اور پھر راجہ ریاض نے پوشٹر پاڑ دیا ! وسعت اللہ خان

کہا تھا نا کہ قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض کو ہلکا نہ لینا۔ کہا تھا نا کہ ان کی سیدھ پن سے لبریز گفتگو سے کوئی غلط نتیجہ اخذ کر کے ان پر فیصل آباد کی زندہ جگت کی پھبتی نہ کسنا۔ کہا تھا نا کہ راجہ صاحب کے ساندل باری لہجے کا مذاق نہ اڑایا جائے کہ ’میرا دل کرتا ہے کہ اسمبلی تلیل ہونے کے بعد پوشٹر پاڑ کے بارلے ملخ چلا جاؤں۔‘ اگرچہ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا نام ان کی پارٹی کی تجویز کردہ فہرست میں نہیں تھا۔ خود نواز شریف اور شہباز شریف کے بھی وہم و گمان میں یہ نام نہ تھا۔ حکمران اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان کے زہن میں تو خیر یہ نام آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ گمان ہے کہ خود راجہ ریاض کی بھی شاید ہی سینیٹر انوار الحق کاکڑ سے زندگی میں سوائے پارلیمانی علیک سلیک کبھی جم کے کوئی ملاقات ہوئی ہو۔ خود کاکڑ صاحب یا ان کی باپ ( بلوچستان عوامی پارٹی) کے کسی اعلیٰ عہدیدار کو بھی 48 گھنٹے پہلے تک شاید اندازہ نہ ہو کہ فیصل آباد کا راجہ قلعہ سیف اللہ کے کاکڑ کے لیے اتنا اکڑ جائے گا کہ سارے ’پوشٹر پاڑ‘ کے پھینک دے گا۔

اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ راجہ ریاض انوار الحق کاکڑ کے نام پر کیوں اڑ گئے؟ یہ سوال بھی بے معنی ہے کہ کاکڑ کا نام خود راجہ صاحب کے ذاتی ذہن کی پیداوار ہے یا انھوں نے جمعہ اور ہفتے کو کانوں میں مسلسل ہینڈز فری لگائے رکھا یا پھر کوئی واٹس ایپ موصول ہوا کہ بس ایک ہی نام پر جمے رہو۔ ہم ہیں تو کیا غم ۔ اور یہ مشورہ اتنا فولادی تھا کہ راجہ صاحب سے غالباً پہلی اور آخری بار صادق سنجرانی، احسن اقبال حتیٰ کہ اسحاق ڈار کی بالمشافہ ملاقات بھی راجہ ریاض کا دل موم نہ کر سکی۔  راجہ صاحب میں ٹارزن جیسی طاقت کہاں سے آئی؟ وزیرِ اعظم اور حکمران اتحاد نے کیسے اپنی اپنی ناموں کی پرچیاں پھاڑ کے راجہ صاحب کے تجویز کردہ نام پر ہاتھ کھڑے کر دئیے؟ اتنا برق رفتار حسنِ اتفاق تو جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے لیے بھی نہ دیکھا گیا تھا۔
کوئی تو ہے جو نظامِ بستی چلا رہا ہے۔۔۔
مگر ایک منٹ!
یہ نہ تو کوئی انہونا سرپرائز ہے اور نہ ہی آپ کہہ سکتے ہیں کہ پہلی بار اس طرح سے کوئی اِکا پھینک کے تاش کی بازی پلٹی گئی ہو۔

یاد نہیں کہ سینیٹ میں نون اور پی پی کی مجموعی اکثریت کے باوجود ایک آزاد، غیر سیاسی، غیر معروف امیدوار صادق سنجرانی نے کس طرح مارچ 2018 میں گرم و سرد چشیدہ راجہ ظفر الحق کو شکست دے کے سب کو ششدر کر دیا تھا۔ اور پھر انہی سنجرانی صاحب نے ایک برس بعد تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنایا جبکہ سینیٹ میں عمران خان کی مخالف جماعتیں بظاہر اکثریت میں تھیں اور سنجرانی کے ہی ہم صوبہ بزنجو خاندان کے وارث میر حاصل خان کی جیت عددی دوربین سے لگ بھگ یقینی نظر آ رہی تھی۔ اور اسی سنجرانی نے 2021 میں چیئرمین شپ کی دوڑ میں یوسف رضا گیلانی کو شکست دے کے تیسری بار چمتکار دکھایا۔ تب سے سنجرانی کا شمار گنے چنے اہم سیاسی کھلاڑیوں کی صف میں ہونے لگا۔ جو حاسد طعنہ دے رہے ہیں کہ انوار الحق کاکڑ، صادق سنجرانی کی کامیاب ہائبرڈ پیوند کاری کا ٹو پوائنٹ او ماڈل ہیں، ٹی وی کے جو اسکرینچی ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ جواں سال انوار الحق کا مختصر سیاسی شجرہ مسلسل اسٹیبلشمنٹ نواز ہے اور وہ دراصل ایک فرنٹ کمپنی ہیں جنھیں آگے رکھ کے ایک من پسند انتخابی ڈھانچہ بنا کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جائیں گے۔

ان اسکرینچیوں کو کم ازکم یہ زیب نہیں دیتا کہ 2018 کے بعد سے بالعموم اور حالیہ ختم ہونے والی قومی اسمبلی اور نہ ختم ہونے والی سینیٹ میں بالخصوص جس طرح آخری چار اوورز میں قوانین کی منظوری کی ریکارڈ توڑ سنچری بنائی گئی اس کے بعد کوئی کہہ سکے کہ کون اسٹیبلشمنٹ کا کاسہ لیس ہے اور کون اس اسمبلی میں لینن، ہوچی منہہ، چی گویرا یا کم ازکم کوئی ولی خان، مفتی محمود یا نوابزادہ نصراللہ خان تھا۔ یہ اسمبلی تاریخ میں کس طرح یاد رکھی جائے گی؟ کسی کو شک ہو تو سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی آخری پارلیمانی تقریر یا پھر سینیٹ میں سابق چیئرمین رضا ربانی کا پچھلا خطاب سن لے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

خان صاحب کا باجوہ ڈاکٹرائن

فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا
وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا
(انور شعور)
خان صاحب کو جو خوبی دیگر سیاست گروں سے منفرد کرتی ہے وہ ہے ان کی یک رخی۔ بندہ پسند ہے تو ضرورت سے زیادہ پسند ہے اور وہی بندہ ناپسند ہے تو بے پناہ ناپسند ہے۔ خان صاحب بیک وقت بہت سے محاذ کھولنے کا جھاکا ضرور دیتے ہیں مگر عملاً ایک وقت میں کسی ایک کو ہی ہدف بناتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے تو دوسرے کھلونے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یا پھر ٹائم پاسی کے لیے پرانے کھلونے کو توڑ کے ہی ریورس انجینئرنگ کا آنند لیتے ہیں۔ مثلاً نوے کی دہائی میں نواز شریف ان کی گڈ بک میں جب تک تھے، تب تک تھے۔ پھر اسی نواز شریف کے پیچھے پڑے تو ’گو نواز گو‘ کے سوا فضا میں کوئی نعرہ نہیں گونجا۔ اس ون ڈش حکمتِ عملی سے بیزار ہوئے تو مینیو میں زرداری کو بھی بطور سلاد رکھ لیا اور اس سلاد پر مولانا فضل الرحمان کی گارنش بھی پھیر دی۔ جب برسرِاقتدار آئے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی فراست کے ایسے اسیر ہوئے کہ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے تمام گھوڑے کھول لیے اور پوری پارلیمنٹ کو ایکسٹینشن کے رتھ میں جوت دیا اور جب جنرل فیض حمید پسند آئے تو یوں پسند آئے کہ ان کی خاطر قمرجاوید باجوہ سے بھی بھڑ گئے۔

فوج میں اگرچہ سپاہ سالار بااختیار ہوتا ہے مگر وہ حکمتِ عملی سمیت تمام اہم فیصلے پرنسپل سٹاف آفیسرز اور کور کمانڈرز کو اعتماد میں لے کر ضروری مشاورت کے زریعے کرتا ہے۔ فوج اور پی ٹی آئی میں یہی بنیادی فرق ہے۔ مگر خان صاحب اس بابت حق الیقین کی سطح پر ہیں کہ مارشل لا نہ لگانے والا سادہ سپاہ سالار بھی پوری سپاہ کو اپنی من مرضی کے مطابق جیسے چاہے چلا سکتا ہے اور آئی ایس آئی کا سربراہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بعض اوقات اپنی بھی نہیں سنتا۔ چنانچہ خان صاحب کا نیا ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ بھی اسی سوچ کی پیداوار ہے۔ اس وقت نہ عمران خان وزیرِ اعظم ہیں، نہ فیض حمید جنرل ہیں اور نہ ہی قمر جاوید باجوہ سپاہ سالار مگر خانِ اعظم جب تک دوبارہ وزیرِ اعظم نہیں بن جاتے تب تک ان پر باجوائیت طاری رہے گی اور ہر جلسے، انٹرویو اور قوم سے ہفتہ وار خصوصی خطاب میں باجوہ کا نام لے لے کر ہاتھ پھیلا پھیلا کے تبرائی کوسنے جاری رہیں گے۔

تاوقتیکہ توپ دم کرنے کے لیے کوئی نیا حاضر یا غائب ہدف ہتھے نہ چڑھ جائے۔
بھرے سٹیڈیم کی تالی پیٹ توجہ مسلسل خود پر رکھنے کے لیے باجوائی وکٹ پر نیٹ پریکٹس جاری رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اپنی اقتداری ناکامیوں کی ٹاکیاں سابقین کے سینگوں سے باندھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ بھی قابلِ قبول ہو گا کہ میری گلی میں پچھلے چار برس سے اس لیے پانی کھڑا ہے کیونکہ باجوہ نے سولنگ نہیں لگانے دی۔ خان صاحب کی کچیچیاں اپنی جگہ، پر انتخابات تب ہی ہوں گے جب اطمینان ہو جائے کہ کسی کو اتنی اکثریت حاصل نہ ہو جائے کہ وہ آئین و قواعد و ضوابط کو من مرضی سے موڑنے یا بدلنے کی کوشش کرے اور روایتی توازنِ طاقت کو گڑبڑا دے اور ویٹو پاور بھی قبضا لے۔ خان صاحب چاہیں نہ چاہیں انھیں بادشاہ گروں کی با اعتماد مسلم لیگ ق اور اسی قماش و خمیر سے اٹھی کچھ دیگر ضروری جماعتوں کو ساتھ لے کر ہی چلنا پڑے گا۔

خان صاحب کو دوبارہ اقتدار کی قیمت حسبِ سابق دل پر پتھر رکھتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں ادا کرنا پڑے گی اور قطعی اکثریت کی خواہشاتی گولی کو سادہ اکثریت کے پانی سے نگلنا پڑے گا۔ وہ جتنے چاہیں نئے گیت گا لیں مگر آرکسٹرا نہیں بدلے گا۔ اس کوچے میں بیساکھیاں نہ بیچی جا سکتی ہیں نہ خریدی جا سکتی ہیں۔ کرائے پر طے شدہ مدت کے لیے ضرور فراہم کی جا سکتی ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی وغیرہ وغیرہ تو کھیل کے قوانین ہضم کرنے کی مشق سیکھ چکے ہیں۔ خان صاحب کو اسی دائرے میں رکھنے اور اس کا عادی بنانے کا کام گجرات کے چوہدریوں کے ذمے ہے۔ جب تک چوہدری پہرے دار ہیں تب تک اسٹیبلشمنٹ کو کوئی غم نہیں۔ ایسے ماہر سائیسوں کے ہوتے غیرجانبداری کے چسکے لینے میں بھی کیا حرج ہے۔ ایک سینیئر چینی سفارتکار نے پاک چین قربت پر ناک بھوں چڑھانے والے اپنے ہم منصب امریکی سفارتکار سے کہا تھا کہ پاکستان اس خطے میں چین کا اسرائیل ہے۔ اسی کسوٹی پر پاکستان بالخصوص پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ق اسٹیبلشمنٹ کا اسرائیل ہے۔ پی ٹی آئی کو اگر طاقت کی منڈی میں اپنی فصل کے اچھے دام چاہئیں تو ق کو آڑھت دیے بغیر کوئی راستہ نہیں۔ ورنہ تو فصل ارزاں تر بیچنے کے خواہش مندوں کی قطار بندھی ہے۔ ق سے صرف قائدِ اعظم نہیں ہوتے۔ ق سے قینچی بھی ہوتی ہے۔

 وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

ہم اور ہمارے تیسرے درجے کے خواب

جب مراکش کی ٹیم پرتگال کو ہرا کے عالمی فٹ بال کپ کی بانوے برس کی تاریخ میں سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی عرب مسلم افریقی ٹیم قرار پائی تو اس ٹیم کے کھلاڑیوں کی گفتگو سے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ کام کیسے ہو گیا۔ ’’ ہمیں اپنی ذہنیت بدلنا ہو گی۔ کمتری کا خیال دل سے نکالنا ہو گا۔ یہ یقین کرنا ہو گا کہ مراکش کی ٹیم دنیا میں کسی کا بھی مقابلہ کر سکتی ہے۔ تب ہماری نسلیں بھی یقین کرنے لگیں گی کہ مراکشی بھی معجزے دکھا سکتے ہیں۔ آیندہ جو بھی ہمارا مدِمقابل ہو گا اسے ہمیں ہرانے کے لیے بہت محنت کرنا ہو گی ‘‘ ( گول کیپر یاسین بونو ) ’’ ٹورنامنٹ سے پہلے مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں ؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ کیا ہمیں خواب دیکھنے کی اجازت نہیں ؟ آپ خواب دیکھتے ہیں تب ہی تو ان کی تعبیر تک پہنچتے ہیں۔ ویسے بھی خواب بے دام ہیں۔ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے اور انھیں جیت سکتا ہے۔ یورپی ٹیموں کو ورلڈ کپ جیتنے کی عادت ہو گئی ہے۔ اب ہمیں بھی اس مقام تک پہنچنا ہے‘‘ ( مراکشی کوچ رگراگی )۔

کچھ نہیں معلوم کہ مراکش فائنل میں پہنچتا ہے کہ نہیں مگر کیا فرق پڑتا ہے۔ مراکش ایک مثالیہ تو بن ہی گیا ہے ان تمام اقوام کے لیے جن کا یقین صدیوں پر پھیلے احساسِ کمتری نے چرا لیا۔ جن کے جینز سے امنگوں کا ست نکال لیا گیا۔ جنھیں بہترین ماتحت کا خطاب دے دے کے ثانوی عظمت پر ہی قناعت کرنے کی عادت ڈال دی گئی۔ جن سے محض یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اچھے بچے بن کے رہیں۔ خود ساختہ اعلیٰ نسلوں اور نام نہاد نجیب الطرفینوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی میں عمریں اور نسلیں کھپا کے تعریف کے چند سکوں کے حصول کو ہی مکمل کامیابی جانیں اور یہ چند سکے اچھالنے والے کے پہلے سے زیادہ وفادار ثابت ہوں۔ مراکش کی جیت کا سب سے زیادہ جشن مراکش کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر منایا گیا۔ پورا افریقہ ناچ رہا ہے۔ عرب پنجوں پر کھڑے ہیں۔ پاکستانی خوش ہیں۔ کرد ہارن بجا رہے ہیں۔ ان سب کا اس جیت سے بظاہر کیا تعلق ؟

مگر محرومیاں ، ٹھونسا گیا احساسِ کمتری ، نوآبادیاتی ذلت ، کچھ ثابت کرنے کی امنگ اور ’’ میں بھی تو ہوں ‘‘ ثابت کرنے کی وجودی خواہش تو سانجھی ہے۔ یہی سانجھ پن تو خودساختہ بانجھ پن پر غالب آنے کی شعوری و لاشعوری جدوجہد کر رہا ہے اور یہی جدوجہد ’’ ہم نہیں تو ہمارا بھائی ہی صحیح ‘‘ کے مشترک احساس کو خوشی کی کٹھالی میں ڈھال کر چہرے تمتما رہی ہے۔ یہ ورلڈ کپ اٹھارہ دسمبر کو ختم ہو جائے گا۔ ٹیمیں اور شائقین گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ دنیا اپنے ڈھرے پر پھر واپس آ جائے گی۔ مگر شاید نہیں۔ ایسے ہر واقعہ کے بعد ڈھرا ایک سنٹی میٹر ضرور ادھر سے ادھر ہوتا ہے اور یوں تاریخ بھی کم ازکم ایک سنٹی میٹر اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس ٹورنامنٹ نے سب سے زیادہ حوصلہ فلسطینیوں کو دیا ہے۔حالانکہ فلسطینی یا اسرائیل کی ٹیم اس ٹورنامنٹ کا حصہ نہیں تھی۔ پھر بھی دونوں جانب کے شائقین قطر پہنچے۔ حکومتیں جتنی بھی منافق ہوں مگر عام آدمی کم ہی اس منافقت کا حصہ بنتا ہے۔ لہٰذا کئی کھلاڑیوں اور بہت سے مغربی شائقین نے فلسطینیوں کو درپیش مسائل پر کیمرے کے سامنے کھل کے بات کی۔

مراکش کے ایک کھلاڑی نے تو کوارٹر فائنل جیتنے کے بعد فلسطینی پرچم لپیٹ کر اسٹیڈیم میں دوڑ لگائی۔ متعدد اسرائیلی چینلز کی میڈیا ٹیمیں بھی میچوں کے کوریج کے لیے موجود ہیں۔ مگر تقریباً ہر عرب شائق نے ان سے بات کرنے سے انکار کر دیا اور بہت سے مغربی باشندوں نے کیمرے کے سامنے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے یہ سوال بھی کیا کہ تم لوگ فلسطینیوں کی جان کب چھوڑو گے ؟ اس اعتبار سے یہ ٹورنامنٹ فلسطینی کاز کو عام کرنے کے لیے بھی خاصا سودمند رہا۔ اسٹیڈیم کے اندر اور آس پاس نشہ آور مشروبات پر پابندی تھی۔ اس پر بعض مغربی ذرایع ابلاغ میں خاصی لے دے بھی ہوئی۔ مگر اس پابندی کا فائدہ یہ ہوا کہ ہارنے والی ٹیموں کے شائقین نشے کی آڑ میں غل غپاڑہ اور توڑ پھوڑ کرنے کی سہولت سے محروم ہو گئے۔ نعرے بازی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گروہ کرتا ضرور پایا گیا مگر لا اینڈ آرڈر کی مجموعی صورتِ حال قابو میں رہی اور اس کا اعتراف مغربی ذرایع ابلاغ کو بھی کرنا پڑا۔

بات شروع ہوئی تھی کہ مراکشی کوچ کے بقول خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔اور خواب ہی وہ ڈرائنگ بورڈ ہے جس پر تعبیر کی عمارت کا نقشہ بنتا ہے اور پھر احساسِ کمتری کو ایک جانب رکھ کے لگن اور محنت وہ دن دکھاتی ہے جسے ہم اپنی آسانی کے لیے معجزہ کہہ لیتے ہیں۔ خود ہماری تاریخ بھی ایسے ’’ معجزوں ’’ سے عبارت ہے۔ یہ ملک بھی پلیٹ میں نہیں ملا تھا۔ اس کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ لیکن پھر اس معجزے سے ذیلی معجزے پھوٹنے نہیں دیے گئے۔اجتماعی جوش و خروش سے پیدا ہونے والی انرجی ذاتی و طبقاتی مقاصد کے حصول کے لیے ٹھنڈی ہونے دی گئی۔ ورنہ سن چالیس اور پچاس کے عشرے کے اجتماعی جوش اور حوصلے کو مشترکہ ترقی کی ٹرین کا انجن بھی بنایا جا سکتا تھا یہ خواب سے جنم لینے والی لگن ہی تو تھی کہ ملک کی پیدائش کے صرف پندرہ برس بعد پی آئی اے کا شمار دنیا کی دس بہترین ایرلائنز میں ہونے لگا۔

کھیلوں کے میدان میں جب وسائل کے پر لگا کے خوابوں کو پرواز کے لیے کھلا آسمان مہیا ہوا تو دیکھ لیجیے پاکستان نے برس ہا برس ہاکی، اسکواش اور کرکٹ میں کیسے کیسے جھنڈے گاڑے اور بیک وقت کتنے تاج سر پے رکھے۔ یہ جو قطر سمیت مختلف خلیجی ریاستوں میں لاکھوں پاکستانی ریگستان میں عمارتیں اٹھا رہے ہیں۔ یہ بھی تو کچھ خواب لے کر ہی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ مغربی ممالک کی کلیدی کمپنیوں میں جو ہزاروں پاکستانی اچھے عہدوں پر پہنچے ان کے خوابوں کو اگر گورنننس کا ڈھانچہ مقامی سطح پر کشید کرنے کے قابل ہوتا تو کاہے کو اپنا گھر چھوڑتے۔ ہمارے پاس آج اس کے سوا فخر کرنے کو بچا کیا ہے کہ جنوبی کوریا اور تائیوان اور سنگاپور کی فی کس آمدنی انیس سو ساٹھ کے عشرے میں پاکستان سے کم تھی اور سو سے زائد ممالک میں پاکستانیوں کی ویزا فری انٹری تھی۔ اور ٹائم میگزین کے ٹائٹل پیج پر پاکستان کا نقشہ چھپا تھا جس میں یہ پیش گوئی تھی کہ یہ ملک اگلے بیس برس میں ایک ٹھوس ایشیائی معاشی طاقت ہو گی۔

مگر یہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ سے پہلے کی بات ہے۔ کیا ہوا پھر۔ وہی لوگ ہیں ، وہی زمین ہے۔ ہاں نیت میں کھوٹ آ گیا۔ اس قیمتی پلاٹ پر اپنا گھر بنانے کے بجائے پارکنگ لاٹ میں بدل دیا گیا اور اس پارکنگ لاٹ سے آنے والا کرایہ اوپر ہی اوپر بٹتا چلا گیا۔ یوں عام آدمی نے اپنا اعتبار سستے داموں بیچ ڈالا۔ اب نہ خواب گر ہیں نہ تعبیر ساز۔ البتہ ہر جانب خواب فروش گھوم رہے ہیں مگر ان کے پاس بھی بیچنے کو تیسرے درجے کے ہی خواب ہیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بات اگر واوڈا تک آ گئی ہے تو پھر صلح کر لیں

فوج کے مؤقف، خیالات و جذبات کی ترجمانی کے لیے شعبہِ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) سنہ 1949 سے موجود ہے۔ جس شعبے کو ماضی میں ایک کرنل یا بریگیڈیئر باآسانی سنبھال لیتا تھا اسے اب ایک تھری سٹار لیفٹیننٹ جنرل کی ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ آئی ایس پی آر اب ایک ذیلی یونٹ کی سطح سے اٹھ کر ایک علیحدہ کور کے برابر ہے۔ پہلے پہل ایک پریس ریلیز سے کام چل جاتا تھا اور ڈائریکٹر صاحب کو پریس بریفنگ دینے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اب آئی ایس پی آر کو بیانیے اور متبادل حقائق کی تیز رفتار مقابلے باز دنیا میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلانے کے لیے ہفتہ وار یا ماہوار یا اچانک بریفنگز دینا پڑتی ہیں۔ اپنے مؤقف، نظریے اور بیانیے کو عمومی سطح پر زود ہضم بنانے کے لیے ویڈیوز، ٹی وی ڈراموں، فلموں، خصوصی اخباری ایڈیشنز اور اشتہارات میں سرمایہ کاری بھی کرنا پڑتی ہے۔ سوشل میڈیا سے سینگ پھنسانے کے لیے بھی افرادی قوت بٹھانا پڑتی ہے اور مسلسل ہائبرڈ جنگ المعروف ففتھ جنریشن وار میں داخلی و خارجی اور اندرونی حملہ آوروں سے ایک قدم آگے رہنے کے لیے تمام جدید مواصلاتی و دماغی حربے بروِئے کار لانے پڑتے ہیں۔

ایسے فعال اور خود کفیل ادارے کی موجودگی میں جانے کس نے صلاح دی کہ ملک کو اس وقت جو بحران درپیش ہے اس میں مسلح افواج اور ان سے جڑے حساس اداروں کی ترجمانی کے لیے محض آئی ایس پی آر کا ڈھانچہ کافی نہیں بلکہ ایک غیر معمولی پریس بریفنگ میں آئی ایس آئی کے سربراہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس انھونی میڈیائی دوبدو سے فوج کا مؤقف کتنا آگے بڑھا، کتنے اضافی لوگ سیاست میں مکمل عدم مداخلت کی بابت تازہ عسکری بیانیے کے قائل ہوئے، عام اور خاص کے بیچ شش و پنج کے بادل کس قدر چھٹ سکے، سیاسی درجہِ حرارت کم ہوا یا اور بڑھ گیا؟ اس بارے میں جتنے منھ اتنی باتیں۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ آئی ایس آئی کے اردگرد پراسراریت کا وہ ہالا جو اب تک سیاستدانوں کو کھلم کھلا نام درازی سے روکتا تھا، اس میں تاکا جھانکی شروع ہو گئی ہے اور طرح طرح کے حلقوں میں جو باتیں نکل رہی ہیں ان میں محکمہ زراعت، شمالی علاقہ جات، فرشتے، بھائی لوگ، اوپر والے جیسے استعارے برتنے کا تکلف بھی کنارے لگ گیا ہے۔

اس ’منھ دکھائی‘ کے بعد سے دو طرح کے ردِ عمل دیکھنے کو مل رہے ہیں: اول چہار سمت حیرت یا پھر بقول فہمیدہ ریاض ۔۔۔
تم بالکل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی

وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائی

آخر پہنچی دوار توہارے
ارے بدھائی بہت بدھائی
گزری جمعرات سے اب تک میں مسلسل گوگل سرچ کر رہا ہوں کہ امریکی سی آئی اے، روسی جی آر یو، برطانوی ایم آئی سکس، انڈین را، اسرائیلی موساد، جرمن بی این ڈی، چینی ایم ایس ایس یا خود آئی ایس آئی کے کسی سابق چیف سپائی نے کبھی اس طرح صحافیوں کے دوبدو سوالات جھیلتے ہوئے ٹھنڈے ٹھنڈے خندہ پیشانی سے جوابات دیے ہوں مگر میرا گوگل اس چھان پھٹک میں بہت سست نکلا۔

اگر کوئی جنگ چھڑی ہوتی یا دشمن ملک کا جاسوسِ اعظم میڈیا سے براہ راست مخاطب ہوتا تب تو ہمارے چیف کے پاس بھی نقاب کشائی اور زباں بندی کے خاتمے کا ٹھوس جواز ہوتا۔ ورنہ تو فوج یا وزارتِ دفاع یا حکومتِ وقت کا ترجمان ہر طرح کے حالات میں وضاحت کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی سرپرائز دینا مقصود تھا اور اس سرپرائز کے ذریعے کچھ مخصوص اہداف حاصل کرنا تھے یا کسی خوش فہم حریف کو کوئی پیغام پہنچانے کی نیت تھی تو ممکن ہے ایسا ہی ہوا ہو مگر فی الحال مجھ جیسے لال بھجکڑوں کی سمجھ میں نہ آ رہا ہو۔ بظاہر جو سامنے کی تصویر ابھر رہی ہے وہ تو یوں ہے کہ داخلہ و خارجہ سلامتی کے مسائل سے نمٹنے کے ذمہ دار ایک حساس ادارے نے ایک سیاسی جماعت یا لیڈر سے براہِ راست اسی کے میدان میں جا کر ہتھ پنجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر یہ لیڈر ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے اتنا ہی خطرناک ہے تو پھر اس پر یا اس کی جماعت پر پابندی لگانے کا بھی ایک قانونی راستہ اور طریقہ موجود ہے جسے منفی و مثبت نتائج سے قطع نظر ماضی میں بارہا استعمال کیا جا چکا ہے۔

اگر اس رونمائی کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کس قدر پر اعتماد ہے تو پرانے بزرگ کہتے تھے کہ طاقتور ہمیشہ آواز دھیمی رکھتا ہے اور براہ راست منھ دکھائی یا منھ دینے سے کہیں مؤثر اس کے اردگرد تنا غیر مرئی ہالہ ہوتا ہے تاکہ حریف اندازے لگانے میں ہی خرچ ہو جائے۔ جب تک شہنشاہ کا چہرہ کسی نے نہ دیکھا تھا تو سب انھیں سورج دیوتا کا اوتار سمجھتے تھے۔ جیسے ہی 15 اگست 1945 کو شاہ ہیروہیٹو کی آواز پہلی بار براڈ کاسٹ ہوئی، وہ اوتار کے منبر سے فانی کے پائیدان پر آ گئے۔ اب جبکہ ایک ریاستی ادارے اور ایک سیاسی جماعت کے مابین پنگ پانگ شروع ہو چکا ہے تو کیا ہم توقع رکھیں کہ عمران خان کی ہر زاتیاتی پریس ٹاک کا جواب الجواب ڈی جی آئی خود دیں گے۔ تو کیا آپ فیلڈنگ اور پیڈنگ کے روایتی تجربے سے ہٹ کے بیٹنگ اور بولنگ بھی کر لیں گے؟ یاد آیا کہ ایک رات پہلے بوٹ فیم فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کی کوریج بالکل ایسے ہی کی گئی جیسے اگلی صبح پی ٹی وی سمیت ہر چینل نے ڈی جی آئی کی مشترکہ پریس کانفرنس براہِ راست نشر کی۔ ’جے گل ہن واوڈا دے لیول تک پہنچ گئی ہے تے فیر بھا ہوراں نال وی صلح ہی کر لیو۔‘

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

یہ والا انصاف بھی نہ ملا تو؟

قتل تو خیر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ البتہ شاہ رخ جتوئی چونکہ ایک امیر کبیر اور بااثر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جبکہ مقتول شاہ زیب ایک حاضر سروس ڈی ایس پی کا بیٹا تھا۔ لہذا ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے طفیل یہ مقدمہ ابتدا ہی سے ہائی پروفائل بن گیا۔ اور پھر ملزمان کو قواعد و ضوابط کے برخلاف جیل کے اندر اور باہر رہائش و علاج معالجے کی، جو خصوصی سہولتیں فراہم کی گئیں، ان کے سبب بارہ برس کے دوران قتل سے سزائے موت اور سزائے موت کے عمر قید میں بدلنے اور پھر حتمی طور پر بری ہونے تک یہ مقدمہ کبھی بھی میڈیا اور عوامی یادداشت سے محو نہیں ہو سکا۔ عدالتِ عظمی کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر یہ فیصلہ نظامِ انصاف کے جسد پر مزید سوالیہ نیل چھوڑ گیا ہے۔ اتنے سوال کہ تفصیلی فیصلے کا انتظار کیے بغیر ہی ریاست کے نمائندہ اٹارنی جنرل نے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی دائر کر دی۔ یقیناً ملزموں کی بریت کا فیصلہ عدالت کے روبرو پیش کردہ قانونی حقائق کی روشنی میں ہی ہوا ہو گا۔ مگر بقول شیسکپئیر، ”ریاستِ ڈنمارک میں کچھ تو ہے جو گل سڑ چکا ہے‘‘ (ہیملٹ)۔

کہتے ہیں انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ عملاً اس جملے کا پہلا نصف حصہ ہی اس وقت ریاستِ پاکستان پر منطبق ہے۔ مجھ جیسے لاکھوں شہریوں کا جی چاہتا ہے کہ اپنے نظامِ انصاف پر اندھا یقین کر سکیں مگر جب یہ لگنے لگے کہ انصاف اندھا نہیں بھینگا ہے تو اپنے وجود پر بھی اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔ ایسا ملک، جہاں نہ اینگلو سیکسن قانون خالص ہے، نہ ہی شرعی قوانین اپنی روح کے ساتھ نافذ ہیں اور نہ ہی غیر رسمی جرگہ نظام اکسیویں صدی کا ساتھ دے پا رہا ہے۔ وہاں لا اینڈ آرڈر دراصل لیگل انارکی کا مہذب نام محسوس ہوتا ہے۔ اب تو فن ِ قیافہ اس معراج تک پہنچ چکا ہے کہ وارادت کی خبر میں کرداروں کے نام اور سماجی حیثیت دیکھ کے ہی دل گواہی دے دیتا ہے کہ کس مجرم کو زیادہ سے زیادہ کیا سزا ملے گی اور کون سا خونی کردار تمام تر روشن ثبوتوں کے باوجود آنکھوں میں دھول جھونکے بغیر صاف صاف بچ نکلے گا۔

بھلا ایسا کتنے ملکوں میں ہوتا ہو گا کہ دو بھائیوں ( غلام سرور اور غلام قادر ) کی سزائے موت کی توثیق ہائی کورٹ کی سطح پر ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں ان کی جانب سے نظرِ ثانی کی اپیل زیرِ سماعت ہو اور سپریم کورٹ، جب ان ملزموں کو بے گناہ قرار دے دے، تب اس کے علم میں آئے کہ دونوں کو تو چند ماہ پہلے پھانسی دی بھی جا چکی ہے۔ ایسا کہاں کہاں ہوتا ہے کہ ایک چیف جسٹس نظریہِ ضرورت کے تحت اقتدار پر غاصب کا قبضہ قانونی قرار دے دے اور لگ بھگ ساٹھ برس بعد ایک اور چیف جسٹس نظریہِ ضرورت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ہمیشہ کے لیے دفن کر دینے کا اعلان کر دے۔ یہ بھلا کس کس ریاست میں ہوتا ہے کہ ایک غریب مقتول کے ورثا ایک طاقت ور قاتل کو ”اللہ کی رضا‘‘ کی خاطر معاف کر دیں۔ تاہم کوئی ایسی مثال ڈھونڈھے سے بھی نہ ملے کہ کسی طاقتور مقتول کے ورثا نے کسی مفلوک الحال قاتل کو بھی کبھی ”اللہ کی رضا‘‘ کے لیے معاف کر دیا ہو۔

شاید یہ بھی اسی دنیا میں کہیں نہ کہیں تو ہوتا ہی ہو گا کہ ایک معزول وزیرِ اعظم ( بھٹو ) کو قانون کے مطابق مقدمہ چلا کے پھانسی دے دی جائے مگر پھانسی کے اس فیصلے کو قانونی نظائر کے ریکارڈ میں شامل نہ کیا جائے اور پھر اسی عدالت کا ایک جج وفات سے کچھ عرصہ پہلے یہ اعتراف بھی کر لے کہ ہم پر اس فیصلے کے لیے بہت زیادہ دباؤ تھا۔ اور پھر کوئی بھی آنے والی حکومت تاریخی ریکارڈ کی درستی کے لیے اس مقدمے کے ری ٹرائل کی درخواست دائر کرنے سے بھی ہچکچاتی رہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اعلیٰ عدالت کا کوئی جج آئین کی ایک شق کی تشریح کے فیصلے میں یہ لکھ دے کہ پارٹی صدر کے فیصلے کی پابندی اس پارٹی کے ہر رکنِ اسمبلی پر لازم ہے بصورتِ دیگر وہ اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور پھر وہی جج کچھ عرصے بعد بطور چیف جسٹس اپنے ہی سابقہ فیصلے کو ایک غلطی قرار دیتے ہوئے یہ کہے کہ دراصل پارٹی صدر کے بجائے ارکانِ اسمبلی پارلیمانی لیڈر کی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں۔

اور ساتھ ہی یہ رولنگ بھی دے کہ ایک جج سے اگر پہلے فیصلے میں غلطی ہو جائے تو اسی نوعیت کے کسی اور مقدمے میں وہ اپنی سابقہ غلطی کو درست کرنے کا مجاز ہے۔ یہ روزمرہ گفتگو کتنے ملکوں کی زیریں عدالتوں کی غلام گردشوں میں ہوتی ہو گی کہ مہنگا وکیل کرنے کے بجائے ”مناسب جج‘‘ مل جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس وقت پاکستان کی تمام عدالتوں میں بیس لاکھ سے زائد مقدمات سماعت یا فیصلوں کے منتظر ہیں مگر سیاسی نوعیت کے مقدمات ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا زیادہ تر وقت اور شہرت لے اڑتے ہیں۔ اس بحران سے نپٹنے کے لیے یہ تجویز بھی بارہا پیش کی گئی کہ آئینی نوعیت کے مقدمات نمٹانے کے لیے علیحدہ اعلی آئینی عدالت قائم کر دی جائے تاکہ لاکھوں فوجداری مقدمات کی بلا رکاوٹ سماعت ہو سکے۔ مگر یہاں تو روایتی عدالتوں کے ججوں کی آسامیاں کبھی پوری طرح نہیں بھری جا سکیں چے جائیکہ ایک اور اعلی عدالت قائم ہو سکے۔ چنانچہ اب عوامی سطح پر یہ کہہ کے صبر کر لیا جاتا ہے کہ جیسا کیسا ہی انصاف سہی، مل تو رہا ہے، یہ بھی نہ ملا تو کیا کر لو گے؟

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں (اقبال)

وسعت اللہ خان

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

خدا ترسی بھی سائنس ہے

سنہ 2005 کا زلزلہ، سنہ 2010 کا سیلاب اور سنہ 2022 کی آبی قیامت اور اس دوران دہشت گردی سے اجڑے لاکھوں لوگوں سمیت ہم کئی بڑے قومی دھچکوں سے گزر چکے ہیں اور ابھی تو محض ابتدا ہے۔ ایسے آسمانی و زمینی المیات سے کیسے نپٹا جائے یا ان سے پہنچنے والے نقصانات کو کس حد تک کم سے کم کیا جا سکے؟ ان ادق موضوعات پر بحث اور ناقابلِ عمل حکمت عملی یکے بعد دیگرے وضع کرنے کے لیے بہت سے دماغ پہلے کی طرح آج بھی مصروف ہیں۔ انھیں تاحیات مصروف رہنے دیجیے۔ اس وقت میری توجہ کا مرکز وہ خدا ترسی ہے جو کسی بھی سانحے کا سن کر ایک بے غرض شہری کے خون میں وقتی اچھال پیدا کر دیتی ہے اور وہ مدد کے خیال سے جو شے ہاتھ لگے اسے اٹھا کر مصیبت زدگان یا امدادی اداروں کی جانب دوڑ پڑتا ہے۔ اور جب اسے لگتا ہے کہ اپنا فرض پورا کر کے ضمیر مطمئن کر لیا ہے تو پھر سے روزمرہ کاموں میں کھو جاتا ہے۔ چونکہ مخیر و فلاحی سرکاری و غیر سرکاری ادارے بھی انہی جیسے افراد پر مشتمل ہیں لہٰذا ان کی سوچ بھی دماغ سے زیادہ دل کے تابع ہو جاتی ہے۔ یوں ان کی توانائی و وسائل ضرورت مندوں کے کام کم آنے کے بجائے غیر ضرورت مندوں کے ہاتھوں ضائع ہوتے چلے جاتے ہیں۔

مثلاً موجودہ آبی قیامت کا شکار ہونے والے لاکھوں انسانوں میں نوزائیدہ بچوں سے بوڑھوں تک ہر عمر کے انسان شامل ہیں اور عمر کے اعتبار سے ان کی ضروریات بھی مختلف ہیں۔ مگر فلاحی حکمتِ عملی ان ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے بجائے ہر انسان دوست فرد، تنظیم اور ادارے کی سوچ ایک ہی دائرے میں گھوم رہی ہے۔ کھانا، ٹینٹ، کھانا ٹینٹ، کھانا ٹینٹ ۔۔۔۔۔۔ کھانے سے مراد صرف نمکین چاول ہیں اور ٹینٹ سے مراد کسی بھی سائز یا کوالٹی کا ٹینٹ جو بارش اور دھوپ سے مکمل یا جزوی بچا سکے۔ کوئی بھی انسان ایک مہینے تک دونوں وقت نمکین چاول کھا کے بنا صاف پانی پئے کتنی دیر تک اپنی جسمانی مدافعت بحال رکھ سکتا ہے۔ اور ٹینٹ ملنے کے باوجود مچھروں اور کیڑے مکوڑوں سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ کتنی فلاحی تنظیمیں اور سرکاری خیر کے ادارے بڑھ چڑھ کے امداد کی اپیل کرتے وقت دیگر لازمی ضروریات کو بھی اتنا ہی اہم سمجھتے ہیں جتنا کھانے اور ٹینٹ کی اپیل کو۔ حالانکہ یہ سب سوچنا اور سمجھنا راکٹ سائنس نہیں۔ پھر بھی ایک جامع اپیل کا نمونہ پیشِ خدمت ہے۔ اس میں ترمیم و اضافے کی گنجائش ہمیشہ رہے گی۔

‘اے صاحبانِ استطاعت آپ کے امدادی جذبے کو سلام۔ مگر ہمیں ایسے افراد، کمپنیوں اور اداروں کی مدد درکار ہے جو پانچ برس تک کی عمر کے بچوں کے لیے دودھ اور دلیے کے پیکٹ ارسال کر سکیں۔ ہمیں بوتل بند صاف پانی کی بڑی مقدار چاہیے۔ ایسی ٹکنیکل مدد بھی درکار ہے جو آلودہ پانی کو فوری طور پر انسانی استعمال کے قابل بنا سکے۔ ہمیں پورٹیبل بیت الخلا اور غسل خانے درکار ہیں جنھیں آسانی سے منتقل اور نصب کیا جا سکے۔ ہمیں ان ٹرانسپورٹروں کا دستِ تعاون چاہیے جن کے پاس اگر کم ازکم دس فور وہیلر گاڑیاں، ٹرک، ڈمپرز یا وینز ہیں تو ان میں سے ایک گاڑی اگلے پندرہ دن یا مہینے بھر کے لیے عملے سمیت کسی بھی قابلِ بھروسہ تنظیم یا ادارے کے حوالے کر دیں۔  ہمیں بڑی تعداد میں جنرل فزیشنز، گائنی ماہرین، ہیلتھ ورکرز اور ویکسینیٹرز کی ضرورت ہے جو ہفتہ، پندرہ دن یا ایک ماہ کے لیے اپنی خدمات مصیبت زدگان کے لیے وقف کر سکیں۔ ہمیں ایسے اصحاب اور اداروں کا تعاون درکار ہے جو حسبِ استطاعت سینٹری پیڈز کی کھیپ خرید کر یا تیار کروا کے عطیہ کر سکیں۔

ہمیں ہزاروں مچھر دانیاں، مچھر مار ادویات اور لوشن درکار ہیں جو کھلے آسمان تلے ہزاروں لوگوں کو ملیریا، ڈینگی اور دیگر کیڑے مکوڑوں سے لاحق خطرات سے بچا سکیں۔ ہمیں ہر متاثرہ علاقے میں ایمبولینسوں کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں ہزاروں کی تعداد میں ایسے نوجوان درکار ہیں جو فی الوقت بے روزگار مگر فلاحی جذبے سے سرشار ہیں تاکہ وہ روزمرہ کی امدادی سرگرمیوں میں حسبِ صلاحیت کسی نہ کسی ادارے یا تنظیم کا ہاتھ بٹا سکیں۔ ہمیں ایسے اداروں اور افراد کا دستِ تعاون درکار ہے جو لاکھوں جانوروں کے لیے خشک چارے، ویکسینز اور ادویات کی فراہمی ممکن بنا سکیں۔ اگر یہ جانور بھی نہ بچے تو ہزاروں خانماں برباد کنبے معاشی طور پر زندہ درگور ہو سکتے ہیں۔ ہر شہری جو مدد کے جذبے سے سرشار ہے اسے فلاحی اداروں اور سرکار کی جانب سے بروقت پیشہ ورانہ رہنمائی درکار ہے۔ تاکہ امداد صرف تنبو، خشک و پکے ہوئے راشن یا کپڑوں کی روایتی اپیل تک ہی محدود ہو کر نہ رہ جائے بلکہ ہر بنیادی انسانی ضرورت کا احاطہ کر سکے۔  فلاحی کام صرف جذبے کا نام نہیں بلکہ اس جذبے کو سائنسی انداز میں مربوط و مؤثر کر کے آخری ضرورت مند تک پہنچنے کا نام ہے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

پاکستانی پاسپورٹ ٹکے سیر کیسے ہوا؟

جدید پاسپورٹ کی عمر محض سو برس ہے۔ جب پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں جنگ سے متاثر لاکھوں لوگوں کی نقلِ مکانی اور آبادکاری کا مسئلہ درپیش ہوا تو لیگ آف نیشنز کے انیس سو بیس کے ایک خصوصی اجلاس میں رکن ممالک نے اس مسئلے سے بخوبی نپٹنے کے لیے راہداری کے اجازت نامے سے متعلق طرح طرح کی تجاویز پیش کیں۔ طے پایا کہ ایک ایسی دستاویز ریاستی سطح پر متعارف کروائی جائے جسے لیگ کے تمام رکن ممالک باہم تسلیم کریں۔ اس سفری دستاویز پر شہری کی تصویر اور بنیادی معلومات درج ہوں اور اس میں اتنے صفحات ہوں کہ آمد ورفت کے ریکارڈ کی خاطر مہر لگانے یا تحریری نوٹ درج کرنے کی گنجائش ہو۔ یوں امریکا انیس سو چوبیس کے امیگریشن ایکٹ کے تحت پہلا ملک بنا جس نے جدید پاسپورٹ اپنایا۔ اس پہل کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کسی بھی بحران کے سبب یا بہتر زندگی کی تلاش میں سب سے زیادہ پناہ گزین امریکا کا رخ کرتے تھے۔

بھانت بھانت کے ان لوگوں کے بارے میں اندازہ نہیں تھا کہ کتنے جرائم پیشہ ہیں اور کتنے قانون پسند۔ چنانچہ نہ صرف امریکا نے اپنے شہریوں کے لیے بلکہ غیرملکیوں کے لیے بھی ایسی دستاویز کی شرط عائد کر دی جو ان کی ریاست نے جاری کی ہو۔ جو بھی یہ دستاویز دکھاتا اس پر نیویارک اور سان فرانسکو سمیت کسی بھی امیگریشن کے لیے نامزد بندرگاہ یا سرحدی راہ گزر پر پہنچتے ہی آمد کا ٹھپہ لگا دیا جاتا۔ ابتدا میں آنے والوں کے قیام کی مدت غیر معینہ تھی۔ رفتہ رفتہ ویزہ جاری ہونے لگا۔ اس سے پہلے ہزاروں برس سے انسان سرحدوں کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کے عادی تھے۔ سیاحت و تفریح کے لیے بیرونِ ملک جانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ فاصلے طویل اور انجان تھے۔ اقوام ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ تر سنی سنائی معلومات رکھتی تھیں۔ تاجر طبقہ ، سرکاری عہدیدار، ظلم و ستم کے مارے یا پھر مفرور لوگ ہی ایک ملک سے دوسرے ملک آتے جاتے تھے۔ان کے کوائف متعلقہ کوتوال یا ناظم کے پاس درج ہو جاتے اور یوں انھیں قیام اور پناہ کا حق مل جاتا۔

پاسپورٹ دراصل بیسویں صدی میں انسان کے انسان پر شکوک و شبہات اور بین الاقوامی بدظنی کی دستاویزی پیداوار ہے۔ مگر پاسپورٹ پر سفر چند عشروں پہلے تک بہت آسان تھا۔ ویزے کے لیے اتنے زیادہ دستاویزی ثبوت مہیا نہیں کرنے پڑتے تھے۔ زبان پر زیادہ اعتبار تھا۔ اور ویزہ پیشگی لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ پاکستانی پاسپورٹ پر انیس سو پینسٹھ کی جنگ تک سوائے سوویت یونین اور مشرقی یورپ کی کیمونسٹ ریاستوں کے بھارت سمیت ہر ملک کے لیے پیشگی ویزے کے بغیر سفر کیا جا سکتا تھا۔ پینسٹھ کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت نے اپنے اپنے شہریوں کے لیے پیشگی ویزہ حاصل کرنے کی شرط عائد کی اور وقت کے ساتھ ساتھ شرائط میں سختی بڑھتی چلی گئی۔ انیس سو ستر میں امریکا نے پاکستانی پاسپورٹ پر آن ارائیول ویزہ ختم کر کے پیشگی ویزہ حاصل کرنے کی شرط عائد کر دی۔

انیس سو بہتر میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے عام آدمی کے لیے پاسپورٹ کے حصول کا طریقِ کار انتہائی سہل بنا دیا۔ اس کے سبب خلیجی ممالک میں روزگار کے حصول کے لیے عام پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد سفر کرنے کے قابل ہوئی۔بھٹو سے پہلے عام شہری کو بین الاقوامی پاسپورٹ اتنی آسانی سے جاری نہیں ہوتا تھا۔ اسے صرف حج پاسپورٹ سہل انداز میں جاری ہوتا تھا۔ انیس سو چوہتر میں پاکستانی پاسپورٹ پر ایک اضافی مہر لگنا شروع ہوئی کہ یہ دستاویز سوائے اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے ہر ملک کے سفر کے لیے کارآمد ہے۔ ( آج اسرائیل واحد ملک ہے جہاں پاکستانی پاسپورٹ پر جانے کی اجازت نہیں )۔ انیس سو اناسی میں افغان خانہ جنگی کے دوران مغربی ممالک اور ضیا حکومت میں ایک طرف یاریاں بڑھیں تو دوسری جانب انیس سو تراسی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کے لیے آن ارائیول ویزے کی سہولت ختم کر دی۔ اور پھر رفتہ رفتہ یہ سہولت برادر خلیجی ممالک نے بھی واپس لے لی۔

نائن الیون کے بعد یہ بے توقیری مزید بڑھی۔ جیسے جیسے بین الاقوامی سطح پر دھشت گردی میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے یا انسانی اسمگلنگ و منشیات کی گذرگاہ کا تاثر جڑ پکڑتا گیا۔ پاکستانی پاسپورٹ کا اثر بھی سکڑتا چلا گیا۔ وہ پاسپورٹ جو چالیس برس پہلے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے پاسپورٹ کا ہم پلہ تھا۔آج یہ حال ہے کہ اس پر ایک سو ننانوے ممالک میں سے صرف بتیس ممالک کے لیے بغیر پیشگی ویزے کے سفر ممکن ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش کے پاسپورٹ پر اکتالیس اور بھارت کے پاسپورٹ پر اکسٹھ ممالک کا بنا پیشگی ویزہ سفر ممکن ہے۔ پاکستان سے نیچے صرف شام، عراق اور افغانستان ہیں۔ جن کے شہری علی الترتیب تیس ، انتیس اور ستائیس ممالک میں بنا پیشگی ویزے کے داخل ہو سکتے ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ کی فہرست میں ہم نیچے سے پانچویں تھے مگر ایک اور ملک نے پیشگی ویزے کی سہولت واپس لے لی اور اب ہم نیچے سے چوتھے نمبر پر ہیں۔ اور یہ رینکنگ کم و بیش دو ہزار سولہ کے بعد سے مسلسل برقرار ہے۔

پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز اس وقت اٹھائیس ممالک کے پیشگی ای ویزہ کے لیے آن لائن اپلائی کر سکتے ہیں (اینٹی گوا اینڈ باربادوس ، سورینام، بولیویا، سینٹ کٹس اینڈ نیوس ، ساؤتھ تومپ اینڈ پرنسپی، ایتھوپیا ، کانگو ، ڈی آر سی ، آئیوری کوسٹ ، گنی ، جنوبی افریقہ ، زمبیا ، زمبابوے ، بینن ، کینیا ، مڈغاسگر ، روانڈا، لیسوتھو ، ملاوی ، یوگنڈا ، کرغزستان ، تاجکستان ، آزر بائیجان ، ملیشیا ، میانمار ، کمبوڈیا ، یواے ای ، بحرین )۔ بیس ممالک میں ای ویزے کے ساتھ ساتھ ویزہ آن آرائیول کی سہولت ہے ( بینن ، کینیا ، مڈغاسگر ، روانڈا ، یوگنڈا ، پالاؤ ، برونائی ، برونڈی ، کیپ ویردی ، کوموروز ، گنی بساؤ ، مالدیپ ، ماریطانیہ ، نیپال ، سیشلز ، سیرالیون ، صومالیہ ، ٹوگو ، توالو ، بولیویا )۔ جب کہ دس ممالک میں پاکستانی ویزا فری داخل ہو سکتے ہیں ( قطر ، بیلاروس ، ڈومنیکا ، ڈومینیکن ری پبلک، ہیٹی ، مائکرو نیشیا ، سینٹ ونسنٹ اینڈ دی گریناڈائز ، سمووا ، ٹرینڈاڈ اینڈ ٹوباگو ، ونوتو)۔

دل پے ہاتھ رکھ کے بتائیے گا کہ مذکورہ ویزہ فری دس ممالک میں سوائے قطر کے کتنے پاکستانی باقی نو مقامات کی سیر ، روزگار یا تعلیم کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں پینسٹھ ممالک کے باشندے ویزا آن آرائیول کی سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ اپنے باشندوں کے لیے ان پینسٹھ ممالک سے بھی ویزا آن ارائیول کی سہولت نہ منوا سکے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ورنہ تو تو گیا

تاریخی اعتبار سے روسی نفسیات روسی دفاع کا سب سے موثر ہتھیار رہی ہے۔ یقین نہ آئے تو نپولین (اٹھارہ سو پانچ) اور ہٹلر (انیس سو چالیس) سے پوچھ لیں جن کی فوجیں موسمِ گرما کے تین ماہ میں ماسکو فتح کرنے کا خواب لے کر ہزاروں میل پر پھیلے روسی میدان میں بگٹٹ دوڑنے لگیں اور روسی مسلسل پیچھے ہٹتے چلے گئے یا حملہ آوروں کی نگاہ سے غائب ہو گئے۔ حملہ آور اپنی یقینی فتح کے نشے میں چور مگر مسلسل پیش قدمی کرتے کرتے تھکتے چلے گئے۔ فوجی سپلائی لائن لمبی ہوتی چلی گئی۔ مگر اس سپلائی لائن پر اکادکا روسی چھاپہ مار حملے حملہ آور کا بال بیکا نہ کر سکے۔ حملہ آوروں کو اور یقین ہوتا چلا گیا کہ کیل کانٹے سے لیس جارح فوج کو سامنے آ کر روکنے کی نہ بچارے روسیوں میں سکت ہے اور نہ ہی وسائل۔ موسم گرما کے آغاز میں اپنے اپنے ممالک سے چلنے والے یہ حملہ آور خود ایجاد دھوکے کے جال میں پھنستے چلے گئے اور پھر آ گیا ستمبر جب روسی میدانوں میں ٹھنڈی ہوائیں چلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اور نومبر دسمبر آتے آتے آتے یہ ہوائیں منفی دس، پھر بیس، پھر تیس، پھر چالیس سے اوپر کی بلاخیز بادِ یخ میں منقلب ہوتی چلی جاتی ہیں۔ موسم کی ستم خیزی کے سبب جارح پہلے سست پڑا اور پھر ٹھہر گیا۔ اور پھر ’’جنرل ونٹر‘‘ کی قیادت میں روسیوں نے لومڑی کا شکار شروع کر دیا۔ دشمن آگے جائے یا پیچھے، دائیں جائے کہ بائیں۔ ہر جانب عدو کی روسیاہی کا منتظر روس ہی روس تھا۔

اس حکمتِ عملی نے نپولین کی سطوت کو توڑ پھوڑ کے برابر کر دیا اور ہٹلر کا ناقابلِ تسخیر بت اڑا کے رکھ دیا اور پھر روایتی روسی عسکری دھڑم دھکیل شروع ہوئی اور دشمن الٹے پاؤں ہانپتا چلا گیا۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟؟ قیمت خیز سردی کا عادی ہونا اور لق و دق اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے اندر دفاعی جنگ لڑنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر وہ کون سا جذبہ تھا جس نے نپولین سے لڑنے والی زار فسطائیت اور ہٹلر سے نبرد آزما اسٹالنی آمریت کے ہوتے ایک عام روسی کو ہر طرح سے ریاست کا ساتھ دینے کے لیے ایک قطار میں کھڑا کر دیا۔ وہ جذبہ تھا مدر رشیا کا تصور۔ جب بات ماں کی حرمت پر آجائے تو پھر ایک ہی ترجیح ہر ناکس و کس کو متحد کر دیتی ہے کہ اس کا تحفظ کیسے کیا جائے۔ آپس کی لڑائی تو ہم بعد میں بھی لڑتے رہیں گے۔ چنانچہ اسی جذبے کے سبب عسکری اعتبار سے کمزور روس جوشِ دفاع میں جارح کو ہزاروں کلو میٹر دھکیلتے دھکیلتے بہت دور تک گھسیٹتا ہوا لے گیا۔ جب سوویت یونین نے دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرقی یورپ پر قبضہ کیا اور انیس سو اناسی میں افغانستان پر فوج کشی کی یا پھر فروری دو ہزار بائیس میں یوکرین پر حملہ کیا تو ان تینوں مثالوں میں مدر رشیا کے تصور پر ایک سامراجی سلطنت کاری کا تصور غالب نظر آتا ہے۔

لہٰذا مشرقی یورپ سے روس کو پچپن برس بعد اور افغانستان پر نو برس کے قبضے کے بعد پسپا ہونا پڑا۔ جب کہ یوکرین کے معاملے میں بھی عام روسی منقسم ہے اور اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ہم نسل یوکرینیوں سے آخر مدر رشیا کو کون سا ایسا فوری خطرہ تھا جس کے سبب وہاں فوج کشی کرنا پڑی۔ چنانچہ پانچ گنا بڑی طاقت ہونے اور سو دن سے زائد گذرنے کے بعد بھی روسی اسٹیبلشمنٹ حسب ِ خواہش اپنے عسکری اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے اور اس کی ایک بنیادی وجہ اس جنگ کا نظریاتی کھوکھلا پن ہے۔ دوسری مثال چین کی ہے۔ وہاں صدیوں سے مسلط شہنشاہیت کا بستر انیس سو بارہ میں گول ہو گیا اور ڈاکٹر سن یات سین کی قیادت میں قوم پرست کومنتانگ حکومت قائم ہو گئی۔ انیس سو اکیس میں چینی کیمونسٹ پارٹی قائم ہوئی۔ یوں شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد دو نئے نظریاتی دھڑے وجود میں آئے۔ انیس سو اکتیس میں جاپانی امپیریل سامراج نے شمالی چین کے بڑے علاقے مانچوریا پر لگ بھگ یکطرفہ لڑائی کے نتیجے میں قبضہ کر لیا۔

چینی متحد نہیں تھے اس لیے جاپان کی ابھرتی عسکری و صنعتی طاقت کے لیے چیلنج بھی نہیں تھے۔ چنانچہ چھ برس بعد انیس سو سینتیس میں جاپانی سامراج نے موقع غنیمت جان کر چینی دارالحکومت نانجنگ پر حملہ کر دیا۔ ہزاروں عام شہریوں کا بہیمانہ قتل عام ہوا جو لگ بھی چھ ہفتے جاری رہا۔ اس واقعہ نے چین کو جڑوں تک ہلا دیا۔ اس واردات کی کسک آج بھی چین کی قومی نفسیات میں زندہ ہے۔ ایک دوسرے کے نظریاتی دشمنوں یعنی چیانگ کائی شیک کی کومنتانگ قوم پرست حکومت اور مسلح جدوجہد کے ذریعے کسان انقلاب کی داعی کیمونسٹ پارٹی نے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی و عسکری تعاون کا فیصلہ کیا۔ یعنی پہلے چین دشمن جارح جاپانیوں سے نمٹ لیں اس کے بعد چین کے مستقبل کی لڑائی کے لیے عمر پڑی ہے۔ اس اتحاد کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے اور جاپانیوں کو چین چھوڑنا پڑا۔ بعد ازاں قوم پرست اور کیمونسٹ پھر آپس میں بھڑ گئے اور بالاخر کیمونسٹوں نے قوم پرستوں کو چین سے بے دخل کر کے تائیوان کے جزیرے تک محدود کر دیا۔

اگر بین الاقوامی سطح پر دیکھیں تو ہمیں دوسری عالمی جنگ کے دوران کٹر سرمایہ دار اور کیمونزم کے جانی دشمن برطانیہ اور امریکا اپنے سب سے بڑے نظریاتی حریف سوویت یونین کے ساتھ ایک بڑے اتحاد کی لڑی میں پروئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ہٹلر کی کامیابی دونوں نظریاتی کیمپوں کے بقائی وجود کے لیے عظیم خطرہ بن کر سامنے آئی۔ جیسے ہی نازی جرمنی کا خاتمہ ہوا۔ نازی مخالف اتحادیوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے پر نظریاتی و عسکری اسلحہ تان لیا اور اگلے پینتالیس برس دنیا بھر میں زمین سے لے کر خلا تک ایک دوسرے سے گتھم گتھا رہے حتیٰ کہ سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ مگر انسانی دماغ کی کنڈیشننگ بھی ایک خاص فریم کی قیدی ہے اور اسے نئے چیلنجز کی سنگینی ماپتے ماپتے اکثر ناقابلِ تلافی دیر ہو جاتی ہے۔ مثلاً آج کا ہٹلر اور آج کا جاپانی سامراج عالمی ماحولیات کی ابتری کی شکل میں ہم سب کی گردن پر پھنکار رہا ہے، چونکہ اس بقائی خطرے کی کوئی مجسم انسانی صورت نہیں اس لیے یہ خطرہ ہمیں خطرہ ہی نہیں لگ رہا۔

اب سے ایک یا ڈیڑھ عشرے بعد کوئی بھی امریکی، روسی ، چینی ، جاپانی یا بھارتی اس کرہِ ارض پر اپنے تلوے رکھنے کے قابل نہیں ہو گا۔ اور پانی شاید تیل سے زیادہ مہنگا بکنے لگے گا اور سانس لینے کے لیے بھی کرائے کے سلنڈر عمومی زندگی کا لازمی حصہ بننے شروع ہو جائیں گے تب جا کے ممکن ہے کہ اس دنیا کے فیصلہ ساز لال بھجکڑ بالاخر اس نتیجے پر پہنچیں کہ یہ بقائی دشمن گزشتہ سات ہزار برس کے کسی بھی سورما سے زیادہ خونخوار اور سفاک ہے۔ مگر تب تک چھری گردن پر آ چکی ہو گی اور ہم سب سوائے ایک ذبح ہوتی گائے کی طرح ہاتھ پاؤں چلانے کے کچھ نہیں کر پا رہے ہوں گے۔ تو کیا بنی نوع انسان اتنی آسانی سے خود کو ہلاک ہونے کی اجازت دے دے گا ؟ اس سوال کا جواب اگلے تین چار برس میں درکار ہے۔ ورنہ تو تو گیا۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

لیڈر کا صرف ایماندار ہونا کافی نہیں

جس طرح عمران خان صاحب کے پاس دو راستے تھے، یا تحریکِ عدم اعتماد کا باوقار انداز میں سامنا کریں یا استعفی دے دیں، اسی طرح تحریکِ انصاف کے پاس اب دو راستے ہیں ۔۔۔ یا بطور جماعت خود احتسابی کرے یا پھر دوسروں کی جانب انگلیاں اٹھاتی رہے۔ اگر آپ کو پہلے سے ہی سب معلوم ہے۔ آپ سب کو ان سے بھی زیادہ جانتے ہیں تو پھر کسی بھی طرح کا مکالمہ تو رہا ایک طرف سادہ گفتگو بھی بے معنی ہے۔ لیکن اگر آپ کسی ظاہری ناکامی کو زندگی کے ایک عملی سبق کی طرح دیکھنے کی عادت ڈال لیں تو ہر ناکامی کی تہہ میں اتنی کامیابیاں پوشیدہ ہیں کہ شاید آپ کو ان کا مکمل ادراک کبھی بھی نہ ہو سکے۔ فی الحال بہت گہرائی میں غوطہ زن ہو کر موتی تلاش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ سطح پر آس پاس بھی اتنے اسباق تیر رہے ہیں کہ چار پانچ بھی پکڑ میں آ جائیں تو بہت ہے۔ دیکھیے اس ملک کی پینسٹھ فیصد آبادی تیس برس تک کے انسانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے نوے فیصد نے شاید ہی اپنی زندگی میں خوشی اور آسودگی کے کچھ لمحات گذارے ہوں۔

یہ عمر خواب دیکھنے کی ہوتی ہے مگر تعبیر میں اکثر کو بیابان ہی ملتا ہے۔ اس ملک کے اکثر نوجوانوں کو گذشتہ آٹھ عشروں میں چار انسانوں میں رول ماڈل کی جھلک دکھائی دی۔ محمد علی جناح، شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان۔ پہلے نے اپنا جو بھی کام تھا مکمل کر کے سپرد کر دیا اور قیدِ حیات سے بہ مجبوریِ عمر رہا ہو گیا۔ دوسرے نے اپنے جواں سال ووٹروں کی امنگوں کو آئینی و انتخابی دائرے میں نبھانے کی کوشش کی مگر اس کی سزا کے طور پر اس کو انتہا پسند سوچ کی جانب دھکیل کر ملک تڑوا دیا گیا۔ تیسرے کو موقع ملا مگر وہ دیگر طاقت ور مفادات کے لیے خطرہ بننے لگا تو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ چوتھا یعنی عمران خان وہ لیڈر ہے جسے نہ صرف جاری نظام سے اکتائے مایوس نوجوانوں، بلکہ فوجی اسٹیبشلمنٹ کی بھی حمایت نصیب ہوئی اور عدلیہ کے چند اہم فیصلوں نے بھی بلاواسطہ طور پر اس کو وہ سپیس دیا جس میں وہ اپنا منشور (اگر کوئی تھا) آزما سکے۔

مگر اقتدار کا ہر قیمتی دن لسانی داؤ پیچ کی دلدل میں غروب ہوتا چلا گیا۔ اگر 2023 کے بارے میں زیادہ سوچنے کے بجائے ہر گذرتے مہینے کی تئیس تاریخ پر نگاہ ٹکی رہتی تو شاید حالات قدرے گرفت میں رہتے۔ اس آپا دھاپی میں شاید کچھ بنیادی اسباق ان کی نظروں سے اوجھل رہے اور اس ’اوجھلیت‘ نے محض پونے چار برس میں بھاری قیمت وصول کر لی۔  پہلا بنیادی سبق یہ ہے کہ جاننے کا مطلب صرف یہی نہیں کہ میں کیا جانتا ہوں بلکہ یہ بھی ہے کہ میں کیا کیا نہیں جانتا۔ دوسرا بنیادی سبق یہ ہے کہ آدمی اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے۔ کامیاب حکمران بولتے کم اور کرتے زیادہ ہیں۔ کم بولے گا تو ہی تولے گا۔ مگر سننے کے لیے خاموشی بنیادی شرط ہے۔ تیسرا بنیادی سبق یہ ہے کہ حکمران کا صرف ایمان دار ہونا کافی نہیں اس کے آس پاس بھی شفاف لوگوں کی موجودی ضروری ہے۔ ذاتی ایمان داری بار بار جتانا ہرگز لازمی نہیں۔ چاند کو روزانہ اپنی چمک اور گولائی کا تعارف نہیں کرانا پڑتا۔

ایمان دار تو میرا یار عبداللہ پنواڑی بھی ہے۔ اس بڑھاپے میں بھی وہ صبح سے شام تک کھڑا گردن جھکائے اپنا کام کرتا ہے۔ ہر وقت کھوکھے پر جھمگھٹا رہتا ہے۔ اس سے زیادہ محنتی میں نے بہت کم لوگ دیکھے ہیں۔ مگر لیڈر کو جو شے عبداللہ پنواڑی سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے ویژن۔ عام آدمی کے پاس خواب تو ہوتا ہے پر ویژن نہیں۔ ویژن ایسے خواب کو کہتے ہیں جو عملی تعبیر کے امکانات سے بھر پور ہو۔ ورنہ شیخ چلی سے بڑا خواب گر بارِ دگر آنا تقریباً ناممکن ہے۔ چہارم یہ کہ لیڈر کو کانوں کا پکا ہونا چاہیے۔ میں اگر کان کا کچا ہوں تو اس کا نقصان زیادہ سے زیادہ میرے خاندان، دوستوں یا پڑوس کو پہنچے گا۔ حکمران یا لیڈر اگر کان کا کچا ہو تو اس کا نقصان ملک بلکہ نسلیں بھگتتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ سب سے طاقت ور آدمی ہی دراصل کمزور ترین آدمی ہے۔ جب تک حکمران بیساکھیوں پر ہے تب تک اسے سو میٹر کا چیمپیئن بننے کا خواب نہیں دیکھنا چاہیے اور جب وہ ایک بااختیار حکمران بن جائے اور لوگوں کی زندگی اور مستقبل کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے ہر وقت صبح شام دیکھنا چاہیے کہ کہیں کرسی کا خوشامد انگیز نشہ اس کے فیصلوں پر تو اثر انداز نہیں ہو رہا۔ اور سب سے اہم نکتہ شاید یہ ہے کہ کوئی انسان ناقابلِ شکست و عقلِ کل نہیں۔ سوائے اوپر والے کے کسی آمر کو دوام نہیں۔ جولیس سیزر نے بھی ایک آدمی صرف اس کے لیے وقف کر رکھا تھا جو ہر روز سرگوشی کرے ’سیزر تو بھی فانی ہے‘۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

بے دماغ و بد دماغ سیاست

اعلیٰ دماغ مغربی ممالک کی کوویڈ سے نمٹنے کی حکمتِ عملی سے اس تاثر کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ کوویڈ کا متاثر بظاہر صحت یاب ہو جائے تب بھی اثرات جسم اور ذہن کے مختلف افعال پر عرصے تک غالب رہتے ہیں اور ان سے چھٹکارا رفتہ رفتہ ہی ممکن ہے۔ اس تناظر میں مغربی بالخصوص یورپی دنیا کی ذہنی کیفیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کوویڈ کی نئی قسم اومیکرون سے بچنے کے لیے اپنی بری، بحری اور فضائی سرحدیں تو بند کر رہے ہیں مگر زائد از ضرورت کوویڈ ویکسین ذخیرے کو ایکسپائر ہونے سے پہلے پہلے دیگر ضرورت مند انسانیت کو عطیہ کرنے کے بجائے اسے کروڑوں کی تعداد میں ضایع کرنا زیادہ بہتر سمجھ رہے ہیں۔ ان ممالک کی قیادت یہ بنیادی نکتہ بھی سمجھنے سے بظاہر قاصر ہو چکی ہے کہ جب تک پوری دنیا محفوظ نہیں ہو گی تب تک پابندیوں کی اونچی اونچی دیواریں کسی بھی خطے کو وائرس سے محفوظ نہیں رکھ سکیں گی۔

مغربی ممالک سرحدوں کو بند کرنے، پروازوں کو محدود کرنے اور لاک ڈاؤن کی قیمت پر کھربوں ڈالر کا معاشی خسارہ برداشت کرنے پر تو آمادہ ہیں مگر غریب امیر کے فرق کو بالائے طاق رکھ کے عالمی ویکسینیشن کے لیے آستینیں چڑھانے اور صرف چند ارب ڈالر خرچ کر کے اپنی معیشت کوویڈ سے مستقل محفوظ کرنے کا ہدف حاصل کرنے کے بارے میں سوچنے سے معذور ہیں۔ چلیے مان لیا کہ آپ کسی بھی وجہ سے اپنے اضافی ویکسین ذخیرے پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ ظاہر ہے آپ نے اس ذخیرے کو خریدا ہے یہ آپ کی ملکیت ہے۔ اب آپ اسے استعمال کریں یا سمندر میں پھینکیں۔ مگر جب سو سے زائد ممالک بشمول اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہِ صحت گزشتہ ایک برس سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ مغربی حکومتیں ویکسین ساز کمپنیوں پر انٹلکچوئل کاپی رائٹس قوانین سے عارضی دستبرداری کے لیے دباؤ ڈالیں تاکہ اس انہونی عالمی وبا کا تیزرفتاری سے مقابلہ کیا جا سکے تب برطانیہ اور یورپی یونین (بالخصوص جرمنی، سوئٹزر لینڈ، برطانیہ) اس ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے لبیک کہنے کے بجائے دوا ساز کمپنیوں کے وکیل بن جاتے ہیں کہ وہ نجی شعبے کو کاپی رائٹس سے دستبرداری پر ایک حد سے زیادہ مجبور نہیں کر سکتے۔

اس بابت عالمی تجارتی ادارے ( ڈبلیو ٹی او ) کے سامنے چونسٹھ ممالک کی درخواست گزشتہ ایک برس سے پڑی ہے۔ مگر جن ممالک کی دوا ساز کمپنیاں ویکسین تیار کر رہی ہیں ان کی حکومتوں کے لیے انسانیت کو درپیش بحران کے مقابلے میں چند دوا ساز کمپنیوں کا منافع مقدم ہے۔ اسی لیے ڈبلیو ٹی او کی رکنیت کے باوجود یہ حکومتیں ہاں اور نہ کے درمیان نہ صرف خود لٹک رہی ہیں بلکہ باقی دنیا کو بھی لٹکا رکھا ہے۔ ننگے پن کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ خود ویکسین ساز کمپنیاں کاروباری رقابت میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور زیادہ سے زیادہ بزنس ہتھیانے کی دوڑ میں ایک دوسرے کی ویکسین کی افادیت پر اپنی اپنی پسندیدہ اجرتی ریسرچ لابیوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً ’’ تازہ ترین تحقیق‘‘ کے نام پر جاری رپورٹوں اور آنکڑوں کو اچھالتی ہیں تاکہ حکومتیں اور عام لوگ کنفیوز ہوں اور ایک ویکسین پر اٹھنے والے سوالوں کے جب تک تسلی بخش جوابات تلاش کریں تب تک دوسری کمپنی زیرِ تفتیش کمپنی کا بزنس لے اڑے۔

ویکسین کی یہ جنگ محض کمپنیوں تک محدود نہیں۔ ریاستیں بھی ویکسین سازی کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لیے ایک دوسرے سے مصروفِ پیکار ہیں۔ جیسے متعدد مغربی ممالک اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے دوسری دنیا کے چند متوسط ممالک چینی ، روسی ، بھارتی یا دیگر غیر مغربی ویکسینز کی افادیت تسلیم نہیں کرتے اور اصرار کرتے ہیں کہ مسافر اور مقامی شہری صرف وہی ویکسینز لگوائیں جو مغربی کمپنیاں بناتی ہیں۔ حالانکہ عالمی ادارہِ صحت کی منظور شدہ ویکسین فہرست میں غیر مغربی ویکسینز نہ صرف شامل ہیں بلکہ انھیں محفوظ اور موثر بھی قرار دیا گیا ہے۔ گویا مغرب نہ تو ویکیسن کا فالتو ذخیرہ ضرورت مندوں کو عطیہ کرنے پر آمادہ ہے ، نہ ہی ویکسین کی ترقی پذیر دنیا میں مقامی تیاری کی خاطر کاپی رائٹس قوانین کی عارضی معطلی میں تعاون کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظریے پر کاربند ہوتے ہوئے بھی مغرب کو یہ پہلو تنگ نہیں کر رہا کہ منڈی بیمار ہو گی تو مال کون خریدے گا اور مال نہ بکا تو خود مغربی معیشتوں کا کیا حال ہو گا۔

اور اگر حال دگرگوں ہوا تو چین کو ہدف بنا کر نئی سرد جنگ کے ایجاد کردہ خوف کا مستقبل کیا ہو گا ؟ اس بوالعجبیانہ تضاد کا علاج کوئی مہان ماہرِ نفسیات ہی بتا سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور عالمی ادارہِ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہنوم کا موقف ہے کہ کوویڈ کی وبا سے نمٹنے کی کوششوں میں گہری عدم مساوات کا مسئلہ تب ہی حل ہو سکتا ہے جب اسے بھی بنیادی انسانی حقوق کی عینک سے دیکھا جائے۔ مگر دونوں اعلیٰ عالمی عہدیدار یہ بھی جانتے ہیں کہ مغرب چونکہ گرم و سرد جنگ کا برس ہا برس سے چشیدہ ہے۔ لہٰذا ذہنی عینک بھی وہی ہے جو اس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے نہیں اتاری۔ مغرب کے لیے آج کا چین اور روس کوویڈ سے بڑا خطرہ ہے۔ کوویڈ اگر جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوتا یا کوئی خود کش بمبار ہوتا تب شاید دنیا کو اس خطرے سے بچانے کے نام پر مغرب کب کا دوڑ پڑتا۔

مغرب کوویڈ سے پہنچنے والے معاشی خسارے سے اتنا ہونق نہیں جتنا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے ہے۔ اس منصوبے کے مقابلے کے لیے مغرب نے تین سو ارب یورو کے فنڈ کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو چین کے قرضوں کے جال والی سفارت کاری سے بچاتے ہوئے انھیں  انفرا اسٹرکچر منصوبوں کو کھڑا کرنے میں رعائیتی نرخوں پر مدد فراہم کی جائے۔ مگر مغرب چین کی کوویڈ ڈپلومیسی کے مقابلے میں تیسری دنیا کو کوویڈ ویکسین سے بھر دینے یا ویکسین کی تیاری کے لیے انٹلکچوئل کاپی رائٹس معطل کروانے کے کام پر ہرگز آمادہ نہیں۔ اگر یہی اعلیٰ دماغ سفارت کاری ہے تو پھر بین الاقوامی بد دماغی اور بے دماغی کیا ہے؟

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز