا بیٹھے ہیں، مودی کی پالیسیوں نے لوگوں کو بھوک اور افلاس سے مار دیا ہے، بیشتر غریب لوگ اس پالیسی کا شکار ہوئے جس سے ثابت ہو گیا کہ مودی کا ہندوستان صرف امیروں کے لئے ہے، آج کاسٹ سسٹم واضح ہو گیا کس طرح اقلیتوں کو وبا میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے، ہر غریب اور بے بس ورکر جو کہ تپتے سورج اور بھوک سے نڈھال تھا اس کے لبوں پر صرف ایک بات تھی، خدا پر بھروسہ اور یہ دراصل بد اعتمادی ہے مودی حکومت پر۔ نیویارک ٹائمز نے رپورٹ میں مزید کہا کہ لداخ پر چین کے ہاتھوں ہزیمت کے بعد مودی کی کووڈ پالیسی بھی ناکامی کا شکار ہو گئی، ایل او سی اور دیگر عوامل پر توجہ بھی اس اندرونی ناکامی کو چھپانے کے لیے تھی جب کہ ڈی جی آئی ایس پی آرنے بار ہا اس کا ذکر کیا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بھارت میں مزدروں کا پیدل سفر اور ہلاکتیں جاری

بھارت میں دو ماہ سے جاری لاک ڈاؤن میں درجنوں مہاجر مزدر گھر واپسی کے لیے پیدل یا پھر سائیکل سے سفر کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بھارت میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جاری لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ غریب افراد، خاص طور پر مہاجر مزدر، متاثر ہوئے ہیں۔ ملازمت، روزگار اور کھانے پینے کی چیزوں سے محروم ایسے افراد اپنے آبائی علاقوں تک واپسی کے لیے بے چین ہیں اور اس کوشش میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں چار مزید مہاجر مزدور گھر کی واپسی کے دوران ہلاک ہوئے جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ چھ مزدروں پر مشتمل ایک قافلہ ریاست مہاراشٹر سے ایک آٹو رکشہ میں سوار ہوکر یوپی کے جون پور آرہا تھا۔ تقریبا 1300 کلو میٹر کا سفر طے کرنے کے بعد جب یہ لوگ گھر کے قریب تھے کہ فتح پور کے پاس ایک ٹرک سے ٹکّر میں ایک خاتون اور ان کی بیٹی موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔ اس واقعے میں دیگر افراد کو شدید چوٹیں آئی ہیں۔

اسی طرح کے ایک دوسرے واقعے میں ہریانہ میں پیدل سفر پر نکلنے والے ایک مزدر کی موت ہو گئی۔ دو مزدور انبالہ سے بہار کے لیے پیدل سفر پر نکلے تھے جنہیں ایک کار نے ٹکّر مار دی۔ ان میں سے ایک موقع پر ہی ہلاک ہو گیا جبکہ دوسرا شدید طور زخمی ہسپتال میں زندگی اور موت سے نبرد آزما ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں مزدوروں کا تعلق بہار سے ہے جو گھر جا رہے تھے۔ گزشتہ رات سائیکل پر سوار ایک اور مہاجر مزدور گھر جانے کے دوران رائے بریلی میں ہلاک ہوا۔ 25 سالہ مہاجر مزدور شیو کمار داس مغربی یوپی کے بلند شہر سے بہار جا رہے تھے اور وہ بھی کار حادثے کا شکار ہو گئے۔ گزشتہ روز سائیکل پر سوار دو اور مہاجر مزدور گورکھپور میں ہلاک ہوئے تھے۔ یہ جنوبی ریاست تلنگانہ سے آرہے تھے۔ اس سے قبل 26 سالہ صغیر لکھنؤ میں ہلاک ہوئے جو دلی سے بہار سائیکل پر جا رہے تھے۔ اور چند روز قبل ہی لکھنؤ میں چھتیس گڑھ کے میاں بیوی اس وقت ہلاک ہو گئے جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ سائیکل پر گھر واپس جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

گزشتہ تقریبا ًڈیرھ ماہ سے اس طرح کی خبریں متواتر مل رہی ہیں۔ بظاہر یہ تمام افراد حادثات کا شکار ہوئے لگتے ہیں لیکن اس کے پیچھے لاک ڈاؤن کے سبب پنپنے والی بے روزگاری، فاقہ کشی، غیر یقینی صورتحال اور افراتفری ہے۔ بے سہارا اور بے یار و مددگار مزدورں میں ایک عجیب سا خوف اور اضطراب ہے کہ جان کی پرواہ کیے بغیر سب اپنے گھروں کوواپسی کے لیے بے چین ہیں۔ مایوسی اور اضطراب کی کیفیت اور بھوک سے کورونا کا خوف زائل ہو گیا ہے اور وہ ہزاروں میل کا سفر پیدل طے کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ کوئی سائیکل پر سوار ہے تو کوئی راستے میں ٹرک، ٹریکٹر یا جو بھی سواری ملے اس سے مدد لے کر گھر پہنچنا چاہتا ہے۔ حسب معمول جب تک حکومت کو اس کا احساس ہوتا بہت دیر ہوچکی تھی۔ ان مہاجر مزدوروں کے لیے ریل یا بسوں کے کچھ انتظامات بھی کیے گئے ہیں تاہم ہر جانب افراتفری کا عالم ہے اور بحران اس بڑے پیمانے کا ہے کہ حکومت کے انتظامات کو ‘اونٹ کے منہ میں زیرہ’ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

چند روز قبل ریاست مہاراشٹر سے بیس مزدروں کا قافلہ ریاست مدھیہ پردیش کے بھساول جا رہا تھا اورتقریبا ًپچاس کلومیٹر کے پیدل سفر کے بعد ریل کی پٹری پر رات کے وقت آرام کے لیے رکا تو انہیں نیند آگئی۔ اس میں سے سولہ مزدور علی الصبح پٹری پر آنے والی مال گاڑی کے نیچے کٹ کر ہلاک ہو گئے۔ ابھی اس واقعے پر حکومت اور وزراء افسوس کا اظہار کر ہی رہے تھے کہ مدھیہ پردیش سے یوپی آنے والے چھ مزدور اس وقت ہلاک ہو گئے جب ایک ٹرک راستے میں پلٹ گیا۔ ایسے واقعات کی فہرست طویل ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس پر نہ تو ریاستی حکومتوں کی اور نہ ہی مرکزی حکومت کی کوئی خاص توجہ ہے۔ اس وقت سب کورونا وائرس کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

بھارت میں عدالتی نظام کیا واقعی امیروں کاغلام ہے؟

حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ سے سبکدوش ہونے والے جج جسٹس دیپک گپتا کے اس بیان کے بعد کہ ‘بھارت میں قانون اور انصاف چند امیر اور طاقت ور لوگوں کی مٹھی میں قید ہے‘، عدالتی غیر جانبداری پر بحث ایک بار پھر چھڑ گئی ہے۔ بھارتی عدالتی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کی طرف انگلی اٹھانا یوں تو کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا جب اس طرح کی باتیں عدالتی نظام سے تعلق رکھنے والے کسی انتہائی اہم شخصیت کی طرف سے آئے۔ بھارتی عدلیہ سے چارعشروں سے بھی زیادہ عرصے سے وابستہ اور مختلف اہم عہدوں سمیت سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے کئی اہم فیصلوں کے لیے معروف جسٹس دیپک گپتا نے چھ مئی کو اپنی ‘ورچوول‘ الوداعی تقریب کا استعمال بھارت کے عدالتی نظام میں پائی جانے والی خامیوں اور ان کو دور کرنے کے طریقہ کار پر بحث شروع کرنے کے لیے کیا۔

جسٹس گپتا کے مطابق بھارت کا قانون اور عدالتی نظام دولت مند اور طاقتور لوگوں کی مٹھی میں قید ہے۔ کوئی امیر اور طاقتور شخص اگر سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے تو کسی نہ کسی طرح سے اپنے کیس کی تیزی سے سماعت کا حکم حاصل کرا ہی لیتا ہے اور اگر وہ ضمانت پر ہوتا ہے تو سماعت کو ٹالتا رہتا ہے۔ جسٹس گپتا کا کہنا تھا کہ اس کا خمیازہ غریب مدعاعلیہ کو اٹھانا پڑتا ہے کیوں کہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ عدالت پر دباو ڈلوا سکے۔ اس طرح اس کے مقدمے کی سماعت ٹلتی چلی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امیر اور غریب کی اس لڑائی میں عدالت کے ترازو کے پلڑوں کا جھکاؤ ہمیشہ محروموں کی جانب ہونا چاہیے تبھی انصاف کے پلڑے برابر ہو سکیں گے۔

جسٹس گپتا کا کہنا تھا کہ موجودہ وقت اور دور میں ہر جج کو یہ ضرور پتہ ہونا چاہیے کہ اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ وہ اپنے اطراف میں ہونے والے واقعات سے انجان بن کر نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا ”موجودہ دور میں جج ‘آئیوری ٹاور‘ میں نہیں رہ سکتے۔” انہوں نے وکلاء کو مشورہ دیا کہ عدالتوں میں مقدمات پر بحث کرتے وقت اپنے سیاسی یا دیگر تعلقات سے بالاتر ہو کر قانون کے مطابق کیس کی پیروی کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس گپتا کے ان خیالات کو کافی سراہا جارہا ہے۔ نلسار یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل درست ہے کہ ہمارے قوانین میں ایک ‘کلاس کیریکٹر‘ ہے اور اس میں بھی دو رائے نہیں کہ وہ امیروں کی طرف داری کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ”مثال کے طور پر اس ضابطہ کو ہی لے لیجیے جس کے تحت ایک ملزم کو ضمانت کے طور پر ‘شیورٹی بانڈ‘ بھرنا پڑتا ہے۔ کبھی ایک ہزار روپے کا بانڈ لانا ہوتا ہے تو کبھی ایک لاکھ روپے کا۔ ایک غریب آدمی بانڈ کیسے لائے گا؟

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے جسٹس گپتا کی تعریف کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ وہ ایسے جج تھے جنہوں نے آئین اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کے عہد کو نبھایا اور کسی جانبداری اور کسی خوف کے بغیر انصاف کیا۔ خیال رہے کہ ججوں کی سبکدوشی کے بعد ان کے اعزاز میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے ایک باوقار تقریب منعقد کی جاتی ہے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب سپریم کورٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی جج کو ‘ورچوؤل وداعی‘ دی گئی۔ جب جسٹس گپتا سے پوچھا گیا کہ انہیں یہ سب کیسا محسوس ہوا تو ان کا کہنا تھا ”اگر کووڈ انیس کا معاملہ نہ ہو تب بھی ہمیں ٹیکنالوجی کا بہتراستعمال کرنا چاہیے لیکن ہم نے اب تک ایسا نہیں کیا ہے۔ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ بالخصوص مقدمات کی سماعت باضابطہ شروع ہونے سے پہلے کے مرحلے میں بعض کیسز میں یہ طریقہ کار کافی بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر زیر سماعت قیدیوں کی ریمانڈ کے سلسلے میں ورچوول سماعت ہو سکتی ہے۔ ویڈیو کانفرنسنگ سے ججوں کو بھی فائدہ ہو گا اور بعض وکلاء کی غیر ضروری ڈرامے بازی بھی کم ہو جائے گی۔ جسٹس گپتا کے خیال میں عدالت کے فیصلے پر تنقید کرنے کا رجحان صرف بھارت تک ہی محدود نہیں ہے۔ دنیا میں دوسری جگہوں پر بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اس کی بنیاد پر کسی کے لیے عدالت کے دروازے بند نہیں کیے جاسکتے۔ عدالت سے انصاف طلب کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ماہر قانون اور نلسار یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر فیضان مصطفی کا کہنا ہے کہ یہ سوال بہر حال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ جسٹس گپتا جیسے ججوں کی باتوں کے بعد بھارت کے عدالتی نظام میں کوئی تبدیلی آتی ہے یا نہیں۔

پروفیسر مصطفی کے مطابق اس طرح کی باتیں کہنے کے ساتھ ساتھ بہتر یہ ہو گا کہ ملک کے جج اپنے فیصلوں میں بھی اس طرح کے ریمارکس درج کریں تا کہ یہ باضابطہ ریکارڈ پر آسکیں۔ انہوں نے اس حوالے سے یاد دلایا کہ حال ہی میں کس طرح مہاجر مزدوروں کے لیے راحت کا مطالبہ کرنے والی عرضی کو کئی دنوں تک سپریم کورٹ میں سماعت کی تاریخ ہی نہیں ملی۔ جبکہ اس دوران لاکھوں افراد پریشان ہوتے رہے۔ مہاجر مزدورں کی راحت کے لیے 15 اپریل کو دائر کی گئی عرضی پر پہلی سماعت 27 اپریل کو ہو سکی۔ دوسری طرف معروف ٹی وی نیوز اینکر ارنب گوسوامی کی عرضی رات آٹھ بج کر سات منٹ پر دائر کی گئی اور سپریم کورٹ نے اس پر اگلے ہی روز صبح ساڑھے دس بجے سماعت کرنے کا وقت دے دیا۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

بھارتی مسلمانوں کے لیے صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے

معروف بھارتی مصنفہ اور سیاسی کارکن ارون دتی رائے نے الزام لگایا ہے کہ ملکی حکومت اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتی مسلمانوں کے مابین کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے اور بھارت میں مسلمانوں کے لیے صورت حال ’نسل کشی کی طرف بڑھ رہی ہے‘۔ ارون دتی رائے نے ڈوئچے ویلے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ اس وقت پوری دنیا میں پھیل چکی کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں بھارت میں اس وبائی مرض کی آڑ میں جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے، اس پر پوری دنیا کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے ملک بھارت میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کے چھ میں سے تین ہفتے پورے ہو چکے ہیں۔ نئی دہلی میں مودی حکومت کا کہنا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کا مقصد کووِڈ انیس نامی مرض کا سبب بننے والے وائرس کے پھیلاؤ کے سلسلے کو منقطع کرنا ہے۔ تاہم جنوبی ایشیا کے اس ملک میں کورونا وائرس کے خلاف جدوجہد کا ایک مذہبی پہلو بھی ہے۔ مثال کے طور پر شہر میرٹھ میں مسلم اقلیتی شہریوں کو اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ چند مقامی شخصیات کے بقول وہ مبینہ طور پر ‘کورونا جہاد‘ کر رہے تھے۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بحران
ڈی ڈبلیو نیوز نے اس پس منظر میں معروف بھارتی ناول نگار اور سیاسی کارکن ارون دتی رائے کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان سے یہ پوچھا کہ وہ کیا کہنا چاہیں گی کہ اس وقت ان کے اپنے وطن میں کیا ہو رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ارون دتی رائے نے کہا، ”بھارت میں کووِڈ انیس کا مرض اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا۔ اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے، جس سے قبل دہلی میں قتل عام بھی ہوا تھا۔ قتل عام، جو اس بات کا نتیجہ تھا کہ لوگ شہریت سے متعلق ایک مسلم مخالف قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس وقت بھی جب ہم یہ گفتگو ر ہے ہیں، کورونا وائرس کی وبا کی آڑ میں بھارتی حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کرنے میں لگی ہے۔ وکلاء، سینیئر مدیران، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے کچھ کو تو حال ہی میں جیلوں میں بند بھی کیا جا چکا ہے۔

ڈی ڈبلیو نیوز کی سارہ کَیلی نے اس انٹرویو میں ارون دتی رائے سے یہ بھی پوچھا کہ اگر ان کے بقول بھارت میں اصل بحران نفرت کا بحران ہے، تو پھر ایک سیاسی کارکن کے طور پر خود ان کا بھارت کی ہندو قوم پسند حکومت کے لیے اپنا پیغام کیا ہو گا، جو بظاہر کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں متعدد ناولوں کی انعام یافتہ مصنفہ ارون دتی رائے نے کہا، ”مقصد ہی یہی ہے۔ آر ایس ایس نامی وہ پوری تنظیم جس سے وزیر اعظم مودی کا بھی تعلق ہے اور جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پیچھے فعال اصل طاقت ہے، وہ تو عرصے سے یہ کہتی رہی ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے۔ اس کے نظریہ ساز بھارتی مسلمانوں کو ماضی کے جرمنی میں یہودیوں سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ جس طرح بھارت میں کووِڈ انیس نامی بیماری کو استعمال کیا جا رہا ہے، وہ طریقہ کافی حد تک ٹائیفائیڈ کے اس مرض جیسا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کو ان کے مخصوص رہائشی علاقوں میں ہی رہنے پر مجبور کیا تھا۔ میں بھارت میں عام لوگوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو یہی کہوں گی کہ وہ اس صورت حال کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں نہ لیں۔

بھارت میں صورت حال نسل کسی کی طرف بڑھتی ہوئی
ارون دتی رائے نے اپنی اس تنبیہ کی وضاحت کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”بھارت میں اس وقت صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے، کیونکہ حکومت کا ایجنڈا یہی رہا ہے۔ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، مسلمانوں کو جلایا گیا اور ان کا شکار کیا گیا۔ لیکن اب مسلمانوں کے اس وبا کے ساتھ نتھی کیے جانے سے حکومتی پالیسیاں کھل کر سڑکوں تک پر آ گئی ہیں۔ آپ ہر جگہ ان کی بازگشت سن سکتے ہیں۔ اس بات کے ساتھ شدید تشدد اور خونریزی کا خطرہ بھی جڑا ہوا ہے۔ اب تو اسی شہریت ترمیمی قانون کا نام لے کر حراستی مراکز کی تعمیر بھی شروع ہو چکی ہے۔ اب اس صورت حال کو بے ضرر سا بنا کر اور کورونا وائرس کی وبا سے منسوب کر کے ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی جائے گی، جس پر دنیا کو اچھی طرح نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے زیادہ اس خطرے کی نشاندہی میں نہیں کر سکتی۔

ارون دتی رائے نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں بھی لکھا تھا کہ بھارت کے موجودہ حالات ایک ایسا المیہ ہیں، جو بہت بڑا اور حقیقی تو ہے لیکن نیا نہیں ہے۔ ”تو پھر اس المیے کی نشاندی کے حوالے سے کس کی آنکھیں کھلی ہیں اور کس کی آنکھیں بند ہیں؟‘‘ اس پر رائے کا جواب تھا، ”دنیا کی آنکھیں بند ہیں۔ ہر بین الاقوامی رہنما وزیر اعظم (نریندر مودی) کا خیر مقدم کرتا اور گلے ملتا نظر آتا ہے، حالانکہ وہ بھی تو خود اس پورے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ جب پرتشدد واقعات شروع ہوتے ہیں، تو مودی خاموش رہتے ہیں۔ دہلی میں جو گزشتہ قتل عام ہوا، وہ وہی وقت تھا جب امریکی صدر ٹرمپ بھی بھارت کے دورے پر تھے۔ لیکن ٹرمپ نے بھی کچھ نہ کہا۔ کوئی بھی کچھ نہیں کہتا۔ اسی طرح بھارتی میڈیا بھی، سارا نہیں لیکن اس کا ایک حصہ، آج کل ایک نسل کش میڈیا بنا ہوا ہے، ان جذبات کی وجہ سے جن کو ابھارنے کا وہ کام کر رہا ہے۔ بھوک کے اس بحران کی تو میں نے ابھی بات ہی نہیں کی، جس کا کئی ملین بھارتی باشندوں کو سامنا ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

دلی کا ایک محب ِ وطن بھارتی مسلمان

یہ پچیس فروری کا دن تھا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر تھے پھر اچانک ہی بھارتی دارالحکومت دہلی میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان بستیوں پر حملے کی خبر نے چونکا دیا، نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے دہلی میں مقیم بھارتی مسلمان اور میرے دوست محمد حسین کو فون ملایا، محمد حسین ماضی میں جاپان میں میری ہی کمپنی میں سوفٹ ویئر انجینئر تھے اور چند برس قبل ملازمت کو خیر آباد کہہ کر بھارت واپس جا چکے تھے، محمد حسین سے اکثر پاکستان اور بھارت کے حوالے سے بحث رہا کرتی تھی، میں پاکستان کی تعریف کرتا تو وہ بھارت کی حمایت میں دلائل دیتا، میں اسکے تمام دلائل کھوکھلے قرار دیتا اور یوں ہماری بحث دیر تک جاری رہتی پھر ایک دن اس نے جاپان کو خیر آباد کہا اور دہلی میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کیساتھ زندگی گزارنے واپس چلا گیا

دہلی میں مسلم کش فسادات کی خبر سنتے ہی میں نے محمد حسین کو فون کیا اور دہلی میں جاری مسلم کش فسادات پر اپنی تشویش سے اسے آگاہ کیا تو اس نے ہمیشہ کی طرح بھارت کی تعریف شروع کرتے ہوئے کہا کہ بھائی صاحب اب بھارت تبدیل ہو چکا ہے، یہ بیسویں صدی کا بھارت ہے جہاں ہر رنگ، نسل اور مذہب کے لوگ آباد ہیں، یہاں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور پھر ہم دارالحکومت دہلی میں مقیم ہیں، یہاں کسی کو کوئی خطرہ  نہیں ہے، محمد حسین کے طویل تبصرے پر میں نے میڈیا میں آنے والی خبر کا ذکر کیا تو اس نےفوراً جواب دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا ہمیشہ ہی گڑبڑ پھیلاتا ہے، ابھی میرے دوست محمد حسین نے بھارت کے حوالے سے اپنے دعوے مکمل بھی نہ کئے تھے کہ اسکے دروازے کو زور سے پیٹا جانے لگا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کسی بہت بڑے گروہ نے میرے بھارتی مسلمان دوست محمد حسین کے گھر پر حملہ کر دیا ہے

محمد حسین جو اب سے کچھ لمحے قبل مجھے بھارتی سکیولرازم کی مثالیں دے رہا تھا اچانک چیخا کوئی دروازہ نہیں کھولے گا، سب اندر آجائو اور دروازے بند کر لو، اس نے مجھ سے صرف اتنا ہی کہا بھائی میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں اور یہ کہہ کر اس نے اپنا موبائل فون اپنی جیب میں ڈال لیا لیکن وہ فون بند کرنا بھول گیا تھا یا پھر دانستا طور پر اس نے ایسا کیا تھا کہ میں اس واقعے کا چشم دید گواہ بن جائوں، مجھے بھارت کی تعریف میں کہی ہوئی اس کی کھوکھلی باتوں پر بالکل یقین نہیں تھا، اس کے گھر پر ہونے والے بلوائیوں کے حملے نے میرے تمام خدشات کو سچ ثابت کر دیا تھا، میں اسکی آواز باآسانی سن سکتا تھا وہ اپنے والدین اور بہنوں کو لے کر گھر کی اوپری منزل پر چلا گیا جبکہ نیچے مسلسل اسکے گھر کا دروازہ توڑنے کی کوششیں جاری تھیں، دوسری جانب گھر کے اندر محمد حسین کی والدہ اور بہنیں اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے مدد کی بھیک مانگ رہی تھیں

پھر اچانک آواز آئی بلوائیوں نے نیچے گھر کا دروازہ توڑ دیا ہے اور اب وہ اندرونی دروازہ توڑنے کے درپے تھے، محمد حسین اور اس کے اہلِ خانہ گھر کی چھت پر آچکے تھے اور چھپنے کی کوششوں میں مصروف تھے لیکن چھت پر چھپنے کی کوئی جگہ موجود نہیں تھی، محمد حسین کی والدہ اور بہنوں نے دعائیں شروع کر دی تھیں لیکن کچھ ہی دیر بعد ڈنڈے، لاٹھیاں اور اسلحہ لے کر بلوائی چھت پر پہنچ چکے تھے، اب مجھے بلوائیوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں، وہ محمد حسین اور اُس کے اہلِ خانہ کو غدار کہہ رہے تھے پھر مجھے محمد حسین اور اُسکے اہلِ خانہ کی چیخوں کی آوازیں آنے لگیں پھر کچھ لوگ محمد حسین کو اٹھا کر ساتھ لیجانے کی کوشش کر رہے تھے، پھر چند لمحوں بعد ایسا محسوس ہوا کہ محمد حسین کو گلی میں سے گزارا جارہا ہو پھر اچانک محمد حسین کی آواز آئی پولیس، پولیس مجھے بچائو

شاید محمد حسین نے پولیس کو دیکھ کر اس سے مدد مانگی تھی لیکن پھر محمد حسین کی چلانے کی آوازیں آنے لگیں جیسے اس پر شدید تشدد کیا جا رہا ہو اور پھر شاید کوئی لاٹھی اس کی جیب میں موجود فون پر لگی اور فون سے آنے والی آوازیں اچانک بند ہو گئیں، میں چاہنے کے باوجود بھی کچھ نہ کر سکا، نہ ہی میں اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسو روک سکا، میرے سامنے ایک بھارتی محبِ وطن مسلمان ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا، مجھے آج قائداعظم کا وہ عظیم قول یاد آرہا تھا جو اس عظیم لیڈر نے تہتر سال قبل قیام پاکستان کے وقت کہا تھا کہ جو مسلمان آج قیامِ پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں وہ اپنی ساری زندگی اپنے آپ کو بھارت کا وفادار ثابت کرنے میں گزار دیں گے لیکن وہ پھر بھی کامیاب نہ ہو سکیں گے، بلاشبہ قائداعظم نے پاکستان بنا کر پوری مسلمان قوم پر ایک عظیم احسان کیا تھا، اللہ تعالیٰ محمد حسین جیسے ہزاروں مسلمانوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے جنہوں نے بھارت سے وفاداری کے باوجود غداری کا لقب پایا اور بھارتی انتہا پسندوں کے ہاتھوں اپنی جان قربان کر دی۔

محمد عرفان صدیقی

بشکریہ روزنامہ جنگ

بھارت 1947 میں واپس چلا گیا

آج اتوار ہے۔ آپ اور ہم بیٹھیں گے اپنی آئندہ نسل کے ساتھ۔ زیادہ سوالات تو ظاہر ہے کرونا وائرس سے متعلق ہوں گے۔ بلوچستان اور سندھ میں اسکول بند کیے گئے ہیں۔ بچے خوش تو ہوتے ہیں چھٹیاں ملنے سے، لیکن انہیں تشویش بھی ہوتی ہے کہ ان کے ہم وطن منہ پر ماسک لگائے گھوم رہے ہیں۔ پہلے چین سے خبریں آرہی تھیں۔ اس وبا کے ہاتھوں مرنے والوں کی، اب ایران سے بھی یہ غم ناک اطلاعات آرہی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ وبا پہنچ گئی ہے مگر ہم پہلے سے تیار تھے۔ اللّٰہ کا فضل ہے کہ ہمیں اس ناگہانی آفت کا مقابلہ بہت استقامت اور شعور کے ساتھ کرنا ہے۔ سنسنی خیزی اور ہنگامہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے اکیسویں صدی کی ایک بیدار، سمجھ دار قوم کا کردار ادا کرنا ہے۔

گھبراہٹ اور پریشانی کے بجائے اس وبا کے اسباب، اس سے بچائو اور اس پر تحقیق ہونی چاہئے۔ ملک میں اتنی میڈیکل یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں۔ دوا ساز کمپنیوں کے اپنے تحقیقی شعبے ہیں۔ صحت کے حوالے سے متعدد این جی اوز ہیں۔ ملک میں جید اور مستند اطبا موجود ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اس بیماری کے بارے میں تحقیق کریں۔ اللہ تعالیٰ جہاں ایسی بیماریاں ہماری آزمائش کے لیے دیتا ہے وہاں ان کا علاج بھی پہلے سے دیا ہوا ہوتا ہے۔ اللّٰہ کے نائب کی حیثیت سے ہمیں وہ جڑی بوٹی تلاش کرنی چاہئے جس میں کرونا کے مریضوں کے لیے شفا رکھی ہوئی ہے۔ احتیاطی تدابیر میں سب سے زیادہ ضروری ہاتھ صاف رکھنے ہیں۔
باہر سے آئیں تو ہاتھ اچھی طرح دھو لیں۔ جہاں اس بیماری کا شبہ ہو وہاں جانے سے گریز کریں۔ یہ انسانیت کا امتحان ہے۔ ستاروں کی تسخیر کرنے والا، خلا میں چہل قدمی کرنے والا، کائنات کے اسرار و رموز جاننے والا یقیناً اس خطرناک بیماری پر بھی گرفت حاصل کر لے گا۔

آج بچوں سے ہمیں میرؔ و غالبؔ، مغل بادشاہوں کی، جامع مسجد، قطب مینار کی دلّی کے بارے میں بھی باتیں کرنا ہیں۔ جس کی مسجدوں پر راشٹریہ سیوک سنگھ کے بدقماش نوجوانوں کی یلغار کو ہمارے بیٹوں بیٹیوں نے ٹی وی پر اپنے موبائل فونوں پر دیکھا ہے۔ مسلمانوں کی دکانیں جل رہی ہیں۔ دہلی پولیس صرف ٹی وی ہی نہیں دیکھ رہی ہے، بلوئوں میں خود بھی حصّہ لے رہی ہے۔ پیارے بچو! ایک تھا بھارت۔ جس کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ جہاں کبھی فوج نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ جہاں حکومت صرف ووٹ سے تبدیل ہوئی ہے۔ جہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ جہاں سیکولر ازم کا راج ہے۔ جہاں انتہا پسند نہیں ہیں۔ یہ دعوے 5 اگست 2019 کے بعد دھرے رہ گئے ہیں۔

اب بھارت سے زیادہ انتہا پسند ملک کوئی نہیں ہے۔ جہاں مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈائون ہوئے 200 سے زیادہ دن گزر چکے ہیں۔ جہاں 73 سال بعد لوگوں کی شہریت مشکوک ہو گئی ہے۔ انہیں دوبارہ اپنی شناخت تسلیم کروانا ہو گی۔ جہاں مسلمان، ہندو سکھ، عیسائی پارسی سب شہریت بل کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ جہاں کے دارالحکومت دلّی میں شہریت بل مسلط کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی الیکشن میں بری طرح ہار گئی ہے۔ وہاں شکست خوردہ امیدوار کپل مشرا کے بھاشن نے آگ لگا دی ہے۔ یہ کبھی لبرل تھا۔ ترقی پسند تھا۔ پھر بی جے پی کو پیارا ہو گیا۔ خیال تھا کہ الیکشن جیتے گا۔ وزیر بنے گا مگر شکست فاش نے اسے پاگل بنا دیا۔ عین اس روز جب ایک اور انتہا پسند امریکی صدر دلّی میں تھا، اس نے شاہین باغ میں شہریت بل کے خلاف خواتین کو للکارا اور کہا کہ اگر انہوں نے احتجاج ختم نہیں کیا تو وہ اپنے نوجوانوں کو بے لگام کر دے گا۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ انسانیت کس طرح پامال ہوئی۔ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔

شمال مشرقی دہلی میں جہاں وہ الیکشن ہارا تھا وہاں آگ اور گولی کا کھیل کھیلا گیا، ان فسادات نے گجرات کے بلوئوں کی یاد تازہ کر دی۔ جب مودی وہاں وزیر اعلیٰ تھا، بھارت کے لوگوں نے اس پر مودی کو مسترد کرنے کے بجائے پورا ملک اس شدت پسند کے حوالے کر دیا۔ اندرا گاندھی نے تو سقوطِ ڈھاکا کے بعد دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبونے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن یہ نظریہ قائم و دائم تھا۔ اب نریندر مودی نے اسے باقاعدہ زندہ کر دیا۔ آج قائداعظم کی بصیرت کی دنیا تعریف کر رہی ہے۔ ضرورت اب اس تحقیق کی ہے کہ جمہوریت کا تسلسل، سیکولر ازم پر اصرار، عدلیہ، میڈیا۔ سماج کی آزادی کے 73 سال کا نتیجہ اتنا بھیانک کیوں نکلا ہے۔ بھارت نے تو اپنی مارکیٹ کا رُخ کروانے کے لیے امریکہ یورپ کو اپنی آزاد سماجی زندگی فلموں اور ٹی وی ڈراموں کے ذریعے دکھائی تھی۔

پاکستان پر انتہا پسند دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کر کے بھارت کی ایک ارب صارفین کی منڈی میں کاروبار کی دعوت دی تھی۔ مگر اب 73 سال بعد 1947 پھر واپس آگیا۔ وہی فسادات، وہی مسلمانوں کا قتل عام۔ پاکستان میں تو کبھی 1947 کے بعد ایسے فسادات نہیں ہوئے جس میں اس طرح ہندوئوں کا قتل عام کیا ہو۔ مسلمانوں نے مسلمانوں کو تو مارا ہے، بم دھماکے کیے ہیں، لیکن اس طرح مندروں پر سبز پرچم نہیں لہرائے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ 1947 سے پہلے کے ایسے فسادات کے بعد ہی بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ ایک منطقی اور تاریخی نتیجہ۔ اب 5 اگست کے بعد اور خاص طور پر فروری 2020 میں دلّی میں جو فسادات ہوئے ہیں اس کا منطقی اور تاریخی نتیجہ کس نئے ملک کی صورت میں برآمد ہو گا۔

بھارت میں 1971 کے بعد مسلمانوں کو مسلسل دیوار سے لگایا گیا۔ پہلے ان کا ووٹ پارٹیوں کو فتح دلوا سکتا تھا۔ اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ حالانکہ ان کی آبادی بڑھ رہی تھی۔ مسلم ووٹروں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ جمعیت علمائے ہند نے سیاست چھوڑ کر صرف فلاحی راستہ اختیار کر لیا۔ مسلمان مرکزی دھارے کی پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے لیکن کسی پارٹی نے انہیں عزت اور وقار نہیں دیا۔ آر ایس ایس اور بال ٹھاکرے کا فلسفہ غالب آتا رہا۔ اب سوچنا یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کے پاس اپنی بقا کے لیے کیا سیاسی راستہ رہ گیا ہے۔ جمعیت علمائے ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا محمود مدنی نے دہلی کے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے ہیں اور کہا ہے ’’یہ سرزمین ہماری ہے۔ ہماری رہے گی۔ ہمیں یہاں سے کوئی نہیں ہٹا سکتا‘‘۔ اب ممکن ہے جمعیت علمائے ہند دوبارہ سیاست میں داخل ہو جائے۔

بھارت سرکار نے کپل مشرا کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ بھارت کے مسلمان پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے پاس ایک راستہ ہے کہ وہ نہرو لیاقت پیکٹ 1950 کے تحت آواز بلند کرے جس میں دونوں حکومتوں نے اتفاق کیا تھا کہ کسی بھی اقلیت کے خلاف ایسے بھیانک فسادات پر منارٹی انکوائری کمیٹیاں بٹھائی جائیں گی۔ اقلیتیں جہاں رہتی ہیں وہ اس ملک کا باقاعدہ حصہ ہیں۔ ان کا تحفظ ان کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کرونا وائرس نے جیسے چین کی اقتصادی ترقی روک دی ہے۔ اس وقت وہ صرف اس وبا سے بر سرپیکار ہے۔ اسی طرح مودی کی مسلم کش پالیسیوں نے پورے بھارت میں اقتصادی پیشرفت روک دی ہے۔

امریکہ سے تجارتی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔ وہ بھارتی ماہرین معیشت جو کہہ رہے تھے کہ بھارت ایک ہزار سال بعد پھر نشاۃ ثانیہ میں داخل ہو رہا ہے اور امریکہ جیسی سپر طاقت بن رہا ہے، وہ بھی اب سر گھٹنوں میں دیے بیٹھے ہیں کہ جہاں ایسے شدت پسند موجود ہیں وہاں معیشت کیسے آگے بڑھے گی۔ بھارتی میڈیا اور سنجیدہ حلقے دہلی پولیس کی نااہلی کو ان فسادات کے پھیلنے کا سبب قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی اور امیت شا کی پالیسیاں دہلی میں ہی نہیں ملک کے دوسرے حصّوں میں بھی ایسے بلوئوں کا سبب بنیں گی۔ بی جے پی اپنے اور 2020 کے ابتدائی مہینے بھارت کو کم ازکم چالیس سال پیچھے لے گئے ہیں۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

صدر ٹرمپ کی زبان پر پاکستان کا نام

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دو روزہ دورہ بھارت کے دوران پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں اور امریکی حکومت پاکستان کی سرزمین پر سرگرم دہشت گردوں اور تنظیموں کے خلاف پاکستان کے ساتھ مل کرکام کر رہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ بڑی پیش رفت کے آثار نظرآنا شروع ہو گئے ہیں، اس کا سہرا میری کوششوں کو جاتا ہے۔ وہ احمد آباد میں ’’ نمستے ٹرمپ ‘‘ریلی کے بعد موتیرا اسٹیڈیم میں جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔ نریندر مودی نے صدر ٹرمپ کی دلجوئی کے لیے بظاہر محفل خوب سجائی مگر منہ پھٹ ٹرمپ نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستانی اقدامات سے جنوبی ایشیاء میں تناؤ میں کمی آئے گی اور امن کو فروغ حاصل ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر ملک کو اپنی سرحدوں کی حفاظت کا حق حاصل ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا اور بھارت بھی ایک پیج پر ہیں اور دونوں مل کر دہشتگردی اور اس کے نظریہ کا مقابلہ کریں گے۔ بلاشبہ صدر ٹرمپ کی خطے میں آمد کثیر جہتی اثرات کی حامل ہے، برصغیر پاک وہند میں سیاسی، معاشی، تزویراتی اور سفارتی کوششیں عروج پر ہیں ، امریکا کی نگاہیں افغان امن میں غیرمعمولی پیش رفت کے خواب کو شرمندہ تعبیر دیکھنا ہے، امریکا افغان سے نکلنا چاہتا ہے، طالبان سے تاریخ ساز معاہدہ کا سورج نصف النہار پر ہے، اس دورہ میں وہ اپنا ٹرمپ کارڈ بھی استعمال کرتے رہے جب کہ امریکا میں مقیم انڈین ڈائیسپورہ کی انتخابی اہمیت بھی ان کے ذہن میں ہے، ڈیموکریٹس کے مواخذہ سے بچ کے نکلے ہیں مگر کشمیریوں پر ہونے والی بھارتی ظلم و بربریت سے چشم پوشی بھی انھیں مہنگی پڑے گی۔

مبصرین کے مطابق اپنی شاطرانہ مہارت سے ٹرمپ کو پاک بھارت سیاسی تعلقات کی نزاکت اور کشمیر کی درد انگیز صورتحال کے ادراک میں سفاکی نہیں دکھانا چاہیے، بھارتی جمہوریت کی منافقانہ تعریف کرتے ہوئے انھیں کشمیریوں سے روا رکھے جانے والے مظالم کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، وہ جنوبی ایشیا میں امن، ترقی اور استحکام کی نوید تو دے رہے ہیں تاہم بھارت کے داخلی خلفشار، بدامنی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اقلیتوں اور بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کے بھیانک نتائج سے بھی غافل نہ رہیں، احمد آباد میں انھوں نے پاکستان کی تعریف کی تاہم وہ مودی کو بہترین دوست اور بھارتی جمہوریت کے بھی مداح بھی نکلے، ٹرمپ اپنے دورے میں محتاط رہے، ان کی زبان سے ’’نمستے ٹرمپ‘‘ کے موج میلے میں خطے کے زمینی حقائق پوشیدہ رہے، بھارت کی کوشش تھی کہ ٹرمپ کشمیر لکیرعبور نہ کریں۔ یوں احمد آباد میں ٹرمپ نے زمینی حقائق پر کوئی بنیادی بات نہیں کی۔

امریکی صدر نے بھارت کے ساتھ دفاعی و تجارتی تعلقات بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں ملکوں کی شراکت داری کو مزید آگے لے کر جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بھارت کے ساتھ تین ارب ڈالر کے دفاعی سودوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت کو امریکا کا بڑا دفاعی شراکت دار بنانا چاہتے ہیں اور بڑے تجارتی معاہدوں کے لیے بھی پر امید ہیں۔ صدرٹرمپ نے کہا ہم بھارت کو اپنے بہترین ہتھیارفروخت کرنا چاہتے ہیں، ہمارے پاس بہترین میزائل، راکٹ اور بحری جہاز ہیں، ہم بھارت کواپنا فضائی دفاعی نظام، ڈرون طیارے اور دوسرے ہتھیار بھی فروخت کرنے کو تیار ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کے 8 ہزار کلومیٹر کے اس دورے کا مقصد تجارتی تعلقات کا فروغ بھی ہے کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس بھارت میں مقیم ہے۔ 

صدر ٹرمپ نے وزیراعظم نریندر مودی کو ایک مشکل مذاکرات کار قرار دیا ۔ یہاں بھی امریکی صدر نے اپنی تقریر میں بھارت میں متنازع شہریت قانون کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ نے تاج محل آگرہ کا بھی دورہ کیا۔ اس موقع ان کی اہلیہ میلانیا ، بیٹی ایوانکا اور داماد جیرڈ کوچنر بھی ان کے ساتھ تھے۔ وہ تاج محل میں تقریباً ایک گھنٹہ موجود رہے اوروہاں تصاویر بھی بنوائیں، اس کے بعد دہلی روانہ ہو گئے۔ بھارتی حکومت نے امریکی صدرکی آمد پر صدر رام ناتھ کووند کی جانب سے دیے جانے والے ڈنر میں سونیا گاندھی کو مدعو نہیں کیا جس پر سابق وزیراعظم منموہن سنگھ اورکشمیری لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا ہے کہ وہ بھی ڈنر میں نہیں جائیں گے۔ مودی کا انداز نظر اور اپوزیشن کو نظرانداز کرنے کی تنگ نظری سپر پاور امریکا کے لیے ایک بڑا سبق ہے، بھارتی حکمراں اس حقیقت کوپیش نظر رکھیں کہ صدر ٹرمپ بھارت کے دورے پرآئے مگر زبان پر پاکستان کا نام آیا۔ بھارتیوں کے جم غفیر پر سکتہ طاری ہونا تو لازمی تھا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

بھارت میں پاکستان زندہ باد کے نعرے پر بغاوت کا مقدمہ

بھارت کے جنوبی شہر بنگلور میں پولیس حکام نے ‘پاکستان زندہ باد’ کا نعرہ لگانے والی طالبہ کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس اٹھارہ سالہ طالبہ پر بغاوت کا مقدمہ درج کر کے جیل بھیج دیا ہے۔ شہریت سے متعلق نئے قانون کے خلاف احتجاج کے لیے بنگلور کے فریڈم پارک میں ایک جسلہ ہو رہا تھا جس میں شرکت کے لیے کالج کی طالبہ امولیہ لیونا بھی پہنچیں اور انہوں نے اسٹیج پر آتے ہی پہلے پاکستان زندہ باد اور پھر ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگوانے شروع کیے۔ ایسا کرنے پر انھیں پہلے روکا گيا اور پھر ان کے ہاتھ سے مائیک چھین کر پولیس نے انھیں حراست میں لے لیا۔ امولیہ کو چودہ روز کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا گيا ہے اور پولیس ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ ایک سینیئر پولیس افسر بی رمیش نے اس کارروائی سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کیا گيا ہے۔

اس دوران امولیا کے والد نے پولیس سے یہ شکایت کی ہے کہ اس واقعے کے بعد بعض افراد نے ان کے گھر میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے اس سلسلے میں سخت گیر ہندو تنظیموں سے وابستہ کچھ لوگوں کے خلاف کیس درج کر لیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بنگلور میں ہونے والے اس جلسے میں حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی رہنما اسد الدین اویسی بھی موجود تھے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو مسٹر اویسی اسٹیج پر تھے اور وہ یہ کہتے ہوئے مائیک چھیننے کے لیے آگے بڑھے کہ “یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔” پولیس نوجوان طالبہ کو پکڑ کر اسٹیج سے نیچے لے گئی۔ 

بی جے پی نے اویسی کی وضاحتوں کو مسترد کر دیا۔ پارٹی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، “بنگلور میں آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کی موجودگی میں لیونہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس کی قیادت میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج پاکستان اور ملک مخالف فورسز کا مشترکہ منصوبہ ہے، جو پاکستان کے حامی ہیں انھیں ہمیشہ کے لیے وہیں چلے جانا چاہیے۔” امولیہ کے والد نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ ان کی بیٹی نے، “جو کچھ بھی کہا وہ غلط ہے۔ وہ بعض مسلمانوں کے ساتھ ہو گئی ہے اور میری باتیں سن نہیں رہی ہے۔” اس سے قبل امولیہ نے اپنی مادری زبان کنڑ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ایک زبردست تقریر کی تھی جس کے سبب وہ سرخیوں میں آگئیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

بھارتی شہریت کا ترمیمی بل : کیا جناح کا نظریہ مکمل ہو گیا ؟

بھارتی متنازع شہریت بل کیخلاف عوامی احتجاج پر مودی سرکار بجائے مناسب حل کے ‘ تشدد پر اتر آئی‘ جلسوں ‘ جلوسوں اور مظاہروں کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ پولیس نے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں پر بدترین تشدد اور طالبات کے ساتھ قابل اعتراض حرکات کیں‘ جس سے کئی طلبا زخمی ہو کر ہسپتال داخل ہو گئے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم پارلیمنٹ ہاؤس تک مارچ کرنا چاہتے تھے‘ لیکن پولیس نے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ پولیس نے اندھا دھند گولیاں برسائیں اور آنسو گیس کا شدید استعمال کیا‘ اس کے باوجود طالبعلموں کو آگے بڑھنے سے نہ روک سکے تو پولیس نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ساتھ ان پر بدترین تشدد کیا۔ 

طالبات کو گھسیٹا گیا ‘جس پر ہنگامہ اور بڑھ گیا۔ درجن سے زیادہ طالبعلم زخمی ہو کر ہسپتال پہنچے ‘جہاں کے ڈاکٹروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان مظاہرین پر زہریلے کیمیکل سپرے کا استعمال کیا گیا‘ جس کی وجہ سے نا صرف ان کی بینائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے‘ وہیں مختلف بیماریوں کا بھی اندیشہ ہے۔ بھارتی حکومت نے دہلی کے شاہین باغ میں متنازع شہریت قانون کیخلاف احتجاج کرنیوالوں کو فوری طور پر ہٹانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا‘ مگر عدالت نے اس قسم کا کوئی بھی حکم دینے سے انکار کر دیا‘ تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ لوگوں کو عوامی شاہراہ کو غیرمعینہ مدت تک کیلئے بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

بینچ میں موجود ایک جج جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ کہ وہ حکومت کو سنے بغیر دونوں درخواست کو نہیں سن سکتے ۔ یہ درخواستیں وکیل امیت شاہنی اور بی جے پی دہلی کے رہنما نند کشور گارگ نے دائر کی تھیں‘ تاہم ان کی جانب سے یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ وہ اس احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتے ‘جو ایک ہی جگہ پر غیرمعینہ مدت تک جاری رہے ۔ متنازع شہریت بل کی مخالفت میں بعض بھارتی ریاستیں بھی پیش پیش ہیں۔ حال ہی میں کیرالہ‘ راجستھان اور پنجاب کے بعد مغربی بنگال کی اسمبلی نے بھی مودی سرکار کے اس متنازع شہریت ترمیمی قانون کیخلاف قرارداد منظور کی‘ جس میں مودی سرکار سے متنازع قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری سرکار مذہبی منافرت پر مشتمل ایسے کسی بھی قانون پر عملدرآمد نہیں کرے گی‘ جس سے بھارت کا سیکولر چہرہ داغدار ہوتا ہو۔ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ چندر شیکھر را بھی متنازع قانون کے خلاف قرارداد منظور کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ چندر شیکھر کا کہنا ہے کہ شہریت قانون میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے پر تکلیف پہنچی ہے ۔ مسلمان رکن اسمبلی اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ یہ قانون ہٹلر کے قوانین سے زیادہ برا اور مسلمانوں کو بے ریاست بنانے کی سازش ہے ۔ کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ اس بل کی جو بھی حمایت کرے گا وہ انڈیا کی بنیاد کو تباہ کر رہا ہو گا‘ تاہم بی جے پی کے رہنماوں اور حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ یہ بل مسلمانوں کے خلاف نہیں۔

شہریت ترمیمی قانون این آر سی کیخلاف احتجاج کرنے والے طلبا اور دیگر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے معروف اداکار نصیرالدین شاہ‘ میرا نائیر سمیت تقریباً 300 شخصیات نے اپنے دستخطوں کے ساتھ سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں کھلا خط جاری کیا ہے ۔ شہریت ترمیمی ایکٹ پر متنازع ریمارکس بارے اعتراف کرتے ہوئے بھارتی کانگریس کے سینئر رہنما شسی تھرور نے کہا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ محمد علی جناح جیت گئے ‘بلکہ وہ ابھی بھی جیت رہے ہیں‘ اگر شہریت ترمیمی ایکٹ این بی آر اور این آر سی کو لیڈ کرے گا تو یہ محمد علی جناح کے دو قومی نظریے کے خطوط پر مبنی استوار ہو گا اور اگر ایسا ہوا تو آپ یہ کہہ سکیں گے کہ جناح کا نظریہ مکمل ہو گیا۔

اس قانون کے لاگو ہونے سے جناح کے اس نظریے کو تقویت ملے گی کہ مسلمان ایک علیحدہ ملک کے مستحق ہیں‘ کیونکہ ہندو مسلمانوں کے حق میں نہیں ہو سکتے ۔ بھارت میں ظالم مودی سرکار کے مسلم دشمن قانون جناح کے نظریے کی جیت ہے۔ بل میں غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کی ترامیم شامل ہیں‘ جس کے تحت بنگلہ دیش‘ پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو‘ بودھ‘ جین‘ سکھ‘ مسیحی اور پارسی غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی‘ لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ کانگریس کے رہنما کپل سبل نے دعویٰ کیا کہ بل سے آئین کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ 

متنازع بل کی منظوری سے دو قومی نظریہ حقیقت بن جائے گا‘ جبکہ مودی نے الزام لگایا ہے کہ اپوزیشن‘ پاکستان کی زبان بول رہی ہے۔ کانگریس کے آنند شرما نے کہا کہ کپل سبل بل کی مخالفت کرتے ہیں۔ نظر ثانی کریں‘ تاریخ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ الغرض بھارت کا اقلیتوں کی شہریت کا متنازع ترمیمی بل نا صرف بھارت میں ‘بلکہ عالمی طورپر تنقید کا نشانہ بن رہا ہے ۔ مودی کی پارٹی پی جے پی کے یہ اقدامات بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش ہے ۔ مودی نے اقلیتی مسلم برادری کو نشانہ بنایا‘ جو بھارت کی ثقافت ہے یہ اقدام دو ایٹمی طاقتوں میں تناؤ بڑھا سکتا ہے ۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز