کورونا وائرس ۔ چند تجاویز

لاک ڈائون ایک ناپسندیدہ اور نقصان دہ عمل ہے۔ معیشت کیلئے تباہ کن تو سماج کیلئے مصیبت لیکن المیہ یہ ہے کہ کورونا کے سلسلے کو توڑنے کا ابھی تک دنیا نے اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہی ایجاد نہیں کیا۔ چین، روس، امریکہ، سعودی عرب، ترکی غرض دنیا کے ہر ملک کو لامحالہ یہی راستہ اپنانا پڑا۔ ہمارے ہاں ان ممالک کی نسبت غربت بہت زیادہ ہے لیکن معیشت جتنی بڑی اور ترقی یافتہ ہوا کرتی ہے، لاک ڈائون اس کیلئے اتنا ہی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے ۔ مثلاً پورے پاکستان کو بند کرنے سے جتنا نقصان ہو گا اس سے کئی گنا زیادہ امریکہ کو صرف نیویارک شہر کی بندش سے ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ افغانستان میں سینکڑوں دھماکوں سے وہاں کی معیشت اتنی متاثر نہیں ہوتی جتنی پاکستان میں ایک دھماکے سے ہو جاتی ہے کیونکہ افغانستان میں اسٹاک ایکسچینج کا مسئلہ ہوتا ہے اور نہ باہر کی دنیا کی ٹریول ایڈوائزری وغیرہ کا۔

ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کو گھروں کے اندر لمبے عرصہ تک کھلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں غربت بہت زیادہ ہے اور حکومت لوگوں کو گھروں پر نہیں کھلا سکتی لیکن یہاں بھی غربت اور بھوک کے فرق کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ کورونا سے قبل بھی ہماری جی ڈی پی گروتھ تاریخ کے کم ترین شرح پر آگئی تھی اور لاک ڈائون نہ ہو تو بھی ہم لوگوں کو روزگار دے سکتے ہیں، مناسب تعلیم، صحیح علاج اور نہ دیگر سہولتیں۔ یہاں ہمہ وقت ہر شخص اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے لیکن جتنی یہاں غربت زیادہ ہے، الحمدللہ اتنی یہاں بھوک نہیں ہے۔ ہماری سماجی ساخت، خاندانی نظام اور انفاق کے رجحان کی وجہ سے آج تک کوئی بھوک سے نہیں مرا۔ لوگ حادثات سے مرتے ہیں، علاج نہ ہونے کی وجہ سے مرتے ہیں، ڈپریشن اور نشہ کرنے کی وجہ سے مرتے ہیں لیکن مطلق بھوک سے کوئی کسی کو مرنے نہیں دیتا۔ پاکستان تو پاکستان ہے آج تک جنگ زدہ افغانستان سے بھی کسی کے بھوک سے مرنے کی خبر نہیں آئی۔

البتہ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک جہاں خاندانی اور سماجی نظام کمزور ہے اور جہاں کھلانے کی ذمہ داری ریاست کی ہے، وہاں اگر زیادہ عرصہ لاک ڈائون ہو تو ہو سکتا ہے کہ لوگ بھوک سے مرنے لگ جائیں۔ ویسے بھی یہ معیشت اور روزگار وغیرہ اس وقت درکار ہوتے ہیں جب انسان زندہ ہوں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا سے سب سے زیادہ غریب متاثر ہوتے اور مرتے ہیں، اس لئے لاک ڈائون نہ کرنے کیلئے غریب کو ہتھیار بنانا شاید زیادتی ہے۔ ہم سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ کورونا کے چین سے ایران تک پھیلنے کے باوجود ہم نے احتیاطی تدابیر اور نہ مناسب تیاری کی۔ اس سے بڑی غلطی یہ کی کہ لاک ڈائون لگانے کیلئے تیاری کی اور نہ اٹھانے کیلئے۔ بروقت لگانے کے بجائے دیر سے لگایا اور پھر عید کے دنوں میں ایسے وقت میں کھول دیا جب متاثرین اور ہلاکتوں کا گراف اوپر جارہا تھا۔

ہمارا لاک ڈائون بھی برائے نام تھا اور کئی حوالوں سے اس پر عمل بھی نہیں ہوا لیکن ہم نے لوگوں کو پہلے سے مطلع اور مناسب تیاری کئے بغیر پہلے تو لاک ڈائون کر دیا اور پھر اسی طرح مناسب اقدامات کے بغیر اس کو اٹھا لیا، جس کی وجہ سے لوگ بازاروں اور کاروباری مراکز پر ٹوٹ پڑے اور نتیجتاً کورونا گھر گھر پہنچ گیا۔ لاک ڈائون نرم کرنے سے قبل ماسک نہ پہننا جرم قرار دینا چاہئے تھا لیکن ہماری حکومت آج کئی ماہ بعد ماسک لازمی قرار دے رہی ہے۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عوام اور ڈاکٹروں کو کورونا اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ڈاکٹروں کی مہارت اور شعبہ ہے۔ بدقسمتی سے وقت نے ڈاکٹروں کی پیشینگوئیوں کو حرف بحرف درست جبکہ حکومت کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا۔ اس لئے اب ضد چھوڑ کر ڈاکٹروں کی بات مان لینی چاہئے۔ اب کی بارلاک ڈائون تیاری کے ساتھ کیا جائےاور مناسب اقدامات کے بعد اٹھایا جائے۔

پہلے لاک ڈائون میں لوگوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ لاک ڈائون کب ختم ہو گا، اس لئے بے چینی زیادہ تھی۔ اس لئے اب حکومت ڈبلیو ایچ او کی تجویز مان کر پہلے سے اعلان کر دے کہ لاک ڈائون دو ہفتوں کیلئے کیا جائے گا تاکہ لوگ اس حساب سے اپنی منصوبہ بندی کر سکیں۔ اسی طرح لاک ڈائون سے قبل لوگوں کو تیاری کیلئے ایک یا دو دن کی مہلت دی جائے اور ان دنوں میں دکانوں اور بینکوں وغیرہ کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھا جائے تاکہ لوگ وہاں ٹوٹ نہ پڑیں اور باری باری اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ حکومت نے یہ بھی غلطی کی کہ جب لاک ڈائون ختم کیا تو بازاروں کیلئے پانچ بجے تک کا وقت رکھا چنانچہ جب لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہو کہ پانچ بجے سب کچھ بند ہو جانا ہے تو وہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بیشک لاک ڈائون شہروں تک محدود ہو، دیہات میں کسانوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے لیکن وہاں ایس اوپیز پر پولیس کے ذریعے سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔

لاک ڈائون کے دوران لوگوں کی رہنمائی اور ان تک مدد پہنچانے کیلئے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو وقتی طور پر بحال کیا جائے کیونکہ باہر کےعلاقوں سے آئے ہوئے سرکاری افسران کی نسبت یونین کونسل کی سطح پر منتخب ممبران اچھی طرح جانتے ہیں کہ علاقے میں کون غریب ہے اور کس کا گزارا ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی ٹائیگرز فراڈ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کام انکے بجائے لوکل گورنمنٹ کے ممبران ہی بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ ایک اور تجویز یہ ہے کہ وزیراعظم مرکز کی سطح پر اور وزرائے اعلیٰ صوبوں کی سطح پر فلاحی اداروں کا اجلاس بلائیں اور ان میں تقسیم کار کریں کہ وبا کے دنوں میں کس نے کیا کام کرنا ہے۔ جب تک کورونا کا مسئلہ ہے تب تک کورونا کا علاج کرنے والے تمام طبی عملے کی تنخواہوں کو ڈبل کر دیا جائے۔

آخری گزارش یہ ہے کہ این سی او سی میں ڈاکٹر طاہر شمسی، ڈاکٹر عطاالرحمٰن، ڈاکٹر شاذلی منظور، ڈاکٹر سعید اختر، ڈاکٹر جاوید اکرم (یہ وہ ڈاکٹرز ہیں کہ حکومتی ماہرین کے برعکس جن کے اندازے بالکل درست ثابت ہوئے ہیں) کو بھی شامل کیا جائے بلکہ اگر اس میں ڈاکٹر غلام صابر جیسے ہیومیوپیتھ اور قدیم طب کے ایک آدھ جینوئن ماہر کو بھی شامل کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

سلیم صافی

بشکریہ روزنامہ جنگ

جماعت اسلامی کی سیاسی ناکامی

ملکی سیاست کرپشن کے ایشو کے گرد گھوم رہی ہے اور اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ جماعت اسلامی کی قیادت پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ نہ نوازشریف اور زرداری کی طرح جماعت اسلامی کی قیادت کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں اور نہ عمران خان طرح وہ سینکڑوں کنال رقبے پر محیط گھر میں شاہانہ زندگی گزار رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں سراج الحق نے نتھیا گلی کے وزیراعلیٰ ہائوس میں ایک دن بھی نہیں گزارا لیکن عمران خان صاحب نے اسے جتنا استعمال کیا، اتنا شاید گزشتہ بیس سالوں میں بھی استعمال نہیں ہوا۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرح جماعت اسلامی خاندانی جماعت ہے اور نہ پی ٹی آئی کی طرح شخصی۔ اس کے اندر جمہوریت کا یہ عالم ہے کہ کبھی کراچی کے اردو بولنے والے درویش سید منور حسن امیر منتخب ہوجاتے ہیں تو کبھی افغان سرحد پر مسکینی گائوں کے دیہات میں ایک مولوی کے گھر جنم لینے والے پختون سراج الحق قیادت سنبھال لیتے ہیں۔ سیاسی قائدین کی صف میں اگر کوئی رہنما سب سے زیادہ محنت کررہے ہیں تو وہ بلاشبہ سراج الحق ہی ہیں۔ صبح کراچی میں، دوپہر لاہور میں تو شام کو کہیں ملاکنڈ میں نظرآتے ہیں۔ تاہم ان سب کچھ کے باوجود جماعت اسلامی کی عوامی مقبولیت میں کمی آرہی ہے بلکہ وہ دن بدن قومی سیاست سے غیرمتعلق ہوتی جا رہی ہے۔

وہ کراچی جہاں کسی زمانے میں جماعت اسلامی کا طوطی بولتا تھا اور مئیر تک جماعت اسلامی سے منتخب ہوا کرتا تھا، وہاں آج انتخابی میدان میں جماعت اسلامی مقابلے کے بھی قابل نہیں رہی۔ لاہور جو کسی زمانے میں جماعت اسلامی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، سے جماعت اسلامی کے امیدوار منتخب نہ بھی ہوتے تو دوسرے نمبر پر ضرور آتے لیکن وہاں بد حالی کا یہ عالم ہے کہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں جماعت کا امیدوار ایک ہزار ووٹ بھی حاصل نہ کرسکا۔ بلوچستان میں توجماعت اسلامی پہلے عوامی سطح پرمقبول جماعت تھی اور نہ اب بن سکتی ہے۔ جہاں تک خیبر پختونخوا کا تعلق ہے تو وہاں پر بھی عملاً جماعت اسلامی کی عوامی مقبولیت صرف ملاکنڈ ڈویژن تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور اب تو یہ لطیفہ نما فقرہ زبان زدعام ہو گیا ہے کہ جماعت اسلامی سیاسی جماعتوں کی نان کسٹم پیڈ گاڑی ہے جو صرف ملاکنڈ ڈویژن میں چل سکتی ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی کی قیادت خواب تو کچھ اور دیکھ اور دکھا بھی رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو اگلے انتخابات میں عوامی میدان میں جماعت اسلامی مزید سکڑ کر رہ جائے گی۔

جماعت اسلامی کا المیہ یہ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی طرح خالص سیاسی جماعت بن سکی اور نہ اس طرح کی دعوتی جماعت رہ سکی جس طرح کہ مولانا مودودی نے ابتدا میں اسے بنایا تھا۔ یہ جماعت اب بھی سیاست اور دعوت کو ساتھ ساتھ چلانے کی کوشش کر رہی ہے جو بیک وقت دو کشتیوں پر سواری ہے۔ دعوت بغیر کسی صلے کے مخاطب کی خیرخواہی کے جذبے کا تقاضا کرتی ہے جبکہ سیاست حریفانہ کشمکش کا نام ہے۔ دعوت مخاطب سے کہتی ہے کہ تم اپنی جگہ رہو لیکن ٹھیک ہوجائو جبکہ سیاست مخاطب کو ہٹا کر اس کی جگہ خود کو بٹھانے کی کوشش کا عمل ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد اب سراج الحق صاحب بھی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کو زیادہ سے زیادہ عوامی بنا لیں لیکن جب تک دعوت اور سیاست کی اس دوئی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاتا، تب تک جماعت اسلامی نہ تو دعوتی بن سکتی ہے اور نہ مکمل سیاسی۔

دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے اندر تخلیقی اور تنقیدی سوچ کو پروان نہیں چڑھایا جا رہا۔ پہلے سے موجود لٹریچر اور سخت تنظیمی ڈھانچے کے جہاں بہت سارے فوائد ہیں، وہاں اس کا نقصان یہ ہے کہ تقلید کی ایک غیر محسوس روش پروان چڑھ گئی ہے۔ کئی حوالوں سے سالوں سے لگے لپٹے راستے پر جماعت گامزن ہے جبکہ روزمرہ کے معاملات میں قیادت جو فیصلہ کر لیتی ہے، اسے بلاسوچے سمجھے من وعن قبول کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ عشرے کے دوران میڈیا اور ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو گیا، جماعت اسلامی اسی حساب سے اپنے آپ کو تبدیل نہ کر سکی۔

تیسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے آپ کو دیگر مذہبی اور مسلکی جماعتوں کے ساتھ نتھی کر لیا ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کی نظروں میں جماعت اسلامی بھی ایک روایتی مذہبی جماعت بنتی جا رہی ہے۔ جماعت اسلامی پہلے دفاع افغانستان کونسل کا حصہ رہی اور جس کی قیادت مولانا سمیع الحق کے پاس تھی۔ پھر ایم ایم اے کا حصہ بنی اور ظاہر ہے کہ وہاں بھی ڈرائیونگ سیٹ پر مولانا فضل الرحمان بیٹھے تھے۔ اسی طرح جماعت اسلامی دفاع پاکستان کونسل کا بھی حصہ ہے جو دراصل اسٹیبلشمنٹ کے مذہبی مہروں کا فورم ہے۔ دوسری طرح وہ ملی یکجہتی کونسل کا بھی حصہ ہے جس میں فرقہ پرست تنظیمیں براجماں ہیں۔ یوں جماعت اسلامی کا اپنا تشخص برقرار نہیں رہا اور نئی نسل اس کو بھی روایتی مذہبی اور فرقہ پرست جماعتوں کی طرح ایک جماعت سمجھنے لگی جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیا میں بعض اوقات اچھے بھلے صحافی بھی سراج الحق کو مولانا کہہ کر پکار لیتے ہیں۔

قاضی حسین احمد مرحوم کے دور میں جماعت اسلامی کی سوچ کو جس طرح بین الاقوامی بنا دیا گیا، اس کی وجہ سے بھی جماعت اسلامی کو شدید نقصان پہنچا۔ جماعت اسلامی نے افغانستان اور کشمیر کو اپنی سیاست کا محور بنا لیا تھا اور وہاں بری طرح مار پڑ گئی لیکن جماعت اسلامی اب بھی ان ایشوز سے جان نہیں چھڑا سکی۔ آپ جماعت اسلامی کے احتجاجی جلوسوں کا ریکارڈ نکالیں تو پتہ چلے گا کہ پچاس فی صد سے زیادہ بنگلہ دیش، ترکی، امریکہ اور میانمار وغیرہ کے ایشوز پر نکالے گئے لیکن پاکستان کے داخلی اور عوام سے متعلقہ ایشوز پر بہت کم سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس حد سے زیادہ بین الاقوامیت نے بھی جماعت اسلامی کے وابستگان کو عوام سے بڑی حد تک لا تعلق کر دیا ہے۔

عوامل اور بھی بہت سارے ہیں لیکن ماضی قریب میں جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف نے پہنچایا ہے۔ یہ جماعت اپنی ساخت میں اور مقصد کے لحا ظ سے جماعت اسلامی سے کوسوں دور ہے لیکن چونکہ اس کی نوک پلک امپائروں نے درست کی، اس لئے اس کی قیادت کو زیادہ تر جماعت اسلامی کے نعرے تھما دئیے گئے۔ اس نے جماعت اسلامی کے کرپشن کے خلاف نعرے کو بھی اپنا لیا۔ چونکہ عمران خان ایک سیلیبرٹی تھے اور ان کے ساتھ وابستگی کی صورت میں انہیں جماعت اسلامی کی طرح پابندیوں کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑ رہا تھا (جماعت اسلامی کی صفوں میں کئی سال تک اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ تصویر حلال ہے یا حرام ہے جبکہ موسیقی کے بارے میں اب بھی یہ بحث جاری ہے جبکہ تحریک انصاف میں ہر طرح کے حدودو قیود سے آزاد رہ کر بھی انسان انقلاب کا نعرہ لگا سکتا ہے) اس لئے اس نے میدان میں آتے ہی نوجوان نسل میں انقلابی سوچ رکھنے والے جماعت اسلامی کے ووٹروں اور سپورٹروں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس وجہ سے جماعت اسلامی کے اندر خالص سیاسی ذہن رکھنے والے رہنمائوں کی ایک بڑی تعداد بھی پی ٹی آئی میں چلی گئی۔

تاہم جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنی عوامی سیاست کے تابوت میں آخری کیل خیبرپختونخوا میں چند وزارتوں کی خاطر پی ٹی آئی سے اتحاد کر کے خود ہی ٹھونک دی۔ اس اتحاد کی خاطر جماعت اسلامی کی قیادت نے جن مصلحتوں سے کام لیا، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ وہ احتساب کا نعرہ لگاتی رہی لیکن خیبرپختونخوا میں احتساب کے ساتھ بد ترین مذاق پر خاموش رہی۔ آفتاب شیرپائو کے نکالے جانے، پھر منتیں کر کے منانے اور پھر نکالے جانے پر خاموشی کے لئے کسی جماعت کے لئے بڑا بے ضمیر ہونا پڑتا ہے جس کی توقع جماعت اسلامی سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ وہ قانون کی بالا دستی کے نعرے لگاتی رہی لیکن اس اتحاد کی خاطر سول نافرمانی کے اعلان کی مذمت بھی نہ کر سکی۔ بینک آف خیبر کے معاملے نے تو جماعت اسلامی کو عوام کی نظروں میں رسوا کرکے رکھ دیا۔

دوسری طرف قومی سطح پر سیاست کا مہار یا تو نوازشریف کے ہاتھ آگیا ہے یا پھر عمران خان کے ہاتھ میں۔ جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کا دم چھلا تصور کیا جانے لگا۔ اس کی تازہ مثال پانامہ کیس ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ سپریم کورٹ میں پہلے سراج الحق گئے اور جب لاک ڈائون ناکام ہوا تو امپائروں نے خان صاحب کو سراج الحق کی اقتدا میں سپریم کورٹ بھجوا دیا لیکن کریڈٹ سارا عمران خان لے گیا۔ دوسری طرف خیبرپختونخوا میں بھی اگر کریڈٹ ہو تو وہ پی ٹی آئی لے جا رہی ہے جبکہ ڈس کریڈٹ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ شیئر کر رہی ہے۔ مثلاً بلدیاتی اداروں کے قانون کا کریڈٹ ملکی سطح پر تحریک انصاف نے لیا حالانکہ یہ وزارت جماعت اسلامی کے پاس ہے۔

اسی طرح پشاور کی سڑکوں کا کسی حد تک حلیہ درست کرنے کا کریڈٹ بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے بلدیات کے وزیر عنایت اللہ کو جاتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ ملک بھر میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف لے گئی۔ دوسری طرف اگر احتساب کا مذاق اڑایا گیا یا پھر اینٹی کرپشن کا ڈائریکٹر ایک من پسند پولیس افسر کو لگا دیا گیا ہے تو اس میں جماعت اسلامی کا براہ راست کوئی کردار نہیں لیکن بدنامی جماعت اسلامی کے حصے میں بھی آ رہی ہے کیونکہ وہ ان معاملات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔

جماعت اسلامی کے متحرک امیر سراج الحق اگر جماعت اسلامی کی طرف عوام کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں تووہ یہ منزل صرف ذاتی طور پر بے پناہ محنت کر کے ہر گز حاصل نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لئے انہیں مذکورہ عوامل کی طرف توجہ دے کر انقلابی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ نہیں تو اگلے انتخابات میں حشر حلقہ این اے 120 سے بدتر ہو گا اور اگر ایم ایم اے بنا کر دوبارہ اپنے آپ کو مولانا فضل الرحمان کی جماعت کا دم چھلا بنایا گیا تو رہی سہی سیاست بھی ختم ہو جائے گی۔ جماعت اسلامی کی موجودہ سیاست میں بدنامی بھی ہے اور ناکامی بھی مقدر ہے۔

آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

سلیم صافی

امریکہ سے کہہ دیں کہ

افغانستان کے معاملے میں پاکستان کا ریکارڈ اچھا نہیں تو امریکہ کا بھی بلنڈرز سے عبارت ہے ۔ تاہم اس وقت جنگ نہیں امریکہ سے مکالمے کی ضرورت ہے ۔ بڑھکیں مارنے کی نہیں دلیل دینے کی ضرورت ہے ۔ اپنے پاکستانیوں کے جذبات کو بھڑکانے کی نہیں بلکہ دلائل دے کر عالمی برادری کے جذبات ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کے مختاروں کو چاہئے کہ وہ امریکہ سے کہہ دیں کہ :

ہم وفادار نہیں لیکن تو بھی تو دلدار نہیں ۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ ہم دونوں نے مل کر لڑی ۔ آپ نے صرف ڈالرز دئیے لیکن ہم نے پورا ملک اور پورا سماج اس آگ میں جھونک دیا۔ تاہم سوویت یونین کے نکلتے ہی آپ نے اجڑے ہوئے افغانستان کو بھلا دیا اور ساری مصیبت ہمارے گلے ڈال دی۔ جنگ کے بعد افغانستان کو سنبھالنے میں تم نے ہماری کوئی مدد نہیں کی بلکہ الٹا پریسلر ترمیم کے ذریعے ہم پر پابندیاں عائد کر دیں ۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ ہم نے یہ غلطی کی کہ پہلے حکمت یار کو مسلط کرنے میں برہان الدین ربانی ، احمد شاہ مسعود اور دیگر مجاہدین لیڈروں کو ناراض کیا۔ پھر طالبان کو سپورٹ کر کے حکمت یار کو بھی دشمن بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ پھر نائن الیون تک طالبان کوایسے عالم میں مدد فراہم کرتے رہے کہ جب دو ممالک کے سوا پوری دنیا ان کی مخالف تھی لیکن اس میں بھی تو کوئی شک نہیں کہ طالبان بنیادی طور پر امریکی سی آئی اے اور یونیکال کمپنی کی تخلیق تھے اور جنرل نصیراللہ بابر نے جس طرح طالبان کو اپنے بچے قرار دیا تو کسی پاکستانی کے کہنے پر نہیں بلکہ سی آئی اے اور یونیکال کمپنی کے ایما پر قرار دیا۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ ہم نہیں بلکہ احمد شاہ مسعود بھی نائن الیون تک آپ کو دہائی دیتے رہے کہ افغانستان کی فکر کر لیں لیکن جب تک نائن الیون کی شکل میں آگ آپ کے گھر تک نہیں پہنچی تھی ، آپ اس جانب متوجہ نہیں ہوئے ۔ اور تو اور آپ لوگوں نے تو افغان مہاجرین کی بھی ہر طرح کی مدد بند کی اور پاکستان میں یو ایس ایڈ کے دفاتر کو بھی تالے لگا دیئے ۔ امریکہ سے کہہ دیں کہ طالبان اچھے تھے یا برے لیکن پاکستان کے مخالف نہیں تھے ۔ وہ ہندوستان و ایران اور اس کے اس وقت کی پراکسی یعنی شمالی اتحاد کے مقابلے میں پاکستان کے تمام اسٹرٹیجک مقاصد پورے کر رہے تھے ۔ القاعدہ نے بھی تب تک پاکستان کے خلاف جنگ ڈکلیئر نہیں کی تھی ۔ ہم نے آپ کی خاطر طالبان کی حکومت ختم کی ۔

اس سلسلے میں پاکستان نے اس حد تک تعاون کیا کہ دو سابق سفیروں یعنی ملا عبدالسلام ضعیف اور ڈاکٹر غیرت بھیر کو اسلام آباد سے گرفتار کر کے آپ کے حوالے کیا جنہیں کچھ عرصہ بعد آپ لوگوں نے رہا کروا کر ہمارے خلاف کتابیں لکھنے کے لئے کابل میں بٹھا دیا۔ ہم نے اپنی سڑکیں پیش کردیں ، اپنے ہوائی اڈے فراہم کئے۔ پورے پاکستان کو سی آئی اے اور بلیک واٹر کی چراگاہ بنا دیا۔ القاعدہ کو اپنا دشمن بنا لیا ۔ جس کی وجہ سے پاکستان ، دہشستان بن گیا جبکہ آپ کے ہاں نائن الیون کے بعد کسی چڑیا نے بھی پر نہیں مارا ۔ آپ کی جنگ کی خاطر ہم نے اپنی لاکھ سے زائد فوج مغربی بارڈر پر تعینات کر دی اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے فوجی جوان جس میں جنرل کی سطح تک کے لوگ شامل تھے، قربان کئے ۔ جواب میں ہمارا آپ سے ایک ہی مطالبہ رہا کہ ہندوستان کو افغانستان میں نہ آنے دیں لیکن آپ نے اس کے برعکس کیا۔ افغانستان کو نہ صرف ہندوستان کا اڈہ بنا دیا بلکہ اسے کھل کر اجازت دی کہ وہ پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑے ۔ آپ یا پھر آپ کی شہہ پر ہندوستان نے براہمداغ بگٹی اور حربیار مری کو وہاں محفوظ ٹھکانے دیئے ۔ پختونستان کے مسئلے کو زندہ کرنے کی کوشش کی اور پھر جب کچھ طالبان بگڑ کر پاکستان سے لڑنے لگے تو ان کا محفوظ ٹھکانہ بھی آپ کے زیرقبضہ افغانستان بن گیا۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ طالبان لیڈر تب بھی پاکستان میں چھپے ہوئے تھے لیکن 2003ء تک افغانستان استحکام کی طرف جا رہا تھا۔ طالبان کی حکومت ہمارے تعاون کی وجہ سے آپ کی توقعات سے بھی پہلے ختم ہو گئی۔ آپ لوگوں سے حامد کرزئی کی ابتدائی ملاقاتیں بھی ہم نے پاکستان میں کروائیں ۔ ابتدائی دو سالوں میں افغانستان کے اندر خود کش حملے تھے اور نہ جنگ ہو رہی تھی ۔ پاکستان اسی طرح پڑوس میں تھا لیکن تب افغانستان استحکام کی طرف جا رہا تھا۔ انتخابات ہوئے ۔ لویہ جرگہ منعقد ہوا ۔ آئین بنا ۔ باہر سے افغان سرمائے سمیت واپس لوٹ رہے تھے لیکن آپ کے ذہن پر عراق کو فتح کرنے کا بھوت سوار ہوا ۔ افغانستان کو پوری طرح سنبھالے بغیر آپ عراق میں جا گھسے ۔ زیادہ فوجی قوت افغانستان سے وہاں منتقل کر دی ۔ اس جنگ نے امریکہ کی اخلاقی حیثیت کمزور کردی ۔

ابوغریب جیل کی فوٹیجز نے طالبان اور القاعدہ کے پیغام میں نئی جان ڈال دی ۔ ایران کو خدشہ ہوا کہ وہ عراق اور افغانستان میں موجود امریکی افواج کے درمیان سینڈوچ بن رہا ہے ، اس لئے اس نے بھی درپردہ طالبان اور القاعدہ کی مدد شروع کر دی ۔ اسی طرح روس کو بھی خطرہ لاحق ہوا کہ امریکی افغانستان کو مستحکم کرنے نہیں بلکہ مستقل قیام کے لئے آئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے امریکی دانشور بھی اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ کو سب سے زیادہ نقصان عراق جنگ نے پہنچایا اور ظاہر ہے کہ عراق جنگ میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ چلیں مان لیتے ہیں کہ طالبان ، پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان میں جنگ لڑ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ افیون کی کاشت بھی پاکستان سے کی جا رہی ہے ۔ طالبان نے تو اپنے دور میں افیون کی کاشت ختم کی تھی لیکن آپ کے زیرانتظام افغانستان ایک بار پھر دنیا کا سب سے زیادہ افیون پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔ اسی طرح اس وقت افغان صدر اشرف غنی اور ان کے نائب صدر رشید دوستم ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔ یہ تاریخ کا منفرد واقعہ ہے کہ کسی ملک کا نائب صدر اپنے ملک میں واپس نہیں آ سکتا اور ترکی میں بیٹھا ہے۔ اسی طرح وزیرخارجہ صلاح الدین ربانی کی اپنے صدر کے ساتھ بات چیت چھ سات ماہ سے بند ہے ۔ اب کیا اس اندرونی سیاسی انتشار کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے؟

امریکہ سے کہہ دیں کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد افغانستان سے متعلق ایک ہی پالیسی رکھی ہوئی ہے لیکن آپ کی پالیسی ہر سال تبدیل ہو جاتی ہے۔ پاکستان مشورہ دیتا رہا کہ سب القاعدہ اور طالبان کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہئے۔پاکستان ماڈریٹ طالبان سے مفاہمت کی تلقین کرتا رہا ۔ خود افغان حکومت نے بھی ان سے مفاہمت کے لئے صبغت اللہ مجددی کی سربراہی میں کمیشن بنا دیا لیکن صدر بش کی پالیسی ہر طرح کے طالبان سے لڑنے اور انہیں کچلنے کی تھی ۔ صدر اوباما نے اقتدار میں آنے کے بعد نئی پالیسی دی جو اپنی جگہ تضادات کا مجموعہ تھی۔ پہلے ری کنسیلیشن (Reconciliation) پر آمادہ نہیں تھے اور ری انٹیگریشن (Reintegration) کا فلسفہ جھاڑ رہے تھے لیکن پھر اسی اوباما نے قطر میں طالبان کا دفتر کھلوا دیا۔ پھر آپ کا ا سٹیٹ ڈپارٹمنٹ مذاکرات کر رہا تھا لیکن پینٹاگون اس کی ناکامی کے لئے سرگرم رہا ۔ اب آپ کی ٹرمپ انتظامیہ نے ایک اورپالیسی دے دی جسے خود سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی مسترد کر دیا۔ اوباما نے افغانستان سے نکلنے کی تاریخ دے کر طالبان کے مورال کو بلند کیا لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی یہ سامنے آئی کہ کسی صورت افغانستان سے نہیں نکلیں گے ۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ طالبان سے متعلق جتنی کنفیوژن امریکہ اور افغان حکومت کے ہاں ہے ، اتنی شاید پاکستان میں نہیں ۔ کبھی یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں چھپے طالبان کو مار دو ۔ کبھی کہتے ہیں کہ ان کو نکال دو ۔ کبھی کہتے ہیں کہ ان کو مذاکرات کے لئے آمادہ کر دو ۔ دنیا بھر میں طالبان کا واحد واضح اور اعلانیہ دفتر قطر میں ہے جو امریکہ کے کہنے پر قائم کیا گیا ہے ۔ اسی طرح طالبان کا دوسرا واضح ٹھکانہ کابل ہے جہاں عبدالسلام ضعیف اور مولوی وکیل احمد متوکل جیسے لوگ بیٹھے ہیں ۔ اب آپ لوگ ان کو نکالتے ہیں ، ان سے باقاعدہ مذاکرات کر رہے ہیں اور نہ ان کو مار رہے ہیں لیکن دوسری طرف پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ پاکستان میں چھپے طالبان کو اپنا دشمن بنا دے ۔ اب اگر پاکستان افغان طالبان سے لڑ کر ان کو اپنا دشمن بنا دے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کل انہیں بھی گلبدین حکمت یار کی طرح کابل میں شاہی مہمان نہیں بنایا جائے گا؟

امریکہ سے کہہ دیں کہ آپ بار بار پاکستان کو دی جانے والی امداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے پاکستان کو رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ امداد اس نقصان کا عشرعشیر بھی نہیں جو اس جنگ میں پاکستان نے اٹھایا۔ آپ لوگوں نے افغانستان میں جنگ پر جتنا خرچ کیا، اس کا ایک فی صد بھی پاکستان کو نہیں دیا۔ اور تو اور جتنی رقم آپ لوگوں نے افغانستان میں جنگ پر خرچ کی ، اس کا پانچ فی صد بھی تعمیر نو پر خرچ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی کابل شہر کی سڑکیں ناگفتہ بہ ہیں ۔

امریکہ سے کہہ دیں کہ آپ کے بارنٹ روبن جیسے جنوبی ایشیا اور افغانستان کے ماہرین اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ افغانستان میں بدامنی کی بنیادی وجہ پاکستان اور ہندوستان کا تنازع اور پھر وہاں ان دونوں کی پراکسی وار ہے ۔ اس لئے صدراوباما نے اپنی انتخابی مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں گے اور اسی لئے انہوں نے ابتدا میں جس افغان پالیسی کا خاکہ پیش کیا اس میں افپاک کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی شامل کیا گیا تھا لیکن بعد میں ہندوستان کے احتجاج کی وجہ سے افپاک سے ہندوستان کو الگ کر دیا گیا۔ گزشتہ سولہ سالوں میں آپ نے پاک ہند تنازع کو حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ چین کے تناظر میں ہندوستان آپ کا اسٹرٹیجک پارٹنر بن گیا۔ اب آپ اسے افغانستان کا وارث بنانا چاہتے ہیں ۔ آپ خود سوچ لیجئے ۔ اگر میکسیکو میں بحران ہو اور اس کو حل کرنے کے لئے کوئی قوت شمالی کوریا کو لا کر وہاں کا مختار بنانا چاہے تو کیا امریکہ اس قوت سے تعاون کرے گا۔ اب جس طرح نئے پالیسی بیان میں آپ کے صدر نے پاکستان پر تبرا بھیج کر ہندوستان کو افغانستان کا مختار بنانے کا عندیہ دیا ہے ، اس کے بعد پاکستان کیوں کر امریکہ کے ساتھ تعاون کر سکتا ہے ؟

یہ تو محض ایک جھلک ہے۔ موقع ہوا توافغانستان کے حوالے سے امریکہ کی ڈبل گیم، بلنڈرز اور حماقتوں کے تذکرے سے ہزاروں صفحات سیاہ کئے جاسکتے ہیں لیکن کالم کی تنگ دامنی آڑے آ رہی ہے۔ جوابی دلائل کی کمی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو سمجھے کون اور امریکیوں کے سامنے بیان کون کرے؟ پاکستان کے ہر طرح کے وکیل تو ان دنوں اندرونی محاذ پر سرگرم پاناما پاناما کھیل رہے ہیں۔

سلیم صافی