بھارت‘ اسلحے کی دوڑ میں سب سے آگے

جنوبی ایشیا میں بھارت اسلحے کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ اس نے پچھلے سال دفاعی بجٹ میں 13 ہزار کروڑ روپے کا اضافہ کیا تھا۔ سٹاک ہوم بین الاقوامی امن تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ نے 2012 تا 2016‘ بھارت کو دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والا ملک قرار دیا تھا۔ اسی ادارے نے حال ہی میں رپورٹ دی ہے کہ دنیا بھر میں بھارت اس وقت سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کر رہا ہے۔ بھارت زیادہ تر اسلحہ اسرائیل اور روس سے خریدتا ہے؛ تاہم حال ہی میں امریکہ اور فرانس سے بھی جدید فضائی اور دفاعی نظام خریدا گیا ہے۔ 36 جدید رافیل طیارے 2022 تک بھارت پہنچ جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھارت آرٹلری بندوقیں، طیارہ بردار جہاز اور جدید آبدوزیں بھی خرید رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کورونا وبا کے دوران جب باقی دنیا ماسک اور ادویات خرید رہی تھی‘ اس وبا سے بچائو کی تدابیر کر رہی تھی‘ بھارت اس وقت بھی اسلحہ خریدنے میں مصروف نظر آتا رہا۔

اب سوال یہ ہے کہ بھارت اتنا اسلحہ کیوں خرید رہا ہے؟ اس کے پس پردہ حقائق کیا ہیں؟ کون سے ممالک اس اسلحے کی دوڑ سے متاثر ہو سکتے ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ کو اس خطے میں چین کے خلاف ایک اتحادی کی ضرورت ہے۔ چین اپنا کاروبار جنوبی ایشیا میں پھیلا رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ افغانستان سے ناکام لوٹ رہا ہے۔ اس تناظر میں امریکہ کو بھارت میں وہ اتحادی دکھائی دیتا ہے جو چین کو آنکھیں دکھا سکتا ہے اور جنوبی ایشیا کے خطے میں امریکی مفادات کی نگہبانی کر سکتا ہے۔ چین اور بھارت کے مابین گزشتہ کچھ عرصے سے ایل اے سی پر شدید کشیدگی ہے۔ چین اور بھارت کے مابین سرحدی تنازع بہت پرانا ہے۔ 1962 کی جنگ میں یہ مزید پیچیدہ ہو گیا تھا۔ مئی 2020 میں چین اور بھارت کے مابین پہلی جھڑپ ہوئی جس میں کئی بھارتی فوجیوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ جون 2020 میں دونوں ممالک کے مابین ہونے والی دوسری جھڑپ لداخ کی وادی گلوان میں ہوئی۔ اس جھڑپ میں انڈیا کے 20 فوجی ہلاک اور 75 شدید زخمی ہو گئے تھے۔ تیسری جھڑپ انتیس‘ تیس اگست کو ہوئی۔ یہ جھڑپ چینگوینگ سو جھیل کے کنارے ہوئی تھی۔

چین اور انڈیا کی یہ سرحد 488 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ سرحد جموں و کشمیر، اترا کھنڈ، سکم، ہماچل پردیش، اروناچل پردیش میں انڈیا سے ملتی ہے۔ کئی تجزیہ کار حالیہ چین بھارت کشیدگی میں امریکہ کا کردار بھی دیکھ رہے ہیں‘ یعنی ان کا خیال ہے کہ بھارت اور چین کے مابین حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں امریکہ کی کوئی چال بھی کارفرما ہو سکتی ہے۔ بھارت کی جارحیت کے نشانے پر دوسرا ملک پاکستان ہے۔ کسی زمانے بھارت ڈھکے چھپے انداز میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں ٹانگ اڑاتا تھا لیکن کچھ عرصے سے‘ خصوصاً کلبھوشن کے پکڑے جانے کے بعد کافی چیزیں سامنے آ چکی ہیں۔ بھارت پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ میں بھی ملوث ہے۔ بلوچستان کے معاملے میں بھارت کا منفی کردار ہر طرح سے واضح اور نمایاں ہے۔ نہ صرف وہ بلوچستان میں بد امنی میں ملوث ہے بلکہ وہ افغانستان میں بلوچ عسکریت پسندوں کو ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے۔

اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ کئی علیحدگی پسند بھارت جا کر علاج بھی کرا کے آئے ہیں۔ اگر بھارت دہشت گردی کے خلاف ہے اور اگر وہ دہشت گردوں کو پسند نہیں کرتا تو اس کی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے علاج کا کیا مطلب مقصد؟ پچھلے کچھ عرصے میں بھارت میں بڑے عہدوں پر براجمان لوگوں نے بلوچستان کو اپنا موضوع بحث بنایا ہوا ہے حتیٰ کہ اجیت ڈوول اور نریندر مودی خود بھی بلوچستان میں بد امنی پھیلانے اور ریاست مخالف مہم کا حصہ بننے کا اشارہ دے چکے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی برادری خصوصی طور پر اس خطے کے ممالک کے لئے تشویش کا باعث ہونی چاہئے کہ بھارت دہشت گردی کو پھیلانے میں مصروف ہے۔ کچھ سال پہلے ایک کالعدم بلوچ جماعت کے سربراہ اور اکبر بگٹی کے نواسے براہمداغ بگٹی نے بھارت کا دورہ کیا تو وہاں پر ان کو بھارت میں پناہ دینے کی آفر کی گئی تھی۔

اب یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح اور نمایاں ہو چکی ہے کہ بھارت چاہتا ہے‘ کسی بھی طرح پاکستان کو کمزور کیا جائے اور پاکستان میں جہاں کہیں بھی تھوڑے سے مسائل ہوں ان کو ہوا دی جائے‘ بڑھایا جائے‘ اور کسی بھی طرح ملک میں مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کا کوئی حربہ استعمال کیا جائے۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے بھارتی صحافی کرن تھاپر کو ایک خصوصی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ‘را‘ کے افسران کی نگرانی میں افغانستان میں کئی دہشت گرد تنظیموں کو ضم کیا گیا‘ اور اس کام کے لیے 10 لاکھ ڈالر کی رقم ادا کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ بھارت پاکستان میں تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ بھارت نے نہ صرف آرمی پبلک سکول حملے کو سپانسر کیا بلکہ وہ گزشتہ دو برسوں میں گوادر میں پی سی ہوٹل، سٹاک ایکس چینج سینٹر کراچی اور کراچی ہی میں موجود چینی کونسل خانے پر حملے میں بھی ملوث تھا۔

پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں موجود ہے۔ بھارت اپنے سازشی حربوں اور دیگر طریقوں سے پوری کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلا جائے۔ حال ہی میں ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے جاری کردہ ایک باہمی جائزہ رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تجویز کردہ کل 40 سفارشات میں سے، دو سفارشات پر مؤثر عمل درآمد کیا ہے‘ 26 پر جزوی طور پر کام کیا ہے جبکہ 9 پر بڑی حد تک عمل کیا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا جانا ہے کہ آیا پاکستان کو تنطیم کی گرے لسٹ میں برقرار رکھا جائے یا نہیں؟ اس اجلاس کا فیصلہ جو بھی آئے لیکن ایک بات ظاہر ہے کہ بھارت ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کو اب اس دشمنی، دوغلا پن والی ذہنیت سے باہر نکلنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر خطے میں پائیدار امن کے قیام ممکن نہ ہو سکے گا۔

عالمی برادری کو نہ صرف دہشت گردی کے فروغ میں بھارتی کردار پر نظر رکھی چاہئے بلکہ اس کی جانب سے خطے میں اسلحے کی جو ایک نئی دوڑ شروع ہو رہی ہے‘ اس کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں جنوبی ایشیا کا خطہ طاقت کے عدم توازن کا شکار ہو جائے گا جبکہ یہ عدم توازن امن کو تباہ کرنے کا باعث بھی بنے گا۔ بھارت ابھی تک اپنے حربوں میں ناکام رہا ہے لیکن وہ اپنی عادات سے باز نہیں آئے گا۔ اس کو معلوم ہے کہ پاکستان معاشی لحاظ سے مسائل کا شکار ہے اور اسلحے کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر پائے گا‘ لیکن شاید وہ یہ بھول رہا ہے کہ پاکستان اب ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور دفاع کے لحاظ سے مضبوط ہے۔ جس طرح وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ شروع تو ہو جائے گی لیکن اس جنگ کو ختم کرنا پھر کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ اب بھی وقت ہے کہ بھارت اس اسلحے کی دوڑ سے نکلے اور خطے میں مثبت تبدیلیوں کا حصہ بنے جبکہ اقوام عالم کو چاہئے کہ وہ بھارتی جارحیت پر توجہ دے ورنہ اس اسلحے کی دوڑ اور مقابلے سے پورا خطہ غیر محفوظ ہو جائے گا۔

امتیاز گل

بشکریہ دنیا نیوز

عدالت میں انصاف کا قتل

بھارت کی ایک عدالت نے بابری مسجد انہدام کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے تمام 32 ملزموں کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا، تو دُنیا بھر کی عدالتوں میں سرزد ہونے والی ناانصافیوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ اپنے اپنے مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر ”عدالتی وارداتوں‘‘ کو لوگ یاد کرنے لگے۔ بھارتی عدالت نے نہ صرف اخباری رپورٹوں کو مسترد کیا، بلکہ موقع واردات کی تصویری شہادتوں کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کے ”نیگٹو‘‘ عدالت میں پیش نہیں کئے گئے‘ حالانکہ فلم بندی کرنے والے فوٹو گرافر نے بطور گواہ اپنا بیان قلم بند کرا دیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اِس واردات کے پیچھے کوئی سازش نہیں تھی، اور جس ہجوم نے اِس کا ارتکاب کیا اُس میں شریک افراد کو پہچانا نہیں جا سکتا، اِس لیے تمام نامزد کردہ ملزم بری الذمہ قرار دیئے جاتے ہیں۔ ان میں ایل کے ایڈوانی اور رام منوہر جوشی جیسے سیاست دان بھی شامل تھے۔ ابتدائی طور پر 48 لوگوں کے خلاف فردِ جرم عائد کی گئی تھی، لیکن تین عشروں سے جاری سماعت کے دوران 16 افراد انتقال کر گئے۔

سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کے ملزمان نے 500 سالہ تاریخی بابری مسجد کے انہدام کی سازش تیار کی، اپنے کارکنوں کو مشتعل کیا۔ یاد رہنا چاہیے کہ 6 دسمبر 1992ء کو ایودھیا میں ملک بھر سے ہندو کار سیوک جمع ہوئے تھے۔ بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے ایڈوانی نے اپنی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے اشتراک سے ملک گیر رتھ یاترا شروع کی تھی، اور بابری مسجد کو اپنی قوم کے لیے ”کلنک کا ٹیکہ‘‘ قرار دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نرسمہا رائو کی مرکزی حکومت نے انہدام کے خطرے کی وجہ سے کئی روز پیشتر ہی ایودھیا اور اس سے متصل شہر فیض آباد میں نیم فوجی دستے متعین کر رکھے تھے۔ بابری مسجد ایک اونچے ٹیلے پر واقع تھی۔ اس کے گرد خاردار تاروں کا حصار بنا ہوا تھا۔ بی جے پی کی صوبائی حکومت نے ہزاروں پولیس والے بھی اس کی حفاظت پر مامور کر دیے تھے، لیکن جب بلوائیوں نے بیلچوں اور ہتھوڑوں سے لیس ہو کر مسجد پر یلغار کی تو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے تابع دستے پیچھے ہٹتے گئے، اور میدان حملہ آوروں کے لیے خالی چھوڑ دیا۔

اس سانحے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فرقہ وارانہ لہر نے بی جے پی کو مضبوط کیا، اور وہ ہندو جذبات کو بھڑکا کر اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ بھارت کی سیکولر جمہوریت، ہندو انتہا پسندی کے سامنے پسپا ہوتی چلی گئی۔ فیصلہ سننے کے فوراً بعد ایک ملزم بھگوان گویل نے ٹی وی چینلز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ”ہمارے اندر سخت غصہ تھا، ہر شخص کے اندر ہنومان جی سما گئے تھے۔ ہم نے مسجد توڑی تھی۔ اگر عدالت سے سزا ملتی تو ہم خوشی خوشی اسے قبول کر لیتے۔ عدالت نے سزا نہیں سنائی، تو یہ ہندو مذہب اور ہندو قوم کی فتح ہے‘‘۔ عدالت نے ایل کے ایڈوانی، رام منوہر جوشی اور ان کے سب ساتھیوں کو بری کر دیا، لیکن قدرت ان کو یہ سزا دے چکی کہ اب وہ ”گوشۂ گمنامی‘‘ میں ہیں۔ بھارتی سیاست اور بی جے پی میں ان کا کوئی کردار باقی نہیں رہا۔ انہوں نے جو آگ لگائی تھی وہ ان کی سیاست کو بھی بھسم کر چکی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مزار پر حاضری دے کر اُنہیں سیکولر قرار دینے کی ”حماقت‘‘ ان سے سرزد ہوئی، اور ان کا وزارتِ عظمیٰ کا خواب چور چور ہو گیا۔

بھارتی عدالت کے اس فیصلے نے جہاں بھارتی نظامِ عدل کے چہرے پر داغ لگایا ہے، اور جج کے ہاتھوں انصاف کی تذلیل کی کہانی دُنیا بھر کو سنائی ہے، وہاں مولانا ابوالکلام آزاد کے الفاظ بھی فضا میں پھر گونج اٹھے ہیں۔ مولانا کانگرس کے صدر اور اس کے صفِ اول کے رہنمائوں میں نمایاں رہے، پاکستان کے مطالبے سے اختلاف کیا، لیکن تحریک آزادی میں ان کے کردار اور قربانیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے دورِ غلامی میں اپنے خلاف درج ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ ادا کیے تھے: ”مسٹر مجسٹریٹ، یہ تاریخ کا ایک دلچسپ اور عبرت انگیز باب ہے جس کی تحریر میں (ہم اور تم) دونوں یکساں طور پر مشغول ہیں۔ ہمارے حصے میں یہ مجرموں کا کٹہرا آیا ہے، تمہارے حصے میں وہ مجسٹریٹ کی کرسی۔ مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کام کے لیے وہ کرسی بھی اتنی ہی ضروری چیز ہے، جس قدر یہ کٹہرا۔ آئو اِس یادگار اور افسانہ بننے والے کام کو جلد ختم کر دیں۔ مؤرخ ہمارے انتظار میں ہے اور مستقبل کب سے ہماری راہ تک رہا ہے۔ ہمیں جلد جلد یہاں آنے دو (یعنی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرو) اور تم بھی جلد جلد فیصلہ لکھتے رہو۔

ابھی کچھ دِنوں تک یہ کام جاری رہے گا، یہاں تک کہ ایک دوسری عدالت کا دروازہ کھل جائے گا۔ یہ خدا کے قانون کی عدالت ہے۔ وقت اس کا جج ہے۔ وہ فیصلہ لکھے گا، اور اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو گا‘‘۔ ”تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمران طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلے میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے (ان کے ہاتھ میں) سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور ناانصافی دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ انصاف پسند گورنمنٹ کے ہاتھ میں وہ عدل اور حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہے لیکن جابر اور مستبد حکومتوں کے لیے اس سے بڑھ کر انتقام اور ناانصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں۔ تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت ہی کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔ دُنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے لے کر سائنس کے محققین تک کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے، جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو۔

بلاشبہ زمانے کے انقلاب سے عہدِ قدیم کی بہت سی برائیاں مٹ گئیں‘ لیکن مَیں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جو جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے، ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے۔ وہ عمارتیں ضرور گرا دی گئی ہیں، جن کے اندر خوفناک اسرار بند تھے لیکن ان دِلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور ناانصافی کے خوفناک رازوں کا دفینہ ہیں‘‘۔
(11جنوری 1922‘ پریذیڈنسی جیل کلکتہ)
مولانا آزاد کا یہ بیان ”قولِ فیصل‘‘ کے نام سے ہزاروں کیا لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے متعدد ناشرین اسے مسلسل چھاپتے چلے جاتے ہیں، اور آج بھی اسے پُرشوق نگاہوں سے پڑھا جاتا ہے۔ ظلم اور جبر کے خلاف سینہ سپر افراد اس سے جذبۂ تازہ حاصل کرتے ہیں، اور ان میں حق کے لیے قربانی دینے کا جذبہ بیدار ہو ہو جاتا ہے۔ مَیں نے عشروں پہلے ا سے اپنے برادر بزرگ صاحبزادہ ضیا الرحمن شامی کی کتابوں کی الماری میں سے نکال کر پڑھا تھا۔ اُس وقت مَیں میٹرک یا فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔

یہ بیان پڑھتے ہی دِل میں یہ خیال پیدا ہوا، جو بعدازاں عزم بن گیا کہ اگر کبھی مجھے ایسی صورتحال پیش آئی تو ایسا ہی بیان دوں گا۔ مولانا آزاد کے الفاظ اُس وقت سے میرے حافظے میں تازہ ہیں۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ فوجی عدالت میں جب (چار دیگر اہلِ صحافت کے ہمراہ) میرے خلاف مقدمہ چلایا گیا تو ہم نے اس عدالت کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ اس کی تشکیل دستورِ پاکستان کے خلاف تھی۔ ہم اپنا اپنا بیان لکھنے بیٹھے تو چند منٹ میں میرا قلم اپنا کام مکمل کر چکا تھا۔ ”قول فیصل‘‘ کو یاد کر کے کھٹا کھٹ لکھتا چلا گیا اور وہ بیان بھی الحمدللہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔

مجیب الرحمان شامی

بشکریہ دنیا نیوز

بھارت میں تاریخی معاشی گراوٹ

کوئی ایک سال پہلے پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ طور پر جموں و کشمیر کی وہ قانونی حیثیت ختم کر دی جو آرٹیکل 370 کے تحت ریاست کو حاصل تھی، گو کہ اقوام عالم کی طرف سے بظاہر اس بھارتی ’بلنگ‘ کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا گیا لیکن درون خانہ بیرونی دنیا نے اس بھارتی اقدام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ بھارت کے اندر بھی انصاف پسند اور سیکولر حلقوں نے کشمیریوں سے ہونے والی اس زیادتی پر آواز اٹھائی۔ برطانیہ یقیناً یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہمارا ہی نامکمل ایجنڈا ہے، برطانیہ نے واشگاف الفاظ میں تو بھارت کی مذمت نہیں کی لیکن نامحسوس طریقے سے ایک بڑی معاشی چوٹ بھارت کو ضرور دی ہے مثال کے طور پر 2018ء تک یوکے انڈیا کی تجارت کا مجموعی حجم 10.1 بلین ڈالر تھا جو یکدم 2019ء میں کم ہو کر 8.8 بلین ڈالر ہو گیا۔ اگرچہ پاکستان کے ساتھ بھی یوکے کی تجارت کا حجم 2019ء میں بڑھنے کی بجائے کم ہوا ہے لیکن برطانیہ کے بعض معاشی تھنک ٹینکس اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ بھارت کے مذکورہ غیرجمہوری قدم سے کئی ایک کلیدی برطانوی سرمایہ کاروں نے بھارت کے ساتھ بزنس سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور کچھ اسی طرح کی صورتحال امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک کی بھی ہے بلکہ بھارت کے اندر لاتعداد کھرب پتی کمپنیز نے مزید سرمایہ کاری سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ بھارتی حکومت کے خود جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں ملک کی معیشت میں تشویشناک حد تک مندی دیکھنے میں آئی ہے جو کہ گزشتہ 24 سال میں معیشت کی بدترین سطح ہے۔ بظاہر تو بھارتی حکومت اس مندی کی وجہ کورونا وائرس اور لاک ڈائون کو قرار دے رہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا عدم استحکام بھی اس کی ایک بڑی وجہ بہرحال ضرور ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ بھارتی معیشت کورونا وائرس پھوٹنے سے پہلے ہی مندی کا شکار تھی۔ پچھلے دو سال سے ملک میں بیروزگاری کی شرح 45 برسوں میں سب سے زیادہ تھی اور معاشی نمو کی شرح گر کر 4.7 فیصد تک آ چکی تھی۔ ملک میں پیداوار گر رہی تھی اور بینکوں پر قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ چکا تھا۔ ایک انڈین تھنک ٹینک کے مطابق صرف ایک مہینے کے لاک ڈائون کی وجہ سے بارہ کروڑ دس لاکھ افراد بیروزگار ہوئے۔ بھارت کے ایک ڈیمو کریٹک تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ جب ہماری حکومت کشمیر میں 370 آرٹیکل کو تبدیل کرنے جیسے کاموں میں مصروف ہے دیکھئے کہ بھارت بھر میں معیشت کس طرح گر رہی ہے کہ (1) جیٹ ایئرویز بند ہو چکی ہے (2) ایئر انڈیا کو 7600 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے (3) بھارت سینچرنگم لمیٹڈ (بی ایس این ایل) جو بھارت کی نمبر ون ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی ہے اس کی 54000 ملازمتیں ختم ہو چکیں (4) ہندوستان ایروناٹکس (ایچ اے ایل) کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے رقم نہیں ہے (5) پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کو 15000 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا (6) ملک کی آٹو انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے (7) ملک میں دو ملین سے زیادہ گھر جو تیس بڑے شہروں میں بنائے گئے انہیں خریدنے والا کوئی نہیں (8) ایئرسیل ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی بینک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (9) وائڈو کون انڈسٹری لمیٹڈ جس کی کبھی انکم 291 ملین ڈالر تھی (10) ٹیلی کمیونی کیشن کی ایک بڑی کمپنی ’’ٹاٹا ڈوکومو‘‘ بینک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (11) سیمنٹ، انجینئرنگ کنسٹرکشن، رئیل اسٹیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمپنی بند ہو چکی ہے (12) ’’آئل اینڈ نیچرل گیس کارپوریشن‘‘ جسے بھارتی حکومت نے 1956ء میں قائم کیا تھا اور جس نے ملک بھر میں 11 ہزار کلومیٹر پائپ لائن بچھائی ہے آج تاریخی زوال کا شکار ہے (13) ملک کے 36 بڑے قرضہ لینے والے افراد اور کمپنیز غائب ہو چکی ہیں (14) 2.4 لاکھ کروڑ کے قرضے چند کارپوریٹس کو معاف ہو چکے (15) تمام ملکی بنکس کھربوں کے قرض لے رہے ہیں (16) ملک کا اندرونی قرضہ 500 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے (17) ریلوے برائے فروخت ہے (18) لال قلعے تک کو کرایہ پر دے دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اور بہت سے تاریخی اثاثے (19) بڑی کار کمپنی موروتی کی پروڈکشن نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے کمپنی کی 55 ہزار کروڑ نئی کاریں فیکٹریوں میں کھڑی ہیں ان کا خریدار کوئی نہیں (20) ملک میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس 18 فیصد سے بڑھ کر 28 فیصد ہونے سے کنسٹرکشن انڈسٹری تباہی کا شکار ہے کئی بلڈرز خودکشیاں کر چکے (21) انڈین ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے ادارے آرڈیننس فیکٹری بورڈ کے پاس اپنے ڈیڑھ لاکھ ملازموں کو تنخواہیں دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں (22) 45 سال میں بیروزگاری کی شرح بلند ترین ہے (23) ملک کے تمام بڑے ہوائی اڈے ایڈانی کمپنی کو بیچ دیئے گئے ہیں اور پورے ملک میں ایک معاشی جمود طاری ہے (24) کیفے کافی ڈے ’’سی سی ڈی‘‘ کمپنی جس کے ملک بھر میں 1752 کیفے تھے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اس کے چیئرمین وی جی سدھارتھ نے خودکشی کر لی۔

اوپر ذکر کئے گئے یہ چند حقائق ہیں جنہیں بھارتی میڈیا منظر عام پر نہیں لا رہا بلکہ بھارتی حکومت اور اثر انداز ہونے والے دیگر ریاستی اداروں کے دبائو میں میڈیا اپنے عوام اور دنیا کے سامنے کشمیر میں ہونے والے گزشتہ ایک سال کے لاک ڈائون سے ہونے والا تقریباً 14 ارب سے زیادہ کا وہ نقصان بھی سامنے نہیں لا رہا جو کشمیریوں اور بھارتی حکومت کو اس لئے مسلسل ہو رہا ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے وہ فروٹ جو باغوں میں ہی گل سڑ گئے اور جنہیں اتارنے والا کوئی نہیں، ظاہر ہے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ یہ نقصان بھارتی حکومت کا بھی ہے۔

وجاہت علی خان

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کو کیسے لوٹا ؟

بہت برس گزرے، استاذی رضی عابدی ہمیں چارلس ڈکنز کا ناول ہارڈ ٹائمز پڑھا رہے تھے۔ یہ ناول انیسویں صدی کے انگلستان میں کوئلے کے کان کنوں کی زندگیاں بیان کرتا ہے۔ ناول میں ایک مزدور میاں بیوی کی گھریلو توتکار کا تفصیلی بیان پڑھتے ہوئے ایک طالب علم نے کہا کہ ان دو کو لڑنے جھگڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں؟ عابدی صاحب نے مسکرا کر کہا کہ ’’چھوٹے گھروں کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ سارا وقت ایک دوسرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑے گھروں میں رہنے والے اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں۔‘‘ اس کاٹ دار مشاہدے سے اچانک بچپن کی ایک یاد روشن ہو گئی۔ ہمارے قصبے کے اکثر مرد، نوجوان اور بوڑھے، زیادہ وقت گھر سے باہر گلی کے نکڑ یا کسی دکان کے تھڑے پر بیٹھے نظر آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ گھروں میں اتنی جگہ ہی نہیں تھی کہ غربت سے برآمد ہونے والی تلخی اوجھل ہو سکے۔

انتظار حسین کا افسانہ ’’قیوما کی دکان‘‘ تو اب ہماری اجتماعی یاد داشت کا حصہ بن چکا۔ یہ صرف چھوٹے گھروں کا المیہ نہیں، قوموں پر بھی ایسا وقت آتا ہے جب والٹیئر کو تخیلاتی قصبوں اور زمانوں کے قصے سنانا پڑتے ہیں یا میلان کنڈیرا کو پراگ سے نکل کر پیرس میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ بفضل خدا، ہم ایک آزاد اور جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں دستور اور قانون کی بالادستی قومی شعار ہے۔ صحافی کسی بھی حکمران کی بدعنوانی بے نقاب کرنے میں آزاد ہیں۔ سیاسی کارکن بلاخوف جمہوری مکالمے میں حصہ لیتے ہیں۔ ہمیں افسانوی کرداروں اور فرضی زمینوں سے غرض نہیں۔ ہمیں ٹھوس تاریخی حقائق اور زمینی حقیقتوں کے بارے میں تحریر و تقریر کی مکمل آزادی ہے۔ آئیے دیکھیں کہ 1765ء سے 1858ء تک ایسٹ انڈیا کمپنی نے کس طرح ہندوستان کا معاشی استحصال کیا اور پھر اگلے نوے برس میں تاج برطانیہ نے اس لوٹ مار میں کیا اختراعات پیدا کیں۔

حالیہ برسوں میں برطانوی تاریخ دان لکھتے ہیں کہ برطانیہ نے ہندوستان کی حفاظت اور ترقی کا فرض محض انسانی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کیا۔ مغربی دانشوروں پر جانبداری اور یک طرفہ دلائل کا جو اعتراض کیا جاتا ہے، ششی تھرور پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان مصنفین نے اپنا مقدمہ جیتنے کے لئے حقائق کا من مانا انتخاب کیا ہے۔ تاہم 2018 میں ممتاز ماہر معاشیات اوشا پٹنائیک نے کولمبیا یونیورسٹی سے ایک زبردست تحقیق شائع کی جس میں 1765 سے 1938 تک ٹیکس اور تجارت کے تفصیلی اعداد و شمار کی مدد سے ثابت کیا کہ برطانیہ نے 173 برس کے عرصے میں ہندوستان سے 45 کھرب ڈالر کی لوٹ مار کی۔ یہ رقم برطانیہ کی موجودہ کل داخلی پیداوار سے بھی 17 گنا زیادہ ہے۔ اوشا پٹنائیک نے سیاسی اور سماجی زاویوں کی بجائے خالص معاشی تجزیے کی مدد سے اس وسیع پیمانے پر استحصال کے قانونی اور تجارتی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا۔

اٹھارہویں صدی کے پہلے نصف میں برطانوی تاجر ہندوستانی باشندوں سے چاندی کے سکوں کے عوض کپاس اور چاول خریدتے تھے۔ 1757ء میں جنگ پلاسی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان سے مالیہ اور محصولات کے نظام کی مدد سے تجارت پر اجارہ داری قائم کر لی۔ طریقہ کار یہ تھا کہ ہندوستانیوں سے وصول کردہ محصولات کا قریب ایک تہائی ہندوستانی مصنوعات کی خریداری پر صرف کیا جاتا تھا۔ گویا ہندوستانی محصولات کی صورت میں جو رقم ادا کرتے تھے، اسی کے ایک تہائی کے بدلے اپنی مصنوعات بیچنے پر مجبور تھے۔ 1858 میں تاج برطانیہ نے ہندوستان پر عمل داری قائم کر کے ایک نیا ہتھکنڈہ متعارف کروایا۔ ہندوستانیوں کو اپنی مصنوعات غیر برطانوی تاجروں کو بیچنے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم اس خریداری کے لئے لندن میں خصوصی کرنسی نوٹ جاری کئے جاتے تھے جنہیں غیر برطانوی تاجر سونے اور چاندی کے عوض خریدتے تھے۔

ہندوستانی تاجر یہ کرنسی نوٹ برطانوی حکومت کو واپس بیچتے تو انہیں ہندوستانی روپوں میں قیمت ادا کی جاتی۔ یہ روپے ہندوستانی باشندوں کے ادا کردہ محصولات ہی ہوتے تھے۔ اس طرح ہندوستان کی پوری پیداوار سونے اور چاندی کی شکل میں لندن سرکار کے پاس پہنچ جاتی تھی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں ہندوستان زبردست تجارتی منافع کے باوجود کاغذ پر خسارے میں چل رہا تھا کیونکہ اصل منافع کی رسد تو لندن کے لئے بندھی تھی۔ الٹا یہ کہ اس مصنوعی خسارے کے باعث ہندوستان کو برطانیہ سے قرض لینا پڑتا تھا۔ اس لوٹ مار سے برطانیہ نے چین اور دوسرے ممالک میں جنگیں لڑیں جن کے اخراجات بھی ہندوستانی محصولات سے ادا کئے جاتے تھے۔ ہندوستان سے لوٹی اسی دولت سے کینیڈا اور آسٹریلیا کی یورپی نوآبادیوں میں سرمایہ کاری کی گئی۔ برطانیہ بہادر نے محتاط اندازے کے مطابق پونے دو سو برس میں ہندوستان سے 44.6 کھرب ڈالر کی لوٹ مار کی۔ اس دوران میں ہندوستانیوں کی فی کس آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ 1920 تک ہندوستانیوں کی متوقع عمر میں 20 فیصد کمی واقع ہو چکی تھی کیونکہ سامراجی پالیسیوں سے بار بار قحط پیدا ہوتا تھا۔ خدا نہ کرے کہ کوئی قوم قبضہ گیری اور اجارے کا شکار ہو۔

وجاہت مسعود

بشکریہ روزنامہ جنگ

فیس بُک کی پاکستان اور انڈیا کے لیے پالیسی مختلف کیوں ہیں؟

وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کہا ہے کہ فیس بک واضح کرے کہ پاکستانی اور انڈین صارفین کے لیے اس کی پالیسیوں میں فرق کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال اگست میں انڈیا کے وادی کشمیر میں جاری مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے والے پاکستانی صارفین کے اکاؤنٹس بند کیے گئے جبکہ انڈین وزیر اعظم نریندرمودی کی مسلم دشمن پالیسیوں کے باوجود فیس بک کی قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ وفاقی وزیر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فیس بک کی انتہا پسند بی جے پی نواز پالیسیاں باعث تشویش ہیں۔ ’کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی تشہیر پر فیس بک کو سارے قواعد یاد آجاتے ہیں، انتہا پسند بی جے پی اور ہٹلر مزاج مودی کی نفرت زدہ پالیسیاں فیس بک کو نظر نہیں آتیں۔‘ وفاقی وزیر  نے کہا کہ فیس بک انتظامیہ کی وضاحتیں اس کے عمل کے بالکل برخلاف ہیں، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی مخالفت کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ظلم کرنے والوں کی بھی مخالفت کرنی چاہیے۔

’اگر فیس بک نفرت آمیز پوسٹوں کے خلاف ہے تو نریندر مودی جیسے انسان دشمن سے نزدیکیاں کیسی؟‘ انہوں نے فیس بک سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں سے ناپسندیدگی کیوں ہے؟ وفاقی وزیر نے کہا کہ فیس بک کے اقدامات سے واضح ہے کہ کمپنی کے علاقائی دفاتر میں کام کرنے والے انڈین ملازمین صارفین کے حقوق کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ ’انڈیا میں فیس بک کی بھاری سرمایہ کاری نے بھی اسے اخلاقی اقدار نظرانداز کرنے پر مجبور کر دیا۔‘ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیجیٹل ورلڈ کی وسیع مارکیٹ بن رہا ہے، اسے نظرانداز کرنے والے نقصان میں رہیں گے۔ ’پاکستانی صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی اقدام سے گریز نہیں کیا جائے گا۔

بشکریہ اردو نیوز

ایک سال مکمل ہو گیا

گذشتہ برس نومبر کے تیسرے ہفتے میں نیویارک میں کشمیری پنڈتوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی قونصل جنرل سندیب چکرورتی نے فرمایا ،’’ میرے خیال میں ( کشمیر میں ) امن و امان کی صورت بہتر ہو رہی ہے۔ آپ جلد ہی واپس لوٹ سکیں گے کیونکہ آپ کے تحفظ کے لیے پہلے ہی سے ایک ماڈل موجود ہے۔ اس ماڈل پر عمل نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسرائیل اس پر کامیابی سے عمل کر رہا ہے۔ یہودیوں نے فلسطین سے نکلنے کے بعد اپنی ثقافت کو برقرار رکھا اور پھر وہ دو ہزار برس بعد واپس لوٹے۔ آپ کو بھی کشمیری ثقافت زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ کشمیری کلچر دراصل بھارتی کلچر ہے اور بھارتی کلچر ہندو کلچر ہے۔ ہم نے کبھی بھی اکثریت ہونے کی طاقت سے کام لیا اورنہ ہی ہندو ثقافتی قوت کو استعمال کیا۔ مگر کب تک‘‘۔

یہ تقریر کسی ریٹائرڈّ سفارت کار نے نہیں کی کہ جسے اس کے ذاتی خیالات قرار دے کر نظرانداز کر دیا جائے۔ یہ تقریر گذشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خودمختاری اور حقِ شہریت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر اور آرٹیکل پینتیسں اے کے خاتمے کے تین ماہ بعد اور ریاست جموں و کشمیر کے انتظامی وجود کو اکتیس اکتوبر کو تحلیل کر کے اسے دو وفاقی خطوں میں بدلنے کے ڈیڑھ ماہ بعد کی گئی۔ آج کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کا ایک برس مکمل ہو گیا۔ اس عرصے میں مودی حکومت نے جس برق رفتاری سے کشمیر کی شناخت و نفسیات بدلنے کے لیے ایک کے بعد ایک قانون کا پھندہ بنایا ہے۔ اس پھرتی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ پچھلے ایک برس کے دوران سری نگر ہائی کورٹ اور زیریں عدالتوں میں حبسِ بے جا کی جتنی بھی درخواستیں دائر ہوئیں ان میں سے ننانوے فیصد کی شنوائی نہیں ہو سکی۔

جب کہ دلی میں قائم بھارتی سپریم کورٹ میں کشمیری خود مختاری کے خاتمے اور اندھے لاک ڈاؤن کو چیلنج کرنے سے متعلق جتنی بھی آئینی درخواستیں دائر کی گئیں ان میں سے ہر ایک کی سماعت مسلسل ملتوی ہو رہی ہے تاکہ مرکزی حکومت دلجمعی سے اپنا کشمیر ایجنڈا مکمل کر لے۔ گذرے برس میں کشمیری شناخت پر دو دھاری حملہ ہوا۔ اول جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے تحت لداخ کو ہمیشہ کے لیے ریاست سے الگ ایک انتظامی یونٹ ( مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ ) بنا دیا گیا ہے۔ جب کہ جموں و کشمیر کو بطور ایک عام بھارتی ریاست نئے انداز میں بحال کرنے سے پہلے پہلے نئی اسمبلی حلقہ بندیاں مکمل کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ نئی مجوزہ ریاستی اسمبلی میں جموں کی نشستیں وادی کی نشستوں سے زیادہ ہوں گی۔

کالعدم ریاستی اسمبلی میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور چین کے زیر انتظام آکسائی چن کے علاقے کی جن چوبیس نشستوں کو علامتی طور پر خالی رکھا گیا تھا۔ انھیں اگلے انتخاب میں آزاد کشمیر اور پاکستان سے ریاست میں آ کر آباد پناہ گزینوں سے پر کیا جائے گا۔ یہ پناہ گزین تقریباً سب کے سب ہندو یا سکھ ریفیوجیز ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ نئی ریاست میں اقتدار کا توازن پہلی بار وادی کی مسلم اکثریت کے بجائے جموں کے ہندو اکثریتی پلڑے کو منتقل ہو جائے گا۔ساتھ ہی ساتھ وادی کی مسلم شناخت کو غیر مسلم آباد کاری کے ذریعے بے اثر کرنے کی کوششوں کی رفتار بھی تیز تر کی جا رہی ہے۔ مثلاً پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو اب تک ریاست کی مکمل شہریت نہیں دی گئی تھی۔

مگر اکتیس مارچ سے نافذ ہونے والے نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت نہ صرف ان لگ بھگ پانچ لاکھ مہاجرین کو جموں و کشمیر کا ڈومسیائیل لینے کا حق حاصل ہو گا۔ بلکہ بھارت کے کسی بھی علاقے سے کشمیر میں گذشتہ پندرہ برس سے رہنے والے باشندے کو ریاستی شہریت کا اہل تصور کیا گیا ہے۔ نیز جو شخص سات برس تک ریاست کے کسی کالج یا اسکول میں زیرِ تعلیم رہا ہو یا اس نے میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کا امتحان ریاستی تعلیمی بورڈ کے تحت دیا ہو وہ بھی کشمیری ڈومیسائل حاصل کرنے کا اہل ہے۔ اور ڈومیسائیل کا مطلب نہ صرف ریاستی شہریت بلکہ جائیداد و زمین خریدنے، ریاست کے لیے مختص سرکاری ملازمتوں کے کوٹے میں حصہ داری اور ریاست میں زراعت و صنعت و سروس سیکٹر میں سرمایہ کاری کا حق بھی حاصل ہو گا۔

نئے قانون کے نفاذ سے پہلے صرف ان لگ بھگ ایک لاکھ کشمیری پنڈتوں کے لیے ریاست میں دوبارہ واپسی اور بحالی کا حق قانوناً تسلیم شدہ تھا جو انیس سو نواسی نوے کے پرآشوب دور میں وادی سے جموں نقل ِ مکانی کر گئے تھے۔ اب ان پنڈتوں کی نمایندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریفیوجیز کی تعداد سات لاکھ ہے۔ مگر یہ تنظیمیں اس سوال پر بٹی ہوئی ہیں کہ آیا کشمیری پنڈتوں کو ازسرِ نو ڈومیسائیل لے کر یہودی آباد کاروں کی طرح فوجی سنگینوں کے سائے میں بسانا ٹھیک ہے یا پھر انھیں ریاست میں آباد ہونے کے صدیوں پرانے حق کے تحت بھارتی قوم پرستی کے بجائے کشمیریت کے جذبے کے تحت اپنے آبائی گلی محلوں میں جا کر بسنا چاہیے۔ جہاں مقامی مسلمان آبادی کو ان کی گھر واپسی پر کوئی اعتراض نہیں۔ پہلی صورت میں پنڈتوں کو قابض طاقت کا دم چھلا سمجھا جائے گا اور دوسری صورت میں وہ بطور فرزندِ زمین قابلِ قبول ہوں گے۔

کشمیری پنڈتوں کی خصوصی حیثیت سے قطع نظر جن جن طبقات کو نئے ڈومیسائیل قوانین سے فائدہ ہو گا۔ ان میں وہ زرعی ، صنعتی و گھریلو مزدور بھی شامل ہیں جو پچھلے تیس چالیس برس سے بہار، یوپی، بنگال وغیرہ سے کشمیر آ کر یہاں کے کھیتوں ، کولڈ اسٹوریج اور گھروں میں کام کرتے ہیں۔ سرکردہ کشمیری صحافی نعیمہ احمد مہجور کے مطابق جموں و کشمیر میں روزانہ کام کاج کے لیے لگ بھگ پچاس ہزار مزدور وںاور کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ان میں مقامی مزدور تقریباً ایک فیصد ہیں۔ کیونکہ مقامی لوگ کچھ مخصوص محنت طلب کاموں کو چھوڑ کر ہر طرح کے کام میں ہاتھ ڈالنے سے ہچکچاتے ہیں۔ دو ہزار سولہ میں برہان وانی کی شہادت کے بعد بدامنی کی شدید لہر کے سبب غیر کشمیری مزدور بڑی تعداد میں واپس چلے گئے تو لاسی پورہ انڈسٹریل اسٹیٹ کے کولڈ اسٹوریجز کو تالا لگ گیا۔ کیونکہ مقامی افرادی قوت انھیں چلانے کے لیے مناسب حد تک تربیت یافتہ نہیں تھی۔

یہی نہیں بلکہ اس وقت جموں و کشمیر کی مساجد میں مقامی امام اور موزن بھی کم کم ہیں۔ زیادہ تر خدمتی عملے کا تعلق یوپی، بہار، بنگال وغیرہ سے ہے اور بیشتر یہاں اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ تیس تیس برس سے آباد ہیں۔ اس کے علاوہ جو سرکاری ملازم اور ریٹائرڈ فوجی و پولیس اہلکار وادی میں برسوں سے مقیم ہیں ان کی تعداد بھی لاکھ سے اوپر ہے۔ ریاست میں سب سے زیادہ ملازمتیں دینے والا شعبہ سرکار ہے۔ یہ ملازمتیں اب تک نیم خودمختار ریاست کے نوجوانوں کے لیے مختص تھیں۔ لیکن ڈومیسائیل کھلنے کے بعد اب یہ ملازمتی تحفظ بھی شدید خطرے میں ہے۔ پرانا پبلک سروس کمیشن کالعدم ہے اور نیا اب تک نہیں بنا۔ جموں و کشمیر بینک کی لگ بھگ ڈیڑھ ہزار خالی آسامیوں کو بھرنے کے لیے دو برس قبل ابتدائی ٹیسٹ اور انٹرویوز ہو چکے تھے۔ لیکن اس سال فروری میں سابقہ سلیکشن پروسس منسوخ کر دیا گیا۔ دو ماہ پہلے جون میں بینک کی ان آسامیوں کے لیے نئے ڈومسیائیل قوانین کی روشنی میں تازہ درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔

اسی طرح جو ہیلتھ ورکرز ایک مدت سے عارضی کنٹریکٹ پر کام کر رہے تھے، انھیں مستقل کرنے کے بجائے نئے کنٹریکٹ دینے کا عمل بھی روک دیا گیا۔ حالانکہ کورونا کے دگرگوں حالات کے سبب ان ورکروں کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ شائد ان کی جگہ اب نئے ورکر لیے جائیں گے۔ اس وقت ریاست ڈبل لاک ڈاؤن میں ہے۔ ایک انتظامی لاک ڈاؤن جو سال بھر سے جاری ہے اور دوسرا کورونا کے نام پر اضافی لاک ڈاؤن۔ اعلی ریاستی بیوروکریسی میں نوے فیصد سے زائد افسر دلی سے بھیجے ہوئے ہیں۔ ان کا کام کشمیریوں سے بات کرنا نہیں بلکہ ان پر مرکز کے فیصلے تھوپنا ہے۔ نیشنل کانفرنس سمیت بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے نچلے کیڈر کو اس شرط پر رہا کیا گیا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں سے باز رہنا ہے۔

علیحدگی پسند حریت کانفرنس ساکت ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے متعدد رہنما اور کارکنان دور دراز جیلوں میں منتقل کیے جا چکے ہیں۔ سرکار یہ بھی بتانے پر آمادہ نہیں کہ گرفتاریوں کی تعداد کتنی ہے ؟ مختلف جماعتوں سے توڑے گئے کارکنوں کی مدد سے اسمبل کی جانے والی ’’ اپنی پارٹی ’’ کو کام کرنے کی اجازت ہے۔ اس کی قیادت نظربند رہنما محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کے ایک منحرف رہنما الطاف بخاری کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ اپنی پارٹی دراصل مودی امیت شاہ جوڑی کا بغل بچہ ہے۔ مگر کیا کشمیر پر لاگو یہ زبردستی کا امن قائم رہے گا؟ فی الحال اس سوال کا جواب بھی کشمیر کی طرح معلق ہے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بھارت کی تنہائی

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی وجہ سے بھارت خطے میں تنہا ہو گیا ہے۔ کوئی ایسا پڑوسی ملک نہیں جس کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں خوشگواری کا احساس باقی رہا ہو۔ نیپال، بنگلہ دیش، چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات انتہائی نا خوشگوار ہو چکے ہیں ۔ نریندر مودی کے خطے میں حکمرانی کے خواب کی تعبیر الٹی نکلی ہے۔ ہر محاذ پر تو کیا خود بھارت کے اندر بھی مودی حکومت کو شرمندگی کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تمام انسانی اور اخلاقی قدریں پامال کرنے پر بھی بھارت کی رسوائی ہو رہی ہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات بھی وہ نہیں رہے جو پہلے تھے۔ ایران نے چا بہار منصوبے سے نکال باہر کر دیا ہے۔ یہ ایران میں ریلوے لائن بچھانے کا بہت بڑا منصوبہ ہے۔ جس کا تخمینہ تقریباً ایک ارب 60 کروڑ ڈالر ہے۔ مئی 2016ء میں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک معاہدہ ہوا جس پر ایران، بھارت اور افغانستان نے دستخط کئے۔ منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے بجائے ایک متبادل روٹ قائم کیا جائے۔ جس کے ذریعے بھارت ،ایران اور افغانستان کو براہ راست تجارتی سہولیات میسر ہوں۔

بھارتی ریاست گجرات میں کاندھلہ بندرگاہ کو ایرانی بندرگاہ چا بہار سے جوڑ کر ایرانی شہر زاہدان اور وہاں سے افغانستان کے علاقہ زارنج تک پہنچانا تھا۔منصوبے کے مطابق یہ 628 کلو میٹر طویل ریلوے لائن ان تینوں ملکوں کو ایک دوسرے سے ملاتی اور یوں پاکستان سے ہٹ کر یہ ریلوے لائن ان تینوں ملکوں کی وسط ایشیائی ممالک تک رسائی کا بھی ذریعہ بن جاتی ۔ منصوبے کو 2020ء تک مکمل کیا جانا تھا لیکن ایران نے کہا ہے کہ چار سال پہلے منصوبے پر دستخط کرنے کے باوجود بھارت نے اس پر کام شروع نہیں کیا اور اس سلسلے میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی، اب ایران خود اس منصوبے کو مکمل کرے گا۔لیکن اب بھارت کو نکال کر یہ ریلوے لائن چا بہار سے زاہدان اور پھر افغانستان تک پہنچائی جائے گی۔ بھارت نے امریکی ناراضی مول نہ لینے کی وجہ سے ایک انتہائی اہم منصوبہ اور موقع گنوا دیا۔ نریندر مودی کی سوچ اور پالیسیوں نے بھارت کو کہیں کا نہیں چھوڑا بلکہ ہر جگہ ناکامی اور دنیا بھر میں رسوا کر دیا ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ بھارتی عوام اٹھ کھڑے ہوں اور موذی نریندر مودی سرکار سے نجات حاصل کریں۔ ورنہ وہ مستقبل قریب میں بھارت کی مزید بربادی ، تنہائی اور رسوائی دیکھیں گے۔ سیانے کہتے ہیں کہ دشمن بھی عزت دار ہونا خوش قسمتی کی بات ہوتی ہے۔ بھارت اور پھر مودی جیسے رذیل دشمن کی موجودگی اس خطے کے لئے نقصان دہ ہے۔ ہر محاذ پر ذلت اور رسوائی کے باوجود بے شرمی کی انتہا دیکھیں کہ نہ تو مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمانوں پر ظلم و بربریت سے باز آتا ہے اور نہ بھارتی مسلمانوں کو وہاں سکون سے رہنے دیتا ہے ۔ ڈھٹائی اور بے شرمی کی شاید کوئی حد نہیں ہوتی۔ پاکستان کو گیدڑ بھبکیوں سے ڈرانے کی تمام بھارتی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ ناکام و بدنام بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘ نے متعدد بار پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ فساد کرانے کی کوششیں کیں لیکن اس کو ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔ پاک چین کے درمیان اہم ترین منصوبے سی پیک کے بارے میں بھارتی جھوٹا پروپیگنڈہ ہر موقع اور ہر طرح سے ناکام ہوا تو بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کے اندر دہشت گردی شروع کرا دی۔

کراچی، اندرون سندھ اور بلوچستان کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے قبائلی اضلاع میں ہونے والے حالیہ واقعات پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے کی کوششوں کا تسلسل ہیں۔ ہفتہ رواں میں بلوچستان کے علاقہ پنجگور میں دہشتگردی کے واقعہ میں سیکورٹی ادارے کے تین جوان شہید اور آٹھ زخمی ہوئے۔ پاک فوج بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بڑی مستعدی کے ساتھ فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ سابقہ ہوں یا موجودہ کسی بھی سیاسی حکومت نے صحیح معنوں میں اپنے فرائض پورے نہیں کئے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن کو کاندھا دینے والے اور سہولت کار ملک کے اندر ہی مل جاتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو محرومی کے نام پر گمراہ کرنے کا کھیل عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اس کھیل میں مبینہ طور پر بعض با اثر افراد بھی حصہ دار ہو سکتے ہیں۔

آج تک کسی حکومت نے وہاں کے عوام کے لئے براہ راست کچھ نہیں کیا وہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت۔ سرکاری فنڈز چند افراد کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں اور عوامی فلاحی منصوبے اعلانات کی حد تک رہ جاتے ہیں۔ دشمن ایسے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اگر سرکاری فنڈز براہ راست عوام تک پہنچیں اور عوام پر ہی خرچ ہوں اور چند با اثر افراد کی لوٹ مار اور مداخلت نہ ہو، بھرتیاں میرٹ پر ہوں تو دشمن کیلئے کسی طور ممکن نہیں کہ یہاں کے سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کر سکے۔ یہ بات تو یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاک فوج کی موجودگی اور عوام کے تعاون کی بدولت بزدل دشمن کبھی بھی اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہو سکتا لیکن امن و امان کو برقرار رکھنے میں حکومتیں بھی اپنا فرض پورا کریں۔

ایس اے زاہد

بشکریہ روزنامہ جنگ

کشمير کے مسلح تنازعے کی سب سے بھاری قيمت بچے چکا رہے ہيں

بھارت کے زير انتظام کشمير ميں سالہا سال سے چلا آ رہا مسلح تنازعہ اور حاليہ برسوں ميں ہونے والی پيشرفت مقامی بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس صورت حال پر تشويش ظاہر کی ہے۔ ايک کمسن بچہ اپنے دادا کی لاش پر بيٹھا ان کی ہلکی سی سرسراہٹ کا منتظر دکھائی ديتا ہے۔ پچھلے ہفتے منظر عام پر آنے والی اس تصوير نے مسلح کشميری تنازعے کے ایک اور مختلف پہلو کی طرف توجہ مبزول کرائی۔ عليحدگی پسندوں اور بھارتی سکيورٹی فورسز کی لڑائی ميں کشمير کے خطے ميں جنم لينے والے بچوں کی ايک پوری کی پوری نسل بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ بسيم اعجاز کی عمر صرف بارہ برس تھی، جب وہ سری نگر کے قريب ايک حادثاتی دھماکے کی زد ميں آ کر ہلاک ہو گيا۔

بسيم کے والد اعجاز احمد نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ ان کا کمسن بيٹا شری مہاراجا ہری سنگھ ہسپتال ميں کئی ايام تک زندگی اور موت کی کشمکش ميں مبتلا رہا اور بالآخر اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بارہ مئی کو چل بسا۔ بسيم کی والدہ کوثر جان اپنے بيٹے کی ہلاکت پر آج تک سمجھوتہ نہيں کر پائی۔ چار سالہ نہان ياور چھبيس جون کو اپنے والد کے ساتھ يونہی باہر نکلا تھا، کسے معلوم تھا کہ وہ کبھی واپس نہيں آئے گا۔ اسی اثناء ايک گولی جا لگی ننھے نہان کے جسم پر اور وہ وہيں دم توڑ گيا۔ يہ واقعہ کشمير کے جنوبی حصے کے اننت ناگ ضلع ميں پيش آيا۔ ماہرين کا کہنا ہے کہ کشمير ميں بچے دن بدن بڑھتے ہوئے تشدد کے ماحول ميں بڑے ہو رہے ہيں، جو ان کی ذہنی نشو نما کے ليے نقصان دہ ہے۔

پچھلے ہفتے ايک تصوير کافی وائرل ہوئی، جس سے کسی حد تک کشميری بچوں اور مجموعی طور پر خطے کی صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے۔ تصوير ميں ايک چھوٹا سا بچہ اپنے دادا کی چھاتی پر بيٹھا دکھائی ديتا ہے۔ بشير احمد خان مبينہ طور پر بھارتی پوليس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ ان کے ايک رشتہ دار فاروق احمد نے جائے وقوعہ پر موجود مقامی افراد کے ذرائع سے بتايا کہ سکيورٹی فورسز نے بشير احمد کو گاڑی سے باہر نکالا اور گولی مار کر ہلاک کر ديا۔ چھوٹا سا بچہ جو اپنے دادا کی لاش پر بيٹھا دکھائی ديا، اس کی والدہ ارم نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ اس واقعے نے ان کے بيٹے کو ہميشہ کے ليے خوف زدہ کر ديا ہے، ”يہ منظر پوری زندگی اس کا ساتھ نہيں چھوڑے گا۔ اس نے اپنے دادا کی لاش ديکھی اور ارد گرد يونيفارم ميں سپاہی تھے۔‘‘

واضح رہے کہ پوليس نے مقتول کے اہل خانہ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے قانونی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ بھارتی وزير اعظم نريندر مودی کی حکومت نے پچھلے سال اگست ميں کشمير کی خصوصی حيثيت ختم کرتے ہوئے جموں و کشمير و براہ راست وفاق کے کنٹرول ميں لے ليا تھا۔ مودی کا کہنا ہے کہ يہ اقدام عليحدگی پسندوں کی سرگرميوں کو لگام دينے کے ليے ناگزير تھا۔ بعد ازاں پہلے اس فيصلے کی مخالفت اور احتجاج کو روکنے کے ليے لاک ڈاؤن متعارف کرايا گيا اور پھر کورونا وائرس کی وبا پر کنٹرول کے مقصد سے کئی طرح کے پابندياں نافذ کر دی گئيں۔  ان اقدامات سے کشميری سماج، اقتصاديات، لوگوں کی روز مرہ کی زندگيوں اور ان کی ذہنی صحت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ بھارت کے زير انتظام کشمير کے بيشتر حصوں ميں اسکول کئی ماہ سے بند ہيں اور بچے ملنے جلنے، کھيلنے اور جسمانی ورزش جيسی ديگر سرگرميوں سے محروم ہيں۔

مسلح تنازعات والے علاقوں ميں بچوں کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ بھارتی سکيورٹی فورسز، مقامی پوليس اور جنگجو گروپوں کی کارروائيوں ميں ايک سے سترہ برس کی عمر کے آٹھ بچے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سات ايسے زخمی ہوئے کہ وہ عمر بھر کے ليے معذور ہو گئے۔ نو سے سترہ برس کی عمر کے اڑسٹھ بچوں کو سکيورٹی دستوں نے حراست ميں بھی ليا۔ اقوم متحدہ نے اس صورتحال پر تشويش ظاہر کی ہے۔ جموں کشمير کوليشن آف سول سوسائٹی  کے مطابق سن 2003 سے سن 2018 کے درميان 318 کشميری بچے ہلاک ہوئے۔ کشمير ميں انسانی حقوق کے ليے سرگرم ايک کارکن خرم پرويز کا کہنا ہے کہ خطے کے بچوں کو دو طرح کے تشدد کا سامنا ہے۔ ايک جب وہ براہ راست قتل، تشدد اور گرفتاريوں کا شکار بنيں اور دوسرا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ظلم و ستم ہوتا ديکھيں۔ ان کے بقول يہ بچے معمول کی زندگی گزارنے سے محروم ہيں۔

رفعت فريد

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

کشمیر : تین سالہ بچہ نانے کی لاش پر ہی بیٹھا رہا

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک عام شہری کی ہلاکت کے بعد ایک مرتبہ پھر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ہلاک ہونے والے شہری کے ساتھ اس کا تین سالہ نواسا بھی تھا، جو اپنے نانے کی لاش پر بیٹھا روتا رہا۔ بھارتی پیراملٹری پولیس کے ایک ترجمان جنید خان کے مطابق یہ واقعہ سوپور کے علاقے میں پیش آیا، جہاں باغیوں نے ایک مسجد سے بھارتی فوجیوں پر حملہ کیا۔ بھارتی حکام کے مطابق وہاں گولی لگنے سے بشیر احمد خان نامی اس شہری کی موت واقع ہو گئی۔ دوسری جانب بشیر احمد کے اہل خانہ نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کشمیری شہری کو پہلے کار سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا اور پھر پیرا ملٹری فورسز نے انہیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ بشیر احمد کے ساتھ ان کا تین سالہ نواسا بھی کار میں سفر کر رہا تھا۔ بعد ازاں منظرعام پر آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بشیر احمد کی لاش خون میں لت پت ہے اور ان کا نواسا پریشان ہو کر اپنے مردہ نانا کے سینے پر بیٹھا ہوا ہے۔

بشیر احمد کے بھتیجے فاروق احمد نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”وہاں موجود مقامی لوگوں نے ہمیں بتایا ہے کہ بشیر احمد خان کو کار سے باہر نکالا گیا اور پھر سکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ کر کے انہیں ہلاک کر دیا۔‘‘ فاروق احمد کا مزید کہنا تھا، ”عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یونیفارم والے ایک شخص نے بچے کو سڑک پر پڑی لاش کے سینے پر بٹھایا اور تصاویر بھی بنائیں۔‘‘ بعد ازاں یہی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ بشیر احمد خان کی نماز جنازہ میں سینکڑوں افراد شریک ہوئےاور انہوں نے حکومت کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ یہ مظاہرین ‘ہم آزادی چاہتے ہیں‘ جیسے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مارچ میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے حکومتی فورسز نے علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر رکھی ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

ہم تب بھی دہائی دے رہے ہوں گے

اگلے ماہ کی چار تاریخ کو مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کو ایک برس مکمل ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے جب گزشتہ پانچ اگست کو بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شا نے ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختارانہ حیثیت برقرار رکھنے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے کو پارلیمنٹ کے ذریعے ناکارہ بنا کر ریاست کو دو حصوں میں بانٹ کر براہ راست مرکز کی نگرانی میں دینے کا اعلان کیا اور وہاں آہنی لاک ڈاؤن نافذ کر کے ریاست کا رابطہ بین الاقوامی دنیا سے منقطع کر دیا تو وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے متعدد بار کہا کہ ایک بار لاک ڈاؤن اٹھنے کی دیر ہے کشمیریوں کا سیلاب سڑکوں اور گلیوں میں امڈ پڑے گا اور بھارتی قبضے کو بہا لے جائے گا۔ پچھلے ایک برس کے دوران بھارت نے اس ’’ممکنہ انسانی سیلاب‘‘ کو روکنے کے لیے متعدد ایسے کمر توڑ اقدامات کیے جن کے نتیجے میں کشمیری روزمرہ بنیادی حقوق اور معیشت کی چکی میں پس جائیں۔

بس یوں سمجھیے جس طرح ایک گورے امریکی پولیس والے نے ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کی گردن پر مسلسل گھٹنا رکھ کے اس کی سانس روک دی۔ بھارت یہی کام کشمیر کے ساتھ پچھلے گیارہ ماہ سے کر رہا ہے۔ مگر کشمیر جارج فلائیڈ سے زیادہ سخت جان ثابت ہو رہا ہے۔ فروری سے بظاہر انٹر نیٹ بحال ہے مگر ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ عام شہری کی دسترس سے باہر ہے۔ بھارت نواز قیادت میں سے نیشنل کانفرنس کا عبداللہ خاندان گزشتہ تین ماہ سے آزاد ہے مگر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں جب کہ محبوبہ مفتی مسلسل نظربند ہیں۔ علیحدگی پسند حریت کانفرنس کے نوے سالہ رہنما سید علی گیلانی نے ضعیف العمری کے سبب قیادت سے باضابطہ علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ جب کہ یاسین ملک سمیت دیگر علیحدگی پسند رہنماؤں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ ریاست کی کسی جیل میں ہیں یا بھارت کے کسی دور دراز عقوبت خانے میں کس طرح کے انسانی و طبی حالات میں ہیں۔

کچھ شہریوں کو بھارتی سپریم کورٹ سے امید تھی کہ وہ غیر انسانی لاک ڈاؤن کا نوٹس لے گی اور آرٹیکل تین سو ستر کی منسوخی کا آئین کی روشنی میں جائزہ لے کر اس اقدام کے جائز ناجائز ہونے پر کوئی رولنگ دے گی۔ مگر آج گیارہ ماہ بعد بھی اس طرح کی ہر پٹیشن سپریم کورٹ تشریف تلے دبا کر بیٹھی ہے۔ مودی حکومت کو توقع تھی کہ کشمیر کی انتظامی شناخت کا تیا پانچا کر کے اور ہر گلی کے نکڑ پر دو دو سپاہی کھڑے کر کے، ہر پانچ سو گز پر چیک پوسٹ لگا کے ، ہر پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے ہر بڑی شاہراہ سے فوج یا نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس یا بارڈر سیکیورٹی فورس کا کوئی گشتی قافلہ گزار کے کشمیری بچوں کو کسی مہم جوئی میں پڑنے سے پہلے دس بار سوچنے کی عادت پڑ جائے گی۔

مگر خود ریاستی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے اب تک کے چھ ماہ کے دوران ایک سو چالیس کے لگ بھگ ’’ انتہا پسند ’’ نوجوان فوج اور نیم فوجی دستوں سے مقابلے یا ٹارگٹڈ آپریشنز میں مارے جا چکے ہیں اور جتنے مارے جا رہے ہیں اتنے ہی اور بچے گھروں سے بھاگ رہے ہیں۔ زیادہ تر وہی بچے مارے جا رہے ہیں جن میں غصہ تو ہے اور کہیں سے ہتھیار بھی مل گیا ہے مگر اسلحے کے استعمال اور خود کو روپوش رکھنے کی بنیادی یا نامکمل تربیت کے سبب سرکاری جاسوسوں کے جال میں پھنس کر گھر سے فرار ہونے کے چند ہفتے یا مہینے بعد ہی موت کے سپرد ہو جاتے ہیں۔ ان نوجوانوں میں بے روزگار بھی شامل ہیں، ٹھیلے والے بھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز بھی۔ بلکہ ایک کیس میں تو پی ایچ ڈی کا ایک طالبِ علم بھی پچھلے دو ماہ سے غائب ہے اور اس کے گھر والوں کو یقین ہے کہ اب وہ زندہ نہیں لوٹے گا۔

مقبوضہ انتظامیہ نے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ طریقہ بھی اپنایا ہے کہ اب وہ کسی نوجوان کی لاش ورثا کے حوالے نہیں کرتے تاکہ کشمیریوں کو جلوسِ جنازہ کے بہانے ہزاروں کی تعداد میں اکٹھا ہونے اور ہنگامہ آرائی کا موقع نہ مل سکے۔ کسی بھی دن کسی بھی کشمیری نوجوان کے باپ یا بھائی وغیرہ کو فون آتا ہے کہ فلاں چیک پوسٹ یا چھاؤنی میں آ کر اپنے فلاں بچے سے ملاقات کر لیں۔اس کا مطلب ہے کہ لاش کا آخری دیدار کر لیں۔ چنانچہ اس دیدار کے بعد لاش ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دی جاتی ہے۔ ایک نیا رجحان یہ بھی شروع ہوا ہے کہ ریاستی انتظامیہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں کی طرح وادی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی شراب کی فروخت کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور منشیات کا حصول پہلے سے زیادہ آسان ہوتا جا رہا ہے۔ مقصد شاید یہ ہے کہ طویل لاک ڈاؤن کی شکار غصے سے بھری بے روزگار نسل کو نشے کے راستے پر دھکیل کے بے ضرر بنا دیا جائے۔

ایسے وقت جب باقی دنیا کی توجہ کا مرکز کورونا سے نپٹنا اور اس کے اقتصادی تھپیڑوں سے خود کو بچانا ہے۔ بھارت نے موقع غنیمت جان کر کشمیر کی شہریت کے پرانے قانون آرٹیکل پینتیس اے کی منسوخی کے بعد اب ریاست کی شہریت غیر کشمیری بھارتیوں کے لیے کھول دی ہے۔ گویا کشمیر کے دردِ سر کا مستقل حل کشمیریوں کو اپنی ہی ریاست میں اقلیت میں بدل کر نافذ کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہر وہ بھارتی شہری جو ریاست میں کسی ملازمت، کاروبار یا تعلیمی مقاصد کی خاطر پندرہ برس گذار چکا ہے یا کشمیر میں رہتے ہوئے ریاستی تعلیمی بورڈ کے تحت میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کا امتحان دے چکا ہے وہ اور اس کے بچے کشمیر میں رہنے، جائیداد خریدنے، تعلیمی اسکالر شپس یا ملازمتی کوٹے میں حصے دار تصور ہوں گے۔ نیز پارٹیشن کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے لاکھوں غیر مسلم مہاجرین اور ان کی آل اولاد بھی کشمیری شہریت کی حق دار ہے۔

جون کے آخر تک تینتیس ہزار درخواست گزاروں میں سے پچیس ہزار کو ڈومیسائل جاری ہو چکا ہے۔ ڈومیسائل درخواست دیے جانے کے چودہ دن کے اندر ہی جاری ہو جاتا ہے۔ اگر متعلقہ سرکاری اہل کار ڈومیسائل کے اجرا میں بغیر کسی ٹھوس جواز کے تاخیر کرے تواسے پچاس ہزار روپے جرمانے کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ جب کہ بھارت کی ایک اور ریاست آسام جہاں بے جے پی کی حکومت ہے۔ وہاں کسی بھی درخواست گذار کو ڈومیسائل جاری کرنے کی اوسط مدت دو برس ہے اور کوئی بھی مقامی شہری کسی بھی درخواست پر اعتراض کر دے تو اس اعتراض کو دور کرنا لازمی ہے۔ مگر کشمیر میں ڈومیسائل کی رعایتی سیل لگ چکی ہے۔ درخواست گذار کے کوائف کی سرسری سی چھان بین ہوتی ہے اور سرٹیفکیٹ جاری ہو جاتا ہے۔ پہلے آئیے پہلے پائیے جلدی آئیے جلدی پائیے۔

اگر یہی رفتار بلا روک ٹوک رہی تو اگلے دس برس میں کشمیر کا شمار بھی ان علاقوں میں ہو گا جہاں آج مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ویسے مودی حکومت نے آیندہ ڈیڑھ دو برس میں لداخ اور جموں و کشمیر نام کی دو نئی ریاستوں کی تشکیل کے منصوبے پر کام تیز کر رکھا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت جو بھی ریاستی اسمبلی تشکیل پائے گی اس میں جموں کی نشستیں وادی کی نشستوں سے زیادہ ہوں گی۔یعنی آیندہ نئی ریاست کا جو بھی وزیر اعلیٰ ہو گا وہ جموں سے ہو گا اور ننانوے فیصد امکان ہے کہ غیر مسلم ہو گا۔ ہم شاید تب بھی اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہوں گے یا پھر عالمی برادری کے آگے جھولی پھیلائے دہائی دے رہے ہوں گے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز