ہم چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کی لڑائی میں ہار رہے ہیں

اقوام متحدہ نے نکشاف کیا ہے کہ دنیا میں دو دہائیوں میں پہلی بار چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا ہے اور کورونا بحران کی وجہ سے مزید کروڑوں بچے اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم یونسیف کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2020 کے آغاز میں چائلڈ لیبر کی تعداد 16 کروڑ ہو چکی ہے جس میں گذشتہ چار سالوں میں آٹھ کروڑ 40 لاکھ بچوں کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس تعداد میں اضافے کا آغاز وبا سے پہلے ہو چکا تھا اور اس میں کمی کے رحجان میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی آئی ہے جس میں سنہ 2000 سے 2016 تک چائلڈ لیبر کی تعداد کم ہو کر نو کروڑ 40 لاکھ ہو گئی تھی۔

جیسے جیسے کورونا بحران میں اضافہ ہوتا گیا پوری دنیا میں 10 میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر میں پھنستا گیا، جس سے سب سے زیادہ افریقہ کا خطہ متاثر ہوا۔  دونوں ایجنسیوں کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی شرح سنہ 2016 جتنی ہی ہے لیکن آبادی میں اضافے کا مطلب ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور وبا کا خطرہ صورتحال کو بہت زیادہ خراب کر رہا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر تیزی سے بڑھتے غریب خاندانوں کی فوری امداد کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو اگلے دو سالوں میں تقریباً مزید پانچ کروڑ بچے چائلڈ لیبر کے لیے مجبور ہو جائیں گے۔ اس صورتحال کے حوالے یونیسف کی چیف ہنریٹا فور نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کی لڑائی میں ہار رہے ہیں۔‘

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’کورونا بحران نے ایک خراب صورتحال کو بدترین بنا دیا ہے۔‘ ’اب عالمی سطح پر لاک ڈاؤن، سکولوں کی بندش، معاشی رکاوٹوں اور سکڑتے ہوئے قومی بجٹ کے دوسرے سال میں خاندان دل توڑ دینے والا انتخاب پر مجبور ہیں۔‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر وبا کے باعث غربت کے حالیہ تخمینوں میں اضافہ ہوتا ہے تو سنہ 2022 کے آخر تک مزید 90 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں دھکیلے جائیں گے۔ تاہم یونیسف کی شماریات کی ماہر کلاڈیا کیپا کے مطابق اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تعداد ممکنہ طور پر پانچ گنا سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کفایت شعاری کے اقدامات اور دوسرے عوامل کی وجہ سے معاشرتی تحفظ موجودہ سطح سے نیچے آ جاتا ہے تو آئندہ آنے والے سال کے آخر تک چائلڈ لیبر کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد چار کروڑ 60 لاکھ تک بڑھ سکتی ہے۔‘ ہر چار سال بعد شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چائلڈ لیبر کی مجموعی عالمی تعداد میں آدھے بچوں کی عمریں پانچ سے 11 سال تک ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

افغانستان ۔ جادہِ امن پر

کابل میں قائم افغان حکومت روزِ اول سے ہی پاکستان کے بارے میں مخاصمانہ اور معاندانہ جذبات رکھتی رہی ہے۔ ہمارے مغرب میں واقع اس برادر اسلامی ملک نے ہمارے ساتھ ہمیشہ علانیہ اور غیرعلانیہ ضرر رساں رویہ اپنائے رکھا ہے جبکہ ہم نے اس کے برعکس ہمیشہ برداشت، درگزر اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہر چند اس میں ہمیں نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان میں اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد جنرل محمد ضیاء الحق نے افغانستان کی جانب دوستی اور بھائی چارے کا ہاتھ بڑھایا اور اس کے لئے مخلصانہ کوششوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے سردار دائود کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی جسے افغان صدر نے خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے 1978 میں پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا۔ اس دورے سے وہ بہت خوش اور متاثر ہوئے۔ اُن پر عیاں ہو گیا کہ کمیونزم کا طوق پہنے رکھنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی اسلامی روایات کی طرف توجہ دی جائے۔ دونوں صدور نے پورے خلوص کے ساتھ برادرانہ برابری پر مبنی تعلقات استوار کرنے کی بنیاد رکھی۔

دسمبر 1979 میں سوویت یونین نے فوج کشی کرتے ہوئے تقریباً ایک لاکھ فوج افغانستان میں داخل کر دی۔ ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ فوجی قبضہ فروری 1989 تک جاری رہا۔ اس قبضے کے خلاف افغان عوام نے مسلح مزاحمت شروع کر دی جو جلد ہی ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر گئی۔ اس صورتِ حال نے پاکستان اور ایران بلکہ ساری آزاد دنیا کے امن کو خدشات سے دو چار کر دیا بالخصوص پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے۔ کئی ممالک خصوصاً اسلامی ممالک اور پاکستان نے افغان عوام کی جدوجہد کی بھر پور حمایت اور امداد کا اعلان کر دیا۔ مسئلہ افغانستان جب ایک عالمی مسئلے کے طور پر دنیا کے سامنے آیا تو آزاد دنیا نے اس مسلح جدوجہد میں افغان عوام کا  بھرپور ساتھ دیا، خصوصاً امریکہ نے اسلحہ اور گولہ بارود کی مد میں کھل کر افغان مجاہدین کو فوجی امداد فراہم کی۔ اس سارے کھیل میں روسی افواج کا بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ سوویت یونین شکست سے دو چار ہوا۔ سوویت یونین کے صدر گوربا چوف نے افغان مسئلے کو ’’پیپ زدہ زخم‘‘ قرار دیا اور فوجی انخلا پر راضی ہو گیا۔

پاکستان کو ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت سے بے پناہ جانی و مالی نقصان اور سفارتی دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔ سوویت یونین نے پاکستان کو ایک دشمن ملک گردانتے ہوئے انتہائی برے نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیں اور پاکستان کو سلامتی کے خدشات سے دو چار کر دیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان اور سوویت یونین کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔ سوویت یونین کسی طرح کے بھی کسی سفارتی تعلقات قائم کرنے اور افغان مسئلہ کے حل پر تیار نہ تھا۔ ایسی کسی بھی کوشش کو وہ ہمیشہ مسترد کر دیتا او ر اُس کا مؤقف تھا افغانستان کی صورتِ حال کو زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا اور اس بات پر زور دیتا ا کہ اگر بات چیت ہو سکتی ہے تو صرف ’’ افغانستان کے ارد گرد کی صورتِ حال‘‘ پر کوئی بات چیت ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ پاکستان اور ایران کو مجاہدین کی امداد سے باز رکھنا اور افغانستان میں اپنا فوجی تسلط مستحکم کرنے کا خواہاں تھا۔

اس عرصہ میں پاکستان میں جونیجو حکومت قائم ہو چکی تھی۔ افغانستان میں سوویت یونین افواج کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور وہ افغانستان سے مکمل انخلا کے لئے جلد سے جلد بے تاب تھیں جس کے لئے کسی امن معاہدہ کی ضرورت تھی۔ اسی طرح واشنگٹن بھی جلد سے جلد سوویت یونین افواج کا انخلا چاہتا تھا۔ تاہم پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق ایسے کسی فوری معاہدے کو روبہ عمل لانے میں متامل تھے جس سے افغانستان میں مزید خونریزی اور عدمِ استحکام سے بچنے کے لئے کوئی دیرپا اور مؤثر ضمانت نہ ہو۔ ورنہ پاکستان میں بھی خون ریزی، افغان مہاجرین کی آمد اور اقتصادی نقصان کا اندیشہ تھا۔ انہوں نے حکومت کو صبر سے کام لینے اور کسی جلد بازی سے گریز کا مشورہ دیا مگر افسوس کہ اُن کے ایسے مشوروں کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ یہ تزویراتی گہرائی کی حکمتِ عملی کے برعکس ایک فاش غلطی تھی جس کے برے اثرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

ستمبر گیارہ کے بعد سے اب تک ہم تقریباً 80 ہزار جانیں قربان کر چکے ہیں اور لاکھوں کروڑوں ڈالر کا اقتصادی نقصان برداشت کر چکے ہیں۔ شکست خوردہ روسی فوج کے نقشِ قدم پر اب امریکی فوج اور اس کے اتحادی شکست سے دو چار ہو چکے ہیں۔ امریکی افواج بھی جلد بازی میں ستمبر تک افغانستان سے مکمل انحلاء چاہتی ہیں۔ کابل میں کسی متبادل حکومت سازی کا کٹھن مرحلہ طے کرنا ابھی باقی ہے۔ ایسی مستحکم وسیع البنیاد اکثریتی حکومت جو اس خلا کو پر کر سکے اورجو اس انخلا کا لازمی نتیجہ ہے اور جس کی تکمیل کے لئے نہایت قلیل عرصہ باقی رہ گیا ہے، نہایت ضروری ہے۔ تاریخ ہمیں ایک بار پھراُسی دوراہے پر لے آئی ہے جب جنیوا معاہدے میں ہم سے گہری تزویراتی غلطی سر زرد ہوئی اور ہم بے پناہ مسائل اور مصائب میں گھِر گئے۔ اب ایسی غلطی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ایسے میں ہمیں بلکہ پوری دنیا کو دور اندیشانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔

اس وقت کیے گئے فیصلوں کے اثرات بہت دیر اور بہت دور تک بھگتنا ہوں گے۔ ہمیں اپنے رہنمائوں کی اہلیت، بالغ نظری اور دور اندیشی کی صلاحیت پر مکمل اعتماد ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس وقت قومی مفاد میں کئے گئے اقدامات اور فیصلے ہمارے بنیادی مفادات کا مکمل تحفظ کریں گے اور ہمیں وہ فوائد حاصل ہوں گے جن سے ہم جنیوا معاہدے کے وقت محروم کر دیے گئے تھے۔ پاکستان اپنے دائیں اور بائیں بیٹھے دو دشمنوں سے نہ ہی صَرفِ نظر کر سکتا ہے نہ ہی اپنے بنیادی قومی مفادات سے دستبردار ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا سمجھوتہ کر سکتا ہے۔ ’’تزویراتی گہرائی‘‘ یا Strategic Depth کی بامعنی تشریح جس کی ہمیں اس وقت از حد اور اشد ضرورت ہے۔

محمد اعجاز الحق
(صاحبِ تحریر پاکستان مسلم لیگ ضیاء الحق (شہید) کےصدر ہیں)

بشکریہ روزنامہ جنگ

سول اداروں کو کیسے مضبوط بنایا جائے؟

قومی اسمبلی میں بجٹ مباحثے کے پہلے تین دن ایوان میں ہنگامہ آرائی ہوتی رہی۔ کچھ ارکان نے گالی گلوچ کیا اور بجٹ کی بھاری دستاویزات کو ایک دوسرے پر اچھالا۔ اپوزیشن نے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں خلل ڈالنے کیلئے ڈیسک بجائے اور نعرے بازی میں مصروف رہی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں تین دن رکاوٹ کے بعد‘ حکومت اور اپوزیشن کے رہنما ایک ساتھ بیٹھے اور انہوں نے منظم انداز میں بجٹ اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔ اس تفہیم کے بعد فریقین نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس منظم انداز میں آگے بڑھا۔ مذکورہ پیشرفت سے پتا چلتا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں چاہیں تو پُرامن اور منظم انداز میں پارلیمانی اجلاس منعقد ہو سکتا ہے۔ رکاوٹیں ایک شعوری پالیسی کے تحت کھڑی کی جاتی ہیں اور اکثر‘ پارٹی کی اعلیٰ قیادت ان اراکین کی تعریف کرتی ہے جو سیاسی حریفوں کی تقاریر میں خلل ڈالتے ہیں۔

پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اور پارلیمانی کمیٹیوں میں سیاسی رہنماؤں کا طرزِ عمل سیاسی اداروں کی کلیدی کامیابیوں اور ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو 1988 سے 1999ء اور پھر 2008ء سے لے کر آج تک جو سیاسی تجربہ ہوا‘ اس سے سبق سیکھنا چاہئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ گستاخانہ رویہ‘ پارلیمنٹ کے اصولوں کا احترام کرنے سے انکار اور پارلیمنٹ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی سے ان کے طویل مدتی مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ سب اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے کیونکہ ایسی سرگرمیاں نہ صرف ان کی اپنی ساکھ کو مجروح کرتی ہیں بلکہ منتخب سیاسی اداروں کے کردار کو بھی کمزور کرتی ہیں۔ اگر سیاسی قائدین منتخب سیاسی اداروں کی اولیت کو برقرار رکھنا اور غیر منتخب اداروں کے کردار کو محدود کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کم از کم دو بنیادی امور پر توجہ دینا ہو گی: اول‘ انہیں اقتدار کے حصول کی بے قابو جدوجہد ترک کرنا ہو گی اور سیاسی مخالف کو سیاست سے ناک آئوٹ کرنے کی خواہش پر قابو پانا ہو گا۔

انہیں مہذب برتاؤ کرنا چاہئے اور سیاسی امور طے کرتے اور اپنے سیاسی حریف کے بارے میں تبصرے کرتے ہوئے خود پر قابو رکھنا چاہئے۔ ایوان میں پوسٹر آویزاں کرنا یا ایوان میں بستر یا چارپائی لانا‘ جیسا کہ 28 جون 2021ء کو سندھ اسمبلی میں ہوا تھا‘ غیر ذمہ دارانہ حرکات ہیں۔ انہیں اہم قومی امور پر اور پارلیمنٹ میں معاملات چلانے پر کم سے کم اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے طرز ِعمل سے یہ ظاہر کرنا چاہئے کہ وہ پارلیمانی اصولوں کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھتے ہیں۔ دوم‘ بڑی سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ کو قانون سازی کے ایک مؤثر ادارے میں تبدیل کرنا چاہئے۔ وہاں پیش کردہ بلز کی ایوان اور کمیٹیوں میں اچھی طرح جانچ ہونی چاہئے۔ پارلیمنٹ کو تنازعات کے حل کیلئے ایک فورم کے طور پر بھی کام کرنا چاہئے۔

اسے مسابقتی سیاسی جماعتوں کے درمیان معاملات طے کرنے کیلئے سیاسی میکانزم تیار کرنے چاہئیں اور انہیں وفاقی اور صوبائی حکام کے مابین پیدا ہونے والے معاملات کو بھی آئین کے دائرۂ کار کے اندر رہ کر حل کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کو محض لوگوں کی ضروریات اور خواہشات کی عکاسی نہیں کرنی چاہئے‘ بلکہ اسے قانون سازی اور حکومت کی رہنمائی کے ذریعے یہ مظاہرہ بھی کرنا چاہئے کہ وہ معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی کوشش اور عام لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما مذکورہ بالا معاملات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پارلیمانی امور میں نظم و نسق قائم کر سکیں تو اس سے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں‘ دونوں کے کردار کو تقویت ملے گی۔ اس سے سیاسی رہنماؤں کا احترام بڑھے گا اور عوام سیاسی اداروں اور سیاسی عمل کے ساتھ مضبوط روابط بھی استوار کریں گے۔

اگر عام لوگ سیاسی اداروں سے قریبی طور پر جڑے ہوئے ہوں اور اپنے رہنماؤں کا احترام کرتے ہوں تو سویلین ادارے مضبوط ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سویلین اداروں اور سویلین عمل کیلئے یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی اولین حیثیت برقرار رکھیں۔ اگر سیاسی رہنما سیاسی معاملات کو طے اور باہمی اختلافات کو حل کرنے کیلئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو سیاسی دائرۂ کار میں عدلیہ کا کردار بڑھ جاتا ہے۔ سیاسی مسائل بنیادی طور پر سیاسی اداروں‘ جیسے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح‘ آرمی کو ان کاموں کو سرانجام دینے کیلئے بلانے‘ جو سویلین اداروں کو سنبھالنے چاہئیں‘ کا عمل سول اداروں کے کردار کو کمزور کرتا اور فوج کے سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھاتا ہے۔ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ سیلاب‘ طوفان‘ زلزلے جیسی بڑی قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے فوج کو طلب کیا جاتا ہے‘ لیکن عام سرکاری کام کیلئے فوجی حکام کو نہیں بلایا جانا چاہئے۔

اس طرح کی کچھ مثالیں بجلی کی میٹر ریڈنگ‘ قومی مردم شماری‘ سیاسی احتجاج کے نتیجے میں پیدا ہونے والی امن و امان کی صور تحال‘ گھوسٹ سکولوں کا پتا لگانا‘ کسی بڑی عمارت کے گرنے کے بعد ملبے کو ہٹانا‘ عام انتخابات اور محرم کے موقع پر سکیورٹی کے فرائض‘ شاہراہوں کی مرمت و تعمیر‘ اور شہری سہولتوں کی فراہمی وغیرہ ہیں۔ سویلین کاموں کیلئے فوج پر سویلین حکومت کا بار بار انحصار سویلین اداروں کی کمیوں اور خامیوں کو ظاہر کرتا ہے اور اداروں کو اپنا کردار بڑھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں‘ سویلین رہنماؤں اور سویلین اداروں کو گڈ گورننس اور سیاسی مسئلے کے حل کیلئے ایک موثر سویلین فریم ورک تشکیل دینا چاہئے۔ ترکی اور انڈونیشیا کا تجربہ بتاتا ہے کہ شہری ادارے اور رہنما اپنی بہتر کارکردگی اور لوگوں کو بنیادی خدمات کی فراہمی کے ذریعے سیاسی نظام میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کر سکتے ہیں۔

کسی ملک کی معیشت سویلین اداروں کی کامیابی کی کلید ہوتی ہے۔ ترکی میں موجودہ حکمران پارٹی اے کے پی 2002ء میں برسرِ اقتدار آئی تھی۔ تب سے ترک حکومت معیشت میں بہتری لائی ہے۔ معیشت کو سنبھالنے سے حکومت کو لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں مدد ملی جس نے سویلین حکومت کی پوزیشن کو مستحکم کیا۔ ترقی پذیر ممالک میں گڈ گورننس اور مؤثر سیاسی نظم و نسق کو یقینی بنائے بغیر سویلین اولیت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ سویلین اداروں کو اپنی کارکردگی اور لوگوں کو بنیادی خدمات کی فراہمی کے ذریعے عام لوگوں سے تعلق پیدا کرنا چاہئے۔ سیاسی اداروں اور سیاسی عمل سے لوگوں کی وفاداری جتنی زیادہ ہو گی سویلین اور سیاسی ادارے اتنے ہی مضبوط ہوں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کردار بھی اہم ہے۔ اگر حکمران جماعت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ استوار کریں‘ سیاسی نظام کو چلانے کیلئے کم از کم ضروری اتفاقِ رائے پیدا کریں‘ ایک دوسرے کو برداشت کریں یا ایک دوسرے کا احترام کریں تو سویلین ادارے مضبوط ہو جائیں گے۔

اگر حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتیں ہمیشہ ایک دوسرے کے گلے کی پھانس بنی رہیں اور ایک دوسرے کو جائز کھلاڑی کے طور پر قبول نہ کریں تو سیاست غیر یقینی اور عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔ بجٹ اجلاس کے بعد‘ پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے انتخابی اصلاحات کی امید ہے۔ یہ ایک امتحان ہو گا۔ اگر وہ قومی اہمیت کے حامل اس مسئلے پر متفق ہو سکیں‘ اگر وہ ہم آہنگی سے کام کریں گے تو سیاسی نظام میں ان کے کردار کو تقویت ملے گی۔ مستحکم اور ہم آہنگی والی سیاست معاشی ترقی کے امکانات کو بھی بہتر بناتی ہے جس کے نتیجے میں منتخب سویلین اداروں کیلئے سیاسی نظام میں اہم کردار ادا کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر حسن عسکری رضوی

بشکریہ دنیا نیوز

پاک امریکہ تعلقات

پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ فوجی تعاون کی تاریخ 70 برس پر محیط ہے۔ پاکستان نے سرد جنگ کے زمانے میں پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کا فضائی اڈہ مبینہ طور پر امریکہ کو استعمال کے لئے دیا تھا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ تعاون کیلئے مختلف بیسز امریکی فوج کے زیر استعمال رہیں جن میں بلوچستان میں قائم شمسی ائیر بیس سب سے زیادہ استعمال ہوتی رہی۔ اس بیس سے افغانستان میں مختلف حملوں کیلئے امریکی جنگی طیارے اڑان بھرتے تھے۔ اس کے علاوہ جیکب آباد کا شہباز ائیر بیس بھی امریکہ کے استعمال میں تھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق راولپنڈی کے چکلالہ ائیر بیس پر بھی پاک فوج کا انتظامی امور کے حوالے سے امریکی حکام کے ساتھ تعاون جاری رہا۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد امریکہ سے شمسی ایئر بیس خالی کروا لیا گیا تھا۔

پاکستان امریکہ تعلقات مختلف مسائل کی وجہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ خواہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ہوں یا افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار، جوبائیڈن انتظامیہ کی طرف سے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے کوئی باضابطہ پالیسی سامنے نہیں آئی لیکن دوسری طرف امریکہ کی موجودہ انتظامیہ افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہتی نظر آ رہی ہے۔ ایک بار پھر پاکستان اور امریکہ کے مابین سرکاری اور بیک ڈور رابطے بڑھ گئے ہیں۔ بعض حلقے اسے افغان امن عمل میں بہترین کردار ادا کرنے کی وجہ قرار دے رہے ہیں تو کسی کے نزدیک امریکہ افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان میں فوجی اڈے بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اسے زمینی اور فضائی رسائی دے گا۔

امریکی وزیر دفاع برائے انڈو پیسفک ڈیوڈ ہیلوے نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ افغانستان کے لئے پاکستان امریکہ کی ہر طرح سے تعاون اور مدد جاری رکھے گا تاہم پاکستانی حکام اس دعوے کو مسترد کرتے نظر آرہے ہیں۔ صدر عارف علوی نے ایک انٹرویو میں کسی بھی طرح کے فوجی اڈے دینے سے انکار کیا۔  میڈیا پر بحث کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی سختی سے تردید کر دی کہ ہم امریکہ کو اڈے دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد نان اسٹیٹ ایکٹرز اور افغانستان میں موجود طالبان پاکستان میں گھس سکتے ہیں جس سے پاکستان کو سیکورٹی خطرات لاحق ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو سیکورٹی کے لئے امریکہ کی مدد درکار ہو گی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کے لئے مشکل صورت حال ہے کیونکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خطرات سے بھی ڈرایا جارہا ہے جبکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پروگرام میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ فیصلہ کر چکی کہ 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔ ممکنہ طور پر یہ عمل مقررہ تاریخ سے قبل مکمل ہو جائے گا لیکن پینٹا گون و امریکی سی آئی اے جو افغانستان سے انخلا نہیں چاہتے، انہیں چین، ایران، وسط ایشیائی مسلم اکثریتی ممالک اور روس کی نگرانی کے لئے ائیر بیس و فوجی اڈوں کی ضرورت ہے، گو کہ ملکی مفاد کا کہہ کر اس سے قبل کی حکومتوں نے امریکی مفاد کا خیال رکھا، تاہم فی الوقت تو موجودہ حکومت ’سختی‘ سے اپنے ارادے پر قائم ہے کہ ائیر بیس دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ایسا فیصلہ کیا جائے گا۔ تاہم خدشات تو بہرحال موجود ہیں کہ ایسی پالیسیاں خفیہ طور پر نافذ کی جاتی رہیں، جن کا علم کئی برسوں بعد قوم کو ہوا۔ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈورن حملوں کیلئے ملکی ائیر بیس کے استعمال سے عوام اُس وقت تک لاعلم رہے جب تک ایک واقعے میں پاکستانی فورسز کو نشانہ بنایا گیا اور ریاست نے سخت ردعمل کے بعد شمسی ائیر بیس خالی کرا لیا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ افغانستان میں امن کے شراکت دار تو ہو سکتے ہیں لیکن جنگ میں شامل نہیں ہو سکتے۔ امریکی جنگ میں شامل ہونا ہماری حماقت تھی۔ ضروری ہے کہ عالمی قوتیں کمزور حکومتوں کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں، ہر ملک کا معاملہ اس کا اپنا ہوتا ہے، کسی عالمی قوت کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اپنی تیار کردہ رپورٹس کی بنیاد پر کسی بھی ملک پر چڑھائی کرتا پھرے، معاملات میں بگاڑ اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب طاقت ور کمزور کو نگلنے کی کوشش کرتا ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کا آنا اور قبضے کی خواہش نے اُ ن سیاسی لیڈروں کو افغان قوم کے سامنے شرمندہ کیا جن کی وجہ سے سوویت یونین کو جارحیت کا موقع ملا لیکن اس سے ہوا کیا؟ بالآخر سوویت یونین ایسا فرار ہوا کہ اس کا وجود ہی مٹ گیا۔

امریکہ سوویت یونین کے خلاف یہ جنگ جیت تو گیا لیکن اُس نے بھی وہی غلطی کردی، جو سوویت یونین کر چکا تھا، اس کا خمیازہ بھی امریکہ کو بھاری مالی نقصان کی صورت میں اٹھانا پڑا۔ اس کے کون سے عالمی مفادات پورے ہوئے، اس پر یقینی طور پر خود امریکی انتظامیہ بھی فخر نہیں کر سکتی، اسامہ کی گرفتاری کے چکر میں کھربوں ڈالرز جنگ میں جھونک ڈالے اور اب بھی پریشان ہے کہ اگر افغانستان میں ایسا ہو گیا تو کیا ہو گا، ویسا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ لے دے کہ اس خطے میں پاکستان امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بنا اور پھر عالمی قوتوں کی غلط پالیسیوں کے مضمرات کی وجہ سے وطنِ عزیز کو بھی شدید مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ آخر میں وزیراعظم عمران خان کو بتاتا چلوں کہ امریکہ کی ناراضی ہمیشہ نقصان دہ رہی ہے۔ بھٹو کے بعد عمران خان دوسرے سیاست دان ہیں جنہوں نے امریکہ کو آنکھیں دکھا کر انکار کیا ہے، میرا اشارہ قوم سمجھ گئی ہو گی۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ

شاہراہ ریشم، ایک عجوبہ جسے مغربی انجینئرز نہ بنا سکے

پاکستان اور چین کے درمیان لازوال دوستی ہے اور اس دوستی کی ایک مثال شاہراہ قراقرم ہے، اسے دوستی کی شاہراہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ ہے! کہیں دلکش تو کہیں پراسرار، کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی، کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !! شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966ء میں ہوا اور تکمیل 1979ء میں ہوئی۔ اس کی کُل لمبائی 1300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، داسو، چلاس، جگلوٹ، گلگت، ہنزہ نگر، سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چین میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔

اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت، شدید برف باری اور لینڈ سلائیڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔ اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 3 کروڑ میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔ شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں تھاکوٹ تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔ تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مڑ جاتا ہے۔

تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جو کہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے کورونا سے قبل فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی تھیں۔ رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت، دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہو جاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور، دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔

جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔ جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی، سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر، اشکومن، غذر اور شندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔ گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیو ہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نہ دباتا ہو۔ ”پاسو کونز‘‘ اس بات کی بہترین مثال ہے۔

ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں، گلیشیئرز، آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی، التر، بتورہ، کنیانگ کش، دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔ عطا آباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔ سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔ سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد، دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کی بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکو پولو بھیڑیں، برفانی چیتے، مارموٹ، ریچھ، یاک، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔ اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔ اس سڑک پر آپ کو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں، دریاؤں کی بہتات، آبشاریں، چراگاہیں اور گلیشیئرز سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے بلکہ یہ پاک چین دوستی کی اعلیٰ مثال ہے ۔

طیب رضا عابدی

بشکریہ دنیا نیوز

بگرام اڈہ بیرونی طاقتوں کی قوت کی علامت : روس نے کس حال میں چھوڑا، امریکہ کیسے جا رہا ہے؟

بگرام کا فوجی اڈہ افغانستان کے اندر تقریباً 20 سال کے لیے امریکی فوجی طاقت کا مرکز رہا ہے۔ باڑ اور دھماکوں سے بچاؤ کے لیے بنائی گئی دیواروں کے پیچھے پھیلا یہ شہر کابل سے ایک گھنٹے کی مسافت پر شمال میں واقع ہے۔ ابتدائی طور پر یہ اڈہ نائن الیون کے دہشت گرد حملے کے انتقام کی نشانی تھا، بعد میں یہ طالبان کے خلاف لڑائی میں ایک اہم اڈے کے طور پر سامنے آیا۔ کچھ ہی دنوں میں امریکی فوجی بگرام کا اڈہ خالی کر کے چلے جائیں گے۔ اینڈریو واٹکنز، برسلز میں قائم انٹرنیشنل کرائیسز گروپ سے وابستہ سینئر تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بگرام ایک بڑی تنصبیاب والا فوجی اڈہ بن گیا تھا۔ اس طرح کے کچھ اور اڈے افغانستان اور عراق میں تھے۔ یہ اڈہ ’’ مشن کریپ‘‘ کی علامت تھا‘‘۔ امریکہ کی سینٹرل کمان نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ وہ بگرام سے سامان سمیٹنے کا 50 فیصد کام مکمل کر چکے ہیں اور باقی کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔

امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی انخلا غالب امکان ہے کہ چار جولائی تک مکمل ہو جائے۔ جس کے بعد افغانستان کی سیکیورٹی فورسز اس اڈے کا انتظام سنبھال لیں گی اور طالبان کے خلاف لڑائی میں اسے کام میں لائیں گی۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان اور افغانستان کی فورسز کی لڑائی ایک نئی غیر یقینی صورت حال کو جنم دے گی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک تفصیلی رپورٹ میں اس ہوائی اڈے کی سرد جنگ کے زمانے سے لے کر آج تک اہمیت اور یہاں مختلف ادوار میں آنے والے نشیب و فراز کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس انخلا کی بھی ایک علامتی اہمیت ہے۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان پر حملہ آور قوت یہاں آئی ہے اور بگرام کے راستے واپس گئی ہے۔ سوویت یونین نے 1950 کی دہائی میں یہاں فضائی اڈہ قائم کیا۔ جب اس نے 1979 میں ایک کمیونسٹ حکومت کی مدد کے لیے افغانستان پر حملہ کیا۔ یہ اڈہ ملک کے اندر اپنے قبضے کے دفاع کے لیے مرکزی اڈہ بن گیا۔

دس سال تک روس کی فوج نے امریکی حمایت یافتہ مجاہدین کے خلاف، جنہیں صدر رونلڈ ریگن نے ’فریڈم فائٹرز‘ کا نام دیا تھا، لڑائی جاری رکھی۔ صدر ریگن انہیں سرد جنگ کے آخری معرکے میں اگلے مورچوں کی فورس کے طور پر دیکھتے تھے۔ سوویت یونین نے 1989 میں اپنے انخلا پر مذاکرات کیے۔ تین سال کے بعد ماسکو حکومت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور مجاہدین نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایک دوسرے پر اسلحہ تان لیا اور ہزاروں عام شہری اس خانہ جنگی میں ہلاک ہو گئے۔ اس تنزلی کے عالم میں طالبان اقتدار میں آ گئے جنہوں نے 1996 میں کابل کو فتح کر لیا۔ سال 2001 میں جب امریکہ اور نیٹو فورسز نے بگرام کا کنٹرول سنبھالا، یہ ایک تباہ حال عمارتوں کا مجموعہ تھا۔ راکٹوں اور شیلوں نے اس کی زیادہ تر حفاظتی باڑوں اور دیواروں کو توڑ پھوڑ کا شکار کر رکھا تھا۔

طالبان کے ساتھ لڑائی کے بعد مجاہدین جنگی سرداروں کے واپس اپنے شمالی غاروں میں جانے کے بعد یہ اڈہ کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ طالبان کو کابل سے نکالنے کے بعد امریکہ کی قیادت والے اتحاد نے اپنے اتحادی جنگی سرداروں کے ساتھ مل کر بگرام اڈے کی تعمیر نو شروع کی۔ ابتداً عارضی ڈھانچہ بنایا گیا۔ بعد ازاں اسے مستقل شکل دی گئی۔ یہ اڈہ بہت تیزی سے پھیلتا گیا اور تقریبا 30 مربع میل پر محیط ہو گیا۔ فاؤنڈیشن فار ڈیفینس آف ڈیموکریسیز کے ساتھ وابستہ سینئر فیلو بل روگیو اس بارے میں کہتے ہیں: ’’ بگرام اڈے کی بندش ایک بڑی علامت رکھتی ہے۔ اور یہ طالبان کی سٹریٹجک فتح ہے‘‘۔ بگرام کے بڑے فوجی اڈے پر دو رن ویز ہیں۔ تازہ ترین رن وے 12 ہزار فٹ لمبا ہے جو سال 2006 میں 96 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوا۔ وہاں 110 جنگی جہازوں کے پارک ہونے کی جگہ ہے۔ اس اڈے کو دھماکے کے خلاف مزاحمت رکھنے والی دیواروں کے ذریعے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

اس اڈے پر تین بڑے شیڈز، ایک کنٹرول ٹاور اور متعدد دیگر عمارتیں ہیں۔ اس بیس پر 50 بستروں پر مشتمل ایک اسپتال بھی ہے جس میں ٹراما وارڈ ہے، تین آپریشن تھیٹرز اور جدید ڈینٹل کلینک بھی ہے۔ یہاں پر فنٹس سنٹرز اور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس بھی موجود ہیں۔ اس اڈے پر ایک حصے میں جیل بھی بنائی گئی ہے۔ جوناتھن شروڈن امریکہ میں قائم ایک تحقیقی ادارے سی این اے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں میں ایک لاکھ افراد نے بگرام کے فوجی اڈے پر کافی وقت گزارا ہے۔ ان کے بقول بگرام، امریکی فوج اور کنٹریکٹروں کے جنگی تجربے کی ایک مثال ہے جنہوں نے افغانستان کے اندر خدمات انجام دیں۔ درویش رؤفی ڈسٹرکٹ گورنر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بگرام ڈسٹرکٹ میں ایک سو کے قریب دیہات ہیں جہاں باغیچے ہیں اور کھیت کھلیان ہیں۔

بگرام کا یہ فوجی اڈہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ امریکی انخلا نے، درویش رووفی کے بقول ہر گھر کو متاثر کیا ہے۔ امریکی عملہ افغانستان کی فوج کو بعض ہتھیار اور دیگر ساز و سامان دیتا رہا ہیں۔ کوئی بھی ایسی چیز جو وہ ساتھ نہیں لے جا رہے، اسے وہ تلف کر رہے ہیں یا بگرام کے نزدیگ کباڑیوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ امریکی عہدیداروں کے مطابق وہ اس بات کو ہر صورت یقینی بنا رہے ہیں کہ کوئی بھی چیز طالبان کے ہاتھ نہ لگے۔ گزشتہ ہفتے یو ایس سینٹرل کمان نے بتایا تھا کہ اس نے 17 ہزار 7 سو 90 آلات، C-17 کے 763 جہازوں میں مال لاد کر افغانستان سے باہر منتقل کیے ہیں۔ بگرام کے بعض دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اڈے کے اندر سے دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔ غالباً امریکی عملہ عمارتوں اور ساز و سامان کو تلف کر رہا ہے۔

رؤفی نے کہا کہ دیہاتیوں نے ان سے شکایت کی ہے کہ امریکی صرف کاٹھ کباڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ مائیکل کوگلمین ولسن سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح بہت کچھ جلدی جلدی میں ساتھ لے جانا اور بہت کچھ تباہ کرنا امریکہ کی طرف سے اس تیزی کو ظاہر کرتا ہے کہ انہیں یہاں سے نکلنے میں کس قدر جلدی ہے۔ ’’یہ افغانستان کے عوام کے لیے اور اس فوجی اڈے کا کنٹرول سنبھالنے والوں کے لیے خیر سگالی پر مبنی کوئی تحفہ نہیں ہے۔ ‘‘ فوری طور پر سوویت یونین کے ساتھ موازنہ ذہن میں آتا ہے۔ افغانستان کے ایک ریٹائرڈ جنرل سیف اللہ صافی جنہوں نے بگرام اڈے پر امریکی فوج کے ساتھ کام کیا ہے، کہتے ہیں کہ روس نے جب انخلا کا فیصلہ کیا تو وہ اپنا سب کچھ یہاں چھوڑ کر گئے۔ ’’ وہ زیادہ کچھ ساتھ نہیں لے گئے۔

بگرام اڈے کے اندر قائم جیل کا انتظام سال 2012 میں ہی افغانستان کو دے دیا گیا تھا۔ اب بھی اس جیل کو وہی چلاتے رہیں گے۔ جنگ کے شروع کے برسوں میں بگرام جیل، کئی افغان شہریوں کے نزدیگ، خوف کی علامت بن گئی تھی جس طرح گوانتاناموبے جیل ہے۔ اے پی کے مطابق والدین اپنے روتے ہوئے بچوں اس جیل کا نام لے کر ڈراتے تھے۔ افغانستان پر حملے کے شروع کے دنوں میں افغان شہری بنا کسی رپورٹ کے غائب ہو جاتے تھے اور ان کے پتے ٹھکانے کا اس وقت تک کچھ پتا نہیں چلتا تھا جب تک کہ ہلال احمر کی بین الاقوامی کمیٹی ان کو بگرام میں تلاش نہیں کر لیتی تھی۔ کئی شہری تشدد کی کہانیوں کے ساتھ واپس گھروں کو لوٹ گئے۔ ذبیح اللہ نے اس فوجی اڈے کی جیل میں چھ سال گزارے ہیں۔

ان کو گلبدین حکمت یار کے دھڑے کے ساتھ تعلق کے الزام میں یہاں قید رکھا گیا۔ حکمت یار ایک جنگی سردار ہیں جن کو امریکہ نے دہشت گرد پارٹی قرار دیا تھا۔ جب ذبیح اللہ کو گرفتار کیا گیا اس وقت حکمت یار کی پارٹی سے وابستگی بھی ایک جرم تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ بگرام کا لفظ سنتے ہیں، ان کے کانوں میں درد بھری چیخیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ ذبیح اللہ کو سال 2020 میں صدر اشرف غنی کے حکمت یار کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے بعد رہائی ملی تھی۔ تجزیہ کار روگیو کہتے ہیں کہ بگرام جیل کی حیثیت اب بھی ایک تشویش کی بات ہے۔ ان کے بقول یہاں زیادہ تر قیدیوں کا تعلق طالبان یا القاعدہ اور داعش جیسے گروپوں سے ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اب بھی یہاں سات ہزار قیدی موجود ہیں۔ روگیئو کے بقول اگر یہ اڈہ فتح کر لیا جاتا ہے اور جیل ختم کر دی جاتی ہے تو یہاں قید افراد، دہشت گرد گروپوں کی طاقت میں بڑا اضافہ کر سکتے ہیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

استنبول کینال پراجیکٹ : یہ کسی فوارے کا نہیں اس صدی کے بڑے نہری منصوبے کا آغاز ہے

ترکی کے صدر طیب اردوغان نے ’استنبول کینال‘ (یعنی نہر استنبول) پراجیکٹ کا افتتاح کر دیا ہے۔ اس منصوبے پر 15 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوغان کا کہنا تھا ’ہم اس پراجیکٹ کو استنبول کے مستقبل کو بچانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم ترکی کی ترقی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر رہے ہیں۔‘  صدر اردوغان نے منصوبے کا افتتاح اس پراجیکٹ میں شامل ایک بڑے پُل کا سنگ بنیاد رکھ کر کیا۔ اس بڑے منصوبے کا مقصد آبنائے باسفورس سے گزرنے والے تجارتی جہازوں کے دباؤ کو کم کرنا اور تجارتی مقاصد کے لیے ایک متبادل بحری روٹ فراہم کرنا ہے۔

صدر اردوغان کا مزید کہنا تھا کہ یہ منصوبہ استنبول کے عوام کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ’یہ کسی فوارے کی افتتاحی تقریب نہیں بلکہ یہ اس صدی کے بڑے نہری منصوبے کا آغاز ہے۔‘ صدر اردوغان نے پہلی مرتبہ اپریل 2011 میں اس منصوبے کا اعلان کیا تھا اور اسے ’بڑے بجٹ کے کریزی منصوبے‘ کی حیثیت سے سراہا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس کا موازنہ پاناما یا سوئز کینال سے نہیں کیا جا سکتا ہے (یعنی یہ ان دونوں منصوبوں سے بہتر اور بڑا منصوبہ ہے)۔  نہر استنبول کی گہرائی 25 میٹر، لمبائی 45 کلومیٹر ہو گی اور اس سے ہر روز تقریباً 160 بحری جہاز گزر سکیں گے۔ اس منصوبے کے ناقدین نے اس پراجیکٹ کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد اس منصوبے کے قابل عمل پر سوالات اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ اس کے موحولیات پر بُرے اثرات ہوں گے۔

روئٹرز کے مطابق صدر اردوغان کی جانب سے پُل کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد وہاں موجود مزدوروں نے 1.6 کلومیٹر طویل پُل کے پلرز میں کنکریٹ بھرا جبکہ اس موقع پر موجود ہجوم میں شامل افراد ترکی کے پرچم لہراتے رہے۔ صدر طیب اردوغان اس منصوبے کو آبنائے باسفورس کا متبادل قرار دیتے ہیں۔ آبنائے باسفورس وہ واحد بحری راستہ ہے جو بحیرۂ اسود کو بحیرۂ روم سے ملاتا ہے جہاں اکثر بحری جہازوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ اس راستے سے پہلے ہی سالانہ 43 ہزار کے لگ بھگ بحری جہاز گزرتے ہیں جبکہ حکام کے مطابق ماحولیات کو زیادہ نقصان نہ پہنچانے کی غرض سے یہاں سے صرف 25 ہزار بحری جہاز سالانہ گزرنے چاہییں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں کو بعض اوقات طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اندازوں کے مطابق سنہ 2050 تک آبنائے باسفورس سے گزرنے والے تجارتی بحری جہازوں کی تعداد 78 ہزار کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ ترکی کی حکومت نے رواں برس مارچ میں استنبول کینال کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ یہ نہر آبنائے باسفورس کے مغرب میں واقع ہو گی اور اس کا بہاؤ استنبول کے شمال سے جنوب کی جانب ہو گا اور یہ 45 کلومیٹر طویل ہو گی۔ اس نہر کے منصوبے کی سرکاری ویب سائٹ پر اس نہر کو بنانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آبنائے باسفورس کی بحری ٹریفک، بڑے جہازوں کی بڑی تعداد، جو ‘خطرناک’ مواد وہ لے کر جاتے ہیں، استنبول شہر کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق سو سال پہلے آبنائے باسفورس سے گزرنے والی کشتیوں کی سالانہ تعداد 3000 یا 4000 ہوتی تھی جو اب بڑھ کر تقریباً 45 سے 50 ہزار ہو گئی ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو