وزیراعظم عمران خان کا فیس بک کے بانی کو خط

وزیر اعظم عمران خان نے اسلام مخالف مواد ہٹانے کے لیے فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کو خط لکھ دیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر اعظم نے فیس بک کے بانی کے نام خط میں لکھا ہے کہ فیس بک ہولوکاسٹ کی طرح اسلام مخالف مواد پر بھی پابندی عائد کرے، اسلامو فوبیا مخالف مواد سوشل میڈیا بشمول فیس بک پر پھیلایا جا رہا ہے، ایسا مواد نفرت، انتہا پسندی، تشدد کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے خط میں لکھا کہ فیس بک کی طرف سے ہولوکاسٹ پر تنقید پر عائد پابندی کی تعریف کرتا ہوں، فیس بک ہولوکاسٹ کی طرح اسلام مخالف مواد پر بھی پابندی عائد کرے۔

عمران خان نے فیس بک پر اسلامو فوبیا مخالف مواد کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ ماضی میں جرمن نازیوں نے جو سلوک یہودیوں کے خلاف روا رکھا تھا آج دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے خلاف اسی طرح کا معاملہ دیکھ رہا ہوں، بدقسمتی سے مسلمانوں کو لباس سے عبادت تک کے ذاتی انتخاب سے روکا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ ممالک میں مسلمانوں کو شہریت کے حقوق حاصل نہیں، مسلمانوں کو کئی جگہوں پر عبادت کرنے کی بھی اجازت نہیں، بھارت میں مسلمانوں کے خلاف قوانین بنائے گئے، مسلمانوں کا قتل اور انہیں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرانا اسلامو فوبیا کا اثر ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ فرانس میں اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا گیا، حضور ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی فرانس میں اجازت دی گئی، ان اقدامات سے فرانسیسی سوسائٹی اور مسلمانوں میں خلیج مزید گہری ہو گئی، فرانس عام اور شدت پسند مسلمانوں میں کس طرح تمیز کرے گا؟ اس امتیازی رویے سے شدت پسندی بڑھے گی جس کی دنیا کو ضرورت نہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

آپ بس چنگاری دیں ، آگ ہم بنا لیں گے

بھارت اور پاکستان کے درمیان پینسٹھ کی جنگ کو پچپن برس بیت گئے۔ مگر آج بھی کوئی نہ کوئی بوڑھا طعنہ دے ہی دیتا ہے ارے آپ اس بی بی سی کے لیے کام کرتے ہیں جس نے پینسٹھ میں خبر دی تھی کہ بھارتی ٹینک لاہور شہر میں داخل ہو گئے ہیں اور پھر میں صفائیاں پیش کرتا ہوں کہ جنابِ من دراصل اس زمانے میں بھول چوک اس لیے ہو جاتی تھی کیونکہ خبر کی فوراً تصدیق کے ذرایع اتنے تیز رفتار اور جدید نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ مگر پھر میں خود ہی سوچ کر شرمندہ ہو جاتا ہوں کہ آج انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ہوتے ایک منٹ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے واقعہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے ایک سے زائد تصدیقی ذرایع کے علاوہ جعلی اور اصلی خبر اور تصویر میں فرق کرنے کی ویب سائٹس اور سافٹ وئیرز بھی دستیاب ہیں۔ مگر خبر کے نام پر جھوٹ پہلے سے کئی گنا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ آج اس کہاوت کا اصل مطلب سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس سے پہلے کہ سچ گھر سے باہر قدم رکھے جھوٹ کرہِ ارض کے تین چکر لگا چکا ہوتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ یہ سب کسی بھولپن میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر سائنسی انداز میں ہو رہا ہے۔ مقصد خبر کی ترسیل نہیں بلکہ دماغوں پر قبضہ کرنا، آلودہ کرنا یا رائے عامہ کو کنفیوژن میں رکھ کر مخصوص اہداف اور مقاصد کا حصول ہے۔ جھوٹ ایک انفرادی فعل نہیں رہا بلکہ اربوں کھربوں کی صنعت بن چکا ہے اور صنعتی مقدار میں ہر روایتی و ڈجیٹل رسمی و غیر رسمی پلیٹ فارم سے بیچا اور خریدا جا رہا ہے۔ ہٹلر کے پروپیگنڈہ وزیر گوئبلز کا یہ قول اب فرسودہ ہو چکا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے۔ اس قول کی جدید شکل و صورت یہ ہے کہ سچائی کو بھی جھوٹ کی پوشاک میں باہر بھیجو تاکہ لوگ یقین کر سکیں۔ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ دو ممالک کے درمیان جنگ چل رہی ہو تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے لمبی لمبی ہانکی جائیں تاکہ پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے اپنے لوگوں کا حوصلہ بلند رہے۔ مگر آج جھوٹ بولنے کے لیے کسی روایتی لڑائی کی بھی ضرورت نہیں رہی۔

میڈیا نے قاری و ناظر کے خلاف ایک مستقل دماغی جنگ چھیڑ رکھی ہے جس میں علاقے پر قبضے کی روایتی کوشش کے برعکس زیادہ سے زیادہ ریٹنگ ہتھیانے کے لیے ہر طرح کا ہتھیار اندھا دھند استعمال ہو رہا ہے۔ آپ ہمیں بس ایک عدد چنگاری دے دیں۔ آگ ہم خود بنا لیں گے۔ جیسے خبر صرف اتنی تھی کہ سندھ پولیس کے آئی جی کو رینجرز اور خفیہ کے لوگ زبردستی لے گئے اور ان سے ایک حکومت مخالف سیاسی شخصیت کی گرفتاری کے وارنٹ پر دستخط کروا لیے۔ ہر طرف سے اس واقعہ پر کڑی نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ واقعہ کی ایک سے زائد سطح پر تحقیقات بھی جاری ہیں اور حزبِ اختلاف اور حکومتی مشیر اس واقعہ کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بطور بارود بھی استعمال کر رہے ہیں۔ مگر اس کو لے کر انڈین میڈیا کے زی، انڈیا ٹوڈے ، نیوز ایٹین اور سی این این، آئی بی این جیسے عزت دار چینلوں سے لے کر چھٹ بھئیے چینلوں کی ویب سائٹس تک جس طرح کراچی میں فوج اور پولیس کے درمیان خانہ جنگی، لاشیں گرنے، تھانوں پر قبضے ، گورنر ہاؤس کے گھیراؤ اور صوبائی سرکار کی برطرفی کی خبریں پورا دن چلتی رہیں۔

کراچی کے کسی فرضی علاقے گلشنِ باغ ( غالباً گلشن ِ اقبال ) میں ایک عمارت میں حادثاتی دھماکے کو پولیس ٹھکانے پر راکٹ باری قرار دے دیا گیا۔ مگر اگلے دن کسی انڈین چینل نے کوئی فالو اپ نہیں دیا کہ بھیا اگر ایک دن پہلے کراچی میں اتنی ہی زبردست دھماچوکڑی مچی ہوئی تھی تو دوسرے دن کراچی کا کیا حال ہے۔ پورا قصہ یوں غائب ہو گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ افسانوی صحافت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بھارتی میڈیا انتہائی ذمے داری کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر کئی بار سرجیکل اسٹرائکس کروا چکا ہے اور بالاکوٹ پر فضائی حملے میں تین سو دہشت گرد بھی مار چکا ہے اور اب تو اس جھوٹی سچائی پر بالی وڈ ایک فلم بھی بنا رہا ہے۔ مگر ہم بھی کون سے دودھ کے دھلے ہیں۔ جب دو ہزار چودہ میں اسلام آباد میں عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا جاری تھا تو ایک معزز ٹی وی اینکر نے وزیرِ اعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ کے اوپر ماہرِ سرکاری نشانچی بٹھا کر کم ازکم دس لاشیں گروا دیں اور پھر ان خیالی لاشوں کا جنازہ پڑھنے بھی نہیں گئے۔

جب تین برس پہلے بھوٹان سے متصل دوکلام کی سرحد پر بھارت چائنا تناؤ بڑھ گیا تو ایک دن کئی پاکستانی چینلوں پر خبر چل گئی کہ چینی فوج نے تین سو سے اوپر بھارتی فوجی مار ڈالے۔ چند گھنٹوں بعد خبر غائب ہو گئی مگر ایک بھی چینل نے ناظرین سے نہیں کہا کہ ہم معافی چاہتے ہیں یہ خبر درست نہیں تھی۔ ابھی تین دن پہلے ہی ہمارے ہی ایک ہم پیشہ دوست اور ایک چینل کے معروف تجزیہ کار نے خبر پھوڑی کہ ایک برادر اسلامی ملک نے فیٹف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔ حالانکہ تب تک فیٹف میں اس مسئلے پر کوئی ووٹنگ ہی نہیں ہوئی تھی۔ البتہ ایسا ایک واقعہ دو ہزار اٹھارہ میں ہوا تھا جب ترکی نے فیٹف کے اجلاس میں پاکستان کے حق میں اور سعودی عرب نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے معزز صحافی دوست کی نظر سے یہی پرانی خبر گزری ہو اور انھوں نے اسے تازہ ترین اسکوپ فرض کر کے ناظرین کے کان میں انڈیل دیا ہو۔ مگر مجال ہے کہ انھوں نے تادمِ تحریر اپنی اس فاش غلطی کا اعتراف کیا ہو کہ جس کی تردید نہ صرف پاکستانی دفترِ خارجہ بلکہ سعودی سفارت خانے کو بھی کرنا پڑ گئی۔

المیہ یہ نہیں کہ جھوٹ کو سچ بتا کر ڈھٹائی سے بیچا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جیسے ہر شہری مسلسل شک میں مبتلا ہے کہ پیسے دینے کے باوجود ہر چیز ملاوٹی اور بناوٹی مل رہی ہے اور اس کا جسم اس ملاوٹ کی قیمت بیماریوں کی شکل میں بھوگ رہا ہے۔ اسی طرح خالص خبر کے نام پر ملاوٹی اور جعلی خبر مل رہی ہے جس کی قیمت یہ خبر سننے ، پڑھنے یا دیکھنے والے کروڑوں لوگ اپنی ذہنی حالت پر شبہے اور اضافی ڈیپریشن کی شکل میں ادا کر رہے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں حقیقت یا سچائی سامنے آ بھی جائے تب بھی لوگ یقین کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ہم میڈیا والے دوسروں کے جھوٹ پکڑنے کی کھوج میں رہنے اور اسے عام آدمی تک پوری ایمان داری سے پہنچانے کا دعوی کرتے نہیں تھکتے آج خود خبر کے نام پر زہر بیچ رہے ہیں اور شرمندہ تک نہیں۔ ہم شاید میڈیا نہیں رہے۔ میڈیا سیل بن چکے ہیں۔ اور یہ تک نہیں جانتے کہ ہماری ڈوریاں دراصل کس کے ہاتھ میں ہیں اور اس کی ڈوریاں کون ہلا رہا ہے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

نیب، تاریخ میں سب سے بڑی پلی بارگین

نیب کی تاریخ میں سب سے بڑی پلی بارگین، ملزم لوٹی ہوئی دولت واپس قومی خزانے میں جمع کرانے کے لیے تیار ہو گیا۔ عدالت نے ملزم کامران افتخار لاری کی جانب سے پلی بارگین کی درخواست منظور کر لی۔ ہفتے کو احتساب عدالت میں پاکستان اسٹیٹ آئل میں 23 ارب روپے کی کرپشن کے حوالے سے پی ایس او اور بائیکو آفیشلز کے خلاف ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر نیب حکام نے عدالت میں رپورٹ پیش کی جس میں بتایا کہ نیب کی تاریخ میں سب سے بڑی پلی بارگین پہلی بار ہوئی ہے۔  ملزم لوٹی ہوئی دولت واپس قومی خزانے میں جمع کرانے کے لیے تیار ہے۔ ملزم کامران افتخار لاشاری 1 ارب 29 کروڑ روپے سے زائد کی رقم واپس کرنا چاہتا ہے، رقم تین اقساط میں ادا کرے گا، ملزم نجی کمپنی بائیکو کا ملازم تھا جس نے پی ایس او کے ساتھ سیل ایگریمنٹ کیا تھا۔ ملزمان کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو 23 ارب سے زائد کا نقصان پہنچا تھا۔ چیئرمین نیب نے بھی ملزم کی پلی بارگین کی درخواست پر دستخط کر دیے۔ عدالت نے ملزم کامران افتخار لاری کی جانب سے پلی بارگین کی درخواست منظور کر لی ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

سوشل میڈیا پر فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم

فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور فرانسیسی حکومت کے اسلام مخالف رویئے پر مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کی بائیکاٹ کی مہم چلائی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ’بائیکاٹ فرنچ پروڈکٹس‘ اور ’بائیکاٹ فرانس‘ کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فرانسیسی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم کے بعد کویت کی مارکیٹوں سے فرانسیسی مصنوعات ہٹا لی گئیں۔ واضح رہے کہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) اور یونیسکو فرانس میں کویتی مشن نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے اسلام سے متعلق بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ان کے ریمارکس کو غیر ذمہ دارانہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔  فرانسیسی صدر میکروں کے اسلام مخالف بیانات پر ترک صدر طیب اردوان برہم ہو گئے اور انہوں نے فرانسیسی صدر میکروں کو دماغی معائنے کا مشورہ دے دیا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

نواز لیگ کی مستقبل کی سیاست

اس وقت ہمارے حکمرانوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اپوزیشن کو ڈیل کرنا ہے اور حکمران اس مسئلہ کی وجہ سے پریشان ہیں وہ لاکھ تاویلیں پیش کرتے رہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ حکمران پریشان ہیں اور ان کی پریشانی کا سبب اپوزیشن ہے۔ حکمران اپنے لایعنی فیصلوں سے اپوزیشن کے احتجاج میں رنگ بھرتے ہیں جیسا کہ کراچی میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے معاملے پر حکومت کے حصے میں مفت کی بدنامی آئی ہے حالانکہ اس معاملے کو احسن طریقہ کار سے بھی ڈیل کیا جا سکتا تھا لیکن جب طاقت کا نشہ دوآتشہ ہو تو دماغ کے بجائے جذبات سے فیصلے ہو جاتے ہیں جن کے دور رس نتائج ہوتے ہیں ایسے جذباتی فیصلے وقتی طور پر تو جیت میں تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں انھی عجلت پسند فیصلوں پر پچھتانا بھی پڑتا ہے۔

کیپٹن صفدر کا جرم اتنا بڑا نہیں تھا لیکن جس طرح ان کو گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدمہ کے اندراج کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس کا فائدہ حکمرانوں کے بجائے اپوزیشن لے گئی۔ دن دہاڑے مقدمہ بنا کر گرفتاری ہوئی، دن کی روشنی میں ہی ضمانت بھی ہو گئی اور محترمہ مریم نواز اپنے شوہر کے ساتھ واپس لاہور بھی پہنچ گئیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر اپنے مہمانوں سے معذرت بھی کی ہے کہ وہ سندھی روایات کے مطابق مہمانداری نہیں نبھا سکے اور ان کے مہمانوں کو ان کی صوبائی حکومت میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ سندھ کے پولیس افسران نے بلاول بھٹو کی کسی قدر اشک شوئی کی کوشش کی اور کیپٹن صفدر پر مقدمہ کے اندراج کے لیے آئی جی پردباؤ ڈالنے پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ملازمت سے رخصت کی درخواستیں دے ڈالیں جن کو بعد میں کچھ دن کے لیے واپس لے لیا گیا۔

اس معاملے کوٹھنڈا کرنے کے لیے آرمی چیف کو مداخلت کرنا پڑی۔ بہر حال تو یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کی رپٹ بھی درج نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن حکومت کے نادان دوستوں نے فی الفور حساب شروع کرنے کے لیے ایک بھونڈے مقدمے کا سہارا لیا جس کا فائدہ اپوزیشن کو ہو گیا۔ دوسری جانب جناب عمران خان ہیں جنھوں نے اپوزیشن کو سبق سکھانے کا اٹل فیصلہ کر لیا ہے اوراپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے منہ پر ہاتھ پھیر کر ایک نیا عمران خان بننے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ ابھی تک اپوزیشن پرانے عمران خان کو بھگت رہی تھی آیندہ ایک نئے عمران خان کو بھگتنے کو تیار رہے۔ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو نیچا دکھانے کے لیے داؤ پیچ جاری ہیں دھمکیاں تک دی جا رہی ہیں ۔ حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد ماضی میں بھی بنتے رہے ہیں حکومتوں کے خلاف تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں اوردر پردہ ان تحریکوں کے روح رواں احتجاج کرنے والوں کی خفیہ حمایت بھی کرتے رہے ہیں ۔

موجودہ اپوزیشن کی تحریک کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن ابھی تک کوئی واضح بات سامنے نہیں آرہی ہے۔ سامنے اگر کچھ ہے تو حکمران اور ان کی حمایت میں مقتدر ادارے ہیں جنھوں نے جمہوری حکومت کی مکمل حمایت کا بار بار یقین دلایا ہے ۔ اس صورتحال میں اپوزیشن کی بات کی جائے تو میاں نواز شریف حکومت اور مقتدر حلقوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کا تازہ بیانیہ ریاست کے اوپر ریاست کا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اپوزیشن کا یہ اتحاد غیر فطری ہے اور ماضی کی حریف سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ مل رہی ہیں لیکن ان کے دل میں کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا البتہ ماضی کو کریدا جائے تو دونوں پارٹیوں کے رہنماء چند گھنٹوں کے لیے بھی ایک دوسرے کو برداشت نہ کریں چہ جائیکہ ایک اتحاد کی صورت میں اکٹھے رہیں۔ سیاسی میدان میں پیپلز پارٹی کا سندھ میں ابھی تک کلہ مضبوط ہے جب کہ پنجاب میں نواز لیگ برتری کی دعویدار ہے ماضی میں تو پنجاب نواز لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن اس قلعے میں نقب عمران خان کی تحریک انصاف نے لگا دی ہے اور اب پنجاب میں ووٹر تقسیم ہو گیا ہے۔

نواز لیگ کی میزبانی میں اپوزیشن اتحاد کے گوجرانوالہ جلسہ میں نواز شریف کے خطاب نے متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے کان کھڑے کر دیے کیونکہ متحدہ اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں کے لیے یہ انتہائی غیر متوقع تقریر تھی اور اگر ان کو اس کی پہلے سے بھنک بھی ہوتی تو یہ شاید اس جلسے میں دعوت کو قبول ہی نہ کرتے۔ لیکن جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا البتہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی اس تقریر کے بعد بیک فٹ پر چلے گئے ہیں اور کراچی میں پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے جلسے میں نواز شریف کا ٹیلی فونک خطاب گول کر دیا گیا حالانکہ اہل کراچی ٹیلی فونک خطاب سننے کے عادی تھے اور اس کے لیے وہ گھنٹوں ایک جگہ بیٹھے بھی رہ سکتے تھے لیکن پیپلز پارٹی کی میزبانی نے اس خطاب کی نوبت ہی نہ آنے دی۔ میاں نواز شریف نے یکایک جو طرز سیاست اختیار کیا ہے وہ غیر متوقع بھی ہے اور اس کے متعلق ملک کے مقتدر حلقوں میں خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے ۔

عوام یہ کہتے پائے جارہے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف نے یہی طرز سیاست اختیار کرنا تھا تو ان کی پارٹی نے ماضی قریب میں جس طرح ببانگ دہل مقتدر حلقوں کی حمایت کی حکومت کو ہر مشکل میں ووٹ دیا تو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی شروع دن سے ہی جداگانہ سیاسی راستہ اختیار کیا جا سکتا تھا نواز لیگ کے ووٹرز کے ساتھ ساتھ اس کے صف اول کے رہنما بھی پریشان ہیں کہ ان کی قیادت یکایک نئے سیاسی راستے متعین کر رہی ہے جو انتہائی دشوار گزار اور کٹھن ہیں، پاکستان جیسے غریب اور دشمنوں میں گھرے ملک میں اس طرح کا سیاسی راستہ اختیار کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے اور ملکی سلامتی کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہے اگلے چند ہفتے اہم ہیں جن میں شاید یہ واضح ہو جائے کہ نواز لیگ کی مستقبل کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

عبدالقادر حسن

بشکریہ ایکسپریس نیوز

سندھ پولیس کی غیرت یا سیاست کا ہاتھ

پنجاب کے ایک دیہات میں چچا خدا بخش ہوا کرتے تھے جن کو نیند بہت پسند تھی، اکثر سوئے رہتے۔ اول تو گھر کے کسی فرد میں ان کو نیند سے اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی اور اگر کوئی ہمت کر بھی لیتا تو چچا خدا بخش بہت مایوسی اور اکتائے ہوئے لہجے میں کہتے کہ کبھی نیند نہ پوری ہونے دینا۔ چچا خدا بخش اپنے پوتے سے بہت پیار کرتے تھے، جب کبھی اُن کو نیند سے فرصت ملتی تو بس اس کے ساتھ وقت گزارتے۔ ایک دن چچا خدا بخش کو ان کے پوتے نے نیند سے جگا دیا۔ خدا بخش کا غصے سے منہ لال پیلا تھا مگر لاڈلا ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنے منہ پر مسکرائٹ لاتے ہوئے خاموشی اختیار کی۔ ’’بابا آپ سارا دن سوئے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں؟‘‘ ان نازک لبوں سے یہ آواز چچا خدا بخش کے کانوں میں رس گھولتی گئی۔ ’’بیٹا یہ بات ٹھیک ہے کہ میں سوتا بہت ہوں مگر یہ بھی تو شکر ادا کیا کرو کہ میں اٹھ جاتا ہوں۔‘‘

یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد تھا کہ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ سندھ پولیس کی نیند کھل گئی، ورنہ یہ تو عرصہ دراز سے لمبی تان کر سوئے ہوئے تھے۔ مگر اس ناچیز اور صحافت سے دور انسان کے دماغ میں ایک سوال ہے جو نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ بات نکلے گی تو پھر دور تک جائے گی۔ رات کے 2 بجے آئی جی سندھ کے گھر کا گھیراؤ کر کے ان کو اپنے ساتھ لے جانا اور 4 بجے تک ان کو مہمان بنانے کے بعد واپس خیر خیریت سے چھوڑ بھی دینا۔ اس اثناء میں ڈیموکریٹک موومنٹ کا کچھ اداروں پر الزام لگانا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی جی سندھ کو 2 بجے لے کر جانے اور پھر واپس چھوڑ کر جانے والوں کو کیا سندھ پولیس یا دیگر میڈیا نے نہیں دیکھا؟ اور اگر دیکھا تو وہ بہادری کا اعلیٰ مظاہرہ پیش کرتے ہوئے ان کا نام ہی بتا سکتے تھے۔ ممکن ہے آئی جی صاحب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہو۔ مگر یہ راز کی باتیں ہیں اور راز تو صرف خدا ہی جانتا ہے۔

ہم سب تو صرف ڈگڈگی آواز پر رقص کرنے والے بندر کا تماشا دیکھنے والے ہیں۔ مگر علی الصبح سندھ پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل عمران یعقوب منہاس کی غیرت چچا خدا بخش کی لمبی نیند کی طرح اچانک سے کھلی اور سندھ حکومت سے دو ماہ کی رخصت اس بنا پر طلب کر لی کہ تناؤ والی صورتحال میں ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب کراچی میں بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضٰی بھٹو پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے تو سندھ پولیس کے کسی افسر نے ایسا عمل سر انجام نہ دیا۔ چلیں دور کی بات چھوڑیئے، ماضی میں گئے تو یادیں تازہ ہو جائیں گی۔ وہ شاعر نے خوب کہا ہے ’’یاد ماضی عذاب ہے یا رب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘‘۔ 2012 میں جب ایک ماہ کے دوران 400 افراد کا قتل ہوا اور کراچی خون میں ڈوبا دکھائی دے رہا تھا، اس وقت بھی سندھ پولیس کے کسی افسر کی نیند نہیں کھلی۔ مگر وہی چچا خدا بخش والی بات کہ چلو شکر ہے نیند کھل تو گئی۔ مگر واقعی نیند کھلی ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح سندھ پولیس کی پشت پر سیاست کا ہاتھ پھیرا گیا ہے؟ اب یہ تو رپورٹ آنے پر ہی واضح ہو گا کہ سندھ پولیس کی غیرت تھی یا سیاست کا ہاتھ۔

محمد عرفان چانڈیو

بشکریہ ایکسپریس نیوز

حلال مداخلت، حرام مداخلت

کرکٹ میں لوز بال پر جیسے چھکا مارا جاتا ہے، ایسی ہی صورتحال حالیہ کراچی واقعہ کی ہے۔ جس انداز میں کیپٹن صفدر کو ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑ کر، جبکہ وہ اپنی اہلیہ مریم نواز کے ساتھ وہاں ٹھہرے ہوئے تھے، گرفتار کیا گیا اور پھر سونے پہ سہاگہ جس طرح سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کے گھر کا گھیراؤ کر کے اُنہیں مبینہ طور پر زبردستی کراچی رینجرز کے دفتر لے جایا گیا تاکہ پولیس سے کیپٹن صفدر کے خلاف پہلے ایف آئی آر درج کروائی جائے اور پھر اُنہیں بےعزت کر کے گرفتار کیا جائے، یہ وہ تاریخی لوز بال تھی، جس پر چھکا تو بنتا تھا اور چھکا بھی ایسا کہ بال اسٹیڈیم سے باہر جا گرے۔ سندھ حکومت، پاکستان پیپلز پارٹی، سندھ پولیس یہاں تک کہ اپوزیشن جماعتیں اب سب اِس ایک تاریخی لوز بال پر اپنی اپنی خواہش کے مطابق میدان کے چاروں طرف چھکے مار رہی ہیں۔ کسی کو کیچ ہونے کا بھی کوئی خوف نہیں۔

شک کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سندھ پولیس کے افسران (جن کی ابتدا میں تعداد کوئی ایک درجن تھی، جو کہ بڑھتے بڑھتے اب سینکڑوں میں ہو گئی ہے) نے ایک ساتھ اپنے آئی جی کے ساتھ رینجرز کی طرف سے ذلت آمیز رویے پر احتجاجاً چھٹی پر جانے کا فیصلہ کیا، اِس کے پیچھے سندھ حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن سوال تو یہ ہے کہ جو کیپٹن صفدر کے ساتھ کیا گیا، کیا اُس کا کسی بھی طرح دفاع کیا جا سکتا ہے؟ اور جو کچھ سندھ پولیس کے آئی جی کے ساتھ ہوا، وہ کسی مہذب معاشرے میں برداشت کیا جا سکتا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ تو پھر ایسے میں اگر سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی نے اپنی پولیس کا ساتھ دیا یا اُن کے پیچھے کھڑی رہی یا اُنہیں اِس احتجاج پر اُکسایا تو اِس میں کیا بُری بات ہے؟ کراچی واقعہ انتہائی شرمناک تھا جس کو برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اِس واقعہ میں اگر ایک طرف آئینی نظام، سندھ حکومت اور صوبائی پولیس کے اختیار، چادر اور چار دیواری کی حرمت کو پامال کیا گیا تو دوسری طرف اِس سے اداروں کو بھی مزید متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔

یہ اچھا ہوا کہ آرمی چیف کی طرف سے اِس واقعہ پر انکوائری کا اعلان ہو گیا۔ جتنا جلد ہو، اِس انکوائری کو مکمل کیا جائے اور جو بھی ذمہ دار ہو، اُسے سزا دی جائے۔ یہ نہ صرف آئین کی پاسداری اور قانون کی عملداری کے لئے لازم ہے بلکہ پولیس کے مورال کو بحال کرنے کے لئے بھی ضروری ہے۔ اس سارے واقعہ کا ایک اور بھی پہلو ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر نے آج اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے قائداعظم محمد علی جناح کے سول سروس کے متعلق ایک بیان کو اجاگر کیا جس میں قائد نے سرکاری افسران کو باور کروایا تھا کہ وہ کسی کے ذاتی ملازم نہیں بلکہ ریاست اور عوام کے ملازم ہیں، اِس لئے کسی بھی دباؤ کو بالائے طاق رکھ کر عوام اور ریاست کے مفاد کیلئے کام کریں۔ پی پی پی سینیٹر نے لکھا کہ کراچی پولیس نے قائداعظم کے قول پر عمل کر کے مثال قائم کی۔ کراچی واقعہ کی حد تک تو یہ بات درست ہے لیکن کیا ہماری سول حکومتیں، ہمارے سیاستدان، ہمارے پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے دوست یہ بتانا پسند کریں گے کہ کیا اُنہوں نے قائداعظم کے اِس قول پر عمل کیا؟

پولیس، سول سروس اور سول حکومتوں کے ماتحت چلنے والے سرکاری ادارے بدترین حد تک سیاست زدہ ہیں۔ سرکاری افسران بشمول پولیس کو ذاتی ملازموں اور غلاموں کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے، کوئی سرکاری افسر کسی وزیر، مشیر یا حکومتی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ممبر پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا جائز و ناجائز حکم نہ مانے تو اُسے فوری تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ میرٹ نام کی کوئی شے نہیں۔ سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی پولیس اور سول سروس کو اپنی غلامی میں لینے کے لئے مشہور ہے۔ سول سروس کو سیاست زدہ کرنے میں ن لیگ کا بھی ٹریک ریکارڈ بہت خراب ہے جبکہ پی ٹی آئی کی موجودہ وفاقی حکومت اور بالخصوص پنجاب حکومت نے سرکاری مشینری کو سیاست زدہ کرنے کے تمام ریکارڈ توڑ دیے جس کی تازہ مثال سی سی پی او لاہور اور پنجاب کے آئی جی کی تعیناتی ہے۔ پنجاب کے ایک نہیں، دو نہیں بلکہ چھ چھ چیف سیکریٹری اور آئی جی تبدیل ہو چکے۔

پنجاب حکومت کے محکموں کے سیکریٹری چار چھ ماہ سے زیادہ ایک جگہ نہیں ٹکتے۔ کمشنر، ڈپنی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، سی پی اوز، ڈی پی اوز، آر پی اوز وغیرہ کو بھی بار بار ہر ضلع، ہر شہر میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت میں بھی حکمرانوں کی خواہش کی بنیاد پر ہی سرکاری افسران کسی جگہ ٹِک سکتے ہیں۔ میرٹ نام کی کسی شے کا ہمارے ہاں کوئی لینا دینا نہیں۔ میرٹ کا ذکر صرف پارٹی اور الیکشن منشور میں کیا جاتا ہے۔ جب عمل کا وقت آتا ہے تو ہماری سیاسی جماعتیں ایک سے بڑھ کے ایک سول سروس اور پولیس کو تباہ کرنے میں لگی رہتی ہیں۔ کراچی واقعہ پر ہمارے سیاست دانوں کو قائد کا قول یاد آ گیا، اچھی بات ہے لیکن ضرورت اِس امر کی ہے کہ وہ اِس اصول کو اپنے آپ پر بھی نافذ کریں۔  ایسا نہیں ہو سکتا کہ پولیس اور سول سروس کے معاملات میں اگر سیاستدان اور سول حکومتیں مداخلت کریں تو یہ مداخلت تو حلال تصور ہو گی لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایسا کیا جائے تو وہ حرام مداخلت ہو گی۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

لداخیوں کے ساتھ ہونے والا ہاتھ

بھارتی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں جموں کی ہندو اکثریت ریاستی تشخص کے خاتمے پر خوش ہے، وادیِ کشمیر کی مسلمان اکثریت ناخوش ہے اور لداخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے باشندے شروع میں تو خصوصی تشخص کے خاتمے پر خوش ہوئے۔ کیونکہ ان کے خیال میں سرینگر میں موجود روایتی کشمیری مسلمان حکمران اشرافیہ لداخیوں کو دور دراز خطے کے قبائلی سمجھ کر ان کی ترقی اور حقوق سے اغماز برتتی رہی ہے۔ لداخیوں کا خیال تھا کہ سرینگر سے جان چھوٹنے اور یونین ٹیرٹیری ( وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ) کی شکل میں براہِ راست دلی کی حکمرانی تلے آنے سے ان کے احساسِ محرومی کا ازالہ ہو جائے گا۔ چنانچہ گزشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا خیرمقدم کرتے ہوئے لداخ سے بی جے پی کے رکنِ پارلیمان جمیانگ سیرنگ نمگیال نے لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ لداخ کی پسماندگی کے ذمے دار آرٹیکل تین سو ستر اور کانگریس کا طویل دورِ حکومت ہے۔ اور اب لداخ کے لیے ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے۔

مگر اب ان پر کھل رہا ہے کہ حقوق تو پہلے سے بھی زیادہ دور ہو گئے ہیں۔ ماضی میں اگر مستقبل کے بارے میں کوئی امیدِ موہوم تھی تو اب وہ بھی نہیں رہی۔ لداخ کی بی جے پی شاخ کے سابق صدر چیرنگ ڈورگے نے مرکزی حکومت کی لداخ پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے گذرے مئی میں استعفیٰ دے دیا۔ چیرنگ کا کہنا ہے کہ خصوصی تشخص کو یقینی بنانے والے آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے اور غیر مقامی افراد پر مقامی املاک کی خریداری پر پابندی کا قانون آرٹیکل پینتیس اے منسوخ ہونے کے نتائج مقامی نسلوں کے لیے بھیانک ثابت ہوں گے اور اجنبیوں کی یلغار سے مقامی تشخص خاک میں ملتا چلا جائے گا۔ جیرنگ کا کہنا ہے کہ لداخ کی خودمختار ہل کونسل علاقے کی سرکاری زمین کی مالک تھی مگر وفاقی علاقہ بننے کے بعد یہ کونسل مکمل بے اختیار ہو گئی ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اب ہماری زمین ہم سے مشورہ کیے بغیر بیرونِ لداخ صنعت کاروں، کانکنی کی کمپنیوں اور فوج میں بانٹ دی جائے گی۔

ان خدشات کے سبب خود حکمران بی جے پی کے لداخ یونٹ نے گزشتہ ماہ ایک متفقہ قرار داد میں مقامی زمین، ثقافت ، ماحولیات، روزگار اور کاروباری حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی اقدامات کا مطالبہ کر دیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ یا تو لداخ کو بھارتی آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت لایا جائے جس میں قبائلی آبادی کو شناختی تحفظ حاصل ہے۔ ویسے بھی لداخ کی ستانوے فیصد آبادی قبائلی ہے۔ یا پھر آرٹیکل تین سو اکہتر کی چھتری دی جائے جس کے تحت شمال مشرقی بھارتی ریاستوں کی قبائلی آبادی کو معاشی و املاکی خود مختاری حاصل ہے۔ لداخ کے دارالحکومت لیہہ کی کئی چھوٹی سیاسی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے لداخ کو آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت تحفظ دینے کے مطالبے پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک مشترکہ اتحاد بھی قائم کر لیا ہے۔ لداخ سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار آٹھ سو فٹ بلند ہے۔ آبادی تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ خطہ دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ ضلع لیہہ میں بودھوں کی اور ضلع کرگل میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ لداخ بودھ اکثریتی علاقہ ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں مسلمان آبادی چھیالیس اعشاریہ چار فیصد ، بودھ آبادی انتالیس اعشاریہ سات فیصد اور ہندو آبادی بارہ اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ ایک جانب اگر لداخ کے ضلع لیہہ کی بودھ اکثریت آئینی تحفظات کے تحت وفاق کے زیرِ انتظام ریاست کشمیر سے الگ خطے کے طور پر رہنے کے حق میں ہے تو دوسری جانب ضلع کرگل کی مسلم اکثریت خود کو باقی کشمیر سے کاٹنے کے مرکزی حکومت کے انتظامی اقدامات کی شروع دن سے مخالف ہے۔ کرگل سے لوک سبھا کے سابق رکن اور خود مختار ضلع کونسل کے سابق سربراہ اصغر علی کربلائی کا کہنا ہے کہ ہمیں آئین کے چھٹے شیڈول یا مرکزی حکومت کے براہِ راست کنٹرول میں رہنا منظور نہیں۔ اگر مرکزی حکومت کو ہماری اتنی ہی فکر ہے تو پھر لداخ کو ایک مکمل بااختیار ریاست کا درجہ دیا جائے تاکہ لداخ کی مسلم اکثریت اور بودھ اقلیت کے حقوق کا مساوی تحفظ ہو سکے۔

اصغر علی کربلائی کا کہنا ہے کہ ہمیں خدشہ ہے کہ حکومتِ بھارت آر ایس ایس کے ایجنڈے کے تحت پوری کشمیری ریاست کی علاقے، مذہب اور زبان کے نام پر بندر بانٹ کر کے اس کے اجتماعی تاریخی تشخص کو دفن کرنا چاہتی ہے اور اس کے ملبے پر اپنی مرضی کی ثقافت ، تاریخ اور معیشت تھوپنا چاہتی ہے۔ کرگل میں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی مزاحمت کے لیے مقامی لوگوں نے پارٹی سیاست سے بالا ہو کر جو مشترکہ ایکشن کمیٹی بنائی ہے اس کے سیکریٹری ناصر منشی کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت صرف لیہہ کو پورا لداخ اور بودھ آبادی کو ہی لداخ کی نمایندہ سمجھتی ہے۔ جو بھی رہنما ، منتری یا اعلیٰ افسر لداخ آتا ہے وہ صرف لیہہ کا دورہ کر کے چلا جاتا ہے۔ کرگل کو مکمل نظرانداز کیا جاتا ہے۔ کوئی ہم سے نہیں پوچھتا کہ آخر ہم کرگل والے کیا چاہتے ہیں۔

سرینگر یونیورسٹی کے شعبہِ قانون کے سینئر استاد شیخ شوکت نے لداخیوں کے المیے کو یوں سمیٹا ہے کہ بھارتی ریاستی ڈھانچے کی جانب سے لداخ کے بودھوں کو ایک طویل عرصے سے بتدریج یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی جیسے وادیِ کشمیر والے ان کا استحصال کر رہے ہیں اور اس سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لداخ کا ناتا کشمیر سے ٹوٹ جائے۔ بقول پروفیسر شوکت لداخیوں کو پٹی پڑھائی گئی کہ ایک بار جب وہ وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ بن گئے تو وہ اپنی زمین کے مالک بن جائیں گے۔ مگر پچھلے ایک برس میں لداخیوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ مرکز کے زیرِ انتظام ہونے سے رہی سہی خودمختاری بھی مرکز کی جھولی میں گر گئی ہے اور جس علاقے کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اسے عملاً ٹھینگا بھی نہیں ملتا۔ اس اعتبار سے لداخیوں کے ساتھ جو ہاتھ ہوا ہے وہ باقی کشمیر کے ساتھ ہونے والے المیے سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ لداخ تاریخی اعتبار سے تبت کا حصہ رہا ہے۔ ان دنوں وہ بھارت چین مسلح کشیدگی کے سبب نہ صرف خبروں میں نمایاں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں اس کی جغرافیائی و سیاسی حیثیت اور حساس ہوتی چلی جائے گی۔ اگر لداخی بھارت سے خوش نہیں رہتے تو پھر اسٹرٹیجک اہمیت کا یہ علاقہ دلی حکومت کے لیے ایک تازہ دردِ سر بن سکتا ہے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بھارت کی نصف آبادی کورونا وائرس سے متاثر ہو جائیگی

بھارت میں کورونا کی پیشگوئی کے لیے قائم ایک سرکاری کمیٹی کا کہنا ہے کہ آئندہ فروری تک ملک کی کم از کم نصف تعداد کورونا وائرس کے انفیکشن کا شکار ہو جائے گی۔ کورونا وائرس سے تقریباً 76 لاکھ متاثرین کے ساتھ بھارت اس عالمگیر وبا سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ بھارت میں متاثرین کی تعداد 76 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے جب کہ اب تک ایک لاکھ 15 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بہر حال بھارت میں ستمبر کے وسط میں اپنے عروج کے پہنچنے کے بعد سے کورونا وائرس کے نئے کیسز کی یومیہ تعداد میں اب گراوٹ آرہی ہے۔ ستمبر کے وسط میں ہر روز 90 ہزار سے زائد کیسز سامنے آرہے تھے لیکن اب یہ تعداد اوسطاً 61390 ہو گئی ہے۔ بھارت میں کورونا کی پیشین گوئی کے لیے قائم کردہ سرکاری کمیٹی کے ایک رکن، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کانپور کے پروفیسر منیندر اگروال کے مطابق ”ریاضی کے ماڈل کے اندازے کے مطابق اس وقت ملک کی تقریباً 30 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہے اور یہ فروری تک 50 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

کمیٹی کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کی موجودہ تعداد مرکزی حکومت کے سیرولوجیکل سروے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مرکزی حکومت کی رپورٹ کے مطابق ستمبر تک ملک کی آبادی کے صرف تقریباً 14 فیصد لوگ ہی اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ پروفیسر اگروال کا کہنا ہے کہ سیرولوجیکل سروے کی بنیاد پر جو اعداد و شمار بتائے گئے ہیں وہ غالباً اس لیے درست نہیں ہیں کیوں کہ بھارت کی ایک ارب 30 کروڑ کی بہت بڑی آبادی کے ایک بہت چھوٹے حصے کو سروے میں شامل کیا گیا تھا۔ اس لیے اس کے بجائے وائرولوجسٹوں، سائنس دانوں اور دیگر ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے کورونا انفیکشن سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کے متعلق پیشن گوئی کے لیے میتھ میٹیکل ماڈل کو اختیار کیا۔

احتیاط نہیں تو تعداد بڑھے گی
پروفیسر اگروال نے بتایا ”ہم نے ایک نیا ماڈل اپنایا جس میں ان کیسز کا حساب بھی رکھا جاتا ہے جن کی رپورٹ درج نہیں کی گئی۔ اس لیے ہم متاثرہ افراد کو دو زمروں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ وہ جن کے بارے میں رپورٹ کی گئی اور وہ جن کے متاثر ہونے کی رپورٹ درج نہیں کی گئی۔” کمیٹی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیے گئے تو متاثرین کی تعداد کے بارے میں جو پیشین گوئی کی ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور اگر سوشل ڈسٹینسنگ اور ماسک پہننے جیسے ضابطوں کو نظر انداز کیا گیا تو صرف ایک ماہ میں متاثرین کی تعداد 26 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ ماہرین نے پہلے بھی متنبہ کیا تھا کہ رواں مہینے اور اگلے ماہ ہونے والے درگا پوجا اور دیوالی جیسے تہواروں کے موسم کی وجہ سے متاثرین کی تعداد میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

دفاع اور معیشت کی کمزوری کے باعث بھارت طاقتور ممالک کی صف سے باہر ہو گیا

عالمی ادارے کے سروے میں بھارت کو ایشیا پیسفک کے چار بڑے ممالک میں شامل ہونے کے باوجود بڑی طاقتوں کی صف سے باہر ہو گیا۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلیا میں قائم بین الاقوامی ادارے لوئی انسٹی ٹیوٹ نے 2020 کے لیے ایشیا کا پاؤر انڈیکس جاری کیا ہے جس میں بھارت نے گزشتہ برس کے مقابلے میں 40 پوائنٹ کم حاصل کیے ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ آبادی کے اعتبار سے خطے کا دوسرا بڑا ملک اب ایشیا پیسفک میں درمیانے درجے کی طاقت بن چکا ہے ۔ کورونا وائرس کے باعث خطے میں سب سے زیادہ بھارت کی ترقی کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خظے میں آبادی و دیگر حالات کے اعتبار سے بھارت چین کا مقابلہ کر سکتا ہے لیکن بدلتی صورت حال میں بھارت چین کے آس پاس بھی پہینچ جائے اس کا امکان نظر نہیں آتا۔

اس سے قبل یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ آئندہ ایک دہائی میں بھارت چین کی معاشی ترقی کے پچاس فیصد کے برابر آجائے گا تاہم موجودہ حالات میں اب چالیس فی صد کی حد عبور کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ لوئی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بھارت نے اپنے سفارتی اثر و رسوخ میں ضرور اضافہ کیا ہے تاہم دفاعی نیٹ ورک اور اقتصادی تعلقات کے دو ایسے پیمانے ہیں جن پر بھارت کی کارکردگی نیچے آئی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں خطے پر بھارتی اثر رسوخ میں بھی کمی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جس ک مطابق ماضی میں بھارت کے زیر اثر نیپال میں اب چین اس سے کئی گنا زیادہ بارسوخ ہو چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو اپنے حالات کا جائزہ لینا چاہتا ہے اور اگر اسے سپر پاور بننے کی خواہش ہے تو دہائیوں تک محنت کرنے کے بعد بھی یہ ہدف حاصل کرنا سہل نہیں ہو گا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز